مولانا اسرار احمد مصباحی علیہ الرحمہ

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سابق مؤقر استاذِ جلیل،حضرت مولانا اسرار احمد مصباحی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ

از قلم: محمد فضل الرحمن برکاتی مصباحی

حضرت علامہ اسرار احمد مصباحی علیہ الرحمہ کی ولادت 20 اپریل 1947ء کو موضع لہرا ڈاک خانہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی ۔انھوں نے ابتدا تا انتہا مکمل تعلیم دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور میں حاصل کی 1386ھ /1966ءمیں علماء و مشائخ کے ہاتھوں دستار فضیلت سے نوازے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے دریافت کرنے پر اپنے احوال و کوائف سے آگاہ فرمایا ۔حافظ ملت علیہ الرحمہ نے ان کا بیان سماعت کرنے بعد فرمایا "یہیں رہو ،کام کرو ،اشرفیہ تمھارا ہے تم اشرفیہ کے ہو”۔
اس دن سے لے کر جون 2010ء تک دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں درس و تدریس سے منسلک رہے۔ان کی درس گاہ کے فیض یافتہ ہزاروں تلامذہ ملک و بیرون ملک میں دین و سنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔خیرالاذکیاء صدرالعلماء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور جیسی عظیم شخصیت ان کے تلامذہ میں شامل ہیں ۔ چند ماہ بحیثیت معین المدرسین رہے ۔جب اشرف العلماء حضرت سید حامد اشرف مصباحی اشرفی الجیلانی ،ممبئی تشریف لے گئے تو باضابطہ یہاں کے استاذ مقرر ہوئے ۔بیعت و ارادت اور اجازت و خلافت جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سے حاصل ہے۔افسو صد افسوس آج 4 جمادی الاولی 1444ھ مطابق 29 نومبر 2022ء سہ شنبہ دار آخرت کی جانب روانہ ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ رٰجعون

شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی

حضور شارحِ بخاری مفتی محمدشریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی خدمات

حضور شارح بخاری فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی ولادت ۱۱؍ شعبان ۱۳۳۹ھ ؍ ۲۰؍ اپریل ۱۹۲۱ء میں مشہور و معروف اور مردم خیز خطہ ، قصبہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور اعظم گڑھ ،حال ضلع مئو میں ہوئی۔
آپ کا نسب نامہ کچھ اس طرح ہے ۔ مفتی محمد شریف الحق امجدی بن عبد الصمد بن ثناء اللہ بن لعل محمد بن مولانا خیرالدین اعظمی۔
مولا نا خیرالدین علیہ الرحمہ اپنے عہد میں پاے کے عالم اور صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے ۔ ان کا یہ روحانی فیض آج تک جاری ہے، کہ ان کے عہد سے لے کر اس دور میں پانچویں پشت تک ان کی نسل میں اجلہ علماے کرام موجود ہیں ۔ انہیں میں سے ایک شارح بخاری ، فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی بھی تھے ۔ جو ماضی قریب میں ہندو پاک کے مسلمانان اہل سنت کے صف اول کے مقتدا اور پوری دنیاے اہل سنت کے مرجع فتاوی اور مرکز عقیدت تھے ۔ آپ کی کثیر الجہات شخصیت کے متعلق استاذی الکریم حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفے قادری امجدی اطال اللہ عمرہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : ”حضرت مفتی صاحب قبلہ مدظلہ جماعت کے ممتاز ترین، صاحب علم و بصیرت ،باقیات صالحات میں سے ایک ہیں۔ ذکاوتِ طبع اور قوت اتقان ، وسعت مطالعہ میں اپنی مثال آپ ہیں ، تعمق نظر ، قوت فکر ، زور استدلال اور حسن بیان ، زودنویسی میں بھی آپ انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ۔ معلومات کی گیرائی و گہرائی میں بھی بلند رتبہ ہیں۔ خطابت ، جدل ومناظرہ میں بھی آپ کو امتیاز حاصل ہے ۔ کئی موضوعات پر آپ کی معلومات افزا تصانیف آپ کی تصنیفی خوبیوں کی مظہر ہیں۔
مفتی شریف الحق امجدی کی ابتدائی تعلیم قصبہ گھوسی کے مقامی مکتب میں ہوئی ۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ۱۹۳۴ء میں دار العلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لیا اور حضور حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مراد آبادی ( م ۱۹۷۶ء ) کے زیر سایہ رہ کر آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی۔
۱۹۴۲ ء میں آپ مدرسہ مظہر اسلام مسجد بی بی جی محلہ بہاری پور ، بریلی شریف پہنچے ، جہاں ابوالفضل حضرت علامہ سردار احمد گورداس پوری ثم لائل پوری محدثِ اعظم پاکستان کا خورشیدعلم، تمام تر تابانیوں کے ساتھ اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا ۔ محدثِ اعظم پاکستان سے آپ نے صحاح ستہ حرفاً حرفاً پڑھ کر دورہ ٔحدیث کی تکمیل کی اور ۱۵؍ شعبان ۱۳۶۲ھ ؍ ۱۹۳۴ ء کو درس نظامی سے آپ کی فراغت ہوئی۔
اساتذہ و مشائخ کرام میں، جن حضرات کی تعلیم وتربیت کا آپ کی زندگی پر گہرا اثر تھا ان میں حضور صدر الشریعہ مولا نا امجد علی اعظمی، حضورمفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں ، حضورحافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ، حضور محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادری رضوی سرفہرست ہیں۔خصوصیت کے ساتھ آپ نے حافظ ملت سے سب سے زیادہ فیض پایا ۔
درس نظامی کے علاوہ فتوی نویسی کی تعلیم و تمرین ایک سال سے زائد حضور صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی سے حاصل کی اور حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی بارگاہ میں گیارہ سال رہ کر فتویٰ نویسی سیکھی اور اس کا عمل جاری رکھا۔اکتساب علم کے بعد مفتی شریف الحق امجدی نے تقریبا پینتیس(۳۵)سال تک نہایت ذمہ داری کے ساتھ، بڑی عرق زیزی و جاں سوزی اور کمال مہارت کے ساتھ ہندوستان کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ ہرفن کی مشکل سے مشکل ترین کتابیں پڑھائیں ۔ برسہا برس تک دورۂ حدیث بھی پڑھاتے رہے اور اخیر میں درس و تدریس کا مشغلہ چھوڑ کر جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شعبۂ افتا کی مسند صدارت پر متمکن ہوکر چوبیس برس تک رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
جن درس گاہوں کی مسند تدریس و افتا پر جلوہ افروز ہوکر آپ نے علم و حکمت کے گوہرآبدار لٹاے، ان کے اسما یہ ہیں ۔
مدرسہ بحر العلوم ،مئوناتھ بھنجن، ضلع اعظم گڑھ ،
مدرسہ شمس العلوم گھوسی ضلع مئو ،
مدرسہ خیرالعلوم پلاموں بہار،
مدرسہ حنفیہ مالیگاؤں مہاراشٹر ،
مدرسہ فضل رحمانی گونڈہ،
مدرسہ عین العلوم گیا بہار،
جامعہ عربیہ انوار القرآن بلرام پور ،
دارالعلوم ندائے حق فیض آباد،
دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف ،
الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور۔
آپ کی درس گاہ ِفیض سے شعور و آگہی کی دولت حاصل کرنے والے طلبہ اتنے کثیر ہیں کہ ان سب کا شمار تقریبا ناممکن ہے ان میں سے چندمشہور حضرات کے نام پیش خدمت ہیں۔ جو اس وقت اہل سنت و جماعت کے نامور علما میں شمار کیے جاتے ہیں ۔خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی، مولانا مجیب اشرف اعظمی ثم ناگپوری، قاضی عبدالرحیم بستوی ، مولانا رحمت حسین کلیمی پورنیہ، مولانا قمرالدین اشرفی اعظمی، مولانا عزیز الحسن اعظمی ، مولانا رضوان احمد شریفی، مفتی محمد نظام الدین رضوی، مولانا حافظ عبدالحق رضوی، مفتی محمد معراج القادری ، مولانا محمد مرتضی نعیمی، مولانا حفیظ اللہ اعظمی، مولانا سلطان احمد ادروی ، مولانا امام الدین مصطفوی، مولانا محمد کوثر خان نعیمی، مولانا افتخاراحمد قادری، مفتی شفیق احمد گونڈہ ، مولانا محمدعمر بہرائچی( وغیرہم)
تصنیف و تالیف:مفتی شرایف الحق امجدی کی فکر وقلم ،تحریر و تصنیف اور زبان و ادب سے گہری وابستگی ابتدائی عمر سے ہی رہی ۔ ان کی تحریرو تصنیف نصف صدی پر محیط ہے۔ ابتدا ہی سےآپ نے وسیع مضامین و مقالات لکھے ہیں ۔ مختلف دینی وعلمی موضوعات پر آ پ کی قیمتی اور جامع تحریر ، اور وقیع ومؤثر مقالے دبد بۂ ٕ سکندری رام پور ، نوری کرن بریلی شریف ، پاسبان الہ آباد ، جام کوثر کلکتہ ، استقامت کانپور ، اشرفیہ مبارک پور، رفاقت پٹنہ، حجاز جد ید دہلی وغیرہ رسالوں میں چھپ کر عوام و خواص کے درمیان مقبول ہوتی رہیں۔ ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور میں التزام وتسلسل کے ساتھ آپ کے منتخب فتاوی شائع ہوتے رہے ۔ جس کی وجہ سے ماہنامہ کا وقار بلند اور قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ مفتی شریف الحق امجدی سے قلم کے مختلف عنوانات پر متعدد کتابیں معرض وجود میں آئیں ۔جن میں چند مشہور کتابوں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جا تا ہے۔
نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری:یہ صحیح بخاری کی اردو شرح ہے جو پانچ ہزارصفحات پرمشتمل ہے ۔ یہ اسلامی علوم و معارف اور حدیث وسنت کی تحقیقات و تدقیقات کا دائرۃ المعارف ، علماےمتقدمین و متاخرین اور سلف ِصالحین کی عربی و فارسی شروح کا عطر مجموعہ ہے ۔ جو ۹ جلدوں پر مشتمل ہے۔
اشرف السير:اس کتاب میں سیرت نبوی کے بنیادی ستون محمد بن اسحق ( ۱۵۱ھ ؍ ۷۶۸) محمد بن عمر الواقدی ( ۲۰۷ھ ؍۸۲۲ٕ ) محمد بن سعد ( م ۳۲۰ھ ؍ ۸۴۴) محب الدین بن جریر طبری ( ۳۰۱ ھ ) پرفن تاریخ و حدیث اور سیرت کے حوالے سے مخالفین کے اعتراضات کے دندان شکن علمی جوابات ہیں ۔
سیرت پاک سے متعلق مغربی ،ظالمانہ، جاہلانہ اورمشرق کے مرعو بانہ اور معذرت خواہانہ طرزعمل پر سیر حاصل تنقیدی وتحقیقی کلام اور ابتدا سے بعثت نبوی تک سرکار دو عالم ﷺ کے احوال وکوائف اور آپ کے آبا واجداد کے تعلق سے جامع پرمغز اور معلوماتی گفتگو کی گئی ہے ۔ یہ کتاب حصہ اول کا نصف ہے، باقی کام دیگر مصروفیات کی وجہ سے انجام نہ پا سکا۔
اشک رواں :آزادی ہند سے پہلے کا نگریس اور مسلم لیگ کی خود غرضی اور مفاد پرستی پر مبنی پر فریب سیاست پر ضرب کاری اور اس کی مخالفت اور مسلمانوں کے لیے اسلامی وشرعی نقطہ نظر سے تیسرے متبادل کی تجویز، تقسیم ہند کے بعد ہونے والی مسلمانوں کی جان و مال ، عزت وآبرو کی تباہی و بربادی اور بعد میں انہیں در پیش سیاسی و سماجی ، مذہبی وملی پریشانیوں اور رسوائیوں کو اپنی دور بین نگاہوں سے بھانپ کر، اس پر اپنے قلبی و ذہنی خطرات ، بے کلی اور بے چینی کا اظہار اور پھر اس کے تدراک کے لیے مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل ، یہ سب کچھ اس کتاب میں شامل ہے۔شارح بخاری نے پچیس برس کی عمر میں اسلامی سیاست کے موضوع پر یہ کتاب تحریر فرامائی ہے ۔ آزادی ہند وتقسیمِ ہند سے پہلے ۱۹۴۶ ء کے پر آشوب و پرفتن دور میں اس کی اشاعت ہوئی ۔ پھر آج تک اس کا دوسرا ایڈیشن نہ شائع ہوسکا۔
اسلام اور چاند کا سفر :شرعا انسان کا چاند پر پہنچنا ممکن ہے ۔ اسلامیات اور فلکیات کے اصول وقواعد اور قوانین و مباحث کی روشنی میں اس مدعا پر محققانہ گفتگو کی گئی ہے ۔ جو آپ کے وسعت مطالعہ ، ژرف نگاری ، قوت استدلال اور زور بیان کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہ محققانہ و عالمانہ تحقیقات وابحاث کا حسین گلدستہ ہے۔
التحقیقات:اس میں وہابیوں ، دیوبندیوں اور معاندین اہل سنت کے کچھ لا یعنی اعتراضات کے مدلل تحقیقی والز امی جوابات ہیں یہ کتاب دوحصوں میں ہے۔
فتنوں کی سرزمین کون ، نجد یا عراق ؟:اس کتاب میں نجد وعراق کا ایک گراں قدر حقیقت افروز اور ایمان افزا تاریخی ، جغرافیائی اور دینی و سیاسی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
سنی ، دیو بندی اختلاف کا منصفانہ جائزہ :یہ سنی و دیو بندی اختلاف کی بنیاد اور اکابر علماے دیو بند کی کفری عبارتوں پر غیر جانب دارانہ فیصلہ کن ابحاث کا خوبصورت ،علمی گلدستہ ہے ۔ آپ کی یہ کتاب اپنے موضوع پر لا جواب اور بے مثال ہے۔
اثبات ایصال ثواب :یہ رسالہ ایصال ثواب کے موضوع پر مصنف کی ایک نئے انداز میں بحث ، میلا دو قیام ، نیاز و فاتحہ کے سلسلے میں شکوک وشبہات کی وادیوں میں بھٹکنے والوں کے اطمینان کلی کے لیے ایک بیش قیمت ، زوردارعلمی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
مقالات شارح بخاری :یہ دینی و مذہبی علمی وادبی تاریخی وسوانحی فکری و حقیقی گونا گوں عنوانات پر حضرت کے سیکڑوں بوقلموں مضامین کا مجموعہ ہے ۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔
مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا :اپنے موضوع پر نہایت شاندار، گراں قدر اور اچھوتی محققانہ و متکلمانہ تحریر ،جو موضوع کے تمام زاویوں کو حاوی اور شبہات کے سارے تار و پود بکھیر دینے والی ہے۔
فتاویٰ شارح بخاری:آپ کی زندگی بھر کے علمی تحقیقی فتاوی کا مجموعہ جو ایک انداز کے مطابق پچھتر ہزار سے زائد فتاوی کو محیط ہوگا ۔ جو لوگوں کے عقائد و اعمال میں رہنمائی کرتا ہے اور اہل علم اور ارباب فقہ و فتاویٰ سے خراج تحسین حاصل کر چکا ہے۔۱۳۵۹ھ میں مفتی شریف الحق امجدی نے صدرالشریعہ مولانا امجد اعظمی کے دست حق پر بیعت کیا۔آپ کا شمار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے سابقین اولین مریدوں میں ہوتا ہے ۔ حضرت صدرالشریعہ نے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلافت سے بھی نوازا تھا ۔ حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا، بریلی اور احسن العلما مولانا مصطفی حسن حیدر ،مارہرہ نے بھی اجازت و خلافت سے نوزا تھا۔
حضور شارح بخاری متعدد بار حرمین شریفین کی زیارت سے مستفیض ہوے ۱۹۸۵ ء میں پہلا حج اور ۱۹۹۸ء میں دوسرا حج فرمایا ۱۹۹۶ ء اور ۱۹۹۷ ء میں دو مرتبہ سفر عمرہ پر بھی گیے۔
وصال: ۶ ؍ صفرالمظفر ۱۴۲۱ھ ؍ ۱۱؍ مئی۲۰۰۰ ٕ ء بروز جمعرات آپ اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ کر گئے ، اور یہ علم وفن کا راز داں اور استقامت و ثابت قدمی کا کوہ ہمالہ ہمیشہ کے لیے آغوش زمین میں محو خواب ہو گیا۔ آپ کا مزار مبارک گھوسی ضلع مئو میں مرجع خلائق ہے۔
(بحوالہ علماے اہل سنت کی علمی و ادبی خدمات)

سپاس نامہ چیف قاضی آف امریکا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سپاس نامہ
خلیفۂ تاج الشریعہ، حضرت مولانا مفتی محمد قمرالحسن صاحب بستوی ، حفظہ اللہ تعالیٰ ،فصیح اللسان خطیب، قادرالکلام شاعر، باصلاحیت مدرس، اچھے مصنف و مؤلف اور عمدہ نثر نگار ،گوناگوں خوبیوں کے حامل اور اوصاف جمیلہ سے متصف ہیں۔
اداروں سے تعلق:آپ النور مسجدہیوسٹن کے امام و خطیب ، اسلامک اکیڈمی آف امریکا کے سرپرست،رویت ہلال کمیٹی آف امریکا کے چیف قاضی و چیئرمین، اوربزم حسان انٹر نیشنل نعت اکیڈمی ، ہیوسٹن کے بانی و صدر ہیں۔
عہدۂ قضا: تقریباً ۲۳ سال سے رویت ہلال کمیٹی کی فی سبیل اللہ خدمات انجام دے رہے ہیں، جولائی ۱۹۹۹ میں حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے اپنے دستخط کے ساتھ چیف قاضی کی سند عطا فرمائی اور ان کے روبرو مفکر اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی دامت برکاتہم نے ہیوسٹن کی بھری کانفرنس میں اس کا اعلان فرمایا۔ سند کا مضمون یہ ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شہادۃ القضاۃ
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم

شمالی امریکہ میں شرعی مسائل کے حل کےلیے ”رویت ہلال کمیٹی آف نارتھ امریکہ“ کاقیام ایک خوش آئند اقدام ہے، جس میں شرعی مسائل کے حل کے لیے ۔بحیثیت چیف قاضی مولانا حافظ قاری محمدقمرالحسن خطیب وامام مسجد النور ۶۴۴۳ پریسٹ وو ڈہیو سٹن ٹیکساس امریکہ کو منتخب کیاجاتاہے ۔
اعلان : از مفکر اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی، جنرل سکریٹری ،ورلڈ اسلامک مشن، بریڈ فور ڈ، لندن، برطانیہ۔
اجازت وتائید: از نبیرۂ امام احمدرضا ، تاج العلماء ، علامہ مفتی محمداختر رضا خان،ازہری قادری مفتی اعظم ہند، بریلی شریف ،انڈیا۔
محمدقمرالزماں اعظمی فقیر محمد اختر رضاقادری ازہری غفرلہ
دستخط معلن دستخط موید واجازت
تاریخ: ۲۰؍ ربیع الاول ۱۴۲۰ھ ؍ ۴؍ جولائی ۱۹۹۹ء ، اتوار

تعلیمی اسناد: الحمد للہ ! علوم اسلامیہ، علوم عقلیہ ،علوم نقلیہ اور علوم عصریہ کی اعلیٰ تعلیم آپ نے حاصل ہیں اور ان سب کی سندیں آپ کے پاس موجود ہیں ،مثلاً
حفظ قرآنِ مقدس ،عالمیت: از دارالعلوم تدریس الاسلام، بسڈیلہ، بستی
تجوید (قراءتِ عاصم بروايت حفص )،فضیلت:از الجامعۃ الاسلامیہ روناہی، فیض آباد، یہاں سے درس نظامیہ کی بھی تکمیل کی ہے
ادیب ماہر، ادیب کامل :از جامعہ اردو علی گڑھ
منشی ،منشی کامل، مولو ی ، عالم ،فاضلِ دینیات ،فاضلِ معقولات،فاضلِ ادب : از عربی فارسی بورڈ، حکومت اتر پردیش
فضیلت:از الجامعۃ الاشرفیہ ،عربی یونیورسیٹی ،مبارک پور ،اعظم گڑھ،
ایم اے فارسی :از مسلم یونیورسیٹی، علی گڑھ
ایم اے اردو:از اَوَدھ یونیورسیٹی ،فیض آباد
جدید عربی ادب :کلیۃ الدعوۃ الاسلامیہ ،طرابلس ،لیبیا،میں داخلہ لے کر جدید عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔
لسانیات: عربی، فارسی ، اردو، ہندی، انگلش، پوربی، چھ زبانیں جانتے، سمجھتے اور بولتے ہیں۔
تصنیفات و تالیفات: آپ ایک اچھے قلم کار اور بہترین شاعر ہیں، آپ کی تصنیفات و تالیفات میں
(۱) تذکرہ مولانا عبد الرؤف (علیہ الرحمہ )
(۲) افکار رضا (علیہ الرحمہ )
(۳) تجلیات مفتی اعظم ہند (علیہ الرحمہ )
(۴) افضلیت مصطفیٰ (ﷺ)
(۵) فتاوی امریکا
(۶) یا اَیہاالمزمل (صلی اللہ علیک وسلم) نعتوں کا مجموعہ
(۷) یااَیہا المدثر (صلی اللہ علیک وسلم) نعتوں کا مجموعہ
(۸) مسائلِ زکات ، وغیرہ مشہور ہیں
ان کے علاوہ درجنوں مقالات و مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
بیعت وخلافت: شہزادۂ اعلی حضرت،قطب زماں، سرکار مفتی اعظم ہند، علیہما الرحمہ سے بیعت وارادت ہے اور جانشینِ مفتی اعظم ہند، حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ سے سلسلۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی خلافت واجازت حاصل ہے۔
خدمات: ۱۹۹۲ سے امریکا میں مذہب حقہ اہل سنت والجماعت اور مسلک اعلی حضرت کے داعی ہیں، تقریباً ۳۰سال
سے دیار غیر میں اسلام و سنت کی خدمات انجام دے رہے ہیں، بیشمار ان کے شاگرد دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ہدیہ تشکر:اپنی کثیر مصروفیات کے باوجود، اپنا قیمتی وقت نکال کر تقریباً ۲۳ سال سے رویت ہلال کمیٹی آف امریکا کی بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں اور ماہ بماہ شرعی تحقیق و تفتیش کے بعد بحیثیت چیف قاضی چاند کی رویت کا فیصلہ فرماتے ہیں،ان کی خدمات کے ہم تہ دل سے مشکور و ممنون ہیں۔ملتِ اسلامیہ خصوصاً مسلمانانِ امریکا کےلئے وہ عظیم سرمایہ ہیں، اللہ عزوجل صحت وسلامتی کے ساتھ ان کا سایہ امت مسلمہ پر دراز سے درازتر فرمائے۔ آمِیْن ، بِجَاہِ حَبِیْبِہٖ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن ، عَلَیْہِ الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِيْم ۔

احمد القادری
خادم
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
1251 Shiloh Road, Plano, Texas, 75074, USA
یکم ذی قعدہ ۱۴۴۳ھ ؍ یکم جون ۲۰۲۲ء
الاسلامی.نیٹ
www.alislami.net

مولانا نصر اللہ رضوی علیہ الرحمہ

بِسْمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
الحمد للّہ رب العلمین ، والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین ، وعلی الہ واصحابہ اجمعین ،

مولانا نصراللّٰہ رضوی علیہ الرحمۃ کی حیات وخدمات
(ولادت: ۱۵فروری ۱۹۵۶ ء وفات: ۴؍ محرم ۱۴۳۵ھ مطابق۹؍ نومبر ۲۰۱۳ٕء ، سنیچر)

مولاناحافظ شاداب رضاامجدی بن علامہ نصراللّٰہ رضوی علیہ الرحمہ

اس رنگ ونوربھری دنیا میں، روزانہ نئی زندگیاں جنم لیتی ہیں اور پھر اس کی وسعتوں میں فنا ہو جاتی ہیں، اس میں اکثرو بیشتر کی زندگی اپنی جدوجہدتک محدود رہتی ہے لیکن ایسے افراد بہت کم ملتے ہیں جواپنے اخلاق وکردارسے دوسروں کے لئے مشعل راہ بنیں۔
جامع معقول ومنقول حضرت علامہ نصراللّٰہ رضوی مصباحی علیہ الرحمۃوالرضوان انہیں پاکباز شخصیتوں میں سے ایک تھے، جنہوں نےتدریس وتصنیف اور دین متین کی خدمات زندگی کے آخری لمحات تک بڑے احسن طریقے سے انجام دیں ، یہ ابوالفیض حضور حافظ ملّت علیہ الرحمہ کا فیض ،اورابوالبرکات مفتیٔ اعظم ہند مصطفیٰ رضا قادری علیہ الرحمہ کی برکتیں تھیں، جن کے دامن ارادت سے آپ منسلک تھے ۔
آپ کی جائے پیدائش ضلع اعظم گڈھ موجودہ ضلع مئوکا مشہور ومعروف موضع بھیرہ ہے۔جو ایک قدیم آبادی ہے بھیرہ اعظم گڈھ شہر سے تقریبًا۲۵کلو میٹرپورب مئو شہر سے۲۷کلو میٹر پچھم اور تحصیل محمدآ باد گوہنہ سے۳کلو میٹر اتر واقع ہے ٹونس ندی اسے تین طرف سے گھیرے ہوئےہے گویا یہ علاقہ ایک جزیرہ نما ہےصرف پورب کی طرف سے خشکی کا راستہ ملتا ہے اور اس سر زمین پر بہت سے بزرگوں کی تاریخی یادگار یںہے ۔
اسی سرزمین پرعلامہ رضوی علیہ الرحمہ ۱۵فروری۱۹۵۶کو پیدا ہوئے،آپ کے والد کا نام ماسٹر محمد یونس برکاتی (مرحوم )ہے جنکا وصال ۱۰فروری ۲۰۰۴ منگل کی رات میں ہوا ،ماسٹر محمد یونس برکاتی {مرحوم} صوم و صلوۃ کے بڑے پابند تھے ،اپنے اکلوتے بیٹے کے ہوش سنبھالتے ہی تعلیم علوم نبویہ پر پوری توجہ دی، اور گاؤں کے مدرسہ رحیمیہ میں داخل فرمایا، جہاں آپ نے پرائمری اور ابتدائی فارسی کی تعلیم حاصل کی ، درس نظامی کی ابتدائی کتابیں (میزان، منشعب وغیرہ) صدرالعلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہم العالیہ کے پاس ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوکر پڑھیں۔
اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم اور درس نظامیہ کی تکمیل کے لئے باغ فردوس دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور جاکر اپنے وقت کے ممتاز علماےکرام سے اکتساب فیض کیا ،جن میں حضور حافظ ملّت علامہ شاہ عبدالعزیز محدّث مرادآبادی بانی جامعہ اشرفیہ مبارکپور سر فہرست ہیں ۔ ۱۰؍شعبان ۱۳۹۲ھ مطابق ۱۹۶۹ٕ میں سند فراغت حاصل کی جبکہ الہ آباد بورڈ سے منشی ، منشی کامل ،مدرسہ جدید جغرافیہ وریاضی ،مولوی ، عالم،فاضل دینیات،فاضل ادب،فاضل طب، اور علی گڑھ سےادیب ماہراور ادیب کامل کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔
سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں ،شہزادہ اعلیٰ حضرت تاجدار اہلسنّت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر ۱۹۶۹ ٕ میں بیعت وارادت سے منسلک ہوئے۔
حضرت علامہ نصراللّٰہ رضوی علیہ الرحمہ مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے ،ان کا علمی پایہ بہت بلند تھا ،علما کے درمیان قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، تا دم حیات علمی مشاغل سے منسلک رہے تقریبًا چالیس سال تک آپ کا دریائے علم و عرفان تشنگان علم وآگہی کو سیراب کرتا رہا ،آپ نے ۱۹۷۴ ٕ میں مدرسہ عربیہ ضیا ٕالعلوم ادری ضلع مئو میں، بحکم حافظ ملّت تدریسی سلسلہ شروع کیا، ۱۹۷۶ میں دارالعلوم غوثیہ ذاکر نگر جمشید پور بحیثیت صدرالمدرسین تشریف لے گئےاور پھر ۱۹۷۸ ٕسے مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گوہنہ ضلع مئو میں، تا دم حیات مسند تدریس پر جلوہ فرما تھے آپ کو دینی مدارس کے مروجہ علوم و فنون پر عبور حاصل تھا، کوئی بھی کتاب ہو بے تکلف پڑھاتے تھے ، علم میراث میں تو مہارت تامہ رکھتے تھے ،کہ عربی زبان میں سراجی کا ایک شاندار علمی وتحقیقی حاشیہ لکھا اور آپ کی تفہیم ایسی تھی، کہ مشکل سے مشکل مباحث بآسانی طلبہ کے ذہن میں اتار دیتے، بے تکلفی اور خوش مقالی تو آپ کی زندگی کا لازمہ تھا ،عفو ، در گزر اور رحم و مروت میں اسلاف کی یادگار تھے، تدریس کے ساتھ ساتھ آپ کا شوق وذوق تصنیف و تالیف ،مضمون نگاری،حاشیہ نگاری اورعلمی وفقہی سیمیناروں میں شرکت ،آپ کا محبوب مشغلہ تھا ،آپ کے رشحات قلم درج ذیل ہیں ۔
۱۔برکات السراج لحل اصول السراجیہ {حاشیہ سراجی}
; ۲۔رسم الفرائض{قواعدمیراث}
۳۔بہار جاوداں{حاشیہ گلستاں}
۴۔ضوفشاں{حاشیہ بوستاں}
۵۔ایضاح حقیقت{ترجمہ، شرح حقیقت محمدیہ، فارسی}
۶۔حاشیہ مؤطاامام محمد (علیہ الرحمہ)
۷۔فقہی مقالے {مجلس شرعی کے فقہی سیمیناروں میں دوسرے سے بارہویں سیمینار تک تقریبًا ۴۰ مقالےومضامین قلمبند فرمائے}
امین شریعت فقہی کونسل دہلی کے ساتویں سیمینار کے لئے تحقیقی مقالے لکھے
۸۔مکالماتی مضمون{برکتاب سیدناعبدالوہاب جیلانی کا مدفن بغداد یا ناگور }
ان کے علاوہ دیگر موضوعات پر مضامین و مقالات سامنے آئے، جہاں آپ ان اوصاف و کمالات کے حامل تھے، وہیں پر آپ مکانات کی نقشہ سازی،زمین کی پیمائش مجوزہ عمارت کی لاگت کا تخمینا لگانا یعنی فنّ تعمیر میں آپ ایک ماہر انجینئربھی تھے ۔ غرضیکہ ہر کام، دینی، مذہبی،سماجی گتھیوں کو حل کرنے کا ہنر رکھتے تھے ۔مذہبی کاموں کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے ۔ زیارت حرمین شریفین پہلا سفر حج آپ نے۱۹۹۸ٕ ادا فرمایا اور دوسرا سفرحج مع اہلیہ اور والدہ محترمہ کے ساتھ۲؍دسمبر ۲۰۰۶ٕ میں حج کے فرائض ادا کئے،
طبیعت علیل ہونے کے باعث اچانک۴؍ محرم الحرام ۱۴۳۵ھ مطابق۹؍ نومبر ۲۰۱۳ٕء بروز سنیچر۴ بجکر ۲۵منٹ پر، فجر سے پہلے داعیِ اَجَل کو لَبَّیْک کہا ،اور اپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔
محلہ احمد نگر ،بھیرہ ،برکاتی مسجد کے پاس ،آپ کے نئے مکان کے اتر جانب، آپ کا مدفن ہے۔
ٓٓآپ تاحیات المجمع الاسلامی مبارک پور کے رکن، انجمن امجدیہ اہل سنت اور رضامسجد بھیرہ کے نائب صدر رہے۔
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کی تربت پر رحمت و غفران کی بارش برساتا رہے۔

شاداب رضاامجدی
استاذ، دارالعلوم بشیریہ رضویہ، مادھو سنگھ، اورائی، ضلع بھدوہی، یوپی، ہند
(ملخصاً و تصرفاً)

الاسلامی.نیٹ
www.AL ISLAMI.NET

ممتازالعلما مولانا ممتاز احمد، انگلینڈ

بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

احمد القادری مصباحی

ممتاز العلما،کچھ یادیں کچھ باتیں

ممتاز العلما حضرت مولانا ممتاز احمد اشرف القادری، بن حافظ عبد الحلیم (علیہما الرحمہ)جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے مایۂ ناز سپوت ہیں۔
آپ کی ولادت : ۱۲ ؍شوال ۱۳۵۳ ھ ۱۸ ؍جنوری ۱۹۳۵ء میں، ایک دیندار، علم دوست گھرانے میں ہوئی۔
تاریخی نام : صغیر احمد(۱۳۵۳)
عرفی نام: ممتاز احمد
تخلص: اشرف
لقب: مبلغ اسلام اور ممتاز العلماہے۔
مقام ولادت: پورہ خواجہ، مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، ہند
وفات:۳؍ رمضان ۱۴۴۲ھ ۱۵ ؍ اپریل ۲۰۲۱ ء جمعرات و جمعہ کی درمیانی رات
مزار مبارک: بریڈ فورڈ، انگلینڈ
پاک و ہند کی آزادی کے سال ۱۹۴۷ ءمیں دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح العلوم میں داخلہ لیا ،دس سال، دارالعلوم میں مشاہیر اساتذہ کی بارگاہ میںاعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۸ ؍شعبان ۱۳۷۶ ھ ۳ ؍ فروری ۱۹۵۷ ء کو دستار فضیلت سے نوازے گئے۔
تقریباً ۱۴ سال ہند کے مختلف مدارس میں تدریسی و انتظامی خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۷۲ ءمیں برطانیہ کا تبلیغی دورہ فرمایا، بریڈ فورڈ، انگلینڈ میں مقیم ہوۓ، پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ مگر وطن مبارک پور آتے رہتے اور جب بھی آتے، جامعہ اشرفیہ (یونیورسیٹی) ضرور آتے، جامعہ سے آپ کو گہرا لگاؤ تھا۔
ملاقاتیں: اشرفیہ میں تقریباً آٹھ سال میرا قیام رہا، چارسال بحیثیت طالب علم، چار سال بحیثیت مدرس، اس دوران، بارہا، جامعہ اشرفیہ میں ملاقات کاشرف حاصل ہوا،ایک بار ہم پورہ خواجہ، دولت کدے پر بھی حاضر ہوئے، بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ بٹھایا، بڑی خندہ پیشانی سے ضیافت، عزت افزائی، اور ذرہ نوازی فرمائی۔پھر ۱۹۹۵ ءمیں جب الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور سے ، بیرون ملک میرا آنا ہوگیا، اس کے بعد بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں، ایک بار عرس امجدی گھوسی میں ان کا بصیرت افروز بیان سماعت کر نے کا موقع ملا۔
آپ، میرے مشفق استاذ، حضور محدث کبیر دامت برکاتہم العالیہ کے ہم سبق ہیں، میں اُن کا استاذ ہی کی طرح احترام کرتا، مگر وہ ایک بے تکلف دوست کی طرح ملتے۔ یہ اُن کی خاکساری تواضع اور خِرد نوازی کی واضح دلیل ہے۔ایک بار زیادہ عرصہ کے لئے ہند تشریف لائے تھے، ملاقات پر فرمانے لگے اب میں ریٹائر ہوگیا، سارا کام بچوں نے سنبھال لیا ہے۔ مجھے فرصت ہے، یہاں رہوں چاہے وہاں رہوں۔ آپ کی باتیں بڑی پر لطف ، مخلصانہ ، محبت آمیزہوتیں۔ آپ کی تحریریں بھی بڑی دلچسپ ہیں۔
ان میں ، اسلام منزل بہ منزل ، بڑی اہم کتاب ہے
یہ دو حصوں میں ایک جامع مختصر اسلامی تاریخ ہے ، زبان و بیان سنجیدہ، اور دل چسپ، باتیں نپی تُلی، سلیس، رواں، اور فصیح و بلیغ ہیں،اور ایسا کیوں نہ ہوکہ آپ ایک قادرالکلام شاعر بھی ہیں، اشعار نویسی اور نثر نگاری دونوں پر قدرت رکھتے ہیں۔
محترم محمد نعیم عزیزی بن مولانا بدرالدجی صاحب مد ظلہ کی کمپوزنگ کے ساتھ ، آپ کے صاحبزادےجناب ماسٹر مختار احمد اعظمی (ایم اے علیگ، رکن شوری اشرفیہ مبارک پور )کے اہتمام سےدونوں حصے چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں۔
حصہ اوّل ، لکھنے کی تاریخ اختتام : ۳۰ ؍ذی الحجہ ۱۴۲۵ ھ۱۰ ؍فروری ۲۰۰۵ء اورصفحات۲۴۸ ہیں
حصہ دوم : ۲۶۴صفحات ،تاریخ اختتام: ۲۳ ذی قعدہ ۱۴۳۰ ھ۱۱ ؍نومبر ۲۰۰۹ء ہے
اس کتاب میں امت مسلمہ کے عروج و زوال کا منظر، بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعض اقتباس ہدیۂ قارئین ہیں۔
یہ کتاب ، مصنف نے اس شعر سے شروع کی ہے

مرکز حق و صداقت کی طرف ،لوٹ چلیں اپنے دیں، اپنی شریعت کی طرف ،لوٹ چلیں
نہیں ملنے کی کہیں ،کفر وضلالت سے اماں آؤ دربار رسالت کی طرف ،لوٹ چلیں

اس شعر میں مغرب سے مرعوب زدہ امت مسلمہ کو اپنے دین، اپنی شریعت ، اور دربار رسالت کی طرف ،لوٹنے کی دعوت دی گئی ہے، کہ درحقیقت امن و امان اور شانتی کا گہوارہ یہی ہے، مرکز حق و صداقت یہی ہے، اسے مغرب کی رنگینیوں میں نہ تلاش کریں، آپ کو یہ سب کچھ بارگاہ رسالت سے ملے گا،یہ بات انھوں نے اپنے تجربے سے لکھی، جنھوں نے تقریباً نصف صدی دیار مغرب میں گزاری، اور امت مرحومہ کو خوب جھینجھوڑا ہے۔
ایک مقام پر آپ لکھتے ہیں
جاہ طلب، مغرب پرست، ناعاقبت اندیش طبقہ، مغرب پرستی کو اعتدال پسندی، باطل پرستی کو ترقی پسندی، اور گمراہی وبے دینی کو روشن خیالی کے نام سے، پوری قوم پر مسلط کرنے میں، شب و روز،پورے اخلاص کے ساتھ مصروف ہے۔
(اسلام منزل بہ منزل اول ملخصاً ص ۲۴۷)
مفاد پرستی کے سلسلے میں رقمطراز ہیں
قبیلۂ بنی عامر کے سردار بحیرہ بن ایاس کو ایمان و توحید کی دعوت دی تو اس نے سوال رکھا کہ آپ کے بعد اقتدار کس کو ملے گا؟ حکومت کس کی ہوگی؟
أ یکون لنا الامر بعدک؟
کیا (آپ کے بعد) مملکت اسلامیہ اور مسلمانوں کی باگ ڈور ہمارے ہاتھوں میں ہوگی؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ألأمر الی اللہ یضعہ حیث شاء
یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے۔۔۔۔یہ معقول اور مبنی بر حقیقت جواب سن کر، دعوت حق کو مسترد اور اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مفاد پرستی و خود پرستی کی ،اس سے بدترین مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
اس واقعہ کے تحریر کرنےکے بعد دور حاضر پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے درد دل کا اظہارکچھ اس طرح کرتے ہیں،
بد قسمتی سے آج بھی بزعم خویش روشن مستقبل کے ٹھیکے دار، اتحاد پرست، ہمارے امراء و زعماء نے جو اعتدال پسندی، اور روشن خیالی کے پر فریب نعروں سے آسمان سرپر اٹھا رکھا ہے، در اصل یہ اسی ذہنیت کی عکاسی اور امت مسلمہ کو اسلام سے دور کرنے کی انتہائی خطرناک سازش کا ایک حصہ ہے – اس سے ان کا مقصد مادر پدرآزاد تہذیب و معاشرت کو عام کرکے اپنے آقایان نعمت کی خوشنودی کے حصول اور اپنے پُرتعیش اقتدار کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ قوم تباہ اور ملک برباد ہوتا ہے تو ہوتا رہے، اپنی بزم عیش و طرب سلامت رہنی چاہئے۔ اور بس ۔
(اسلام منزل بہ منزل دوم ص ۱۵۷ ملخصاً وتصرفاً)

جل جائے نشیمن ہمیں پرواہ نہیں ہے کچھ دیر گلستاں میں اجالا تو رہے گا

اس پر ستم یہ کہ اس اسلام بیزاری اور دین دشمنی کے باوجود انھیں اصرار ہے کہ ہمیں سب سے اچھے اور سچے مسلمان ہیں۔
(اسلام منزل بہ منزل دوم ص۱۵۸)
درد ِدل کا ایک اور اقتباس اپنے طویل تجربے کے بعد قوم و ملت کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
حیات ملی کے طویل سفر میں یہی وہ خطرناک موڑ ہے، جہاں پہونچ کر غیروں سے زیادہ اپنوں ،اور دشمنوں سے زیادہ دوستوں سے ، ہوشیار و چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔(اسلام منزل بہ منزل دوم ص۲۰۶)
فرزندان اشرفیہ کی علمی وتصنیفی خدمات میں ہے
آپ ایک باوقار عالم دین، کہنہ مشق شاعر، بہترین نثر نگار، اور عظیم داعی و مبلغ ہیںآپ نے نثر و نظم دونوں اصناف میں خامہ فرسائی کی ہےحضرت کی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
اسلام منزل بہ منزل (دو حصوں میں)
پیغام رحمت
مثبتین ظل رسول کودعوت فکر (جسم بے سایہ کے موضوع پہ، یہ بڑی انوکھی اور نرالی کتاب ہے، اس کے مخاطب بھی مخالفین ہیں)
خلیل اللہ آزمائش کی کڑی دھوپ میں (پیکر تسلیم و رضا)
صبح حرم ( نعتیہ مجموعۂ)
گرد ِراہ (غزلوں کامجموعہ)
(فرزندان اشرفیہ کی علمی وتصنیفی خدمات ص ۶۸)
ان کے علاوہ ، کثیر مضامین ومقالات ، فلسفۂ شہادت وغیرہ آپ کی قیمتی یادگار ہیں۔آپ کی تحریریں ماہناموں کی بھی زینت بنتی رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ اُن کے مرقد پر گہر باری کرے، اپنی رحمتوں کی خوب بارش برسائے اورمغفرت فرماکر، اعلیٰ علیین کےقربِ خاص میں جگہ عطا فرمائے۔
آمین، یا رب العلمین ، بجاہ حبیبه سید المرسلین ، علیه الصلوة والتسليم

احمد القادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
۷ ؍جمادی الآخرہ ۱۴۴۳ ھ ۱۰ ؍جنوری ۲۰۲۲ ء

حسب فرمائش : محب محترم، حضرت مولانا ارشاد احمد شیدا رضوی، فاضل جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور،
استاذ شعبۂ انگلش و فروغ لسانیات، کوواپ اکیڈمی ،گرینج سکول ،بریڈفورڈ ،انگلینڈ

مأخذ و مراجع
ذاتی مشاہدات
اسلام منزل بہ منزل
مثبتین ظل رسول کودعوت فکر
ممتاز العلما ایک نظر میں
فرزندان اشرفیہ کی علمی وتصنیفی خدمات

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

تعارف و انٹریو، علامہ قمرالزماں اعظمی

بسم ﷲالرحمٰن الرحیم
مفکراسلام خطیب مشرق ومغرب
حضرت علامہ قمرالزماں صاحب اعظمی
سیکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن، انگلینڈ

از: احمدالقادری،امریکا

موجودہ علماےکرام ومشائخ عظام میں جن شخصیات سے میں زیادہ متاثر ہوں ان میں ایک اہم شخصیت ہمارے اعظمی صاحب قبلہ کی ہے۔ جب سے میں نےہوش کی آنکھیں کھولیں تب سے حضرت کو جانتاہوں۔ آپ الجامعۃ الاشرفیہ کے مایۂ ناز سپوت،حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کے بڑے چہیتے اورلاڈلے شاگرد، مشرقی یوپی کی قابل فخرہستی، اہل سنت کے محبوب خطیب،اسلام کے عظیم مفکر، ملت کے نبض شناس، قوم کے رہبر، مسلمانوں کے قائد اور عظیم قومی رہنما ہیں، جن پراہل وطن ہی کو نہیں بلکہ وطن کی دھرتی کوبھی ناز ہے۔
اُس وقت جب آپ کی خطابت کا پورے ہند میں شہرہ تھا، چارسو آپ کی فصیح وبلیغ، جچی تُلی،،حقائق ومعلومات سے بھر پورتقریروں کاڈنکابج رہاتھا۔ آپ کے شباب کےساتھ تقاریر کابھی شباب تھا۔ پروگراموں کی کثرت کے باعث ایک ایک سال قبل منتظمین اجلاس وکانفرنس کو تاریخیں لینا پڑتی تھیں،اس وقت آپ نے ہندوستان چھوڑ کربرطانیہ کے کفر ستان میں قدم رکھا۔ وہاں نہ اپنی کوئی مسجد تھی، نہ مدرسہ، تنخواہوں کی کفیل نہ کوئی تنظیم تھی نہ ادارہ۔ دو سال تک(کم وبیش) اسلام وسنیت کی تبلیغ واشاعت بےتنخواہ انجام دیتے رہے۔ خود ہی جلسہ کرتے، خود ہی منتظمِ جلسہ ہوتے، خود ہی سامعین کودعوتِ وعظ دیتے، خود ہی تقریر کرتے۔
فخر ملت حضرت علامہ ارشد القادری صاحب قبلہ اس دور میں وہاں تھے، وہ ہرجگہ دوش بدوش ہوتے یاآپ اُن کےدوش بدوش ہوتے۔ بہر حال ہندوبیرونِ ہند،ایثار وقربانی، خلوص وللہیت عزم واستقلال، ہمت وشجاعت کے بے شمار ایسے انمٹ نقوش ہیں جنھیں اب تک نہ زیب قرطاس کیاجاسکا، نہ اُن سے قوم کے کان آشناہیں۔ ان کی زندگی کے روشن وتاب ناک، آفتاب کی طرح درخشندہ انوار وبرکات، فضاؤں میں بکھرے پڑے ہیں،کاش وہ سمٹ کر کاغذ پرنقش ہوجاتے۔ کمال تو یہ ہے کہ علم وفضل کی بلند چوٹی پر پہنچنے کےباوجود خاکساری اور تواضع کے عظیم پیکر ہیں، شفقت واخلاق کے کامل مجسمہ ہیں—
مجھے وہ واقعہ بھولتانہیں جب ہم مادر علمی الجامعۃ الاشرفیہ کی گود میں علائقِ دنیا سے بے فکر علم وفن کی تحصیل میں مشغول تھے۔اشرفیہ میں طلبہ کی اپنی ایک تنظیم ”انجمن اشرفی دارالمطالعہ“ کےنام سے معروف تھی اور ہے۔ طلبہ ہی اس کے کار کن ہوتے ہیں، اس کی اپنی ایک بڑی لائبریری ہے، اس کی طرف سے بھی اجلاس ہوتا رہتاہے، اس دَورمیں اس کی خدمات کی باگ ڈور میرے گلے میں ڈال دی گئی تھی۔ یہ ۱۹۸۲ء کی بات ہے۔ علامہ اعظمی صاحب برطانیہ سے وطن تشریف لائے تھے۔ طلبہ کی جانب سے ان کی تقریر کرانے کاپروگرام طے ہوا۔ تاریخ لینے کے لیے ہم تین طالب علم سائیکل سے آپ کے وطن مالوف خالص پور پہنچے۔یہ مبارک پور سے تقریباً ۱۵؍کلو میٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔ ٹھیک دوپہر میں دولت کدے پر حاضری ہوئی۔ کسی سے اندر خبر بھیجی کہ اشرفیہ سے تین طالب علم ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ ان کی باہر تشریف آوری سے قبل ہی ہمارے لیے چارپائی لگادی گئی اور آرام سے بٹھایاگیا۔ تھوڑی دیر میں حضرت اپنے ہاتھوں میں ٹھنڈا خوش گوار شربت لیے ہوئے تشریف لائے۔ ہرایک سے فرداً فرداً ملاقات کی، مصافحہ کیا، خیریت پوچھی۔ پھر اپنے ہاتھ سے شربت گلاس میں اُنڈیل اُنڈیل کر پلانے لگے، ہم شرم سے پانی پانی ہورہے تھے— ہرچند چاہا کہ حضرت تشریف رکھیں مگر ہمیں حکم دے کر بٹھادیا ”الامر فوق الادب“ انجان طالب علم کےساتھ یہ خاطر تواضع، ابھی نام بھی جن کانہ بتایاگیاتھا، ان کےساتھ یہ شفقت، بچوں کےساتھ جب اس قدر بلند اخلاق ہے توبزرگوں کےساتھ کیاہوگا، اس کااندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ پھر ہرایک کودوپہر کا کھانا کھلایا(یہ مشرقی یوپی کی اپنی تہذیب اورخصوصی طرزہے، مہمان کےآتے ہی ان کےکھانے پینے سے ضیافت ہوتی ہے ۔ اس میں تاخیر دروازے کی عزت وآبرو کے خلاف متصور ہوتی ہے) ہم نے تاریخ کے لیے درخواست پیش کی، قبول ہوئی، نماز ظہر کے بعد جلسے کاٹائم مقرر کیا، فرمایا میرے لیے کچھ انتظام نہ کریں گے۔ میں گھر سے کھانا کھاکر آؤں گا۔ آپ لوگ ہرگز ضیافت وطعام کا کوئی بندوبست نہ کریں گے، نہ اس کی زحمت اٹھائیں۔ ہم نے ہرچنداصرار کی جرأت کی مگراس پیکرِ خلوص کےسامنے کارگر نہ ہوئی۔ وقتِ مقررہ سے چند منٹ پہلے تشریف لائے، تقریر شروع ہوئی، سامعین، اشرفیہ کےہونہار طلبہ تھے، ہمارے اساتذہ بھی رونق اسٹیج تھے۔ یہ آپ کاخالص علمی خطاب تھا، نصاب تعلیم، کتب درسیہ، کتب مطالعہ،مقاصدِ حصول علم، وقت کی قدرو قیمت، طلبہ کا مقام، اشرفیہ کی طرف دنیا کی نگاہیں، دنیاکو باصلاحیت علما کی ضرورت، وغیرہ اہم گوشوں پر روشنی ڈالی، یہ ایک تاریخی خطاب تھا جوطلبہ اورعلما(فارغین) کےلیے رشدوہدایت کا روشن مینارتھے۔(کاش اس کی کیسٹ محفوظ ہوتی)
تقریر کےبعد حضرت محمدآباد گوہنہ کے لیے روانہ ہوئے۔ نذرانہ پیش کیاگیا، قبول نہیں ہوا۔ میں نے عرض کی حضور اسی کے لیے جمع ہواہے، اب کیاہوگا، برجستہ فرمایا: سب کوواپس کردو۔ ایسی بےلوث دینی خدمات فی زمانہ نادر ہے۔ پھر وہ رقم طلبہ کی اجازت سے انجمن اشرفی دارالمطالعہ میں شامل ہوئی۔
دوسراواقعہ:
میرابچپن تھا۔ ابھی شعور کی آنکھیں کھولی تھیں۔ اس وقت حضرت الجامعۃ الاسلامیہ ، روناہی ضلع فیض آباد میں شیخ الحدیث تھے۔ بھیرہ میں حضرت کاپروگرام تھا۔ بھیرہ سے دو آدمی محمدآباد،گوہنہ میں جاکر حضرت کاانتظار کررہے تھے۔محمدآباد میں حضرت اُترے، شام ہوچکی تھی۔ ان دونوں حضرات سے ملاقات نہ ہوسکی، نہ انھوں نے حضرت کو دیکھا،نہ آپ نے ان کوپہچانا، وہاں آپ اُترے اوربھیرہ کےلیے پیدل ہی چل پڑے۔ بھیرہ سے محمد آباد تقریباًدومیل ہے۔بعد مغرب یہ لمبی مسافت قدم قدم طے کرکے غریب خانے پرحاضر ہوئے، اس وقت برادرِ گرامی مولانامحمداحمدصاحب مصباحی آپ کے شدت سے منتظر بیٹھے تھے۔ باہم بےتکلف ملاقات ہوئی۔ ماتھے پہ کوئی شکن یابل نہیں، بے سواری اتنی لمبی مسافت طے کرنی پڑی، کچھ اس کاشکوہ نہیں، یہی وہ خلوص ہے جس کی بنیاد پر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ آپ پر بےپناہ کرم فرماتے تھے اوراپنے اس عظیم شاگرد پر نازاں تھے۔
میری دیرینہ خواہش تھی کہ حضرت کی کچھ خدماتِ عظیمہ لوگوں کےسامنے آئیں، تاکہ وہ ہم بے عملوں کے لیے نمونۂ عمل ،جامعہ اشرفیہ کے لیے قابلِ فخر اور عوام کےلیے سکون کا باعث ہوں اورقوم اپنے لائق وفائق علما کے کارناموں سے روشناس ہو۔
خوش قسمتی سے ۱۸؍محرم الحرام ۱۴۱۸ھ/ ۲۴؍مئی ۱۹۹۷ء کوحضرت چند روز کےلیے شکاگو تشریف لائے۔ شکاگو سنی مسلم سوسائٹی کےاجلاس کی تکمیل کے بعد میں نے انٹرویو کی گزارش کی۔ الحمدللہ ! عرض مقبول ہوئی۔ کل صبح ۱۱؍بجےحضرت نے اپناقیمتی وقت دینے کا وعدہ فرمایا۔

احمد القادری مصباحی

تعارف وانٹرویو
خطیب اعظم، مفکرِ اسلام حضرت علامہ قمرالزماں صاحب اعظمی
جنرل سیکریٹری ورلڈ اسلامک مشن، انگلینڈ
سوالات وترتیب: از احمدالقادری مصباحی
[اختصار کے پیش نظر سوالات کوصرف سرخیوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے]

نام: محمدقمرالزماں خان اعظمی
تاریخ ولادت:۲۳؍مارچ ۱۹۵۶ء
نسب:ابن عبدالحمید عرف ناتواںؔ خاں ابن عبدالصمد خاں ابن عبدالسبحان خاں۔
جائے ولادت: خالص پور،اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا
گھرکاماحول: مذہبی تھا۔ والدمحترم اوردادا سبھی لوگ پابندِ صلوٰۃ اورحتی الامکان منہیات سے پرہیز کرنے والے لوگ تھے۔ دادا اور پردادا دونوں اردو اور فارسی کے عالم تھے۔آپ کاپیشہ زراعت رہا۔
بچپن: ہمارے والد بزرگ وار نے اس بات کاخیال رکھا کہ حسب حدیث مبارکہ سات سال کی عمر میں اپنے ساتھ مسجد لےجاتے رہے۔ قرآن بہت خوب صورت آواز میں پڑھتے تھے۔ اس لیے دس سال کی عمر میں بہت سی سورتیں بغیر کسی کوشش کے یاد ہوگئیں۔ نماز فجر کے بعد تلاوت کی عادت ڈالی گئی۔ اور دوسرے بچوں کےساتھ کھیل کود سے روکنے کے لیے انھوں نے اپنا یہ معمول بنالیاتھاکہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
تعلیم: ۶؍سال کی عمر میں گاؤں کےمدرسے میں داخل ہوا۔۸؍سال کی عمر کے بعد مدرسہ انوارالعلوم جین پور(اعظم گڑھ) میں داخل ہوا۔پرائمری درجات اور ابتدائی عر بی اور فارسی کی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ شام کوہر روز دادا عبدالصمد خاں مرحوم آمد نامہ اورگلزارِ دبستان خود پڑھایاکرتے تھے۔اس طرح سے گھر اورمدرسہ کےماحول نے میرے علمی اور دینی مذاق کی تربیت میں بہت اہم رول ادا کیا۔ ۱۹۵۸ء میں مولوی کاامتحان، الٰہ آباد بورڈ سے پاس کیا اوراسی سال دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ ہوا۔ اس وقت قدوری کی جماعت سے ابتدائی تین سال تک اشرفیہ میں متوسطات تک، تعلیم مکمل کی۔
۱۹۶۱ء میں لکھنؤمیں داخلہ لیا وہاں سے عالمیت کی سند ۱۹۶۳ء میں حاصل کی۔ ۱۹۶۴ء کےابتدامیں تعطیلِ کلاں میں مکان واپس ہوا ،اورحافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم سے ۱۹۶۴ء میں چند مہینوں کے لیے مدرسہ عزیزالعلوم نان پارہ میں بحیثیت مدرس کام کرتارہا۔
پھر حضورحافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم پر ۱۹۶۶ء میں اشرفیہ میں صحیحین کاامتحان دینے کے بعد دستار فضیلت سے نوازا گیا۔
اساتذۂ کرام:
سرکار حافظ ملت علیہ الرحمہ
حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف صاحب قبلہ
حضرت بحرالعلوم مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ
حضرت علامہ ظفر ادیبی صاحب
حضرت مولانا قاری محمدیحییٰ صاحب
حضرت مولانا سید حامد اشرف صاحب
حضرت مولانا شمس الحق صاحب قبلہ
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کچھوچھوی
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ، حضرت مولانا حافظ عبدالرؤف صاحب قبلہ، حضرت مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ، خاص شفقت فرماتے۔
بیعت وارادت:
۱۹۶۳ء میں سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان، ڈاکٹر محمدمختار علوی (سگڑی) کی دعوت پر سگڑی تشریف لائے۔ وہیں میں اُن سے مرید ہوا۔ سرکار مفتی اعظم ہند سے عقیدت توہمیشہ سے رہی۔ زمانۂ طالب علمی میں کبھی مخالفین کے پروپیگنڈوں کی بناپراگر کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمہ کا خیال بہت تسکین دیتا۔ مسلک کے حوالے سے اگرکبھی مخالف علما سے گفتگوہوتی، تو حضرت کےتصور سے بہت مدد ملتی۔ بعض وقت تو یہ خیال ثباتِ قدم کے لیے کافی ہوتاکہ سرکار مفتی اعظم اِسی مسلک پرہیں۔
سرکار مفتی اعظم کی سب سے پہلے میں نے ۱۹۵۸ء میں انوار العلوم جین پور کےجلسے میں زیارت کی تھی اور عالَم یہ تھا کہ سرکار جب اسٹیج پر جلوہ گر ہوئے توان کا نورانی چہرہ اور علما کی ان سے بے پناہ عقیدت نے قلب پر خاص اثر مرتب کیا۔ ان کے قدموں میں حضرت علامہ خلیل احمد صاحب کچھوچھوی اور شاعر اسلام شفیق جون پوری پڑے رہتےتھے،اس وقت سے ارادہ تھاکہ میں حضرت ہی سے مرید ہوں گا۔
۱۹۷۷ء میں سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے ملنے کےلیے حاضر ہوا تھا تو حضرت نے بعض علماکی درخواست پر مجھے خلافت سے نوازا۔
تکمیل تعلیم کے بعد:
اوّلاً حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ نے روناہی، ضلع فیض آباد بھیجا۔ اس وقت وہاں کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۴ء تک وہاں رہے۔
تدریسی خدمات:
دس سال روناہی کی خدمات انجام دی۔
وعظ وتقریر کے ذریعہ اہم دینی خدمات:
۱۹۶۴ء سے۱۹۷۴ء تک ہندوستان کےتمام قابلِ ذکر قصبات،اضلاع اور صوبوں میں تقاریر کےلیے جاتارہا۔
اجتماعی طورپر منقد ہونے والی بڑی کانفرنسوں اورسیمنارس میں، کہیں صرف مقرر کی حیثیت سے اورکہیں مقرر ومنتظم کی حیثیت سے شریک ہوتارہا۔
ہندوستان کی اہم کانفرنسیں:
چندکانفرنسیں: (۱) جامعہ اشرفیہ کی تعلیمی کانفرنس(۲) سیوان کی مسلم پرسنل لا کانفرنس۔
اہم خطبات: (۱) اسلام اورعصرحاضر(۲) اسلام اور سائنس (۳) اسلام اور عورت(۴) اسلام کامعاشی نظام (۵) اسلام اورمستشرقینِ یورپ(۶) سیرت رسولِ اکرم ﷺ کے مختلف عناوین (۷) اسلام کا تعلیمی نظام (۸) قرآن عظیم اور اس کااعجاز (۹) علم اورمشاہدہ (۱۰) نماز (۱۱) روزہ (۱۲) حج (۱۳) زکوٰۃ (۱۴) اسلام کا دعوتی نظام (۱۵) فلسفۂ شہادت— ان میں سے اکثر کی کیسٹیں موجود ہیں۔
تنظیم وادارے – قیام وسرپرستی
(۱) الجامعۃ الاسلامیہ، روناہی ،فیض آباد (۲) بارہ بنکی، سلطان پور اورفیض آباد وغیرہ دیگراضلاع میں تنظیم ومدارس کاقیام۔
بیرون ہند کاسفر:
۱۹۷۴ء میں ورلڈ اسلامک مشن اوراسلامک مشنری کالج کےقیام کے بعد ورلڈ اسلامک مشن کے سیکریٹری کی حیثیت سے علامہ ارشد القادری صاحب کی دعوت پر انگلینڈ حاضر ہوا۔ وہاں اس وقت اہل سنت کی مدارس ومساجد کی تعداد بہت کم تھی۔ مشن کےقیام کےبعد برطانیہ اور ہالینڈ کے تمام شہروں میں جلسوں اور کانفرنسوں اورسیمنار کااہتمام کیاگیا۔ جس سےایک عام بیداری ہوئی اورمسلک کاتشخص نمایاںہوا۔ پھر برصغیر ہندوپاک سے علما کی ایک ٹیم وہاں پہنچی اور کام کی رفتار تیز تر ہوگئی۔اب بحمدہ تعالیٰ صرف برطانیہ میں کم وبیش چھ سو مساجدِاہل سنت ہیں، جن کے ساتھ ملحق مدارس ہیں۔ اسی طرح ہالینڈ کی بیش تر مساجدورلڈ اسلامک مشن کے زیر اہتمام تعمیر ہوئی ہیں۔
ڈین ہاگ، ہالینڈ کی مشہور درس گاہ جامعہ مدینۃ الاسلام بھی ورلڈ اسلامک مشن کی کاوشوں کانتیجہ ہے۔ اوران تمام کاموں میں قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی کی سرپرستی، معمار ملت حضرت علامہ ارشد القادری کی تنظیمی اورتعمیری فکر اور میری اپنی مساعی کادخل ہے۔
اس کے علاوہ ڈنمارک، ناروے بالخصوص ناروے کی سرزمین کی پہلی جامع مسجد بھی ورلڈ اسلامک مشن نے تعمیر کی ہے۔
فرانس،جرمنی وغیرہ میں مشن کام کررہاہے۔ ان کاموں کی نگرانی احقر کےسپرد ہے۔ افریقہ کے مختلف ممالک میں مشن کے وفود دَورہ کرتے رہتے ہیں اورکام کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
امریکہ میں مشن کی قیادت مختلف صوبوں میں مشن کی شاخوں کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ شاہد رضا نعیمی اور خادم کے دَوروں نے اہل سنت وجماعت میں ایک عام بیداری کی لہر دوڑادی ہے۔ اورامید ہے کہ اگلے دس سال میں امریکہ کے تمام کے تمام اسٹیٹ میں ان شاء اللہ مشن کے زیر اہتمام یامشن کےتعاون سے اہل سنت کے مراکز قائم ہوجائیں گے۔
فی الحال ہیوسٹن، ٹیکساس میں مولانا قمرالحسن اور مولانا مسعود رضا اور شکاگو میں احمد القادری [یہ ۱۹۹۷ کی بات ہے ، ۱۹۹۸ ء سے تا حال ۲۰۲۱ء ، سکونت،ٹیکساس میں ہے] نیویارک میں مولانا محمدحسین رضوی اور مولانا غلام زرقانی صاحب فلور یڈا میں پہنچ چکے ہیں، [یہ ۱۹۹۷ کی بات ہے اب وہ ہیوسٹن ،ٹیکساس میں ہیں] اور کام شروع ہوچکاہے۔
ہالینڈ میں مشن کے اداروں کےعلاوہ، حضرت علامہ بدرالقادری صاحب (جوبذات خود ایک تحریک ہیں) حضرت مولانا شفیق الرحمٰن صاحب، حضرت مولانا مفتی عبدالواجد صاحب،حضرت مولاناعبدالمنان صاحب، حضرت مولانا اسرارالحق صاحب اور بہت سے علما مصروفِ تبلیغ واشاعت ہیں۔
بیرون برطانیہ مساجد ومدارس کاقیام:
ورلڈاسلامک مشن کےتحت ہالینڈ میں (۱) جامع مسجد طیبہ،ایمسٹرڈم (۲) جامع مسجد گلزار مدینہ (۳) جامع مسجد اِن تھوفن، جامع مسجد زُوےلو— وغیرہ کی تعمیر ہوئی۔
اس کے علاوہ جامعہ مدینۃ الاسلام ،ہالینڈ اورصفہ اسکول کے نام سے فل ٹائم ہائی اسکول کاقیام، جہاں سرکاری مضامین کےساتھ ساتھ، عربی،اردو اوردینیات کو،لازمی مضمون کی حیثیت دی گئی ہے۔
بیرون ملک کے تبلیغی دوروں میں یورپ، امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا کے بہت سے ممالک اورصوبوں میں مستقل دورے ہوتے رہتے ہیں اورکوشش کی جاتی ہے کہ جہاں تبلیغی اجلاس منعقد ہوں وہاں کوئی مرکز بھی قائم ہو جائے۔ان شاء اللہ اس صدی کے خاتمے تک دنیاکے بیش تر ملکوں میں اہل سنت کے مراکز قائم ہوجائیں گے۔
قلمی واشاعتی خدمات:
ورلڈ اسلامک مشن کی طرف سے ۱۹۶۵ء میں ”الدعوۃ الاسلامیہ“ بریڈفورڈ سے ہماری ادارت میں جاری کیاگیا، جواب بھی انگلش اور عربی میں ورلڈ اسلامک مشن کراچی سے شائع ہورہاہے۔ اس کے علاوہ ۱۹۸۶ء میں ”حجاز انٹر نیشنل“ کے نام سے ماہانہ پرچے کااجرا ہوا۔ اس وقت بھی جرمنی سےصدائے حق، ساؤتھ افریقہ سے ”دی میسیج“ وغیرہ شائع ہورہے ہیں۔
سیاسیات:
سیاسیات کےتعلق سے ورلڈ اسلامک مشن کی یہ پالیسی ہے کہ پوری دنیا میں سیاسی پارٹیوں کےیاملکوں کےایسے فیصلے جواسلام اور روحِ اسلام سے متصادم ہوں، ان کے خلاف احتجاج کیاجائے اور مختلف اشاعتی ذرائع سے ان کی غیر اسلامی حیثیت کوواضح کیا جائے۔ حکومتوں پردباؤڈالاجائے کہ وہ اس طرح کے فیصلے مسلمانوں پرمسلط نہ کریں۔
اس وقت بھی سلمان رشدی کامسئلہ، مسلم پرسنل لا، مسلمان بچوں کی تعلیم ، ان کے لباس کامسئلہ، مسلمانوں کےعلاج، اوراس سے متعلق قوانین پراحتجاج، مختلف ملکوں میں حجاب کامسئلہ، ایسے سیاسی نمائندے جوکسی ایسی بات کے مؤید ہیں جوغیر اسلامی ہے، ان سے عدم تعاون، مختلف ملکوں میں مسلمانوں کا پریشر گروپ تیار کرنا، جوایسے نمائندوں کی حمایت کریں جومسلم کاز کے مؤیدہیں۔
مسلم ملکوں کی غیر اسلامی روش کے خلاف احتجاج کرنا۔ مثلاً مصر، الجزائر، ترکی وغیرہ میں فنڈامینٹل اِزم کے نام سے باکردار مسلمانوں کی کردارکشی، اسلامی تحریکوں پرپابندیوں کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنا اورمسلمانوں کے اندر اسلامی تشخص کوبیدار کرنا، اس سلسلے میں اخبارات اور میڈیاکے دوسرے ذرائع پرنظر رکھنا اوراسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کاجواب دینا۔ دنیا کےمختلف ملکوں میں اُٹھنے والی اسلامی تحریکوں کی حمایت، بوسنیا، چیچنیاوغیرہ کے مسلمانوں کی اخلاقی، مالی اورسیاسی مدد فراہم کرنا، قبلۂ اول کی بازیابی اورفلسطینی مسلمانوں کےحقوق کےسلسلے میں مسلسل جدوجہد۔
عالمی کانفرنسوں میں شرکت:
ورلڈ اسلامک مشن کےنمائندے کی حیثیت سے دنیا کےمختلف ملکوں میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرنے کاشرف حاصل ہوا۔
(۱)انقلاب ایران کے بعد ۱۹۸۳ء میں وہاں کی ہفت روزہ عالمی کانفرنس میں شرکت کی۔
ایشیااور یورپ کے ممالک کی نمائندگی کی۔بعض جلسوں کی صدارت بھی کی۔ ”اسلام ہی پوری دنیا کانجات دہندہ“ اس موضوع پر خطاب ہوا اور اسے وہاں کی میڈیا اورنشریاتی ذرائع نے پوری دنیا میں نشر کیا۔ بہت سے ریڈیائی اوراخبارات میں انٹرویونشرہوئے۔
ایران میں فقۂ جعفری کوغیر متبدل قانون کی حیثیت سے پیش کرنے اوردوسرے مسالک کومتبدل حیثیت دینے پراحتجاج بھی کیاگیا۔ ایران کےسنی مسلمانوں کےحقوق کےلیے آواز بھی اٹھائی گئی اوران کے تعلیمی اورمذہبی امور سے متعلق تجاویز پیش کی گئیں۔
(۲) ایران کے بعد ۸۳ء، ۸۵ء، ۸۷ء، ۸۹ء، میں عراق کی عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی اورایران ،عراق جنگ میں ورلڈاسلامک مشن کےموقف کی وضاحت کی۔
(۳) لیبیا کی متعدد کانفرنسوں میں مشن کےوفد کےساتھ شرکت کاموقع ملا اوراس طرح سے عالمِ اسلام کوقریب سے دیکھنے اور علماومفکرین سے ملنے اور مذاکرات کرنے کا موقع ملا اوریہ احساس بھی قوی تر ہواکہ سعودی عرب کی پون صدی پر پھیلی ہوئی بے پناہ کوششوں اور پیٹرول ڈالر کے ذریعے دینی شخصیات واداروں کوخریدنے کے باوجود عالمِ اسلام کی اکثریت آج بھی اہل سنت وجماعت ہے۔
اس کے علاوہ یورپ کےبہت سے ملکوں میں مثلاً ہالینڈ، بلجیم، فرانس، ڈنمارک، ناروے، جرمنی کی عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اوران تمام ملکوں میں ورلڈاسلامک مشن کےتحت کانفرنسوں کےانعقاد کاشرف بھی حاصل کیا۔ ان کانفرنسوں کے ذریعے یورپ میں اسلام کوبہتر طور پر سمجھانے کی کوشش کی گئی، اوران الزامات کے جوابات دیے گئے جوصدیوں سے مستشرقین یورپ، اسلام کے خلاف عائد کرتے رہے ہیں۔ ان کانفرنسوں اوراجتماعات میں سوال وجواب کے وقفے میں اسلام کے تعلق سے یورپین ذہن کوپڑھنے کا زیادہ موقع ملا۔
اسلامک مشنری کالج:
دنیابھر میں کانفرنسوں، جلسوں اورسیمنارس وغیرہ میں شرکت کے علاوہ برطانیہ میں مختلف اداروں کی تعمیر اوراس کے انتظام وانصرام کابار بھی میرے کاندھوں پر رہا۔ ورلڈ اسلامک مشن کی پہلی عمارت جوبریڈ فورڈ میں خریدی گئی تھی، اس میں بھی پانچ سال تک قیام رہا۔ اس کے قرض کی ادائیگی کےعلاوہ اسلامک مشنری کالج (جوعلامہ ارشدالقادری کاعظیم خواب تھا) کےمنصوبے کو بروئے کار لانے کے لیے جدوجہد اوروسائل کی فراہمی بھی احقر ہی کے ذمے رہی۔
بریڈفورڈسے مانچسٹرمنتقل ہونے کےبعد ہمیں از سرِ نو اپنے خوابوں کی تکمیل کےلیے ایک عظیم ادارے کی ضرورت تھی۔چناں چہ مانچسٹرجیسے بڑے شہر میں ایک بہت بڑا پلاٹ حاصل کیاگیا اوربحمدللہ اب وہاں دوملین پاؤنڈکےمنصوبے سے تین بڑے ہالوں اوردرجنوں کلاس روم اور آفس پرمشتمل ایک پرشکوہ اور فلک بوس عمارت تعمیر ہوچکی ہے۔ جس میں جامع مسجد شمالی مانچسٹرکے علاوہ:
(۲) کلیۃ الدراسۃ الاسلامیہ
(۳)ورلڈ اسلامک مشن
(۴) دارالافتاء
(۵)لائبریری—-وغیرہ کے دفاتر قائم ہیں۔
(۶)تعلیم— کلیۃ الدراسۃ الاسلامیہ میں کم وبیش پانچ سال سے پارٹ ٹائم کالجوں اور یونیورسٹیوں کےطلبہ عربی زبان، تفسیر،حدیث، فقہ، تاریخ اسلامی اورتقابلِ ادیان کے مضامین پڑھ رہے ہیں۔
مستقبل قریب میں اسلامک مشنری کالج کے مجوزہ نصاب کےمطابق علماے کرام کی تربیت کااہتمام ہوگا، جس میں عربی زبان کے علاوہ انگلش اور فرنچ کی تعلیم دی جائےگی، تاکہ فراغت کے بعد یورپ، افریقہ اورامریکا کے ملکوں میں تبلیغی خدمات انجام دینے کے قابل ہوسکیں۔
مخالفین اسلام کے اعتراضات اوران کے جوابات:
داخلی فتنوں کےعلاوہ ورلڈاسلامک مشن کوعیسائیت، نیچریت وغیرہ کے خلاف بھی کام کرناپڑا۔ خاص طور پر مستشرقین یورپ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا جواب دینے کے لیے سینکڑوں اجتماعات کیے گئے اوروہ اب بھی جاری ہیں۔
اسلام پران کے بنیادی اعتراضات:
اعتراض(۱) :اسلام تلوار کے زور پرپھیلا۔
جواب:حالاں کہ یہ قطعاً غلط ہے، اسلام تلوارنہیں ،بلکہ اپنی سچائی اور اخلاقی برتری سے پھیلاہے، جس کے بے شمار شواہد تاریخ کے صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔
اعتراض(۲) :سرورکائنات ﷺ پیغمبر نہیں بلکہ صرف ایک مصلح تھے۔
جواب:حالاں کہ ایک مصلح، معاشرے کی چند قدروں کی اصلاح کرتاہے، جبکہ معاشرے کے خلاف ایک مکمل نظامِ زندگی،ایک مکمل نظامِ عقائد، ایک مکمل نظامِ عبادت، ایک مکمل نظامِ معاش، ایک مکمل نظامِ معیشت، ایک مکمل نظامِ سیاست، ایک مکمل نظام ِمعاشرہ— صرف پیغمبر ہی لے کرجلوہ گرہوتاہے۔ پھر ایک مصلح ، قرآن جیسی عظیم کتاب لے کرنہیں آتا۔ اورنہ ہی وہ معجزات کی قوت سے آراستہ ہوتاہے۔
اعتراض (۳) : اسلام میں نجات کاکوئی تصور نہیں۔
جواب:حالاں کہ نجات کاکامل تصور صرف اسلام نے پیش کیاہے۔ ایک گنہ گار کو اسلام کسی انسان کےسامنے رُسوا کرنے کےبجائے، صرف خدا کی بارگاہ میں حاضری کا حکم دیتاہے، جہاں دنیامیں توبہ کےذریعے سے،اعمالِ حسنہ کےذریعے سے اورآخرت میں شفاعتِ رسول ﷺ اور اللہ( عزوجل) کے کرم کےذریعے سے مکمل نجات حاصل کرلیتاہے۔پھراسلام میں موروثی گناہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہرانسان، فطرتِ اسلام پربےگناہ پیدا ہوتاہے۔
اعتراض(۴):اسلام نے عورتوں کوغلام بنارکھاہے۔
جواب:حالاں کہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے، جس نے عورتوں کو مکمل آزادی عطا فرمائی۔ مَردوں کےبے جاتسلط سے آزاد کیا،انھیں حقوق عطافرمائے۔اور احترام نفس کے حوالے سے انھیں برابر کامقام عطا فرمایا۔اور مرد کوجملہ ضروریات کاکفیل بناکر عورت کےلیے ایک باعزت اورباوقار زندگی کانصب العین عطا فرمایا۔
اعتراض(۵):اسلام میں غلامی کوجائز قراردیاگیا ہے۔
جواب:حالاں کہ اسلام اُس دَور میں جلوہ گر ہوا،جب کہ پوری دنیامیں غلامی کا رواج تھا۔ عیسائیت، یہودیت، زرتشتیت– ہرمذہب میں غلاموں کی خرید وفروخت جاری وساری تھی۔ اسلام نے غلاموں کوآزاد کرنے کے ہزاروں طریقے وضع فرمائے۔ غلاموں کی آزادی،گناہوں کاکفارہ قرار دی گئی، اعمالِ حسنہ کابدل قرار دی گئی۔غلاموں کےساتھ حسنِ سلوک کولازمی قرار دیاگیا، اسلام کادور، دراصل غلاموں کی فرماں روائی کازمانہ ثابت ہوا۔
اعتراض(۶): اسلام نے غیر مسلموں کوذمی قراردے کر ان پرغلامی کاٹیکس نافذ کیا۔
جواب:حالاں کہ اسلام نے غیرمسلم اقلیتوں کومکمل تحفظ فراہم کیا۔ ان کی حفاظت کومسلم حکومت کی ذمے داری قرار دیا، ان کی عزت وآبرو، جان ومال کومسلم کے برابر قرار دیا۔ دشمنوں سے تحفظ کےلیے مسلمانوں پرجہاد فرض کیا اورانھیں جہاد سے مستثنیٰ کردیا۔ زکوٰۃ مسلمانوں پر فرض کی گئی اور وہ زکوٰۃسے بھی مستثنیٰ رہے۔اس کےبدلے میں زکوۃ سے بھی کم رقم بطورحق الخدمت وصول کی گئی، جس کو جزیہ کہتے ہیں۔ جہاد میں مسلمان جان دیتاہے،زکوٰۃ ادا کرتاہے، اس کی جگہ پرتھوڑا سا جزیہ غلامی کاٹیکس نہیں بلکہ اسلامی حکومت کاتعاون اوران کے خود اپنے تحفظ کابدل ہے۔
اعتراض(۷): اسلام کانظامِ عبادات مسلمانوں کو دنیاکی تمام تگ ودَو سے روکتاہے۔
جواب:حالانکہ اسلام کےنظام عبادت میں، کسبِ معاش بھی عبادت کاایک حصہ ہےروزانہ چند لمحوں کی عبادت مزید جذبۂ عمل پیدا کرتی ہے، جمعہ سب سے بہتر دن ہے،یہودی ۲۴؍گھنٹے،ہفتہ (سَبْت)میں کام نہیں کرتے ،عیسائی اتوار کوپورےدن بیکار رہتے ہیں ،مگر اسلام میں،جمعہ کی اذان سے پہلے کام کی اجازت ہے اور نماز کے بعد بھی، فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ۔ اسلام نے حصول رزق کوفضل الٰہی قرار دیاہے۔اسلام کی جلوہ گری کے بعد کم وبیش ایک ہزار سال تک مسلمان معاشی اعتبار سے دنیا کی سب سے عظیم قوم تھی، مگر جب عبادت ترک کی، تو معاش کے دروازے بھی بند ہوگئے،اسلام کا نظام عبادت معاشی زندگی کامعاون ہے۔ (فجر سے ظہر تک بندہ کام کرتا ہے چند منٹ وضو اور نماز میں لگتے ہیں، اس سے بندہ پھر تازہ دم ہوجاتاہے، پھر کئی گھنٹے کام کرنے کے بعد ، چند منٹ کے لئے عصر کی بریک لیتا ہے، اور نماز سے ایک نیانشاط اور سکون حاصل ہو جاتا ہے۔ اسلام نے عبادت ونماز کے اوقات بہت ہی مختصر رکھے ہیں ، ایک نماز میں بس ۵ سے۱۰ منٹ لگتے ہیں، ۸ گھنٹے کام کے دوران ، اتنا وقفہ تو مزاج و روح میں تازگی و بالیدگی پیدا کرتا ہے، بندے کا موڈ فریش ہوجاتا ہے ، اور یہ کام میں معاون ہوتا ہے، نہ کہ کام سے روکتا ہے)
اسلام نے تو محنت پر زور دیاہے اوربہت واضح طور پر ارشاد فرمایاہے: وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (النجم:۵۳،آیت:۳۹،پارہ:۲۷) انسان کووہی ملے گا جووہ کوشش کرے گا۔ اسلام جہد مسلسل کا مذہب ہے ،سعی پیہم کامذہب ہے ،مگر اب ہمارے اندر نہ جہد مسلسل ہے، نہ سعی پیہم ، ورنہ واللہ العظیم ، اللہ تبارک وتعالیٰ نےجتنے انسان پیدا کیے ہیں ، اتنی ہی خوراک بھی عطافرمائی ہے خود فرماتاہے وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا (ہود:۱۱، آیت:۶، پارہ:۱۲)اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللّٰہ کے ذمّہ کرم پر نہ ہو۔
اعتراض(۸):اسلام میں عورتوں کومَردوں کے برابر حیثیت نہیں دی گئی اورانھیں دوسرے درجے کاشہری تسلیم کیاگیاہے۔
جواب:حالاں کہ اسلام میں عورتوں کو حقوق کےسلسلے میں مردوں کےبرابر حیثیت دی گئی ہے۔قرآن کریم کافرمان ہے:ولھنَّ مثل الَّذِی علیھنَّ۔
اعتراض(۹): پردہ کاسسٹم، غلامی کی علامت ہے۔
جواب:اسلام میں پردہ کاسسٹم عورت کی عصمت، غیرت اوروقارکے تحفظ کےلیے ہے جبکہ مغرب میں پردہ نہ ہونے کے سبب سے عورت بہت زیادہ غیر محفوظ اور انسانی درنگی کانشانہ بنی ہوئی ہے۔
اعتراض(۱۰): طلاق کےحقوق صرف مرد کودے کرعورت کوبے بس کردیاگیاہے۔
جواب:حالاں کہ مردکونان ونفقہ اورتمام واجباتِ زندگی کاذمے دار قرار دیاگیاہے۔ اس لیے طلاق کابھی حق اسی کو دیاگیاہے۔ جبکہ عورت کواس بات کی اجازت ہے کہ وہ مردکےظلم اورزیادتی کے خلاف اسلامی عدالت میں طلاق کے لیے رجوع کرسکتی ہے۔
اعتراض(۱۱): دیت، شہادت اور وراثت کونصف قراردے کرعورت کونصف انسان قرار دیاگیاہے۔
جواب:دیت اور وراثت وغیرہ میں نصف قراردینے کی وجہ یہ ہے کہ عورت کی ذمے داریاں مرد کے مقابلے میں نصف بھی نہیں ہیں۔ ایک مرد کی موت پر پورا خاندان متاثر ہوتاہے۔ اس لیے کہ کفالت کی ذمےداری مرد کی ہے، اس لیے اس کی دیت
بھی دُہری دلائی جاتی ہے۔ مرد ایک عورت کواپنے گھر لاتاہے اورعورت کسی مرد کے گھر جاتی ہے۔ مرد کو دوہری وراثت اس لیے دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی اوراپنی بیوی بچوں کی کفالت کرسکے۔ جب کہ عورت باپ کے گھرسے نصف لے کر،شوہر کے گھر میں شوہر کی ذمہ داری بن کر جاتی ہے اوراس کے نان ونفقہ کاذمہ دار شوہر ہوتاہے۔
اعتراض (۱۲) : اسلام نے عورت کوتعلیم سے روک کرانھیں پتھروں کےدَور میں رہنے پر مجبور کردیاہے۔
جواب:حالاں کہ اسلام نے عورت کوتعلیم سے نہیں روکا بلکہ مخلوط تعلیم سے روکاہے۔ اس لیے کہ مخلوط تعلیم، انھیں ایک ایسے دور میں لے جاتی ہے جوپتھروں کےدَور سے بھی بھیانک اورلرزہ خیز ہے۔
اعتراض (۱۳): قرآن عظیم محمد(ﷺ) کی اپنی تصنیف ہے۔
جواب:قرآن عظیم اگر پیغمبر اسلام کی تصنیف ہے توآج تک پوری دنیاسے اس چیلنج کاجواب کیوں نہیں بن سکا، جوآج سے چودہ سوسال پیش تر قرآن دےچکاہے۔
اعتراض (۱۴):حضور ﷺ کی مکی زندگی پیغمبرانہ تھی، اس کے بالکل برعکس مدینے میں پیغمبراسلام نے زندگی کی آسائشوںسے محروم کچھ لوگوں کو جمع کرکے ایک جماعت تیار کی اورانھیں آسائشوں کے حصول کےلیے دوسری قوموں سے جنگ کی۔
جواب:حالاں کہ پیغمبر ہمیشہ پیغمبرہوتاہے۔ پیغمبر اسلام مکہ میں پیغمبراور مدینہ میں بھی پیغمبر ہی تھے۔اور جہاد، نبوت کے منافی نہیں۔ کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاےبنی اسرائیل (علیہم السلام)کاجہاد خود توریت وانجیل سے ثابت ہے۔ اگر پیغمبر اسلام ﷺ اوران کے صحابہ نے دنیاوی آسائشوں کےلیے جہاد کیاہوتا تو قیصروکسریٰ کے فاتحین کےپاس اگر قیصروکسریٰ جیسے محلات نہیں تو کم ازکم ان کے اپنے اچھے مکان توہوتے۔
یہ اوراسی طرح کے بہت سے اعتراضات جوعیسائی اور یہودی کرتے ہیں ان کے جوابات مذاکروں کی شکل میں دئے جارہے ہیں۔
مانچسٹر اور لیسٹرکے اسلامی مراکز میں اکثر یونی ورسٹیوں اورکالجوں کے طلبہ، چرچوں (کلیساؤں) کےرہنما،عیسائت کے مبلغین، مشرقیات کے محققین اور مذاہب پرریسرچ کرنے والے حاضر ہوتے ہیں اور اکثراپنے سوالات کے معقول جواب پاکر مطمئن واپس جاتے ہیں۔
مناظرہ:مخالفینِ اسلام کے مقابلے اوران کادفاع:
اہل سنت وجماعت کوداخلی محاذپر وہابیت، مرزائیت وغیرہ سے مسلسل تصادم اور مقابلے سے دوچار ہوناپڑتاہے۔
ہندوستان میں بھی ایسے بہت سے مواقع آئے جب دیابنہ کے مختلف گروپ سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ جامعہ اسلامیہ روناہی کے قیام کے بعد جگن پوراور فیض آباد میں مناظرے کے نام پر مخالفین جمع ہوئے۔ لیکن تمہیدی خطاب کےبعد ہی انھوں نے مناظرہ سے انکار کردیا۔
ببھنان(ضلع بستی) کےمناظرہ میں ایک منتظم کی حیثیت سے شریک ہوا۔یہ مناظرہ ایک ہفتہ تک چلتارہا۔ اخیرمیں دیابنہ نےپولیس سے درخواست کرکے مناظرے کودوماہ کے لیے ملتوی کرادیا۔ لیکن دوماہ کےبعد، دوبارہ وہاں نہیں آئے اورعلمائے اہل سنت نے جشن فتح منایا۔
اس مناظرہ میں حضور مجاہد ملت، علامہ مشتاق احمد نظامی، حضرت علامہ مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ،مولانامشاہدرضاصاحب، براؤں شریف کے تمام علما شریک تھے۔ دیوبندیوں کی طرف سے ارشاد کےعلاوہ دیوبند کے دودرجن سے زیادہ علما موجود تھے۔
بدمذہبوں کی مخالفت اوراس کے نتائج واثرات:
برطانیہ میں ابتداءً سعودی لابی نے ورلڈ اسلامک مشن کےقیام کی شدید مخالفت کی اور خالد محمود (دیوبندی) نے”احمدرضاخاں کاتعارف“ کے عنوان سے برطانیہ کے مرکزی شہروں میں جلسے کیے اوراس بات کی کوشش کی کہ علماے اہل سنت کے قدم جمنے سے پہلے ہی برطانیہ کی سرزمین ان کے لیے تنگ کردی جائے۔ اس کے جواب میں علامہ ارشد القادری کی سرپرستی میں تمام شہروں میں جلسے کیے گئے۔ ان کے عقائد پرمشتمل پوسٹرس نکالے گئے، مناظرے کا چیلنج کیاگیا۔ لیکن مخالف قوتیں جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں اوران تمام مساجد سےان کاخراج عمل میں لایاگیا جہاں وہ سنی بن کر اہل سنت کو مبتلا ے فریب کیے ہوئے تھے۔
مانچسٹر،روچڈیل، لیسٹر، بریڈفورڈ وغیرہ میں اہل سنت منظم ہوئے اوران کی مساجد کاقیام عمل میں لایاگیا۔ انھوں نے امام احمدرضا پرالزام تراشی کی تھی مگروہ خود بے نقاب ہوگئے۔

(تجلیاتِ قمر صفحہ ۱۰ تا ۲۶ ملخصاً و تصرفاً)

الاسلامی.نیٹ
www.alislami.net

تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ

بِسْمِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

تعارف
تاج الشریعہ، رئیس الفقہا، پیر طریقت،رہبر ملت حضرت علامہ محمد اختر رضا قادری ازہری دامت برکاتہم العالیہ
جانشینِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ ،صدر مرکزی دارالافتا، بریلی شریف، انڈیا
—————————————–

آپ ہندوستان کےخطۂ علم وفن بریلی شریف کےرہنے والے ہیں،حضرت مفتی اعظم ہند مصطفےٰ رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے، مفسر اعظم ہند حضرت مولانا ابراہیم رضا رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادے، حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے اور اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری رحمۃ اللہ علیہ کےپرپوتے ہیں۔
علم وفن ،شعر وسخن، معقولات ومنقولات، علم قدیم وجدید میں ماہر وکامل ہیں، درس نظامیہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی سال جامعہ ازہر مصر میں رہ کر عربی ادب اور متعدد علم وفن میں کمال پیدا کیا۔ اردو،عربی،فارسی،ہندی، انگلش ان سب زبانوں میں لکھنے پڑھنے اور بولنے کی مہارت تامہ رکھتے ہیں۔
علم وفضل، زہد وتقویٰ میں اپنی مثال آپ ہیں، علم شریعت اور علم طریقت دونوں کےامام ہیں، فقہ وافتا میں آپ پورا کمال رکھتے ہیں۔ جدید مشکل مسائل میں آپ کی گہری نظر ہے کسی بھی نئے پیداشدہ مسئلے میں آپ کافیصلہ آخری اور حرف آخر ہوتاہے۔ برصغیر میں آپ کی شخصیت بڑی نمایاں ہے۔
آپ کےبےشمار مریدین عالم اسلام میں پھیلے ہوئے ہیں، بلاشبہہ آپ نہایت متقی وپرہیز گار پیر کامل اورخدا رسیدہ بزرگ ہیں۔

[یہ تعارف گیارہویں شریف کے عظیم الشان پروگرام میں پیش کیاگیا۔
بمقام : ڈیلاس، ٹیکساس، امریکا
بتاریخ: ۴؍ ربیع الآخر ۱۴۲۰ ھ ، ۱۸؍جولائی ۱۹۹۹ء بروز اتوار]

احمدالقادری مصباحی

 

سپاس نامہ، محدث کبیر، علامہ ضیاء المصطفی قادری

بِسْمِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سپاس نامہ
محدث کبیر ،حضرت علامہ ضیاءالمصطفیٰ صاحب قادری، سربراہ اعلی، طیبۃ العلما ،جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی، مئو، یوپی، ہند
——————————————

جامع شریعت وطریقت،ممتازالفقہا والمحدثین حضرت علامہ ضیاء المصطفےٰ صاحب قادری اعظمی دامت برکاتہم کاہندوستان کےایک بڑے مشہور علمی گھرانے سے تعلق ہے۔ آپ مصنف بہار شریعت صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادے ہیں۔ دسمبر۱۹۳۹ء کوضلع اعظم گڑھ میں ولادت ہوئی۔ہندوستان کی عظیم وقدیم درس گاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کی اور اب وہیں کے پرنسپل اور شیخ الحدیث ہیں۔ تقریباً چالیس سال سے بخاری شریف کادرس دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تفسیر،حدیث،اصول حدیث،فقہ، اصول فقہ، فرائض، علم الہندسہ، علم التوقیت، منطق، فلسفہ،علم مناظرہ وغیرہ علوم وفنون میں مہارت تامہ اور درس وتدریس کاکامل تجربہ رکھتے ہیں۔ اہم سے اہم سوال کاجواب دینے اورحل کرنے میں دیر نہیں لگتی، ذہانت وفطانت قابلیت وصلاحیت اور حافظہ میں ان کاجواب نہیں۔
آپ کے تمام بھائی، بہن، بیٹے، بھتیجے کل کے کل عالم دین ہیں۔ بھتیجیاں بھی عالمہ فاضلہ ہیں اور ہندوستان وپاکستان دونوں جگہ سے آپ کے خاندان کا تعلق ہے۔ اور الحمدللہ پورا خانوادہ پاک وہند میں اسلام وسنت کی اشاعت میں رواں دواں ہے۔
حضرت محدث کبیر دعوت وارشاد اور دینی خدمات کےسلسلے میں متعدد بار ساؤتھ افریقہ، ماریشش، میڈل ایسٹ، کویت، پاکستان، انگلینڈ،ہالینڈ وغیرہ کے دورے کرچکے ہیں۔
آپ حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز محدث مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ اشرفیہ مبارک پور، کےخاص شاگردوں میں ہیں۔ آپ کو چاروں سلاسل قادریہ،چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ وغیرہ کی اجازت وخلافت حاصل ہے۔ ہزاروں لوگ ان کےدستِ حق پرست پر تائب اور داخلِ بیعت ہوچکے ہیں۔
آپ میرے بہت ہی شفیق استاذ ہیں۔
ہندوستان سے اس جشن میلادالنبی ﷺ میں خطاب کرنے کےلیے امریکا تشریف لائے۔ ہم ان کے بہت ہی ممنون و مشکور ہیں۔

احمد القادری مصباحی
بموقع خطاب : جلسۂ عیدمیلادالنبی ﷺ
بتاریخ: بارہویں ربیع الاول ۱۴۲۰ھ ، ۲۶؍جون ۱۹۹۹ء
زیر اہتمام:تنظیم اہل سنت، ڈیلاس
بمقام : ریچرڈسن سیوک سنٹر ، ریچرڈسن، ٹیکساس، امریکا
(ملخصاً و تصرفاً)

مولانا عبد الغفار اعظمی، سرکار آسی

بِسمِ اللّٰہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
حالات اعظمی

محب گرامی ،حضرت مولانا عبد الغفار، اعظمی ،نوری ، الجامعۃ الاشرفیہ ، مبارکپور، اعظم گڑھ کے سعادت مند ، لائق و فائق اور ذی استعداد فاضلین میں سے ہیں ۔ اور باذوق مقا لہ نگا ر بھی ہیں، جن کے مضامین، رسائل و اخبارات میں نکلتے رہتے ہیں ۔ قوم و ملت کی فلاح و بہبود کا جذبہ ان کے دلوں میں موجزن ہے ۔ ان کی متعدد کتابیں طبع ہو کر ،منظر عام پہ آچکی ہیں ،جو ان کے دینی و اصلاحی جذبے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
اسم گرامی: عبد الغفار اعظمی ابن عبد العظیم ابن محمد ابراہیم ابن میرو ہے ۔ آپ کے والد بزرگوار ایک محنتی زراعت پیشہ شخص تھے ،جنہوں نے اپنی تنگ دستی اور غربت کی پرواکئے بغیر اپنے اس ہونہار بیٹے کو دینی و مذہبی تعلیم دلاکر اپنے لئے بہترین سامان آخرت تیار کرلیا ۔ جب کہ اپنے دوسرے بیٹے جناب عبد السلام کو حافظ قرآن بناکر اپنے لئے شفاعت کا ذریعہ فراہم کر لیا ۔
ولادت: آپ کی تاریخ پیدائش ۴؍ مئی۱۹۶۲ ء مطابق ۳۰ ؍ ذی قعدہ ۱۳۸۲ھ بروز جمعہ ہے ۔
جائے پیدائش: آپ کی ولادت اپنے آبائی وطن ریوری ڈیہہ متصل ندوہ سرائے ضلع مئو یوپی ہے۔ پہلے یہ علاقہ اعظم گڑھ میں تھا ۱۹؍ نومبر ۱۹۸۸ء کو جب مئو ضلع ہوا تو یہ اس میں شا مل ہوگیا ۔ اسی لئے آپ اپنے نام کے ساتھ اعظمیـ لگاتے ہیں اور جملہ مارکشیٹوں ا ور اسناد میں نام کے ساتھ ۔۔اعظمی۔۔ جڑا ہوا ہے ۔
ابتدائی تعلیم: ندوہ سرائے میں،ابتداء تا درجہ پنجم ،تعلیم حاصل کی اور وہیں ابتدائی فارسی وغیرہ شروع کی ۔
اعلیٰ تعلیم : علاقہ میں باقاعدہ عربی و فارسی کے لئے کوئی مدرسہ نہیں تھا اس لئے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ شوال ۱۳۹۴ھ میں مدرسہ اشرفیہ ضیا ء العلوم، خیر آباد ، مئو میں جماعت اعدادیہ میں داخلہ لیا ۔
اور تقریبا ۴؍ سال تک زیر تعلیم رہے ۔ شوال ۱۳۹۸ھ میں مدرسہ شمس العلوم ، گھوسی میں آگئے ۔ پھر ایک سال بعد شوال ۱۳۹۹ھ مطابق ستمبر۱۹۷۹ء میں مدرسہ عربیہ فیض العلوم ، محمد آباد گوہنہ میں داخلہ لیا ۔
ان دنوں محقق عظیم ،ادیب زماں ، مخلص بے پایاں ، خیر الاذکیا ، حضرت علامہ محمد احمد مصباحی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی خدمات حاصل کرنے میں ار کان فیض العلوم کامیاب ہو چکے تھے اور محقق موصوف صدر المدرسین کی حیثیت سے فیض العلوم تشریف لا چکے تھے ۔ ان کے علمی فیضان کا شہرہ سن کر با ذوق طلباء کشاں کشاں فیض العلوم کی جانب ہر طرف سے ٹوٹے پڑ رہے تھے ۔ انہیں میں مولانا عبد الغفار اعظمی صاحب بھی تھے ۔ یہیں سے میرا اور ان کا ساتھ ہوا ،اور فراغت تک ایک مخلص ہمدرد ، محنتی، رفیق درس کی حیثیت سے ساتھ ساتھ رہے ۔ اور بحمدہ تعالیٰ آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ اُس زمانے میں وہاں مشکوٰۃ شریف تک تعلیم تھی ۔
الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں داخلہ: پھر مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے مرکزی درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ میں ہمارے ساتھ شوال ۱۴۰۱ھ مطابق اگست ۱۹۸۱ء میں داخلہ لیا ۔ اور درس نظامیہ کی تکمیل کی ۔ اور یکم جماد ی الآخرہ ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۷ ؍ مارچ ۱۹۸۳ء بروز جمعرات، عرس حافظ ملت علیہ الرحمہ کے پر بہار موقع پر دستار فضیلت و قراء ت سے نوازے گئے ۔ بخاری شریف ۱۴۰۳ھ سے ہجری اور شرف بخاری شریف ۱۹۸۳ء سے سالِ عیسوی کی تاریخ فراغت نکلتی ہے ۔
مدرسہ فیض العلوم کی تعلیم کا اثر: ان کی تعلیم فیض العلوم میں تو کل دو ہی سال رہی لیکن یہی دو سال در حقیقت ان کی تعلیم کے اہم ایام ہیں جن کو وہ اپنی زندگی کے بیش قیمت لَیْلُ و نَہَار شمار کر تے ہیں ۔
وہاں کی تعلیم کے سلسلے میں اپنے ایک مکتوب میں یوں رقمطراز ہیں ۔ ،، حقیقی معنوں میں فیض العلوم کی تعلیم ہی میرے لئے کامیابی کا باعث بنی ،،
بورڈ کے امتحانات و اسناد
مولوی ( عربی) مدرسہ ضیاء العلوم ،خیر آباد
منشی ( فارسی ) مدرسہ فیض العلوم ،محمد آباد گوہنہ
عالم ( عربی ) مدرسہ فیض العلوم ،محمد آباد گوہنہ
منشی کامل ( فارسی ) مدرسہ فیض العلوم ،محمد آباد گوہنہ
فاضل دینیات ( عربی ) الجامعۃ الاشرفیہ ،مبارکپور
فاضل ادب (عربی)پرائیویٹ، بہ زمانۂ تدریس دارالعلوم سرکار آسی،
فاضل طب ۔ ،، ،، ،،، ،،،، ،،،
فاضل معقولات ۔ ،، ،، ،، ،،، ،،،
بحمدہ تعالیٰ اکثر امتحانات میں اعلیٰ نمبر سے پاس ہوئے ۔
اساتذئہ کرام
آپ کے مشہور و معروف اساتذئہ کرام کے نام مندر جہ ذیل ہیں ۔
بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ ،
محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ صاحب قادری دامت برکاتہم( شہزادۂ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ )
خیر الاذکیاء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہم (ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور، ناظم و بانی المجمع الاسلامی مبارک پور)
قاضی شریعت حضرت علامہ محمدشفیع اعظمی علیہ الرحمہ ،
مفسر قرآن، حضرت علامہ عبد اللہ خاںعزیزی علیہ الرحمہ ،
محدث جلیل حضرت علامہ عبد الشکورعلیہ الرحمہ ،
نصیر ملت حضرت علامہ نصیر الدین عزیزی صاحب ،
استاذ القرا حضرت مولانا قاری ابو الحسن صاحب علیہ الرحمہ ،
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد امجد علی قادری صاحب ،
شارح سراجی حضرت علامہ نصر اللہ رضوی علیہ الرحمہ ،
حضرت مولانا قمر الدین قمر اشرفی علیہ الرحمہ ،
حضرت مولانا فداء المصطفیٰ امجدی صاحب (شہزادۂ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ) حضرت مولانا شفیق احمد علیہ الرحمہ،
حضرت مولانا عبد المنان کلیمی صاحب،
حضرت مولانا سیف الدین علیہ الرحمہ،
حضرت مولانا محمد عمر خیرآبادی علیہ الرحمہ،
حضرت مولانا شمس الضحیٰ خیرآبادی علیہ الرحمہ ،
حضرت مولانا محبوب احمد اشرفی مبارکپوری علیہ الرحمہ۔
حضرت مولانا محبوب احمد صاحب خیرآبادی ، وغیرہم قابل ذکر ہیں ۔
بیعت و ارادت: شہزادئہ اعلیٰ حضرت، حضور سرکار مفتی اعظم ہند ، علامہ مصطفیٰ رضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان سے ( ۱۹۸۲؁ ء میںان کے وصال سے تقریبا ۴؍ ماہ قبل بریلی شریف حاضر ہوکر) بیعت و ارادت سے سرفراز ہوئے ۔

تدریسی خدمات
فراغت کے بعد حضرت مصباحی صاحب قبلہ کے ایماء پرتھوڑے دنوں المجمع الاسلامی؍ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ ، میں رہے، پھر اُس وقت کے صدر المدرسین حضرت مولاناعبد الرب صاحب اعظمی کی دعوت پر، مدرسہ مفتاح العلوم مہراج گنج، اعظم گڑھ میں تقریباً ڈیڑھ سال رہے ۔اس کے بعد شیخ طریقت حضرت مولانامحمد عبد المبین نعمانی صاحب دامت برکاتہم کی دعوت پر دارالعلوم قادریہ، چریا کوٹ ،مئو میں تین ماہ خدمات انجام دیں ۔پھرتقریباایک ماہ مدرسہ عربیہ بحر العلوم ،سدھور ،ضلع بارہ بنکی میں رہے، وہاں اپنا نشان قدم چھوڑ کر شوال ۱۹۸۵ء سے تادم تحریر دارالعلوم سر کار آسی سکندر پور ،بلیا میں نائب صدر المدرسین کے عہدہ پر رہ کر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
پرنسپل کاعہدہ خالی ہونے پر( ۲۱؍ اپریل ۲۰۲۱ء سے ۳۱؍جولائی ۲۰۲۲ء تک ) صدر المدرسین کا فریضہ انجام دیا۔
زیر تدریس کتابیں
دارالعلوم سرکار آسی میں سادسہ تک تعلیم ہوتی ہے۔ مولانا موصوف نے وہاں مندرجہ ذیل کتابیں پڑھائی ہیں۔
(۱) جلالین شریف (عربی زبان میں ایک مختصر اور جامع تفسیر کی کتاب ، جو صدیوںسے درس نظامی؍عالم کورس میں داخل ہے)
(۲) درس قرآن
(۳) مشکوۃ ة شریف، عربی ( حدیث)
(۴) موطا شریف، عربی (حدیث)
(۵) شرح وقایہ اول، دوم، عربی (فقہ ؍ اسلامی قانون)
(۶) قدوری عربی (فقہ ؍ اسلامی قانون)
(۷) نورالایضاح عربی (فقہ ؍ اسلامی قانون)
(۸) کافیہ عربی (نحو ؍ عربی گرامر)
(۹) ہدایت النحو عربی ( نحو ؍ عربی گرامر)
(۱۰) نحومیر فارسی ( نحو ؍ عربی گرامر)
(۱۱)فصول اکبری فارسی ( صرف ؍ عربی گرامر)
(۱۲) علم الصیغہ فارسی ( صرف ؍ عربی گرامر)
(۱۳) پنج گنج فارسی ( صرف ؍ عربی گرامر)
(۱۴) میزان ومنشعب فارسی ( صرف ؍ عربی گرامر)
(۱۵) مجانی الادب (عربی ادب)
(۱۶) فیض الادب (عربی ادب)
(۱۷)شرح تہذیب عربی (منطق)
(۱۸) مرقات ، عربی (منطق)
(۱۹) فارسی کی پہلی، دوسری (فارسی ادب)
(۲۰) گلزار دبستان (فارسی ادب)
(۲۱) تاریخ الخلفاء (تاریخ اسلام)
(۲۲) تاریخ اسلام ۔۔۔۔۔ ۔ ۔وغیرہ
شادی : محمد آباد گوہنہ کے قریب، موضع بھات کول میں، جناب محمد عیدو صاحب کی دختر نیک اختر تسلیم النساء صاحبہ ( پیدائش: ۱۸؍جمادی الآخرہ ۱۳۸۵ھ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۶۵ء بدھ) سے بچپن میں نکاح ہوا ، اور۲۲؍ رجب المرجب ۱۴۰۲ھ مطابق ۲۶؍ اپریل ۱۹۸۲ء پیر کو رسم شادی اور رخصتی عمل میں آئی۔
اولاد
آپ کی کل ۴ ؍ اولادیں ہوئیں ، دو بیٹے، دوبیٹیاں
(۱) احمد رضا (تاریخی نام محمد قدیر رضا۱۴۰۷ ھ)
ولادت : یکم جماد ی الاولیٰ۱۴۰۷ھ مطابق یکم جنوری ۱۹۸۷ء بروزجمعرات ۔
(۲) گلشن آرا
ولادت: ۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۹ھ مطابق ۲۰؍ دسمبر ۱۹۸۸ء بروز منگل ۔
(۳) انجم آرا
ولادت: ۱۳ ؍ جمادی الآ خرہ ۱۴۱۱ھ مطابق یکم جنوری ۱۹۹۱ ء بروز جمعرات ۔
(۴) محمد رضا قادری (تاریخی نام محمد رضا شاہدی ۱۴۱۳ھ)
ولادت: ۲۸؍ رجب المرجب ۱۴۱۵ھ مطابق ۲۲؍ جنوری ۱۹۹۵ء بروز جمعرات ۔
بڑے لڑکے احمد رضا نے ایم ، اے تک تعلیم حاصل کی اور فی الحال کمپوٹر چلارہے ہیں ۔
دوسرے لڑکے محمد رضاقادری نے حفظ ضیاء العلوم خیر آباد میں کیا، قرا ء ت کی تعلیم دارالعلوم وارثیہ (گومتی نگر، لکھنؤ) سے حاصل کی ،اور فضیلت کی دستار، ۲۵؍ اپریل ۲۰۱۹ ء میں مدرسہ شمس العلوم گھوسی سےحاصل ہوئی ۔ فی الحال ایک مکتب میں تعلیم و تدریس میں مشغول ہیں ۔
تنظیمی کام
آپ کو زمانۂ طالب علمی سے تنظیمی و اشاعتی کاموں سے گہرا لگائو تھا ۔ مجلس اشاعت طلبۂ فیض العلوم محمدآبادکے مشیر کار اور اہم رکن رہے ۔ اسی ذوق و شوق کی بناء پر فراغت کے بعد، ابتدا میں المجمع الاسلا می میں آپ کا تقرر ہوا تھا۔
انجمن نوریہ کا قیام: اپنے وطن عزیز، ریوری ڈیہ گائوں میں قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے، ایک تنظیم قائم کی ۔ جس کا نام،پیر و مرشد علیہ الرحمہ کی نسبت سے ـ،،انجمن نوریہ ،، رکھا۔ اس میں جملہ اراکین ماہانہ فیس دیتے، اسی رقم سے وہاں کے قبر ستان میں پیڑ پودے لگائے گئے تھے۔
مدرسہ عربیہ نور العلوم کا قیام: آپ نے انجمن نوریہ اور اس کے اراکین کے تعاون سے زمین کی احاطہ بندی کرائی ،پھر عزیز ملت سربراہ اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ حضرت علامہ عبد الحفیظ صاحب دام ظلہ کو مدعو کیا، اور ان کے دست مبارک سے ۱۱؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ مطابق ۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۷ء بروز جمعہ اسکی بنیاد رکھی گئی ۔ بحمدہ تعالیٰ آج بھی یہ مدرسہ اپنی آب و تاب کے ساتھ رواں ہے ۔
نوری جامع مسجد: دوسرا اہم کام ،گائوں کی مسجد کی توسیع کا تھا
گائوں کے با اثر حضرات سے رائے ،مشورہ کرنے کے بعد اسے شہید کر کے مورخہ ۲۶ ؍ شوال المکرم ۱۴۱۴ھ مطابق ۸؍ اپریل ۱۹۹۴ء بروز جمعہ حضور سربراہ اعلیٰ صاحب مد ظلہ کے مقدس ہاتھوں اس کی بنیاد رکھی گئی جس کا نام ،، نوری جامع مسجد ،، رکھا گیا ۔
اصلاحی کارنامہ
ریوری ڈیہ کی آبادی میں سب سنی ہیں، مگر ان کے درمیان شدید خاندانی اختلاف تھا، کئی پارٹیوں میں بٹے ہوے تھے ،یہاں تک کہ ایک دوسرے کے یہاں کھانا پینا، شادی بیاہ ، آنا جانا بند تھا۔آپس میں لڑائیاں اور جھگڑے ہوتے رہتے،حالانکہ سب ایک شیخ برادری کےتھے ، یہ ہمارے اعظمی صاحب کا عظیم کارنامہ ہے کہ مسجد کی تعمیر کے وقت، اپنی انفرادی اور اجتماعی کوشش سے سمجھا بھجاکر اور ذہن سازی کرکے سب کو ایک کردیا۔پھرسب نےمتحد ہوکر پورے جوش خروش اور ولولے کے ساتھ نوری مسجد کی تعمیر میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا۔
دوسرے مقامات پر اور قرب و جوار میں جہاں اہل سنت کے آپسی اختلافات ہیں یہ اتحاد ان کے لئے نمونۂ عمل اور مِشعل ہدایت ہے۔کہ
رضاے الٰہی کی خاطر اپنے سارے ذاتی اختلافات بھول کر ایک دوسرے کےقصور معاف کرکے متحد ہوجائیں، پھر دیکھیں کتنی تیزی سے اہل سنت وہاں ترقی کرتے ہیں اور دین و مسلک کا کام ، کس طرح تیزی سے بام عروج پرپہونچتا ہے۔
مدرسۃ البنات قمر النساء کا قیام: گائوں اور قرب و جوار میں دختران اسلام کی اعلیٰ مذہبی تعلیمات کے لئے کوئی دینی ادارہ نہیں تھا ۔ آپ نے اسے محسوس کیا اورساڑھے ۵ بسوا، زمین خرید کر بچیوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا بندو بست کیا ،اس کی بنیاد بھی حضور سربراہ اعلیٰ صاحب مد ظلہ کے مقدس ہاتھوں ۱۰؍ رجب المرجب ۱۴۳۳ھ مطابق یکم جون ۲۰۱۲ء بعد نماز جمعہ، رکھی گئی جس کا نام ،، ان کی والدہ مرحومہ کے نام پہ ــ،، مدرسۃ البنات قمر النساء ،، رکھا ۔
آغاز تعلیم : بحمدہ تعالیٰ ۸؍ ماہ کی قلیل مدت میں مورخہ ۱۴؍ ربیع الاول ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۷؍ جنوری ۲۰۱۳ء بروز اتوار ۱۰؍ بجے دن باضابطہ مولانا اعظمی صاحب کے دعائیہ کلمات سے تعلیم کا آغاز ہوا ۔ فی الحال اردو ، دینیات ، وغیرہ کے علاوہ جماعت ثالثہ تک ، باصلاحیت معلمات کی نگرانی میں تعلیم کا سلسلہ جاری و ساری ہے، اور طالبات شرعی پردہ کے ساتھ علوم دینیہ ، اور افکار اسلامیہ کی تعلیم و تربیت حاصل کر رہی ہیں ۔
زیارت حرمین شریفین
پہلا سفرحج: ۱۷؍ فروری ۲۰۰۱ء کو بائی ایر انڈیا دلی سے جدہ پھر وہاں سے بذریعہ بس قیام گاہ مکہ مکرمہ ۔ارکان حج کی ادائیگی کے بعد ۲۲؍ مارچ ۲۰۰۱ء کو مدینہ منورہ حاضری ہوئی ، وہاں ۸؍ روز قیام کے بعد جدہ شریف، وہاں سے یکم اپریل ۲۰۰۱ء کو( بذریعہ ایر انڈیا) دلی واپسی ہوئی ۔
دوسرا سفرحج: ۲۲ ؍ اکتو بر ۲۰۱۰ء کو ( والدین کریمین اور اہلیہ محترمہ کے ساتھ، ۴ نفر) حج و زیارت کے لئے بنارس سے (بذریعہ ایر انڈیا)مدینہ منورہ کی روانگی ہوئی، ۸ ؍دن وہاں قیام کے بعد (بذریعہ بس )مکہ مکرمہ حاضری ہوئی۔یہاں حج کے ارکان ادا کرنے کے بعد ۲؍ دسمبر ۲۰۱۰ء کو جدہ کے لئے روانہ ہوئے، پھر وہاں سے ۳؍ دسمبر ۲۰۱۰ء کو (بذریعہ ایرانڈیا بنارس ) واپسی ہوئی۔
تیسرا سفر برائے عمرہ
اس سفر کے سلسلے میں ایک مکتوب میں اعظمی صاحب کچھ اس طرح رقمطراز ہیں
ایک عرصہ سے یہ دلی خواہش تھی کہ کاش رمضان المبارک کے با برکت مہینے میں عمرہ کی سعادت حاصل ہو جائے ، مگر مدرسہ وغیرہ کی ذمہ داریوں کے پیش نظر ٹلتا رہا ، آخر کا ر رب قدیر نے یہ خواہش بھی پوری کردی۔
چنانچہ ۸؍ مارچ ۲۰۲۴ء مطابق ۲۶؍ شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ بروز جمعہ مع اہلیہ گھر سے بذریعہ ٹرین دلی کے لئے روانہ ہوا ۔ دوسرے دن دوپہر کو دلی پہونچا اور ۹؍ مارچ ۲۰۲۴ء بذریعہ سعودی ایر لائن ۸ بجکر ۱۰ منٹ پر روانہ ہوکر جدہ پہونچا۔
پھر وہاں سے بذریعہ بس سعودی ٹائم کے مطابق ۵؍ بجے بھور میں مکہ شریف قیام گاہ پر پہونچا۔ پھر ضروریات سے فارغ ہو کر ۸؍ بجے صبح حرم شریف پہونچ کر عمرہ کی سعادت حاصل کی
(ذٰلِک فضل ا ٱللهيُؤْتِيہِ مَنْ يَشَآءُ وَاللہ ذُو ا ٱلْفَضْل ا ٱلْعَظِيم ۔
یہ اللہ کا فضل ہے جسے چا ہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ سورہ جمعہ آیت ۴)
اس طرح یہ دیرینہ خواہش بھی پوری ہو گئی ۔ یہاں دس (۱۰)دن قیام کے بعد ۲۰؍ مارچ ۲۰۲۴ء
کو ۸؍ بجے صبح بذریعہ بس ، مکہ شریف سے روانہ ہوکر ۳؍ بجے مدینہ منورہ شریف قیام گاہ پر پہونچا ،بعد غسل ،حرم شریف پہونچ کر روضئہ رسول ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا ۔
یہاں ۸؍ دن قیام کے بعد ۲۸؍ مارچ ۲۰۲۴ء کو بعد نماز ظہر ۴؍ بجے دن ہوٹل سے بذریعہ بس جدہ ایر پورٹ پہونچا اور ۲۹؍ مارچ کی بھور میں ڈیڑھ بجے شب کی فلائٹ سے ۹؍ بجے صبح دلی پہونچا ،پھر وہاں سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوکر ۳۰؍ مارچ ۲۰۲۴ء کی صبح، گھر پہونچ گیا ۔
عمرہ کے دوران ایک ایسا عظیم حادثہ پیش آیا جو نہ ٹالا جا سکتا تھا اور نہ اسے پوری زندگی بھلایا جا سکتا ہے ، یعنی ہمارے عظیم مشفق والد بزرگوار حاجی عبد العظیم علیہ الرحمہ۲۶؍ مارچ ۲۰۲۴ء مطابق ۱۵؍ رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ شب منگل، ڈیڑھ بجے اللہ کو پیارے ہو گئے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ہم لوگوں کو یتیم چھوڑ کر دار بقا کی راہ لے لی ۔ جس کا بے حد صدمہ ہوا کوشش کے باوجود جنازے میں شرکت کی کوئی سبیل پیدا نہ ہو سکی، اس لئے آخری زیارت اور نماز جنازہ پڑھا نے سے محروم رہا ۔ نماز جنازہ برادر صغیر حافظ عبد السلام صاحب نے پڑھائی ۔
تقریبا ساڑھے تین سال قبل ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء مطابق شب ۲؍ ربیع الاول بروز پیر ۹؍ بجے ہماری مشفقہ والدہ محترمہ حجن قمر النساء علیہا الرحمہ بھی اس دنیا کو الوداع کر چکی تھیں ، اب ہم سایۂ مادری و پدری دونوں سے محروم ہو گئے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے والدین کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ ۔
بیرون ملک کا سفر: مولانا موصوف نے ۳ بار امریکا کا سفر کیا ۔
پہلا سفر: حافظ عبد السلام بھیروی(گجراتی مسلم سوسائٹی شکاگو) کی دعوت پر ۲۶؍ جنوری ۲۰۰۴ء کو (بذریعہ ایر انڈیا وایا لندن) شکاگو کا سفر کیا ،جوامریکا کا خوبصورت اور مردم خیز خطہ ہے ۔
اُن دنوں وہاں کے امام خطیب حضرت مولانامفتی حفیظ الرحمٰن صاحب حج بیت اللہ اور اپنے آبائی وطن ہند کے سفر پر گئے تھے ۔ ان کی واپسی تک وہاںامامت و خطابت اور قوم و ملت کے نو نہالوںکی مذہبی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔
پھرجناب حافظ غلام اسمٰعیل پٹیل صاحب ( بانی و سرپرست المدینہ اسلامک سینٹرشکاگو ) کی خواہش پر، وہاں جمعہ کی امامت و خطابت اور ہفتہ وار درس قرآن ، دینی و مذہبی مسائل ا ور دیگر خدمات تقریبا ڈھائی ماہ تک انجام دیں۔شکاگومیںکل ۶ ماہ قیام رہا ، اس دوران متعدد جگہوں کاتبلیغی دورہ ہوا، اور کئی پروگرامس میں شرکت رہی۔ ۱۴؍ مئی کو ،،انڈیانا ،، کےجلسئہ عید میلاد النبی ﷺ میں شریک ہوئے ۔
آن لائن پروگرام : ۲۹ ، ۳۰ جنوری ۲۰۰۴ء کوقربانی اور اس کے احکام ،، کے عنوان سے آن لائن سوالات کےجوابات کے لئے موصوف کو مدعو کیا گیا ۔
ریڈیو پروگرام: ۷؍ فروری کو ،، سیرت رسول ،، کے عنوان سے ، جناب مشتاق احمد صاحب ہیو سٹن کی معرفت ریڈیو بصیرت پربیان نشر ہوا ۔
ہیوسٹن: ۵؍ جو ن ۲۰۰۴؁ء کو حضرت مولانا عبد الرب اعظمی نوری ، ( بانی ومہتمم، آدم مسجد، ہیوسٹن ) کی دعوت پر شکاگو سے ہیوسٹن بذریعہ جہاز تشریف آوری ہوئی ۔ اور النور مسجد کے پروگرام میں شرکت فرمائی۔
ڈِیلَس: ۸؍ جون ۲۰۰۴ء کو ہیوسٹن سے ڈیلس تشریف لاے اور دارالعلوم عزیزیہ پلینو، ٹیکسَس کے پروگرام میں شرکت فرمائی ۔ پھر ۱۰ ؍ جون ۲۰۰۴ء کو شکاگو واپس تشریف لےگئے ۔
دوسرا سفر: یکم دسمبر ۲۰۰۵ء کو گجراتی مسلم سوسائٹی شکاگو کی دعوت پر( وایا لندن ) امریکا تشریف لائے ۔ وہاں مسجد عائشہ، دیوان،شکاگو میں امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ تعلیم بالغاں کے لئے تفسیر قرآن کا درس اور گجراتی مسلم سو سائٹی میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ اور دیگر قرب و جوار کے پروگرام میں شرکت کی ۔پھر ۲۶؍ فروری ۲۰۰۶ء کو شکاگو سے( وایا لندن بذریعہ ایر انڈیا) دلی واپسی ہوئی ۔
تیسرا سفر: ۴ ؍ نومبر ۲۰۰۹ ء کو بذریعہ ایر انڈیا ، اسلامک ڈائریکشن اینڈ انہنس منٹ ایسوسی ایشن (IDEA)گارلینڈ، ٹیکساس، امریکا کی دعوت پر ڈیلس تشریف لائے۔
،،مکہ مسجد ،، میں امامت و خطابت اور بچوں کو دینی تعلیم دینےکے علاوہ بالغین کے لئےتفسیر قرآن ، عربی اور قراء ت کی تعلیم کا بھی اہتمام تھا ۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا غلام سبحانی صاحب رشیدی کی دعوت پر، ضیاء القرآن مسجد، ارلنگٹن اور حضرت مولانا حافظ سراج احمد مصباحی صاحب کی دعوت پر ،، مدینہ مسجد کیر لنٹن، تشریف لے گئے۔
ڈیلس میں قیام کے دوران میری ان سے بارہا ملاقات رہی ۔
با لآخر ۳؍ فروری ۲۰۱۰ء کو ڈیلس سے دلی کے لئے روانہ ہوگئے ۔
تصنیف و تالیف
(۱) سیرت رسول اعظم: ﷺ جو سیرت کے عنوان پر عام فہم اردو زبان میں ایک عمدہ کتاب ہے با لخصوص طالبان علوم نبویہ کے لئے سیرت میںمعاون ہے، طلبہ اس سے بخوبی استفادہ کر سکتے ہیں ۔ )المجمع الاسلامی مبارک پور سے شائع ہوئی ہے، اس کے تین ایڈیشن نکل چکے ہیں)
(۲) اصلاح رسوم: مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط رسومات کے خلاف اصلاحی پیغام جسے پڑھ کر عوام راہ راست پر آ سکتے ہیں ۔ )المجمع الاسلامی مبارک پور سے شائع ہوئی ہے، اور اس کےتین ایڈیشن نکل چکے ہیں)
(یہ کتاب رضا اکیڈمی رجسٹرڈ لا ہور پاکستان سے بھی شائع ہوئی ہے )
(۳) علماء و مشائخ سکندرپور: سکندرپور علماء و مشائخ کرام وبزرگان دین کا مرکز رہا ہے ۔ مگراب تک ان کے حالات کتابی شکل میں عوام کے سامنے نہیں آسکے تھے۔ مولانا نے کافی تگ و دَو اور محنت و مشقت سے یکجا کرکے،سکندر پور کے حالات عوام کے سامنے پیش کئے ۔ (مطبوعہ)
(۴) چالیس احادیث کا انمول تحفہ: اس کتاب میں چالیس احادیث منتخب کرکے کتابی شکل دی گئی ہے ۔ (مطبوعہ)

مقالات و مضامین
ان میں سےبیشتر کسی رسالے یا اخبار میں شائع ہوچکے ہیں
(۱) معجزات رسول ﷺ کی ایک جھلک
(۲)رسول اللہ ﷺ کی تاریخی حیثیت
(۳) مختصر حالات حضرت سرکار آسی
(۴)حضرت سرکار آسی کا وطن عزیز
(۵) حضرت آسی کی شاعری پرسرسری جائزہ
(۶)حضرت آسی بحیثیت شاعر
(۷)سکندر پورتاریخ کے آئینے میں
(۸)مختصر حالات حضرت دیوان جی قدس سرہ
(۹)خانقاہ رشیدیہ کی مثالی وامتیازی خصوصیات
(۱۰)حضرت فانیؔ گورکھ پوری کی ہمہ گیر شخصیت
(۱۱) مشائخ خانقاہ رشیدیہ کا اجمالی تعارف
(۱۲) مولانا وکیل احمد سکندر پوری کی ادبی خدمات
(۱۳) امام احمدرضا کا تبحر علمی
(۱۴) حضرت محدث ثناء اللہ کی عبقری شخصیت
(۱۵)مختصر سوانح حیات حکیم امیر احمد مشاہدیؔ
(۱۶) بلبل ہند کی دینی وملی خدمات
(۱۷)مختصر حالات حاجی الحرمین حضرت محمدعرف حاجی شاہ محمد
(۱۸)مختصر حالات حضرت مخدوم شیخ پور
(۱۹) ضلع مئو کی تاریخی حیثیت
(یہ مقالہ ریڈیو اسٹیشن گورکھ پور میں ۴؍ فروری ۱۹۹۹ء کو ریکارڈ ہوا ، اور ۱۶؍ فروری ۱۹۹۹ء ساڑھے نو بجے نشر ہوا)
(۲۰)اردو کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ کا کردار
(یہ مضمون گورکھ پور ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوا)
(۲۱) اردو ادب اور صوفیاےکرام
(۲۲) ہندوستان اور اردو ادب
(۲۳) یوم عاشورہ کاتاریخی پس منظر
(۲۴) فضائل شعبان المعظم
(۲۵)تاریخ مکہ مکرمہ
(۲۶)تاریخ مدینہ
(۲۷)عدل اسلامی اور ہندوستان
(۲۸) فضیلت نماز
(۲۹) حالات قادری
(۳۰) حالات حضرت مولانا آزاد سبحانی ، وغیرہ
بقیۃ السلف حضرت مولانا محمد عبد المبین نعمانی صاحب
دامت برکاتہم کے تأثرات
اصلاح رسوم نامی کتاب میں اس کے مرتب مولانا عبد الغفار نوری مصباحی استاذ دارالعلوم سرکار آسی ، سکندر پور، بلیا نے علمائے اہل سنت کی چند کتابوں سے اقتباسات لے کر ایک لڑی میں پرو دیا ہے، ضرورت ہے کہ اس اصلاحی کوشش سراہا جائے اوراس کی اشاعت و تقسیم میں حصہ لیا جائےتاکہ شادی بیاہ کی راہ سے جوخرابیاں پیدا ہوگئی ہیں وہ دور ہوں۔
ائمۂ مساجد حضرات سے گزارش ہے کہ اس کے مضامین پڑھ کر یا ذہن نشیں کرکے جمعہ کے بیانات میں سنائیں۔
(اصلاح رسوم ص ۹)
دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ قبول فرماے ، دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرماے،ان کی تالیفات کو قبولیت عامہ عطا فرماے، امت مسلمہ کو ان سےزیادہ سے زیادہ استفادۂ و افادہ کی توفیق بخشے۔
آمین، یا رب العلمین، بجاہ حبیبک سید المرسلین، علیہ وعلیہم الصلاۃ والتسليم

احمدالقادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی، ڈیلس ، ٹیکساس، امریکا
نظر ثانی: ۴ ؍محرم ۱۴۴۶ھ ؍۱۱ جولائی ۲۰۲۴ ء بروز جمعرات

مراجع و مآخذ
۱۔معلومات و مشاہدات از صاحب سوانح ، مولانا عبد الغفار اعظمی
۲۔سیرتِ رسول اعظم صفحہ ۸ تا۰ ۱
۳۔معلومات از مولانا حافظ محمد رضا بن مولانا عبد الغفار اعظمی
۴۔ذاتی معلومات و مشاہدات
۵۔اصلاح رسوم
۶۔ مکتوبات اعظمی

احمد القادری مصباحی
الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

صدر العلما، علامہ محمد احمد مصباحی

علامہ محمداحمدمصباحی دامت برکاتہم

صدرالعلماخیرالاذکیاحضرت علامہ محمداحمدمصباحی دامت برکاتہم القدسیہ، ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور، دور حاضر کی ایسی مثالی اور نابغۂ روزگار شخصیت ہیں، جن کو خدائے تعالیٰ نےبےشماراوصاف وکمالات سے نوازاہے ۔
آپ عالم اسلام کی ان چند شخصیتوں میں سے ایک ہیں جن کو انگلیوں پرشمارکیا جاسکتاہے ۔آپ کی حیات کا لمحہ لمحہ خدمت اسلام کےلیے وقف ہے آپ کانام اور کام برصغیر ہندوپاک میں محتاج تعارف نہیں ۔
خیرالاذکیامدظلہ نہایت صالح، نیک طینت، رقیق القلب، شریعت کےسخت پابند،اوراسوۂ رسول پر کار بندہیں ،کم خفتن ،کم گفتن ،کم خوردن آپ کا شیوہ ہے تصنیف وتالیف اور تعلیم وتعلم آپ کااوڑھنابچھونا ہے، اس دور میں آپ کی عظیم شخصیت کتاب وسنت کےمسندعلم ودانش کی نقیب بن کرابھری اور ابھرتی ہی چلی گئی ،یہاں تک کہ آسمان سنیت پر چھاگئی اوروہ وقت بھی آیاکہ اس ہستی کی عبقری شان دن کےاجالے کی طرح ،آسمان دنیاکےسامنے اجاگر ہوگئی اور قوم نے خیرالاذکیا، صدرالعلما، وقارعلم وحکمت کے مؤقرالقابات دےکرشہرہ آفاق، مرکزی ادارہ جامعہ اشرفیہ مبارک پورکے صدرالمدرسین پھر ناظم تعلیمات کا عظیم عہدہ آپ کوسونپ دیا۔
آپ کااسم گرامی محمداحمدہے، والدماجد محمدصابراشرفی (ولادت ۱۳۲۳ھ ۱۹۰۵ء۔م۵؍جمادالآخرہ۱۴۱۱ھ مطابق ۲۳؍دسمبر۱۹۹۰ء شب دوشنبہ۱۰بجے) ابن عبدالکریم مرحوم ابن محمداسحاق مرحوم ہیں۔
حضرت صدرالعلما ایک زمیں دار، دینی اسلامی خانوادے میں ۱۸؍ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ مطابق ۹؍ستمبر۱۹۵۲ء میںپیداہوئے۔
آپ کےوالدجناب محمدصابر اشرفی مرحوم دینی تعلیم کاوافر شوق رکھنے والے اور علما نواز شخص تھے ۔اسلام وسنیت میں نہایت پختہ، پابندصوم وصلوٰۃ، نہایت سادہ مزاج اورخداترس تھے،رفاہی کاموں سے کافی دلچسپی رکھتے اورمسلک اہل سنت وجماعت میں کافی سرگرم تھے۔
آپ سیدشاہ اشرف حسین کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے ۵؍جمادی الآخرہ ۱۳۴۵ھ کو پنجشبہ کےدن بیعت ہوئے۔
والدہ ماجدہ محترمہ تسلیمہ بنت عبدالرشید ابن عبدالصمد محلہ پورہ دیوان ،تقریباً۱۳۲۵ھ مطابق ۱۹۰۷ء میں پیداہوئیں اور بھیرہ میں ۱۵؍محرم الحرام ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۳؍نومبر۱۹۸۱ءبروز جمعہ ۱۰؍بج کر ۳۵؍منٹ پرقبل جمعہ، داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔اسی دن بعد نمازعصرجنازہ کی نماز چھوٹے صاحبزادے حضرت مولانا حافظ احمدالقادری نےپڑھائی۔حضرت علامہ مصباحی صاحب والدہ کے انتقال سےایک دن قبل بریلی شریف پیرومرشد حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی نمازجنازہ میں شرکت کےلیےجاچکےتھے۔دوسرے دن واپس آکروالدہ ماجدہ کی قبرپرحاضری دی اورفاتحہ پڑھی۔
والد ماجد محمدصابر اشرفی مرحوم اکابراہل سنت مثلا صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی(۱۲۹۶ھ مطابق ۱۸۷۸ء۔م۱۳۶۷ھ مطابق۱۹۴۸ء)حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز (۱۳۱۲ھ۔ م ۱۳۹۶ھ) شیخ العلماعلامہ غلام جیلانی اعظمی (۱۳۲۰ھ ۱۹۰۲ء۔ وفات ۶؍ربیع الاول ۱۳۹۷ھ ۲۵؍فروری ۱۹۷۷ء جمعہ)سلطان الواعظین علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی(۱۳۳۳ھ۔ م ۱۴۰۶ھ)شارح بخاری علامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی(۱۹۲۱ء۔ م ۶؍صفر ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء) علیہم الرحمہ وغیر ہم سے بڑے اچھے تعلقات تھےبعض اوقات خیرالاذکیا مدظلہ العالی بھی آپ کے ہمراہ ہوتے اورعلماےکرام سےاپنےہونےوالے اس جیدعالم دین بیٹے کےلیےدعائیں لیتے ۔بڑی ہی محنت ولگن کیساتھ آپ نے تعلیم دلوائی اوراس راہ میں آنےوالی ہرپریشانی کوخندہ پیشانی کیساتھ برداشت کیا مگرتعلیم وتربیت میں کسی طرح کاکوئی نقصان نہ آنےدیا۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ پھردرجہ سوم تک پرائمری تعلیم مدرسہ اسلامیہ رحیمیّہ بھیرہ میں ہوئی جسے شاہ رحیم اللہ فاروقی بھیروی علیہ الرحمہ نے ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۶ء میں قائم فرمایا۔حضرت شاہ صاحب بڑے علم دوست ،پختہ سنی تھے۔ہرجمعرات کو ان کے یہاں میلاد شریف کی محفل ہوتی اورہرسال حضرت شاہ ابوالخیربھیروی علیہ الرحمہ ؍ حضرت مخدوم شاہ اسماعیل بھیروی علیہ الرحمہ کاعرس بڑے تزک و احتشام کےساتھ منعقد کرتے۔
۱۸؍اپریل ۱۹۶۲ءبروزیکشنبہ مطابق ۴؍ذی قعدہ ۱۳۸۱ھ سے شعبان ۱۳۸۶ھ مطابق نومبر ۱۹۶۶ء تک ۵؍سال بڑے اطمینان وسکون ،محنت،لگن اورپوری توجہ کےساتھ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد میں ابتدائی فارسی سے شرح جامی تک تعلیم حاصل کی ۔
۱۰؍شوال ۱۳۸۶ھ مطابق ۲۲؍جنوری ۱۹۶۷ء دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور میں داخلہ لیا اور ۱۰؍ شعبان ۱۳۸۹ھ مطابق ۲۳؍اکتوبر۱۹۶۹ء مقتدرعلماومشائخ کےمبارک ہاتھوں دستارفضیلت باندھی گئی۔
دستارفضیلت کے بعد تدریس کےلیےایک جگہ آئی والدماجد نےتدریس کےلیےاجازت دے دی، مگر جب حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) کو معلوم ہواتو انہوں نے روکااور یہ فرمایاکہ’’میں اور قیمتی بناناچاہتاہوں‘‘اس لیے آپ نےتدریس کاارادہ ترک کردیا،اوروالد ماجد کی اجازت سےپھرشوال ۱۳۸۹ھ مطابق دسمبر۱۹۶۹ء سے ربیع الآخر ۱۳۹۰ھ مطابق جون ۱۹۷۰ء تک دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم میں مزید تعلیم حاصل کی۔ واقعی حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ۔ م ۱۳۹۶ھ)نے جیسا فرمایا تھااس سے کہیں زیادہ قیمتی بنادیا۔
علامہ مصباحی کےاساتذہ کرام کے اسماحسب ذیل ہیں ۔
اساتذہ ضیاء العلوم خیرآباد
مولانامحمدعمرخیرآبادی،مولانا محمدحنیف مصباحی مبارک پوری ،مولانا محمد سلطان رضوی ادروی، مولاناغلام محمدبھیروی(۱۵؍مئی ۱۹۴۷ء۔م ۲۷؍صفر ۱۴۱۱ھ ؍۸؍ ستمبر ۱۹۹۱ء) حافظ قاری نثاراحمدمبارک پوری (وصال ۵ ؍شوال ۱۴۳۹ھ، ۲۱؍جون ۲۰۱۸ء)،ماسٹر اسراراحمدخاں ادروی، ماسٹر محمدرفیق مبارک پوری۔
اساتذہ جامعہ اشرفیہ
جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ الشاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری(ولادت ۱۳۱۲ھ۔ م ۱۳۹۶ھ) حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی(۱۹۱۳ء۔ م ۱۳۹۱ھ؍۱۹۷۱ء)قاضیٔ شریعت حضرت مولانامحمدشفیع مبارک پوری (۱۳۴۴ھ۔ م ۱۴۱۱ھ؍۱۹۹۱ء) بحر العلوم مفتی عبدالمنان اعظمی(۱۳۴۴ھ۔ م ۱۵؍محرم ۱۴۳۴ھ) حضرت مولاناقاری محمدیحییٰ صاحب مبارک پوری(۱۹۲۴ء۔ م ۲۶؍ذی الحجہ ۱۴۱۶ھ؍۱۹۹۶ء)حضرت مولاناسیدحامداشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ (م۱۸؍صفر ۱۴۲۵ھ) مولانامظفر حسن ظفرؔادیبی،مولانااسرار احمد لہراوی ۔

اسناد

(۱)سندتجوید
(۲)سندفضیلت درس نظامی ۱۳۸۹ھ ؍۱۹۶۹ء(جامعہ اشرفیہ)
(۳)مولوی ۱۹۶۶ء (عربی فارسی بورڈ اترپردیش)
(۴)عالم ۱۹۶۸ء
(۵)فاضل دینیات ۱۹۷۵ء
(۶)فاضل ادب ۱۹۷۷ء
(۷)فاضل طب ۱۹۸۰ء
(۸)منشی ۱۹۸۱ء
(۹)منشی کامل ۱۹۸۳ء۔ (عربی فارسی بورڈ اترپردیش)

تدریسی خدمات

ربیع الآخر۱۳۹۰ھ مطابق جون۱۹۷۰؁ءمیںبحکم حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ۔ م ۱۳۹۶ھ) اشرفیہ چھوڑ کر، حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی (۱۹۱۳ء۔ م ۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱ء)اورحضرت قاری محمدیحییٰ صاحب علیہماالرحمۃ(۱۹۲۴ء۔ م ۲۶؍ذی الحجہ ۱۴۱۶ھ/۱۹۹۶ء) کی ہم رکابی میں دارالعلوم فیضیہ نظامیہ، باراہاٹ، اشی پور،ضلع بھاگل پور،براے تدریس تشریف لے گئےیہاں شعبان۱۳۹۱ھ اکتوبر۱۹۷۱ء تک رہے،پھر مولانا حافظ قاری فضل حق مصباحی غازی پوری کے توسط سےمدرسہ عربیہ فیض العلوم جمشید پور تشریف لاے (زمانۂ تدریس دسمبر ۱۹۷۱ءتانومبر۱۹۷۶ء) اس کے علاوہ دارالعلوم نداے حق جلال پورفیض آباد(زمانہ ٔ تدریس ذی الحجہ ۱۳۹۶ھ دسمبر ۱۹۷۶ءتاشوال ۱۳۹۸ھ ۱۷؍ستمبر ۱۹۷۸ء)مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گہنہ(زمانہ تدریس شوال ۱۳۹۸ھ ۱۹۷۸ءتا۸؍شوال ۱۴۰۶ھ جون ۱۹۸۶ء) میںپھر۹؍شوال ۱۴۰۶ جون ۱۹۸۶ء سے شہرۂ آفاق مرکزی ادارہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں۔منصب صدارت پر یکم اگست ۲۰۰۱ءتاجون ۲۰۱۴ء فائزرہے اور جون۲۰۱۴ءمیں ریٹائرڈ ہونے کے بعد جامعہ اشرفیہ ہی میںنا ظم تعلیمات کی حیثیت سے سرگرم عمل ہیں ۔

تصانیف

۱-تدوین قرآن-اردو
۲-امام احمدرضااورتصوف-اردو
۳-تنقیدمعجزات کا علمی محاسبہ-اردو
۴-شادی اورآداب زندگی–اردو
۵-المواہب الجلیل لتجلیۃ مدارک التنزیل -عربی
۶-حدوث الفتن وجہاداہل السنن۱۳۲۱ھ-عربی
۷-حاشیہ جدالممتارالجزءالثانی-عربی
۸-امام احمدرضاکی فقہی بصیرت- اردو
۹-معین العروض-اردو
۱۰-فرائض وآداب متعلم ومعلم-اردو
۱۱-خلفاےراشدین اوراسلامی نظام اخلاق-اردو
۱۲-رسم قرآنی اوراصول کتابت-اردو
۱۳-رہنماےعلم وعمل-اردو
۱۴-شرک کیاہے-اردو
۱۵-امام احمد رضا کی زندگی کے چند تابندہ نقوش

تراجم،تصحیح،تقدیم،تحشیہ،تسہیل، تحقیق ،خطبات

[۱]وشاح الجیدفی تحلیل معانقۃ العید(معانقۂ عید)
[۲]جمل النورفی نہی النساءعن زیارۃ القبور(مزارات پرعورتوں کی حاضری)
[۳] صیانۃ المکانۃ الحیدریۃ عن وصمۃ عہدالجاہلیہ(براءت علی ازشرک جاہلی)
[۴] مقامع الحدید علی خدالمنطق الجدید(فلسفہ اوراسلام)
[۵] ہادی الناس فی رسوم الاعراس (رسوم شادی)
[۶]جدالممتاراول ،ثانی
[۷] الکشف شافیافی حکم فونوجرافیاعربی
[۸] وصاف الرجیح فی بسملۃ التراویح(تعریب)
[۹]قصیدتان رائعتان
[۱۰]جہان مفتی اعظم
[۱۱]جہان انوارمفتی اعظم
[۱۲]بہارشریعت حصہ۱۶ (اسلامی اخلاق وآداب)
[۱۳] فتاویٰ رضویہ جدید۔اول،سوم ،چہارم، نہم( عربی وفارسی عبارتوں کااردوترجمہ)
[۱۴]تاب منظم ،ترجمہ قصیدہ اکسیر اعظم و مجیر اعظم
[۱۵]انوارآفتاب صداقت
[۱۶] انوار ساطعہ۔
[۱۷] تقدیر و تدبیر
[۱۸]امام احمد رضا اور جہان علوم ومعارف اول دوم سوم ، تین جلدیں(ترتیب وتحقیق)-اردو
[۱۹] نواے دل (مجموعۂ خطبات)-اردو
[۲۰]خطبات صدرالعلما-اردو-زیرترتیب
[۲۱] مقالات صدرالعلما-اردو-زیرترتیب
جملہ تصانیف میں مواہب الجلیل حاشیۂ مدارک التنزیل، تقدیم وتحشیہ جدالممتارثانی اورحدوث الفتن وجہاد اعیان السنن بزبان عربی آپ کےبیش بہا علمی وقلمی شاہکارہیں جس کے زریں صفحات میں حقائق ومعارف کا ایک سمندر موجزن ہےان تحقیقات نادرہ پرارباب علم وقلم اوراصحاب فکرودانش نے دلی مسرت وشادمانی کااظہارکیاہے۔
ان مصنفات کےعلاوہ کثیرمعیاری وقیع مضامین مشہورجرائدورسائل میں اشاعت پذیرہوتے رہے۔

اولاد

دوصاحبزادے عالم طفولیت ہی میں انتقال کرچکےہیں۔
۱-شمیم رضا عرف غلام جیلانی(پیدائش:۲۰؍ شوال ۱۳۹۱ھ ۲۱؍دسمبر ۱۹۷۰ء دوشنبہ بعد مغرب، وفات: ۲۲؍صفر ۱۳۹۵ھ ۶؍مارچ ۱۹۷۵ء ، جمعرات ساڑھے ۹ بجے دن)
۲۔ محمد احمد( ولادت: ۲۴؍ ربیع الآخر ۱۳۹۸ھ، ۳ ا؍پریل ۱۹۷۸ ء دوشنبہ بوقت مغرب ۔وفات: ۲۰ شعبان ۱۳۹۸ھ، ۲۷ جولائی ۱۹۷۸ء، جمعرات، سوا ۸ بجے، صبح)
تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں بقیدحیات ہیں
۱-سالمہ خاتون قاسمہ (ولادت: ۲۱ ؍شوال ۱۳۹۹ھ جمعہ،سالمہ خاتون قاسمہ سے، سال ولادت۱۳۹۹ھ نکلتاہے)
۲-مولانا محمدعرفان رضامصباحی (عرفان رضا سے، سال ولادت۱۳۹۷ھ نکلتاہے)
۳-سعیدہ خاتون
۴-مبارک حسین رضوی(مبارک حسین رضوی سے، سال ولادت۱۴۰۷ھ نکلتاہے)
۵-مولانافیضان رضاامجدمصباحی(فیضان رضاامجدسے، سال ولادت۱۹۹۰ء نکلتاہے)
۶-ام الخیرفاطمہ
سالمہ خاتون ،راقم الحروف محمدابوالوفارضوی ابن عبدالرضامرحوم سابق ناظم مدرسہ عزیزیہ خیرالعلوم بھیرہ کےعقدمیں ہیں، جن کے بطن سےچاربچیاں بنام ۱-زہرااختری۲-ذاکرہ بتول احمدی۳-شگفتہ تارکہ۴-تائبہ رضوی اورایک لڑکامحمدسعید اختر عرف خوش تر تقی بقیدحیات ہیں۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

تلامذہ

آپ کےتلامذہ کی تعداد توبہت کثیرہےجسے احاطۂ تحریر میں لانامشکل ہے تاہم چند مشاہیرتلامذہ کےاسما حسب ذیل ہیں۔
۱-حضرت علامہ و مولانا محمدنصراللہ رضوی علیہ الرحمہ (۱۵؍فروری ۱۹۵۶ءم ۴؍محرم ۱۴۳۵ھ /۹؍نومبر ۲۰۱۳ء)
۲-حضرت مولانا عبدالغفارمصباحی استاذ مدرسہ ضیاءالعلوم خیرآبادضلع مئو ورکن المجمع الاسلامی مبارک پور
۳-حضرت مولانا محمدعارف اللہ خاں فیضی، استاذ مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گہنہ
۴-حضرت مولانا مفتی احمدالقادری صاحب قبلہ، سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۵-حضرت مولانا سیدمحمدفارو ق صاحب، صدرشعبۂ افتاجامعہ حنفیہ بجرڈیہہ بنارس
۶-حضرت مولانا مبارک حسین مصباحی، ایڈیٹرماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور
۷-حضرت مولانا ناظم علی رضوی مصباحی، استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۸-حضرت مولاناصدرالوریٰ مصباحی، استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۹-حضرت مولانامحمدنظام الدین مصباحی، استاذ دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی
۱۰-حضرت مولانامفتی آل مصطفیٰ مصباحی، استاذ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی
۱۱-حضرت مولانامفتی شمشاداحمدصاحب، استاذ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی
۱۲-حضرت مولاناعالم گیر مصباحی، دارالعلوم اسحاقیہ جودھ پورراجستھان
۱۳-حضرت مولانانفیس احمدمصباحی، بارہ بنکوی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۱۴-حضرت مولانااختر حسین فیضی، جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۱۳-حضرت مولاناساجد علی مصباحی، جامعہ اشرفیہ مبارک پور

عنایات بزرگاں

حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ)ایک مرتبہ آپ کےگھرتشریف لاےتوآپ کے والد گرامی جناب محمد صابر اشرفی مرحوم نے دوران گفتگوحضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) سے عرض کیاحضور!ہمارے مولوی صاحب کوبھی اچھا عالم بنائیےگا۔ارشاد فرمایا ان شاء اللہ ایساہی ہوگا۔
حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) کی دعاؤں کایہ اثرہےکہ آپ کرداروعمل ،گفتارورفتار،علم وحکمت اور دینی خدمات کی انجام دہی میںاپنے ہم عصروں میں ممتاز نظرآتےہیں۔
۲۰۰۳؁ءکےعرس مارہرہ شریف کےموقع پرحضرت سیدامین میاں دامت برکاتہ نے برسراجلاس ارشادفرمایاکہ حاشیہ والاکام حضرت علامہ مفتی محمداحمدمصباحی نے کیا یہ اور بات ہے کہ ان کے ساتھ ایک فوج ہے۔لیکن جب فوج جیت کرآتی ہے تونام کمانڈرکاہوتاہے۔یہ کام مصباحی صاحب نے کیا۔ حضرت امین ملت نے آپ کو بڑے اعزازواکرام سےنوازا۔منبررسول پراس وقت حضرت امین ملت کے بغل میں بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبدالمنان علیہ الرحمہ رونق افروز تھے اور ٹھیک ان کے بغل میں حضرت خیرالاذکیاتھے۔
بروایت :ڈاکٹر شکیل احمد،مدینۃ العربیہ سلطان پور

رکن المجمع الاسلامی

المجمع الاسلامی (۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء) ایک شہرت یافتہ خالص تصنیفی اشاعتی دینی قومی ادارہ ہےجو چند علماے کرام پرمشتمل ایک کمیٹی کےماتحت ہے۔ اس تصنیفی واشاعتی ادارے کے انتظام وانصرام کی ذمہ داریوںکاسہرابھی حضرت خیرالاذکیا کے ہی سرہے۔اس اکیڈمی کےعزائم بہت بلندہیں ۔ علامہ مصباحی جواس اکیڈمی کے روح رواں ہیں شب وروز اس کی توسیع وترقی میں فی سبیل اللہ وقف ہیں۔

صدرانجمن امجدیہ

’’انجمن امجدیہ‘‘ بھیرہ کےخوش عقیدہ مسلمانوں کی ایک انجمن ہے ،جس کے صدراعلیٰ(۱۳۹۷ھ ۱۹۷۷ءسے تا حال) حضرت خیرالاذکیاہیں۔
۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء)میں اس انجمن کاقیام عمل میں آیا جس کے تحت ایک مدرسہ ہےبنام عزیزیہ خیرالعلوم (قائم شدہ۷؍رجب۱۳۹۸ھ ۱۳؍جون ۱۹۷۸ء شب چہار شنبہ بعدنماز عشا)
نیز اس کے تحت مدرسۃ البنات العزیزیہ خیرالعلوم(قیام ۱۴۲۸ھ/۲۰۰۳ء) دارالحفظ والقراءت اور کئی مساجد اور تنظیمیں قائم ہیں ۔سال میں ایک مرتبہ عید میلادالنبی ﷺ کےموقع پرجلسہ وجلوس کا اہتمام بھی کیاجاتاہےجس میں اہل دیار پورےجذبہ وشوق کےساتھ شریک ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ کچھ عوامی فلاحی کام بھی وقتاًفوقتاًہوتے رہتے ہیں۔
فدابھیروی نےادارہ اورصدرادارہ کےتعلق سے یہ قطعہ قلم بندکیاہے:

ہیں صدرعالمِ دوراں محمداحمد جب
توکس لیے یہ ادارہ نہ کامیاب رہے
فدابنے یہ علوم وفنون کا مرکز
جوذرہ اٹھے یہاں سےوہ آفتاب رہے

لحاظ اوقات

آپ کےنزدیک وقت کی بہت ہی قدروقیمت ہے آپ وقت کو ضائع نہیں ہونےدیتے بلکہ اسے کام میں استعمال کرتےہیں۔
برادر گرامی مولانا شاہ عالم مصباحی رضوی کا بیان ہے کہ حضرت کی بڑی صاحب زادی کے عقدکےموقع پرکسی خاص مجبوری کے تحت حاضری نہ ہوسکی توایک مرتبہ عدمِ شمولیت پرمعذرت کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں توشریک نہ ہوسکا ،شادی کی رسومات بحسن وخوبی سب بیت گئیں؟ تو فرمایاکیا بیت گئیںصرف وقت کانقصان ہوا۔
وقت کااتناپاس ولحاظ ہے کہ بیٹی کی شادی میں بھی غیرضروری اوقات کا صَرف ہونا آپ کے لیے بارِ خاطرہوا۔
آپ سرشت میں بڑے ہی خاموش طبع واقع ہوئے ہیں ۔مختصر اور بامعنی کلام آپ کی فطر ت ہے ۔تدبر،اخلاق ،عجزوانکساری اور قائدانہ صلاحیت ان کی ذات کے خاصے ہیں۔ایفاے عہد،عدل ومساوات،مزاج کی سادگی اورذات کی سادہ لوحی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

صدرالعلماکےنام حضورحافظ ملت کاگرامی نامہ

محب محترم مولوی محمداحمدزیدمجدکم——-دعاےخیروسلام مسنون
محبت نامہ ملا آپ کی سعادت مندانہ زندگی اور مخلصانہ محبانہ روش اس منزل پرہےکہ میرے حاشیہ خیال میں بھی غلطی وناراضگی کاکوئی گوشہ شوشہ نہیں۔
میں آپ کامخلص دعاگوہوں مولائےکریم ہمیشہ بصحت وسلامتی شادآباد رکھے دین متین کی نمایاں وممتاز خدمات انجام دلائے۔(آمین)
آپ کے متعلق میراخیال یہ ہے کہ ابھی آپ اشرفیہ کو کچھ وقت اوردیں توآپ اورزیادہ قیمتی ہوجائیںگے۔
چناں چہ آپ کےوالدصاحب سےمیں نےکہاتھاآپ کی اور آپ کے متعلقین کی جورائےہو ۔اگرآپ کو خالص پور کی جگہ پسندہےاورجاناچاہتےہیں تومیری اجازت ہے اپنےوالدصاحب کو سلام کہہ دیجئے۔
عبدالعزیزعفی عنہ ۲۱شوال ۱۳۸۹ ؁ھ

بیعت وارادت

۲۶؍صفر۱۳۹۳ھ مطابق یکم اپریل ۱۹۷۳ء بروزیکشنبہ بریلی شریف محلہ سوداگران رضوی دارالافتامیں، شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتیٔ اعظم ہندعلامہ الشاہ محمدمصطفیٰ رضاقادری بریلوی علیہ الرحمۃ (۱۳۱۰ھ ۱۸۹۲ء م ۱۴؍محرم ۱۴۰۲ھ /۱۹۸۱ء) سے بیعت وارادت کاشرف حاصل ہوا۔ اور ربیع الاول ۱۳۹۴ء کوسلسلہ معمریہ میں حضور حافظ ملت حضرت علامہ الحاج الشاہ عبدالعزیزمحدث مبارک پوری علیہ الرحمہ(۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) سے طالب ہوئے
مجاہد ملت، رئیس الاتقیاحضرت علامہ حبیب الرحمٰن قادری علیہ الرحمہ نےفیض العلوم جمشید پورمیں ’’دلائل الخیرات شریف‘‘اورجملہ اورادو اشغال کی سند اجازت عطافرمائی۔

خلافت

ڈاکٹر سید محمدامین میاںدام ظلہ جانشین خانقاہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے عرس قاسمی برکاتی کے موقع پر حضرت کو اجازت وخلافت عطافرمائی۔

زیارت حرمین شریفین

غالباً۱۹۹۵ءمیں پہلی بارزیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے۔دوسری مرتبہ ۲۰۱۶ء میں حج بیت اللہ کےلیے تشریف لے گئے،مدینہ منورہ اور بغداد معلی ہوتے ہوئے واپس ہوئے۔

صدرالعلما علماےاہل سنت کی نظر میں

(۱)قدرت نے انہیں ذہانت وفطانت اورقوت حفظ کے ساتھ مطالعہ کا ذوق شوق بہت زیادہ عطافرمایا،حفظ اوقات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیتے ہروقت مصروف ،یہی وجہ ہے کہ جملہ علوم وفنون میں مہارت تامہ رکھتے ہیں خصوصیت کےساتھ علم ادب میں اقران پر فائق ہیں۔
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہےہندوستان میں رضویات کا ان جیسا کوئی واقف کار نہیں ان سب پر مستزاد یہ کہ انتہائی متواضع ،منکسر مزاج،قناعت پسند، زاہد صفت بزرگ ہیں،شریعت کے پابند،شبہات تک سے بچنے والے، تقویٰ شعار فرد،صاحب تصانیف دانش ور ۔
از: فقیہ عصر شارح بخاری مفتی محمدشریف الحق امجدی علیہ الرحمہ
ماخوذ ابتدائیہ امام احمدرضا کی فقہی بصیرت
————————————-
(۲)فاضل جلیل محترم مولانا محمداحمدمصباحی زید لطفہ نے اس عظیم حاشیہ(جد الممتار) کا تعارف قلم بند فرماکر ایک اہم علمی فریضہ ادا کیا ہےایسے جلیل القدر حاشیہ کے تعارف کے لیے ایسے ہی جلیل القدر عالم کی ضرورت تھی،مولانامحمداحمد مصباحی ،الجامعۃ الاشرفیہ کےاستاذ المجمع الاسلامی کے رکن اوردارالعلوم فیض العلوم محمدآباد گوہنہ کے سابق پرنسپل ہیں ،وہ محقق بھی ہیں،مصنف بھی ہیں،مدرس بھی ہیں، مقرر بھی ہیںاورقلم کار بھی ان کی کئی نگارشات منظرعام پرآچکی ہیں جس سے ان کے تبحر علمی ،دینی وفقہی بصیرت اوردقت نظر کا اندازہ ہوتاہے۔فاضل موصوف سے راقم کا برسوںسے غائبانہ تعارف ہےلیکن اب یہ کیفیت ہوگئی ہے ؎

اے غائب از نظر کہ شدی ہم نشین دل

راقم فاضل ممدوح کی عنایات ونوازشات پیہم کا تہ دل سے ممنون ہے اوران کے خلوص للہیت ،عاجزی وانکساری سے متاثر، یہ خوبیاں علما میں عنقا ہوتی جارہی ہیں۔مولاتعالیٰ مولاناے محترم کے علمی فیوض وبرکات کو جاری وساری رکھے۔ آمین۔
از :پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد دام فضلہ، تقدیم،’’ امام احمد رضا کی فقہی بصیرت ‘‘
—————————-
علامہ محمداحمدمصباحی بھیروی حضرت حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) کےقابل فخر شاگرداوربرصغیر پاک وہند کی مایۂ ناز مادر علمی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ہندوستان کے شیخ الادب ہیں ۔آپ قدیم وجدید علوم کے ماہر کئی علمی تحقیقی کتب کے مصنف اور متر جم ہیں حضرت امام احمدرضا بریلوی رحمہ اللہ کے متعدد رسائل وفتاویٰ کو ترجمہ تحقیق اور تحشیہ کےبعد عام اردو خواں حضرات کےلیے آسان بناچکے ہیں، اس وقت فن لغت مبسوط اوروقیع کتاب تحریرکررہے ہیں۔
علامہ مصباحی امام احمدرضا خاں بریلوی قدس سرہ کی علمی شخصیت اور آپ کی تحقیقات جلیلہ کو علم ودانش کی دنیا میں متعارف کرانے میں نمایاں کردار اداکرنے والے ادارہ المجمع الاسلامی مبارک پور کے روح رواں ہیں ۔
از:محمدصدیق ہزاروی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور پیش لفظ۔فتاویٰ رضویہ سوم جدید
————————
علامہ محمداحمدمصباحی حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ)کی نگاہ کیمیا کا انتخاب اور ان کی پاکیزہ دعاؤں کاثمرہ ہیں ۔
بدرالقادری
بانی و مہتمم اسلامک اکیڈمی، ہالینڈ
————————-
ایک محمداحمدمصباحی اوردوسرے عبدالحکیم شرف قادری ان دونوں حضرات کے قلم میں، میں نےیہ خاص بات نوٹ کی کہ خالص درسگاہی ہونے کے باوجود یہ حضرات ایک شگفتہ اور معیاری نثر لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں ۔
اسید الحق عاصم قادری
مدرسہ عالیہ قادریہ ، بدایو ں شریف
جام نور اکتوبر ۲۰۰۷ءص ۴۵

سپاس نامے

(۱)
ہوالقادر
بخدمت گرامی منزلت فاضل جلیل عالم نبیل استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا محمد احمد صاحب مصباحی شیخ الادب الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ (یوپی)
————————————

نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی

آج مورخہ ۱۸؍ستمر ۱۹۸۸ء کو مدینۃ الاولیا بدایوں شریف میں، ہندوستان کاسب سے قدیمی مرکزی ادارہ مدرسہ عالیہ قادریہ مولوی محلہ جس کی تعلیمی خدمات، صدیوں پرمحیط ہیں جسے ایک طویل عرصہ سے جامع معقول و منقول حضرت علامہ محمد شفیع صاحب، مرتب از مرتبین فتاویٰ عالمگیری ،وبحرالعلوم حضرت مولانا محمد علی صاحب جانشین قاضی مبارک ،وحضرت شاہ عین الحق، وحضرت شاہ فضل رسول، وتاج الفحول حضرت شاہ محب رسول، وسرکار صاحب الاقتدارحضرت شاہ مطیع الرسول، ومفتی اعظم شاہ عاشق الرسول رضی اللہ تعالیٰ عنہم، جیسی شہرۂ آفاق ہستیوں اور آسمان علم وفضل کے درخشندہ ستاروں کی سرپرستی حاصل رہی ہے اوراس وقت جس کی زمام قیادت بقیۃ السلف، عمدۃ الخلف، شیخ طریقت حضرت مولانا الحاج حافظ عبدالحمید سالم القادری زیب سجادہ آستانہ عالیہ قادریہ مجیدیہ کےمبارک ہاتھوں میں ہے۔
نسیم صبح کے خوشگوار جھونکوں کی طرح ایک ایسی عظیم المرتبت شخصیت نے تشریف ارزانی فرمائی ہے جن کی ذات سراپا انجمن ہے ۔ دارالتصنیف ہویا دارالافتا، تحریرہویاادبی بزم،درس گاہ یا دانش کدہ، وہ ہرمیدان کے شہسوار ہیں اورہرمحفل کی شمع، اگر ایک طرف ان کے شاگردوں کاسیل رواں ہے تو دوسری طرف ان کی تحریر وتصنیف سے ہند اور بیرون ہند کی فضا مشک بار ہے۔
آپ کی تشریف ارزانی ہم لوگوں کے لیےنہایت بابرکت اورباعث مسرت ہے ۔ مدرسہ عالیہ کے ہم جملہ متعلمین حضرت کی کرم فرمائی کے ممنون ومشکور ہیں اورحضرت کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں ساتھ ہی اس بات کی بھی گزارش کرتے ہیں کہ حضور والا صفات اپنے چند پند آمیز کلمات سے ہم لوگوں کو نوازیں تاکہ وہ ہماری زندگی کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں، ساتھ ہی یہ تمنا ہے کہ حضور والا آئندہ بھی اسی طرح اپنی نوازشات سے مستفیض فرماتے رہیں گے۔

ہم نےکچھ اشک مسرت کے کیے ہیں حاضر
توجوچاہے تویہی اشک گہر ہوجائیں

فقط
طلبہ مدرسہ عالیہ قادریہ مولوی محلہ بدایوں شریف (یوپی)
۵؍صفرالمظفر ۱۴۰۹ھ مطابق ۱۸؍ستمبر۱۹۸۸ء روزیکشنبہ

(۲)
اعتراف خدمات

بموقع عرس قاسمی برکاتی بتاریخ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۰ء
بجناب عالی، عمدۃ المحققین، مولانا محمداحمد مصباحی مد ظلہ العالی صدرالمدرسین الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ یوپی ۔
——————————–
عصرحاضر میں سواد اعظم اہل سنت وجماعت میں ،وہ چند شخصیات جو بیک وقت علم وفضل ،بےنیازی،تفکر وتدبر اورمثبت ومتواظن فکر وعمل کی حامل ہیں ان میں حضرت مولانا محمد احمد مصباحی صدرالمدرسین الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی شخصیت بہت ہی نمایاں اورمنفرد ہے۔حضرت والا، جہاں ایک متبحر عالم ،باکمال مدرس،صاحب طرز نثرنگاراوربلند پایہ محقق ہیں وہیں دین وسنیت کےبے لوث خادم اوراخلاص وایثار کےسچے آئینہ دار ہیں۔آپ کی علمی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، جس کا احاطہ دشوار ہے۔خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے جن میں کچھ توایسی ہیں جن سے اہل نظر بخوبی واقف ہیں مگر انہی کی تہہ میں بہت سی ایسی خدمات بھی ہیں جوعام نگاہوں سے پوشیدہ ہیں جب کہ وہ آپ کی مخلصانہ جدوجہد ، جفاکشی اورعرق ریزی کانتیجہ ہیں۔
صاحب رائے اپنی دنیا میں مگن ،وقت کےقدردان ،تحقیقی نظر اورتعمیری فکر کے حامل ،کم گو اوربسیار جو ۔یہ تمام صفات آپ کی شخصیت میں مجتمع ہوکر آپ کو ہزاروں سے ممتاز اور نمایاں کردیتی ہیں۔ اہل سنت کی عظیم درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی صدارت ونظامت کے گراں بار فرائض کے ساتھ تحریروقلم اور علم وتحقیق کی دنیا سے خود کو جوڑے ہوئے ہیں،تدوین قرآن ،امام احمد رضا اور تصوف،معین العروض والقوافی،تنقید معجزات کا علمی محاسبہ ،تعارف جدالممتار ، حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن اور مواہب الجلیل لتجلیۃ مدارک التنزیل آپ کے قلمی وعلمی شاہ کار ہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کے متعدد رسائل کی توضیح وتسہیل اوران پر حواشی بھی آپ کا یاد گار کام ہے۔ اہل سنت کےمنفرد تصنیفی وتحقیقی ادارہ المجمع الاسلامی مبارک پور کی اپنے احباب کےساتھ تاسیس اوراس کی سرپرستی ،مجلس برکات کے ذریعہ تصنیف وتالیف اورتحقیق وحاشیہ نگاری کی قیادت ورہنمائی،تنظیم المدارس کاقیام اوراس کے تحت متوازن نصاب تعلیم کی تشکیل کلیدی کردار اورمجلس شرعی مبارک پور کی صدارت۔یہ سب ایسے زریں کارنامے ہیں جن میں سے ہرایک کے لیے الگ الگ گراں قدر ایوارڈ پیش کیاجانا چاہیے ۔ان تمام اوصاف کے ساتھ جو وصف حضرت مصباحی صاحب کو معاصرین میں ممتاز کرتاہے وہ علمی گہرائی کےساتھ اہل سنت وجماعت کی خاموش فکری تعمیر وقیادت ہے یہی وجہ ہے کہ اہل سنت وجماعت کے موجودہ اندرونی مسائل ونزاعات میں حضرت مصباحی صاحب کی رائے کی طرف سب کی نظراٹھتی ہے اوران کے مختصر جملے مطولات پر بھاری ہوتے ہیں اورمضطرب ذہنوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ثابت ہوتے ہیں ۔
اراکین آستانہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ان کے ان عظیم الشان کارناموں کے اعتراف میں ان کے حضور ہدیہ سپاس پیش کرتے ہوئے فخر وخوشی محسوس کرتے ہیں اورمستقبل میں آں موصوف سے دین و ملت کی بیش از بیش خدمات کی توقع کرتے ہیں،خداےتعالیٰ انھیں اس کی توفیق بخشے۔

ایں دعااز ما واز جملہ جہاں آمین باد
اراکین آستانہ عالیہ قادریہ برکاتیہ
بڑی سرکار مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ یوپی

بحکم حضرت صاحب سجادہ پروفیسر سید شاہ محمدامین میاں قادری برکاتی مدظلہ العالی

(۳)

بخدمت عالی خیرالاذکیا،عمدۃ المحققین، حضرت علامہ محمداحمد مصباحی حفظہ اللہ تعالیٰ 
سابق صدرالمدرسین وناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پوراعظم گڑھ
بموقع تحریری وتقریری مسابقہ طلباجامعہ صمدیہ پھپھوندشریف
۲۱؍۲۲؍محرم الحرام ۱۴۳۷ھ مطابق ۴؍۵؍نومبر ۲۰۱۵ء
——————————–
برصغیرہندوپاک کی جن شخصیتوں کو صحیح معنوں میں عبقری اورعہد ساز کہا جاسکتا ہے ان میں ایک نمایاں نام، خیرالاذکیا،عمدۃ المحققین ، عالم اجلّ، حضرت علامہ محمداحمد مصباحی حفظہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔آپ جماعت اہل سنت کے قدآور عالم دین ،بلند پایہ ناقد ومحقق ،صاحب طرز ادیب اوربافیض استاذ ومربی ہیں،زہدو تقویٰ،توکل واستغنا، تواضع وانکساری آپ کے نمایاں اوصاف ہیں آپ اپنی گوناگوں خصوصیات اوراوصاف وکمالات کی بنیاد پر اہل سنت کے سرخیل علمامیں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں ۔۱۸؍ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ کو ضلع اعظم گڑھ موجودہ ضلع مئو کےقصبہ بھیرہ ولیدپور میں آپ کی ولادت ہوئی مدرسہ رحیمیہ بھیرہ،مدرسہ اشرفیہ ضیاءالعلوم خیرآباد مئومیں ابتدائی تعلیم کےبعد ماہ شوال ۱۳۸۶ھ میں اہل سنت کی عظیم درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں داخلہ ہوا ۔جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں پوری توجہ اورلگن کےساتھ اکتساب علم کیااورحضور حافظ ملت کے علمی فیضان سے بہرہ مند ہوکر۱۳۸۹ھ میں فراغت حاصل کی۔دارالعلوم فیضیہ نظامیہ باڑا ہاٹ بھاگل پور،مدرسہ فیض العلوم جمشید پور،دارالعلوم ندائے حق جلال پوراور مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآبادگوہنہ میں اپنا علمی فیضان تقسیم فرمایا،۱۴۰۶ھ میں الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں آپ کا تقرر ہوا ،اگست ۲۰۰۱ء تک بحیثیت استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں خدمات انجام دیتے رہے،۲۰۰۱ء میں تعلیمی امور میں درک ومہارت ،اعلیٰ فکروتدبر،حد درجہ دیانت اورفرض شناسی کی بنیاد پر آپ کو الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کا صدرالمدرسین منتخب کیا گیا،۲۰۰۱ءسے ۲۰۱۵ء تک آپ نے صدارت کے فرائض بحسن وخوبی انجام دیے، آپ کاعہد صدارت الجامعۃ الاشرفیہ کاعہدزرین کہلاتاہے۔آپ نےاپنی فکر رسااوراعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کےذریعہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے تعلیمی معیار کو بام عروج تک پہنچایا،جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں اعلیٰ تعلیمی نظم ونسق آپ کی مخلصانہ کدوکاوش کارہین منت ہے۔
خیرالاذکیاعلامہ محمداحمد مصباحی حفظہ اللہ تعالیٰ مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے صدراعلیٰ ،مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے نگراں اورالمجمع الاسلامی مبارک پور کے بانی ورکن ہیں،آپ اپنے ان تمام عہدوں کےفرائض کو پوری دیانت کےساتھ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ،مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ذریعہ درسی کتب کےحواشی اورتعلیقات کےساتھ از سرنو اشاعت کا عظیم کام آپ ہی کی سرپرستی میں انجام پارہاہے۔
خیرالاذکیاعلامہ محمداحمد مصباحی حفظہ اللہ تعالیٰ تصنیف وتالیف کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں عربی اور اردو زبان میں یکساں عبور حاصل ہے،آپ کی تحریریں تحقیقی ہونے کےساتھ ساتھ ادب کا بھی اعلیٰ شاہکار ہوتی ہیں ،رواں دواں نثرلکھتے ہیں، آپ کے زر نگار قلم سے دس سے زائد کتابیں اردو اورعربی زبان میں معرض وجود میں آچکی ہیں،جن میں ،حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن ،تدوین قرآن ،معین العروض،مواہب الجلیل لتجلیۃ مدارک التنزیل،امام احمدرضا اورتصوف ، امام احمد رضا کی فقہی بصیرت جدالممتار کے آئینے میںخاص طور
سے اہمیت کی حامل ہیں، آپ نے ایک درجن سے زائد کتب کو اپنے حواشی ،تقدیم اورتصحیح کےساتھ المجمع الاسلامی مبارک پور سے شائع کیا،آپ کی تصنیف حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن عرب وعجم میں بہت مقبول ہوئی،مصر کے ایک عالم شیخ خالد ثابت مصری نے متاثرہوکراسے اپنے مطبع دارالمقطم مصرسے شائع کیا،انھوں نے اس کتاب پر تاثر پیش کرتے ہوئے کہاکہ اگراس کے مصنف مولانامحمداحمد مصباحی کوئی اورکتاب نہ لکھتے تو صرف یہی ان کے لیے کافی ہوتی، اوران کے حق میں نبی کریم ﷺ کی یہ بشارت ثابت ہوتی کہ آخری زمانے میں میری امت کو شدید بلا پہنچے گی، جس سے وہی شخص نجات پائے گا جس نے اللہ کا دین پہچان لیا ،پھر اپنی زبان اوردل سے اس پرجہاد کیا،تووہی ہے جس کے لیے سبقت کرنےوالے انعام ثابت ہوں گے۔
آپ شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا قادری نوری علیہ الرحمہ سے بیعت وارادت رکھتے ہیں اوراعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی قدس سرہ کی تصانیف کی اشاعت اورتسہیل وتخریج سے حد درجہ شغف رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آپ نے فتاویٰ رضویہ کی جلد اول ،سوم،چہارم اورنہم کی عربی وفارسی عبارتوں کا ترجمہ کیا،جدالممتار ،مقامع الحدید علی خدالمنطق الجدید ،اور مجیرمعظم کو پہلی بار اپنے اشاعتی ادارہ المجمع الاسلامی مبارک پور سے شائع کیا،بخاری شریف پر اعلیٰ حضرت کی تعلیقات کو بھی مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پورسے پہلی بار شائع کیا، فکر رضا کی ترسیل واشاعت کے حوالے سے ایک مکمل لائحہ عمل رکھتے ہیں۔
آپ علم وعمل کے ساتھ اپنے اخلاق وکردار کےاعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہیں ،کشادہ قلبی،اعلیٰ ظرفی،خندہ روئی،صبروضبط اورسادگی وتکلفی آپ کی فطرت ہے،قحط الرجال کے اس دور میں آپ کی شخصیت ملت اسلامیہ کے لیے ایک عظیم نعمت ہےجس کی جتنی قدرکی جائے کم ہے۔ہم بہت شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہماری دعوت پر طلباکے مسابقےمیں فیصل کی حیثیت سے شرکت کی اورسفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے ساتھ اپنا قیمتی وقت دے کر ہمارے ادارے کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرف یاب کیا،اللہ تعالیٰ آپ کے علم وفضل میں بےپناہ ترقی عطافرمائےاورحاسدین کےحسد سے محفوظ فرمائے،آمین بجاہ حبیبہ سید المرسلین ۔
سید محمدانور چشتی
خادم جامعہ صمدیہ، دارالخیر، پھپھوند شریف ،آستانہ عالیہ صمدیہ مصباحیہ، پھپھوند شریف

(۴)

سپاس نامہ حافظ ملت ایوارڈ
بخدمت گرامی صدرالعلما،عمدۃ المحققین حضرت علامہ محمداحمد مصباحی دام ظلہ العالی
ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
———————————-
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم

نہایت ہی مسرت کی بات ہے کہ’’ تنظیم ابناے اشرفیہ‘‘مبارک پورآج ۴۳؍ویں عرس عزیزی کے مبارک موقع پر صدرالعلما،عمدۃ المحققین حضرت علامہ محمداحمد مصباحی دام ظلہ کی گوناگوں دینی وعلمی،تعمیری وتنظیمی،تربیتی واصلاحی اور تدریسی وتصنیفی خدمات کے اعتراف میں’’ حافظ ملت ایوارڈ ‘‘تفویض کررہی ہے۔
آپ کی ولادت ۱۸؍ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ مطابق ۹؍ستمبرکو سہ شنبہ کےدن بھیرہ ولیدپور ضلع اعظم گڑھ (حال ضلع مئو) یوپی میں ہوئی ۔آپ کے والد ماجد جناب محمد صابراشرفی مرحوم (متوفیٰ ۱۴۱۱ھ ۱۹۹۰ء)اسلام وسنیت میں بڑے متصلب پابند صوم صلوۃ نہایت سادہ مزاج اورخداترس تھے۔
حضرت صدرالعلما مدظلہ العالی نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ محترمہ تسلیمہ بنت عبدالرشید بن عبدالصمد (محلہ پورہ دیوان مبارک پور)سے گھر ہی میں حاصل کی ،پھردرجہ سوم تک پرائمری تعلیم مدرسہ اسلامیہ رحیمیہ بھیرہ میں ہوئی، درجہ سوم پڑھنے کے بعد ۸؍اپریل ۱۹۶۲ءمطابق ۴؍ذی قعدہ ۱۳۸۱ھ کو مدرسہ اشرفیہ ضیاءالعلوم خیرآباد ضلع مئو میں داخلہ لیا اورپانچ سال تک وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۰؍شوال ۱۳۸۶ھ مطابق ۲۲؍جنوری ۱۹۶۷ء دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور میں داخلہ لیا اور۱۰؍شعبان ۱۳۸۹ھ مطابق ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۹ء کو علما ومشائخ کے ہاتھوں دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔
دستار فضیلت کے بعد تدریس کے لیے ایک جگہ آئی والد ماجد نے تدریس کے لیے اجازت دیدی مگر جب آپ کے استاذ گرامی حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کو معلوم ہواتو انھوں نے روک دیا اورفرمایاکہ ’’میں انھیں اورقیمتی بنانا چاہتاہوں‘‘پھر آپ نے تقریباً ایک سال دارالعلوم اشرفیہ ہی میں رہ کر مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،اس مختصر سی مدت میں حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان نے انھیں اتنا قیمتی بنادیاکہ اب ان کی درس گاہ فیض سے مستفیض ہونے والے بھی قیمتی ہوجاتے ہیں ۔
تعلیم سے فراغت کے بعد دارالعلوم فیضیہ نظامیہ ،بارا ہاٹ اشی پورضلع بھاگل پور بہار،مدرسہ فیض العلوم جمشید پور،دارالعلوم ندائے حق جلال پور، ضلع امبیڈ کر نگر اور مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گوہنہ ضلع مئو میں تدریسی خدمات انجام دیں، مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد میں ۱۹۷۸ءسے ۱۹۸۶ءتک ۹؍سال صدرالمدرسین کی حیثیت سے نہایت ذمہ داری کے ساتھ تعلیم وتربیت کافریضہ انجام دیا۔پھر ۹؍شوال ۱۴۰۶ھ جون ۱۹۸۶ء کو برصغیر کی سب سے عظیم اور بافیض درس گاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شیخ الادب والتفسیر کی حیثیت سے تقرر ہوا اور نائب صدرالمدرسین کے منصب پر رہتے ہوئے جامعہ کے نظام تعلیم وامتحان میں ایسی شان دار اورنمایاں تحسین واصلاح فرمائی کہ دینی مدارس کی دنیا میں آپ ایک عظیم ماہر تعلیم اور بے مثال ناظم امتحان کی حیثیت سے مشہور ہوگئے۔
جولائی ۲۰۰۰ءجون ۲۰۱۴ءتک ۱۴؍سال آپ جامعہ اشرفیہ کے صدرالمدرسین کے عہدے پر فائز رہے اور اخلاص وللہیت کے ساتھ شب وروز کی محنت وجانفشانی سے جامعہ کا تعلیمی اور امتحانی نظام اوج ثریا تک پہنچادیا ۔آپ کی صدارت کے زمانے میں جامعہ میں تخصص فی الحدیث ،تخصص فی الادب اور تقابل ادیان جیسے عظیم تعلیمی وتحقیقی شعبوں کا اضافہ ہوا ،اور مجلس برکات جیسا تحقیقی وتصنیفی اور اشاعتی شعبہ قائم ہوا جس سے نئی درسی کتابوں کی تالیف کے ساتھ بہت سی قدیم درسی کتابوں کی تعلیقات ،حواشی اور شرحیں بھی لکھی گئیں،اوراس کے زیر اہتمام اب تک سو سے زائد درسی کتابیں چھپ کر اہل علم سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔ یہ سارا کام آپ کی بافیض رہنمائی ،نگرانی،اوراصلاح ونظرثانی کی برکت سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچا۔
آپ کے دور صدارت ہی میں مجلس شرعی جیسے بےمثال علمی فقہی اورتحقیقی شعبے کی نشاۃ ثانیہ بھی ہوئی جس کے زیراہتمام اب تک ۲۴؍فقہی سمینار ہوچکے ہیں ، جن میں اَسّی سے زائد جدید،پیچیدہ اورمشکل فقہی مسائل کے فیصلے ہوچکے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں عہدۂ صدارت سے سبک دوشی کے بعد جامعہ کے ذمہ داروں نے ناظم تعلیمات کااہم منصب آپ کو تفویض فرمایاجس کے بجاطور پر آپ حق دار تھے۔
آپ کے عہد صدارت ہی میں ۲۰۰۸ء میں تنظیم المدارس کا قیام عمل میں آیا، جس کا اہم مقصد دینی مدارس کو باہم مربوط کرنا اوریکساں نصاب تعلیم سے جوڑ ناہے ،اسی کے زیر اہتمام ایک نصاب ساز کمیٹی کی تشکیل ہوئی جس نے کامل غوروخوض کے بعد مدارس کے قدیم نصاب میں ضروری اور مفید اصلاح وترمیم کی ، اس کی سرخیل اورروح رواں حضرت علامہ محمداحمد مصباحی مدظلہ ہی تھے ۔
جامعہ اشرفیہ میں تقررسے پہلے ہی آپ نے اپنے مخلص رفقا کےساتھ مل کر المجمع الاسلامی جیسے تحقیقی ،تصنیفی اور اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی جس سے اب تک درجنوں دینی واسلامی کتابیں شائع ہوچکی ہیں یہ ادارہ تحقیق وتصنیف کا مزاج رکھنے والے نوجوان علما کے لیے علم وتحقیق اور تصنیف و تالیف کےسفر میں سنگ میل ثابت ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو تصنیف وتحقیق کی بےمثال صلاحیت عطافرمائی ہے، اب تک آپ کے قلم سے کثیرعلمی وتحقیقی مقالات کےساتھ عربی اور اردو میں درجنوں کتابیں معرض تحریر میں آچکی ہیں،جن میں تدوین قرآن ،امام احمد رضا اور تصوف،تنقید معجزات کا علمی محاسبہ ،امام احمد رضا کی فقہی بصیرت اور حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔حدوث الفتن کو علمی دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی یہ عربی کتاب رضا اکیڈمی ممبئی ،مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور کےساتھ ہی دارالمقطم قاہرہ مصر اور دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان سے بھی چھپ چکی ہے۔
آپ کے اوصاف حمیدہ میں خلوص وایثار،امانت ودیانت،تقویٰ وپرہیز گاری،احساس ذمہ داری ،خوداعتمادی وخود داری،نماز باجماعت کی پابندی، اورادو وظائف اورسنن ونوافل پراستقامت ،کاموں میں سرعت،تحریرمیں فصاحت، زبان وبیان میں بلاغت،تقریرمیں اختصار وجامعیت ،علوم فنون میں مہارت، مسائل میں باریک بینی ونکتہ سنجی،معانی میں گہرائی وگیرائی،ظاہر وباطن میں یکسانیت،دین داروں سے محبت ،بےدینوں سے نفرت،حق گوئی وبےباکی، رعب ودبدبہ ،عالمانہ وقار اورزاہدانہ اوصاف بہت نمایاں ہیں۔لایعنی مصروفیتوں سے اجتناب اورحفظ اوقات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔علم دین کی تعلیم خالصاً لوجہ اللہ دیتے ہیںاورطلبہ میں دینی ،علمی،عملی اورانسانی وقلمی صلاحتیں پیداکرنے میں ممکنہ تدابیر عمل میں لاتے ہیں۔
رب کریم سے دعاہے کہ وہ اپنے محبوبان بارگاہ کےصدقے آپ کو عمر خضر عطافرمائے آپ کا علمی وعملی فیضان اسی طرح جاری وساری رکھے اورآپ کو مزید خدمات جلیلہ مقبولہ کی توفیق عطافرمائے،آمین
عبدالحفیظ عفی عنہ
صدر تنظیم ابناے اشرفیہ وسربراہ اعلیٰ
جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
یکم جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ ، ۱۸؍فروری ۲۰۱۸ء شب دوشنبہ

اوصاف حمیدہ

آپ کواللہ تعالیٰ نےاپنےخاص فضل وکرم سے اوصاف حمیدہ اور خصائص جمیلہ کادھنی بنایاہے۔ خلوص وایثار،جودوکرم،امانت
ودیانت،تقویٰ وپرہیز گاری،احساس ذمہ داری،خوداعتمادی وخود داری،عہدوپیمان میں پختگی، حفظ اوقات،جماعت کی پابندی، اورادووظائف اورسنن ونوافل پراستقامت،کاموں میں سرعت، تحریر میں فصاحت، زبان وبیان میں بلاغت،تقریرمیں اختصار وجامعیت، علوم وفنون میںمہارت، مسائل میں باریک بینی ونکتہ سنجی،معانی میں گہرائی وگیرائی، ظاہرو باطن میں یکسانیت، دین داروں سےمحبت،بےدینوں سے نفرت، بدمذہبوں سےاجتناب، بزرگوںکا احترام، اکابرکاادب، اصاغر پرشفقت، مقدمات کے فیصلے میں دوربینی، ہمت وشجاعت، حق گوئی وبےباکی، رعب و دبدبہ،عالمانہ وقار،نظم ونسق میں کمال،افہام وتفہیم کا ملکہ،بےلوث خدمات کا جذبہ اور اعمال وکردار کے اعلیٰ نمونےجویہاں دیکھے،کم دیکھنےمیں آئے۔(مولاناعبدالغفاراعظمی مصباحی ،فتنوں کاظہور اوراہل حق کا جہاد ص ۱۳)
(تذکرہ علماے بھیرہ ولید پور ،از مولانا محمد ابولوفا رضوی، صفحہ ۱۱۰ تا ۱۴۱ ملخصاً و تصرفاً)

نوٹ: مزیدتفصیل کے لئے علامہ محمد احمد مصباحی ، احوال وافکار کامطالعہ فرمائیں، جو اُن کے احوال میں ۵۶۰ صفحات پر مشتمل ، مولانا توفیق احسن برکاتی مصباحی مدظلہ العالی کا قلمی شاہکار ہے۔

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حضور مفتی اعظم ہند کی مختصر حیات مبارکہ
ولادت:۲۲ ؍ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۷؍جولائی ۱۸۹۳ء ۔ وصال ۱۴؍ محرم ۱۴۰۲ ھ ۱۲ ؍ نومبر۱۹۸۱ ء

[از احمد القادری مصباحی]

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ولادت: آفتابِ علم و معرفت ، ماہتابِ رشد و ہدایت ، واقفِ اسرار شریعت ، دانائے رموز ِحقیقت ، تاجدارِ اہلسنت جامعِ معقول و منقول ، حاویٔ فروع و اصول، شمس العارفین ، نائب سید المرسلین ، متکلم ابجل ، محدث اکمل ، فقیہِ اجل مقتدائے عالم ، شہزادۂ مجدد اعظم، مولانا شاہ مصطفی رضا قادری نوری علیہ الرحمۃ والرضوان نے ۲۲ ؍ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۷؍جولائی ۱۸۹۳ء بروز جمعہ بوقت صبح صادق، بریلی شریف میں، اس خاکدان ِ گیتی پر قدم رکھا ۔
اسم گرامی: ولادت کے وقت والد ِ ماجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان مار ہرہ مقدسہ میں جلوہ افروز تھے ،وہیں رات میں خواب دیکھا کہ لڑکا پیدا ہوا ہے خواب ہی میں آل الرحمن نام رکھا ۔ حضرت مخدوم شاہ ابو الحسین احمد نوری جانشین حضرت شاہ آل رسول احمد مارہروی قدس سِرّہما نے ابو البرکات محی الدین جیلانی نام تجویز فرمایا، محمد کے نا م پر عقیقہ ہوا،ا ور مصطفی رضا عرف قرار پایا۔
دعاے امام:امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے بارگاہ ربُّ العزت میں ایک بار دعا کی تھی پرور دگار عالم ! مجھے ایسافرزند عطا فرما، جو عرصۂ دراز تک تیرے دین متین اور تیرے بندوں کی خدمت کرے ۔ لبہائے امام سے نکلی ہوئی دعا شرفِ قبولیت سے سرفراز ہوئی اور مفتی ٔ اعظم ہند کی شکل میں ارشاد و ہدایت کاآفتاب بن کر چمکی۔
تعلیم : بسم اللّٰہ خوانی کی رسم کے بعد امام اہلسنت، محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی نگرانی میں تعلیم و تربیت کاباضابطہ آغاز ہوا،اساتذہ میں مولانا شاہ رحم الٰہی منگلوری اور مولا نا بشیر احمد علی گڑھی علیہما الرحمہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
فتوی نویسی: بعد فراغت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ والرضوان کی حیات طیبہ ہی میں فتویٰ نویسی شروع کردی تھی ۔ اس کی ابتدا کاواقعہ قارئین کے لئے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا ۔ ابھی نوعمری کاعالم تھا کہ ایک دن آپ دارالافتا ء میںپہونچے ،دیکھاکہ حضرت مولانا ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ فتویٰ لکھ رہے ہیں ۔ مراجع کے لئے اٹھ کر فتاویٰ رضویہ، الماری سے نکالنے لگے ۔ فرمایا : کہ کیا فتاوٰی رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہو۔ مولانا نے فرمایا اچھا تم بغیر دیکھے لکھ دو تو جانیں ۔ آپ نے فوراً لکھ دیا وہ رضاعت کامسئلہ تھا۔ یہ آپ کا پہلاجواب تھاجو اپنی زندگی میں قلم بند فرمایا، اصلاح وتصحیح کے لئے جواب، امام اہلسنت کی خدمت میں پیش کیا گیا، صحتِ جواب پر امام اہلسنت بہت خوش ہوئے اور صح الجواب بعون اللہ العزیز الوہاب ۔ لکھ کر دستخط ثبت فرمایا ۔ یہی نہیں بلکہ انعام کے طور پر ابوالبرکات محی الدین جیلانی اٰآل الرحمن ، محمد عرف مصطفی رضاکی مہر مولانا حافظ یقین الدین علیہ الرحمہ کے بھائی سے بنوا کر عطافرمائی ۔ یہ واقعہ ۱۳۲۸ھ کاہے۔
اس کے بعد بارہ سال تک والد ماجد کی زندگی میں فتویٰ نویسی کرتے رہے جس کا سلسلہ قریباً آخر عمرتک جاری رہا۔
بشارت:حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری علیہ الرحمہ نے مفتیٔ اعظم ہند قدس سرہٗ کی ولادت باسعادت کی خبر پاکر امام اہلسنت سے فرمایا تھا۔ مولانا ۔ جب میں بریلی آئوں گا تو اس بچہ کو ضرور دیکھوں گا ۔ وہ بہت ہی مبارک بچہ ہے۔ چنانچہ جب آپ بریلی شریف رونق افروز ہوئے اس وقت مفتیٔ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی عمر صرف چھ ماہ کی تھی خواہش کے مطابق بچہ کو دیکھا، اس نعمت کے حصول پر امامِ اہلسنت کو مبارکباد دی اورفرمایا یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گا ،اور مخلوقِ خدا کو، اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا یہ بچہ ولی ہے۔ اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دینِ حق پر قائم ہوں گے یہ فیض کا دریا بہائے گا۔ یہ فرماتے ہوئے حضرت نوری میاں نے اپنی مبارک انگلیاں بلند اقبال بچہ کے دہن مبارک میں ڈال کر مرید کیا ’’اور اسی وقت تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی‘‘۔ حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ نے بچپن میں جو پیشن گوئی فرمائی تھی، حرف بحرف ثابت ہوئی۔ آپ نے خدمت خلق کے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے آج کے زمانہ میں اس کی مثال مفقود ہے ۔
ایک واقعہ: برادر بزرگ حضرت مولانا محمد احمد صاحب قبلہ مصباحی آنکھوں دیکھا حال بیان فرماتے ہیں۔
جن دنوں وہ فیض العلوم جمشید پور میں تھے۔ حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ ایک بار تشریف لائے واپسی کے وقت علامہ ارشد القادری مد ظلہ العالی نے فون سے ٹرین کا وقت معلوم کیا۔ ٹرین کا وقت ہوچکا تھا۔ اتنے میں ایک آدمی تعویذ کے لئے آگیا۔ علامہ ارشد القادری صاحب نے اسے ڈانٹا۔ مگر حضرت نے منع فرمایا۔ تعویذ لکھنے کے لئے اتر پڑے حضرت علامہ نے عرض کی کہ حضور ٹرین چھوٹ جائے گی۔ آپ نے ارشاد فرمایا چھوٹ جانے دو۔ دوسری ٹرین سے جاؤں گا۔ کل قیامت کے دن اگر خداوند کریم نے پوچھ دیا تو میں کیا جواب دوں گا یہ کہہ کر آپ نے سواری سے سامان اتروالیا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر خدمت ِخلق اور خشیتِ الٰہی کا کتنا جذبہ کارفرماتھا۔
بیعت وخلافت: آپ بیعت حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ سے تھے۔ اور خلافت واجازت والد ماجد امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے حاصل تھیں۔ اور۲۵؍صفر المظفر ۱۳۴۰ھ مطابق ۲۸؍اکتوبر ۱۹۲۱ء جمعہ کوامام اہلسنت کا وصال ہوا ،خلفِ اکبر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا قادری علیہ الرحمہ کومنصب سجاد گی اور خانقاہ رضویہ و منظر اسلام کے تمام امور و فرائض کی ذمہ داری سپر د ہوئی، آپ کے وصال کے بعد امامِ اہلسنت علیہ الرحمہ کی سجادگی و جانشینی بہ اتفاق آراء حضرت مفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ کے سپرد ہوئی، بفضلہ تعالیٰ آخر عمر تک اس منصب پر رونق افروز رہے اور فیض بیکران جاری فرماتے رہے ۔ آپ کے مریدین و خلفاء میں بیشمار علماء کرام و مشائخ عظام ہیں، جو آپ سے بیعت و خلافت سے مستفید ہوئے۔
سفرحرمین طیبین:آپ کئی بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے ۔تیسرےحج سے ذی الحجہ۱۳۹۱ھ مطابق جنوری ۱۹۷۲ء کو مستفید ہوئے اس حج کی خصوصیت یہ ہے کہ آزادی کے بعد فوٹو لازمی ہونے کے باوجود بغیر فوٹوکے حج کی منظوری ملی، جیسا کہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے ذی الحجہ ۱۳۸۶ ھ مارچ ۱۹۶۶ ء میں بغیر فوٹو کے حج کیا تھا ۔
متقی بن کر دکھائے اِس زمانےمیں کوئی ایک میرے مفتی اعظم کا تقوی چھوڑکر (از تاج الشریعہ علیہ الرحمہ)
وصال: اسم رسالت محمد ﷺ کے عدد مبارک کے مطابق ۹۲ سال، اس خاکدان گیتی پر جلوہ افروز رہے۔ آپ کے دور حیات میں ارتداد کی لہر، شدھی تحریک کے نام سےاٹھی، آپ نے اس کا سد باب کیا، خلافت کمیٹی بنی، تحریک ترک موالات، نان کو آپریشن، ایمرجنسی وغیرہ کےمعاملات سامنے آئے، آ پ نے بلا خوف و خطرہر ایک کا شرعی حکم، واضح او ر روشن فرمایا۔ لاکھوں گم گشتگانِ راہ کو، راہِ ہدایت پر لگایا ، بیشمار مریدین و متوسلین و معتقدین چھوڑے، اور بہت سی تصنیفات و تالیفات یادگار چھوڑیں پھر ۱۳؍ محرم ۱۴۰۲ھ کادن گزار کر۱۴؍محرم ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۲؍ نومبر ۱۹۸۱ء، رات ایک بج کر چالیس منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مجدد اعظم امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی۔اللہ عزوجل ان پر بے شمار رحمتوں کا نزول فرمائے۔
تصانیف:
جوتصانیف معلوم ہوسکیںحسب ذیل ہیں۔
(۱)فتاویٰ مصطفویہ، تاریخی نام المکرمۃ النبویۃ فی الفتاوٰی المصطفویۃ (۱۳۲۹ھ)
(۲)وقعات السنان فی حلق المسماۃ بسط البنان (۱۳۳۰ھ)
(۳)ادخال السنان الی حَنَکِ الحَلَقٰی بسط البنان (۱۳۳۲ھ)
(۴)الموت الاحمرعلی کل الجنس الاکفر (۱۳۳۷ھ)
(۵ )طرق الہدی والارشاد الی احکام الامارۃ والجہاد (۱۳۴۱ھ)
(۶) تنویر ا لحجہ بالتوا ء الحجہ
(۷) طرد الشیطان (عمدۃ البیان)
(۸)الحجۃ البا ہرہ
(۹)القول العجیب فی جواز التثویب (۱۳۳۹ھ)
(۱۰)مسائل سماع
(۱۱) سامان بخشش (۱۳۴۷ھ)
(۱۲) اشد العذاب علی عابدالخناس (۱۳۳۰ھ)
(۱۳) الرمح الدیانی علی راس الوسواس ا لشیطانی (۱۳۳۱ھ)
(۱۴) النکۃ علی مراٰۃ کلکتہ (۱۳۳۲ھ)
(۱۵) صلیم الدیان لتقطیع حبا لۃ الشیطان (۱۳۳۲ھ)
(۱۶) سیف القہار علی عبید الکفار (۱۳۳۲ھ)
(۱۷) مقتل کذب وکید (۱۳۳۲ھ)
(۱۸) مقتل اکذب واجہل (۱۳۳۲ھ)
(۱۹) وقایۃ اہل السنۃ عن مکردیوبند والفتنہ (۱۳۲۲ھ)
(۲۰) الٰہی ضرب بہ اہل الحرب (۱۳۳۲ھ)
(۲۱) حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرۃ (۱۳۴۲ھ)
(۲۲) القسوۃ علی ادوار الحمر الکفرۃ (۱۳۴۳ھ)
(۲۳) نہایۃ السنان (۱۳۳۲ھ)
(۲۴) شفاء السعی فی جواب سوال بمبئی
(۲۵) داڑھی کا مسئلہ
(۲۶) فصل الخلافۃ (۱۳۴۱ھ)
(۲۷) الکاوی فی العادی والغاوی (۱۳۳۰ھ)
(۲۸) القثم القاصم للداسم القاسم (۱۳۳۰ھ)
(۲۹) نور الفرقان بین جندالالٰہ واحزاب الشیطان(۱۳۳۰ھ)
(۳۰) وہابیہ کی تقیہ بازی۔
تالیفات
(۳۱)ملفوظات اعلیٰ حضرت ۔چار جلدیں
(۳۲) الطاری الداری لہفوات عبدالباری (۱۳۳۹ھ)
(۳۳) نفی العار من معائب المولوی عبدالغفار (۱۳۳۲ھ)
حواشی
(۳۴) حاشیہ فتاوی رضویہ جلد اول
(۳۵) حاشیہ فتاوی رضویہ جلد پنجم
(۳۶) حاشیہ تفسیر احمدی
(۳۷) حاشیہ فتاوی عزیزیہ
(۳۸)کشفِ ضلالِ دیوبند (حواشی وتکمیلات الاستمداد ۱۳۳۷ھ)
خلفاء :مریدین وخلفاء لا تعداد ہیں ۔ ان میں بیشتر علماء ومشائخ ہیں جن کا احصار قریباً ناممکن ہے،چند مشاہیر خلفاء حسب ذیل ہیں ۔
[۱] مفسر اعظم ہند، مولانامحمد ابراہیم رضا قادری، جیلانی میاں، علیہ الرحمہ ،بریلی شریف
[۲] تاج الشریعہ مولانا محمد اختر رضا قادری ،ازہری ( علیہ الرحمہ) بریلی شریف
[۳] غزالی دوراں، علامہ سید احمد سعیدصاحب کاظمی( علیہ الرحمہ) ملتان، پاکستان
[۴] مجاہدِ ملت ،علامہ حبیب الرحمن ( علیہ الرحمہ) رئیس اعظم ،اڑیسہ
[۵] شیر بیشہ اہل سنت ،مولانا حشمت علی خاں علیہ الرحمہ، پیلی بھیت
[۶] رازی زماں، مولانا حاجی مبین الدین ( علیہ الرحمہ) امروہہ ،مرآد اباد
[۷] شہزادۂ صدر الشریعہ ،مولانا عبد المصطفی ازہری( علیہ الرحمہ) کراچی ، پاکستان
[۸] شارح بخاری، مفتی محمد شریف الحق امجدی ( علیہ الرحمہ) گھوسی، مئو
[۹] شمس العلماء ،مولانا قاضی شمس الدین احمد( علیہ الرحمہ) جونپور
[۱۰] محدث اعظم پاکستان، مولانا محمد سردار احمد( علیہ الرحمہ) لائل پور ، پاکستان
[۱۱] خطیب مشرق مولانا مشتاق احمدنظامی( علیہ الرحمہ) الہ آباد
[۱۲] پیر طریقت،مولانا قاری مصلح الدین( علیہ الرحمہ) کراچی، پاکستان
[۱۳] وقار العلما،مولانا مفتی وقار الدین( علیہ الرحمہ) کراچی، پاکستان
[۱۴] استاذ العلماء، مولانا محمدتحسین رضا خاں ( علیہ الرحمہ) بریلی شریف
[۱۵] قائدملت ،مولانا ریحان رضا خاں( علیہ الرحمہ) بریلی شریف
[۱۶] امین ملت، ڈاکٹر سید محمد امین میاں برکا تی، سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ، مارہرہ شریف
[۱۷] نبیرۂ اعلی حضرت،مولانا محمد منان رضا خاں ، مہتمم جامعہ نوریہ رضویہ، باقرگنج، بریلی
[۱۸] خطیب الہند، مولانا توصیف رضا خاں، صدر آل انڈیا سنی جمعیۃ العوام، بریلی
[۱۹] مولانا مفتی مجیب اشرف رضوی ( علیہ الرحمہ) مہتمم دارالعلوم امجدیہ ،ناگپور
[۲۰] جانشین حافظ ملت، مولانا عبد الحفیظ عزیزی ، سربراہ اعلی جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور
[۲۱]مفکر اسلام ،حضرت مولانا بدرالقادری، بانی و مہتمم ،اسلامک اکیڈمی ،ہالینڈ
[۲۲]شہزادۂ صدرالشریعہ، مولانا بہاء المصطفٰی امجدی، امام وخطیب مسجد بہاری پور، بریلی
[۲۳] مولانا حافظ مبین الہدی نورانی،( علیہ الرحمہ) بانی دارالعلوم امام حسین، جمشید پور
[۲۴] مولانا مجیب الاسلام نسیم رضوی( علیہ الرحمہ) ادری، ضلع مئو
[۲۵] پیر طریقت، مولانا ڈاکٹر غفران علی صدیقی، نیو جرسی، امریکا
[۲۶] پیر طریقت مولانا سید مبشر علی میاں( علیہ الرحمہ) بہیڑی، بریلی شریف
[۲۷]حضرت مولانا سید عباس علوی مکی( علیہ الرحمہ) مکۃ المکرمہ
[۲۸]حضرت مولانا سید نور محمد مکی( علیہ الرحمہ)
[۲۹]حضرت مولانا مفتی محمد ابراہیم، سمستی پوری، پرنسپل مدرسہ قادریہ، بدایوں
[۳۰] حضرت مولاناسید افضل حسین ، مونگیری ( علیہ الرحمہ) پاکستان
[۳۱] حضرت مولانا فیض احمد اویسی( علیہ الرحمہ) بھاولپور، پاکستان
[۳۲] حضرت مولانا مفتی محمد حسین ( علیہ الرحمہ) سکھر، پاکستان
[۳۳] حضرت مولانا حافظ احسان الحق قادری، فیصل آبادی ( علیہ الرحمہ) پاکستان
[۳۴] حضرت مولانامفتی محمد خلیل برکاتی، حیدرآبادی( علیہ الرحمہ) پاکستان
[۳۵] حضرت مولانا سید زاھد علی قادری فیصل آبادی ،پاکستان
[۳۶]حضرت مولاناغلام رسول رضوی، فیصل آبادی( علیہ الرحمہ) پاکستان
[۳۷]حضرت مولانا مفتی غلام سرور قادری( علیہ الرحمہ) لاہور ،پاکستان
[۳۸] مولانا خادم رسول رضوی، شیخ الحدیث مسعودالعلوم ،بہرائچ
[۳۹]حضرت مولانا ولی النبی قادری ، پاکستان
[۴۰] حضرت مولانا محمد منظور فیضی، علیہ الرحمہ، بھاولپور ، پاکستان، وغیرہم
مشاہیر تلامذہ
چند مشہور شاگردوں کے اسماء گرامی ۔
۱۔ شیربیشۂ اہل سنت ،حضرت علامہ محمد حشمت علی خاں علیہ الرحمہ
۲۔ محدثِ اعظم پاکستان، حضرت علامہ مفتی سردار احمد ( علیہ الرحمہ) فیصل آباد
۳۔ فقیہ عصر، مولانا مفتی محمد اعجاز ولی خاں( علیہ الرحمہ) بریلی شریف
۴۔ شارح بخاری، علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی ( علیہ الرحمہ) گھوسی
۵۔ محدث ،کبیر، علامہ ضیاء المصطفی قادری، بانی و مہتمم، جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی
۶۔ بلبل ہند ،مفتی محمد رجب علی( علیہ الرحمہ) نانپارہ ، بہرائچ شریف
۷۔ شیخ العلماء، مفتی غلام جیلانی( علیہ الرحمہ) گھوسی
مستفیدین اور درس افتاء کے تلامذہ کی فہرست لمبی ہے ، اس لئے چند مشہور تلامذہ پر اختصار کیا گیا ۔
(مآخذو مراجع: تقدیم فتاوی مصطفویہ، تاجدار اہل سنت،جہان مفتی اعظم ، تذکرہ ٔ اکابرِ اہل سنت پاکستان، و غیرہ)

احمد القادری مصباحی

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

بحرالعلوم علیہ الرحمہ کی یادیں، احمد القادری

بِسْمِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
الـحمدللہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہٖ واصحابہ اجمعین

بحرالعلوم کی یادیں اور باتیں
ولادت: ۷؍ربیع الآخر ۱۳۴۴ھ ۲۶؍نومبر ۱۹۲۵ء
وصال: ۱۵ محرم ۱۴۳۴ھ ۲۹؍نومبر ۲۰۱۲ء

[احمد القادری مصباحی]

استاذ گرامی، شیخ الاساتذہ، بحرالعلوم ،حضرت علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی مبارکپوری علیہ الرحمۃ والرضوان بےشمار علوم وفنون کے جامع، درس وتدریس کےبادشاہ، فضل وکمال کے شہنشاہ،میدان خطابت کے شہسوار ،تصنیف وتالیف کے سلطان تھے۔ فضائل وکمالات کے آسمان پر متمکن ہوتے ہوئے سادگی، خاک ساری اور تواضع کی زمین پراپنی مثال آپ تھے۔
ایک مدت دراز تک جامعہ اشرفیہ مبارکپورکے مفتی،شیخ الحدیث،صدرالمدرسین اورشیخ الجامعہ رہے۔ حافظ ملت کے بڑے ہی عزیر اور چہیتے شاگرد تھے ،ہرموقع پر حافظ ملت کے ساتھ ساتھ، قدم بہ قدم ،دست وبازو بنے رہے۔دارالعلوم اشرفیہ کو عربی یونیورسٹی کی شکل میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں پیش پیش رہے۔ جامعہ اشرفیہ کادستور مرتب کرنے میں آپ کااہم کردار ہے۔ جس وقت حافظ ملت اوراشرفیہ کے خلاف آندھی طوفان آئے۔ مخالفت کےبادل گرجے، آپ حافظ ملت کے ساتھ جبل مستقیم بن کرڈٹے رہے۔
جب سے میں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں، تب سے آپ کوجانتاہوں۔ ہمارے والد مرحوم کا،ان کے والد مرحوم سے دوستانہ تھا۔ طالب علمی میں بحرالعلوم میرابڑا خیال رکھتے،فرماتے تھے کہ تمہارے والد ہمارے والد کے دوستوں میں تھے۔ انجمن اہل سنت والجماعت بھیرہ کےسالانہ جلسہ میں حافظ ملت علیہ الرحمہ اور حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ ایک ساتھ تشریف لاتے اور بیان فرماتے تھے۔ غریب خانہ پر بھی کبھی کبھی تشریف لاتے اورخدمت کاموقع عنایت فرماتے۔ بچپن کی سنی ہوئی ایک تقریر کے الفاظ مجھے اب تک یاد ہیں۔ حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا: یہ بحرالعلوم ہیں،بحرالعلوم۔ علم کے سمندر اورعلم کی لائبریری ہیں۔ استاذ کریم کایہ فرمان اپنے عظیم شاگرد کے لیے سند کادرجہ رکھتاہے۔

طریقۂ تعلیم اورپابندی اوقات
درجۂ ثانیہ میں ہماری جماعت کی قلیوبی حضرت بحرالعلوم کے پاس تھی۔ اس میں حضرت کاطریقۂ درس یہ تھا۔ پہلے طلبہ سے عبارت پڑھاتے۔ اس میں افعال آتے توان کاصیغہ باب وغیرہ کی تفصیل پوچھتے، اسم ہوتا، تواس کااعراب، وجوہ اعراب کی قسمیں، لغت وغیرہ کاسوال کرتے۔ پھر طلبہ سے ہی ترجمہ کرواتے۔ اس طریقۂ تعلیم کی بنیاد پرطلبہ کواگلے سبق کی بھرپور تیاری اورکافی مطالعہ کے بعد ان کی درس گاہ میں جانا پڑتاتھا ورنہ عبارت خوانی صحیح نہیں ہوسکتی تھی نہ ہی ترجمہ۔ وہاں ہر غلطی پرتادیب بھی ہوتی تھی۔ اس طرح طلبہ میں مطالعہ اورخود سے عبارت حل کرنے کا ذوق بیدار ہوگیا۔
بخاری شریف بھی ہماری حضرت بحرالعلوم کےپاس تھی یہ پہلی اوردوسری گھنٹی میں ہوا کرتی تھی۔ حضرت وقت کےبڑے پابند تھے سلام سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی آجاتے۔ میں نے کبھی ان کودرس گاہ میں لیٹ آتے نہیں دیکھا، بڑے والہانہ انداز میں پڑھاتے۔ دونوں گھنٹیاں پوری کی پوری تدریس میں صرف کرتے۔ اوقات درس میں نہ کسی سے ملاقات کرتے، نہ کسی سے بات، نہ آفس کاکام، نہ طلبہ کی کوئی درخواست لیتے دیتے، نہ کبھی آفس یاکسی دوسری کلاس میں جاکر درس کاناغہ کرتے بلکہ اوقات تعلیم سے زائد پڑھاتے۔موسم گرمامیں جب ایک وقت کامدرسہ ہوتاتو وہ رک جاتے۔ دوپہر کے بعد بھی ہمیں بخاری شریف پڑھاتے۔ اس خارجی وقت کی تعلیم کی بھی ویسی ہی پابندی کرتے،جس کے باعث ہم نے بخاری شریف کی دونوں جلدیں ختم کیں۔ بخاری شریف جب ختم کرنے کا وقت ٓایا،توولی کامل حضرت مولانا مبین الدین امروہوی علیہ الرحمہ کو دعوت دی، جن کو حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ زندہ ولی کہاکرتے تھے۔ ختم بخاری کے لیے بحرالعلوم نے فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ کسی بزرگ سے ختم کرایاجائے۔(حالاں کہ آپ خود بھی بڑے بزرگ تھے یہ آپ کی تواضع اورانکساری تھی)۔
چندہ کرنے میں عزت
اشرفیہ سے فراغت کے بعد تدریس کے لیے میرے لیے جگہ آئی، وہاں جانے سے قبل ملاقات واجازت کے لیے حاضر ہوا۔ باتوں باتوں میں میری زبان سے نکلا ”وہاں چندہ بھی کرناہے“ اس پرفرمایا: ارے یہ توبہت اچھاکام ہے، حافظ ملت بھی چندہ کرتے تھے۔ ہم لوگ بھی چندہ کرتے ہیں، اس میں تو اورعزت ملتی ہے۔ دیکھو ہم جاتے ہیں لوگ عزت سے بٹھاتے ہیں، کھلاتے، پلاتے ہیں اور عزت سے چندہ بھی دیتے ہیں۔ مدارس اسی سے چلتے ہیں اگر چندہ نہ ہوتو یہ مدارس کیسے چلیں گے۔ نبیِ اکرم ﷺ نے بھی چندہ کیاہے۔ ان کی اثرانگیز باتیں دل نشین ہوگئیں اور آج تیس سال ہونے کے بعد بھی یاد ہیں۔
حرمین طیبین میں جماعت اوربحرالعلوم کی سادگی
ایک بار دوران تعلیم گفتگو میں فرمایا: دیکھو حرمین طیبین میں اپنی الگ نماز پڑھنے اورجماعت کرنے میں کوئی دقت نہیں۔ میں اور قاری یحییٰ صاحب(علیہ الرحمہ) بحری جہاز سے شعبان ہی میں پہنچ گئے تھے۔ روزانہ ایک عمرہ کرتے اورایسے ہی سادگی سے رہتے تھے۔ حرم میں ادھر ادھر کہیں بھی جگہ ملتی اپنی جماعت کرلیتے، کوئی روکتاٹوکتانہیں تھا۔ ان کی نگاہیں صرف ان لوگوں پر ہوتی ہیں جو آن بان سے رہتے ہیں ان کے آگے پیچھے ،دائیں بائیں لوگ عقیدت سے چلتے ہیں تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا شخص ہے پھراس پر نظررکھتے ہیں۔ ہم لوگ توکرتا،ٹوپی،تہبند یاپاجامہ میں بڑی سادگی سے رہتے ایسے لوگ توہزاروں پھرتے رہتے ہیں ان کوکون پوچھتاہے۔
جامع الاحادیث بحرالعلوم کی آرزو کی تکمیل
ایک بار حضرت بحرالعلوم مدرسہ فیض العلوم محمدآباد گوہنہ تشریف لائے اس وقت میں وہاں زیر تعلیم تھا، ملاقات کے لیے حاضر ہوا اورحضرت مولانا عارف اللہ صاحب فیضی بھی تھے۔ فتاوی رضویہ شریف کا ذکر چھڑ گیا۔ آپ نے فرمایا:اگر کوئی فتاویٰ رضویہ کی احادیث اکٹھا کردے تویہ ایک بڑا کام ہوجائےگا۔ جب ایک عرصہ کےبعد جامع الاحادیث منظر عام پر آئی تو میں نے اسے آپ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی آرزوؤں کی تکمیل سمجھی۔
تقریر کے خلاف تقریر
جامعہ اشرفیہ میں میرے دوران تدریس سکٹھی مبارک پور میں اصلاحِ معاشرہ کانفرنس منعقد ہوئی اس میں صرف علما، مقررین اور دانشور مدعوتھے۔عوام نہ تھے۔ اس کا موضوع تھا،
معاشرہ کی اصلاح کیسے ہو؟
ہرشخص اپنی صواب دیدسے رائے پیش کررہاتھا۔ اس درمیان ایک صاحب کھڑے ہوئےاور انھوں نے فرمایا: اب تقریروں سے کچھ ہونے والا نہیں ، اسی موضوع پراپنا پورا بیان دیا، جب وہ تقریر کرکے بیٹھے، توحضرت بحرالعلوم نےبرجستہ فرمایاکہ دیکھیے ! مولانا ،تقریر کےخلاف ایک تقریر کرگئے۔اس پرحاضرین ہنس دیے اوراس ایک ہی جملہ سے ان کی پوری تقریر پرپانی پھر گیا۔
شمس العلوم کی قدرومنزلت
بیرون ہند رہتے مجھے سترہ سال ہوگئے، جب بھی میں ہندوستان جاتا، توپابندی سے حضرت بحرالعلوم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتا، فتاویٰ رضویہ کےدورانِ اشاعت ایک بار شمس العلوم گھوسی ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا۔ دورانِ گفتگو فرمایا: دیکھیے شمس العلوم کے لوگوں نے مجھے کتنی چھوٹ دےرکھی ہے، بس دو گھنٹیاں بخاری کی پڑھاناہے،اس کے بعد،ان سے کوئی مطلب نہیں کہ میں کیاکرتا ہوں ،سوؤں یاجو چاہوں کروں ،اپنی مرضی، یہ روم بھی دے دیاہے۔تو بجائے سونے کے میں فتاویٰ رضویہ کےکام میں لگ جاتا ہوں اگر انھوں نے مجھے اتنی چھوٹ نہ دی ہوتی توکیسے یہ کام ہوتا۔ پھر دیر تک اپنا طریقۂ کاراور فتاویٰ رضویہ کی کئی فائلیں دکھاتے رہے۔
انجمن اشرفی دارالمطالعہ
یہ دارالعلوم اشرفیہ کے طلبہ کی قدیم انجمن اور لائبریری ہے اس کے زیر اہتمام مبارک پور کاجلوس میلاد النبی پوری شان وشوکت کے ساتھ نکلتاہے۔ اس کے قیام وارتقامیں حضرت کی محنت وجانفشانی کابڑادخل ہے۔
ایک بار گفتگوکےدرمیان مجھ سے فرمایا: اس لائبریری کے قیام کے لیے زمانۂ طالب علمی میں ہم نے بڑی محنتیں کی ہیں، کسی جگہ قلمی نسخہ کا پتا چل جاتا توہم وہاں کا سفر کرتے ،پہلے اس کوحاصل کرنے کی کوشش کرتے ،نہ ملتا توپھر اس کی نقل کرکے لائبریری میں جمع کرتے ،اس طرح لائبریری میں ہم نے بہت سے قلمی نسخےاورنایاب کتابیں جمع کی ہیں۔
اپنے ہاتھ سے کام کی لذت
میرے پڑھنے کے زمانہ میں ایک بار درس گاہ میں فرمایا اپنی محنت اوراپنے ہاتھ سے جوکام ہوتاہے، اس کی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔
ہم تلسی پور(گونڈہ،یوپی) میں پڑھاتے تھے، اپنے ہاتھ سے لکڑی چیرتے،آگ بناتے،پھر اس پر روٹی پکاتے، آدھی پکی آدھی کچی ،پھر بیٹھ کرکھاتے تواس کامزہ ہی کچھ اور ہوتا۔”ہم“ سے مراد حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ اورحضرت مولانامحمدشفیع مبارک پوری علیہ الرحمہ۔
حضرت نے اس مشقت کو لذت سے تعبیر کیا۔ پریشانیاں اس طرح خندہ پیشانی کےساتھ برداشت کرلینا ہمارے اساتذہ کی شان ہے۔
استاذ الاساتذہ کی آمد
ایک بار حضرت مولانا قاری محمدعثمان اعظمی علیہ الرحمہ (مصنف مصباح التجوید) جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لائے ۔ حضرت بحرالعلوم نے ہم تمامی طلبہ کو ہال کمرے میں جمع کرایا۔ پھر خود کھڑے ہوئے اور حضرت قاری صاحب کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا: یہ ہمارے استاذ ہیں، جب ہمارا کوئی بزرگ آتاہے، توہم طلبہ کوجمع کرتے ہیں تاکہ طلبہ ان کی نصیحت سنیں اوراس پر عمل کریں۔
یہ پہلا موقع تھا جومیں نے جاناکہ حضرت قاری صاحب ہمارے شیخ الجامعہ کےاستاذ ہیں۔ حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ علمائے کرام کی بڑی عزت کرتے۔ اپنے سے کم علم اور کم رتبہ کی بھی حوصلہ افزائی کرتے۔ ہم لوگ توادنیٰ شاگرد ٹھہرے، مگر جب کبھی ملاقات کے لیے جاتے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے۔ جب تک میں وہاں بیٹھا رہتا پوری طرح متوجہ ہوکر گفتگو فرماتے بغیر ضیافت کے واپس نہیں آنے دیتے۔
فیض الحکمت ترجمہ ہدایۃ الحکمت پر تقریظ جلیل
جن دنوں بھائی جان قبلہ(استاذ گرامی حضرت علامہ محمداحمدمصباحی دامت برکاتہم العالیہ) کے پاس، فیض العلوم میں، ہدایۃ الحکمت پڑھ رہاتھا اس کاترجمہ لکھتا جاتا اوربھائی جان قبلہ اس کی اصلاح بھی فرماتے جاتے۔ اس ترجمہ کےچھپوانے کاوقت آیا تومیں استاذ محترم حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ کےپاس(مبارک پوران کےدولت کدہ پر) اسے دکھانے کے لیے حاضر ہوا، حضرت نے فرمایا اسے تھوڑے دنوں میرے پاس رکھ دو تاکہ میں دیکھ لوں، پھر دوبارہ اسے لینے کے لیے حاضر ہوا، تو فرمایاکہ اس کی شرح بھی لکھ دو۔اوراس کاطریقہ بھی بتایا اوردیرتک سمجھا یا، برادر گرامی، حضرت مولانا شکیب ارسلان صاحب وہاں موجود تھے۔وہ میری حمایت میں بولے ایسے ہی چھپ جانےدیجیے۔ یہ سن کر فرمایا: دیکھو دیکھو یہ بزنس مین ہیں، اسی اعتبار سے سوچتے ہیں ،شرح سے کتاب ضخیم ہوجائے گی، قیمت بڑھ جائے گی، طلبہ کم خریدیں گے۔
پھرطباعت کی اجازت عطافرمائی ،اور دوپہر کےکھانے کے لیے روک لیا، کھانا کھلاکر رخصت فرمایا۔اوریہ تقریظِ جلیل لکھ کر عنایت فرمائی۔

بِسْمِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، نحمدہٗ ونصلی علی رسولہِ الکریم

مولوی احمد القادری صاحب مصباحی، ہمارے اشرفیہ کے سعادت مند فاضلین میں سے ہیں۔فلسفہ کی ابتدائی کتاب ہدایۃ الحکمت مولوی الہ آباد کورس میں شامل ہے۔ اور ایک نامانوس فن ہونے کی وجہ سے امتحان دینے والے طلبہ کے لئے پریشانی کا سبب بنی ہوئی تھی، مولانا نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرکے وقت کی ایک بڑی ضرورت پوری کی ہے، اور مولوی عالم، فاضل کی لائن اختیار کرنے والے ہزاہا ہزار طلبہ کو شکر گزار ہونا چاہئے۔ بلکہ اس کتاب سے درس نظامیہ کے طلبہ کو بھی بڑی مدد ملے گی۔
دعاء ہے کہ مَولیٰ تبارک َ و َ تعالی ان کی اس کوشش کو کامیاب بنائے اور اس کے نفع کو عام فرمائے۔ آمین
عبد المنان اعظمی
۲؍ شوال ۱۴۰۴ھ
(شیخ الحدیث و صدرالمدرسین ، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، اعظم گڑھ، یوپی، ہند)
آخری ملاقات
امسال شوال ۱۴۳۳ھ اگست ۲۰۱۲ء ہندوستان کاسفر ہوا، مدارس عربیہ کھلنے کے بعد دارالعلوم اہل سنت شمس العلوم گھوسی جانا ہوا۔ حضرت بحرالعلوم سے ملاقات کےلیے حاضر ہوا۔ میرے ساتھ مولانا قاری مہتاب عالم صاحب بھی تھے،دیکھتے ہی دوکرسیاں اور منگائیں،دست بوسی کاشرف بخشا اوراپنے قریب بٹھایا، فوراً چائے کاآڈر دیا، میں نے عذر خواہی کی ،مگر منظور نہ ہوئی، میں اسے اپنے لیے سعادت اور اعزاز سمجھ کرخاموش ہوگیا۔
خیریت اورمزاج پرسی کے بعد میری طرف متوجہ ہوکر بے تکلف گفتگو فرمانے لگے اپنی اور خانگی باتوں کےبعد سنی دارالاشاعت کےقیام اوراس زمانے کی دشواریوں اور کامیابیوں کاتذکرہ فرمایا۔ پھر فتاویٰ رضویہ کے بچے ہوئے نسخوں سے متعلق فرمایا۔ کتاب کابنڈل بنانا،پارسل کرنا، بیچنا مجھ سے کہاں ہوتا، تو میں یہ کرتا ہرسال اپنی زکات سے فتاویٰ رضویہ کے نسخے خریدلیتا اور مستحق طلبہ میں
تقسیم کردیتا۔اس طرح ساری کتابیں نکل گئیں۔اب میں نے سنی دارالاشاعت کاسارا اثاثہ، رقم اورساری چیزیں مولانا محمدحنیف خاں صاحب رضوی کودیدی ہیں۔ انھوں نے تصنیف وتالیف کاادارہ(امام احمدرضا اکیڈمی) بنایاہے اس کے حوالہ کردیں ہیں۔وہ بھی اسی طرح کاادارہ ہے۔دوسرے اکثرادارےتو ذاتی ہیں، قومی چیز تھی ،قومی ادارہ میں دےدی۔
چائے پینے کے بعد دوبارہ دست بوسی کی، اپنے سرپر ان کادست مبارک رکھا اور وہاں سے اجازت لے کررخصت ہوا۔ کیا معلوم تھاکہ یہ ملاقات آخری اور تاریخی بن جائے گی۔

احمدالقادری
اسلامک اکیڈمی امریکہ
۸؍صفر۱۳۳۴ھ، یکم جنوری ۲۰۱۳ء

(مزیدتفصیل کے لئے تجلیات رضا ، امام احمد رضا اکیڈمی ، بریلی شریف کابحرالعلوم نمبرمطالعہ فرمائیں، جو اُن کے احوال میں بارہ سو صفحات پر مشتمل ہے)

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

غوث اعظم اور گیارہویں شریف

بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور گیارہویں شریف

(ولادت: ۳۰؍شعبان ۴۷۰ھ، ۱۷ ؍مارچ ۱۰۷۸ء ، وصال: ۱۱؍ربیع الآخر۵۶۱ھ ، ۱۲؍ فروری ۱۱۶۶ء)

غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ ۳۰؍شعبان ۴۷۰ھ میں جیلان میں پیداہوئے۔پیدائشی ولی تھے، ان کے ماں باپ بھی ولی تھے اور نانا بھی ولیِّ کامل تھے۔
ابتدائی تعلیم جیلان میں حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کےلیے بغداد شریف کاسفر کیا اوربڑے جلیل القدر عالم دین بنے۔ علماےبغدادہی نہیں بلکہ بلادِ اسلامیہ کے علماسے سبقت لےگئے۔ آپ کوتمام علما پر فوقیت حاصل ہوگئی ، سب نے آپ کواپنا مرجع بنالیا۔
اللہ تعالیٰ نےآپ کی مقبولیتِ تامہ، عوام وخواص کے دلوں میں ڈال دی اورآپ کوولایت عظمی اور غوثیت کبریٰ کے درجہ پرفائز کیا۔آپ کی مجلس میں بے شمار لوگ سواروپیدل آتے اورمجلس میں جگہ نہ ملتی تواس کےارد گرد بیٹھ کر وعظ سنتے یہاں تک کہ سننے والوں کی تعداد ستر ہزار کے قریب پہنچ جاتی ۔ چار سو آدمی قلم دوات لے کرمجلسِ وعظ میں بیٹھتے اورجوکچھ سنتے اسے لکھتے رہتے۔ مجلسِ وعظ میں یہود ونصاریٰ آپ کے ہاتھ پراسلام لاتے ،ڈاکو، بدمذہب اور فساق وفجار اپنی بد اعمالیوں سے آپ کےسامنے توبہ کرتے۔ لاکھوں سے زیادہ لوگ آپ کےہاتھ پر تائب ہوئے۔
کرامات:
آپ دودھ پینے کے زمانے میں، جب رمضان آتا تودن میں ماں کا دودھ نہ پیتے، جیلان میں مشہور ہوگیا تھا کہ سادات کے فلاں گھرانے میں ایسا بچہ پیدا ہواہے، جورمضان میں دن کےوقت دودھ نہیں پیتا۔
جب آپ مکتب جاتے فرشتوں کی جماعت ساتھ ہوتی اورجب مکتب پہنچ جاتے توفرشتوں کو بچوں سے یہ کہتے ہوئے آپ خود سنتے اے بچو! اللہ کےولی کےلیے جگہ کشادہ کرو۔
کتنے مُردے آپ کی دعاسے زندہ ہوئے ،بیمار اورکوڑھی شفایاب ہوئے، حاجت مند وں کی حاجتیں پوری ہوئیں۔ دستِ مبارک تو بڑی بات ہے آپ کاقدمِ مبارک جس کی گردن پر پڑگیا وہ اللہ کا ولی بن گیا۔
ارشادات:
آپ نے ارشاد فرمایا: جوشخص خود کو میری طرف منسوب کرے اورمجھ سے عقیدت رکھے توحق تعالیٰ اسے قبول فرمائےگا، اس پر رحمت فرمائےگا،اسے توبہ کی توفیق بخشے گا، اور جنت میں داخل فرمائےگا۔
فرماتے ہیں: قیامت تک میں اپنے مریدوں کی دست گیری کرتارہوں گا۔ فرمایا جوکسی مصیبت میں میرے وسیلے سے امداد چاہے تواس کی مصیبت دور ہو، جوکسی سختی میں میرا نام لے کر پکارے اسے کشادگی ہو اور جومیرے وسیلہ سے اللہ کی بارگاہ میں اپنی مرادیں پیش کرے توپوری ہوں۔ (اخبار الاخیار،از: شیخ عبدالحق محدث دہلوی ملخصاً ص:۳۳ تا ۵۰)
آپ کا وصال ۱۱؍ربیع الآخر۵۶۱ھ بغداد شریف میں ہوا۔ وہیں آپ کامزارِ مبارک، مرجعِ خلائق ہے۔ ماہ ربیع الآخر میں ہرسال وہاں آپ کاعرس پاک بڑی ہی شان وشوکت سے منعقد ہوتاہے۔ انھیں کی یاد میں اس ماہ میں گیارہویں شریف کی جگہ جگہ محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ بعض بزرگان دین ہرماہ چاند کی گیارہویں تاریخ کوغوث پاک کی نیاز کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں چند ایسے علماے کرام کے اقوال تحریر کیے جاتے ہیں جوسبھی مکاتب فکر کے نزدیک مستند اورمسلمہ بزرگ تسلیم کیے جاتے ہیں:
(۱)شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ( ولادت: ۱۱۱۴ھ؍ ۱۷۰۳ء ۔ وصال: ۱۱۷۶ھ ؍ ۱۷۶۲ء) خود گیارہویں شریف کرنے کے قائل تھے اورملفوظاتِ مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ (ولادت:۱۱۱۱ھ شہادت :۱۱۹۵ھ؍۱۷۸۰ء ) میں ،گیارہویں شریف کی فضیلت پر تفصیل سے اُن کا قول نقل کیاگیا ہے۔ (ملفوظاتِ مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ ص ۷۷)
(۲)حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت: ۹۵۸ھ وصال:۱۰۵۲ھ) فرماتے ہیں:بےشک ہمارے شہروں میں سیدناغوث اعظم کی گیارہویں شریف مشہور ہے اور یہی تاریخ آپ کی اولاد ومشائخ میں معروف ہے (ماثبت بالسنۃ ،از:شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ)
(۳)شیخ امان اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ (۸۷۶ھ متوفی ۹۹۷ھ) جوبرصغیر کےزبردست ولی گزرے ہیں۔ان کےبارے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ خود غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عرس کرتے اوراس دن کھاناپکوا کر تقسیم کرتے۔ (اخبار الاخیار،از:شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ص:۴۹۸)
(۴)سیدشیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ(۹۰۰۲ھ م ۱۰۰۱ھ) صاحبِ کرامت بزرگ گزرے ہیں، آپ مکہ معظمہ میں مقیم تھے۔۴۴؍حج کیے،حضور خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین ﷺ کو(خواب یابیداری) میں سو مرتبہ سے زیادہ دیکھا، ایسے جلیل القدر بزرگ بھی غو ث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عرس کیاکاکرتے تھے۔ (ماثبت بالسنۃ،از: شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ)
چوں کہ گیارہویں شریف کی محفل منعقد کرنا نیک کام ہے، وعظ ونصیحت اورتبلیغِ اسلام کاایک بڑا ذریعہ ہے، اس لیے علماے کرام، سلف صالحین اوراولیاے کاملین اسے کرتے آئے۔جیسے سیرت النبی کےجلسے،دینی اجتماعات، اسلامک کنونشن، کانفرنسیں اورسمینار ہوتے ہیں جن سے عوام کوکچھ سیکھنے کاموقع ملتاہے، اسی طرح گیارہویں شریف کی محفلوں اورتقریروں سے اولیاےکرام کےحالات، ان کی عبادت وریاضت، تقویٰ اورپرہیز گاری کے واقعات سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے کاموقع ملتاہے، خیرات وصدقات اورایثار و قربانی کرنے کاجذبہ پیدا ہوتاہے۔
حدیث پاک میں ہے:
مَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةًحَسَنَۃٌ فَلَہٗ اَجْرُھَاوَاجرُ مَنْ عمِلَ بها من بَّعْدِهٖ مِنْ غَيْرِ أن يَنقُصَ من اُجُوْرِهِم شيءٌ۔
جواسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا تواُسے اُس کاثواب ملے گا اوراُن کاثواب بھی اُسے ملے گا جواس کے بعد اس نئے طریقہ پرعمل کریں گے اوراُن عمل کرنےوالوں کےثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہوگی۔(مسلم شریف)

احمدالقادری مصباحی
الاسلامی.نیٹ

www.al islami.net

مجاہد ملت کا سیاسی تدبر، احمد القادری مصباحی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ، نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْم

مجاہد ملت کا سیاسی تدبر

(ولادت ۸ ؍ محرم ۱۳۲۲ ھ بمقام دھام نگر، بالیسر اڑیسہ، وصال ۶؍ جمادَی الاولیٰ ۱۴۰۱ھ ۱۳؍ مارچ ۱۹۸۱ء، مزارمبارک، دھام نگر، اڑیسہ)

رئیس التارکین ،حضرت مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمن ہاشمی عباسی رضوی علیہ الرحمہ، (رئیس اعظم اڑیسہ )بیک وقت بہت سی خوبیوں کے مالک اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے، بے پناہ جذبۂ خدمت اسلام اور اس پر مر مٹنے کا دل رکھتے تھے۔
خداوند کریم نے اپنے فضل سے کئی ایسی صفتیں آپ کے اندر ودیعت کررکھی تھیں، جن کا اجتماع شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ وقت کے رئیس اعظم اور کثیر مال ودولت کے مالک تھے، تو دوسری طرف فقر واستغناء اور زہد وتقویٰ میں بے مثل زمانہ ۔ ایک طرف شریعتِ اسلامیہ کے پابند عالم اور مسلمانوں کے مرشدِ روحانی تھے۔ اور دوسری طرف حکومت وسیاست میں بھی ملک وقوم کے عظیم رہنما۔ ایک طرف وہ مدرسوں اور خانقاہوں کے پاکباز علماء ومشائخ کے قائد اعظم تھے، تو دوسری طرف جیلوں کی کوٹھریوں میں بند بھی نظر آتے تھے ، ایک طرف عاجزی وانکساری کا یہ عالم کہ بڑے بڑے علماء، واسلاف تو درکنار چھوٹوں تک کی دست بوسی کرلیا کرتے تھے، تو دوسری طرف جرأت واستقلال کا یہ عالم کہ کسی جابر وظالم حکومت کے سامنے بھی، کبھی سرخم نہیں کیا۔
غرض کہ خداوند ذوالجلال نے ،بے پناہ خوبیاں آپ کے اندر بیک وقت پیدا کردی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ پوری قوم کے لئے سرمایۂ افتخار تھے۔ بہت سے بزرگانِ دین اور علمائے اسلام کی سیرتوں کا آپ نے مطالعہ کیا ہوگا۔ لیکن لباسِ فقیری میں رہ کر سیاسی میدان میں بھی فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی ٰعنہ) کی یاد تازہ کرنے والے کم ہی افراد ملیں گے۔
آنے والی سطروں میں ان کے سیاسی تدبرہی پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
سیاست سے مراد یزید کی سیاست نہیں، چنگیز و ہلاکو، کی سیاست نہیں، ظالم حکمرانوں کی سیاست نہیں، آج کل کی سیاست نہیں،جوتحصیل زر اور محض حکمرانی کے لئے ہوا کرتی ہے۔ بلکہ وہ پاکباز اور سچی سیاست مراد ہے، جسے تاجدار عرب وعجم ﷺ کی عملی زندگی نے پیش فرمائی۔ وہ سیاست،جس کی فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی ٰعنہ) نے تدوین کی۔ وہ سیاست ، جس پر چل کرحضرت عمر بن عبدالعزیز (رضی اللہ تعالی ٰعنہ) خلیفۂ راشد کہلائے۔ وہ سیاست، جسے حضرت امام حسین(رضی اللہ تعالی ٰعنہ) نے اپنا کر، کربلا کی سر زمین پر افراد خاندان کے ساتھ اپنا لہو پیش کیا۔ وہ سیاست جس نے صلاح الدین ایوبی (علیہ الرحمہ)کو،ظالم عیسائیوں کے پنجوںسے، بیت المقدس فتح کرنے کو ابھارا تھا۔ وہ سیاست جس نے علامہ فضل حق خیرآبادی (علیہ الرحمہ)کو، انگریزوں کے خلاف عَلمِ جہاد بلند کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ وہ سیاست جس کی بنا پر مولانا عنایت احمد کاکوری (علیہ الرحمہ)نے ،انڈمان کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ وہ سیاست ،جو پوری دنیا کو امن کا پیغام دیتی ہے۔ وہ سیاست ،جسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی (علیہ الرحمہ)نے عشقِ نبی ﷺ کی روشنائی سے لکھ کر ہمارے سامنے پیش کی۔ وہ سچی سیاست، جس کی بنا پر دنیائے کفر وضلالت، ان کو دشنام طرازیوں سے یاد کیا کرتی ہے۔ وہ سیاست ،جو سارے انسانوں کو، حق کا علمبردار بنادینا چاہتی ہے۔ وہ سیاست جو روئے زمین پر بسنے والوں کو، ظلم وستم سے باز رکھ کر، ایمان داری کے ساتھ ،اتحاد و یکجہتی کا نمونہ پیش کرنے کا حکم دیتی ہے۔ مجاہدِ ملت (علیہ الرحمہ) بھی اسی طرح کی سیاست کے علمبردار تھے۔
اس لحاظ سے یقینا مجاہد ملت (علیہ الرحمہ) ایک بڑے سیاسی مدبر تھے۔ ان کی عمیق فکر ونظر، ماحول کے ہرگردوپیش پررہا کرتی تھی۔ وہ ہر جماعت، ہر تنظیم، اور ہر پارٹی کے دستورِ اساسی پر، نظر رکھتے تھے۔ شریعت وملت کے خلاف ،کسی بھی پارٹی یا تنظیم کی ایک بات بھی، تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ چاہے اس میں ان کا دنیوی کتنا بڑا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی، کبھی اپنی کوئی باطل بات، نہ منواسکی۔
آزادیٔ ہند کے بعد دستور ِہند مرتب کیا گیا۔اس میں اقلیتوں کے تمام حقوق مساوی قرار دئے گئے۔ ہر اہلِ مذہب کو،اپنے مذہب کی ترقی اور اس پر عمل کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا۔ یہاں تک کہ دستور ِہند کی رو سے ،ہندوستان کا وزیر ِاعظم یا صدر ہونے کے لئے بھی مذہب کی کوئی پابندی نہیں، کسی بھی مذہب کاہو، وزیرِ اعظمِ ہند یا صدر بن سکتا ہے۔ اگرچہ وہ اقلیت یا پسماندہ طبقہ سے کیوں نہ ہو۔لیکن جب نظر اٹھائی جاتی ہے، تو دستورِ ہند، بالائے طاق نظر آتا ہے۔لوگ اس پر عمل کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ گویا حکومت، ایک خاص فرقہ کی بن کر رہ گئی ہے۔اکثر ملازمتوں اور محکموں میں، مسلمانوں کو، نظر انداز کردیا جارہا ہے۔ اور فسادات کا ،ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ،شروع ہوگیا ہے۔ جس کے ذریعہ سے، مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ، توڑے جانے لگے۔ نہ ان کی عزت وآبرو محفوظ ہے، نہ جان ومال ، حتی کہ مذہب اور مذہبی شعائر پر بھی حملے شروع ہوگئے ہیں۔ قانون ِ اسلام (مسلم پرسنل لاء) میں تبدیلی کرنے کی جرأت کا مظاہرہ کیا جانے لگا ہے۔ تو کہیں امن وانصاف کا درس دینے والے، قرآن عظیم کے خلاف زہر افشانی کی جانے لگی ہے۔
چوربازاری، فسادات اور رشوتوں کا، ہر طرف راج ہے۔ اس ماحول میں، مجاہدِ ملت (علیہ الرحمہ) نے، ظلم و فسادات کے خلاف آواز اٹھائی۔ حکومت کو جھنجھوڑا۔ارکانِ دولت کو للکارا ،کہ دیکھو تمہاری کوتاہیوں نے ، نوجوانانِ ہند کی ہزاروں لاشوں کو، خاک و خون میں تڑپا دیا۔ فسادات نے، ہزاروں عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنادیا۔ ابھی تمہیں ہوش نہیں؟
اس کی پاداش میںوہ کئی بار جیل گئے۔ لیکن اُس مرد مجاہد نے ہمت نہ ہاری۔ اور جبل ِمستقیم کی طرح ،اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ آخرکار انسدادِ فسادات کی خود تدبیر کی۔ انصاف پسند اہل وطن کو پکارا، جرأت مند قوم کو آواز دی، دیکھتے دیکھتے ہزاروں پروانے ’’خاکسارانِ حق‘‘ کے نام سے ، تیار ہوگئے۔
فسادات کی روک تھام، مظلومین کی مدد کرنا، ان کو ظالموں کے پنجوں سے نجات دلانا، وطن میں عدل وانصاف قائم کرنا، وطن میں فساد کراکر اس کی طاقتوں کو کھوکھلا کرنے والے فاسد مادوں سے وطن کو بچانا ’’خاکسارانِ حق‘‘ کا مقصد زریں ہے۔
ان کا یہ اقدام صرف اسٹیج پر زبانی نہیں رہا۔ بلکہ بہت سے مورچوں پر ’’خاکسارانِ حق‘‘ نے اپنی جرأت و دانشمندی سے فسادات کی روک تھام میں ،بڑا اہم کردار ادا کیا۔ کتنی سلگتی ہوئی چنگاریوں کو بجھایا۔ جنگ کی آگ بھڑکانے والوں کا، سد باب کیا۔
مجاہدِ ملت (علیہ الرحمہ) کے بڑے بڑے کارنامے اپنی جگہ مسلم، صرف اسی ایک کارنامہ ہی پر غور کیا جائے تو اندازہ لگ جاتا ہے کہ مجاہد ملت (علیہ الرحمہ) کتنے دوراندیش اور مستقبل پر گہری نظر رکھنے والے تھے۔ ان کے اندر انجام کو بھانپ جانے کا ملکہ تھا۔
کاش! اگر قوم نے ان کا اس میں بھرپور تعاون کیا ہوتا۔ توآج ہندوستان کی تاریخ دوسری ہوتی۔ اہل ہند اپنی سر بلندی وانصاف پسندی پر فخر کرتے ۔
ذیل میں حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی تشکیل دی ہوئی تنظیم، تحریکِ خاکسارانِ حق کے اغراض و مقاصد پر، ایک اجمالی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ جس سے حضور مجاہدِ ملت (علیہ الرحمہ) کی بالغ نظری، دور اندیشی اور قوم وملت کے تحفظ کی فکر مندی کا ،اندازہ ہوتا ہے۔
خاکسارانِ حق کے اغراض ومقاصد
(۱)تمام انسانی ضرورتوں کو حتی الوسع پورا کرنا، او رسیاسی، معاشرتی، تعلیمی، اخلاقی اور اقتصادی امور کی ٹھوس خدمت اور حفاظت کرنا۔
(۲) حقیقی جمہوریت کو، عملی شکل دینے کے لئے جد و جہد کرنا۔
(۳) پسماندہ اقوام کو، ان کے حقوق دلانے کے لئے، جد وجہد کرنا۔
(۴) انسانی بنیادوں پر، مساوات قائم کرکے، تعصب و نفرت ختم کرنا۔
(۵) عالمی امن اور انسانی تحفظ کی خاطر، جدوجہد کرنا۔
(۶) شرع مطہر کی روشنی میں، ملک کے آئینی اور حکومت کے تعمیری کاموں میں تعاون کرنا۔
(۷) ملک کے جوان طبقہ کے اخلاق وکردار کو بلند کرکے، ان کی جسمانی طاقت کو مستحکم کرنے ،نیز اطاعت گزارنظم پیدا کرنے کے لئے ،ایک صف میں کھڑا کرکے جسمانی ورزش پر آمادہ کرنا۔
(۸) برائیوں کو روکنا، بھلائیوں کو پھیلانا، مظلومین کی مدد کرنا، عبادت گاہوں اور مقابر کی حفاظت کے لئے، عملی جد و جہد کرنا۔
(۹) تحریک کے غیر مسلم سپاہیوں کو، اسلامی عبادات کے لئے مجبور نہ کیا جائے گا۔ بلکہ ان کو جُوا، شراب، بدکاری، بے حیائی، خود ترک کرنے اور دوسروں کو ترک کرانے کی ترغیب دینا۔ اطاعت ِامیر بہر حال لازمی ہوگی۔
(۱۰) بلا معاوضہ خدمت خلق کرنا۔
چنانچہ تحریک اپنے اغراض و مقاصد کے پیشِ نظر، شاخ در شاخ پھیلتی جار ہی ہے۔ اور حضور مجاہد ملت کے وصال کے بعد، بھی اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔
خاکساران حق کے علاوہ ان کی یادگاریں
آ پ اداروں کے منتظمین سے فرماتے آج زمین خرید لو ایک دن آئے گا پیسے ہوں گے زمین نہیں ملے گی ،چنانچہ انھوں نے خوب ادارے بنوائے، اور متعدد اداروںکے لئے بیش قیمت زمینیں خرید وائیں۔
چند اداروں کے نام
[۱] جامعہ حبیبیہ ، اتر سوئیا، الہ آباد
[۲] مسجد اعظم ، اتر سوئیا، الہ آباد
[۳] مکتبہ حبیبیہ الہ آباد
[۴]حبیب المطابع پریس
[۵]مدرسہ عربیہ غوث اعظم ، پانچپاڑہ، کلکتہ
[۶] اسلامی مرکز ، رانچی
[۷] مدرسہ قادریہ حبیبیہ بھدرک ، اڑیسہ
[۸] مدرسہ قاسمیہ ، دھام نگر ، اڑیسہ
[۹] مدرسہ حبیبیہ ، اڑیسہ
[۱۰] مدرسہ حنفیہ، غوثیہ بنارس

احمد القادری مصباحی

 

شہباز دکن علیہ الرحمہ، از احمد القادری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعزیت نامہ

پیر طریقت ،شہباز دکن ،حضرت مولانا مفتی قاری الحاج الشاہ محمد مجیب علی قادری رضوی نوری
خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند، و حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
(ولادت: ۲۲ رجب ۱۳۷۴ ھ مطابق ۱۶ مارچ ۱۹۵۵ء بروز چہارشنبہ ۔ وصال: ۲۵ ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ ۷ جولائی ۲۰۲۱ ء بروز چہار شنبہ ،بمقام: حیدآباد، دکن)
قابل صد احترام حضرت مولانا سہیل رضا رضوی صاحب ، مد ظلکم العالی

السلام عليکم و رحمۃ الله و برکاتہ
عزیز مکرم جناب عدنان عامر رضوی صاحب کی معرفت ،مبلغ اسلام، حضرت مولانا مفتی قاری محمد مجیب علی قادری رضوی نوری، علیہ الرحمہ کے وصال پرملال، اور دل کو ہلا دینے والی افسوسناس خبر موصول ہوئی،
انا للہ وانا الیه راجعون ، ہم اللہ کےمال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے (کنزالایمان)
موت العالِم موت العالَم ایک عالم ربانی کی موت، دنیا کی موت ہے۔
بلاشبہ حضرت شہباز دکن علیہ الرحمہ، امام اہل سنت رضی اللہ تعالی عنہ کےسچے شیدائی، سنتوں کے بڑےپابند،عالم باعمل، عقائد و اعمال میں خوب متصلب، مسلک اعلی حضرت کے ایک بڑے داعی، اور اہل سنت وجماعت کے عظیم خطیب تھے، ملت اسلامیہ کی ترقی کے لئے ایک تڑپتا ہوا دل رکھتے تھے، اور تاحیات اسلام وسنت کی اشاعت کے لئے کوشاں رہے۔
حیدرآباد میں مرکز اہل سنت کا قیام، دارالعلوم فیض رضا، رضا جامع مسجد، مدرسۃ البنات فاطمہ وغیرہ وغیرہ ان کی بے لوث خدمات کا ثبوت اور بڑا کارنامہ ہے۔
حضرت شہباز دکن علیہ الرحمہ کے انتقال پر ہماری طرف سے آپ کو مع جملہ اہل خانہ اور مرکز اہل سنت وجماعت کے تمام ارکان و معانین کو تعزیت پیش ہے،
اللہ تعالی حضرت شہباز دکن علیہ الرحمہ کو غریق رحمت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، آپ کو اور تمام اہل خانہ ومتعلقین و مریدین و متوسلین کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور اس پر اجر عظیم عطا فرمائے۔ ملت اسلامیہ کو ان کا سچا جانشین اور نعم َالبدل عطا فرمائے۔ آمین ، بجاہ حبیبه سید المرسلین، علیه الصلوة والتسليم

احمد القادری رضوی نوری مصباحی
امام وخطیب نوری مسجدٹیکساس، امریکا
۲۸ ؍ذی قعدہ ۱۴۴۲ ھ

حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ، احمد القادری

مرشد حافظ ملت شیخ المشائخ حضرت شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہ‘
(ولادت ۲۲؍ ربیع الاخر۶۶ ۲اھ ؍ وصال ۱۱؍ رجب ۱۳۵۵ ھ)
احمد القادری بھیروی مصباحی

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ ( ۱۳۰۴ ھ۱۸۹۴ء ؍ ۱۹۷۶ ء ۱۳۹۶ ھ)شیخ المشائخ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ (۱۲۶۶ ھ ؍ ۱۳۵۵ ھ ) کے دور طالب علمی ہی سے معتقد تھے، اسی عقیدت نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے حافظ ملت کو حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہکے سلسلۂ بیعت وارادت میں داخل کردیا۔ اور دارالعلوم معینیہ عثمانیہ، اجمیر شریف کے زمانۂ طالب علمی میں حافظ ملت حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے دست مبارک پر سلسلۂ عالیہ قادریہ منوریہ میں بیعت ہوگئے۔ اس سلسلے میں حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہ سے حضور غوث اعظم علیہ الرحمہ تک صرف چار واسطے ہیں (تفصیلی ذکر اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں) قلت وسائط اور علو سند میں دنیا کا کوئی سلسلۂ قادری اس سلسلۃ الذہب کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ نے شوال ۱۳۵۲ھ میں دارالعلوم اشرفیہ کو بحیثیت صدرالمدرسین زینت بخشی، مبارکپور میں حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہ کا ورود مسعود قریباً ہر سال ہوا کرتا۔ حافظ ملت کے قیام مبارکپور کے دوران ایک بار حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہ کی آمد ہوئی تو انھوں نے حافظِ ملت کو خلافت دینا چاہی حافظ ملت کی منکسر ومتواضع طبیعت اور ’’خود راہیچ مداں‘‘ (اپنے کو کچھ مت سمجھو)والی عادت عرض کر اٹھی، حضور مجھ میں تو کچھ صلاحیت نہیں ہے خلافت کیسے لوں؟ جواباً حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہنے یہ امتیازی تمغہ عطا فرمایا ’’مرد حق را قابلیت شرط نیست‘‘ (مرد حق کے لئے قابلیت شرط نہیں)اور خلافت واجازت سے سرفراز فرمایا۔(بروایت استاذ محترم مولانا محمد احمد مصباحی بھیروی)
حافظ ملت ہر سال جامع مسجد راجہ مبارک شاہ مبارکپور میں اپنے پیرومرشد علیہ الرحمہ کا عرس منایا کرتے، قرآن خوانی ، ایصال ثواب، اجلاس اور تقسیم تبرک کا اہتمام ہوتا اور آج بھی اسی روایت کے مطابق ۱۱؍رجب المرجب کو دن کے نصف اول میں یہ عرس وہیں منعقد ہوتا ہے جس میں اہل مبارک پور اشرفیہ کے علماء و طلبہ شریک ہوتے ہیں۔
نام ونسب: نام نامی اسم گرامی ’’علی حسین‘‘ کنیت ’’ابو احمد‘‘لقبِ خاندانی، شاہ، پیر ، شیخ المشائخ، اور اعلیٰ حضرت ہے خطاب سجادہ نشین سرکارِ کلاں اور تخلص اشرفی ہے اور جناب ممدوح کا خاندان بھی اشرفی کہلاتا ہے۔
شیخ المشائخ علیہ الرحمہ ۲۲؍ ربیع الاخر۶۶ ۲اھ بروز دو شنبہ بوقت صبح صادق پیدا ہوئے۔
آپ کا نسب: چوبیسویں پشت میں جاکر حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل جاتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے
حضرت مولانا سید شاہ علی حسین
(۱)ابن حاجی سید شاہ سعادت علی (متوفیٰ ۲۲؍ ربیع الآخر ۱۳۱۳ھ)
(۲) ابن سید شاہ قلندر بخش
(۳)ابن سید شاہ تراب اشرف
(۴)ابن سید شاہ محمد نواز
(۵) ابن سید شاہ محمد غوث
(۶) ابن سید شاہ جمال الدین،
(۷)ابن سید شاہ عزیز الرحمن
(۸)ابن سید شاہ محمد عثمان
(۹) ابن سید شاہ ابوالفتح
(۱۰) ابن سید شاہ محمد
(۱۱) ابن سید شاہ محمد اشرف (متوفی ۹۱۰ھ)
(۱۲) ابن سید شاہ حسن (متوفیٰ۷۹۸ھ)
(۱۳)ابن سید شاہ عبدالرزاق نورالعین قدس سرہم (م ۸۷۲ھ مخدوم آفاق ، تاریخ وفات ہے) آپ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ کے بھانجے ہیں جن کی وفات ۸۰۸ھ میں ہوئی اور اشرف المومنین ، مادّۂ وفات ہے۔)
(۱۴)ابن سید عبدالغفور حسن
(۱۵) ابن سید ابوالعباس احمد
(۱۶) ابن سید بدرالدین حسن
(۱۷) ابن سید علاء الدین علی
(۱۸)ابن سید شمس الدین
(۱۹)ابن سید سیف الدین نجی
(۲۰) ابن سید ظہیرالدین احمد
(۲۱) ابن سید ابونصر محمد
(۲۲) ابن سید محمد الدین ابوصالح نصر
(۲۳) ابن قاضی القضاۃ سید تاج الدین خلف اکبر غوث الثقلین ،غیث الملوین
(۲۴) حضرت شیخ سید ابو محمد محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہم (م ۵۶۱ھ)
چونکہ شیخ المشائخ علیہ الرحمہ حضرت نورالعین قدس سرہ کے خلف اکبر سید شاہ حسن قدس سرہ کی اولاد سے ہیں اس لئے آپ کا خاندان سرکار کلاں یا بڑی سرکار سے بھی ملقب ہے۔
حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہ کے والد ماجد حضرت سید شاہ سعادت علی علیہ الرحمہ بھی بہت قابل اور باکرامت بزرگ تھے۔ آپ سیدنا عبدالرزاق نورالعین علیہ الرحمہ کی اولاد سے ہیں۔
جائے پیدائش: ضلع فیض آباد ۔ یوپی (ہندوستان ) کا مشہور قصبہ کچھوچھہ شریف آپ کی جائے ولادت ہے۔ یہ وہ مقدس و پاک سر زمین ہے جسے آج سے صدیوں پیشتر حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جائے قیام بنایا، اور قیامت تک کے لئے اپنا مسکن متعین فرمایا۔ اور اسے تمام اوہام واصنام سے پاک کر کے اپنا فیضان جاری فرمایا۔ جو بعد وفات بھی پورے ملک پر ویسے ہی جاری وساری ہے بلکہ اس سے فزوں ترجو حیات میں تھا۔ اس آستانۂ پاک پر امراضِ روحانی کی طرح آفات جسمانی اور سحر وآسیب سے بھی لوگ شفا یاب ہوتے ہیں۔ یہیں ہر سال ماہ محرم کی اٹھائیسویں تاریخ کو حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ کا عرس مبارک بھی ہوتا ہے۔ جس میں ملک سے لاکھوں کی تعداد میں عوام وخواص ، اولیاء وصالحین، علماء ،طلبہ،امراء، وفقراء بھی شریک ہوتے اور فیض پاتے ہیں۔
(اگر چہ اس مبارک عرس میں بھی آج کل عوام کی طرف سےکچھ ایسی مذموم حرکتیں ہونے لگی ہیں جو خلافِ شرع اور سراسر ناجائز ہیں، مگر ان کی وجہ سے نفس عرس ناجائز نہیں ہوجائے گا، جیسے بعض شادی کی محفلوں میں بہت سے ناجائز امور کا ارتکاب ہوتاہے ، ان کی وجہ سے نفس نکاح ناجائز نہیں ہوجاتا )
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اکثر وبیشتر فرمایا کرتے تھے کہ:
’’جس وقت میں بارگاہ سمنانی میں حاضر ہوا(۱) اس وقت سے اتنا روحانی فیض پہونچا اور پہونچ رہا ہے جس کو بیا ن نہیں کرسکتا ۔
بچپن: حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ بچپن ہی سے نیک سیرت عمدہ خصلت کے حامل اور اپنے تمام ہم عصر بچوں میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔
علوم ظاہری کی تکمیل: جب آپ کا سن شریف چار برس چار ماہ چاردن کا ہوا تو معمول خاندان کے مطابق مولانا گل محمد صاحب خلیل آبادی نے جو بہت بڑے اہل دل عارف کامل اور خدا کے مقرب بندے تھے بسم اللہ کرائی۔ اس کے بعد مولانا امانت علی صاحب کچھوچھوی نے فارسی کی درسی کتابیں پڑھائیں۔ پھر مولوی سلامت علی صاحب گورکھپوری اور مولوی قادر بخش صاحب کچھوچھوی سے تعلیم پائی غرض کہ سولہ سال کی قلیل عمر میں تمام علوم ظاہری کی تکمیل فرمائی۔
بیعت وخلافت: ۱۲۸۲ھ میں اپنے برادر معظم حضرت مولانا شاہ ابو محمد اشرف حسین صاحب علیہ الرحمہ سے بیعت ہوکر خلافت واجازت حاصل کی
عقد مسنون: ۱۲۸۵ ھ میں حضرت سید شاہ حمایت اشرف بسکھاری کی دختر نیک اختر سے آپ کی شادی ہوئی۔
علوم باطنی کی تکمیل: بیعت وخلافت حاصل ہونے کے بعد ۱۲۹۰ھ میں آپ نے کامل ایک سال آستانۂ عالیہ اشرفیہ پر حسب ارشاد مشائخ کرام تارک الدنیا ہوکر چلہ کشی فرمائی، اور منازلِ عرفان اس طرح طے فرمائے کہ آپ کی ذات بابرکات سے آثار جہاں گیری نمودار ہونے لگے، محبوب یزدانی مخدوم سلطان سیداشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ العزیز کی دعا اور نظر کرم سے اس خاندان میں بڑے بڑے جلیل القدر بزرگ پیدا ہوئے۔ لیکن ایسا آفتابِ رشدوہدایت طلوع نہیں ہوا جس نے سلسلۂ اشرفیہ کا نام اتنا روشن کیا ہو۔ حضرت شیخ المشائخ کو بلا شبہ سلسلۂ عالیہ اشرفیہ کا مجدد اعظم کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان وہندوستان ہی نہیں بلکہ بلاد اسلامیہ (شام ، عراق، مصر، حلب وغیرہ) کے طویل سفر فرماکر سلسلۂ عالیہ اشرفیہ کی اشاعت فرمائی۔ بے شمار افراد سلسلۂ ارادت میں منسلک ہوئے بتایا جاتا ہے کہ آپ جادۂ شریعت پر بڑی سختی سے گامزن تھے۔ اربابِ حاجت کی حاجت رفع کرنا آپ کا جِبِلّیِ شعار تھا۔ کوئی سائل آپ کے در سے محروم نہیں گیا۔ آپ کا دسترخوان ہمیشہ وسیع رہا۔ آپ نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔
اہل کشف ومشاہدہ اور مشائخ کرام کا بیان ہے کہ آپ ہم شکل محبوب سبحانی تھے، برکات باطنیہ کے علاوہ جمال صورت سے بھی آراستہ تھے، جس کو دیکھ کر مخالفین بھی معتقد ہوجاتے تھے۔ اور ماننا پڑتا تھا کہ

یہی نقشہ ہے ،یہی رنگ ہے، ساماں ہے یہی
یہ جو صورت ہے تری ، صورت جاناں، ہے یہی

’’حضرت شیخ المشائخ‘‘ محدث بریلوی کی نظر میں
اس جگہ امام اہل سنت مجدد دین وملت امام احمد رضا محدث بریلوی ( ۱۲۷۲ ھ ؍ ۱۳۴۰ ھ) اور شیخ المشائخ علیہما الرحمہ کے مابین جو محبت وعقیدت تھی اس کا اظہار ضروری معلوم ہوتا ہے صاحبزادہ محدث اعظم ہند سید حسن مثنی انور صاحب ماہنامہ المیزان کچھوچھہ میں رقمطراز ہیں۔
شیخ المشائخ جب شہر بریلی میں رونق افروز ہوئے تو وہیں امام احمد رضا فاضل بریلوی سے ملاقات ہوئی اور پھر سلسلہ دراز ہوتا ہی گیا۔ دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے کو بہت قریب سے دیکھا اور مراتب علیا سے واقف ہوئے شیخ المشائخ امام موصوف کے تبحر علمی اور دینی فہم وبصیرت کے بہت معترف تھے۔ اسی طرح امام احمد رضا علیہ الرحمہ حضرت شیخ المشائخ کی مشیخت اور جمال ظاہری وباطنی نیز روحانی کمالات کے دلدادہ تھے۔ (المیزان)
ایک بار شیخ المشائخ ، حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی رضی اللہ عنہ کے مزار پاک سے فاتحہ پڑھ کر نکل رہے تھے اور فاضل بریلوی (رضی اللہ عنہ)بغرض فاتحہ جارہے تھے کہ فاضل بریلوی کی نظر شیخ المشائخ پر پڑی دیکھا تو بالکل ہم شکل محبوب الہی تھے۔ اسی وقت برجستہ یہ شعر کہا ؎

اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردۂ وپروردۂ سہ محبوباں

اس شعر میں سہ محبوباں سے مراد
(۱)حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء
(۲)حضرت محبوب یزدانی مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی
(۳)حضور غوث اعظم
محبوب سبحانی رضی اللہ عنہم ہیں۔
ایک زمانے میں اس شعر کی مقبولیت علم وادب کی دنیا میں اس قدر تھی کہ اکثر علماء وشعرا نے تضمینیں لکھی تھیں اور فکر وخیال کے مختلف النوع پہلو دکھائے تھے ان میں سے ایک تضمین جو اسی دور میں شائع ہوکر مقبول ہوچکی تھی حضور محدث اعظم ہندقدس سرہ (۱۳۱۱ھ ؍۱۳۸۳ھ) کی ہے اور دوسری تضمین جانشین حضور محدث اعظم ہند مولانا سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کے فکر سخن کا نتیجہ ہے ان شعری تحائف سے بطور نمونہ ہدیۂ ناظرین ہے۔
تضمین حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ
اے زہے مظہر اخلاق حبیب رحمٰں
اے گلے منظر نورستہ غوث جیلاں
اے خوشازیب وہ جادۂ شاہ سمناں
اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردۂ وپروردۂ سہ محبوباں
مورے داتا مورے مہراج گرو مور میاں
جگ کا دیکھا مدا کچھ اور ہے بتیاں تو نہاں
توری مہما کا بکھانت ہیں رضا شیخ جہاں
اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردۂ وپروردۂ سہ محبوباں
شہزادۂ حضور محدث اعظم ہند ، (شیخ الاسلام)حضرت مولانا سید محمد مدنی اختر اشرفی مصباحی کی تضمین کا آخری بند اور مقطع حاضر خدمت ہے۔
تیرا سر ناز کرے جس پہ کلاہ عرفاں
تیرا در، آکے جہاں خم ہو نعیمؔ ۲؎دوراں
تیرے بازو کہ زمانہ ہے رہین احساں
اشرفی اے ر خت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردۂ وپروردۂ سہ محبوباں
سجادہ نشینی: ۲۸؍ محرم الحرام ۱۲۹۷ھ کو زینتِ سجادہ مشیخت ہوئے اور خرقۂ خاندان جو حضرت مخدوم اشرف قدس سرہ کا عطیہ ہے زیب تن فرمایا۔
زیارت حرمین شریفین: آپ نے چار حج کئے پہلا حج ۱۲۹۳ھ میں ادا کیا، اس حج میں دربار رسالت مآب ﷺ سے بعض نعمتیں خاص طور پر حاصل ہوئیں۔ پھر تیس سال بعد دوسرا حج ۱۳۲۳ھ میں ادا فرمایا، اس میں بعض اذکار واشغال کی اجازت بھی مشائخ حرمین شریفین سے حاصل ہوئی۔ تیسرا حج مبارک چھ سال بعد ۱۳۲۹ ھ میں ادا کیا بعد زیارت مدینہ منورہ طائف شریف ، بیت المقدس ، ودیگر مقامات عالیہ شام، مصر ، عامہ شریف حمص شریف میں حاضر ہوکر وہ وہ نعمتیں حاصل کیں جن کی تفصیل کے لئے ایک لمبی کتاب در کار ہے۔ آخری حج وزیارت سے ۱۳۵۴ھ میں شرف یاب ہوئے۔ اس مرتبہ مذکورہ بالا دیار میں صدہا علماء ومشائخ داخل سلسلہ ہوئے اور اجازت وخلافت سے نوازے گئے۔
اوراد و وظائف: شیخ المشائخ علیہ الرحمہ نے باطنی علوم اپنے برادر بزرگ زائر الحرمین سید شاہ اشرف حسین علیہ الرحمہ سے حاصل فرمائے۔ (جن کو علاوہ خاندان اشرفیہ کے تمام مشائخ ہم عصر سے فیض صوری ومعنوی حاصل تھا) شغل وجودیہ اور بعض اذکار مخصوصہ کی تعلیم حضرت سید شاہ عمادالدین اشرف اشرفی عرف لکڑ شاہ کچھوچھوی قدس سرہ سے حاصل کی۔ حضرت لکڑ شاہ صاحب خاندان اشرفیہ میں مشاہیر مشائخ سے گذرے ہیں۔ اسی طرح دیگر اوراد و وظائف کی اجازت اکثر علماء ومشائخ ہند سے حاصل فرمائی۔ چنانچہ حضرت میاں راج شاہ صاحب (ساکن سوندھ شریف ضلع گڑگانواں پنجاب متوفی ۱۲؍ رمضان ۱۳۰۶ھ ) نے سلسلۂ قادریہ زاہدیہ کے ساتھ سلطان الاذکار ودیگر اشغال مخصوصہ کی اجازت دی اور ایک ’’دُوَنّی‘‘ عطا فرمائی۔
سلسلۃ الذہب: مولانا شاہ محمد امیر کابلی نے سلسلۂ قادریہ منوریہ کی اجازت سے نوازا، اس سلسلہ کو سلسلۃ الذہب کہتے ہیں جو عرفی طور سے چار واسطوں سے حضرت غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہونچتا ہے یعنی شیخ المشائخ کو حضرت شاہ محمد امیر کابلی سے ان کو حضرت ملا اخون رامپوری سے ان کو حضرت شاہ منورالہ آبادی سے جن کی عمر ساڑھے پانچ سو برس کی ہوئی ان کو حضرت شاہ دولا قدس سرہ سے ان کو حضور غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی سے (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)
اسی طرح سلسلۂ اویسیہ اشرفیہ کی تعلیم حضرت سید محمد حسن غازی پوری سے حاصل ہوئی ان کو شاہ باسط علی قادری سے ان کو شاہ عبدالعلیم بھیروی سے ان کو شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ (متولی آستانہ بھیرہ ضلع اعظم گڑھ مدفون لہرا، مبارکپور) علیہ الرحمہ سے ان کو حضرت مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ سے ان کو خود حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل ہے۔
خلافت سلسلۂ برکاتیہ: ان کےعلاوہ بہت سے اذکار واشغال کی اجازت حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ سے حاصل ہوئی، آپ نے پھر کسی کو خلافت و اجازت نہیں بخشی، آپ ان کے خاتم الخلفاء ہیں۔
علاوہ ازیں دیگر نعمات وبرکات مختلف واسطوں سے آپ کو حاصل ہوئیں ان کی تفصیل بہت طویل ہے مختصر یہ کہ آپ کی ذات جامع صفات وحسناتِ مشائخ کبار واکابر دیار وامصار کی نعمتوں اور سلاسل مختلفہ متعددہ کی برکتوں کا خزینہ ہے۔
ذَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ
تبلیغ اسلام: آپ نے تبلیغ اسلام کا بہت بڑا کام انجام دیا لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو صراط مستقیم پر گامزن فرمایا اور روحانی فیض پہونچایا۔ آپ کی تقریر نہایت مؤثر ہوتی تھی۔ مواعظ میں جس انداز سے آپ مثنوی پڑھتے وہ بے نظیر تھا۔ ساتھ ہی بہت سی مسجدوں ، اور مدرسوں کا سنگ بنیاد رکھا اور آخر دم تک اس کے تحفظ وبقا کے لئے کوشاں رہے۔ مثلاً مدرسہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد اعظم گڑھ، مدرسہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ، اسی طرح بہت سے مدارس قائم فرمائے۔یہی نہیں بلکہ ہندوستان کی مایۂ ناز درسگاہ دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور کا سنگ بنیاد انھیں کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا اور پوری عمر دارالعلوم کو اپنی روحانی عظمتوں سے فیض پہونچایا۔اس وقت سے لے کر آخر عمر تک آپ نے دارالعلوم اشرفیہ کی سر پرستی قبول فرمائی۔ اس ادارہ کی تمام خدمات آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہیں۔
نمونۂ کلام اشرفی: شیخ المشائخ کا دربار میکدۂ عرفان وآگہی بھی تھا جہاں بادہ گساران طریقت کا ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا۔ متقدمین صوفیہ کی روش پر فارسی، اردو، ہندی، میں فکر سخن بھی فرماتے تھے۔ آپ کے محبوب مرید اور مشہور مبلغ اسلام، میر غلام بھیک نیرنگ، وکیل انبالہ نے دیوان عرفان ترجمان کا مجموعہ بنام تحائف اشرفی ۱۳۳۳ھ میں مرتب کرکے شائع کیا۔ سبحان اللہ کیا کلام عرفان نظام ہے ایک ایک لفظ اثر میں ڈوبا ہوا، زبان شیریں،بیان رنگیں، مگربایں ہمہ تصنع سے مبرا، تکلف سے معرا ہے۔ عندلیبان گلشن قال کے زمزمے کچھ اور ہوتے ہیں بلبلان حال کے چہچہے کچھ اور ، وہاں زیادہ تر قوا ئے عقلیہ سے خطاب ہوتا ہے یہاں سراسر قلب وروح کی جانب توجہ، وہاں اصول بلاغت کی پابندی میںکوہ کندن وکاہ برآوردن ہوتا ہے یہاں باتباع سنت، وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ ، کوئی کہلاتا ہے، تو کہتے ہیں ورنہ خاموش رہتے ہیں نتیجہ یہ کہ۔؎
شعر می گویم بہ از آب حیات
من ندانم فا علاتن فاعلات
اب یہاں فارسی، اردو، اور ہندی اشعار کے ایک ایک نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔
کلام فارسی
عمر ہا جلوۂ او جست نگاہم پیدا
کرد آئینۂ دل ، صورت ماہم پیدا
کعبہ و دیر زآوار گیم تنگ آمد
نیست در عشق، مگر جائے پنا ہم پیدا
مگذار از رہِ الطاف کہ ایں شیوۂ تست
گرچہ صد فتنہ نمایند گنا ہم پیدا
حال بیتابی دل از من بیمار مپرس
کہ شرر ہا شود از سوزش آہم پیدا
فشم گریاں دل سوزاں رخ زرد وتن زار
در رہِ عشق تو گشتند گو اہم پیدا
اشرفی ذلت ورسوائی کوئے خوباں
کرد در ہر دو جہاں عزت وجا ہم پیدا
کلام اردو
چشم جاناں ہے شبیہِ چشم آہو، ہوٗ بہو
عنبریں ہیں کاکلیں شب رنگ کے موٗ موٗ بمو
مست ہوگا ایک عالم مثل آہوئے ختن
اے صبا مت کر پریشاں بوئے گیسو، مو بسوٗ
عشق سر وقد جاناں میں ہے عاشق کا یہ رنگ
کررہا ہے فاختہ کی مثل کوٗ کوٗ کوٗ بہ کوٗ
قتل کاگر ہے ارادہ دیر کیوں کرتے ہیں آپ
دیکھئے موجود ہے یہ تیغ ابروٗ رو بروٗ
اشرفی اللہ سمجھے ان بتوں کے ظلم سے
آنکھ دکھلانے ہی میں کرتے ہیں جادو دو بدوٗ
کلام ہندی
یہ کلام ہندی مکہ معظمہ میں ۱۲۹۴ھ سفراول میںکہا گیا تھا۔
درشن بنا من کیسے مانے داتا کے گھر جائے من کیسے مانے
نرگن جان پیاہیں چتوت جیا مورا جات لجائے۔ من کیسے مانے
گنونتی درشن مدھ ماتی دھن بوری پچھتائے۔ من کیسے مانے
سائیں مونہہ نراس جن پھیرو اپنے دوار بلائے من کیسے مانے
راہ تمہارا اشرفی جو ہت تمپر دھیان لگائے۔
وفات: ۱۱؍رجب ۱۳۵۵ ھ کو ہزاروں حاضرین آپ کے ساتھ ذکر جہر میں شریک تھے، کہ آپ نے کلمۂ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے نوے سال کی عمر میں جان ، جان آفریں کے حوالے کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مریدین وخلفاء وصال کے وقت آپ کے ۲۳لاکھ مریدین اور ساڑھے تیرہ سو خلفاء تھے۔
مزار مبارک کچھوچھہ شریف ضلع فیض آباد میں حضرت مخدوم علیہ الرحمہ کے روضۂ پاک کے قریب ایک چبوترے پر واقع ہے۔ جہاں اہل دل حاضر ہوکر فیوض وبرکات حاصل کرتے ہیں۔
اولاد وامجاد: اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں اپنے اولیاء کاملین کو ہر قسم کے علم وفضل سے نوازتا ہے، اسی کے ساتھ ان کی ہر طرح سے آزمائش وابتلا فرماتا ہے، کبھی افعال وکردار سے، کبھی مصیبتوں اور مشقتوں میں صبر سے کبھی ازواج و اولاد کی موت سے غرض کہ جس طرح خداوند کریم چاہتا ہے آزماتا ہے۔
اسی طرح شیخ المشائخ علیہ الرحمہ کو جہاں بہت سی مصیبتوں اور مشقتوں کو برداشت کرنا پڑا ساتھ ہی اپنی پہلی زوجہ محترمہ جو بہت نیک طینت اور پاکیزہ صفات کی حامل تھیں، اور اپنے جوان بیٹے کی موت بھی دیکھنی پڑی مگر آپ کے پائے استقلال ، اور صبر وشکر میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی۔
سید احمد اشرف علیہ الرحمہ:پہلی بیوی سے ایک فرزند تولدہوئے جن کا نام نامی سید احمد اشرف ہے۔ آپ کی ولادت طیبہ ۴؍شوال المکرم ۱۲۸۶ ھ بروز جمعہ ہوئی، مولانا ابوالمحمود سید شاہ احمد اشرف ، مادہ تاریخ ولادت ہے۔ آپ جہاں ظاہری شکل وصورت میں اپنے والد ماجد علیہ الرحمہ کی جیتی جاگتی تصویر تھے وہیںباطنی کمالات میں بھی انھیں کے جانشین تھے۔۱۳۴۳ ھ میں وصال فرمایا۔ موجودہ سجادہ نشین سرکار کلاں حضرت مولانا سید مختار اشرف صاحب قبلہ انھیں کے صاحب زادے ہیں۔ آپ کے دوسرے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ مصطفی اشرف علیہ الرحمہ ہیں۔ آپ ذیقعدہ ۱۳۱۱ ھ میںپیدا ہوئے اور ۱۷؍ربیع الاول ۱۳۹۱ھ میں رحلت فرماگئے حضرت کے دو مشہور صاحبزادے حضرت مولانا سید مجتبیٰ اشرف (۳؎)اور حضرت مولانا سید حامد اشرف صاحبان (۴؎) ہیں، یہ دونوں حضرات حضور حافظ ملت کے ممتاز شاگردوں میں ہیں۔ اول الذکر تبلیغ وارشاد میں ممتاز اور آخرالذکر بمبئی کی سر زمین پر دارالعلوم محمدیہ کے مؤسس ومحرک اور شیخ الحدیث ہیں۔
حضرت شیخ المشائخ اشرفی میاں علیہ الرحمہ کی شفقتیں جو حضور حافظ ملت پر تھیں اس کا واضح ثبوت آج بھی ان کے شہزادوں میں موجود ہے۔ حافظ ملت عمر بھر اپنے مرشد کامل کے وفادار رہے اور اس خانوادہ ٔمقدسہ کے ایک ایک بچہ سے اپنی گہری وابستگی اور دلی تعلق کا ثبوت موجود ہ دور میں علمائے کچھوچھہ شریف کی نوجوان نسل ہے۔
(بحوالہ صحائف اشرفی ، تحائف اشرفی وغیرہ)
حواشی
(۱ )اس حاضری کی تقریب یوں ہے کہ غالباً ۱۳۹۲ھ ؍۱۹۷۲ء میں قصبہ کچھوچھہ شریف کےکچھ لوگوں نےحافظ ملت علیہ الرحمہ کوایک اجلاس کی دعوت دی، حضرت نےدعوت منظور فرمائی اورکچھوچھہ شریف میں جلسہ کا اعلان ہوگیا، پھرکسی وجہ سے جلسہ منسوخ ہوگیا،منتظمین نےمبارک پور اجلاس کی منسوخی کا ٹیلی گرام کیا مگر حافظ ملت سفرپرتھے اورسفر سے واپسی میں براہ راست کچھوچھہ شریف پہنچ گئے۔مگر منتظمین جلسہ کچھ اونچے لوگوں کےدباؤمیں تھے، تیار نہ ہوئے، بسکھاری میں حضرت مولاناسید ظفرالدین اشرف صاحب،سجادہ نشین ومتولی آستانۂ مخدوم سمنانی کومعلوم ہواتو وہ حضرت کواپنے گھر لے گئے اوردوسرے دن کچھوچھہ شریف میں خاص آستانۂ مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ پر حافظِ ملت علیہ الرحمہ کی تقریر کرائی اور بعد تقریر ایک صالح مرد حضرت کےدست اقدس پربیعت ہوئے جوآستانہ پاک کی مسجد میں معتکف تھے۔ اس کےبعد حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ کافیض کچھ اس طرح جاری ہوا کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ جہاں پہنچتے بکثرت حضرات داخل سلسلہ ہونے کےلیےٹوٹ پڑتے اورآستانہ کے زینہ پر توبیک وقت سیکڑوں کی تعداد میں لوگ بیعت ہوئے باوجودیکہ لوگوں کواس کےلیے آمادہ بھی نہ کیاجاتا ،بلکہ حضرت تواس طرح کی اپیل کےسخت مخالف تھے، چنانچہ بہار کے کوٹام نامی ایک مقام پر بعض مخلصین نے اجلاس میں حافظ ملت سے مرید ہونے کی طرف لوگوں کومتوجہ کیا اس وقت حافظ ملت اپنی تقریر ختم کرکے قیام گاہ تشریف لے جارہے تھے یہ آواز سنی توراستہ سے واپس ہوئے اورمائک پرآکر بڑے جلال میں ارشاد فرمایاکہ میں کوئی پیشہ ور پیر نہیں، نہ ہی اپنی پیری مریدی کےلیےاس طرح کی اپیل پسند کرتاہوں، یہ میرا کوئی کاروبار نہیں، میرے لیےاس طرح کااعلان ہرگز نہیں ہونا چاہیے مگر فیضان مخدوم سمنانی کو کون روک سکتاہے اسی کوٹام نامی مقام پر قریباً ڈیڑھ سو افراد حافظ ملت علیہ الرحمہ کےدست پاک پر تائب ہوکر داخل سلسلہ ہوئے والحمدللہ رب العالمین۔
(بروایت حضرت مولانامحمداحمد صاحب مصباحی بھیروی)
[مطبوعہ،حافظ ملت نمبر ،ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور، رجب، شعبان، رمضان ۱۳۹۸ ھ جون جولائی اگست ۱۹۷۸ ء]
(۲) نعیم دوراں: صدر الافاضل، حضرت مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ (ولادت ۲۱ صفر ۱۳۰۰ھ ، یکم جنوری ۱۸۸۳ء پیر ؍ وفات: ۱۸ ذی الحجہ ۱۳۶۷ ھ ۲۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۸ ء جمعہ)
(۳) حضرت مولانا مجتبیٰ اشرف علیہ الرحمہ ( آپ کی ولادت ، ۲۶؍ ربیع الاخر ۱۳۴۶ھ مطابق ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو کچھوچھہ شریف میں ہوئی۔ اور ۲۱؍ ذی القعدہ ۱۴۱۸ھ مطابق ۲۰؍ مارچ ۱۹۹۸ء بروز جمعہ ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے)
(۴)حضرت مولانا حامد اشرف علیہ الرحمہ (ولادت ۱۳۴۹ھ ۱۱ جولائی ۱۹۳۰ ء ؍ متوفیٰ ۱۸ ؍ صفر ۱۴۲۵ ھ ۹ ؍اپریل ۲۰۰۴ ء بروز جمعہ)

احمد القادری
الاسلامی۔نیٹ
www.al islami.net (AL ISLAMI.NET)

مولاناشاہ ابوالخیر بھیروی علیہ الرحمہ، احمد القادری
بِسْمِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ، نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہ الْکَرِیم

حضرت مولانا شاہ ابو الخیر بھیروی رحمۃ اللہ علیہ
ولادت ۱۰۰۸ ھ وصال ۱۱ ؍شوال ۱۰۵۹ ھ

مولانا ابو الخیر علیہ الرحمہ کا شمار ان بز رگان ِ ہند میں ہوتا ہے جن کے علم وفضل ، زہد و تقویٰ ، طہار ت و پاکیز گی اور رشد و ہدایت سے ایک عالم فیضاب ہوا ۔ جن کی جہاں تاب کرنوں سے ہزاروں گم گشتہ راہوں نے راہ راست پائی ۔ا ور جادۂ مستقیم پر گامزن ہوئے۔
حضرت شاہ شمس الدین حیدری اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’مناقب غوثی ‘‘۱؎ میں ان کی مدح سرائی ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔
آں کاشف اسرار دقائق وآں واقف اشارات حقائق ، آں ممتاز بخلعت ’’ اَوْلیاِئُ اُمّتی کَاَنبیاء ِ بَنِی اِسْرائیل‘‘ آں سرفراز بمناصب ’’العلماء ورثۃ الانبیاء ِ ‘‘بے قیل وقال آں سالک مقامات تجریدآں مستغرق مشاہد ات توحید ، مصفا از آلائش غیر ۔ وے جد کلاں حضرت مرشد حقیقی (مولانا ابو الغوث گرم دیوان شاہ است )شانے عظیم و حالے قوی ونفسے بابرکت تصرفے کامل داشت۔ انوار صلاحیت وآثار عروج مدارجات از بشر مبارک اوتاباں ۔
وہ باریک رازو ں کے کھولنے والے حقائق کے اشاروں کے واقف کار ، حدیث پاک [میری امت کے اولیاء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں] کی خلعت سے ممتاز ، حدیث پاک[علما ابنیاء کے وارث ہیں ] کے منصب سے سرفراز بے چون وچرا مقامات تجرید پر چلنے والے ، توحید کے مشاہدوںمیں مستغرق اور غیر کی الآئش سے پاک وصاف تھے وہ مرشد حقیقی (حضرت مولانا ابو الغوث گرم دیوان شاہ )کے دادا ہیں۔ بڑی شان ، قوی حال ، بابرکت نفس اور پورا پورا تصرف رکھتے تھے صلاحیت و آثارکی کرنیں اور مدارج کی سربلندیاں ان کے روئے مبارک سے تابندہ تھیں۔
اس اعتبار سے آپ کی خصوصیات اور بڑھ جاتی ہے ۔ آپ کے آباؤاجداد سے لے کر اولاد واخلاف تک ہر ایک اپنی جگہ رشد وہدایت کا آفتاب و ماہتاب نظر آتا ہے۔
آپ خالص عربی النسل اورقریشی ہیں ۔ آپ کا سلسلۂ نسب چوبیسویںپشت میں جاکر خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مل جاتا ہے ۔ جو ذیل کے نسب نامہ سے ظاہر ہے۔
سلسلۂ نسب :
شاہ ابو الخیر
ابن شاہ ابو سعید
ا بن شیخ معروف ثانی
ا بن شیخ عثمان
ا بن شیخ محمد ماہ
ابن شیخ چاند
ابن شیخ معروف اول
ا بن شیخ مشید
ابن شیخ محمد مخدوم
ابن شیخ خضر محمد
ا بن شیخ غیاث الدین
ابن شیخ تاج الدین
ا بن شیخ عزالدین
ا بن شیخ نعمان
ا بن شیخ فرخ شاہ
بن شیخ مسعود
ابن شیخ واعظ الاصغر
ابن شیخ واعظ الاکبر
ابن شیخ ابو الفتح
ا بن شیخ اسحٰق
ابن شیخ ابراہیم
ابن حضرت ناصر شاہ
ابن حضرت عبداﷲ
ابن حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہم (مناقب غوثی)
جائے پیدائش:
ضلع اعظم گڈھ یوپی کا مشہور صنعتی گائوں آستانۂ بھیرہ کو آپ کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ اعظم گڈھ شہر سے قریباً پچیس کلومیٹر پورب اور تحصیل محمد آباد گوہنہ سے دو کلو میٹر اتر دریائے ٹونس کے کنارے آباد ہے۔ دریائے ٹونس اس آبادی کے اطراف کو گھیر کر پر فضا اور راحت بخش بناتا ہے۔
مشرق و مغرب میں اس کا طول البلد ۸۳ درجہ ۱۸ دقیقہ اور شمالی و جنوب میں عرض البلد ۲۶ درجہ ۶ دقیقہ ہے۔
اس کے آباد ہونے کی صحیح تاریخ کا پتہ نہیں چلتا۔ البتہ آثار و قرائن اور تاریخ سے اتنا ضرور پتہ لگتا ہے کہ آج سے چھ سو سال قبل ۸۰۰ھ میں ’’آستانۂ بھیرہ‘‘ آباد تھا۔ اور اسی قریبی زمانہ میں ابراہیم شاہ شرقی (زمانۂ حکومت ۸۰۴ھ تا ۸۴۴ھ) سلطان جونپور کی جانب سے شیخ مشید کو اسے بطور جاگیر دیا گیا تھا۔ پھر ان کا خاندان جونپور سے منتقل ہو کر آستانہ بھیرہ مستقل طور پر آباد ہو گیا۔ یہیں سے اس کی تاریخ کتابوں میں ملتی ہے۔
’’دیارِ پورب میں علم اور علماء‘‘ میں یہ بھی ملتا ہے کہ دیارِ پورب میں (جو لکھنؤ، فیض آباد، جونپور، اعظم گڈھ وغیرہ علاقوں کو شامل ہے) سب سے پہلا مدرسہ بھیرہ، ضلع اعظم گڈھ میں قائم ہوا۔
البتہ یہاں کے بزرگوں اور شیوخ سے اس کے آباد ہونے کی ایک روایت نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچتی ہے۔ کہ کسی زمانہ میں دو بزرگ سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے۔ اس زمانہ میں یہ علاقہ ایک گنجان جنگل کی شکل میں تھا انہیں یہ جگہ فرحت بخش معلوم ہوئی۔ سکونت کا ارادہ ہو گیا۔ پانی کی تلاش میں نکلے۔ سامنے انہیں ایک بھیگا ہوا کتا دکھائی پڑا ،اب انہیں قریب میں کہیں پانی ہونے کا یقین ہو گیا، کچھ دور جاکر جھاڑیوں کے بیچ صاف شفاف پانی کی ایک چھوٹی سی نہر بہتی نظر آئی جو آج ’’ٹونس ندی‘‘ کے نام سے اس علاقے کو سیراب کرتی ہے۔ دیکھتے ہی ان کی خوشیوں کی انتہا نہ رہی اور انہوں نے گوشہ نشین ہو کر عبادت الٰہی کے لئے یہ جگہ پسند فرمالی۔ اور مستقل طور پر یہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ بعد میں چل کر یہیں جگہ رفتہ رفتہ آبادی میں تبدیل ہو گئی۔ سلطان پور نام پڑا۔ لیکن گردش لیل و نہار نے اسے مٹا کر ’’بھیرہ‘‘ مشہور کر دیا۔ ۲؎
خاندانی حالات: حضرت شیخ خضر محمد فاروقی علیہ الرحمہ جنھوں نے دہلی کو اپنے ورودِ مسعود سے سرفراز فرمایا۔ شیخ الشیوخ حضرت رکن الدین عالم ملتانی (متوفیٰ ۷۳۵ھ) کے خلیفہ تھے۔ ان کا مزار مبارک دہلی میں مرجع خلائق ہے۔
ان کے فرزند حضرت مخدوم شیخ محمد علیہ الرحمہ کو پدر بزرگوار ہی سے اجازت و خلافت حاصل تھی، والد محترم کے وصال کے بعدکسی وجہ سےخاطر برداشتہ ہوکر دہلی سے جونپور منتقل ہوگئے ۔ اور وہاں کے کسی ویرانہ میں درخت کے نیچے قیام پذیر ہو گئے ۔کچھ دنو ںبعد موسم برسات آگیا ۔ لیکن بہت دنوں تک بارش نہیں ہوئی قحط پڑ گیا ۔ سلطانِ وقت، ابراہیم شاہ شرقی کے پاس رعایا خشک سالی کی شکایت لے کرحاضرہوئی ۔ خود سلطا ن بھی اس سلسلے میں بڑ ےمتفکر تھے، اس وقت کے بزرگان ِ دین اور دریشوں سے دعا کی درخواست کی ۔ ایک روشن ضمیر مجذوب نے فرمایا۔( جن کی کرامتوں سے سلطان خود ان کےبڑے معتقد تھے)۔اے بادشاہ !خدا کا ایک برگزیدہ ولی ، عمارت و مکان کے بغیر درخت کے سایہ میںقیام پذیر ہے ۔تو بارش کیسے ہو؟ اس کو تکلیف پہونچے گی۔
سلطان نے اس فقیر کی تلاش شروع کرائی ۔ لوگوں نے ان کا روئے مبارک دیکھ کر جس سے ولایت کے انوار درخشاں تھے پہچان لیا ۔ سلطان نے خود دست بستہ حاضرِ بارگاہ ہوکر وہاں عمارت بنانے کی درخواست پیش کی ،لیکن وہ درخواست قبول نہ ہوئی ،انجام کار بہ ہزار منت ایک چھپر ڈالنے پر راضی کرلیا ۔ جب چھپر تیار ہوگیا ۔ رخصت مانگ کر سلطان محل کی جانب روانہ ہوئے، راستہ ہی میں تھے،کہ زوردار بارش شروع ہو گئی ۔ بڑی مشکل سے وہ اپنے محل تک پہونچے۔
اس کرامت سے سلطان اورسبھی ارکان دولت بڑے متاثر ہوئے اور دل سے ان کی بزرگی وولایت کے معترف ہو گئے ۔ اکثر سلطان ان کی بارگاہ میں حاضری دیتے،ہرطرف سے خلق خدانیاز حاصل کرنے ان کی بار گاہ میں حاضر ہونے لگی ۔ ہرقسم کے لوگ ان کی بارگاہ میں عجز و نیاز اور اخلاص کے ساتھ پیش آنے لگے ۔ اور ان کا شہرہ دور، دور تک پہونچ گیا ، یہاں تک کہ شہرکے دوسرے مشاہیر کاچرچا کم ہوگیا۔
شیخ سدو کو جو اُس وقت گروہ مشاہیر کاسردار تھا ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پسند نہ آئی ۔ حسد کی آگ، اس کے دل میں جلنے لگی اور ان کی عزت کم کرنے کی فکر میں لگ گیاتا ہم ،زبان سے کچھ نہ کہہ سکا ۔
ایک دن ایک گوالے کی عورت دودھ لے کر ان کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اوردود ھ قبول کرنے کی التجا کی اور کہاکہ اگر قبول فرمائیں تو بقدر استعداد روزانہ بارگاہ میں دودھ پہونچاتی رہوں گی،قدرے تأمل کے بعد آپ نے فرمایا تو قومِ ہنود سے ہے جو ہمارے دین و مذہب کے برخلاف ہے۔ اگر اپنے افعال اور مذہب سے تائب ہوکر دین محمدی( ﷺ) قبول کرلے تو مضائقہ نہیں ۔ وہ بوڑھی عورت ان کے جمال نورانی پر دل سے شیفتہ تھی فوراًکلمۂ شہادت پڑھ کر داخلِ اسلام ہوگئی ۔ کچھ دنوں تک روزانہ بدستور دودھ لاتی رہی ۔ اتفاقاً اس کو مرض الموت لاحق ہو گیا اوراس جہاں سے کوچ کر گئی۔
چونکہ وہ اپنے متعلقین اوراہل خانہ سے پہلے طریقہ پرملتی جلتی تھی سب نے اس کو اپنی رسم کے مطابق جلانا چاہا ۔ یہ خبر حضرت کی خدمت میں پہونچی ۔خادموں سے فرمایا کہ جاکر اس کے متعلقین کوجلانے سے روکو اور کہو کہ وہ مسلمان ہے مسلمانوں کے طریقہ پر تجہیز و تکفین ہونا چاہئے۔انہوں نے مخالفت کی اور اس پرراضی نہ ہوئے ۔ معاملہ بڑھ گیا ۔ اورقاضی شہر تک مقدمہ پہونچا ۔ قاضی نے اس کا ثبوتِ اسلام، دو گواہوں کی شہادت پرموقوف کیا۔ حضرت نے فرمایا بات بڑھانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ مردہ اگر خود اپنے مسلمان ہونے کی گواہی دے دے توکیا ہی بہتر ہو۔ سب حاضرین نے یہ عجیب و غریب دعویٰ بڑا پسند کیا۔ حضرت نے خود اس کے جنازہ کے نزدیک کھڑے ہوکر کہا ۔ اے مسلمان ! اگر تو اپنے مسلمان ہونے کی تصدیق کردے اورکلمہ ٔ شہادت اپنی زبان پرجاری کرلے ،تو مخلوق کو تیرے مسلمان ہونے کایقین ہوجائے کہ تو مسلمان ہے۔ اس عورت نے اپنا سرکفن سے نکالا اور[الحمد للہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ]پڑھ کر پھر اپنا سرکفن میں ڈال لیا ۔ حضرت نے باجماعت نماز جنازہ ادا کرکے شریعت کے مطابق دفن کردیا۔
اس عجیب وغریب کرامت کے ظہور سے پورے شہراور اطراف و جوانب میں غلغلہ بلند ہوا ۔ سلطان تمام خواص وخدام کے ساتھ اکثر آستانہ پرحاضری دیتے۔
شیخ سدو کی شیخی کابازار بڑا خراب ہوگیا۔ اس کی آتش حسد بھڑک اٹھی ان کی دشمنی پرکمربستہ ہوگیا۔ جب نقصان پہونچا نے کا کوئی چارہ نہیںدیکھااور کوئی تدبیرکارگرنہیں ہوسکی تو اس نے زبانی اخلاص کے ساتھ دوستی کاہاتھ بڑھایا ۔ اس نے اپنی لڑکی کے رشتے کے لئے ان کے فرزند حضرت شیخ مشید کاانتخاب کیا اور بڑی لجاجت سے باربار درخواست کی، حضرت نے آخرکار اس کی درخواست بیٹے کے حق میں قبول کر لی۔ جب شیخ سدّو کی بیٹی ان کے حرم میں داخل ہوئی تواس کو آپ پرقابو پانے کی ایک راہ ہاتھ آگئی ۔ اس نے اپنی ایک ہمراز دایہ ، بیٹی کے ساتھ لگادی ۔
ایک دن اس نے دایہ سے حضرت کے معمولات پوچھے اس نے بتایا کہ جمعہ کے دن نماز کے لئے جاتے وقت مجھ سے تیل مانگ کر چند قطرے اپنے کان میں ڈالتے ہیں ۔ یہ سن کر اس نے تھوڑا سا تیل دیا اورکہاکہ معمول کے مطابق جب تم سے تیل مانگیں تویہی دے دینا ۔ اس کی وجہ سے تمام متعلقین وخدام سے زیادہ تمہاری محبت ان کے دل میں بیٹھ جائے گی ۔ وہ نا قص العقل اس کے فریب کو نہ سمجھ سکی ، اس کے کہنے کے مطابق کیا ،جوں ہی حضرت نے وہ تیل کان میں ڈالا ، بے ساختہ زبانِ مبارک سے نکلا ’’ تیرسدوکارشد ‘‘ رضینا بقضاء اللہ تعالیٰ ‘‘ سدوکاتیرکار کرگیا۔ ( ہم اللہ تعالیٰ کی قضاسے راضی ہیں ) مرض بڑھ گیا اورتیسری جمادی الاولیٰ کومحبوب حقیقی سے جا ملے۔
سلطان تعزیت کے لئے آئے اورشیخ مشیدعلیہ الرحمہ کو ان کا جانشین بنایا، بکمال نیاز مندی آستانہ بھیرہ کودیگر موضعات کے ساتھ جاگیر کردیا ۔
شیخ مشید ،شیخ معروف ،شیخ چاند ، شیخ محمد ماہ، شیخ عثمان ، شیخ معروف ، ثانی شیخ ابوسعید (رحمۃ اللہ علیہم)تمام حضرات اولیاء کاملین سے تھے ۔
ولادت:
شاہ ابوالخیر قدس سرہ ، نورالدین محمد جہانگیر کے عہد سلطنت ۱۰۰۸ ھ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا نام ان کی ولادت سے بہت پہلے ان کے والد کی ولادت کے دن ہی رکھ دیا گیا تھا ۔ واقعہ یوں ہے کہ جس دن ان کے والد کی ولادت ہوئی ان کے داداحضرت شیخ معروف ثانی قدس سرہ کوخبرکی گئی، حضرت شیخعلیہ الرحمہ اس وقت کسی کتاب کامطالعہ کررہے تھے۔ فرزند کانام معلوم کرنے کے لئے کتاب میں غور کرنے لگے ۔ نام نکلا ابوسعید ، ابو الخیرفرمایا کہ اس کا نام ابو سعید ہے۔ حق تعالیٰ اسے ایک فرزند عطا فرمائے گا ۔ اس کانام ابو الخیر ہوگا ۔
حالات:
تھوڑی ہی مدت میں علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل کرکے زبردست عالم ِزمانہ ہوگئے ۔ علم ظاہر کے ساتھ علم باطن کے بھی حامل تھے ۔ ہمیشہ صلاح و تقویٰ کے پابند ہے ۔ میر سید شیرمحمد برہان پوری قدس سرہٗ کے مرید تھے ۔ شہاب الدین محمد شاہجہاں کے اوائل عہد سلطنت میں دہلی کے اند رتشریف ارزانی رکھتے تھے ، شاہ ابو الخیر کے علم و بزرگی کاآوازہ ، دور،دور تک جاپہونچا تھا،امیر الامراء نواب شائستہ خاں دہلی میں حضرت کی آمد سے بہت مسرورہوئے۔اور ان کے نزول اجلال کوخاص انعا م الہی سمجھتے ہوئے بڑی عقیدت کے ساتھ، وقت فرصت پابندی سے ان کی خدمت میں بیٹھتے، احادیث ،تفسیر ، صوفیائے کرام کے رموز واشارات اور اصطلاحات ان سے سیکھتے۔ امیر الامراء نے ان کی خدمت میں اپنی تندہی اوران سے حسن اعتقاد کے باعث شاہجہاں بادشاہ کوبھی مشتاق ملاقات بنادیا ۔بادشاہ حاضر بارگاہ ہوکر ملاقات سے بہت خوش ہوئے ۔ نواب شائشتہ خاں کے مشورہ پرسلطان اکثردرخواست کیا کرتے تھے ۔ کہ کوئی منصب یابطورنذر کچھ دیہات قبول فرمائیں، مگر حضرت شیخ نے کبھی التفات نہ فرمایا ۔ لیکن بعض حضرات جو شیخ سے کوئی رشتہ رکھتے تھے اپنے تعارف میں اسی کو ذریعہ بناکر بادشاہ تک پہونچے اور وہاں امتیازی حیثیت حاصل کی ۔
ترک دنیا اورشان استغنا کاسبب یوں پیداہوا ،کہ سلطان (شاہجہاں)ایک دن حضرت شیخ کے پیرومرشد شاہ میرقدس سرہٗ کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے ۔ حضرت میر اس وقت سیالکوٹ میں مقیم تھے ۔ اور حضرت شاہ ابوالخیر علیہ الرحمہ بھی اس وقت ساتھ تھے ۔ سلطان نے کچھ نقد حضرت شاہ میرکی خدمت میں بطور نذر پیش کیا ،قبول نہ فرمایا۔ جب سلطان نے بہت اصرارکیاتو انہوں نے حضرت شیخ ابو الخیر کی طرف اشارہ کیا ، کہ اس ہدیہ کے مستحق یہ ہیں کہ جنہوں نے طرح طرح کی مشقتوں سے علم حاصل کرکے اسے آبرو ئے بیجا کی خاطر صرف کرتے ہیں ۔ یہ بات کمال ِ غیرت سے حضرت شیخ ابوالخیر کے دل میں گھرکرگئی ۔ دنیا وی تعلقات با لکل منقطع کردیا ۔اور راہ سلوک میں آزادانہ اورمردانہ قدم رکھا۔ خود کومشقت خیز مجاہدات و ریاضات میں ڈال دیا۔ اور کمالِ استغنا کے باعث کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔
منقول ہے کہ امیر الامراء کی والدہ اپنے زمانہ کی پارسا اور صالحہ بی بی تھیں ۔ اس جاہ واحتشام کے باوجود سب سے بے تعلق ہوکراپنی روزی چرخہ چلاکر حاصل کیاکرتی تھیں اور اس پیشے میں اتنی مشقت اور محنت کرتیں کہ ضروری خرچ سے زیادہ مبلغ بچ رہا۔ حضرت ابو الخیر علیہ الرحمہ کی خدمت میں نذر کے طورپر قبول کرنے کی درخواست کی کہ ہدیہ، خاص حلال کمائی سے ہے۔ع گرقبول افتدز ہے عزوشرف۔
مگر ہمت و حوصلہ کااستقلال اور اپنے مشرب پراقامت اس درجہ ہوگئی تھی کہ اس پاکباز کی درخواست بھی شرف قبول سے ہمکنا ر نہ ہوسکی ۔
بے زاد وراحلہ سفر حج کاارادہ کر لیا،امیرالامراء نے گزارش کی اس خادم دیرینہ کا جہاز بیت ا للہ کی سمت جایاکرتاہے ۔ حکم ہوتو اس کے ملازموں کو تاکید کردی جائے کہ حضرت اسی جہاز سے تشریف لے جائیں گے ۔
فرمایا وائے برہمت وے در راہ دوست وسیلۂ غیر درمیان آرد ۔
ترجمہ: (افسوس اس کی ہمت پرجو راہ دوست میں غیرکا ذریعہ بیچ میں لائے )
آخر اس درخواست پر توجہ نہ کی اورحرمین شریفین کی زیارت سے مشر ف ہوئے ۔ کچھ دن وہاں مقیم رہ کر وطن کو واپسی اختیار کی ۔ لباس استغنا میں ولید پور تشریف لائے ۔ اور سلطان پور میں جو اِس وقت بھیر ہ کے نام سے مشہور سے ۔ اقامت اختیار کی ۔
تین بیویاں رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوئیں ۔
( ۱) شیخ عبداللہ کی لڑکی ، شیخ عبداللہ، قد وۃ العارفین ، شیخ اسماعیل چریا کوٹی کے فرزند سے ہیں ۔ا ن کا مزار مبارک چریا کوٹ میں حاجت روائے خلق ہے۔ اُس بیوی سے مخدوم شاہ اسماعیل بھیروی قدس سرہٗ پیداہوئے۔
(۲) شیخ محمد کی لڑکی ملا محمود جون پوری کی بہن ۔ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
(۳)شیخ محمود قریشی بائسی مبارک پور کی لڑکی ان سے بھی کوئی فرزند باقی نہ رہا ۔ حق تعالیٰ نے شیخ ابو الخیر علیہ الرحمہ کوتصرفات اور کرامات سے نواز اتھا۔ ایام رحلت قریب ہوئے حضرت نے معاملہ اور مراقبہ میں اسے جان لیا ، گفتگو میں اکثر فراق کی باتیں زبانِ مبارک پہ آجاتیں ۔ گھر کے بیرونی صحن میں برگد کانو ساختہ درخت بہت سایہ دار اور موزوں تھا ، خود حضرت ہی نے اسے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ بیٹھنے کے لئے اسی درخت کے نیچے ایک چبوترہ آراستہ کر لیا تھا ، ایک دن چند محرم راز دوستوں کے ساتھ وہیں کھڑے تھے، عصا دست ِ مبارک میں تھا ، اسی چبوترہ پرقبر کے برابر ایک خط کھینچا ،دوستوں نے اس وقت اس حرکت کو محض خیال سمجھا ، آخر اسی دن بستر مرض پرآرہے۔ اگر چہ مرض کی حرارت کوئی مہلک نہ تھی کہ اس سے کسی کوپریشانی ہو ۔ لیکن اسی روز کی صبح، ۱۱؍شوال ۱۰۵۹ھ میں بعمر اکاون سال ،اس دار فانی سے رحلت فرماگئے ۔ اور حجاب جسمانی سے آزاد ہوکر محبوب حقیقی کے وصال سے شرف یاب ہوئے۔
خلف رشید حضرت شیخ اسماعیل بھیروی قدس سرہ کے پاس قبر کے بارے میں کوئی وصیت نہ تھی، اس لئے مقام قبر کے تعین میں فکرمند تھے ۔ وہ حضرات جوچبوترہ پرخط کھنچنے کے وقت حاضر تھے انہوں نے صورت ِ حال بیان کی ۔ حضرت شیخ اسماعیل نے خود توجہ فرمائی تووہ خط ملاحظہ کیااور احتیاط کے ساتھ لوازم تدفین میں فوراً مصروف ہوگئے ۔ آستانہ بھیرہ میں ان کے مرقد منور پرنورالہی کے لمعات درخشاں ہیں ۔
ان کے فرزند حضرت شاہ مخدوم اسماعیل علیہ الرحمہ مادر زاد ولی تھے ۔ اکثر خوارق ِ عادت کرامتیں صادر ہوئیں۔ ان کا مزار مبارک مولانا ابو الخیر علیہ الرحمہ (بھیرہ )کے پہلو میں ہے۔۳؎ مدرسہ عزیزیہ خیر العلوم بھیرہ انھیں کے اسم گرامی کی طرف منسوب ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کے نقش قدم پہ ہمیں بھی چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے فیوض وبرکات سے مالا مال فرمائے۔ آمین !
(ازمناقب غوثی ص۲۱۰ تا ص ۲۲۵ملخصاً)
حواشی
[(۱) یہ کتاب[ مناقب غوثی ]شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ علیہ الرحمہ(۱۱۰۰ھ- ۱۱۷۸ھ) کے حالات پرمشتمل ہے اورضمناًان کے آباواجداد اور وطن کے کچھ احوال بھی قید تحریر میں آگئے ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے شاہ ابوالغوث علیہ الرحمہ کےخلیفہ شاہ شمس الدین حیدری علیہ الرحمہ نےان کی زندگی ہی میں تحریر فرمایاہے ابھی غیر مطبوعہ ہے اس کاایک قلمی نسخہ شاہ فخرالدین فاروقی غازی پوری علیہ الرحمہ (متوفی ۱۳۹۸ ھ) ساکن دھاواں ضلع غازی پور کے پاس موجود تھا جس کی نقل برادر محترم مولانا محمداحمد صاحب مصباحی دامت برکاتہم نے شعبان ۱۳۹۷ ھ میں وہاں غازی پور مولانا حافظ قاری محمد فضل حق صاحب مدظلہ العالی کے مکان پر رہ کر، پوری کتاب نقل کرلی تھی۔ یہ کتاب فارسی زبان میں تقریباً ڈھائی سوصفحات پرمشتمل ہے، اس کا عکس میرے پاس بھی موجود ہے۔ احمد القادری]
[(۲) تذکرہ علماے ہند فارسی ، از مولوی رحمان علی]
[(۳) حضرت شاہ مخدوم اسماعیل علیہ الرحمہ کے فرزند محمد شاہ اور ان کے فرزند ابوالغوث گرم دیوان شاہ علیہ الرحمہ لوہرا قرب مبارک پور میں ہے۔ ابوالغوث گرم دیوان شاہ علیہ الرحمہ کے فرزند حافظ شیخ عبد العلیم علیہ الرحمہ کی اولاد دھاواں ضلع غازی پور میں ہے۔انجمن امخدومیہ کے زیر اہتمام
۱۶؍ جمادی الاولی کو حضرت شاہ مخدوم اسماعیل علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس ہوتا ہے۔ جس میں قرآن خوانی اور محفل میلاد پاک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
پہلے اس خانوادے کے بزرگ شاہ رحیم اللہ علیہ الرحمہ، بانی مدرسہ رحیمیہ و مدفون بھیرہ ، بڑے تز ک واحتشام سے ہرسال عرس منعقد کرتے تھے، اب اس خاندان کا کوئی فرد بھیرہ میں نہیں رہا، ان کےخاندان کے لوگ دھاواں ضلع غازی پور میں موجودہیں۔
وہ محلہ آپ ہی کی طرف نسبت کرتے ہوئے مخدوم پورہ کے نام سے مشہور ہے۔
انجمن مخدومیہ: ۱۱ ؍ ربیع الآخر ۱۴۰۴ ھ مطابق ۱۵ ؍ جنوری ۱۹۸۴ ء نوجوانان اہل سنت بھیرہ کی ایک تنظیم ہے ، ان کی طرف نسبت کرتے ہوئے انجمن مخدومیہ بھیرہ کے نام سے تشکیل پائی ، نوجوانو ں کے اندر ملی بیداری پیدا کرنا اور مزارات مشائخ بھیرہ کی حفاظت وصیانت کرنا اس کے خاص مقاصد ہیں۔
احمد القادری مصباحی
ساکن بھیرہ پوسٹ ولید پور، ضلع مئو، یوپی، ہند

مولانا شاہ علی احمد بھیروی، از احمد القادری مصباحی

تذکرہ حضرت مولاناشاہ علی احمد بھیروی علیہ الرحمہ
(وفات: ۱۶؍صفر۱۳۱۷ھ)
(از احمد القادری مصباحی)

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا

سرزمین ہند ،ایسی قابل فخر ہستیوں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے خلوت کدوں میں رہ کر ،گم نامی کی زندگی بسر کی اور اہل عالم کے لیے رشدو ہدایت کا گراں قدر سرمایہ فراہم کیاجن کی مساعی جمیلہ سے شجر اسلام کو ہندوستان میں پھیلنے اور پھولنےکا موقع ملا۔ جن کی بے لوث اور قابل تحسین خدمات کااعتراف، پرائے بھی کرتے ہیں۔
انھیں مقدس اور پاک باز ہستیوں میں، حضرت مولانا شاہ علی احمد بھیروی علیہ الرحمہ کابھی شمار ہوتاہے۔

نسب نامہ:
مولانا شاہ علی احمد ابن نعمت اللہ ابن اطہرابن واجد بھیروی علیہم الرحمہ مولانا حافظ ابواسحاق بھیروی علیہ الرحمہ (م ۱۲۳۴ھ) کے نواسےہیں۔

سال ولادت: ۱۲۲۹ھ میں اس خاکدان گیتی پر قدم رکھا۔

جائے پیدائش:
ضلع مئو، یوپی کا مشہور صنعتی گاؤں آستانہ بھیرہ کوآپ کی جائے پیدائش ہونے کاشرف حاصل ہے ، یہ اعظم گڑھ شہر سے قریبا ۲۵؍ کلومیٹر پورب اور تحصیل محمدآباد گوہنہ سے دوکلو میٹر اتر دریائے ٹونس کے کنارے آباد ہے۔ دریائے ٹونس اس آبادی کے کئی اطراف کوگھیر کر پر فضا اور راحت بخش بناتاہے۔
مشرق ومغرب میں اس کا طول البلد ۸۳؍ درجہ ۱۸ دقیقہ اور شمال و جنوب میں عرض البلد ۲۶ درجہ ۶ دقیقہ ہے۔
بھیرہ کےآباد ہونے کی صحیح تاریخ کا پتا نہیں چلتا۔ البتہ آثار وقرائن اور تاریخ سے اتنا ضرور پتا لگتاہے کہ آج سے چھ سو سال قبل ۸۰۰ھ میں آستانہ بھیرہ آباد تھا۔ اسی کے قریبی زمانہ میں ابراہیم شرقی شاہ سلطان (زمانۂ حکومت ۸۰۴ھ-۸۴۴ھ) جون پور ی کی جانب سے شیخ مشید علیہ الرحمہ کو ولیدپور ،بھیرہ، بطور جاگیر دیاگیا تھا پھران کاخاندان جون پور سے منتقل ہوکر بھیرہ میں مستقل طور پر آباد ہوگیا۔ یہیں سے اس کی تاریخ ملتی ہے۔(۱)
تاریخ سے یہ پتا چلتاہے کہ دیارپورب میں (جولکھنو،فیض آباد،جون پور،اعظم گرھ وغیرہ علاقوں کو شامل ہے) سب سے پہلا مدرسہ بھیرہ ضلع اعظم گڑھ میں قائم ہوا۔(۲)
یہاں کے بزرگوں اورشیوخ سے اس کے آباد ہونے کی ایک روایت نسلاً بعد نسلٍ، منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچتی ہے کہ کسی زمانہ میں دو بزرگ سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے اس زمانہ میں یہ علاقہ ایک گنجان جنگل کی شکل میں تھا۔ انھیں یہ جگہ فرحت بخش معلوم ہوئی سکونت کاارادہ کرلیا ، پانی کی تلاش میں نکلے سامنے سے ایک بھیگا ہوا کتا دکھائی پڑا۔ اب انھیں قریب میں کہیں پانی ہونے کا یقین ہوگیا۔ کچھ دور جاکر جھاڑیوں کےبیچ صاف وشفاف پانی کی ایک چھوٹی سی نہر بہتی ہوئی نظر آئی ،جو آج ٹونس ندی کے نام سے اس علاقے کو سیراب کرتی ہے نہر دیکھتے ہی ان کی خوشیوں کی انتہانہ رہی اورانھوں نے گوشہ نشیں ہوکر عبادت الٰہی کےلیے یہ جگہ پسند فرمالی اورمستقل طورپر یہیں سکونت پذیر ہوگئے۔ بعد میں چل کر یہی جگہ رفتہ رفتہ آبادی میں تبدیل ہوگئی۔ سلطان پور نام پڑا۔ لیکن گردش لیل ونہار نے یہ نام باقی نہیں چھوڑا۔ بعد میں بھیرہ کےنام سے مشہور ہوگیا۔

تعلیم:
اپنے والد شیخ نعمت اللہ علیہ الرحمہ اور شیخ محمدسلیم مچھلی شہری علیہ الرحمہ (م۱۲۶۶ھ)سے تعلیم حاصل کی۔ مولانا احمدعلی چریاکوٹی علیہ الرحمہ(م ۱۲۷۲ھ)سے تکمیل کی فراغت کےبعد اپنے ناناشیخ ابواسحاق بھیروی علیہ الرحمہ سے اجازت وخلافت حاصل کرکے ان کی جگہ سجادۂ مَشِیْخَتْ پربیٹھے۔
خداترسی،تقویٰ ،پرہیز گاری اور عبادت وریاضت میںبڑا مقام رکھتے تھے۔ دن میں روزہ رکھتے اور رات عبادت میں گزاردیتے یاد الٰہی میںتو ہردم رطب اللسان رہتے ۔ان کی محفل ذکروتسبیح سے گونجتی رہتی تھی۔ کسی کی غیبت کازبان پرآجاناتو بڑی بات ہے اس کو سننابھی جلدی گوارانہ کرتے۔
مولانا محمد فاروق چریاکوٹی علیہ الرحمہ (م ۱۳۲۷ھ) آپ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”تقریباً تیس برس کے طویل عرصے سے مولانا کےیہاں آمدورفت رکھتاہوں لیکن آج تک کبھی ایسی بات ان کی زبان سے نہیں سنی جوکسی کی مذمت یااذیت کاسبب بنے اور نہ کبھی ان کی مجلس ذکر الٰہی سے خالی پائی“۔(۳)

وفات:
تقریباًنصف صدی تک ارشاد وتلقین کی اہم خدمات انجام دے کر ۱۶؍صفر۱۳۱۷ھ کوآپ نےداعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ مزار پرانوار مدرسہ عزیزیہ خیرالعلوم کےصحن میں واقع ہے۔

حواشی
[(۱) مناقب غوثی۔ یہ کتاب شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ علیہ الرحمہ(۱۱۰۰ھ- ۱۱۷۸ھ) کے حالات پرمشتمل ہے اورضمناان کے آباواجداد اور کچھ بھیرہ کے حالات بھی قید تحریر میں آگئے ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ آج سے قریباً ڈھائی سو برس پہلے شاہ ابوالغوث علیہ الرحمہ کی مبارک زندگی ہی مین ان کے خلیفہ شاہ شمس الدین حیدری نے تحریر فرمائی ہے۔اس سے اس کتاب کی اہمیت کااندازہ لگا یاجاسکتاہے کہ یہ کتاب بزبان فارسی ابھی تک قلمی ہے۔ انھیں کے خاندان کےایک بزرگ شاہ فخرالدین علیہ الرحمہ (م ۱۳۹۸ھ) ساکن دھاواں ضلع غازی پور کےپاس اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ موجود تھا۔ برادر محترم حضرت مولانا محمداحمد صاحب مصباحی دامت برکاتہم العالیہ نے(۱۳۹۷ھ) میں وہاں جاکر پوری کتاب نقل کرلی ہے۔۱۲قادری]
[(۲) دیارپورب میں علم وعلما]
[(۳) تذکرہ علماے ہند فارسی ، از مولوی رحمان علی]

احمد القادری مصباحی عفی عنہ

یوم صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
یوم صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
وصال، ۲۲ جمادی الآخرہ
خلیفۂ برحق، یار غار، حضرت سیدنا، صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ، انبیاء ومرسلین کے بعد، مخلوق میں سب سے افضل ہیں۔نبی آخرالزماں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پہ، ایمان لانے والے مردوں میں، پہلے جاں نثار صحابی، امت مسلمہ کے پہلے امیر المومنین، اور عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں، آپ ہمیشہ آقائے کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے، ہجرت میں، اور تمام غزوات میں ساتھ رہے، حتاکہ بعد وصال قبر انور میں بھی ساتھ ہیں۔
۲۲ جمادی الآخرہ سنہ ۱۳ ھ میں اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔
اپنی طیبہ طاہرہ بیٹی، ام المومنین، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرۂ پاک میں، تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہیں،ان کے فضائل ومناقب، بے شمار ہیں۔
اس ماہ مبارک میں بکثرت ان کے تذکرے کئے جائیں، اپنے گھروں میں، مسجدوں میں، اور محفلوں میں، ہر جگہ ان کے فضائل ومناقب بیان کئے جائیں۔بلکہ ان کی پاکیزہ زندگی کے نقوش، دنیا بھر کے لوگوں کے سامنے، آنے چاہئیں۔
واللہ الموفق والمعین، نعم المولی ونعم النصیر
تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری
تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار نام محفوظ ہیں جن کے کارہائے نمایاں رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے لیکن جب ذکر سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کا آجائے تو تاریخ ڈھونڈتی ہے کہ ان جیسا دوسراکوئی ایک ہی اسے اپنے دامن میں مل جائے ۔ کوئی کسی فن کا امام ہے تو کوئی کسی علم کا ماہر لیکن سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ ہر علم ، ہر فن کے آفتاب و ماہتاب ہیں
مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان قادری برکاتی نوری
ولادت با سعادت
مرجع العلماء و الفقہاء سیدی حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفی رضا صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ کی ولادت با سعادت ۔ ۲۲ذوالحجہ ۱۳۱۰ھ بروز جمعہ صبح صادق کے وقت بریلی شریف میں ہوئی ۔
پیدائشی نام ’’ محمد ‘‘ عرف ’’مصطفی رضا‘‘ ہے ۔ مرشد برحق حضرت شاہ ابو الحسین نوری قدس سرہ العزیزنے آل الرحمن ابو البرکات نام تجویز فرمایا اور چھہ ماہ کی عمر میں بریلی شریف تشریف لا کر جملہ سلاسل عالیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی اور ساتھ ہی امام احمد رضا قدس سرہ کو یہ بشارت عظمیٰ سنائی کہ یہ بچہ دین و ملت کی بڑ ی خدمت کرے گا اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے ۔
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی
شریعت کے صدرِشھیر ، طریقت کے بدر منیر ، محسنِ اھلسنّت ، خلیفہ اعلیٰ حضرت ، مصنفِ بہارِ شریعت حضرتِ علامہ مولانا الحاج مفتی محمد امجد علی اعظمی رضوی سنّی حنفی قادِری برکاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ۱۳۰۰ھ مطابق 1882ء میں مشرقی یوپی (ہند) کے قصبے گھوسی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ ماجد حکیم جمال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور دادا حُضُور خدابخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فنِ طِب کے ماہِر تھے۔ اِبتدائی تعلیم اپنے دادا حضرت مولانا خدا بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے گھر پر حاصل کی پھراپنے قصبہ ہی میں مدرَسہ ناصر العلوم میں جا کر گوپال گنج کے مولوی الہٰی بخش صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کچھ تعلیم حاصل کی۔ پھرجو نپورپہنچے اور اپنے چچا زاد بھائی اور اُستاذ مولانا محمد صدیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کچھ اسباق پڑھے۔ پھرجامع معقولات ومنقولات حضرت علامہ ہدایت اللہ خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے اکتساب فیض کیا۔ پھر دورہ حدیث کی تکمیل پیلی بھیت میں اُستاذُ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سُورَتی علیہ الرحمۃ سے کی۔ حضرت محدثِ سُورَتی علیہ الرحمۃ نے اپنے ہونہار شاگرد کی عَبقَری  صلاحیتوں کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:
امام احمد رضا خان کے تجدیدی کارنامے
علم تاریخ نے اپنے دامن میں اچھی اور برُی ہر دوصفت کی حامل شخصیات کو سمیٹ کر پناہ دی ہے اس طرح انہیں زمانے کی دست برد اور شکستگی سے محفوظ کردیا ہے تاکہ آئینہ تاریخ میں ماضی کے عکس و نقش کا مشاہدہ حال و استقبال کو جاندار اور شاندار بنانے میں معاون ہو۔ لیکن بعض شخصیات کا پیکرِ احساس اتنا جاندار و شاندار ہوتا ہے کہ جنہیں تاریخ محفوظ رکھنے کا اہتمام کرے یا نہ کرے وہ شخصیات اپنی تاریخ آپ مرتب کرلیتی ہیں اس لئے کہ وہ عہد ساز اور تاریخ ساز ہستیاں ہوتی ہیں یہ شخصیات اپنی پہچان کیلئے مؤرخ کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ ان نادر زمن ہستیوں کے خوبصورت تذکرے کو تاریخ اپنے صفحات کی زینت بنانے کیلئے خود محتاج ہے اور مؤرخ ان کے تذکرے لکھ کر خود کو متعارف کرانے کا محتاج ہوتا ہے۔ ایسی ہی عہد ساز ہستیوں میں ایک مہر درخشاں وہ بھی ہے جسے شرق تا غرب شیخ الاسلام و المسلمین، محدث عصر، فقیہہ دہر، مجدد دین و ملت ، حامی سنّت، قامع بدعت، اعلیٰ حضرت وغیر ہم القابات و خطابات سے پہچانا جاتا ہے ۔ امام احمد رضا فاضل و محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کے اسم گرامی کے اعزاز و اکرام کے بارے میں علامہ ہدایت اللہ بن محمود سندھی حنفی قادری مہاجر مدنی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں۔
مینو