بِسْمِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
حالات مولاناعبدالغفار اعظمی

حضرت مولاناعبدالغفار صاحب اعظمی نوری الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے سعادت مندلائق اورذی استعداد فاضلین میں سے ہیں اورباذوق مقالہ نگار بھی ہیں، جن کے مضامین اکثر رسائل واخبارات میں نکلتے رہتے ہیں۔ قوم وملت کی فلاح وبہبود کاجذبہ ان کے دلوں میں موجزن ہے”اصلاح رسوم“ نامی کتاب ان کے دینی واصلاحی جذبے کا جیتا جاگتاثبوت ہے۔
آپ کا آبائی وطن: ریوری ڈیہ، متصل ندوہ سرائے ضلع مئو(یوپی) ہے۔ پہلے یہ علاقہ اعظم گڑھ میںتھا۔ ۱۹؍نومبر۱۹۸۸ء سے جب مئو ضلع ہوا تو یہ اس میں شامل ہوگیا۔
آپ کے والد بزگوار: جناب عبدالعظیم بن محمدابراہیم ایک محنتی زراعت پیشہ شخص ہیں جنھوں نے اپنی تنگ دستی اور غربت کی پروَا کیے بغیر اپنے اِس ہونہار بیٹے کو دینی تعلیم دلاکراپنے لیے بہترین سامان آخرت تیار کرلیا۔ جبکہ اپنے دوسرے بیٹے جناب عبدالسلام صاحب کو حاٖفظ قرآن بناکراپنےلیے شفاعت کاذریعہ فراہم کرلیا۔
تاریخ پیدائش: ۴؍مئی ۱۹۶۳ء مطابق ۳۰؍ذیقعدہ ۱۳۸۲ء بروز جمعہ ہے۔
تعلیم: بچپن میں آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے یہاں، ایک مقامی مکتب میں حاصل کی۔ درجہ پنجم پاس کرکے فارسی وہیں شروع کی، مگراس کامناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ۱۳۹۴ھ میں مدرسہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد میں داخلہ لیا اورتقریباً ۴؍سال تک وہاں زیر تعلیم رہ کر مولوی کاامتحان پاس کیا ۱۳۹۸ھ میں مدرسہ شمس العلوم گھوسی میں آگئے۔ اسی زمانے میں ادیب ماہر علی گڑھ کا امتحان پاس کیا۔
پھرایک ہی سال بعد مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گوہنہ شوال ۱۳۹۹ھ ستمبر ۱۹۷۹ء میں داخلہ لیا۔ اُن دنوں محققِ عظیم ،ادیبِ زماں، مخلصِ بے پایاں،حضرت مولانامحمداحمد صاحب مصباحی شیخ الادب الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی خدمات حاصل کرنے میں ارکانِ فیض العلوم کامیاب ہوچکے تھے اورمحقق موصوف صدرالمدرسین کی حیثیت سے فیض العلوم تشریف لاچکے تھے۔ ان کے علمی فیضان کاشہرہ سن کر باذوق طلبہ ،فیض العلوم کی جانب ہرطرف سے ٹوٹے پڑرہے تھے۔انھیں میں مولاناعبدالغفار صاحب بھی ہیں۔ یہیں سے میرا اوران کاساتھ ہوا۔ اور فراغت تک ایک مخلص ہمدرد،محنتی، رفیق درس کی حیثیت سے ساتھ ساتھ رہے۔
ان کی تعلیم فیض العلوم میں تو کل دوہی سال رہی، لیکن یہی دوسال درحقیقت ان کی تعلیم کےاہم ایام ہیں جن کو وہ اپنی زندگی کے بیش قیمت لیل ونہار شمار کرتے ہیں۔ وہاں کی تعلیم کےسلسلے میں اپنے ایک مکتوب میں یوں رقم طراز ہیں:
”حقیقی معنوں میں فیض العلوم کی تعلیم ہی میرے لیے کامیابی کاباعث بنی“۔
منشی،عالم اورمنشی کامل کے امتحانات یہیں سے پاس کیے اس زمانے میں وہاں مشکوٰۃ شریف تک تعلیم تھی۔ شعبان ۱۴۰۱ھ جون ۱۹۸۱ء میں فیض العلوم کا آخری امتحان پاس کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے مرکزی درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور (شوال ۱۴۰۱ھ اگست ۱۹۸۱ء) میں داخلہ لیا، اوردرس نظامیہ کی تکمیل کی، اور یکم جمادَی الآخرہ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۷؍مارچ ۱۹۸۳ء حافظ ملت کے عرس پاک کے حسین موقع پردستار فضیلت وقراءت سے نوازے گئے۔
بخاری شریف(۱۴۰۳ھ) اور شرف بخاری شریف (۱۹۸۳ء) سے سن فراغت نکلتاہے۔
یہیں سے فاضل دینیات الٰہ آباد اورادیب کامل علی گڑھ پاس کیا۔ پھر فاضلِ طب اورفاضل ادب کاپرائیوٹ امتحان بھی اعلیٰ نمبر سے پاس کیا۔
زمانۂ طالب علمی سے آپ کواشاعتی لگاؤتھا۔ مجلس اشاعت طلبۂ فیض العلوم کےاہم رکن رہے۔ اسی ذوق کی بناء پر فراغت کے بعد المجمع الاسلامی فیض العلوم میں آپ کا تقرر ہوا مگر پھر انہیں تدریس کازیادہ اشتیاق ہوا، اس لیے انھوں نے جلد ہی مشغلۂ تدریس اختیار کرلیا۔
(۱)فیض العلوم محمدآباد(۲)مدرسہ مفتاح العلوم مہراج گنج، اعظم گڑھ (۳) دارالعلوم قادریہ چریاکوٹ (۴) مدرسہ عربیہ بحرالعلوم سدھور ضلع بارہ بنکی میں اپنانشانِ درس چھوڑ کر کئی سالوں سے تادم تحریر دارالعلوم سرکار آسی سکندر پور، ضلع بلیا میں نائب صدرالمدرسین کے عہدہ پر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بیعت وارادت شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حضور سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے حاصل ہے۔
تالیفات
مندرجہ ذیل تالیفات اور متعدد مضامین آپ کے منظر عام پر آچکے ہیں
[۱] اصلاح رسوم
[۲ ] سیرت رسول اعظم
[۳] علماء ومشائخ سکندر پور
[۴] چالیس احادیث کا انمول تحفہ
[۵] فضیلت نماز

احمدالقادری مصباحی
الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

مزید
مینو