بِسْمِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ، نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہ الْکَرِیم

حضرت مولانا شاہ ابو الخیر بھیروی رحمۃ اللہ علیہ
ولادت ۱۰۰۸ ھ وصال ۱۱ ؍شوال ۱۰۵۹ ھ

مولانا ابو الخیر علیہ الرحمہ کا شمار ان بز رگان ِ ہند میں ہوتا ہے جن کے علم وفضل ، زہد و تقویٰ ، طہار ت و پاکیز گی اور رشد و ہدایت سے ایک عالم فیضاب ہوا ۔ جن کی جہاں تاب کرنوں سے ہزاروں گم گشتہ راہوں نے راہ راست پائی ۔ا ور جادۂ مستقیم پر گامزن ہوئے۔
حضرت شاہ شمس الدین حیدری اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’مناقب غوثی ‘‘۱؎ میں ان کی مدح سرائی ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔
آں کاشف اسرار دقائق وآں واقف اشارات حقائق ، آں ممتاز بخلعت ’’ اَوْلیاِئُ اُمّتی کَاَنبیاء ِ بَنِی اِسْرائیل‘‘ آں سرفراز بمناصب ’’العلماء ورثۃ الانبیاء ِ ‘‘بے قیل وقال آں سالک مقامات تجریدآں مستغرق مشاہد ات توحید ، مصفا از آلائش غیر ۔ وے جد کلاں حضرت مرشد حقیقی (مولانا ابو الغوث گرم دیوان شاہ است )شانے عظیم و حالے قوی ونفسے بابرکت تصرفے کامل داشت۔ انوار صلاحیت وآثار عروج مدارجات از بشر مبارک اوتاباں ۔
وہ باریک رازو ں کے کھولنے والے حقائق کے اشاروں کے واقف کار ، حدیث پاک [میری امت کے اولیاء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں] کی خلعت سے ممتاز ، حدیث پاک[علما ابنیاء کے وارث ہیں ] کے منصب سے سرفراز بے چون وچرا مقامات تجرید پر چلنے والے ، توحید کے مشاہدوںمیں مستغرق اور غیر کی الآئش سے پاک وصاف تھے وہ مرشد حقیقی (حضرت مولانا ابو الغوث گرم دیوان شاہ )کے دادا ہیں۔ بڑی شان ، قوی حال ، بابرکت نفس اور پورا پورا تصرف رکھتے تھے صلاحیت و آثارکی کرنیں اور مدارج کی سربلندیاں ان کے روئے مبارک سے تابندہ تھیں۔
اس اعتبار سے آپ کی خصوصیات اور بڑھ جاتی ہے ۔ آپ کے آباؤاجداد سے لے کر اولاد واخلاف تک ہر ایک اپنی جگہ رشد وہدایت کا آفتاب و ماہتاب نظر آتا ہے۔
آپ خالص عربی النسل اورقریشی ہیں ۔ آپ کا سلسلۂ نسب چوبیسویںپشت میں جاکر خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مل جاتا ہے ۔ جو ذیل کے نسب نامہ سے ظاہر ہے۔
سلسلۂ نسب :
شاہ ابو الخیر
ابن شاہ ابو سعید
ا بن شیخ معروف ثانی
ا بن شیخ عثمان
ا بن شیخ محمد ماہ
ابن شیخ چاند
ابن شیخ معروف اول
ا بن شیخ مشید
ابن شیخ محمد مخدوم
ابن شیخ خضر محمد
ا بن شیخ غیاث الدین
ابن شیخ تاج الدین
ا بن شیخ عزالدین
ا بن شیخ نعمان
ا بن شیخ فرخ شاہ
بن شیخ مسعود
ابن شیخ واعظ الاصغر
ابن شیخ واعظ الاکبر
ابن شیخ ابو الفتح
ا بن شیخ اسحٰق
ابن شیخ ابراہیم
ابن حضرت ناصر شاہ
ابن حضرت عبداﷲ
ابن حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہم (مناقب غوثی)
جائے پیدائش:
ضلع اعظم گڈھ یوپی کا مشہور صنعتی گائوں آستانۂ بھیرہ کو آپ کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ اعظم گڈھ شہر سے قریباً پچیس کلومیٹر پورب اور تحصیل محمد آباد گوہنہ سے دو کلو میٹر اتر دریائے ٹونس کے کنارے آباد ہے۔ دریائے ٹونس اس آبادی کے اطراف کو گھیر کر پر فضا اور راحت بخش بناتا ہے۔
مشرق و مغرب میں اس کا طول البلد ۸۳ درجہ ۱۸ دقیقہ اور شمالی و جنوب میں عرض البلد ۲۶ درجہ ۶ دقیقہ ہے۔
اس کے آباد ہونے کی صحیح تاریخ کا پتہ نہیں چلتا۔ البتہ آثار و قرائن اور تاریخ سے اتنا ضرور پتہ لگتا ہے کہ آج سے چھ سو سال قبل ۸۰۰ھ میں ’’آستانۂ بھیرہ‘‘ آباد تھا۔ اور اسی قریبی زمانہ میں ابراہیم شاہ شرقی (زمانۂ حکومت ۸۰۴ھ تا ۸۴۴ھ) سلطان جونپور کی جانب سے شیخ مشید کو اسے بطور جاگیر دیا گیا تھا۔ پھر ان کا خاندان جونپور سے منتقل ہو کر آستانہ بھیرہ مستقل طور پر آباد ہو گیا۔ یہیں سے اس کی تاریخ کتابوں میں ملتی ہے۔
’’دیارِ پورب میں علم اور علماء‘‘ میں یہ بھی ملتا ہے کہ دیارِ پورب میں (جو لکھنؤ، فیض آباد، جونپور، اعظم گڈھ وغیرہ علاقوں کو شامل ہے) سب سے پہلا مدرسہ بھیرہ، ضلع اعظم گڈھ میں قائم ہوا۔
البتہ یہاں کے بزرگوں اور شیوخ سے اس کے آباد ہونے کی ایک روایت نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچتی ہے۔ کہ کسی زمانہ میں دو بزرگ سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے۔ اس زمانہ میں یہ علاقہ ایک گنجان جنگل کی شکل میں تھا انہیں یہ جگہ فرحت بخش معلوم ہوئی۔ سکونت کا ارادہ ہو گیا۔ پانی کی تلاش میں نکلے۔ سامنے انہیں ایک بھیگا ہوا کتا دکھائی پڑا ،اب انہیں قریب میں کہیں پانی ہونے کا یقین ہو گیا، کچھ دور جاکر جھاڑیوں کے بیچ صاف شفاف پانی کی ایک چھوٹی سی نہر بہتی نظر آئی جو آج ’’ٹونس ندی‘‘ کے نام سے اس علاقے کو سیراب کرتی ہے۔ دیکھتے ہی ان کی خوشیوں کی انتہا نہ رہی اور انہوں نے گوشہ نشین ہو کر عبادت الٰہی کے لئے یہ جگہ پسند فرمالی۔ اور مستقل طور پر یہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ بعد میں چل کر یہیں جگہ رفتہ رفتہ آبادی میں تبدیل ہو گئی۔ سلطان پور نام پڑا۔ لیکن گردش لیل و نہار نے اسے مٹا کر ’’بھیرہ‘‘ مشہور کر دیا۔ ۲؎
خاندانی حالات: حضرت شیخ خضر محمد فاروقی علیہ الرحمہ جنھوں نے دہلی کو اپنے ورودِ مسعود سے سرفراز فرمایا۔ شیخ الشیوخ حضرت رکن الدین عالم ملتانی (متوفیٰ ۷۳۵ھ) کے خلیفہ تھے۔ ان کا مزار مبارک دہلی میں مرجع خلائق ہے۔
ان کے فرزند حضرت مخدوم شیخ محمد علیہ الرحمہ کو پدر بزرگوار ہی سے اجازت و خلافت حاصل تھی، والد محترم کے وصال کے بعدکسی وجہ سےخاطر برداشتہ ہوکر دہلی سے جونپور منتقل ہوگئے ۔ اور وہاں کے کسی ویرانہ میں درخت کے نیچے قیام پذیر ہو گئے ۔کچھ دنو ںبعد موسم برسات آگیا ۔ لیکن بہت دنوں تک بارش نہیں ہوئی قحط پڑ گیا ۔ سلطانِ وقت، ابراہیم شاہ شرقی کے پاس رعایا خشک سالی کی شکایت لے کرحاضرہوئی ۔ خود سلطا ن بھی اس سلسلے میں بڑ ےمتفکر تھے، اس وقت کے بزرگان ِ دین اور دریشوں سے دعا کی درخواست کی ۔ ایک روشن ضمیر مجذوب نے فرمایا۔( جن کی کرامتوں سے سلطان خود ان کےبڑے معتقد تھے)۔اے بادشاہ !خدا کا ایک برگزیدہ ولی ، عمارت و مکان کے بغیر درخت کے سایہ میںقیام پذیر ہے ۔تو بارش کیسے ہو؟ اس کو تکلیف پہونچے گی۔
سلطان نے اس فقیر کی تلاش شروع کرائی ۔ لوگوں نے ان کا روئے مبارک دیکھ کر جس سے ولایت کے انوار درخشاں تھے پہچان لیا ۔ سلطان نے خود دست بستہ حاضرِ بارگاہ ہوکر وہاں عمارت بنانے کی درخواست پیش کی ،لیکن وہ درخواست قبول نہ ہوئی ،انجام کار بہ ہزار منت ایک چھپر ڈالنے پر راضی کرلیا ۔ جب چھپر تیار ہوگیا ۔ رخصت مانگ کر سلطان محل کی جانب روانہ ہوئے، راستہ ہی میں تھے،کہ زوردار بارش شروع ہو گئی ۔ بڑی مشکل سے وہ اپنے محل تک پہونچے۔
اس کرامت سے سلطان اورسبھی ارکان دولت بڑے متاثر ہوئے اور دل سے ان کی بزرگی وولایت کے معترف ہو گئے ۔ اکثر سلطان ان کی بارگاہ میں حاضری دیتے،ہرطرف سے خلق خدانیاز حاصل کرنے ان کی بار گاہ میں حاضر ہونے لگی ۔ ہرقسم کے لوگ ان کی بارگاہ میں عجز و نیاز اور اخلاص کے ساتھ پیش آنے لگے ۔ اور ان کا شہرہ دور، دور تک پہونچ گیا ، یہاں تک کہ شہرکے دوسرے مشاہیر کاچرچا کم ہوگیا۔
شیخ سدو کو جو اُس وقت گروہ مشاہیر کاسردار تھا ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پسند نہ آئی ۔ حسد کی آگ، اس کے دل میں جلنے لگی اور ان کی عزت کم کرنے کی فکر میں لگ گیاتا ہم ،زبان سے کچھ نہ کہہ سکا ۔
ایک دن ایک گوالے کی عورت دودھ لے کر ان کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اوردود ھ قبول کرنے کی التجا کی اور کہاکہ اگر قبول فرمائیں تو بقدر استعداد روزانہ بارگاہ میں دودھ پہونچاتی رہوں گی،قدرے تأمل کے بعد آپ نے فرمایا تو قومِ ہنود سے ہے جو ہمارے دین و مذہب کے برخلاف ہے۔ اگر اپنے افعال اور مذہب سے تائب ہوکر دین محمدی( ﷺ) قبول کرلے تو مضائقہ نہیں ۔ وہ بوڑھی عورت ان کے جمال نورانی پر دل سے شیفتہ تھی فوراًکلمۂ شہادت پڑھ کر داخلِ اسلام ہوگئی ۔ کچھ دنوں تک روزانہ بدستور دودھ لاتی رہی ۔ اتفاقاً اس کو مرض الموت لاحق ہو گیا اوراس جہاں سے کوچ کر گئی۔
چونکہ وہ اپنے متعلقین اوراہل خانہ سے پہلے طریقہ پرملتی جلتی تھی سب نے اس کو اپنی رسم کے مطابق جلانا چاہا ۔ یہ خبر حضرت کی خدمت میں پہونچی ۔خادموں سے فرمایا کہ جاکر اس کے متعلقین کوجلانے سے روکو اور کہو کہ وہ مسلمان ہے مسلمانوں کے طریقہ پر تجہیز و تکفین ہونا چاہئے۔انہوں نے مخالفت کی اور اس پرراضی نہ ہوئے ۔ معاملہ بڑھ گیا ۔ اورقاضی شہر تک مقدمہ پہونچا ۔ قاضی نے اس کا ثبوتِ اسلام، دو گواہوں کی شہادت پرموقوف کیا۔ حضرت نے فرمایا بات بڑھانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ مردہ اگر خود اپنے مسلمان ہونے کی گواہی دے دے توکیا ہی بہتر ہو۔ سب حاضرین نے یہ عجیب و غریب دعویٰ بڑا پسند کیا۔ حضرت نے خود اس کے جنازہ کے نزدیک کھڑے ہوکر کہا ۔ اے مسلمان ! اگر تو اپنے مسلمان ہونے کی تصدیق کردے اورکلمہ ٔ شہادت اپنی زبان پرجاری کرلے ،تو مخلوق کو تیرے مسلمان ہونے کایقین ہوجائے کہ تو مسلمان ہے۔ اس عورت نے اپنا سرکفن سے نکالا اور[الحمد للہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ]پڑھ کر پھر اپنا سرکفن میں ڈال لیا ۔ حضرت نے باجماعت نماز جنازہ ادا کرکے شریعت کے مطابق دفن کردیا۔
اس عجیب وغریب کرامت کے ظہور سے پورے شہراور اطراف و جوانب میں غلغلہ بلند ہوا ۔ سلطان تمام خواص وخدام کے ساتھ اکثر آستانہ پرحاضری دیتے۔
شیخ سدو کی شیخی کابازار بڑا خراب ہوگیا۔ اس کی آتش حسد بھڑک اٹھی ان کی دشمنی پرکمربستہ ہوگیا۔ جب نقصان پہونچا نے کا کوئی چارہ نہیںدیکھااور کوئی تدبیرکارگرنہیں ہوسکی تو اس نے زبانی اخلاص کے ساتھ دوستی کاہاتھ بڑھایا ۔ اس نے اپنی لڑکی کے رشتے کے لئے ان کے فرزند حضرت شیخ مشید کاانتخاب کیا اور بڑی لجاجت سے باربار درخواست کی، حضرت نے آخرکار اس کی درخواست بیٹے کے حق میں قبول کر لی۔ جب شیخ سدّو کی بیٹی ان کے حرم میں داخل ہوئی تواس کو آپ پرقابو پانے کی ایک راہ ہاتھ آگئی ۔ اس نے اپنی ایک ہمراز دایہ ، بیٹی کے ساتھ لگادی ۔
ایک دن اس نے دایہ سے حضرت کے معمولات پوچھے اس نے بتایا کہ جمعہ کے دن نماز کے لئے جاتے وقت مجھ سے تیل مانگ کر چند قطرے اپنے کان میں ڈالتے ہیں ۔ یہ سن کر اس نے تھوڑا سا تیل دیا اورکہاکہ معمول کے مطابق جب تم سے تیل مانگیں تویہی دے دینا ۔ اس کی وجہ سے تمام متعلقین وخدام سے زیادہ تمہاری محبت ان کے دل میں بیٹھ جائے گی ۔ وہ نا قص العقل اس کے فریب کو نہ سمجھ سکی ، اس کے کہنے کے مطابق کیا ،جوں ہی حضرت نے وہ تیل کان میں ڈالا ، بے ساختہ زبانِ مبارک سے نکلا ’’ تیرسدوکارشد ‘‘ رضینا بقضاء اللہ تعالیٰ ‘‘ سدوکاتیرکار کرگیا۔ ( ہم اللہ تعالیٰ کی قضاسے راضی ہیں ) مرض بڑھ گیا اورتیسری جمادی الاولیٰ کومحبوب حقیقی سے جا ملے۔
سلطان تعزیت کے لئے آئے اورشیخ مشیدعلیہ الرحمہ کو ان کا جانشین بنایا، بکمال نیاز مندی آستانہ بھیرہ کودیگر موضعات کے ساتھ جاگیر کردیا ۔
شیخ مشید ،شیخ معروف ،شیخ چاند ، شیخ محمد ماہ، شیخ عثمان ، شیخ معروف ، ثانی شیخ ابوسعید (رحمۃ اللہ علیہم)تمام حضرات اولیاء کاملین سے تھے ۔
ولادت:
شاہ ابوالخیر قدس سرہ ، نورالدین محمد جہانگیر کے عہد سلطنت ۱۰۰۸ ھ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا نام ان کی ولادت سے بہت پہلے ان کے والد کی ولادت کے دن ہی رکھ دیا گیا تھا ۔ واقعہ یوں ہے کہ جس دن ان کے والد کی ولادت ہوئی ان کے داداحضرت شیخ معروف ثانی قدس سرہ کوخبرکی گئی، حضرت شیخعلیہ الرحمہ اس وقت کسی کتاب کامطالعہ کررہے تھے۔ فرزند کانام معلوم کرنے کے لئے کتاب میں غور کرنے لگے ۔ نام نکلا ابوسعید ، ابو الخیرفرمایا کہ اس کا نام ابو سعید ہے۔ حق تعالیٰ اسے ایک فرزند عطا فرمائے گا ۔ اس کانام ابو الخیر ہوگا ۔
حالات:
تھوڑی ہی مدت میں علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل کرکے زبردست عالم ِزمانہ ہوگئے ۔ علم ظاہر کے ساتھ علم باطن کے بھی حامل تھے ۔ ہمیشہ صلاح و تقویٰ کے پابند ہے ۔ میر سید شیرمحمد برہان پوری قدس سرہٗ کے مرید تھے ۔ شہاب الدین محمد شاہجہاں کے اوائل عہد سلطنت میں دہلی کے اند رتشریف ارزانی رکھتے تھے ، شاہ ابو الخیر کے علم و بزرگی کاآوازہ ، دور،دور تک جاپہونچا تھا،امیر الامراء نواب شائستہ خاں دہلی میں حضرت کی آمد سے بہت مسرورہوئے۔اور ان کے نزول اجلال کوخاص انعا م الہی سمجھتے ہوئے بڑی عقیدت کے ساتھ، وقت فرصت پابندی سے ان کی خدمت میں بیٹھتے، احادیث ،تفسیر ، صوفیائے کرام کے رموز واشارات اور اصطلاحات ان سے سیکھتے۔ امیر الامراء نے ان کی خدمت میں اپنی تندہی اوران سے حسن اعتقاد کے باعث شاہجہاں بادشاہ کوبھی مشتاق ملاقات بنادیا ۔بادشاہ حاضر بارگاہ ہوکر ملاقات سے بہت خوش ہوئے ۔ نواب شائشتہ خاں کے مشورہ پرسلطان اکثردرخواست کیا کرتے تھے ۔ کہ کوئی منصب یابطورنذر کچھ دیہات قبول فرمائیں، مگر حضرت شیخ نے کبھی التفات نہ فرمایا ۔ لیکن بعض حضرات جو شیخ سے کوئی رشتہ رکھتے تھے اپنے تعارف میں اسی کو ذریعہ بناکر بادشاہ تک پہونچے اور وہاں امتیازی حیثیت حاصل کی ۔
ترک دنیا اورشان استغنا کاسبب یوں پیداہوا ،کہ سلطان (شاہجہاں)ایک دن حضرت شیخ کے پیرومرشد شاہ میرقدس سرہٗ کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے ۔ حضرت میر اس وقت سیالکوٹ میں مقیم تھے ۔ اور حضرت شاہ ابوالخیر علیہ الرحمہ بھی اس وقت ساتھ تھے ۔ سلطان نے کچھ نقد حضرت شاہ میرکی خدمت میں بطور نذر پیش کیا ،قبول نہ فرمایا۔ جب سلطان نے بہت اصرارکیاتو انہوں نے حضرت شیخ ابو الخیر کی طرف اشارہ کیا ، کہ اس ہدیہ کے مستحق یہ ہیں کہ جنہوں نے طرح طرح کی مشقتوں سے علم حاصل کرکے اسے آبرو ئے بیجا کی خاطر صرف کرتے ہیں ۔ یہ بات کمال ِ غیرت سے حضرت شیخ ابوالخیر کے دل میں گھرکرگئی ۔ دنیا وی تعلقات با لکل منقطع کردیا ۔اور راہ سلوک میں آزادانہ اورمردانہ قدم رکھا۔ خود کومشقت خیز مجاہدات و ریاضات میں ڈال دیا۔ اور کمالِ استغنا کے باعث کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔
منقول ہے کہ امیر الامراء کی والدہ اپنے زمانہ کی پارسا اور صالحہ بی بی تھیں ۔ اس جاہ واحتشام کے باوجود سب سے بے تعلق ہوکراپنی روزی چرخہ چلاکر حاصل کیاکرتی تھیں اور اس پیشے میں اتنی مشقت اور محنت کرتیں کہ ضروری خرچ سے زیادہ مبلغ بچ رہا۔ حضرت ابو الخیر علیہ الرحمہ کی خدمت میں نذر کے طورپر قبول کرنے کی درخواست کی کہ ہدیہ، خاص حلال کمائی سے ہے۔ع گرقبول افتدز ہے عزوشرف۔
مگر ہمت و حوصلہ کااستقلال اور اپنے مشرب پراقامت اس درجہ ہوگئی تھی کہ اس پاکباز کی درخواست بھی شرف قبول سے ہمکنا ر نہ ہوسکی ۔
بے زاد وراحلہ سفر حج کاارادہ کر لیا،امیرالامراء نے گزارش کی اس خادم دیرینہ کا جہاز بیت ا للہ کی سمت جایاکرتاہے ۔ حکم ہوتو اس کے ملازموں کو تاکید کردی جائے کہ حضرت اسی جہاز سے تشریف لے جائیں گے ۔
فرمایا وائے برہمت وے در راہ دوست وسیلۂ غیر درمیان آرد ۔
ترجمہ: (افسوس اس کی ہمت پرجو راہ دوست میں غیرکا ذریعہ بیچ میں لائے )
آخر اس درخواست پر توجہ نہ کی اورحرمین شریفین کی زیارت سے مشر ف ہوئے ۔ کچھ دن وہاں مقیم رہ کر وطن کو واپسی اختیار کی ۔ لباس استغنا میں ولید پور تشریف لائے ۔ اور سلطان پور میں جو اِس وقت بھیر ہ کے نام سے مشہور سے ۔ اقامت اختیار کی ۔
تین بیویاں رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوئیں ۔
( ۱) شیخ عبداللہ کی لڑکی ، شیخ عبداللہ، قد وۃ العارفین ، شیخ اسماعیل چریا کوٹی کے فرزند سے ہیں ۔ا ن کا مزار مبارک چریا کوٹ میں حاجت روائے خلق ہے۔ اُس بیوی سے مخدوم شاہ اسماعیل بھیروی قدس سرہٗ پیداہوئے۔
(۲) شیخ محمد کی لڑکی ملا محمود جون پوری کی بہن ۔ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
(۳)شیخ محمود قریشی بائسی مبارک پور کی لڑکی ان سے بھی کوئی فرزند باقی نہ رہا ۔ حق تعالیٰ نے شیخ ابو الخیر علیہ الرحمہ کوتصرفات اور کرامات سے نواز اتھا۔ ایام رحلت قریب ہوئے حضرت نے معاملہ اور مراقبہ میں اسے جان لیا ، گفتگو میں اکثر فراق کی باتیں زبانِ مبارک پہ آجاتیں ۔ گھر کے بیرونی صحن میں برگد کانو ساختہ درخت بہت سایہ دار اور موزوں تھا ، خود حضرت ہی نے اسے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ بیٹھنے کے لئے اسی درخت کے نیچے ایک چبوترہ آراستہ کر لیا تھا ، ایک دن چند محرم راز دوستوں کے ساتھ وہیں کھڑے تھے، عصا دست ِ مبارک میں تھا ، اسی چبوترہ پرقبر کے برابر ایک خط کھینچا ،دوستوں نے اس وقت اس حرکت کو محض خیال سمجھا ، آخر اسی دن بستر مرض پرآرہے۔ اگر چہ مرض کی حرارت کوئی مہلک نہ تھی کہ اس سے کسی کوپریشانی ہو ۔ لیکن اسی روز کی صبح، ۱۱؍شوال ۱۰۵۹ھ میں بعمر اکاون سال ،اس دار فانی سے رحلت فرماگئے ۔ اور حجاب جسمانی سے آزاد ہوکر محبوب حقیقی کے وصال سے شرف یاب ہوئے۔
خلف رشید حضرت شیخ اسماعیل بھیروی قدس سرہ کے پاس قبر کے بارے میں کوئی وصیت نہ تھی، اس لئے مقام قبر کے تعین میں فکرمند تھے ۔ وہ حضرات جوچبوترہ پرخط کھنچنے کے وقت حاضر تھے انہوں نے صورت ِ حال بیان کی ۔ حضرت شیخ اسماعیل نے خود توجہ فرمائی تووہ خط ملاحظہ کیااور احتیاط کے ساتھ لوازم تدفین میں فوراً مصروف ہوگئے ۔ آستانہ بھیرہ میں ان کے مرقد منور پرنورالہی کے لمعات درخشاں ہیں ۔
ان کے فرزند حضرت شاہ مخدوم اسماعیل علیہ الرحمہ مادر زاد ولی تھے ۔ اکثر خوارق ِ عادت کرامتیں صادر ہوئیں۔ ان کا مزار مبارک مولانا ابو الخیر علیہ الرحمہ (بھیرہ )کے پہلو میں ہے۔۳؎ مدرسہ عزیزیہ خیر العلوم بھیرہ انھیں کے اسم گرامی کی طرف منسوب ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کے نقش قدم پہ ہمیں بھی چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے فیوض وبرکات سے مالا مال فرمائے۔ آمین !
(ازمناقب غوثی ص۲۱۰ تا ص ۲۲۵ملخصاً)
حواشی
[(۱) یہ کتاب[ مناقب غوثی ]شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ علیہ الرحمہ(۱۱۰۰ھ- ۱۱۷۸ھ) کے حالات پرمشتمل ہے اورضمناًان کے آباواجداد اور وطن کے کچھ احوال بھی قید تحریر میں آگئے ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے شاہ ابوالغوث علیہ الرحمہ کےخلیفہ شاہ شمس الدین حیدری علیہ الرحمہ نےان کی زندگی ہی میں تحریر فرمایاہے ابھی غیر مطبوعہ ہے اس کاایک قلمی نسخہ شاہ فخرالدین فاروقی غازی پوری علیہ الرحمہ (متوفی ۱۳۹۸ ھ) ساکن دھاواں ضلع غازی پور کے پاس موجود تھا جس کی نقل برادر محترم مولانا محمداحمد صاحب مصباحی دامت برکاتہم نے شعبان ۱۳۹۷ ھ میں وہاں غازی پور مولانا حافظ قاری محمد فضل حق صاحب مدظلہ العالی کے مکان پر رہ کر، پوری کتاب نقل کرلی تھی۔ یہ کتاب فارسی زبان میں تقریباً ڈھائی سوصفحات پرمشتمل ہے، اس کا عکس میرے پاس بھی موجود ہے۔ احمد القادری]
[(۲) تذکرہ علماے ہند فارسی ، از مولوی رحمان علی]
[(۳) حضرت شاہ مخدوم اسماعیل علیہ الرحمہ کے فرزند محمد شاہ اور ان کے فرزند ابوالغوث گرم دیوان شاہ علیہ الرحمہ لوہرا قرب مبارک پور میں ہے۔ ابوالغوث گرم دیوان شاہ علیہ الرحمہ کے فرزند حافظ شیخ عبد العلیم علیہ الرحمہ کی اولاد دھاواں ضلع غازی پور میں ہے۔انجمن امخدومیہ کے زیر اہتمام
۱۶؍ جمادی الاولی کو حضرت شاہ مخدوم اسماعیل علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس ہوتا ہے۔ جس میں قرآن خوانی اور محفل میلاد پاک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
پہلے اس خانوادے کے بزرگ شاہ رحیم اللہ علیہ الرحمہ، بانی مدرسہ رحیمیہ و مدفون بھیرہ ، بڑے تز ک واحتشام سے ہرسال عرس منعقد کرتے تھے، اب اس خاندان کا کوئی فرد بھیرہ میں نہیں رہا، ان کےخاندان کے لوگ دھاواں ضلع غازی پور میں موجودہیں۔
وہ محلہ آپ ہی کی طرف نسبت کرتے ہوئے مخدوم پورہ کے نام سے مشہور ہے۔
انجمن مخدومیہ: ۱۱ ؍ ربیع الآخر ۱۴۰۴ ھ مطابق ۱۵ ؍ جنوری ۱۹۸۴ ء نوجوانان اہل سنت بھیرہ کی ایک تنظیم ہے ، ان کی طرف نسبت کرتے ہوئے انجمن مخدومیہ بھیرہ کے نام سے تشکیل پائی ، نوجوانو ں کے اندر ملی بیداری پیدا کرنا اور مزارات مشائخ بھیرہ کی حفاظت وصیانت کرنا اس کے خاص مقاصد ہیں۔
احمد القادری مصباحی
ساکن بھیرہ پوسٹ ولید پور، ضلع مئو، یوپی، ہند

مزید
مینو