بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حضور مفتی اعظم ہند کی مختصر حیات مبارکہ
ولادت:۲۲ ؍ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۷؍جولائی ۱۸۹۳ء ۔ وصال ۱۴؍ محرم ۱۴۰۲ ھ ۱۲ ؍ نومبر۱۹۸۱ ء

[از احمد القادری مصباحی]

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ولادت: آفتابِ علم و معرفت ، ماہتابِ رشد و ہدایت ، واقفِ اسرار شریعت ، دانائے رموز ِحقیقت ، تاجدارِ اہلسنت جامعِ معقول و منقول ، حاویٔ فروع و اصول، شمس العارفین ، نائب سید المرسلین ، متکلم ابجل ، محدث اکمل ، فقیہِ اجل مقتدائے عالم ، شہزادۂ مجدد اعظم، مولانا شاہ مصطفی رضا قادری نوری علیہ الرحمۃ والرضوان نے ۲۲ ؍ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۷؍جولائی ۱۸۹۳ء بروز جمعہ بوقت صبح صادق، بریلی شریف میں، اس خاکدان ِ گیتی پر قدم رکھا ۔
اسم گرامی: ولادت کے وقت والد ِ ماجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان مار ہرہ مقدسہ میں جلوہ افروز تھے ،وہیں رات میں خواب دیکھا کہ لڑکا پیدا ہوا ہے خواب ہی میں آل الرحمن نام رکھا ۔ حضرت مخدوم شاہ ابو الحسین احمد نوری جانشین حضرت شاہ آل رسول احمد مارہروی قدس سِرّہما نے ابو البرکات محی الدین جیلانی نام تجویز فرمایا، محمد کے نا م پر عقیقہ ہوا،ا ور مصطفی رضا عرف قرار پایا۔
دعاے امام:امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے بارگاہ ربُّ العزت میں ایک بار دعا کی تھی پرور دگار عالم ! مجھے ایسافرزند عطا فرما، جو عرصۂ دراز تک تیرے دین متین اور تیرے بندوں کی خدمت کرے ۔ لبہائے امام سے نکلی ہوئی دعا شرفِ قبولیت سے سرفراز ہوئی اور مفتی ٔ اعظم ہند کی شکل میں ارشاد و ہدایت کاآفتاب بن کر چمکی۔
تعلیم : بسم اللّٰہ خوانی کی رسم کے بعد امام اہلسنت، محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی نگرانی میں تعلیم و تربیت کاباضابطہ آغاز ہوا،اساتذہ میں مولانا شاہ رحم الٰہی منگلوری اور مولا نا بشیر احمد علی گڑھی علیہما الرحمہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
فتوی نویسی: بعد فراغت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ والرضوان کی حیات طیبہ ہی میں فتویٰ نویسی شروع کردی تھی ۔ اس کی ابتدا کاواقعہ قارئین کے لئے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا ۔ ابھی نوعمری کاعالم تھا کہ ایک دن آپ دارالافتا ء میںپہونچے ،دیکھاکہ حضرت مولانا ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ فتویٰ لکھ رہے ہیں ۔ مراجع کے لئے اٹھ کر فتاویٰ رضویہ، الماری سے نکالنے لگے ۔ فرمایا : کہ کیا فتاوٰی رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہو۔ مولانا نے فرمایا اچھا تم بغیر دیکھے لکھ دو تو جانیں ۔ آپ نے فوراً لکھ دیا وہ رضاعت کامسئلہ تھا۔ یہ آپ کا پہلاجواب تھاجو اپنی زندگی میں قلم بند فرمایا، اصلاح وتصحیح کے لئے جواب، امام اہلسنت کی خدمت میں پیش کیا گیا، صحتِ جواب پر امام اہلسنت بہت خوش ہوئے اور صح الجواب بعون اللہ العزیز الوہاب ۔ لکھ کر دستخط ثبت فرمایا ۔ یہی نہیں بلکہ انعام کے طور پر ابوالبرکات محی الدین جیلانی اٰآل الرحمن ، محمد عرف مصطفی رضاکی مہر مولانا حافظ یقین الدین علیہ الرحمہ کے بھائی سے بنوا کر عطافرمائی ۔ یہ واقعہ ۱۳۲۸ھ کاہے۔
اس کے بعد بارہ سال تک والد ماجد کی زندگی میں فتویٰ نویسی کرتے رہے جس کا سلسلہ قریباً آخر عمرتک جاری رہا۔
بشارت:حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری علیہ الرحمہ نے مفتیٔ اعظم ہند قدس سرہٗ کی ولادت باسعادت کی خبر پاکر امام اہلسنت سے فرمایا تھا۔ مولانا ۔ جب میں بریلی آئوں گا تو اس بچہ کو ضرور دیکھوں گا ۔ وہ بہت ہی مبارک بچہ ہے۔ چنانچہ جب آپ بریلی شریف رونق افروز ہوئے اس وقت مفتیٔ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی عمر صرف چھ ماہ کی تھی خواہش کے مطابق بچہ کو دیکھا، اس نعمت کے حصول پر امامِ اہلسنت کو مبارکباد دی اورفرمایا یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گا ،اور مخلوقِ خدا کو، اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا یہ بچہ ولی ہے۔ اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دینِ حق پر قائم ہوں گے یہ فیض کا دریا بہائے گا۔ یہ فرماتے ہوئے حضرت نوری میاں نے اپنی مبارک انگلیاں بلند اقبال بچہ کے دہن مبارک میں ڈال کر مرید کیا ’’اور اسی وقت تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی‘‘۔ حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ نے بچپن میں جو پیشن گوئی فرمائی تھی، حرف بحرف ثابت ہوئی۔ آپ نے خدمت خلق کے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے آج کے زمانہ میں اس کی مثال مفقود ہے ۔
ایک واقعہ: برادر بزرگ حضرت مولانا محمد احمد صاحب قبلہ مصباحی آنکھوں دیکھا حال بیان فرماتے ہیں۔
جن دنوں وہ فیض العلوم جمشید پور میں تھے۔ حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ ایک بار تشریف لائے واپسی کے وقت علامہ ارشد القادری مد ظلہ العالی نے فون سے ٹرین کا وقت معلوم کیا۔ ٹرین کا وقت ہوچکا تھا۔ اتنے میں ایک آدمی تعویذ کے لئے آگیا۔ علامہ ارشد القادری صاحب نے اسے ڈانٹا۔ مگر حضرت نے منع فرمایا۔ تعویذ لکھنے کے لئے اتر پڑے حضرت علامہ نے عرض کی کہ حضور ٹرین چھوٹ جائے گی۔ آپ نے ارشاد فرمایا چھوٹ جانے دو۔ دوسری ٹرین سے جاؤں گا۔ کل قیامت کے دن اگر خداوند کریم نے پوچھ دیا تو میں کیا جواب دوں گا یہ کہہ کر آپ نے سواری سے سامان اتروالیا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر خدمت ِخلق اور خشیتِ الٰہی کا کتنا جذبہ کارفرماتھا۔
بیعت وخلافت: آپ بیعت حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ سے تھے۔ اور خلافت واجازت والد ماجد امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے حاصل تھیں۔ اور۲۵؍صفر المظفر ۱۳۴۰ھ مطابق ۲۸؍اکتوبر ۱۹۲۱ء جمعہ کوامام اہلسنت کا وصال ہوا ،خلفِ اکبر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا قادری علیہ الرحمہ کومنصب سجاد گی اور خانقاہ رضویہ و منظر اسلام کے تمام امور و فرائض کی ذمہ داری سپر د ہوئی، آپ کے وصال کے بعد امامِ اہلسنت علیہ الرحمہ کی سجادگی و جانشینی بہ اتفاق آراء حضرت مفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ کے سپرد ہوئی، بفضلہ تعالیٰ آخر عمر تک اس منصب پر رونق افروز رہے اور فیض بیکران جاری فرماتے رہے ۔ آپ کے مریدین و خلفاء میں بیشمار علماء کرام و مشائخ عظام ہیں، جو آپ سے بیعت و خلافت سے مستفید ہوئے۔
سفرحرمین طیبین:آپ کئی بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے ۔تیسرےحج سے ذی الحجہ۱۳۹۱ھ مطابق جنوری ۱۹۷۲ء کو مستفید ہوئے اس حج کی خصوصیت یہ ہے کہ آزادی کے بعد فوٹو لازمی ہونے کے باوجود بغیر فوٹوکے حج کی منظوری ملی، جیسا کہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے ذی الحجہ ۱۳۸۶ ھ مارچ ۱۹۶۶ ء میں بغیر فوٹو کے حج کیا تھا ۔
متقی بن کر دکھائے اِس زمانےمیں کوئی ایک میرے مفتی اعظم کا تقوی چھوڑکر (از تاج الشریعہ علیہ الرحمہ)
وصال: اسم رسالت محمد ﷺ کے عدد مبارک کے مطابق ۹۲ سال، اس خاکدان گیتی پر جلوہ افروز رہے۔ آپ کے دور حیات میں ارتداد کی لہر، شدھی تحریک کے نام سےاٹھی، آپ نے اس کا سد باب کیا، خلافت کمیٹی بنی، تحریک ترک موالات، نان کو آپریشن، ایمرجنسی وغیرہ کےمعاملات سامنے آئے، آ پ نے بلا خوف و خطرہر ایک کا شرعی حکم، واضح او ر روشن فرمایا۔ لاکھوں گم گشتگانِ راہ کو، راہِ ہدایت پر لگایا ، بیشمار مریدین و متوسلین و معتقدین چھوڑے، اور بہت سی تصنیفات و تالیفات یادگار چھوڑیں پھر ۱۳؍ محرم ۱۴۰۲ھ کادن گزار کر۱۴؍محرم ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۲؍ نومبر ۱۹۸۱ء، رات ایک بج کر چالیس منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مجدد اعظم امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی۔اللہ عزوجل ان پر بے شمار رحمتوں کا نزول فرمائے۔
تصانیف:
جوتصانیف معلوم ہوسکیںحسب ذیل ہیں۔
(۱)فتاویٰ مصطفویہ، تاریخی نام المکرمۃ النبویۃ فی الفتاوٰی المصطفویۃ (۱۳۲۹ھ)
(۲)وقعات السنان فی حلق المسماۃ بسط البنان (۱۳۳۰ھ)
(۳)ادخال السنان الی حَنَکِ الحَلَقٰی بسط البنان (۱۳۳۲ھ)
(۴)الموت الاحمرعلی کل الجنس الاکفر (۱۳۳۷ھ)
(۵ )طرق الہدی والارشاد الی احکام الامارۃ والجہاد (۱۳۴۱ھ)
(۶) تنویر ا لحجہ بالتوا ء الحجہ
(۷) طرد الشیطان (عمدۃ البیان)
(۸)الحجۃ البا ہرہ
(۹)القول العجیب فی جواز التثویب (۱۳۳۹ھ)
(۱۰)مسائل سماع
(۱۱) سامان بخشش (۱۳۴۷ھ)
(۱۲) اشد العذاب علی عابدالخناس (۱۳۳۰ھ)
(۱۳) الرمح الدیانی علی راس الوسواس ا لشیطانی (۱۳۳۱ھ)
(۱۴) النکۃ علی مراٰۃ کلکتہ (۱۳۳۲ھ)
(۱۵) صلیم الدیان لتقطیع حبا لۃ الشیطان (۱۳۳۲ھ)
(۱۶) سیف القہار علی عبید الکفار (۱۳۳۲ھ)
(۱۷) مقتل کذب وکید (۱۳۳۲ھ)
(۱۸) مقتل اکذب واجہل (۱۳۳۲ھ)
(۱۹) وقایۃ اہل السنۃ عن مکردیوبند والفتنہ (۱۳۲۲ھ)
(۲۰) الٰہی ضرب بہ اہل الحرب (۱۳۳۲ھ)
(۲۱) حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرۃ (۱۳۴۲ھ)
(۲۲) القسوۃ علی ادوار الحمر الکفرۃ (۱۳۴۳ھ)
(۲۳) نہایۃ السنان (۱۳۳۲ھ)
(۲۴) شفاء السعی فی جواب سوال بمبئی
(۲۵) داڑھی کا مسئلہ
(۲۶) فصل الخلافۃ (۱۳۴۱ھ)
(۲۷) الکاوی فی العادی والغاوی (۱۳۳۰ھ)
(۲۸) القثم القاصم للداسم القاسم (۱۳۳۰ھ)
(۲۹) نور الفرقان بین جندالالٰہ واحزاب الشیطان(۱۳۳۰ھ)
(۳۰) وہابیہ کی تقیہ بازی۔
تالیفات
(۳۱)ملفوظات اعلیٰ حضرت ۔چار جلدیں
(۳۲) الطاری الداری لہفوات عبدالباری (۱۳۳۹ھ)
(۳۳) نفی العار من معائب المولوی عبدالغفار (۱۳۳۲ھ)
حواشی
(۳۴) حاشیہ فتاوی رضویہ جلد اول
(۳۵) حاشیہ فتاوی رضویہ جلد پنجم
(۳۶) حاشیہ تفسیر احمدی
(۳۷) حاشیہ فتاوی عزیزیہ
(۳۸)کشفِ ضلالِ دیوبند (حواشی وتکمیلات الاستمداد ۱۳۳۷ھ)
خلفاء :مریدین وخلفاء لا تعداد ہیں ۔ ان میں بیشتر علماء ومشائخ ہیں جن کا احصار قریباً ناممکن ہے،چند مشاہیر خلفاء حسب ذیل ہیں ۔
[۱] مفسر اعظم ہند، مولانامحمد ابراہیم رضا قادری، جیلانی میاں، علیہ الرحمہ ،بریلی شریف
[۲] تاج الشریعہ مولانا محمد اختر رضا قادری ،ازہری ( علیہ الرحمہ) بریلی شریف
[۳] غزالی دوراں، علامہ سید احمد سعیدصاحب کاظمی( علیہ الرحمہ) ملتان، پاکستان
[۴] مجاہدِ ملت ،علامہ حبیب الرحمن ( علیہ الرحمہ) رئیس اعظم ،اڑیسہ
[۵] شیر بیشہ اہل سنت ،مولانا حشمت علی خاں علیہ الرحمہ، پیلی بھیت
[۶] رازی زماں، مولانا حاجی مبین الدین ( علیہ الرحمہ) امروہہ ،مرآد اباد
[۷] شہزادۂ صدر الشریعہ ،مولانا عبد المصطفی ازہری( علیہ الرحمہ) کراچی ، پاکستان
[۸] شارح بخاری، مفتی محمد شریف الحق امجدی ( علیہ الرحمہ) گھوسی، مئو
[۹] شمس العلماء ،مولانا قاضی شمس الدین احمد( علیہ الرحمہ) جونپور
[۱۰] محدث اعظم پاکستان، مولانا محمد سردار احمد( علیہ الرحمہ) لائل پور ، پاکستان
[۱۱] خطیب مشرق مولانا مشتاق احمدنظامی( علیہ الرحمہ) الہ آباد
[۱۲] پیر طریقت،مولانا قاری مصلح الدین( علیہ الرحمہ) کراچی، پاکستان
[۱۳] وقار العلما،مولانا مفتی وقار الدین( علیہ الرحمہ) کراچی، پاکستان
[۱۴] استاذ العلماء، مولانا محمدتحسین رضا خاں ( علیہ الرحمہ) بریلی شریف
[۱۵] قائدملت ،مولانا ریحان رضا خاں( علیہ الرحمہ) بریلی شریف
[۱۶] امین ملت، ڈاکٹر سید محمد امین میاں برکا تی، سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ، مارہرہ شریف
[۱۷] نبیرۂ اعلی حضرت،مولانا محمد منان رضا خاں ، مہتمم جامعہ نوریہ رضویہ، باقرگنج، بریلی
[۱۸] خطیب الہند، مولانا توصیف رضا خاں، صدر آل انڈیا سنی جمعیۃ العوام، بریلی
[۱۹] مولانا مفتی مجیب اشرف رضوی ( علیہ الرحمہ) مہتمم دارالعلوم امجدیہ ،ناگپور
[۲۰] جانشین حافظ ملت، مولانا عبد الحفیظ عزیزی ، سربراہ اعلی جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور
[۲۱]مفکر اسلام ،حضرت مولانا بدرالقادری، بانی و مہتمم ،اسلامک اکیڈمی ،ہالینڈ
[۲۲]شہزادۂ صدرالشریعہ، مولانا بہاء المصطفٰی امجدی، امام وخطیب مسجد بہاری پور، بریلی
[۲۳] مولانا حافظ مبین الہدی نورانی،( علیہ الرحمہ) بانی دارالعلوم امام حسین، جمشید پور
[۲۴] مولانا مجیب الاسلام نسیم رضوی( علیہ الرحمہ) ادری، ضلع مئو
[۲۵] پیر طریقت، مولانا ڈاکٹر غفران علی صدیقی، نیو جرسی، امریکا
[۲۶] پیر طریقت مولانا سید مبشر علی میاں( علیہ الرحمہ) بہیڑی، بریلی شریف
[۲۷]حضرت مولانا سید عباس علوی مکی( علیہ الرحمہ) مکۃ المکرمہ
[۲۸]حضرت مولانا سید نور محمد مکی( علیہ الرحمہ)
[۲۹]حضرت مولانا مفتی محمد ابراہیم، سمستی پوری، پرنسپل مدرسہ قادریہ، بدایوں
[۳۰] حضرت مولاناسید افضل حسین ، مونگیری ( علیہ الرحمہ) پاکستان
[۳۱] حضرت مولانا فیض احمد اویسی( علیہ الرحمہ) بھاولپور، پاکستان
[۳۲] حضرت مولانا مفتی محمد حسین ( علیہ الرحمہ) سکھر، پاکستان
[۳۳] حضرت مولانا حافظ احسان الحق قادری، فیصل آبادی ( علیہ الرحمہ) پاکستان
[۳۴] حضرت مولانامفتی محمد خلیل برکاتی، حیدرآبادی( علیہ الرحمہ) پاکستان
[۳۵] حضرت مولانا سید زاھد علی قادری فیصل آبادی ،پاکستان
[۳۶]حضرت مولاناغلام رسول رضوی، فیصل آبادی( علیہ الرحمہ) پاکستان
[۳۷]حضرت مولانا مفتی غلام سرور قادری( علیہ الرحمہ) لاہور ،پاکستان
[۳۸] مولانا خادم رسول رضوی، شیخ الحدیث مسعودالعلوم ،بہرائچ
[۳۹]حضرت مولانا ولی النبی قادری ، پاکستان
[۴۰] حضرت مولانا محمد منظور فیضی، علیہ الرحمہ، بھاولپور ، پاکستان، وغیرہم
مشاہیر تلامذہ
چند مشہور شاگردوں کے اسماء گرامی ۔
۱۔ شیربیشۂ اہل سنت ،حضرت علامہ محمد حشمت علی خاں علیہ الرحمہ
۲۔ محدثِ اعظم پاکستان، حضرت علامہ مفتی سردار احمد ( علیہ الرحمہ) فیصل آباد
۳۔ فقیہ عصر، مولانا مفتی محمد اعجاز ولی خاں( علیہ الرحمہ) بریلی شریف
۴۔ شارح بخاری، علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی ( علیہ الرحمہ) گھوسی
۵۔ محدث ،کبیر، علامہ ضیاء المصطفی قادری، بانی و مہتمم، جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی
۶۔ بلبل ہند ،مفتی محمد رجب علی( علیہ الرحمہ) نانپارہ ، بہرائچ شریف
۷۔ شیخ العلماء، مفتی غلام جیلانی( علیہ الرحمہ) گھوسی
مستفیدین اور درس افتاء کے تلامذہ کی فہرست لمبی ہے ، اس لئے چند مشہور تلامذہ پر اختصار کیا گیا ۔
(مآخذو مراجع: تقدیم فتاوی مصطفویہ، تاجدار اہل سنت،جہان مفتی اعظم ، تذکرہ ٔ اکابرِ اہل سنت پاکستان، و غیرہ)

احمد القادری مصباحی

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

مزید
مینو