بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

احمد القادری مصباحی

ممتاز العلما،کچھ یادیں کچھ باتیں

ممتاز العلما حضرت مولانا ممتاز احمد اشرف القادری، بن حافظ عبد الحلیم (علیہما الرحمہ)جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے مایۂ ناز سپوت ہیں۔
آپ کی ولادت : ۱۲ ؍شوال ۱۳۵۳ ھ ۱۸ ؍جنوری ۱۹۳۵ء میں، ایک دیندار، علم دوست گھرانے میں ہوئی۔
تاریخی نام : صغیر احمد(۱۳۵۳)
عرفی نام: ممتاز احمد
تخلص: اشرف
لقب: مبلغ اسلام اور ممتاز العلماہے۔
مقام ولادت: پورہ خواجہ، مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی، ہند
وفات:۳؍ رمضان ۱۴۴۲ھ ۱۵ ؍ اپریل ۲۰۲۱ ء جمعرات و جمعہ کی درمیانی رات
مزار مبارک: بریڈ فورڈ، انگلینڈ
پاک و ہند کی آزادی کے سال ۱۹۴۷ ءمیں دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح العلوم میں داخلہ لیا ،دس سال، دارالعلوم میں مشاہیر اساتذہ کی بارگاہ میںاعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۸ ؍شعبان ۱۳۷۶ ھ ۳ ؍ فروری ۱۹۵۷ ء کو دستار فضیلت سے نوازے گئے۔
تقریباً ۱۴ سال ہند کے مختلف مدارس میں تدریسی و انتظامی خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۷۲ ءمیں برطانیہ کا تبلیغی دورہ فرمایا، بریڈ فورڈ، انگلینڈ میں مقیم ہوۓ، پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ مگر وطن مبارک پور آتے رہتے اور جب بھی آتے، جامعہ اشرفیہ (یونیورسیٹی) ضرور آتے، جامعہ سے آپ کو گہرا لگاؤ تھا۔
ملاقاتیں: اشرفیہ میں تقریباً آٹھ سال میرا قیام رہا، چارسال بحیثیت طالب علم، چار سال بحیثیت مدرس، اس دوران، بارہا، جامعہ اشرفیہ میں ملاقات کاشرف حاصل ہوا،ایک بار ہم پورہ خواجہ، دولت کدے پر بھی حاضر ہوئے، بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ بٹھایا، بڑی خندہ پیشانی سے ضیافت، عزت افزائی، اور ذرہ نوازی فرمائی۔پھر ۱۹۹۵ ءمیں جب الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور سے ، بیرون ملک میرا آنا ہوگیا، اس کے بعد بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں، ایک بار عرس امجدی گھوسی میں ان کا بصیرت افروز بیان سماعت کر نے کا موقع ملا۔
آپ، میرے مشفق استاذ، حضور محدث کبیر دامت برکاتہم العالیہ کے ہم سبق ہیں، میں اُن کا استاذ ہی کی طرح احترام کرتا، مگر وہ ایک بے تکلف دوست کی طرح ملتے۔ یہ اُن کی خاکساری تواضع اور خِرد نوازی کی واضح دلیل ہے۔ایک بار زیادہ عرصہ کے لئے ہند تشریف لائے تھے، ملاقات پر فرمانے لگے اب میں ریٹائر ہوگیا، سارا کام بچوں نے سنبھال لیا ہے۔ مجھے فرصت ہے، یہاں رہوں چاہے وہاں رہوں۔ آپ کی باتیں بڑی پر لطف ، مخلصانہ ، محبت آمیزہوتیں۔ آپ کی تحریریں بھی بڑی دلچسپ ہیں۔
ان میں ، اسلام منزل بہ منزل ، بڑی اہم کتاب ہے
یہ دو حصوں میں ایک جامع مختصر اسلامی تاریخ ہے ، زبان و بیان سنجیدہ، اور دل چسپ، باتیں نپی تُلی، سلیس، رواں، اور فصیح و بلیغ ہیں،اور ایسا کیوں نہ ہوکہ آپ ایک قادرالکلام شاعر بھی ہیں، اشعار نویسی اور نثر نگاری دونوں پر قدرت رکھتے ہیں۔
محترم محمد نعیم عزیزی بن مولانا بدرالدجی صاحب مد ظلہ کی کمپوزنگ کے ساتھ ، آپ کے صاحبزادےجناب ماسٹر مختار احمد اعظمی (ایم اے علیگ، رکن شوری اشرفیہ مبارک پور )کے اہتمام سےدونوں حصے چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں۔
حصہ اوّل ، لکھنے کی تاریخ اختتام : ۳۰ ؍ذی الحجہ ۱۴۲۵ ھ۱۰ ؍فروری ۲۰۰۵ء اورصفحات۲۴۸ ہیں
حصہ دوم : ۲۶۴صفحات ،تاریخ اختتام: ۲۳ ذی قعدہ ۱۴۳۰ ھ۱۱ ؍نومبر ۲۰۰۹ء ہے
اس کتاب میں امت مسلمہ کے عروج و زوال کا منظر، بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعض اقتباس ہدیۂ قارئین ہیں۔
یہ کتاب ، مصنف نے اس شعر سے شروع کی ہے

مرکز حق و صداقت کی طرف ،لوٹ چلیں اپنے دیں، اپنی شریعت کی طرف ،لوٹ چلیں
نہیں ملنے کی کہیں ،کفر وضلالت سے اماں آؤ دربار رسالت کی طرف ،لوٹ چلیں

اس شعر میں مغرب سے مرعوب زدہ امت مسلمہ کو اپنے دین، اپنی شریعت ، اور دربار رسالت کی طرف ،لوٹنے کی دعوت دی گئی ہے، کہ درحقیقت امن و امان اور شانتی کا گہوارہ یہی ہے، مرکز حق و صداقت یہی ہے، اسے مغرب کی رنگینیوں میں نہ تلاش کریں، آپ کو یہ سب کچھ بارگاہ رسالت سے ملے گا،یہ بات انھوں نے اپنے تجربے سے لکھی، جنھوں نے تقریباً نصف صدی دیار مغرب میں گزاری، اور امت مرحومہ کو خوب جھینجھوڑا ہے۔
ایک مقام پر آپ لکھتے ہیں
جاہ طلب، مغرب پرست، ناعاقبت اندیش طبقہ، مغرب پرستی کو اعتدال پسندی، باطل پرستی کو ترقی پسندی، اور گمراہی وبے دینی کو روشن خیالی کے نام سے، پوری قوم پر مسلط کرنے میں، شب و روز،پورے اخلاص کے ساتھ مصروف ہے۔
(اسلام منزل بہ منزل اول ملخصاً ص ۲۴۷)
مفاد پرستی کے سلسلے میں رقمطراز ہیں
قبیلۂ بنی عامر کے سردار بحیرہ بن ایاس کو ایمان و توحید کی دعوت دی تو اس نے سوال رکھا کہ آپ کے بعد اقتدار کس کو ملے گا؟ حکومت کس کی ہوگی؟
أ یکون لنا الامر بعدک؟
کیا (آپ کے بعد) مملکت اسلامیہ اور مسلمانوں کی باگ ڈور ہمارے ہاتھوں میں ہوگی؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ألأمر الی اللہ یضعہ حیث شاء
یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے۔۔۔۔یہ معقول اور مبنی بر حقیقت جواب سن کر، دعوت حق کو مسترد اور اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مفاد پرستی و خود پرستی کی ،اس سے بدترین مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
اس واقعہ کے تحریر کرنےکے بعد دور حاضر پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے درد دل کا اظہارکچھ اس طرح کرتے ہیں،
بد قسمتی سے آج بھی بزعم خویش روشن مستقبل کے ٹھیکے دار، اتحاد پرست، ہمارے امراء و زعماء نے جو اعتدال پسندی، اور روشن خیالی کے پر فریب نعروں سے آسمان سرپر اٹھا رکھا ہے، در اصل یہ اسی ذہنیت کی عکاسی اور امت مسلمہ کو اسلام سے دور کرنے کی انتہائی خطرناک سازش کا ایک حصہ ہے – اس سے ان کا مقصد مادر پدرآزاد تہذیب و معاشرت کو عام کرکے اپنے آقایان نعمت کی خوشنودی کے حصول اور اپنے پُرتعیش اقتدار کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ قوم تباہ اور ملک برباد ہوتا ہے تو ہوتا رہے، اپنی بزم عیش و طرب سلامت رہنی چاہئے۔ اور بس ۔
(اسلام منزل بہ منزل دوم ص ۱۵۷ ملخصاً وتصرفاً)

جل جائے نشیمن ہمیں پرواہ نہیں ہے کچھ دیر گلستاں میں اجالا تو رہے گا

اس پر ستم یہ کہ اس اسلام بیزاری اور دین دشمنی کے باوجود انھیں اصرار ہے کہ ہمیں سب سے اچھے اور سچے مسلمان ہیں۔
(اسلام منزل بہ منزل دوم ص۱۵۸)
درد ِدل کا ایک اور اقتباس اپنے طویل تجربے کے بعد قوم و ملت کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
حیات ملی کے طویل سفر میں یہی وہ خطرناک موڑ ہے، جہاں پہونچ کر غیروں سے زیادہ اپنوں ،اور دشمنوں سے زیادہ دوستوں سے ، ہوشیار و چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔(اسلام منزل بہ منزل دوم ص۲۰۶)
فرزندان اشرفیہ کی علمی وتصنیفی خدمات میں ہے
آپ ایک باوقار عالم دین، کہنہ مشق شاعر، بہترین نثر نگار، اور عظیم داعی و مبلغ ہیںآپ نے نثر و نظم دونوں اصناف میں خامہ فرسائی کی ہےحضرت کی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
اسلام منزل بہ منزل (دو حصوں میں)
پیغام رحمت
مثبتین ظل رسول کودعوت فکر (جسم بے سایہ کے موضوع پہ، یہ بڑی انوکھی اور نرالی کتاب ہے، اس کے مخاطب بھی مخالفین ہیں)
خلیل اللہ آزمائش کی کڑی دھوپ میں (پیکر تسلیم و رضا)
صبح حرم ( نعتیہ مجموعۂ)
گرد ِراہ (غزلوں کامجموعہ)
(فرزندان اشرفیہ کی علمی وتصنیفی خدمات ص ۶۸)
ان کے علاوہ ، کثیر مضامین ومقالات ، فلسفۂ شہادت وغیرہ آپ کی قیمتی یادگار ہیں۔آپ کی تحریریں ماہناموں کی بھی زینت بنتی رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ اُن کے مرقد پر گہر باری کرے، اپنی رحمتوں کی خوب بارش برسائے اورمغفرت فرماکر، اعلیٰ علیین کےقربِ خاص میں جگہ عطا فرمائے۔
آمین، یا رب العلمین ، بجاہ حبیبه سید المرسلین ، علیه الصلوة والتسليم

احمد القادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
۷ ؍جمادی الآخرہ ۱۴۴۳ ھ ۱۰ ؍جنوری ۲۰۲۲ ء

حسب فرمائش : محب محترم، حضرت مولانا ارشاد احمد شیدا رضوی، فاضل جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور،
استاذ شعبۂ انگلش و فروغ لسانیات، کوواپ اکیڈمی ،گرینج سکول ،بریڈفورڈ ،انگلینڈ

مأخذ و مراجع
ذاتی مشاہدات
اسلام منزل بہ منزل
مثبتین ظل رسول کودعوت فکر
ممتاز العلما ایک نظر میں
فرزندان اشرفیہ کی علمی وتصنیفی خدمات

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

مزید
مینو