تذکرہ حضرت مولاناشاہ علی احمد بھیروی علیہ الرحمہ
(وفات: ۱۶؍صفر۱۳۱۷ھ)
(از احمد القادری مصباحی)
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سرزمین ہند ،ایسی قابل فخر ہستیوں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے خلوت کدوں میں رہ کر ،گم نامی کی زندگی بسر کی اور اہل عالم کے لیے رشدو ہدایت کا گراں قدر سرمایہ فراہم کیاجن کی مساعی جمیلہ سے شجر اسلام کو ہندوستان میں پھیلنے اور پھولنےکا موقع ملا۔ جن کی بے لوث اور قابل تحسین خدمات کااعتراف، پرائے بھی کرتے ہیں۔
انھیں مقدس اور پاک باز ہستیوں میں، حضرت مولانا شاہ علی احمد بھیروی علیہ الرحمہ کابھی شمار ہوتاہے۔
نسب نامہ:
مولانا شاہ علی احمد ابن نعمت اللہ ابن اطہرابن واجد بھیروی علیہم الرحمہ مولانا حافظ ابواسحاق بھیروی علیہ الرحمہ (م ۱۲۳۴ھ) کے نواسےہیں۔
سال ولادت: ۱۲۲۹ھ میں اس خاکدان گیتی پر قدم رکھا۔
جائے پیدائش:
ضلع مئو، یوپی کا مشہور صنعتی گاؤں آستانہ بھیرہ کوآپ کی جائے پیدائش ہونے کاشرف حاصل ہے ، یہ اعظم گڑھ شہر سے قریبا ۲۵؍ کلومیٹر پورب اور تحصیل محمدآباد گوہنہ سے دوکلو میٹر اتر دریائے ٹونس کے کنارے آباد ہے۔ دریائے ٹونس اس آبادی کے کئی اطراف کوگھیر کر پر فضا اور راحت بخش بناتاہے۔
مشرق ومغرب میں اس کا طول البلد ۸۳؍ درجہ ۱۸ دقیقہ اور شمال و جنوب میں عرض البلد ۲۶ درجہ ۶ دقیقہ ہے۔
بھیرہ کےآباد ہونے کی صحیح تاریخ کا پتا نہیں چلتا۔ البتہ آثار وقرائن اور تاریخ سے اتنا ضرور پتا لگتاہے کہ آج سے چھ سو سال قبل ۸۰۰ھ میں آستانہ بھیرہ آباد تھا۔ اسی کے قریبی زمانہ میں ابراہیم شرقی شاہ سلطان (زمانۂ حکومت ۸۰۴ھ-۸۴۴ھ) جون پور ی کی جانب سے شیخ مشید علیہ الرحمہ کو ولیدپور ،بھیرہ، بطور جاگیر دیاگیا تھا پھران کاخاندان جون پور سے منتقل ہوکر بھیرہ میں مستقل طور پر آباد ہوگیا۔ یہیں سے اس کی تاریخ ملتی ہے۔(۱)
تاریخ سے یہ پتا چلتاہے کہ دیارپورب میں (جولکھنو،فیض آباد،جون پور،اعظم گرھ وغیرہ علاقوں کو شامل ہے) سب سے پہلا مدرسہ بھیرہ ضلع اعظم گڑھ میں قائم ہوا۔(۲)
یہاں کے بزرگوں اورشیوخ سے اس کے آباد ہونے کی ایک روایت نسلاً بعد نسلٍ، منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچتی ہے کہ کسی زمانہ میں دو بزرگ سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے اس زمانہ میں یہ علاقہ ایک گنجان جنگل کی شکل میں تھا۔ انھیں یہ جگہ فرحت بخش معلوم ہوئی سکونت کاارادہ کرلیا ، پانی کی تلاش میں نکلے سامنے سے ایک بھیگا ہوا کتا دکھائی پڑا۔ اب انھیں قریب میں کہیں پانی ہونے کا یقین ہوگیا۔ کچھ دور جاکر جھاڑیوں کےبیچ صاف وشفاف پانی کی ایک چھوٹی سی نہر بہتی ہوئی نظر آئی ،جو آج ٹونس ندی کے نام سے اس علاقے کو سیراب کرتی ہے نہر دیکھتے ہی ان کی خوشیوں کی انتہانہ رہی اورانھوں نے گوشہ نشیں ہوکر عبادت الٰہی کےلیے یہ جگہ پسند فرمالی اورمستقل طورپر یہیں سکونت پذیر ہوگئے۔ بعد میں چل کر یہی جگہ رفتہ رفتہ آبادی میں تبدیل ہوگئی۔ سلطان پور نام پڑا۔ لیکن گردش لیل ونہار نے یہ نام باقی نہیں چھوڑا۔ بعد میں بھیرہ کےنام سے مشہور ہوگیا۔
تعلیم:
اپنے والد شیخ نعمت اللہ علیہ الرحمہ اور شیخ محمدسلیم مچھلی شہری علیہ الرحمہ (م۱۲۶۶ھ)سے تعلیم حاصل کی۔ مولانا احمدعلی چریاکوٹی علیہ الرحمہ(م ۱۲۷۲ھ)سے تکمیل کی فراغت کےبعد اپنے ناناشیخ ابواسحاق بھیروی علیہ الرحمہ سے اجازت وخلافت حاصل کرکے ان کی جگہ سجادۂ مَشِیْخَتْ پربیٹھے۔
خداترسی،تقویٰ ،پرہیز گاری اور عبادت وریاضت میںبڑا مقام رکھتے تھے۔ دن میں روزہ رکھتے اور رات عبادت میں گزاردیتے یاد الٰہی میںتو ہردم رطب اللسان رہتے ۔ان کی محفل ذکروتسبیح سے گونجتی رہتی تھی۔ کسی کی غیبت کازبان پرآجاناتو بڑی بات ہے اس کو سننابھی جلدی گوارانہ کرتے۔
مولانا محمد فاروق چریاکوٹی علیہ الرحمہ (م ۱۳۲۷ھ) آپ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”تقریباً تیس برس کے طویل عرصے سے مولانا کےیہاں آمدورفت رکھتاہوں لیکن آج تک کبھی ایسی بات ان کی زبان سے نہیں سنی جوکسی کی مذمت یااذیت کاسبب بنے اور نہ کبھی ان کی مجلس ذکر الٰہی سے خالی پائی“۔(۳)
وفات:
تقریباًنصف صدی تک ارشاد وتلقین کی اہم خدمات انجام دے کر ۱۶؍صفر۱۳۱۷ھ کوآپ نےداعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ مزار پرانوار مدرسہ عزیزیہ خیرالعلوم کےصحن میں واقع ہے۔
حواشی
[(۱) مناقب غوثی۔ یہ کتاب شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ علیہ الرحمہ(۱۱۰۰ھ- ۱۱۷۸ھ) کے حالات پرمشتمل ہے اورضمناان کے آباواجداد اور کچھ بھیرہ کے حالات بھی قید تحریر میں آگئے ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ آج سے قریباً ڈھائی سو برس پہلے شاہ ابوالغوث علیہ الرحمہ کی مبارک زندگی ہی مین ان کے خلیفہ شاہ شمس الدین حیدری نے تحریر فرمائی ہے۔اس سے اس کتاب کی اہمیت کااندازہ لگا یاجاسکتاہے کہ یہ کتاب بزبان فارسی ابھی تک قلمی ہے۔ انھیں کے خاندان کےایک بزرگ شاہ فخرالدین علیہ الرحمہ (م ۱۳۹۸ھ) ساکن دھاواں ضلع غازی پور کےپاس اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ موجود تھا۔ برادر محترم حضرت مولانا محمداحمد صاحب مصباحی دامت برکاتہم العالیہ نے(۱۳۹۷ھ) میں وہاں جاکر پوری کتاب نقل کرلی ہے۔۱۲قادری]
[(۲) دیارپورب میں علم وعلما]
[(۳) تذکرہ علماے ہند فارسی ، از مولوی رحمان علی]
احمد القادری مصباحی عفی عنہ