حافظ ملت کی سیاسی بصیرت

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ، نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْم
’’حافظ ملت کی سیاسی بصیرت‘‘

سیاست کا لغوی معنی انتظام ،معاملات کی نگہداشت ،تدبیرملکی ،سربراہی ،پالیسی، حکمتِ عملی ۔
سیاسی :سیاست داں ، سیاست میں حصہ لینے والا۔
حافظِ ملت علیہ الرحمہ: اس بزرگ، وجلیل القدرشخصیت کا نام ہے ، جن کے بچپن ، جوانی، بڑھاپا، طالبِ علمی اور زمانۂ تعلیم وتدریس جس دَور کوبھی دیکھاجائے درخشاں وتابندہ نظر آتا ہے ۔
’’حافظِ ملت‘‘ اس درد مندِ قوم کا نام ہے، جس نے اپنی زندگی کی ساری توانائیاں قومِ مسلم کیلئے وقف فرمادیں ۔
’’حافظِ ملت‘‘ علم وشعور کے اس عاشق صادق کا نام ہے ،جس نے علم وفن کے حصول اوراس کی تر ویج واشاعت میں اپناتن من دھن سب قربان کردیا۔
’’حافظِ ملت‘‘ اس محبِّ رسول( ﷺ) کانام ہے، جو اپنے رسول( ﷺ)کی ہرہراداپہ جان قربان کرنے کے لئے ہمیشہ سرگرداں رہے ۔حکم ِرسول (ﷺ )کے آگے ہمیشہ ان کی پیشانی خم رہی۔ طاعتِ رسول (ﷺ ) سے ، بال برابر، تجاوزوانحراف کرتے ہوئے انہیں، نہیں دیکھاگیا۔
’’حافظِ ملت‘‘ اس رہنمائے قوم کا نام ہے جس نے ہمیشہ اپنی قوم کو سر بلند دیکھنے کے لئے مخلصانہ جِدُّوجَہد میں عمرعزیزصرف کردی ۔
’’حافظِ ملت‘‘ بے شمار خوبیوں کے مالک، بے پناہ صفات کے جامع، بے شمار خصوصیات کے حا مل ہیں، ان کی ہر خوبی، ہر صفت، اس لائق ہے کہ اس پر بہت کچھ لکھا جائے۔
’’حافظِ ملت‘‘ کی زندگی کا جو گوشہ، میں زیرِعنوان لاناچاہتا ہوں وہ حافظ ملت کا سیاسی تدبرہے ۔
’’حافظ ملت‘‘ کو اس صفت کے ساتھ کم لوگ پہچانتے ہیں ۔کچھ لوگ توسیاست کو مذہب سے جداتصور کرتے ہیں۔وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اہل مذہب کو، سیاست سے الگ رہناچاہئے۔آج کل کے کچھ سیاسی افراد سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مذہب کو دور ہی سلام کرتے ہیں ۔اور مذہب پر ثابت قدمی کو سیاست کادشمن سمجھتے ہیں ۔
ایک اخبار میں اپنے کو سیاست کا ٹھیکیدار سمجھنے والے ایک لیڈر کا بیان جب میری نظر سے گزراتو میں متحیررہ گیا۔ وہ لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سیاست ہے مذہبی رہنمااور مولویوں کو اس سے کیا کام ،انہیں قطعاًسیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے ، نہ انہیں اس سلسلے میںکوئی مشورہ دیناچاہئے۔
اس طرح کا خیال رکھنے والے افراد کو میںباور کراناچاہتا ہوں کہ قطعاًمذہبِ اسلام سے، سیاست وحکومت جدانہیں،کسی اور مذہب سے جداہوتوہو۔اسلام ہر گزاپنے ماننے والوںکو سیاست وحکومت سے الگ نہیں کرتا۔
بے شمار قرآنی آیات ،احادیث کریمہ ،اقوالِ صحابہ وتابعین، فرموداتِ سلَف وخلَف ،سیاست وحکومت کی جانب رہنمائی کرتے ہیں، اور اپنے متبعین کو اس کے صحیح طریقۂ کار سے روشناس کراتے ہیں ۔
خود نبی اکرم تاجداردوعالم ﷺنے حکومتِ اسلامی کی داغ بیل ڈالی اور سیاست وحکومت کا سچاطریقہ سکھایا۔سرکاردوعالم ﷺکے جانشین صحا بۂ کرام (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)نے دورِخلافتِ راشدہ میں اسلامی سیاست وحکومت کو کہاں سے کہاں تک پہونچادیا۔
امیر المؤمنین ،حضرت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف مثال میں لے لیجئے۔ان کی سیاست سے دنیاکی بڑی بڑی حکومتیںتھرا اٹھیں۔اسلام کاجھنڈا ،عرب کے صحراسے نکل کر قیصروکسریٰ کے محلات پرلہرانے لگا۔
حضرت عمر بن عبد العزیزاموی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ،ایک جلیل القدرعا لم اور محدث ہونے کے باوجودخلافت کی باگ ڈوراپنے ہاتھوں میںلے کراپنی بے مثال اصلاحات، دنیاکے سامنے پیش کرکے یہ ثابت کردیاکہ درحقیقت اسلامی سیاست ہی انسان کو اطمینان وسکون دلاسکتی ہے ۔
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے خلیفۂ خاص حضرت قطب الدین بختیارکا کی، کی خانقاہ کے ایک تربیت یافتہ سلطان شمس الدین التمش نے سرزمینِ ہند پر سلطانی کرکے، کیا یہ یقین نہیں دلایا؟کہ کسی خانقاہ کاتربیت یافتہ ادنی غلام بھی ،جہاں بانی کے وہ جوہر دکھاسکتاہے جہاں بڑے بڑے مذہب بیزار لیڈران، پہنچنے کاخواب بھی نہیں دیکھ سکتے ۔
اسلام اور سیاست ، ایک مستقل عنوان ہے، جس پر کوئی قلمکار اپنے قلم کو جنبش دے توبے شمار مواد،اکٹھاہوسکتے ہیں ۔
میں اس وقت صرف حافظِ ملت کی سیاسی بصیرت پرگفتگو کرناچاہتاہوں اور اس خیالِ خام کی تردیدکرتاہوں جومذہبی رہنماکوسیاست سے الگ کرنے کا حامی ہے ۔
قوم مسلم کو جب بھی جس قسم کی ضرورت پیش آئی، حافظ ملت نے ان کی دستگیری فرمائی ،اسی طرح سیاست میں بھی اپنی قوم کوراہ راست پرلگانے سے دلچسپی لی اور مستقل سیاست میںحصہ لیا۔بلکہ حافظِ ملت نے ہندوستانی سیاست پرایک مستقل رسالہ’’الارشاد‘‘کے نام سے تصنیف فرمایا۔
میں اِس وقت آپ کو ہندوستان کی سیاست کے اس موڑ پرلے جاناچاہتاہوں جوحصولِ آزادی کے نام سے جاناجاتاہے ۔ ۱۹۴۷ءسے قبل ہندوستان نے سیاست کے بڑے بڑے کھیل دیکھے ہیں ۔کہیں تحریکِ خلافت تھی، توکہیں ترکِ موالات ،کبھی کانگریس ، تنہا ہندومسلمان دونوںکی نمائندگی کادعوٰ ی کرتی تھی، توکبھی مسلم لیگ صرف مسلمانوںکی قیادت کادم بھرتی تھی ۔ غرض کہ اس موڑ پر ہر فن کارِسیاست، مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کی فکر میں تھا۔اس موقع پرحافظِ ملت نے کس طرح قوم کی رہنمائی کی ،اس کا ایک عکس آپ کے سامنے پیش کررہاہوں ۔
حصول ِآزادی کی کوشش اور مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے ’’آل انڈیاسنی کا نفر نس ‘‘ کاانعقادعمل میںآیا۔اس تنظیم نے سیاست اور حصول آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔اس سے متعلق اپنی جدوجہدکے بارے میں حافظِ ملت یوں رقمطراز ہیں :
’’یہ خادم ،اپنے عقیدتمندانہ جذبات کے ساتھ، سنی کانفرنس کی خدمت کے لئے تیارہوا ۔ حسب الحکم حضوروالا(محدث اعظم حضرت مولانا سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ) مبارک پورمیںضلع سنی کانفرنس قائم کی ۔اطراف میںاس کی شاخیں پھیلائیں نہایت جدوجہدسے کام ہوا۔چنانچہ ڈھائی ہزارسنی مسلمان باضابطہ اس کے ممبربنائے۔ (الارشاد ص۱۶)
اس وقت ہندوستان میں دو عظیم سیاسی جماعتیں ابھر کر سامنے آئیں ’’انڈین نیشنل کانگریس ‘‘ اور ’’مسلم لیگ ‘‘ باقی سبھی چھوٹی جماعتیں ان میں سے کسی کے ساتھ ضم ہو گئیں ۔
کانگریس کا دعویٰ ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے چھڑا کر ہندو ، مسلم ،سکھ ، عیسائی ، سبھی ہندوستانیوں کی ملی جلی جمہوری حکومت کاقیام تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ ہندو مسلمان مل کرانگریزوں کو بھگائیں، انھیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیں ۔اورملک کوان کی غلامی سے نجات دلائیں۔
انگریزوں کو ہٹانا تنہا کانگریس کے بس کی بات نہ تھی ،نہ وہ اپنے اند ر سکت ہی پارہے تھے، اس لئے مسلمانوں کا سہارا لیا۔
ادھر مسلم لیڈر ان نے مسلم لیگ کے نام سے الگ ایک تنظیم بنائی ۔بہت سے مسلمان تو پہلے ہی سے کانگریس کے خلاف تھے، ان کی دو رخی پالیسی کا پہلے ہی سے تجربہ حاصل ہوچکا تھا، مگر کوئی سیاسی تنظیم ابھرکر سامنے نہیں آئی تھی ،لیگ کی آواز بلند ہوتے ہی مسلمان لیگ میں، فوج در فوج داخل ہونے لگے، لیگ میں مسلمانوں کی شمولیت کا اندازہ ذیل کی تحریر سے لگایا جاسکتاہے۔
حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اُس وقت کی عکاسی اپنے الفاظ میں یو ں کرتے ہیں :’’ وہ مسلمان جو کانگریس کے خلاف مصروف ِعمل ہونے کے لئے بے چین تھے ،مسلم لیگ کی طرف ٹوٹ پڑے اور انتہائی جوش و خروش کے ساتھ اس کی تائید و تقویت کرنے لگے ، تھوڑے ہی عرصہ میں ہندوستان کے طول وعرض میں لیگ پھیل گئی اور اس شان سے پھیلی کہ بہیتری خانقاہوں سے مشائخِ کرام تسبیح ومصلّٰی، پھینک پھانک کر اس کی صف میں آنے لگے ۔ بہتیرے مدرسوں سے علماء بغلوں میں قرآن و حدیث دبائے ہوئے د و ڑ پڑے ۔ (اشک رواں ص۲۰)
لیگ کی جانب اس دوڑ میں سنی کانگریس کے نمائندے بھی شامل ہوئے ۔ انہوں نے اپنی تحریر و تقریر ، تدبیر و تجویز جان و مال ، ہر طرح سے لیگ کی حمایت کی ۔لیکن بھلا ہو سنی کانفرنس کے ضلعی نمائندے حافظ ملت علیہ الرحمہ کا اُن کی دور بیں نگاہوں نے لیگ کو فوراً بھانپ لیا ۔کہ لیگ، کانگریس سے جدا کوئی نظر یہ نہیں رکھتی ۔ اسلامی حکومت کا قیام ، ان کا مقصد بھی نہیں، جو فرق ہے وہ صرف دکھاوے کاہے۔
کانگریس اور لیگ میں یکسانیت : کانگریس کاخیا ل تھا کہ تمام ہند و ستا نیو ں کی ملی جلی ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آئے جس میں مذہب ، ذات ، رنگ و نسل کا کو ئی امتیاز نہ ہو ۔
لیگ کاخیال تھاکہ ہندوستان سے الگ، بنام پاکستان ایک جمہوری حکومت وجود میں آئے ،
جس کی تشریح ، مسڑ محمد علی جناح صاحب نےیو ں کی ۔
’’پاکستان میں حکومت الٰہیہ ہر گز قائم نہیں ہو سکتی ــ، پاکستان ایک جمہوری اسٹیٹ ہو گا ۔ جس میںغیر مسلموں کا بھی حصہ ہو گا ۔ پاکستان میں کٹھ ملائوں کی حکومت نہیں ہوگی ۔
(الارشادص۱۷)
دونوں نظریات پر غور کیا جائے ۔ دونوں میں کیا فرق ہے؟ دونوں جمہوری اسٹیٹ، اورلادینی حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں ، دونوں سیکولرازم کے خواستگار ہیں ۔ دونوں میںکوئی بھی اسلامی نظامِ حکومت کاخواہش مند نہیں ۔
حافظِ ملت کی دور بیں نگاہیں اسی وقت دیکھ رہی تھیں اور قیام پاکستان کےمنصوبے کو بخوبی سمجھ رہی تھیں ۔ کہ یہ صرف سیاسی قیادت کی جنگ ہے ۔ نہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوگی نہ ہندوستان میں ۔ کانگریسی کھل کر جمہوریت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں اور اہل لیگ اسلام کالیبل چسپاں کرکے جمہوری اسٹیٹ قائم کرنے کی فکر میں ہیں۔
اسلامی نظام اورجمہوری نظام میں کتنا عظیم فرق ہے۔ اہل علم پرمخفی نہیں ۔
بانیان پاکستان نے بڑے زور و شور سے اسلام اور مسلمان کا نعرہ بلند کیا، جس کے نتیجے میں یقیناً پاکستان بن گیا۔ مگر یہ بتایا جائے کہ کیا وہاں اسلامی حکومت قائم ہوگئی ؟ کیا وہاں کے مسلمان مطمئن ہو گئے ؟ کیا وہاں احکامِ اسلا م جاری ہوگئے ؟ وہاں نظام مصطفیٰ نافذ ہوگیا؟ کیا وہاں اسلامی احکام بر سر عام پامال نہیں ہورہے ہیں ؟
اسلام کے نام پر لیگیوں کی حمایت ان کے ہر کردارو عمل کی حمایت تھی ۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جان قربان کردی مگر یزید کی حمایت کے لئے تیار نہ ہوسکے تو انہیں کا ایک شیدائی و فرما ںبردار عاشق ، ملت کا نگہبان کیسے ان کی حمایت کرتا؟
سنی کانفرنس کے نمائندوں نے لیگ کی بھر پور حمایت و تائید کی ،اُس دور میں لیگ کے نیتائوں کو اسلام کا نمائندہ تصور کیا جاتا تھا ۔
حافظ ملت بھی سنی کانفرنس کے خصوصی نمائندہ تھے ،اگر سنی کانفرنس خود خالص مسلمانوں کانمائندہ بن کر اسلامی اسٹیٹ کی کوشش کرتی توحافظِ ملت یقیناً ان کے شانہ بشانہ نظر آتے جیسا کہ ان کی تحریروں سے ظاہر ہے ۔ لیکن اس وقت لیگ کے ساتھ لوگوں کا اعتقاد راسخ تھا، حافظ ملت کی باتوں پر کیوںکر کوئی کان دھرتا۔
سنی کانفرنس نے بھی لیگ کی پرزور حمایت کی ۔ لیکن خود لیگ نے اس کو بالکل نظر انداز کردیا۔ سنی علماء و مشائخ کو کہیں بھی نمائندگی نہیں دی گئی ۔ لیگ میں سنیوں کی حیثیت کیا تھی اس کانقشہ ایک مقام پر حافظ ملت نے یوں کھینچا ہےـ:
سنیوں کاکام یہ ہے کہ لیگ کے جھنڈے اٹھائیں ، لیگی لیڈروں کاشاندار استقبال کریں،مسلم لیگ زندہ باد ، قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگائیں ۔ لیگ کے جلسوںکا پنڈال سجائیں ۔ کمر بستہ ہو کر جگہ صاف کریں ۔ فرش بچھائیں ، لیگ کے جلسوں کو خو ب کامیاب بنائیں ۔ الکشن میںلیگ کا ورک کریں ۔ خوب دوڑ دھوپ کریں ، بڑی جد و جہد کے ساتھ سنی مسلمانوں سے لیگ کے لئے بڑے بڑے چندے کریں ، لیگی نمائندوں کی کامیابی کے لئے گراں قدر رقمیں صرف کریں ۔ ہر امکانی کوشش ختم کرکے لیگ کو کامیاب بنائیں ۔ اور بس ۔ (الارشاد ص ۸)
غیر سنیوں کا حال یہ ہے کہ : ’’ وہ لیگ میں فرماں رواہیں ۔ حاکم ہیں ، مخدوم ہیں ، سنی اکثریت کی تمام خدمات انہیں کے اعزاز و اقتدار کی نذ ر ہیں ، وہ مختار ہیں، سیاہ سفید کے مالک ہیں ۔ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ۔ (الارشاد ص۱۴)
جس وقت لیگی لیڈروں کو عام مسلمان مذہبی اور روحانی مسیحا خیال کرتے تھے اور ان سے اسلامی حکومت کی خام توقع وابستہ کئے تھے اس موقع پر حافظ ملت کی سیاسی بصیرت کا ایک ایمان افروز بیان ملاحظہ فرما یئے:
’’جب الکشن کا دور شروع ہوا ۔ کارکنان سنی کانفرنس نے لیگ کی حمایت شروع کردی ، منفرد اً مجتمعا ہر طرح لیگ کی تائید کرتے رہے۔ بڑے بڑے عمائد کانفرنس نے، پوری طاقت سے لیگ کا ورک کیا ، چنانچہ ان کی محنتوں کا نتیجہ یہ شائع ہوا کہ لیگ کی نوے فیصد کامیابی کا سہرا سنی کانفرنس کے سر ہے ۔ کارکنان سنی کانفرنس کی اس لیگ نوازی سے خادم متاثر ضرور تھا ،تاہم اس کی تاویل کرتا تھا اور اس کو ان حضرات کی شخصی اور مقامی خصوصیت پر محمول کرتا تھا ۔ یہ خیال کرتا تھا کہ سنی کانفرنس بنارس کے اجلاس میں اس کی تلافی ہو جائیگی مگر بنارس کے اجلاس کا دعوت نامہ آیا تو اس میں مقاصد سنی کانفرنس میں پاکستان اور لیگ شامل ہے۔
اگر چہ پاکستان کی تفسیر بایں الفاظ ہے‘‘۔
’’آئین شریعتِ اسلامیہ کے مطابق فقہی اصول پر ایک آزاد بااختیا ر حکومت کا مطالبہ ‘‘ لیکن سنی کانفرنس کی طرف سے یہ الفاظ پاکستان کے لئے صرف دعائیہ ہو سکتے ہیں بطور مطالبہ ہرگز نہیں ۔اس لئے کہ پاکستان لیگ کا مطالبہ ہے جو تمام مسلمانوں کی واحد نمائندگی کی مدعی ہے۔ اور سنی کانفرنس نے اپنی تائید سے لیگ کے اس دعوے کو حکومت برطانیہ سے منوا دیا ہے، لہذا اگر سنی کانفرنس کی تائید و حمایت سے بالفرض پاکستان ملا بھی تو لیگ کو ملے گا اور وہ لیگی پاکستان ہوگا ۔ جس کی تشریح مسٹر جناح نے بارہا کی ہے پاکستان مین حکومت الٰہیہ ہرگز قائم نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔۔پاکستان ایک جمہوری اسٹیٹ ہو گا ۔ جس میں غیر مسلموں کا بھی حکومت میں حصہ ہوگا ۔
لیگی اخبار تنویر ۱۲؍اپریل (۱۹۳۹ء) میں ہے ۔ قائد اعظم نے کہا، پاکستان میں کٹھ ملائوں کی حکومت نہیں ہو گی ، لہذا اب پاکستان کی وہ تفسیر جو سنی کانفرنس کر رہی ہے کیا معنی رکھتاہے ؟ اگر کوئی معنی ہو سکتاہے تو یہ کہ اس تفسیر سے مسلمان متاثر ہو کر حمایت پاکستان میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں پیش کریں ۔ اور بس۔ (الارشادص ۱۶،۱۷)
لیگیوں کے ایک پرانے لیڈر راجا محمود آباد نے اپنے بیان میں یوں کہا ۔۔۔’’افسوس ہے کہ آج چالاکی سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کے سوالات اٹھاکر مسلمان میں نااتفاقی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اسلام میںکوئی اختلاف نہیں ۔ مگر ہاں سیاست میں ہے، آج مذہب کے نام سے لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔۔۔ہمارے مولوی مولانا کہلانے والے ہم کو ملیا میٹ کررہے ہیں ۔انہوں نے مذہبی دوکانیں کھول رکھی ہیں ۔ ان سے ہم کو بچنا چاہئے۔
(روز نامہ اخبار انصاف بمبئی مورخہ ۱۳؍جولائی ۳۹ ۱۹ ء نمبر ۱۱۰حاشیہ الارشاد ص ۱۷ ، از علامہ مفتی محمد شریف الحق صاحب امجدی )
سنی کانفرنس نے جب پاکستان کے لئے ’’آئینِ شریعت اسلامیہ کے مطابق فقہی اصول پرایک آزاد بااختیار حکومت کے مطالبہ ‘‘ کا اعلان کیا تو حافظ ملت نے اسی وقت کتنا صاف صاف بیان کردیا کہ سنی کانفرنس کی طرف سے یہ الفا ظ پاکستان کے لئے صرف دعائیہ ہو سکتے ہیں بطور مطالبہ ہرگز نہیں ۔ پھر آنے والے وقت نے یہ ظاہر کردیا کہ یقینا ًپاکستان اسلامی حکومت نہیں بلکہ لیگی حکومت ہے اور ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی حدیثیں اور صحابہ کرام و ائمہ مجتہدین کے اقوال پیش کرنے والے شخص کو نا اتفاقی پھیلانے والا ، اختلاف کرنے والا کہہ کر اس طرح نظر انداز کیاگیا، کہ سنی کانفرنس کے ارکان بھی دنگ رہ گئے ۔
لیگ نے مسلمانانِ اہلِ سنت کے عقائد و نظریات پر کس قد ر برا ، اثر ڈالااس کا ایک مقام پر حافظ ملت نے یوں ذکر کیا۔
’’جس کے زہر یلے نتائج مذہب پر،اس قدر اثر انداز ہوئے کہ تصلب فی الدین کا خاتمہ ہوگیا۔ اور اس کی خوش عقیدگی ،لیگ سے اس قدر بڑھی کہ خواہ قادیانی ہو یا رافضی ، دیوبندی ہو یا خارجی اگر وہ لیگی ہے سنی مسلمان اس کی تعظیم و توقیر کے لئے تیار ہیں ۔
مبارکپور کے سنی اپنی مذہبی خصوصیت میں ممتاز تھے مگر لیگ کی خوش عقیدگی نے ان سےاشرف علی تھانوی کے خلیفہ ظفر احمد تھانوی (دیوبندی)کا استقبال کرایا اس کالکچر سنوایا ۔ اس کے پیچھے نماز پڑھوائی ، اس کے پیر کے موزے دھلوائے ۔ غرضیکہ بڑی دھوم سے اس کی تعظیم و تکریم کرائی ۔۔۔۔ اگر مسلمانان مبار ک پورپر لیگ کابھوت سوار نہ ہوتا تووہ ہرگز ایسانہ کرتے ۔(الارشاد ص۱۸)
لیگ کے اِن سیکولر اثرات سے متاثر ہونے اور اس کے عواقب و انجام پر غور وفکر کرنے کے بعد آخر کار حافظ ملت نے ۱۳؍جمادی الاولیٰ۱۳۶۵ھ مطابق ۱۶؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو سنی کانفرس کی لیگ نوازی کی بنیاد پراس کی نمائندگی سے استعفا ء پیش کردیا۔ تقریر اً و تحریر اً ہرطرح، ناراضگی اور برأت کا اظہار فرمایا ۔
حافظ ملت میں دور اندیشی ، معاملہ فہمی ، نکتہ سنجی ،انجام رسی ، قوت فکر ، مستقبل پرنظر حد درجہ تھی ۔ بعض پیش گوئیوں کو توآپ اِس اذعان و یقین سے بیان کرتے کہ گویا لوح محفوظ پر دیکھ لیاہے ۔ معاصرین میں سے کسی کی جہاں گہرائی و گیرائی تک سوچ بھی نہیں پہونچ سکتی حافظ ملت کی نظریں وہاں جمی رہتیں ۔
آج کل کی سیاست، مذہب بیزاری ، دروغ گوئی ، کذب بیانی ، وعدہ خلافی ، مکروفریب ، ظلم وستم ، جبر واستبداد ، ناانصافی ، رشوت ستانی ، غرضیکہ بیشمار برائیوں کا پیش خیمہ ہے اور سیاست کی خوبیاں ان برائیوں کے ساتھ اس طرح حلول کرگئی ہیں کہ اچھے اور برے سیاسی نیتائوں کو پہچاننا دشوارہی نہیں بلکہ نا ممکن ساہوگیا ہے۔ جس کو لوگ رہبر سمجھتے ہیں رہزن نکل جاتاہے ۔ لیکن ۔ حافظ ملت ان نیتائوں کی خوبیوںاور خامیوں کے پرکھنے میں ید ِطولیٰ رکھتے تھے اور دودھ کادودھ ، پانی کاپانی الگ کردینے پر انھیںبے پناہ قدرت حاصل تھی۔
حافظ ملت کاخیال تھا کہ سنی کانفرنس تمام سنیوں کی حمایت سے خود اپنے طور پر اسلامی حکومت کا مطالبہ کرے ۔ لیگ میں ہرگز شامل نہ ہو، نہ اس کی حمایت کرے ۔ یہ کوئی مشکل نہ تھا یہ فیصلہ کثرت تعداد کی بنیاد پر مبنی تھا اور سنیوں کی کافی اکثریت موجود تھی، اس وقت سنیوں کی اکثریت کا اندازہ ذیل کے جملوں سے لگایاجا سکتاہے۔
’’مسلمانانِ اہل سنت کی اتنی اکثریت ہے کہ اگر ایک دم سارے سنی مسلمان خلافت کمیٹی ( یا مسلم لیگ ) سے نکل جائیں تو کوئی مجھے بتادے کہ خلافت کمیٹی ( یا لیگ ) کسے کہا جائے گا ؟ اس کادفتر کہاں رہے گا ؟ اس کا جھنڈا سارے ملک میں کو ن اٹھائے گا ؟ ان حقائق میں کیا اس دعویٰ کی روشنی نہیں کہ خلافت (اور حکومت ) صرف سنیوں کو قائم کرنا ہے۔ ( الارشاد ص۷)
غرضیکہ حافظ ملت جہاں دیگر علوم وفنون میں کافی مہارت اور دستگاہ رکھتے تھے ،سیاست میں بھی ان کی بصیرت و بصارت ممتاز نظر آتی ہے۔
سیاسی رہنمائی کا ایک اہم واقعہ جو مندرجہ بالا ۱۹۴۷ءسے قبل کےواقعات ہی کا ایک جز ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
والد گرامی علیہ الرحمہ (جو بڑے متصلب فی الدین اور سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے بڑے شیدائی تھے، اپنی ذاتی ہمت و جرأت کی وجہ سے کبھی کسی باطل سے دبتے نہ تھے) بیان کرتے ہیں :
جب خوب لیگ، کانگریس کی سیاسی جنگ چھڑی ہوئی تھی ہرایک شخص کسی نہ کسی پارٹی سے جڑا ہو ا تھااور اپنی پارٹی کی حمایت اور مقابل پارٹی کی مخالفت میں جان کی بازی لگانے کے لئے تیارتھا ۔
انھوں نے اہل سنت کے بعض مقتدر علماء کرام ۔۔۔۔۔۔۔۔ سے اس سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا ۔ انھوںنے لیگ کو ترجیح دی ، اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی۔
اسی درمیان حافظ ملت علیہ الرحمہ سے ملاقات ہوئی عرض حال کیا، عین موقع پہ حافظ ملت نے رہنمائی کی ۔ فرمایا ۔ لیگ اور کانگریس یہ کوئی مذہبی لڑائی نہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ (د ونوں سیکولر ہیں )۔۔۔۔۔۔مخالفت مول لینا بے سود ہے ۔
حافظ ملت علیہ الرحمہ ہی کی یہ دستگیری تھی کہ جو تصلب، مذہب کے بجائے، لادینی سیاست کے لئے استعمال ہو رہا تھا، پھر مذہب کی طرف مڑ گیا ۔
یہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی سیاسی و دینی بصیرت کے چند گوشے تھے ۔ اسی طرح اگر دیگر مواقع کے گوشے یکجا کئے جائیں، تو نہ معلوم کتنے اہم سیا سی واقعات حضورحافظ ملت علیہ الرحمہ کے دامن سے وابستہ ملیں گے۔

احمد القادری مصباحی
بھیرہ، ولید پور، مئو، یوپی، ہند
۱۴۰۷ ھ ؍ ۱۹۸۵ء

 

الإفادات العلمية لحافظ الملّة

الإفادات العلمية لحافظ الملّة

كتب المقال بالأردية الأستاذ محمد أحمد المصباحي، ونقله إلى العربية محمد مقبول المصباحي، المجمع الإسلامي مبارك فور أعظم جره ، يوپي، الهند.

 

حامدًا ومصليًا ومسلمًا

قضى حافظ الملة حياته كلّها في الدرس والتدريس والدعوة والتبليغ، كانتْ له أشغالٌ وفيرة، ولمّا شرّف ’’مبارك فور‘‘ بقدومه، كان يدرّس كل يوم ثلاثة عشر درسًا، وكان أدنى الدروس درس شرح الجامي، فأخذ المولوي شكر الله المبارك فوري الديوبندي، يبدأ المجادلة المذهبية بالخطبات، ثمّ أخذ يلقي الطرفان الخطبات المنافسية، يخطب حافظ الملة يومًا، والمولوي شكرالله يومًا، وفي تلك الظروف كان طلاب حافظ الملة أيضًا يساعدونه بجهد كامل ونشاط وافر، حتّى كان يقول حافظ الملة: ’’أولئك الطلاب كانوا قوة عضدي‘‘. إنهم يقيّدون بالكتابة الخطبة الكاملة للخطيب المخالف، ويلقونها على حافظ الملة عندما يفرغ من مسؤولياته كلها، أي يبذل ما بين العصر والمغرب من الفرصة في سماع خطبة المخالف وإعداد الطلاب لجواب الجواب، دارتْ هذه المعاملة إلى أربع ونصف من الأشهر متتابعًا، ولكن الشيخ كان يؤدي سواه مسؤولياتٍ كثيرةً من التدريس في أوقاتها وغير أوقاتها ومُداراة الزُوّار وأصحاب الحارة، وغيرها من الأمور الهامّة.

قدم الشيخ ذات مرة إلى ’’جمشيد فور‘‘ قابلًا دعوة الجمعية الأمجدية العزيزية (الموجودة بحارة ’’جگ سلائي‘‘ بمدينة ’’جمشيدفور‘‘) زهاء سنة ألف وثلاث مائة وأربع وتسعين من الهجرة، وفي تلك الأيّام كنتُ أستاذًا في ’’فيض العلوم‘‘، فقدمتُ للّقاء، وبعدَه صلّيتُ المغربَ في المسجد الجامع بـــ’’جگ سلائي‘‘ خلفَ الشيخ، وبعدما قُضيت الصلاة، دخل الشيخ في مقرّه، وأخذتُ أتكلّم مع إمام المسجد الجامع، الشيخ محمد حسين الأعظمي حول أحوال الشيخ حافظ الملة، وفي خلاله قلتُ: ’’إنّ الشيخ لم يترك ثروةً خاصّة في صور التصنيفات، لذا يمكن أن يحرم الجيل القادم من علومه وإفاداته‘‘.

العوائق عن كثرة التصنيف:

ثم أنا أيضًا دخلتُ في مقرّ الشيخ، فقال الشيخ: ’’بفضله تعالىٰ حصّلتُ بالتأكيد على القدرة على الكتابة، وأيضًا على قوة القلم‘‘، ثم قال: ’’ماذا أقول؟، على كل حال كنتُ قادرًا على الكتابة، ونموذجه ’’العذاب الشديد‘‘ كتبتُه ردًّا على ’’مقامع الحديد‘‘ في بضعة أيام، لٰكني كنتُ عجلتُ في كتابته لذا لم يخرج إلى حيز الوجود كما كنتُ أُحبّ، فنسبتُه إلى اسم تلميذي العزيز الفاضل محمد محبوب، نظر الشيخ صدر الشريعة (أستاذ الشيخ، الشيخ أمجد علي رحمه الله تعالىٰ، المتوفّى سنة ألف وثلاث مائة وسبع وستين من الهجرة) ذلك الكتاب وقال: ’’إن الكتاب محكم ومتين، كان ينبغي للحافظ المحترم أن ينشره باسمه‘‘، وقال أرشد (رئيس القلم الشيخ أرشد القادري): ’’إن هذا الكتاب علّمني المناظرة‘‘.

ولم يمكن لي أن أكتب شيئًا بعروض العوائق والموانع وإغراق المسؤوليات مع إني كنتُ قادرًا عليه‘‘. تلميذ (كان الشيخ ذكر اسمه ولكني نسيته) بدأ علىّ قراءة شرح المرقاة (للشيخ عبد الحق الخيرآبادي،وإنه مساوٍ لشرح سلّم العلوم للقاضي مبارك) فبدأتُ التعليق على شرح المرقاة مراعاة لإصرار ذاك التلميذ عليه ولكنه لم يكتمل، لأن التلميذ تخرّج من المعهد وذهب، ثم لم أجد مثل ذاك طالبًا شائقًا لقراءة الكتاب المذكور ليمكن تكميل الحاشية‘‘.

وليس هناك شك في أن جميع الكتابات والمقالات والخطبات للشيخ هي أفضل أمثلة على الكتابة، وأصحابه أيضًا يعرفون مسؤولياته، وإلا لترك لنا ثروة عظيمة بشكل التصنيفات، ولكن الحقيقة هي أن حافظ الملّة لم يترك الكثير من المؤلفات إلا أنه بالتأكيد أخرج العديد من الكتّاب، وكان له دور كبير دائمًا في إلقاء ذوق الكتابة في الطلاب، وخاصة الطالب الذي رأى فيه القدرة على الكتابة والنزوع إليها يضعه في نفس الاتجاه ولذا يمكن للمرء اليوم أن يرى في طلاب حافظ الملّة أفضل كتّاب اللّغة الأردية والعربية والفارسية، ونسأل الله تعالىٰ أن يوفّق لنشر جهود جميع التلاميذ نشرًا عامًا، وأن يجزيهم أجر الخدمة العامة، وهو الموفق وخير معين.

الإفادات الدرسية:

كان تعليم الشيخ أيضًا نادرًا يجمع كمال التفهيم وحسن الإيجاز كليهما مثل خطبته وكتابته وتكلمه، وأحيانًا يبسطه ويفصّله، ولو ألقي النظر إلى ألفاظ ذاك البسط ومعانيها يقال له أيضًا إيجازًا، فالحاصل أن إيجازه وإطنابه كلاهما يكون محكمًا وحاملًا لتحقيقات دقيقة، لٰكن من إهمالنا وتقصيرنا أنّا لم نقيّد بالكتابة هذه الإفادات أيضًا للشيخ مثل خطباته وملفوظاته ووقائعه، فمن ثمراته أني بعد الكثير من الخوض والضغط على الذاكرة لم أتمكن من جمع الإفادات إلا قليلًا، وأعتقد أن الذين يملكون ذاكرات قوية لا تكون أوضاعهم مختلفة جدًا، وأظن أنهم أيضًا لم يتمكّنوا من جمع أكثر من مائة أو مائة وخمسين من الإفادات. بالجملة إن حاول العديد من الطلاب يمكن تكوين مجموعة كبيرة من الإفادات.

 

يمكن الإجابة أكثر من السؤال:

هناك حديث للبخاري: ’’عن ابن عمر عن النبي صلى الله تعالىٰ عليه وسلم أن رجلاً سأل ما يلبس المحرم فقال لا يلبس القميص ولا العمامة ولا السراويل ولا البرنس ولا ثوبا مسّه الورس والزعفران فإن لم يجد النعلين فليلبس الخفين وليقطعهما حتى يكونا تحت الكعبين‘‘ (ج: 1، ص: 25).

ذكر الشيخ الإفادات الأخرى والكلام التام لهذا الحديث وقال أيضًا: إن الجزء الأخير ’’فإن لم يجد النعلين‘‘ لم يسأل عنه السائل، بل إنه عليه السلام ذكر لتعلم هذه القضية أيضًا.

وقال على ما ذُكر: أُرسل من ’’محمد آباد‘‘ (هي قرية من القرى) استفتاء ’’هل تجوز الصلاة على الرافضي؟‘‘ كتبتُ إجابة مع المباحث الأخرى: إن الصلاة على الرافضي والقادياني والوهابي والديوبندي كلهم حرام أشدّ حرام.

وتبيّن فيما بعد أن ذاك الاستفتاء أرسله بعض أهل المذهب الديوبندي، كان هدفهم إثارة فتنة بين السنيين والشيعة، ولكن لهذا الردّ فشل مخططهم برمّته.

ضابطة أصول الفقه:

  ذُكر هذا الحديث في البخاري من عدة طرق في عدة مواضع مع فرق الإجمال والتفصيل: ’’عن أنس أن النبي صلى الله تعالىٰ عليه وسلم أتي بلحم تصدّق به على بريرة فقال هو عليها صدقة وهو لنا هدية‘‘ (ج: 1، ص: 202).

ألقى الشيخ قاعدة فقهية لأجل تفهيم الحديث المذكور بدلًا من إلقاء خطبة طويلة، وهي باقية في الأذهان حتى اليوم، وأثبتت فائدتها في مناسبات عديدة، قال: ’’بتبدل الملك يصير تبدل العين حكمًا‘‘.

لمّا وصل ذلك اللحم إلى ملك بريرة كان صدقة، ولمّا قدّمه بريرة إلى حضرة النبي صلّى الله تعالىٰ عليه وسلّم فلم يبق صدقة، بل صار هدية. لذا جاز أكله لهاشمي، لذا قال الفقهاء ناظرين إلى هذا الحديث بتبدل الملك يتبدل أصل الحقيقة حكمًا، وكثير من القضايا الفقهية مبنية على هذا الأصل والقانون.

الردّ البليغ على تأويل:

وفيما بين ندرُس جامع الترمذي جاء هذا الحديث ’’أبردوا بالظهر، فإنّ شدة الحرّ من فيح جهنم‘‘، ونحن قد سمعنا من أحد تأويلَ هذا الحديث بحيث لو كانت شدة الحر من فيح جهنم لكان الحر في كل مكان، والوضع أن في ’’كشمير‘‘ و’’نينی تال‘‘ يوجد الشتاء، لذا ذكر هذا الحديث تمثيلًا وتأويلًا كما يقال: ’’يتنسم النسيم من الجنة‘‘ لما تهب الرياح اللطيفة. فقدّم مولانا فضل حق الغازي فوري وعدة زملائي هذا التأويل إلى حضرة حافظ الملة، واستصوبوا منه فأجاب ’’تلك نيشرية‘‘ (إنه من أوضاع النيشريين أنهم يصرفون النصوص الصحيحة عن الظاهر، ويمهدون لتأويلات لاغية)، وردَّ عليه ردًّا بالغًا. وفي العام القادم، لمّا جاء هذا الحديث في صحيح البخاري، سمعت بنفسي أنّ حافظ الملة ذكر التأويل المذكور، وقال: ’’لا صحة في هذا التأويل، لأن البرد لا يوجد في الصيف في ’’كشمير‘‘ و’’نينی تال‘‘ أيضًا، مثل ما يوجد فيهما في الشتاء، بل يوجد هنا أيضًا فرقٌ كما يوجد في بلادنا في أيّام الصيف والشتاء، وإنه أمر آخر أن بسبب بعض العوائق لا يوجد هناك فصل يوجد في بلادنا، وصرف الحديث عن ظاهره بدون حجة ليس بصحيح قطعًا.‘‘

يجوز التفاخر بنفسه في بعض الأحيان:

كان الشيخ أفاد مرة حول هذه القضية في الفصل، وكنتُ كتبتُه نفس ذاك اليوم، وبالسعادة وجدتُ ذاك المكتوب اليوم، والآن أنقله: قال حافظ الملة خلال درس البخاري في الخامس عشر من جمادي الآخرة سنة ألف وثلاث مائة وتسع وثمانين من الهجرة المصادف الثلاثين من أغسطس سنة ألف وتسع مائة وتسع وستين من الميلاد يوم الاثنين: لا يمكن للمؤمن أن يحظى بالاحترام إلا أن يُذلّ أعداء الدين، ويثبتهم أذلّاء عند المخاصمة، ولو تصرّف أمامهم بالتواضع والخضوع ففيه ذلّ له، ذكر المحدث الأعظم في الهند رحمه الله تعالىٰ (العلامة السيد محمد الكجوجوي، المتوفى سنة ألف وثلاث مائة واحدى وثمانين من الهجرة) قامت المناظرة بيني وبين عبد الشكور الكاكوروي فقال لي في خلالها طاعنًا عليّ مناقشًا في قضية صرفية: إنك لم تقرأ شرح مائة، فذلّلتُه على ذاك وحقّرته وتعلّيتُ نفسي عنه كثيرًا حتى خزى وانهزم، وإني فزتُ في المناظرة، لكن قلبي شعر بانقباض بسبب تلك الجمل التي قلتُها في علوّي، وأنني مذنب بالفخر والعجب وهو أمر مستهجن بالتأكيد، وكنتُ أواجه تعكّرًا في نفسي، لذا أردتُ أن أرجع إلى الشيخ الكبير الإمام أحمد رضا البريلوي، وحضرتُ إلى حضرته، هناك تشاهد نبضات القلب وتلاحظ الاعتراضات الصاعدة في سطح العقل ببصيرة، حين وصلتُ إليه أخذ الشيخ يقول: ’’الفقير لا يحبّ الكبر عوض، ولا يفتخر شيئًا بما عنده بفضل الله تعالىٰ، إن العجب والكبر شيئان مذمومان، ولا يليق للمرء أن يفتخر ولو وصل إلى مكانة مرتفعة‘‘، يذكر المحدث الأعظم: ’’بعد سماع هذه الجمل انقطعتْ أنفاسي ولم تعد لدي همة لسؤال أيّ شيء، وبدأتُ ألوم نفسي كثيرًا، ولكن بعد ذلك قال الشيخ الكبير: ’’ولكن  لاينبغي أن يختار التواضع أبدًا أمام أعداء الرسول صلى الله تعالىٰ عليه وسلم فهناك هذا المرء ممثّل ومسؤول عن الدين الحق وعليه أن يثبت الدين عاليًا وعليًا، ومن واجبه أن يظهر عظمته في نصرة الرسول صلى الله تعالىٰ عليه وسلم، وهناك لايحصّل على ذاك المرام بالتواضع، فيجوز أن يطلق على نفسه رجلًا عاليًا وكبيرًا أمامهم وذاك نصرة الدين‘‘، ثم يذكر المحدث الأعظم: ’’ففرحتُ بسمع ذاك، واندفع تعكّر الخاطر والانقباض عن قلبي، وانشرح صدري، فالحمد لله على ذلك.

الحلواء والحلويات:

ذُكر في صحيح البخاري (الجزء الثاني والعشرين) حديث عائشة رضي الله تعالىٰ عنها: ’’كان رسول الله صلى الله تعالىٰ عليه وسلم يحب الحلواء والعسل‘‘، يذكر الرفيق والزميل مولانا عبد الستار الپرولياوي: ’’قال الشيخ حين إلقاء الدرس حول هذا الحديث (سنة ألف وثلاث مائة واحدى وتسعين من الميلاد): ’’ثبت به أن الحلواء مما يُرغب فيها ويشتهيها النبي صلى الله تعالىٰ عليه وسلم‘‘ فاستفسر مولانا عبد الرحمن الپورنوي: ’’إن معنى الحلواء مطلق (شيء حلو) لا هذه الحلواء المعروفة‘‘ فأجاب الشيخ: ’’في ذاك الوضع أيضًا ثابت استحبابها والرغبة إليها، لأنها أيضًا فرد من ذلك المطلق ويستلزم استحباب فرد خاص باستحباب المطلق بدون تخصيص‘‘.

الإفادات الأخرى

الأذان الثاني للجمعة، والبصيرة الفقهية للشيخ:

ذات مرة قال الشيخ في الفصل: ’’جاء رجال من ’’بنارس‘‘ وقالوا: ’’قال الإمام الأعظم لأهل البلد ’’لا تمشوا حين يؤذّن بين يدي الخطيب، وامشوا حين يؤذّن أول مرة‘‘ فيه لفظ ’’بين يدي الخطيب‘‘ يشعر أن الأذان الثاني كان يؤذّن قرب الخطيب عند الإمام الأعظم، قلتُ: ’’يثبت به أن الأذان الثاني كان يؤذّن خارج المسجد، وكان أصحاب البلد مثل الكوفة يمشون من بيوتهم إلى المسجد بعد سمع الأذان الثاني، وما كان يمكن لهم أن يسمعوا الأذان الثاني إلا حين يؤذّن من خارج المسجد، وكيف يصل أذان داخل المسجد إلى بيوت الناس بالبلد الوسيع مثل الكوفة حتى يسمعوه‘‘.

ترجمة القرآن للشيخ الكبير الإمام أحمد رضا:

إن من معتقدات النيشرية أن ’’رام‘‘ و’’كرشن‘‘ وغيرهما كانوا من الأنبياء وهم يستدلون بقوله تعالىٰ ’’ولكل قوم هاد‘‘ ويقولون لكل قوم هاد ورسول فلا جرم أن يكون لقوم الهندوس أيضًا هاد ورسول وهو هؤلاء كلهم، يتمسكون لدعوى نبوة المذكورين بمثل هذا القول، لكن الأصل أنه لا بد من نصٍّ قطعي لاعتبار أحد نبيًا، ولا يثبت وجود خارجي أيضًا لكرشن وغيره بحجة اسلامية، أما كتب الهندوس فهي غير معتبرة وغير اسلامية يعرف بها وجودهم، وبنفس تلك الكتب يعرف سوء أحوالهم أيضًا، ما لا يكون في أيّ نبي حتى في أيّ مؤمن على كل حال. قال حافظ الملة ذات مرة: إن بناء كل التمسك للنيشرية على قوله تعالىٰ ’’لكل قوم هاد‘‘ لكن الشيخ الكبير الإمام أحمد رضا هدم قصر استدلالهم كاملًا بترجمته فقط، ورد في القرآن ’’اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۠‘‘  (الرعد، الآية: 7) نقلها الشيخ الكبير إلى الأردية بحيث ’’ تم تو ڈر سنانے والے ہو اور ہر قوم کے ہادی‘‘ (إنما أنت منذر وهاد لكل قوم) أي القول ’’اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۠‘‘  يتعلق بنبينا صلى الله تعالىٰ عليه وسلم، والآن لم يبق للنيشرية مساغًا للاستدلال بــــــ’’ولكل قوم هاد‘‘.

ألقى ذات مرة حضرة الشيخ عبد المنان دام ظله خطبة حول الآية: ’’اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا‘‘ (الأحزاب، الآية: 45) في الحفلة للجمعية الأمجدية بـــــ’’بہیرہ ولید پور‘‘ بــــــ’’أعظم جره‘‘، إن معنى الشاهد حاضر، ويثبت بدعاء صلاة الجنازة الذي فيه ’’لشاهدنا وغائبنا‘‘ أن الشاهد يستعمل بمعنى الحاضر، فثبت بالآية أن الله تعالىٰ أرسل النبي صلى الله تعالىٰ عليه وسلم حاضرًا وناظرًا، ثم خطب حافظ الملة فشجّع ومدح المفتي المحترم وقال للحاضرين: ’’سلِّموا أن معنى الشاهد ’’گواه‘‘ (شاهد) فمن يكون شاهدًا؟ هل يمكن لأحد لم يكن حاضرًا عند الحادثة أن يشهد، ولو كان موجودًا لكنه لم يشاهد بعينه، فهل يمكن له الشهادة؟ لن يكون مثل ذاك، إنما الشاهد من يكون حاضرًا وناظرًا أيضًا عند الحادثة، لذا ثبت كون النبي صلى الله تعالىٰ عليه وسلم حاضرًا وناظرًا وإن يعتبر معنى الشاهد ’’گواه‘‘ (شاهدًا) في ’’اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا‘‘، ولله الحمد.

صلاة نصف شعبان:

كان الخلاف في ليلة البراءة سنة ألف وثلاث مائة وثلاث وتسعين من الهجرة، وقد كان وقعتْ رؤية هلال شعبان في التاسع والعشرين من رجب في بعض المديريات ولم يوجد ثبوت شرعي في ’’جمشيد فور‘‘ لذا كان هناك ليلة البراءة بإتمام الثلاثين.

وخطب حافظ الملة على فضائل ليلة البراءة في الحفلة التي عقدتْ في الخامس عشر من شعبان بـــــــ’’جمشيدفور‘‘ وذكر هناك هذا الحديث عازيًا إلى حاشية الجلالين للعلامة أحمد الصاوي المالكي رحمه الله تعالىٰ: ’’من صلى فيها مائة ركعة أرسل الله تعالىٰ إليه مائة ملك ثلاثون يبشرونه بالجنة وثلاثون يؤمنونه من عذاب النار وثلاثون يدفعون عنه آفات الدنيا وعشرة يدفعون عنه مكائد الشيطان، (الصاوي، سورة االدخان، الآية: 25).

وقال حافظ الملة: ’’ينبغي أن تصلى هذه الصلاة في ليلة البراءة نظرًا إلى هذه الثمرات العظيمة، لا يغرق الوقت الكثير في أداء مائة ركعة إلا ساعة ونصف، وإني ملتزم بهذه الصلاة، وفي هذه السنة قد اشتبه الأمر في ليلة البراءة فصليتُ مائة ركعة أمس ومائة ركعة اليوم أيضًا.

وكان حافظ الملة يقضى ليلة البراءة بــــــ’’جمشيدفور‘‘ مذ سنوات بدون فترة، وكانت في تلك الليلة تعقد حفلة إناطة العمائم لـــــ’’فيض العلوم‘‘ وتعتبر مشاركة الشيخ فيها لازمة. شاهدتُ بنفسي أربع سنوات أنه يصلي تلك الصلاة التزامًا بعد المغرب توّا أو بعد فترة قليلة قبل الذهاب إلى مكان الحفلة، وفي السنة الاخيرة سنة ألف وثلاث مائة وخمس وتسعين من الهجرة كان طبعه منحرفًا قليلًا ولحقه الضعف مع ذاك لم تفته تلك الصلاة في تلك السنة أيضًا، من يحب أن يرى تعبيرًا صحيحًا لحديث: ’’أفضل الأعمال أدومها‘‘ (صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب القصد والمداومة على العمل، رقم الحديث:6464) فلينظر إلى أعمال الحياة الصبورة المليئة بالمتاعب لحافظ الملة.

في نفس العام لمّا كان حافظ الملة مقيمًا في ’’فيض العلوم‘‘ في الرابع عشر من شعبان حكى له العلامة أرشد القادري حكاية امرءٍ بأنه لا يداوم على الصلاة لكنه أحدث وصمة بارزة على جبهته، فقال الشيخ: ذاك شيء قبيح جدا، اُستحسن في القرآن علامة السجدة التي تبرز في الوجه، ورد في القرآن: ’’ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ‘‘ (الفتح، الآية: 29) لم يرد فيه ’’في جباههم‘‘ وكان على جنبه تفسير الصاوي فقال: ’’ذُكر في هذا الصاوي حديث في ذم وصمة السجدة‘‘ فنظرتُ بالفور ذاك الجزء من الصاوي ’’(سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْد) وهو نور وبياض يعرفون به في الآخرة أنهم سجدوا في الدنيا،(جلالين).

ويقول العلامة أحمد الصاوي: اختلف في تلك السيما فقيل: إن مواضع سجودهم يوم القيامة ترى كالقمر ليلة البدر، وقيل هو صفرة الوجوه من سهر الليل، وقيل: الخشوع الذي يظهر على الأعضاء حتى يتراءى أنهم مرضى وليسوا بمرضى وليس المراد به ما يصنعه بعض الجهلة المرائين من العلامة في الجبهة، فإنه من فعل الخوارج، وفي الحديث ’’إني لأبغض الرجل وأكرهه إذا رأيتُ بين عينيه أثر السجود‘‘ (الصاوي، سورة فتح، ج: 26).

فانشرحت صدورنا بتوجيه حافظ الملة وتصريح العلامة أحمد الصاوي وبذاك الحديث، فقال الشيخ أرشد القادري: ’’قد كان يقع في نفسي تعكّر بأن القرآن يستحسن علامة السجدة ونحن نذمها، يلوح في بادي النظر أن القرآن استحسن وصمة سجودهم، لكن اليوم انشرح الصدر أن وصمة السجدة لم تذكر في القرآن بل استُحسن فيه نور الوجه.

ما هو الموت؟:

أشار إليه حافظ الملة مرارًا في خطبه، قال: ’’إن الإنسان مجموع الجسم والروح، حين يقال إن فلانا قد مات فقولوا أيّ من الجسم والروح قد مات وفنى، هل مات الروح؟ لا، لا والله، لا المسلمون فقط بل الفلاسفة أيضًا يعتقدون أن الروح لا يموت، فهل مات الجسم؟ لا، لم يمت الجسم أيضًا، أنتم تشاهدونه بالعيون وتلمسونه بالأيدي، كل عضو على وضعه لم يفن عضو، فما هو الموت؟ إني أقول: ’’إن الموت اسم لاختلاف الجسم والروح وافتراقهما، مادام الروح والجسم كانا متفقين ومتصلين كان الإنسان حيًّا، ولمّا اختلفا وتباينا قيل قد مات الإنسان.

فعُلم أن الاتفاق حياة والاختلاف موت، اختلاف جسم وروح موت شخص، واختلاف أهل أسرة موت البيت، واختلاف حارة وقرية ومدينة أو قطر موت تلك الحارة والقرية والمدينة أو القطر.

المدرسة والمسجد:

كان الشيخ شغوفًا بالمدرسة والتدريس طوال حياته، إنه وضع حجر الأساس لعدّة من المدارس، ولا يرفض دعوة تأسيس مدرسة إلى حد ما يمكن، ويخطب في تلك المناسبة حول فضائل المدرسة، وأثناء وصف الفرق بين المنفعة العامة للمدرسة والمسجد سمعنا من الشيخ مرارًا أنه يقول: ’’إذا شارك أحد في بناء مسجد فإنه يحصّل على أجر كل شخص يصلي في ذلك المسجد، ولكن إذا صلى نفس الشخص في مسجد آخر أو مكان آخر لا يدفع ثواب صلاته لمن بنى المسجد الأول، وإن شارك شخص في بناء مدرسة يحصّل على أجر كل خير من أداء الصلاة والصوم والقيام بأمر آخر لكل طالب تخرج من تلك المدرسة بعد تعلّم الصلاة والصوم والأحكام الشرعية والعلوم الدينية سواء كان ذاك الطالب في تلك المدرسة أو في مكان آخر، ويكون ثواب التعلّم والتدريس والعمل الصالح للمعلمين والطلاب أو غيرهم من الناس داخل هذه المدرسة نفسها إضافة على ما ذكر.

هذه الجمل المفيدة لحافظ الملة هي كنز المعاني الكثيرة، وخير مثال لحسن الإيجاز ودقة النظر الفقهي ومثال رائع لبصيرته، إن فصّلتْ هذه الجمل الموجزة يمكن أن تكون خطبة مبسوطة.

متاركة عصاة الله تعالىٰ، ودعاء القنوت:

يقول حافظ الملة: ’’كنتُ قد تدربتُ في زمن تعلّمي على إلقاء الخُطب وكان يمكن لي إلقاء الخطبة لمدة ساعة حول أيّ موضوع، قلتُ للناس مرة اقترحوا لي أيّ موضوع فإني أستطيع أن أخطب عليه ساعة، فاقترح الناس دعاء القنوت المعروف موضوعًا لخطبتي، فخطبتُ عليه مرتجلًا ساعة.

يوجد في هذا القنوت موضوعات التوكل والشكر وكفران النعمة والعبادة والصلاة وغيرها، لكني ألقيتُ الضوء خاصة على ’’ونخلع ونترك من يفجرك‘‘ وقلتُ: يُقرّ المرء كل يوم أمام الله سبحانه وتعالىٰ ’’ونخلع ونترك من يفجرك‘‘ ولكن متى يوجَد العمل وفق الإقرار، وذاك إقرار لقطع العلاقة من كل فاجر وعاصٍ لله عز وجل، ومن أعاظم الفجار والعصاة الكافر والمرتد، فكيف يمكن أن يصح التعلق بهما؟‘‘.

قد نقلتُ هذه عدة إفادات مذكورة بتعجل.

وقد تم التهيئات لعدد خاص للأشرفية حول حافظ الملة، ومن المؤسف أني لم أبدأ هذا العمل مبكرًا، وإلا لديّ المزيد من هذه الإفادات في ذهني، مكّنَني الله تعالىٰ أن أكتبها وأعرضها في مكان ما قريبًا.

الملفوظات والوقائع

الشيخ عبد الحق الخيرآبادي:

يصل نسب تتلمذ حافظ الملة في المعقولات إلى العلامة فضل حق الخيرآبادي (المتوفى 1278ھ) بطريق صدر الشريعة (م 1367ھ) والشيخ هداية الله خان الرام فوري (م 1326ھ)، قال حافظ الملة في الشيخ عبد الحق الخيرآبادي ابن العلامة فضل حق الخيرآبادي: ’’إنه وصل إلى جامعة الأزهر بــــــ’’مصر‘‘ هناك في مكان ما كان يُدرس كتاب صعب من المنطق مسمى بــــــ’’الأفق المبين‘‘ فدخل الشيخ عبد الحق في ذاك الفصل وجلس مع الطلاب، والأستاذ لايعرفه شيئًا، في خلال التدريس ألقى الأستاذ تقريرًا، فاعترض عليه الشيخ، فأجاب عنه الأستاذ، فقدّم الشيخ سبعة إيرادات على ذاك الجواب، فأخذ الأستاذ يد الشيخ وأجلسه بجنبه قائلًا أنت الشيخ عبد الحق الخيرآبادي، لا يمكن لأحد في العالم كله أن يقيم سبعة إيرادات على جواب أجبتُه عن إيرادك على الأفق المبين إلا الشيخ عبد الحق الخيرآبادي.

أسلوب الإصلاح وظرافة الطبع:

(1) ذات مرة قرأ طالب عبارة هداية النحو مثل ما يأتي ’’من حيث الإعراب والبَناء‘‘ فقال حافظ الملة: ’’ماذا بنيتَ؟ قد أفسدتَ، ينبغي أن يكون ’’والبِناء‘‘.‘‘

(2) وإن في المدارك عبارة لــــ’’سورة الكهف‘‘ في الصفحة الثانية في المجلد الثالث، وهي: ’’يعني أن قولهم هذا لم يصدر عن علم ولكن عن جَهل مفرط‘‘ فقرأتُه ’’عن جِهل‘‘ فقال حافظ الملة: ’’إن الجِهل أيضًا جَهل‘‘ فصحَّحتُها وقرأتُ ’’عن جَهل مفرط‘‘.

(3) صلى الحافظ الملة ذات مرة في مكان، وكان الإمام يسعل في تلك الصلاة كثيرًا بل لم يزل يسعل، فبعد الصلاة قال حافظ الملة: ’’إن سعال الإمام المحترم إمام السعال‘‘ (رواه الشيخ يسين أختر المصباحي).

العيادة:

الحافظ إبراهيم المباركفوري اخو أبي في الصلة، كان يشرّف بيتنا كثيرًا بقدومه ويحبنا، ذات مرة مرض أبي فقال للحافظ إبراهيم  أن يذهب إلى مباركفور ويلتمس من حافظ الملة أن يدعو لشفائي وإن أمكن أخذ منه عوذة ويُرسلَها، فقدّم الموصوف تلك الكلمات إلى حافظ الملة وأخذ منه عوذة وأرسلها، ثم بعد أيام قدِم حافظ الملة إلى ’’محمدآباد گوهنه‘‘ للمشاركة في حفلة (يوجد قبل ’’خيرآباد‘‘ ’’دهريرا گهاٹ‘‘ في السبيل بين ’’مباركفور‘‘ و ’’محمد آباد‘‘ بطريق إبراهيم فور، من يريد أن يصل إلى موطني ’’بهيره‘‘ فعليه أن ينزل في ذلك المورد للماء ’’دهريرا‘‘ يعبر النهر ’’تونس‘‘ بزَورق والمسافة بين النهر و’’بهيره‘‘ تستغرق عشرين دقيقة مشيًا بالأرجل) ذاك اليوم وصل حافظ الملة والشيخ السيد حامد أشرف إلى بيتي مصادفةً، وفي تلك الأيام كنتُ أتعلّم في المدرسة ’’ضياء العلوم‘‘ بـــــ’’خيرآباد‘‘، إنهما ناديا من خارج البيت فخرجتُ بعجلة بدون القلنسوة وتحيّرتُ حين نظرتُ الشيخ بغتة، فلقيتُه ودخل الشيخ في البيت ولقيه أبي أيضًا، نظر الشيخ إلى أبي وقال: ’’فرحتُ بأنك قد شُفيتَ من المرض، تركتُ العربة السارية إلى ’’محمدآباد‘‘ وجئتُ ههنا للعيادة.

البساطة وقيمة الجهد:

دعا أبي بحلوات وقدّمها إلى الشيخ حافظ الملة، وكانت الساعة حوالي الساعة الثالثة من النهار، وخرجتُ لشراء اللبن للشاى، وما كان فندق للشاى في تلك الأيام في ’’بهيره‘‘ فأسرعتُ من الحارة الشرقية إلى الغربية والجنوبية حتى وجدتُ اللبن بعد صعوبة عند ’’لعل محمد‘‘ في الحارة الجنوبية، وذاك اللبن أيضًا قد وضع للإراب، أخرج منه ابن الموصوف ’’محمد رفيق‘‘ ربع كيلو وأعطاني، فلمّا رجعتُ نظرتُ الشاى الساذج قد وضع أمام الشيخ بعد ترقب طويل، وقال الشيخ: ’’لا حاجة إلى اللبن يمكن أن يشرب الشاى الساذج‘‘، فقال أبي: ’’ وصل اللبن إلينا بعد جهد كثير‘‘ فقال الشيخ: ’’لمّا بُذل فيه الجهد فأت به‘‘، أي يجب أن يشجّع الجهد ولا ينبغي أن يُترك الجهد ليذهب سدىٰ.

وبعد ذلك وقف دقائق ودعا لنا والتمس من الشيخ السيد حامد أشرف أيضًا للدعاء لنا، ثم ارتحلا مرتجلين إلى ’’محمد آباد‘‘ وشايعتُهما إلى ’’محمد آباد گهاٹ‘‘ أستعجب من هذه السنّة للعيادة لأن الانتقال من المورد للماء ’’دهريرا‘‘ إلى ’’بهيره‘‘ مشيًا بالأقدام ثم الارتحال مثل ذاك من هنا إلى ’’محمد آباد‘‘ فعل شاقّ، إني مواطن هناك لكني في شبابي أيضًا أحتاج إلى عزيمة عظيمة للذهاب إلى ’’بهيرا‘‘، ذات مرة سار زميلي الشيخ بدر القادري معي من ’’محمد آباد‘‘ ووصلنا إلى ’’بهيرا‘‘ فقال: ’’لو لم يكن هذا موطنك لعلك لا تتحمل هذه الصعوبة للمشي بالرجل‘‘ فقلتُ: ’’صحيح‘‘، لكن الشيخ حافظ الملة تحمل هذه الصعوبات كلها لأداء سنة العيادة فقط، وفي الواقع كان عنده قيمة كبيرة لكل شحص لديه تعاطف حقيقي مع السنّية وهو خادم حقيقي للدين، وهذا الشعور بالتقدير والحب يحرضه على تحمل مثل تلك الصعوبات لفرحة قلوب خدامه.

الحفاوة والضيافة للضيف لأنه ضيف:

إن مئات وآلاف شخص قد حظوا بشرف الورود بمقر حافظ الملة في المدرسة القديمة، كان الشيخ يوقد الموقد بنفسه للضيوف ويصنع لهم الشاى ويسقيهم ويهيّأ المشروب في أيام الصيف ولو كان القادم مريده أو تلميذه، والحسن الزائد إن يرد الضيف أن يساعده في العمل أو يخدمه لا يرضى به قطعًا، ذات مرة قدم أبو المولوي عبد الحليم البهيروي ومريد الشيخ حافظ الملة، عبد الشكور البهيروي إلى حضرة حافظ الملة وأراد أن يحرك المروحة فلم يحبه الشيخ وقال: ’’أنت ضيف‘‘.

يحكي زميلي المولوي عبد الستار الپرولياوي أن الطلاب الذين لايغادرون المدرسة في عطلة عيد الأضحى يدعو جميعهم الشيخ بعد صلاة عيد الأضحى ويضيفهم بالخميصة والشاى ثم يعطيهم هدية العيد قبل اتمام الدعوة، وذاك كان له طبيعة وسجِيّة لازمة، وإني من القرية ’’بهيرا‘‘ لذا لم أجد فرصة لقضاء العيد في ’’مبارك فور‘‘، (المسافة بين ’’مبارك فور‘‘ و’’بهيرا‘‘ ستة أميال) كنتُ أصل كل أسبوع غالبًا إلى البيت فلا صورة للوقوف في عطلة عيد الأضحى، لذا لم يمكن لي أن أشاهد هذا المنظر بعينيّ، ويقول الأخ عبد الستار: ’’كان الشيخ يقّدم الأقداح وما حضر بأيديه إلى حضرة الطلاب، ذات مرة أردتُ أن أمدّ يدي لأساعد بتقديم الأقداح إلى الطلاب، فقال الشيخ: ’’إجلس، إنما المضيف اَنا‘‘ فبتلك الألفاظ العالية طرأ علىّ خوف لم أستطع بعد ذاك شيئًا وجلستُ‘‘.

كنا قرأنا في الكتب لمّا حضر الإمام الشافعي حضرة الإمام مالك أنه أنزل الإمام الشافعي منزلة الضيف وخدمه مضيفًا، يقول الإمام الشافعي: ’’خجلتُ كثيرًا حين قدّم الأستاذ الإمام مالك بأيديه ماء الوضوء وقت صلاة الفجر‘‘، ولكننا نشاهد نموذجه العملي بعد ألف ومأتي سنة في حافظ الملة، هذا هو العمل بسنة النبي صلى الله تعالىٰ عليه وسلم واتباع طريق الأسلاف، ونظيره صعب جدًا في الوضع الراهن. يجامل بعض الناس مع الأعزاء والأقرباء والأحباب والرفقاء لكن خدمة الطلاب والمريدين الذين يدأبون وضع ركبة التتلمذ ويشتاقون إلى لثم الأيدي وتقبيل الأقدام وإلى الإكرام والتعظيم نادرة جدًا بل مفقودة، والأمر الأصعب التزامه ودوامه، يمكن أن يعمل شخص مثل ذاك مع عشرة رجال أو عشرين رجلًا أحيانًا، ولكن العمل به طول الحياة مع الالتزام والشدة سلوك ممتاز وبارز لحافظ الملة لا يوجد نظيره بعد التفقد أيضًا.

أكتفي على هذا لوجود عدم توسع في الوقت، إن يوفّقني الله تعالىٰ سأقّدم الوقائع إلى حضرات القراء في مجلة قادمة، والله الموفق لكل خير وهو المستعان وعليه التكلان.

المكتوبات

(1)تخرّجتُ من الأشرفية في العاشر من شعبان سنة ألف وثلاث مائة وتسع وثمانين من الهجرة المصادف الثالث والعشرين من أكتوبر سنة ألف وتسع مائة وتسع وستين من الميلاد، وبعد العطلة السنوية قدم إلىّ رجال من ’’خالص فور أدري‘‘ بمديرية ’’أعظم جره‘‘ في العشرين من شوال سنة ألف وثلاث مائة وتسع وثمانين من الهجرة، يريدون أن يذهبوا بي أستاذًا لمدرستهم ’’بيت العلوم‘‘ بــــــ’’خالص فور‘‘، وأذن لي أبي على إصرارهم، لكني كتبتُ إلى حافظ الملة مكتوبًا مستاذنًا وفيه التمستُ منه العفو عن التقصيرات والخطايا، فكتب حافظ الملة إلىّ ردًّا عليه ما يلي من المكتوب:

786

من دار العلوم الأشرفية بــــــ’’مبارك فور‘‘

المحب المحترم المولوي محمد أحمد زيد مجدكم ـــــــــــــــــــ الدعاء للخير والسلام المسنون

وجدتُ مكتوبك، إن حياتك السعيدة ومعاملتك الخالصة ذات الودّ والحب على مكانة لا يخطر ببالي شيء من الخطاء والسخط، وأنا الداعي المخلص لك أن يمنحك الله تعالىٰ الصحة والسلام والفرح والسرور دائمًا ويوفّقك للخدمات البارزة والممتازة للدين المتين، آمين.

ورأيي فيك أنك إذا أعطيتَ الأشرفية المزيد من الوقت الآن، فسوف تصبح أكثر قيمة، كما أخبرتُ والدك.

ومهما كان رأيك ورأي أقاربك إن كنتَ تحب الوظيفة في ’’خالص فور‘‘ فلك الإذن منّي، أقرِء السلام منّي على أبيك.

                                                                                  فقط، عبد العزيز عفي عنه، 21/ شوال 89ھ.

٭٭٭

ثم وصلتُ إلى الأشرفية في الحادي والعشرين من شوال لمواصلة التعليم، وقد صدر نفس ذاك الأمر إلى زميلي مولانا بدر عالم بدر القادري زيد مجده، فوصل قبل أيام منّي، نحن حضرنا حضرة الشيخ فقال: ’’جئتما‘‘ قلتُ: ’’نعم‘‘ فقال: ’’إنني أيضًا أعربتُ ذات مرة عن نيتي في ترك التعليم، فأمرني صدر الشريعة عليك أن تتعلم المزيد، فامتثلتُ أمره، وأنتما أيضًا امتثلتما أمري.

قبل ذاك، ذات مرة ذكر الشيخ: ’’أردتُ للشئون الداخلية أن أتعلم في صف الحديث قبل تعلّم الكتب الكثيرة، فقال صدر الشريعة: ’’أكمِل تعليمك، والله محافظ‘‘. فأعانني ربي حتى قضيتُ ثلاث سنوات زائدة في ’’أجمير‘‘ ثم لمّا انتقل الشيخ إلى ’’بريلي‘‘ قدمتُ إلى حضرته وتعلّمتُ هنا سنة، فالحمد لله على ذلك.

(2) خرجتُ من الأشرفية على ما أمر حافظ الملة في السابع عشر من أغسطس سنة ألف وتسع مائة وستين من الميلاد المصادف الرابع عشر من جمادى الآخرة سنة ألف وثلاث مائة وتسعين من الهجرة وقدمتُ مع الأستاذين الحافظ الشيخ عبد الرؤف والمقرئ محمد يحيى إلى دار العلوم الفيضية النظامية بـــــــــ’’ باراہاٹ، اِشی پور ‘‘ بمديرية ’’بہاگل پور‘‘  للتدريس، ثم بعد يومين أو ثلاثة أيام رجع الشيخ الحافظ، والمقرئ المحترم كلاهما إلى الأشرفية، ثم كتبتُ إلى حافظ الملة رسالة مشتملة على الإخبار بالصحة والعافية، ونِلتُ جوابها كما يلي من المكتوب:

المحب المحترم المولوي محمد أحمد زيد مجدكم ـــــــــــــــــــــــــــ الدعاء الكثير والسلام المسنون!

وجدتُ مكتوبك، لديّ مسؤوليات كثيرة لذا وُجد التأخر في الجواب، هناك أمل قوي بسعادتك وصحتك وتديّنك أن تخدم الدين وفق الإمكان إن شاء الله تعالىٰ، وأدعو الله تعالىٰ أن يبارك لك في حياتك، ويوسع في علمك وفضلك، آمين بجاه حبيبك سيد المرسلين.

                                                         والدعاء. عبد العزيز عفي عنه، 24/ جمادى الآخرة 1390ھ.

٭٭٭

(3) قدمتُ إلى الأشرفية للقاء الشيخ في العاشر من شوال سنة ألف وثلاث مائة وتسعين من الهجرة، لكنه كان يوم الجمعة، لذا لم يتيسّر لي اللقاء، ووصلتُ إلى دار العلوم الفيضية النظامية صباح الحادي عشر من شوال، وقدم الشيخ إلى ’’مبارك فور‘‘ في ذاك التاريخ، ولذا لم يمكن لي اللقاء، فكتبتُ للشيخ رسالة إعلامية، ووجدتُ جوابها بصورة ما يلي من المكتوب:

من الأشرفية بمبارك فور، 22/ شوال، 90ھ

المحب المحترم المولوي محمد أحمد زيد مجدكم ـــــــــــــــــــــــــــ الدعاء الكثير والسلام المسنون!

وجدتُ مكتوبك، لم يمكن اللقاء، لكني مسرور جدّا بأنك وصلت إلى المدرسة على موعدها، أتمنى أن يديم عليك المولى الكريم الصحة والسعادة، وأن يوفقك للمزيد من الخدمات الدينية، الخدمة الدينية المخلصة هي استثمار عظيم للآخرة، وأهم شيء هو الشعور بالمسؤولية، ومن يدرك مسؤوليته سيكون ناجحًا دائمًا، دعائي معك، بارك الله فيك. آمين. والدعاء والسلام لكل من المحب الفاضل الشاهدي والحاج المحترم وغيرهما من الأحباب.

                                                                                                                    فقط، عبد العزيز عفي عنه.

٭٭٭

(4) وصلتُ إلى بيتي في العطلة السنوية في شعبان سنة ألف وثلاث مائة وإحدى وتسعين من الهجرة، وفي تلك الأيام شاهدتُ أوضاع دار العلوم الفيضية النظامية،و لم أستحسن القيام هناك بعد، وقدم حافظ الملة إلى ’’محمد آباد گوهنه‘‘ لحفلة، فقلتُ له كل ما جرى هنا وأظهرتُ ما كان في خاطري، ثم كتبتُ رسالة محتوية على ذاك الموضوع وأرسلتُه إلى عنوان موطن الشيخ ’’بهوجپور‘‘ بمديرية ’’مرادآباد‘‘ فوجدتُ المكتوب الآتي جوابًا منه:

المحب المحترم المولوي محمد أحمد زيد مجدكم ــــــــــــــــــــــــــ الدعاء الوفير والسلام المسنون!

وجدتُ مكتوبك طلبتَ فيه إذن الاستقالة من المدرسة الفيضية، فأكتب مجيبًا كنتَ ذكرتَ أوضاعها وأظهرتَ تقدير الزيادة في المستقبل فقلتُ لك الخيار، مثل ذاك أقول الآن أيضًا بأنك مختار.

إني أعيّن المدرس، لا أنَحِّيه عن منصب التدريس، وللمدرس خيار إن شاء ترك، ودعائي معك، وقدّم على أبيك السلام منّي، والدعاء والسلام.

                                                                                                                    فقط، عبد العزيز عفي عنه.

٭٭٭

(5)كان الفاضل فضل حق الغازي فوري أيضًا أستاذًا معي في ’’بهاگل پور‘‘ وهو يذهب إلى ’’جمشيد پور‘‘ في رمضان للصلاة بالناس التراويح، وإنه تكلم لتدريسي مع الشيخ أرشد القادري، وذهب بي إلى ’’جمشيد پور‘‘ مصرًّا، فبعد أيام أتى تلغراف من حافظ الملة بأن الحافظ عبد الرؤف قد توفي، ولمّا وجد الشيخ أرشد القادري إعلام هذه الحادثة وصل إلى ’’مبارك فور‘‘ في خلال يومين أو ثلاثة أيام، وعلى ما أظنّ وجدتُ هذا المكتوب الآتي بوسيلته:

المحب المحترم المولوي زيد مجدكم ــــــــــــــــــــــــــــــــ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته!

قدم إلينا العلامة أرشد القادري، وذكر أنه قد عيّن المولوي محمد أحمد والمولوي عبد الستار معلّمين في فيض العلوم، فسررتُ كثيرًا بالعلم به، إن فيض العلوم أيضًا معهدنا، وينبغي أن تؤدي المسؤوليات اعتبارًا بأنه معهدنا، وإنما تبدّل المدرس والمدرسة مرة بعد مرة مضر، يذهب الاعتبار والثقة ولا يكتمل العمل أيضًا، قال الأسلاف: ’’يك در گير محكم گير‘‘ (اختر مكانًا واحدًا وخذ به محكمًا)، على كل حال عليك أن تشتغل مجتهدًا ثابتًا، دعائي معك دائمًا، والسلام والدعاء للعزيز المولوي عبد الستار مع مضمون واحد.

                                                                                                                  فقط، عبد العزيز، عفي عنه.

٭٭٭

(6) كنتُ أرسلتُ إلى حافظ الملة خبر استلام وظيفة التدريس في فيض العلوم بالبريد، وذكرتُ فيه أن الفاضل عبد الستار الپرولياوي أيضًا ههنا، والحافظ الفاضل فضل حق الغازي فوري أيضًا مدرس في نفس البلد بمدرسة دار القرآن بــــــ’’ذاكر نگر‘‘، فوجدتُّ ردًّا عليه هذا المكتوب:

المحب المحترم المولوي محمد أحمد زيد مجدكم ـــــــــــــــــــــ السلام عليكم ورحمة الله!

وجدتُ مكتوبك، كتبتُ جوابه أيضًا ما كان يمكن لي، وعلى كل حال إني أدعو لك وللمولوي الحافظ فضل حق وللمولوي عبد الستار أن يوفقكم الله تعالىٰ لخدمة الدين، ويرتقي فيض العلوم بخدماتكم المقبولة ويرتفع. آمين. السلام والدعاء لكل واحد.

                                                                                                                  فقط، عبد العزيز، عفي عنه.

٭٭٭

(7) كتبتُ ذات مرة رسالة لحافظ الملة حول شوقي في الأدب وتحصيل العربي الجديد، فوصل إليّ جوابه ما يلي:

8/ ذي القعدة 1392ھ

المحب المحترم المولوي محمد أحمد زيد مجدكم ــــــــــــــــــــــــــــــــــ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته!

وجدتُ مكتوب حبك وسررتُ به كثيرًا، وفرحتُ كثيرًا بشغفك بالعلم وحصول البراعة، أتمّ الله عز وجل وأعطى البراعة في كل فن، وعليك أن تجتهد بنفسك في الأدب العربي، وسيتم اتخاذ الترتيبات اللازمة للخروج إلى البلاد الأخرى، وعلى الأقل يمكنك إتقان اللغة العربية القديمة بجهودك الخاصة، وبعد ذلك سيظهر دليل للعربية الحديثة أيضًا، والتحية والدعاء للمعلمين والطلاب والعلامة أرشد القادري.

                                                                                                                  فقط، عبد العزيز، عفي عنه.

٭٭٭

 (8) كانت صحة ابني محمد أحمد المرحوم الملقب غلام جيلانی شميم رضا سيئة منذ فترة طويلة، ولهذا طلبتُ التميمة من الشيخ في رمضان سنة ألف وثلاث مائة وثلاث وتسعين من الهجرة، وذكرتُ في ذاك المكتوب مشاركتي العلمية وجهدي وسعيي الجاد من أجل تحصيل الكمال، فوجدتُ ردًا عليه عوذات وما يلي من المكتوب:

24/ رمضان، 1393ھ

المحب المحترم المولوي محمد أحمد زيد مجدكم ـــــــــــــــــــــــــــــ السلام عليكم ورحمة الله!

كانت هذه الجملة لطيفة جدًا لدرجة بأنني أحاول الوصول إلى الكمال، بارك الله تعالىٰ وجعلك بارعًا وبارك الله في عمرك ووسع الله في علمك وفضلك. آمين. أرسلتُ إليك عوذة للشرب وعوذة للصبي فيها خيط.

وعلة تأخير الإجابة علالتي ومسؤوليتي.

                                                                                                                  فقط، عبد العزيز، عفي عنه.

 

—٭٭٭

([1]) انتشر المقال الأردي أولاً في المجلة الشهرية للأشرفية ليونيو، ويوليو، واغسطس سنة 1978ء، ثم انتشر في مجموعة ’’مقالات المصباحي‘‘ سنة 2022م من المجمع الإسلامي، مبارك فور، مديرية أعظم جره، يوپي، الهند.

کتاب اسلام اور امن عالم کا ایک تجزیہ

علامہ بدر القادری علیہ الرحمہ کی کتاب”اسلام اور امن عالم” ایک تجزیہ

از:مولانا محب احمد قادری علیمی استاذ: دارالعلوم علیمیہ، جمدا شاہی، بستی

اسلام امن و آشتی ،صلح وصفائی ،انسانی مساوات ،عدل وانصاف ،عدم تشدد ،باہمی اخوت و محبت اور انسانی عظمت ورفعت کی تعلیم دینےوالا مذہب ہے چوں کہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے حقیقی معنوں میں وہ امن کا داعی ہے اور اس کا نظام محکم انسانی زندگی کے ہر شعبے میں صحیح رہنمائی کرتاہے _لیکن آج ہم جس معاشرے میں اپنی زندگی کی سانسیں لے رہے ہیں وہ پوری طرح سے متعفن اور اسلام دشمنی کے زہر میں گھلا ہوا ہے ،عالمی سطح پر منظم سازش کے تحت اسلام کو ہر طرح سے بدنام کرنے اور اس کی صحیح تعلیمات کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام سے بڑھ کر انسانیت کا قاتل اور عالمی امن کو نقصان پہونچانے والاکوئی مذہب ہو ہی نہیں سکتا جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔
آج سے کوئی تین دہائی سے زیادہ پہلے۱۹۸۸؁ءمیں قیام ہالینڈ کے دوران جب کہ آج کے مقابلے میں اس وقت حالات اتنے نا گفتہ بہ نہ تھے اس کسک کو نباض قوم و ملت مفکراسلام حضرت علامہ بدر القادری علیہ الرحمہ نے بہت شدت سے محسوس کیا، اور قرآن وحدیث، اور تاریخ اسلام کے واقعات و روایات کی روشنی میں اسلام کے داعی امن ہونے اور اس کی صحیح اور مبنی بر حقیقت تعلیمات کو دنیا کے سامنے”اسلام اور امن عالم“ کی شکل میں پیش کرکے قوم پر جو احسان فرمایا ہے اسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے کتاب”اسلام اور امن عالم“ کی وجہ تالیف خود انھیں کی زبان سے ملاحظہ فرمائیں۔
”قیام ہالینڈ کے دوران کئی اہم اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کے مواقع حاصل ہوئے جہاں امن عالم کے موضوع پر دور حاضر کے محققین اور ریسرچ اسکالر س کے مقالات سننے کو ملے کچھ اس وجہ سے بھی اس موضوع سے دل چسپی ہوئی اور بڑا سبب مغربی ذرائع ابلاغ کا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں گمراہ کن رویہ جسے میں نے شدت سے محسوس کیا اور اس موضوع پر قلم اٹھایا“۔
( اسلام اورامن عالم ،ص:٣٢)
اگر تعصب و تنگ نظری کی عینک اتار کر حقیقت کی نگاہ سے اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو پڑھا جاۓ تو ہر انصاف پسند دانش ور یہی کہنے اور لکھنے پر مجبور ہوگا کہ آج بھی اسلام کے اصول و ضوابط کی تنفیذ میں امن عالم کا راز مضمر ہے چناں چہ خیر الاذکیا حضرت علامہ محمد احمد مصباحی حفظہ اللہ سابق صدر المدرسین الجامعہ الاشرفیہ مبارک پور فاضل مصنف کی اس گراں قدر تصنیف پرتشجیعی کلمات اور نظام اسلام کے نفاذ کو امن عالم کی ضمانت قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”مبلغ اسلام برادر گرامی مولانا بدر القادری مدظلہ کو رب کریم جزاۓ خیر سے نوازے کہ انہوں نے اسلام سے نا آشنائی اور اس کی طرف سے بدگمانی کا مرض دیکھ اس کا علاج پیش کیا اور زیر نظر کتاب میں اسلامی نظام حیات کے مختلف شعبوں پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ امن عالم آج بھی اسلام کی تنفیذ ہی سے قایم ہو سکتا ہے ،اس کے دامن میں اب بھی وہ بجلیاں پوشیدہ ہیں جو دنیا کی بد حالی اور ابتری کا خاتمہ کر سکتی ہیں ۔تعصب و تنگ نظری کی عینک اتار کردانش وران عالم اگر صاف دلی اور نیک نیتی سے تباہ حال انسانیت پر غور کریں تو اس کی فلاح و بہبود کی مکمل اور جامع تدبیریں اسلام ہی کے دامن میں ملیں گی“۔
(تقدیم اسلام اور امن عالم ص:٨)
کتاب کی تمہیدی گفتگو میں نقارہ خدا ،بلکتی ہوییٔ انسانیت پوچھتی ہے،حکم رانی خداییٔ ،جس خدا نے انبیا اور کتابوں کے ذریعے ہدایات دیں،خدا کی آخری کتاب ، دین کامل،حقوق انسانی کے تحفظ میں اقوام متحدہ کی قرارداد ،اسلامی قوانین ،انسانی برابری ،اسلام میں تعصب نہیں ،انسان قابل احترام ہے،مذہب کی آزادی، ہر قوم کے لیے پرسنل لا کی حفاظت ،رہنمایان مذاھب اور معابد کی حفاظت ،عدل واحسان سب کے لیے ،معاش اور حوایٔج زندگی سب کا‌حق ہے ،نفسانی بیماریوں کا خاتمہ ،انسانی اقدار اعلی ،گھریلو امن معاشرتی امن اورخیر امت جیسی شہ سرخیوں کے ضمن میں قرآن وحدیث کی روشنی میں مختصر مگر جامع اور دل نشیں انداز میں جس طرح عنوانات کا حق ادا کیا ہے وہ لائق ستائش بھی ہے اور آپ کے ادیبانہ طرز واسلوب پر ثبوت بھی ۔فاضل مصنف نے ”اسلام اور امن عالم “میں بنیادی طور:
(۱)اسلام میں انسانی عظمت کا تصور (۲)اسلام اور نظام عدل ومساوات (۳)اسلامی جہاد اور اس کا مقصد
(۴)اسلامی سزائیںامن عالم کی ضامن ہیں (۵)اسلامی انقلاب امن اور مصائب رسول
کے عنوانات سے پانچ ابواب باندھے ہیں اور ہر باب کی ذیلی سرخیاں باپ کے شروع میں ذکر کر دی ہیں تاکہ قاری کو اپنے پسند کا موضوع تلاش کرنے اور پڑھنے میں دشواری نہ ہو ہر باب کے آخر میں آیات ،احادیث اور احوال واقعات کے حوالوں کے اندراج کے التزام نے کتاب کی وقعت و اہمیت میں چار چاند لگا دیے ہیں ۔علامہ بدر القادری ایک عظیم مصنف ،صاحب طرز ادیب اور بلند فکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک متبحر عالم دین تھے لیکن اس تبحر علمی کے باوجود تواضع اور انکسار آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ ایک اہم اور علمی موضوع پر اپنی ضخیم کتاب ”اسلام اور امن عالم“ کی وجہ تصنیف میں لکھتے ہیں:
”موضوع کی اہمیت جس طرح علمی گیرایئ کی متمنی ہےمیں اگر اس کا خیال کرتا تو یہ حقیقت ہے کہ میری کم مائیگی مجھے یہ اقدام نہ کرنے دیتی اور محرومی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ جہاں بیٹھ کر سپرد قلم کیا جا رہا ہے وہاں نہ علما کا حلقہ ہے نہ اساتذہ کی بزم ،کتابوں کا ذخیرہ ہے نہ اسلامی لائبریریاں،ممالک عرب ، ہندوستان،انگلینڈ اور ناروے کے سفروں میں لائبریریوں، اور کتب خانوں سے جو کچھ ماخذ جمع کرکے لایا تھا انھیں کو ترتیب دے دیا ہے،دی ہیگ میں مبلغ اسلام مولانا سید سعادت علی قادری بانی القادری اسلامک سنٹر کے کتب خانے سے بھی استفادہ کیا جس کے لیے میں محترم کا شکر گزار ہوں۔نثر و نظم میں اپنی تمام تحریروں کی طرح”اسلام اور امن عالم“بھی اہل علم و فضل کی خدمت میں برایٔے اصلاح پیش کرتا ہوں کسی خامی پر مطلع ہوں تو برائے کرم آگاہ فرمائیں “۔
( اسلام اور امن عالم،ص:٣٣)
موجودہ دور میں اس کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ علما،طلبہ،عوام اور خواص سب کو اس کے پڑھنے کی طرف راغب کیا جائے تاکہ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب بنا کر پیش کرنے والوں کو دندان شکن جواب بھی دیا جا سکے اور غیروں کو اسلام کے محاسن، اور اس کے دامن سے وابستہ امن و آشتی کی دل کش تعلیمات سے بھی روشناس کرایا جاسکے۔

محدث اعظم پاکستان کے ایمان افروز ملفوظات

محدثِ اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا محمد سردار احمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے علماء و طلباء کے لئے ایمان افروز ملفوظات

1- بیان ٹھوس کریں، جو مسئلہ بیان کریں اس کا ثبوت تحقیقاً یا الزاماً آپ کے پاس ہو۔

2- آپ ہوں اور کتابوں کا مطالعہ.

3- جس قدر علم میں توجہ کریں گے اتنا ہی ترقی و عروج حاصل کریں گے۔

4- آپ دین کے مبلغ اور ترجمان ہیں، آپ کا کردار بےداغ ہونا چاہیے۔

5- علم اور علماء کے وقار کو ہمیشہ مدنظر رکھیں، کوئی ایسا کام نہ کریں کہ علماء کا وقار مجروح ہو۔

6- علمِ دین کو دنیا حاصل کرنے کا ذریعہ ہرگز نہ بنائیں، اگر بنایا تو نقصان اُٹھائیں گے۔

7- علمائےکرام ہمیشہ لباس اُجلا اور عمدہ و اعلٰی پہنیں، نیز اس کی شرعی حیثیت کا خیال بھی ضروری ہے۔

8- عمدہ جوتا استعمال کریں تاکہ دنیا داروں کی نگاہ عالم کے جوتوں پر رہے.

9- نمازیوں سے اخلاق سے پیش آئیں، جو سنی دھوکے میں ہیں، ان کی اصلاح جاری رکھیں۔

10- دنیاداروں سے بےتکلفانہ روابط قائم نہ کریں۔

11- حدیثِ پاک کی 380 کتب ہیں، آج کل ساری کتبِ احادیث ملتی بھی نہیں، لہٰذا جب کبھی تم سے کوئی کسی حدیث کے بارے میں سوال کرے تو یہ مت کہو کہ یہ حدیث کسی کتاب میں نہیں، بلکہ یوں کہو کہ یہ حدیث میرے علم میں نہیں ہے یا میں نے نہیں پڑھی۔

12- قرآن وحدیث اور کتبِ دینی کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہاں پڑی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہاں رکھی ہیں۔

13- بےضرورت بازار نہ جائیں اور نہ کسی دکان پر بیٹھیں۔

14- دین کی خدمت دین کے لئے کریں، لالچ نہ کریں۔ ایک جگہ سے خدمت کم ہوگی تو دوسری جگہ سے کسر پوری ہو جائیگی۔

15- پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا اتنا ذکر کریں کہ لوگ آپ کو دیوانہ تصور کریں۔

16- سنی بمنزلہ ایک چراغ کے ہے، جتنے سنیوں کا اجتماع ہوگا، اتنے چراغ زیادہ ہوں گے اور ان کی روشنی و خیر و برکت عام ہو گی۔

17- (ایک مرتبہ ایک صاحب سے فرمایا) میں اپنوں سے الجھ کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا، اتنا وقت تبلیغ اور بدمذہبوں کی تردید میں صرف کروں گا۔

18- (آخری ایّام میں حضرت مخدوم پیر سید محمد معصوم شاہ نوری رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا) شاہ صاحب! میری دو باتوں کے گواہ رہنا :
ایک یہ کہ میں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کا مرید اور غلام ہوں۔
دوسرا یہ کہ اس فقیر نے عمر بھر کسی بےدین سے مصافحہ نہیں کیا۔

19- دنیا کا مال و دولت خاک سے پیدا ہوا اور علم دین کی دولت سینہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اُس دولت سے بہتر کون سی دولت ہو سکتی ہے جو سینہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیدا ہو۔

(فیضان محدث اعظم )

یااللہ عزوجل حضور محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے وسیلے ہمیں بھی نور علم نصیب فرما اور عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عظیم دولت عطا فرما۔
آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم۔

کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنا کیسا؟

#کرکٹ میچ کی کامیابی کیلئے دعا کرنا کیسا

الاستفتاء کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ فی زمانہ مروجہ انٹرنیشنل کرکٹ میچز میں قومی ٹیم کی کامیابی کے لئے دعا کرنا کیسا ہے؟ خاص طور پر ورلڈ کپ اور T-20 سیریز وغیرہ جسمیں فتح حاصل کرنے کے لئے ہمارے ملک کی عزت اور وقار بھی بڑھتا ہے؟
[سائلِ: ریحان احمد،کراچی]

بسم ﷲ الرحمن الرحیم
الجواب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

رسول پاکﷺ نے دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے
عن انس بن مالک رضی ﷲ عنہ،عن النبیﷺ قال الدعاء مخ العبادۃ حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا دعا عبادت کا مغز ہے.
[سنن الترمذی،ابواب الدعوات،باب ما جاء فی فضل الدعائ، رقم الحدیث 3371]

یہ اہم کام جائز کاموں کے لئے جائز و مستحسن بلکہ حکم قرآنی ہے اور ناجائز کاموں کے لئے ناجائز وسخت حرام۔فی زمانہ رائج کرکٹ میچ بہت ساری غیر شرعی قباحتوںکا مجموعہ بن چکا ہے لہذا اس کے لئے دعا کرنا سخت ناجائز ہے۔ہمیں تعجب ہے کہ یہ پوچھا گیا کہ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنا کیسا ہے۔فی الحقیقت سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنے میں کیا کیا نحوستیں اور وبال ہیں؟
اولا…مروجہ کرکٹ میچ محرمات کا مجموعہ ہے۔ٹی وی پر کوئی بھی کرکٹ میچ دیکھنا،بدنگاہی اور حرام دیکھے بغیر ممکن نہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ٹی وی اسکرین پر بار بار کرکٹ میچ دیکھنے والے اور دیکھنے والیاں اپنی آنکھوں کو حرام سے بھرتے ہیں اور جہنم میں جانے کا سامان کرتے ہیں کیونکہ شریعت مطہرہ میں نامحرم کو دیکھنا سخت گناہ ہے۔صرف ضرورت شرعیہ کے وقت پہلی نگاہ کی اجازت ہے ورنہ شدید ممانعت ہے کہ ﷲ رب العزت نے واضح طور پر قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔
مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بے شک ﷲ کو انکے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں
[پارہ 18،سورہ نور،آیت31]

حدیث پاک میں ہے: لعن ﷲ الناظر والمنظور الیہ
ﷲ لعنت کرے (بلا ضرورت) اجنبی عورت کو دیکھنے والے پر اور اس (عورت) پر جو (بلا ضرورت اپنے آپ کو اجنبی مرد پر ظاہر کرتے ہوئے) دیکھی جائے
[سنن الکبریٰ للبیہقی،کتاب النکاح، باب ماجاء فی الرجل بنظر الی عورۃ الرجل…الخ،رقم الحدیث 13566]

ایمان سے کہئے! کیا کرکٹ میچ دیکھنے کے دوران ان قرآنی آیات اور احادیث پر عمل ہوسکتا ہے؟ کھیل کے دوران کیمرہ مین کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ تماشائیوں میں دیدہ زیب،زرق برق،چست اور کم لباس خواتین کو تلاش کرکے دکھلائے،بلکہ یہی نہیں اب تو شرم وحیاء کا جنازہ ہی اٹھ گیا کہ بعض میچوں میں ہر چوکے اور چھکے کے بعد بائونڈری لائن پر چیر لیڈرز کے نام سے نیم برہنہ خواتین رقص کرتی ہیں اور یہ حرام فعل پورے میچ کے دوران جاری رہتا ہے اور ٹی وی اسکرین پر دکھایا جاتا رہتا ہے۔گویا حرام کے دلدادہ اور ﷲ رب جل جلالہ کے قہر کو دعوت دینے والے ایک تیر میںدو شکار کے خواہش مند ہیں۔

کرکٹ بھی دیکھیں اور رقص کی محفل بھی،الامان الحفیظ اسی پر بس نہیں،یہی کرکٹ میچ اگر بیرونی ممالک میں ہو مثلا آسٹریلیا،نیوزی لینڈ، سائوتھ افریقہ،تو وہاں کے مادر پدر آزادی کے متوالے سارے ننگے ایک ہی حمام میں ہونے کا منظر پیش کرتے ہوئے سن باتھ کے نام پر مرد و عورت فقط شرم گاہ کوچھپاکر لیٹے رہتے ہیں اور ٹی وی اسکرین پر یہ واہیات مناظر بار بار بلکہ خصوصاً دکھائے جاتے ہیں۔
کیا خوب قیامت کا ہے کوئی دن اور ہے
جو کمی رہ جاتی ہے وہ میچ کے دوران چلتے ہوئے اشتہارات کے ذریعے پوری کردی جاتی ہے۔ موبائل کا اشتہار ہو خواہ کھانے پینے کا حتیٰ کہ مردانہ ملبوسات کے اشتہار میں بھی نیم برہنہ،چست لباس اور جسم کی نمائش کرنے والی خواتین جزولاینفک ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ میچ دکھانے والے کرکٹ میچ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بے حیاء بنانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہتے۔ہمیں حیرت ہے ان مسلمانوں پر جو اپنی ماں، بہن اور بیٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ تماشا دیکھتے ہیں پھر پوچھتے ہیں مولانا صاحب! آج کون جیتے گا؟ دعا کرنا کیسا ہے؟
العیاذ باﷲ تعالیٰ من ذلک

ثانیا…کرکٹ میچ کے دوران اذانوں کی حرمت اور ادب کا لحاظ قطعاً نہیں رکھا جاتا۔اکثر اذانوں کے دوران گانے باجے بج رہے ہوتے ہیں اور تماشائی اپنے شوروغل میں مصروف ہوتے ہیں۔موذن حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی کیف آور اور نجات دہندہ صدائیں دے رہا ہوتا ہےمگر گرائونڈ میں موجود غفلت کا مارا تماشائی اور لالچ کاشیدا کھلاڑی تو اپنی زیست کا کیف اور نجات کا راستہ کرکٹ ہی کو سمجھ بیٹھا ہے۔تو بھلا کیوں صلوٰۃ وفلاح پر لبیک کہے گا؟ حالانکہ اذان کی بے ادبی تو ایمان کے صلب کی وجہ بن سکتی ہے۔مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمتہ ﷲ القوی نقل کرتے ہیں جو اذان کے وقت باتوں میں مشغول رہے،اس پر معاذ ﷲ عزوجل خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے-
[بہار شریعت،جلد 1،حصہ 3، اذان کا بیان]

آپ کا سوال تھا کہ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنا کیسا ہے،
ہمارا سوال ہے کیا ان نماز بھلانے والوں کے لئے بھی دعا کرو گے؟ جس کھیل میں برہنگی، رقص، گانے اور باجے ہیں۔
کیا اس کے لئے دعا کروگے؟
ثالثا…کچھ بعید نہیں کہ کوئی سخت دل یہ بھی کہہ دے کہ ہم صرف کمنٹری سنتے ہیں،جب کوئی ایسا منظر آتا ہے تو ہم آنکھیں بند کرلیتے ہیںتو جواباً گزارش ہے کہ کس تماشے کی کمنٹری سنتے ہیں جسمیں علی الاعلان،اجتماعی طور پر نمازوں کو قضا کیا جاتا ہے۔وہ نماز جسے مومن اور کافر کا فرق قرار دیا گیا جیسا کہ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا-

عن جابر ان النبیﷺ  قال بین الکفر والایمان ترک الصلاۃ
کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے-
[سنن الترمذی،ابواب الایمان، عن رسول ﷲﷺ باب ما جاء فی ترک الصلوٰۃ رقم الحدیث 2523]

اب مسلمانوں میں یہ نماز ناپید ہے۔کھلاڑی اور تماشائی سب نمازیں قضاء کرکے اجتماعی طور پر رب کی نافرمانی کرتے ہیں۔دشمنان اسلام بھی خوب خوش ہوتے ہوں گے کہ مسلمانوں کو ٹھیک کام سے لگایا ہے کہ مسجدیں ویران اور اسٹیڈیم آباد،اذانوں کا ادب نہ نمازوں کی پرواہ، ٹھیک ہی کہا ہے کسی نے۔
کیا ہنستی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
فعل بد خود ہی کریں، لعنت کریں شیطان پر
رابعاً…مروجہ کرکٹ میچ عوام کو دھوکا دینے کا نام ہے۔ ابتداء سے ہنوز ہر سال بڑے بڑے کھلاڑی، اداروں اور کاروباری حضرات کے سٹہ بازی میں ملوث ہونے اور سزا پانے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ کوئی ملک بھی کرکٹ پر سٹہ لگانے والوں اور کھلاڑیوں کے خریدنے والوں سے خالی نہیں۔ عوام یہ سمجھتی ہے کہ جیت سے ملک کا نام روشن ہوگا جبکہ ان کی امیدوں کا مرکز ہار کے لئے بک چکا ہوتا ہے۔ بعض ملکوں میں اسے قانونی شکل دی جاچکی ہے۔ کیا جوا اور سٹہ کھیلنے والوں کے لئے دعا کی جاتی ہے؟دعا تو ان کی ہدایت کی ہونی چاہئے نہ کہ ان کے حرام کام میں جیت کی!
خامساً…کرکٹ میچ کے نام پر اپنی زندگی کے نہایت قیمتی اوقات کو بے دریغ ضائع کیاجاتا ہے۔ قرآن تو کہے بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ایمان اور نیک اعمال والوں کے مگر کرکٹ میچ دیکھنے اور کھیلنے والے اس خسارے کی فکر اور نیک اعمال سے یکسر غافل نظر آتے ہیں۔جو لوگ ون ڈے میچ کی خاطر بلا مبالغہ سات سے آٹھ گھنٹے ضائع کردیتے ہیں۔انہی لوگوں کو تراویح میں ایک گھنٹہ قرآن سننا بھی گراں محسوس ہوتا ہے۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے والوں نے تصور نہیں کیا۔یہ ڈریں اس دن سے جب نامہ اعمال ان کے سامنے ہوگا اور کہا جائے گا… اقراء کتٰبک، کفی بنفسک الیوم علیک حسیباً… اپنا نامہ پڑھ آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے
[پارہ 15،سورہ بنی اسرائیل،آیت 14]

اس دن ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اپنے ملک سے کھیلتے ہوئے کتنے رنز بنائے، کتنے چوکے لگائے،کتنے کھلاڑی آئوٹ کئے،کس ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا اور کس نے ایشیا کپ بلکہ قیامت کے دن کوئی شخص اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکے گا جب تک پانچ سوالوں کا جواب نہ دے دے۔
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا بروز قیامت ابن آدم اپنے رب کی بارگاہ سے قدم نہ ہٹا سکے گا حتی کہ پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے
(1) اپنی عمر کن کاموں میں گزاری؟
(2) اپنی جوانی کس کام میں گزاری؟
(3) مال کہاں سے کمایا؟
(4) اور کہاں خرچ کیا؟
(5) جو علم سیکھا اس پر کہاں تک عمل کیا؟
[سنن الترمذی،ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق،باب القیامۃ،رقم الحدیث 2416]

آپ کا کیا جواب ہوگا؟ کرکٹ دیکھ کر اور اس کے لئے دعا کرتے ہوئے جوانی گزاری۔نہیں نہیں۔اس تماشے کے دیکھنے سے بھی توبہ کریں،کیا خبر یہ تماشا دیکھتے دیکھتے موت آجائے تو رب کو کیا منہ دکھائو گے کیونکہ جو حرام دیکھتے یا کرتے ہوئے فوت ہوجائے،کل بروز قیامت اسی حال میں اٹھے گا۔
قال رسول ﷲ من مات علی شیٔ بعثہ ﷲ علیہ رسول ﷲﷺ نے ارشاد فرمایا جو جس حال میں مرے گا ﷲ تعالیٰ اسی حال پر اسے اٹھائے گا
[مسند الامام احمد بن حنبل،مسند جابر بن عبدﷲ رضی ﷲ عنہ،رقم الحدیث14372]

دعا کا مقصد تو دنیا اور آخرت کی کامیابی،مشکلات کا حل، دنیا اور آخرت کے معاملات میں آسانی ہوتی ہے۔ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنے میں آپ کو حاصل کیا ہوگا؟آپ کو نہ دنیا کا فائدہ نہ آخرت کا فائدہ؟ یہ تو محض اور محض لایعنی کام ہے۔حدیث پاک میں ہے:
ان من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ
بے شک بندے کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے فائدہ کاموں کو ترک کردے
[سنن الترمذی، ابواب الزہد رقم الحدیث 2318]

ان پانچ اہم باتوں کے بعد مزید کسی چیز کی حاجت نہ رہی کہ عقل مند را اشارہ کافی است، مگر خواجہ خواجگان کی چھٹی (6 رجب المرجب، سالانہ عرس) کی نسبت سے چھٹی اورآخری بات۔
سادساً… بالفرض آپ کہیں گے کہ اس کھیل سے ملک و قوم کی بقاء اور اس کا نام و شہرت ہے تو ہم آپ کو امیر المومنین، خلیفہ ثانی، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کاارشاد یاد دلاتے ہیں۔حضرت عمر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں-
ان کنا اذل قوم فاعزنا ﷲ بالاسالم فمہما نطلب العزۃ بغیر ما اعزنا ﷲ بہ اذلنا ﷲ بے شک ہم اقوام میں سب سے کم تر تھے تو اﷲ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشی تو جب ہم اسلام سے ہٹ کر کسی چیز کے ذریعے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو ﷲ ہمیں ذلیل کردے گا۔

نیز کرکٹ سے ملک کی ترقی کا تصور بس خام خیالی ہے۔ کھلاڑیوں نے کئی فتوحات حاصل کی ہوں گی اس سے ملک میں کتنی غربت کم ہوئی؟ کتنے بے روزگاروں کو روزگار مل گیا؟ کتنا امن و سکون حاصل ہوگیا؟ اگر ملا تو صرف دکھاوے کا پیالہ یعنی ورلڈ کپ کیا ملک معاشی اور معاشرتی طور پر مستحکم ہوگیا؟ کیا قتل وغارت گری ہی ختم ہوگئی؟ نہیں، کچھ بھی تو نہیں ملا…ہاں! گیا بہت کچھ، بنگلہ دیش جدا ہوگیا۔ لسانی تعصب کے سبب امن واخوت ختم ہوگیا،ملک و قوم قرض کے بار تلے دب گئے، بار بار امداد کے سوال نے ہمیں
دنیا کی نظر میں بھکاری بنادیا۔کشمیر کی افسردہ صورتحال کی مثال ہی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کیا کم ہے؟ تو ایسی جیت کس کام کی جس میں صرف ایک پیالہ جیت کر باقی سب کچھ ہار جائو۔ یہ جیت ہماری نہیں بلکہ شیطان مکار کی ہے۔حقیقی فتح اور کامیابی صرف اور صرف ﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ومن یطع ﷲ ورسولہ فقد فاز فوزاً عظیماً
اور جو ﷲ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی
[پارہ 22،سورہ احزاب،آیت71]

اے میرے بھائی! دعا مانگنی ہے تو اپنے والدین کے لئے مانگ، اپنی ہدایت کے لئے مانگ،ایمان پر ثابت قدمی اور اس پر خاتمے کی مانگ،اپنے الفاظ اور دعائوں کو کرکٹ میچ کے نام پر کیوں ضائع کرتا ہے؟ ضائع ہی نہیں بلکہ کرکٹ میچ دیکھ کر لعنتوں اور نحوستوں کو پاکر کیوں رب کی رحمت سے دور ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق ودقائق کو محبت کی آنکھ سے پڑھ پھر دل کے کانوں سے سن، تو یہی خلاصہ نکلے گا کہ کرکٹ میچ کے لئے دعا کرنا،ناجائز اور سخت حرام ہے اور ہر مسلمان کو اس سے بچنا چاہئے۔ﷲ پاک ہمیں نیک عمل کی توفیق دے اور ہر برا،ناجائز اور حرام فعل کرنے،دیکھنے اور پسند کرنے سے محفوظ فرمائے۔آمین

▪️ نوٹ / تنبیہ🚫: یہ حکم ہم نے سوال کے مطابق تحریر کیا ہے۔اگر کوئی شخص شریعت کے احکامات کا لحاظ کرتے ہوئے روزانہ یا ہفتہ واری ورزش کے طور پر کچھ دیر کرکٹ کھیلے تو جائز ومباح ہے جیسا کہ مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں۔یعنی ہر وہ شے جس سے مسلمان غفلت میں پڑجائے،باطل ہے مگر کمان سے تیر اندازی کرنا،اپنے گھوڑے کو سکھانا اور اپنی بیوی سے ملاعبت (کھیل کود) یہ تین کام حق ہیں،حدیث میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ مسلمان کی زندگی لہو لعب کی لئے نہیں ہے۔لہذا تندرستی کے لئے ٹہلنا یا ورزش کے لئے تھوڑا کھیلنا تو جائز ہے…
[الخ وقار الفتاویٰ،متفرقات،ص436]
البتہ دعا اس کے لئے بھی نامناسب ہے۔دعا کرے گا تو اپنی صحت کی نہ کہ صحت دینے والے کھیل کی جیت!
وﷲ تعالیٰ اعلم
[ماہنامہ تحفظ جولائی 1, 2014]

رویتِ ہلال، احمد القادری مصباحی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ،
رویت ہلال

آج مؤرخہ ۲۶؍ذی الحجہ ۱۴۱۷ ھ، مطابق ۴؍اپریل ۱۹۹۷ ء بروز اتوار ،اردو ٹائمز کا ۲۳؍ذی الحجہ ۱۴۱۷ ھ یکم ؍مئی ۱۹۹۷ ء جمعرات کا شمارہ نظر سے گزرا۔اس میں اہل علم سے رویت ہلال کے مسئلے پر لکھنے کی اپیل کی گئی ہے۔یہ نہایت اچھا اقدام ہے۔مسلمان اپنے شرعی مسائل سے واقفیت رکھیں اور مذہبی مسائل خود اپنے مذہب وشرع کے مطابق حل کرنے کی کوشش کریں۔ادارہ اردو ٹائمز کی فرمائش پر ذیل کا مضمون زیب قرطاس کیا گیا ہے۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃَ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجْ
(سورہ بقرہ آیت ۱۸۹)
اے محبوب آپ سے نئے چاند کے بارے میں لوگ پوچھتے ہیں،آپ فرما دیجئے وہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ہیں۔
ہلال: لغت میں نئے چاند،اور اصطلاح میں پہلی رات کے چاند کو ہلال کہتے ہیں۔چودہویں رات کے چاند کو بدر اور ان کے علاوہ مطلقاً چاند کو قمر کہتے ہیں۔
نماز کے علاوہ اسلام کی دیگر عبادتیں چاند سے متعلق ہیں۔حج ،زکوٰۃ،روزئہ رمضان،عید الفطر،عید الاضحی،محرم،عید میلاد النبی ﷺ،سارے مبارک دن ،ساری مبارک راتیں،تمام اسلامی تہوار،عشر،صدقۂ فطر،بیوہ اور مطلقہ عورتوں کی عدت،بچوں کو دودھ پلانے کی مدت(ایام رضاعت) غرض کہ مسلمانوں کے بے شمار مسائل چاند سے وابستہ ہیں۔
چاند ایک آسمانی جنتری ہے۔اسے دیکھ کر ہر پڑھا ،لکھا اور اَن پڑھ تاریخ کا پتہ لگا سکتا ہے۔چاند کے پیدا کرنے والے رب نے خود چاند کو حج اور دیگر کاموں کی تاریخیں حاصل کرنے کی علامت قرار دیا۔ اس سے قمری مہینے اور اس کی تاریخ کی اہمیت و افضلیت واضح ہوجاتی ہے۔مندرجہ بالا بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ کثیر اسلامی امور کا دارومدار رویت ہلال پر ہے۔لہٰذا اب احادیث وفقہ کی روشنی میں اس کے ثبوت کے طریقے ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث ۱۔عن ابن عمر قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول اذا رأیتموہ فصوموا واذا ر أیتموہ فافطرو فان غم علیکم فا قدرو لہ (لھلال رمضان)
(بخاری شریف ،کتاب الصوم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا،جب تم رمضان کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا شروع کرو اور جب(شوال کاچاند) دیکھو،تو افطار کرو(یعنی عید الفطر کرو) اگر مطلع (غبار یا) ابر آلود ہو تو اس کا حساب لگالو، یعنی تیس دن مکمل کر لو۔
سر کار دوجہاں ﷺ کی اس حدیث پاک سے صاف واضح ہو گیا کہ چاند دیکھ کر رمضان کا روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ کر ہی عید منائی جائے۔کسی وجہ سے چاند نظر نہ آسکے، تو تیس دن کی گنتی پوری کر کے (یعنی تیس روزے مکمل کرکے) عید منائی جائے۔
حدیث ۲۔قول النبیﷺ اذا رأ یتم الھلال فصومو واذارأیتوہ فا فطرو وقال صلۃ عن عمار من صام یوم الشک فقد عصی ابا القاسمﷺ۔ (بخاری ،کتاب الصوم)
ارشاد نبی کریم ﷺ ہے۔چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔
حضرت صلہ،حضرت عمار سے روایت کرتے ہیں۔جس نے شک کے دن روزہ رکھا ،اس نے ابو القاسم(ﷺ) کی نافرمانی کی۔
اس حدیث پاک سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ چاند دیکھے یا اس کے ثبوت کے بغیر کسی نے روزہ جیسی اہم عبادت ادا کی، تو ناجائز کام کیا۔بلکہ اس کو شک ہو کہ شاید چاند ہو چکا ہو،بادل کی وجہ سے ہمیں نظر نہ آسکا، یا ہو سکتا ہے ان مقام پر چاند نظر آگیا ہو اور اس تک شہادت نہ پہونچ سکی۔لہٰذا اس شبہ کی بنیاد پر اِس نیت سے روزہ رکھ لیا ،کہ آج اگر رمضان ہو تو اس کی طرف سے یہ روزہ ہو جائے گا۔اس نے گناہ کیا اور نبی کریم ﷺ کی نا فرمانی کی۔
حدیث۳۔عن عبد اللہ بن عمر ان رسول اللہ ﷺ ذکر رمضان فقال لا تصومو احتیٰ تروالھلال ولا تفطروا حتیٰ تروہ فان غم علیکم فا قدرولہ۔(بخاری،کتاب الصوم)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر فرمایا تو کہا،جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو۔اور نہ ہی افطار (عید الفطر) کرو۔یہاں تک کہ چاند دیکھ لو ،اگر مطلع ابر آلود ہو تو حساب کر لو۔’’یعنی تیس دن پورے کرو‘‘۔
اس حدیث سے بھی چاند دیکھنے پر ہی رمضان و عید کا دارومدار رکھا گیا۔یہ ارشاد نہیں ہوا کہ اگر انتیس کا چاند نظر نہ آسکے تو اِدھراُ دھربھاگ دوڑ کر کے چاند کا پتہ لگائو ۔تمہارے شہر میں بادل ہے،شاید دوسرے شہر میں مطلع صاف ہو،وہاں کے لوگوں نے دیکھا ہو۔وہاں فوراً گھوڑے دوڑائو،اور کہیں نہ کہیں سے چاند ضرور تلاش کر کے لائو۔ان سب تکلفات کا ہم کو مکلف نہیں بنایا گیا،بلکہ سیدھا سادہ ،آسان سانسخہ عطا ہوا۔تیس دن کی گنتی پوری کرلو۔فقط۔
اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرْ۔(رواہ البخاری)
بیشک دین آسان ہے۔
یُرِیْدُ ﷲ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔(قرآن کریم)
اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ سختی نہیںچاہتا۔
جب اللہ و رسول( ﷺ) ہمارے لئے آسانی فراہم کرتے ہیں کہ تم چاند دیکھو تو روزہ ،عید کرو، نہ دیکھو تو مت کرو۔ یہ ہمارے اوپر فرض نہیں کیا گیا کہ دنیا بھر کے لوگ یا ملک بھر،اور تمام شہر کے لوگ ایک ہی دن عید کریں۔تو پھر کیوں لوگ عید کے چاند کے لئے پریشان ہو کر بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ٹیلیفون،ریڈیو کا سہارا لے کر بے چاند دیکھے خواہ مخواہ عید کرنے کے لئے خود پریشان ہوتے ہیں۔اور ملت مسلمہ کو پریشان کرتے اور اختلاف میں ڈالتے ہیں۔
حدیث ۴ ۔ان رسول اللہ ﷺ قال الشھرتسع و عشرون لیلۃفلا تصوموا حتیٰ تر وہ فان غم علیکم فاکملوا العدۃ ثلاثین۔(بخاری )
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،مہینہ (بسا اوقات) انتیس راتوں کا ہوتا ہے،اس لئے جب تک چاند نہ دیکھ لو، روزہ نہ رکھواور جب تک چاند نظر نہ آئے روزہ نہ افطار کرو(عید الفطر نہ کرو) اگر بادل چھائے ہوئے ہوں تو تیس دن پورے کرو۔
حدیث ۵۔عن ابی ھریرۃ قال ابو القاسمﷺ صومو الرویتہ و افطرو لرو یتہ فان غبی علیکم فاکملو عدۃ ثلثین۔(بخاری ، جلد اول)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضرت ابو القاسم ﷺ نے ارشاد فرمایا ،چاند دیکھ کر روزہ رکھو،اور چاند دیکھ کر روزہ افطار کرو،اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس دن پورے کرو۔
مندرجہ بالا احادیث کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ اسلامی مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا۔اور اس گنتی کا اعتبار رویت ہلال (چاند کے دیکھنے)پر ہے۔چاند کے ہونے، یا چاند کی پیدائش پر نہیں۔ہر حدیث میں بادل کے بار بار ذکر سے یہ ثبوت فراہم ہوجاتا ہے کہ اگر چہ بادل کے اوپر چاند نکلا ہو مگر زمین پر بسنے والے مسلمانوں نے، بادل کے نیچے سے چاند نہیں دیکھا، تو مہینہ تیس دن مانا جائے گا۔
حدیث پاک میں چاند کے ہونے نہ ہونے سے بحث نہیں،محض چاند دیکھنے سے بحث ہے۔اور اسی سے ثبوت رویت ہوتا ہے۔
حدیث ۶۔ عن ابی زفر قال کنا عند عمار بن یا سر فاتی کشادہ مصلیۃ فقال کلو فتخی بعض القوم فقال انی صائم فقال عمار ومن صام الیوم الذی شک فیہ فقد عصی ابا القاسم(ﷺ)وفی الباب عن ابی ھریرۃ وانس رضی اللہ تعالٰی عنھما ۔
ابن زفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں(تیس شعبان کو) ہم حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی۔انھوں نے فرمایا’’کھائو ‘‘ایک شخص علحدہ ہو گیا اور کہنے لگا میں روزہ دار ہوں۔حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا،جس نے شک کے دن روزہ رکھا اس نے ابو القاسم ﷺ کی نا فرمانی کی۔
اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی روایت ہے۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، سرکار دو عالمﷺ نے ان کو اپنے اہل بیت میں شامل فرمالیا تھا۔ان کے پاس تیس شعبان کو بہت سے لوگ جمع تھے۔بھنی ہوئی ایک بکری پیش ہوئی ،حضرت عمار بن یاسررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب کو کھانے کی دعوت دی،سب کھانے پر حاضر ہوئے مگر ایک شخص علحدہ ہو گیا اور کہنے لگا میں روزہ دار ہوں۔تو حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سرکار دو جہاں ﷺ کا نا فرمان ٹھہرایا۔اور ایسا روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی۔
مذکورہ بالا حدیث، بخاری،ترمذی،مشکوٰۃ وغیرہ حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی موجود ہیں۔آج بہت سے لوگ چاند دیکھے بغیر تیس شعبان کو روزہ رکھ کر اپنا تقوی جتاتے ہیں، کہ احتیاطاً روزہ رکھ لیا ہے۔اور انھیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ نبی کریم ﷺ کا فتوی اس کے برخلاف ہے۔
حدیث۷۔ ابو عیسیٰ حدیث عمار حدیث حسن صحیح والعمل علی ھذا عند اکثر اھل العلم من اصحاب النبی ﷺ ومن بعد ھم من التابعین وبہ یقول سفیان الثوری ومالک ابن انس وعبد اللہ ابن مبارک و الرجل الیوم الذی یشک فیہ ورأی اکثرھم ان صامہ و کان من شھر رمضان ان یقضی یو ماً مکانہ۔(ترمذی شریف ، جلد اول)
امام ترمذی فرماتے ہیں:۔حدیث عمار،حسن صحیح ہے۔اکثر صحابہ کرام اور تابعین کا اس پر عمل ہے۔(ائمہ مجتہدین میں سے) حضرت سفیان ثوری،حضرت امام مالک،حضرت عبد اللہ ابن مبارک(شاگرد امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ)،امام شافعی،امام احمد بن حنبل اور حضرت اسحق(رحمۃ اللہ علیہم) بھی اسی کے قائل ہیں ۔اکژ کی رائے ہے کہ اگر شک کے دن روزہ رکھا اور (بعد میں پتہ چلا کہ) وہ دن رمضان کا تھا تو پھر اس روزہ کی قضا کرے۔
اِن احادیث کریمہ سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ شریعت مطہرہ میں، رمضان و عید وغیرہ سارے اسلامی مہینوں کی ابتدا کادارومدار، رویتِ ہلال( چاند دیکھنے) پر ہے۔ ثبوتِ رویت کے بغیر نہ رمضان کا روزہ رکھنا درست ہے نہ عید کرنانہ قربانی کرنا۔۲۹ ویں کو کسی سبب سے چاند نظر نہ آسکے تو نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق مہینہ تیس دن کا شمار کرلیاجائے۔ اگر پوری امت مسلمہ اپنے نبی کریم ،رؤف و رحیم ﷺ کے اِن ارشادات عالیہ پر متفق ہوجائیں ،اور شریعت مطہرہ پر مضبوطی سے گامزن ہوجائیں تو رمضان و عید وغیرہ کے موقع پہ رونما ہونے والے، آپسی اختلافات بڑی آسانی سے دور ہوسکتے ہیں۔
اللہ عزوجل ہمیں اور پوری امتِ مسلمہ کو شریعتِ مطہرہ پر دل وجان سے، خوشی خوشی، چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین، بجاہ حبیبہ سیدالمرسلین علیہ الصلوۃ والتسلیم ۔
احمد القادری رَضوی مصباحی
ڈیلاس ، ٹیکساس، امریکا

الاسلامی.نیٹ www.alislami.net

 

مبارکپور کی تاریخ، احمد القادری

بِسْمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
الحمد للّہ رب العلمین ، والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین ، وعلی الہ واصحابہ اجمعین ،
ممتاز العلما کا وطن مبارک پور

بتاریخ ۱۶ ؍ ذی الحجہ ۱۴۴۲ ھ مطابق ۲۶؍ جولائی ۲۰۲۱ ء بروز دوشنبہ ، محب محترم مولانا ارشاد احمد شیدا اعظمی کا انگلینڈ سے فون آیا، انھوں نے ممتاز العلما کی حیات وخدمات پر ایک کتاب شائع کرنے کی خوش خبری سنائی اور اس خاکسار کو منتخب عنوانا ت میں سے کسی عنوان پر لکھنے کی فرمائش کی۔
کل عنوانات چالیس تھے ، دوسرے نمبر پر یہ عنوان تھا۔۔۔۔ممتاز العلما کا وطن مبارک پور۔۔۔۔۔یہ عنوان منتخب ہوا۔ ۔۔ وباللہ التوفیق، نعم المولیٰ، ونعم النصیر۔

احمد القادری مصباحی

مبارک پور کا نام
وجہ تسمیہ: حضرت راجہ سید مبارک شاہ علیہ الرحمہ (متوفی ۲؍ شوال ۹۶۵ھ) مبارک پور کے بانی ہیں، ان کے نام پر اِس کا نام مبارک پور پڑا۔ جامع مسجد راجہ مبارک شاہ بھی انھیں کے نام پر ہے۔
عام معلومات
جائے وقوع: مبارک پور کا طول البلد(لانگی ٹیوڈ) ۸۳ درجہ ۱۸ دقیقہ شرقی اور عرض البلد(لاٹی ٹیوڈ) ۲۶ درجہ ۵ دقیقہ شمالی ہے۔
نگرپالیکا: مبارک پور
ڈاک خانہ: مبارک پور
تھانہ: مبارک پور
تحصیل: اعظم گڑھ
ریلوے اسٹیشن:سٹھیاؤں
ضلع : اعظم گڑھ
قریبی ایر پورٹ: گورکھپور، بنارس، لکھنؤ۔اعظم گڑھ ایر پورٹ کی تعمیرجاری ہے، مستقبل قریب میں کی افتتاح کی امید ہے۔
صوبہ: اتر پردیش
پن کوڈ: ۲۷۶۴۰۴
ملک: ہند ؍ ہندوستان؍ بھارت؍ انڈیا
آبادی:مبارکپور کی مجموعی آبادی ۲۰۱۱ میں ایک لاکھ نو ہزار ، پانچ سو، انتالیس (۱۰۹۵۳۹ ) افراد پر مشتمل تھی۔
رقبہ ؍ایریا: تقریبا ًدس (۱۰ء۳۱) اسکوائر کلو میٹر
بلندی: ۶۹میٹر (۲۲۶ فٹ)سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہے
زبان: مبارک پوری،اردو، ہندی،پوربی؍ بھوجپوری ۔
منطقۂ وقت؍ٹائم زون: ہند کا معیاری وقت،یو، ٹی، سی (یونیورسل، ٹائم، کورڈی نیٹیڈ، قدیم نام: گرینچ مین ٹائم زون) جی، ایم ،ٹی
ٹائم سے پانچ گھنٹے ۳۰ منٹ زائد ہے۔
مبارک پور کی چوحدی
اتر :گوجر پار وغیرہ
دکھن :لہرا، سٹھیاؤں
پورب: ابرہیم پور، وغیرہ
پچھم : سرائے مبارک وغیرہ ہے
مبارک پور کے محلے
مبارک پور میں چھوٹے بڑے کثیر محلے ہیں ، بچپن میں والدہ مرحومہ سے ۲۸ پُورے کا نام سنتے تھے، اب تو اور زیادہ ہوگئے ہیں جن کے نام دستیاب ہوگئے مرقوم ہیں۔
۱۔ پرانی بستی: پرانا مدرسہ، اشرفیہ مصباح العلوم یہیں پر تھا، یہیں پر حافظ ملت علیہ الرحمہ کی مستقل رہائش گاہ تھی۔ عزیز ملت حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب قبلہ دامت برکاتہم سربراہ اعلی جامعہ اشرفیہ کی رہائش گاہ کی سعادت بھی اسی محلہ کو حاصل ہے۔ اسی محلہ میں خواجہ محمد صالح کے نام پر،خواجہ تالاب (کھجوا) ہے، حافظ محمد ابراہیم متولی، رکن اشرفیہ مبارک پور، یہیں کے باشندہ تھے۔
۲۔پورہ خواجہ: خواجہ محمد صالح حاکم بنارس(دورجہاںگیری ) کے نام پر بناہے، ہمارے ممدوح حضرت ممتاز العلما علیہ الرحمہ کا دولت کدہ یہیں پر ہے۔ اس محلہ میں اشرفیہ کی شاخ ہے۔
۳۔پورہ خضر: اسی محلہ میں متصل قبرستان بن رہی باغ (بنری باغ) استاذ محترم حضرت بحرالعلوم مفتی عبد المنان علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث ،جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور،( ۱۳۴۴ھ وصال ۱۵؍محرم ۱۴۳۴ھ) کا مزار مبارک ہے۔
یہاں دوسرامشہورقبرستان سمودھی(شاہ محمودی)ہے،جہاں نوگزے( نو غازی) پیر بابا کا مزار ہے ، یہیںحضرت مولانا عبد الرؤف علیہ الرحمہ سابق نائب شیخ الحدیث، جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور، (ولادت ۱۹۱۲ء وصال۱۳؍شوال ۱۳۹۱ھ ۲؍دسمبر۱۹۷۱ء) اور حضرت مولانا قاری محمد یحییٰ علیہ الرحمہ، امام جامع مسجد راجہ مبارک شاہ ،و سابق ناظم، جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور ( ولادت ۸؍محرم ۱۳۴۳ھ ۹؍اگست ۱۹۲۴ء وصال۱۵؍ مئی ۱۹۹۶ء) کا مزار مبارک ہے۔
۴۔پورہ رانی: اسی محلے میں گولہ بازار کے پاس ، باغ فردوس( ۱۳۵۳ ھ) دارالعلوم اشرفیہ کی شاندار تین منزلہ بلڈنگ ہے۔یہاں مولاناقاری محمدیحیی صاحب علیہ الرحمہ اور استاذ محترم حافظ جمیل احمد صاحب مدظلہ سابق استاذِ حفظ جامعہ اشرفیہ کا دولت خانہ ہے۔
مدرسہ یتیم خانہ ، بھی اسی محلے میں ہے۔
۵۔پورہ دیوان: یہاں ہماراا ننہال، اور ہمارے استاذ مولانا اعجاز علیہ الرحمہ کا دولت خانہ ہے۔یہیں استاذ محترم حضرت مولانا محمد شفیع اعظمی علیہ الرحمہ سابق استاذ و ناظم اعلیٰ، جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور (۱۳۴۴ ھ وصال ۱۴۱۱ ھ ۱۹۹۱ ء) کا روضہ ہے۔
اسی محلہ میں اونچی تکیہ ہے ، جہاں استاذ محترم حافظ نثار احمد علیہ الرحمہ سابق استاذ، دارالعلوم اشرفیہ، مبارک پور، (وصال ۵؍ شوال ۱۴۳۹ ھ ۲۱؍ جون ۲۰۱۸ ء بروز جمعرات) کا روضہ ہے۔یہیںعائشہ تالاب (استلاؤ) بھی ہے۔
۶۔پورہ باغ: پورہ دیوان سے متصل پورہ باغ ہے۔
۷۔شاہ محمد پور: جلوس میلاد النبی ﷺ یہاں املی کے پاس، صحن میںہر سال تھوڑی دیرٹھہرتا ہے۔
۸۔ پورہ صوفی : صوفی بہادر کے نام پر تقریباً ۱۰۴۶ھ میں بنا ہے، پورہ صوفی اور حیدرآباد سے متصلکپورہ شاہ، دیوان کا باغ ہے۔
۹۔حیدرآباد:یہ قصبہ کے پچھم ہے ، یہاں روضہ شاہ کاپنجہ ہے، نواب اودھ کے زمانہ میں، چراغ علی شاہ نے بنوایا ہے۔ یہاں مدرسہ عزیزیہ ، حیدرآباد، مذہبی تعلیم گاہ ہے۔
۱۰۔سکٹھی: مبارک پور سے شمال مغرب میں زمینداروں کی پرانی آبادی ہے۔مدرسہ اسلامیہ اشرفیہ، یہاں کا مشہور دارالعلوم ہے
۱۱۔سرائے مبارک: سکٹھی کے آگے سرائے مبارک ہے ۔
۱۲۔مصطفی آباد: سرائے مبارک سے اتر ہے، حضرت شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ بھیروی علیہ الرحمہ کے خسر شیخ غلام رسول یہیں کے باشندہ تھے۔
۱۳۔پورہ دولھن: میرے استاذ حافظ نثارا حمد علیہ الرحمہ کا یہیں مکان تھا۔
۱۴۔کٹرہ: یہا ں حضرت سید سالا مسعود غازی علیہ الرحمہ کی نسبت سے، صحبت کے نام سے ،سالانہ ایک بڑا میلہ لگتا ہے۔حضرت مولانا ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی رکن جامعہ اشرفیہ (مقیم دہلی) کا یہ وطن ہے ۔
۱۵۔نئی بستی : یہ کٹرہ کے قریب علی نگر سے اتر نئی آبادی ہے۔
۱۶۔علی نگر: یہ پوری آبادی ، اہل سنت کی ہے۔ علی نگرکا قبرستان موسومہ اوسر یہیں پر ہے ۔ ممتاز العلما کے والد گرامی جناب حافظ عبد الحلیم علیہ الرحمہ(رکن دارالعلوم اشرفیہ) اور ان کے اہل خاندان کی قبریں اسی قبرستان میں ہیں۔ علی نگر کے پورب پوکھرا کے نام سے ایک پختہ تالاب ہے۔ اِسی سے متصل تھانہ (پولیس اسٹیشن)مبارک پور ہے، ۱۸۱۳ء میں یہاں تھانہ قائم ہوا، اس سے پہلے یہ محمد آباد تھانہ کے ماتحت تھا اور یہاں صرف پولیس چوکی ہوا کرتی تھی۔
۱۷۔املو: علی نگر کے پورب ،یہ مشہور آبادی ہے۔ مبارک پور کی قدیم آبادی میں اس کا شمار ہوتاہے
۱۸۔لوہیا: یہ املو سے پورب مشہور بستی ہے۔
۱۹۔چکیا: یہ املو سے دکھن ہے۔
۲۰۔نوادہ:سریاں اور رسول پور کے بیچ میں آباد ہے، یہاں اہل سنت کا مدرسہ سراج العلوم ہے۔
۲۱۔رسول پور: قصبہ کے شمال مشرق میں، سریا ں اور نوادہ سے تھوڑے فاصلہ پر ہے۔
۲۲۔سریاں: قصبہ کے شمال مشرق میں ہے،گورکھپور اور کچھار جانے والے قافلوں کے لئے یہاں کئی سرائیں تھیں ، جن میں مسافر ٹھہرتے تھے، بعد میں کثرت استعمال سے سریاں ہوگیا۔یہاں قدیم تاریخی یادگار ،ملک شدنی بابا کا مزار ہے۔
۲۳۔حسین آباد: قصبہ کے اتر ۱۵ منٹ کی مسافت پر ہے، دسویں ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ مطابق دسمبر ۱۹۳۹ء حسین آبا د کے شمال گوجر پار میں ہندو مسلم فساد ہواتھا، جس میں قصبہ کے چار مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ اسی جنگ میں ہمارے ماموں جناب عبد العزیز بن عبد الرشید بن عبد الصمد علیہ الرحمہ بھی شہید ہوئے تھے۔ یہاں غوثیہ جامع مسجد ہے۔
۲۴۔اسلام پورہ:یہیں مولانا عبد الغفار اعظمی رکن المجمع الاسلامی کا مکان ہے۔
۲۵۔نیا پورہ: یہاں کی انجمن تنویر الاسلام ہے۔
۲۶۔شہید نگر: یہاں ایک شہید کا مزار ہے، ان کے نام پر یہ محلہ آباد ہے۔
۲۷۔ملت نگر: یہاں پر تصنیف واشاعت کا عظیم ادارہ المجمع الاسلامی قائم ہے۔اور ایک تعلیمی ادارہ بنام، مدرسہ صدیق اکبر ہے
۲۸۔ آدم پور: ملت نگر سے پورب یہ آبادی ہے
۲۹۔نور پور: المجمع الاسلامی سے اتر، نور پور کہلاتا ہے
۳۰۔عزیز نگر: حافظ ملت علیہ الرحمہ کےنام سے یہ ایک نیا محلہ ہے۔
۳۱۔اساوُر: یہ مبارک پور سے جنوب مشرق میں زمینداروں کی بستی ہے،یہاں دو شہیدوں کا روضہ ہے، عمر شیخ شہید اور شیخ ہندی شہید (معروف سیکھندی) یہ ، المجمع الاسلامی سے کچھ فاصلے پر ہے۔
۳۲۔گجہڑا: جامعہ اشرفیہ (عربی یونیورسیٹی) سےدکھن طرف کچھ فاصلے پر پرانی آبادی ہے،مولانا شاہ عبد الحق علیہ الرحمہ (وصال: ۲۸؍ شعبان ۱۴۰۸ھ ۱۶ ؍اپریل ۱۹۸۸ء مدفن اجمیر شریف)، مولانا شاہ شمس الحق علیہ الرحمہ(وصال ۹؍شعبان ۱۳۹۳ھ ۷؍ستمبر ۱۹۷۳ء) یہیں کے باشندے تھے۔مولانا شاہ شمس الحق علیہ الرحمہ دارالعلوم اشرفیہ کےمشہور استاذ اور فارسی زبان کے استاذ کامل تھے۔ میرے استاذحضرت مولانا اسراراحمد صاحب مدظلہ بھی یہیں کے باشندہ ہیں۔یہاں شاہ جہانی دور ۱۰۹۹ھ کی ایک عظیم الشان مسجد تاریخی یادگار ہے۔اور یہیںحضرت سید کمال الدین شاہ بغدادی علیہ الرحمہ( متوفی گیارہویں صدی ہجری)کا مزار مبارک ہے۔
۳۳۔لہرا (وحدت آباد): گجہڑاسے متصل دکھن طرف قدیم آبادی ہے۔یہ مشائخ بھیرہ کا موروثی مقام تھا، یہاں حضرت مولانا گرم دیوان شاہ بھیروی علیہ الرحمہ (ولادت۱۱۰۰ھ- وصال ۱۱۷۸ھ)نے مستقل سکونت اختیار کرکے خانقاہ اور مدرسہ بنوایا۔ یہیں ان کا مزار مبارک ہے۔ ان کے دور میں اس کا نام وحدت آباد تھا۔
۳۴۔فخرالدین پور: گجہڑا ہی سے متصل یہ آبادی ہے۔
۳۵۔بمہور: قصبہ کےجنوب مغرب میں دو میل پر آباد ہے۔
۳۶۔حاجی پور : بمہور سے قریب مسلم بستی ہے۔
۳۷۔ککرہٹا: بمہور سے قریب مسلم بستی ہے۔
۳۸۔ڈھکوا : بمہور سے قریب مسلم بستی ہے۔
۳۹۔داؤد پور:
۴۰۔ سالار پور:
مبارک پور کی تاریخ
مفکر اسلام حضرت علامہ بدرالقادری علیہ الرحمہ حیات حافظ ملت میں لکھتے ہیں،
یہ بات تومسلم ہے کہ پہلےپہل، یوپی کے خطۂ پورب کو اپنے سمنداقبال سے نواز نے والے، سلطان الشہدا،سید سالار مسعود غازی، بہرائچی، رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کے روحانی وعرفانی قافلہ کے غازیوں اورمجاہدوں نے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ مبارک پور کوبھی اپنے گھوڑوں کی تاپوں سے روند کر،اسے برکتیں عطاکیں اورحضرت ملک شدنی اور نہ معلوم کن کن شہداء کے وجود کاتخم اس خطۂ ارض کوحاصل ہوا۔
زمانہ آگے بڑھتا رہا تاآنکہ دور ہمایوں ۹۲۵ھ میں جب مسلمانوں کے دم قدم سے نوآبادیاں قائم ہورہی تھی اس قت قصبہ مبارک پور کی بنیاد پڑی۔ اگرچہ اس وقت تک اسے کوئی باقاعدہ نام نہیں ملاتھا۔
بانی مبارک پور
مبارک پور کےبانی حضرت سید راجہ مبارک شاہ علیہ الرحمۃ الرضوان ہیں ،حضرت راجہ سیدمبارک بن حضرت راجہ سید احمدبن حضرت راجہ نور بن حضرت راجہ سید حامد(رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہم) کاسلسلۂ نسب حضرت امام محمدباقر بن حضرت امام جعفرصادق(رضی اللہ عنہا) سے جاملتاہے۔
حضرت راجہ سید مبارک رحمۃ اللہ علیہ کامختصر تذکرہ”گنج ارشدی“ نامی کتاب میں ملتاہے۔
حضرت راجہ سید مبارک کے والد ماجد حضرت راجہ سید احمدقدس سرہ عین جوانی میں شادی کے چند ماہ بعد انتقال کرگئے تھے۔ راجہ سید مبارک کی والدہ کواس وقت ایک ماہ کاحمل تھا۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے جد محترم حضرت راجہ سید نور علیہ الرحمہ نے آپ کی پرورش کی۔ وہ پیار سے راجہ سیدمبارک کو ”ماکھو“ کہاکرتے تھے۔
جدمحترم نےاپنےیتیم پوتے کی تعلیم وتربیت
کرکے بچپن ہی میں ان کوخلافت واجازت بھی مرحمت کردی تھی۔
گوراجہ سید مبارک ظاہری علوم سے زیادہ واقف نہیں تھے مگر مشیخیت وروحانیت میں بلند مقام ومرتبے کے مالک تھے۔ آپ کے حلقۂ ارادت وخلافت میں اولیائےکاملین کی ایک کثیر تعداد تھی۔
راجہ سید مبارک علیہ الرحمہ نےاپنے خاندان کےبزرگوں کی طرح جون پور اوراس کے اطراف وجوانب مین رہ کر ارشاد وتبلیغ کی خدمت انجام دی۔
آپ تبلیغ واشاعت دین کی غرض سے کڑامانک پور ضلع پرتاب گڑھ(یوپی) سے قاسم آباد تشریف لائے، قاسم آباد میں آپ نے اپنی تبلیغ وارشاد اوربیعت وارادت سے ایک نئی روح پھونکی، اسلام کوضیاء بخشی، مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کیا، معصیت اورگمراہی میں مبتلا لوگوں کوراہ راست دکھائی اورقاسم آباد کو ازسرنو آباد کرکے اس کانام مبارک پور رکھا۔
آپ بڑے عابد وزاہد اوربلند روحانی مقام کے مالک تھے، کٹرامانک پور میں ۲؍شوال ۹۶۵ھ کوآپ کا وصال ہوا ،اوراپنے دادا حضرت سید نور کےپہلو میں دفن ہوئے۔آپ کے صاحب زادے راجہ سید مصطفیٰ نے مزار پرگنبد تعمیر کرایا۔
آپ کا سال وفات (۹۶۵ھ) مندرجہ ذیل مصرعہ کے حروف تہجی کے نمبرس جمع کرنے سے نکلتا ہے۔
گنج ارشدی میں مرقوم ہے: بحق شد راجی سید مبارک (۹۶۵ھ)
مسجد راجہ مبارک شاہ
الجامعۃ الاشرفیہ سے متعلق ”مسجد راجہ مبارک شاہ“ جواپنی وسعت وعظمت اورشان وشوکت میں دور دور تک مشہور ہے وہ راجہ مبارک شاہ صاحب ہی کےنام سے موسوم ہے۔ قصبہ مبارک پور میں جمعہ وعیدین کی سب سے بڑی جماعت یہیں ہوتی ہے۔
حضرت راجہ سید مبارک شاہ علیہ الرحمہ کےخانوادہ کے ایک بزرگ حضرت سید غلام نظام الدین (م ۱۱۲۸ھ) راجہ خیراللہ شاہ محمدآبادی کےنام سے مشہورہوئے اور”محمدآباد گوہنہ“ سے تقریباً ایک کلو میٹر مغرب میں واقع موجودہ قصبہ ”خیرآباد“ آپ ہی نے بسایا۔
سلسلۂ چشتیہ میں ،شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ متوفی ۱۱۷۸ھ مزار،لوہرا مبارک پور آپ ہی کے مرید ہیں۔
(علامہ یٰس اختر مصباحی: الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ص:۱۴)
مبارک پور کےدینی وعلمی ادارے
مبارک پور کےمغرب میں مدرسہ حنفیہ جون پور اورمشرق میں مدرسہ چشمۂ رحمت غازی پور دوقدیم دینی وعلمی ادارے تھے۔ مقامی سطح پرکچھ لوگ ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے مذکورہ دونوں اداروں اور معدودے چند لکھنؤ یادلی حصول تعلیم کےلیے جاتے تھے۔
یہ مبارک پور میں حافظ ملت کی تشریف آوری اور مدرسہ اشرفیہ باغ فردوس(۱۳۵۳ھ) کےقیام کے پہلے کی بات ہے اورآج الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور تو عالم اسلام کا ایک نمایاں علمی مرکز ہے۔
مبارک پور کی شہرت وعظمت کاسبب
ملک ہندوستان کے صوبۂ اترپردیش کےشہراعظم گڑھ کودسمبر۱۸۳۲ء میں ضلعی حیثیت حاصل ہوئی۔ اعظم گڑھ میں بڑی بڑی عظیم ونامور علمی وادبی ہستیوں نے جنم لیاہے اوراسی بناء پر اسے مردم خیز خطہ بھی کہاجاتاہے۔
کل تک یہ قصبہ گم نام تھا لیکن اس نے پوری دنیا میں ایک غیر معمولی پہچان بنالی ہے۔ عالم اسلام کا کوئی بھی خطہ وعلاقہ ایسانہیں جہاں مبارک پور کی شہرت نہ پہنچی ہو۔ اورمبارک پور کی یہ شہرت، عظیم مرکز علمی الجامعۃ الاشرفیہ کےسبب ہے۔ لیکن الجامعۃ الاشرفیہ کو مبارک پور کی سرزمین پر وجود کس نے بخشا؟ حضرت حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ نے اورآج مبارک پور کویہ شہرت ومقبولیت،عزت وعظمت اوربڑا ئی وبلندی بلاشبہ اسی ذات بابرکات کی بدولت حاصل ہے۔
اسی معمار قوم وملت، باغبان باغ فردوس، جلالۃ العلم، استاذ العلماء حافظ ملت، محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری، بانی الجامعۃ الاشرفیہ ہی نے مبارک پور کو قابل مبارک باد بنایا۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ نے مبارک پور کی سرزمین پر الجامعۃ الاشرفیہ کی شکل میں علم وحکمت کاایسامرکز قائم فرمادیا جس پربغداد وقرطبہ، شیراز واصفہان، سمرقند وبخارا اور قاہرہ کےجامعات کوبھی رشک آتاہے اور جہاں کے فاضلین دنیاکے کسی بھی جدید دانش کدہ اورماڈرن یونیورسٹی کے دانش وروں اورپروفیسروں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرعلم وحکمت کےکسی بھی موضوع پر گفتگو کرسکتے ہیں اوراحساس کمتری میں مبتلا ہونے کے بجائے خود انھیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے کامادہ رکھتے ہیں۔
الجامعۃ الاشرفیہ ایک ایسا منارۂ نور ہے جوتہذیب جدید کے اخلاق وانسانیت سوز شعلوں کوکاٹتا ہوا، نئی روشنی کی برپاکی ہوئی جہالت وگمرہی کی تیرگی کو چیرتاہوا بندگان الٰہی کی ہدایت ورہنمائی کافریضہ انجام دیتاہوا انھیں صراط مستقیم پرگامزن کرتاچلاجارہاہے۔
نہ صرف برصغیر بلکہ یورپ وامریکہ اورافریقہ کےتشنگان علوم نبویہ بھی اپنی پیاس بجھانے اورسرمست وسرشاد ہونے کےلیے اسی میخانہ علم وحکمت کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں۔
الجامعۃ الاشرفیہ کےکیمپس میں داخل ہوتے ہی نگاہوں میں چمک اورچہرہ پر تازگی آجاتی ہے، دل مضطرب کو قرار آجاتاہے۔ سینہ فخر سے ،تَن جاتاہے، اللہ اکبر! یہ ایسا باغ فردوس ہے جہاں ہرسو ،علم وحکمت ودانش کوثر وتسنیم کےدھارے بہتے نظر آتے ہیں۔
جامعہ کےدرودیوار سے حمد الٰہی اورمدح رسالت پناہی کے مچلتے ہوئے نغمے، جامعہ کی فضاؤں میں گونجتی ہوئی قرآن وسنت کی جاں بخش اورایمان افروز صدائیں ذہن کے دریچوں کوبہار ابد کی جاں فزا ہواؤں کےلیے وا کردیتی ہیں۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ نےعمر بھر الجامعۃ الاشرفیہ (باغ فردوس) کی باغبانی وپاسبانی کافریضہ انجام دیا۔طلبائے اسلام کی جماعت کوتعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کرتے رہے اوراشرفیہ ہی کو آخری آرام گاہ بنالیا۔
یہ حافظ ملت ہی کے قدموں کی برکت ہے کہ انھوں نے مبارک پورکی سرزمین کوآسمان کی بلندی عطاکردی۔ اللہ کےاحسان یافتہ بندوں کی یہی تو شان ہوتی ہے کہ
توجہاں ناز سے قدم رکھ دے
وہ زمیں آسمان ہے پیارے
مبارک پور اس کی مذہبی تاریخ
مبارک پوراپنے ضلعی مقام اعظم گرھ سے تقریباً سترہ کلومیٹر شمال مشرق میں کئی مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ایک مسلم اکثریت کی آبادی ہے۔ مسلمانوں میں بنکر طبقہ کی تعداد غالب ہے۔
مبارک پور کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے حضرت استاذ محترم بحرالعلوم مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ اعظمی سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ نےجوکچھ تحریرفرمادیاہے وہ سندکی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت نے اس پورے ماحول کی بہترین تصویر کشی فرمائی ہے جسے ہم یہاں من وعن نقل کرتے ہیں۔
مبا رک پور کی صنعت
”یہ آبادی آج سے تقریباً ساڑھے تین سوسال قبل کی ہے۔یہاں کاخاص ذریعۂ معاش بنکاری ہے۔ قدیم عہدمیں سوتی کپڑے (گزّی وغیرہ) تیار ہوتے تھے، لیکن جلد ہی یہاں کے ہنر مندوں نے ریشم اورسوت کی آمیزش سے چند نفیس قسم کی پوشیش بنائیں جومدتوں شرفاء کالباس اورخوشرؤں کی زینت رہیں اور مشروع، غلطاں ، سنگی، گلبندن وغیرہ کےنام سے مشہور عالم ہوئیں۔ اب خالص ریشم اورزری کےبنارسی کپڑوں میں یہاں کے ہنر مند اپنا جواب نہیں رکھتے“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرت یہاں کی نہایت سیدھی سادی اورتقریباً اسلامی احکام کے موافق تھی۔ اب انقلاب زمانہ کےساتھ یہاں بھی کچھ تجدد کی ہوا چل پڑی ہے۔ بیشترآبادی اگرچہ بےپڑھی لکھی تھی لیکن خیرغالب اور نیکی نمایاں تھی۔
مولوی مکرم احمدعباسی چریاکوٹی (بن مولانا محمد اعظم چریاکوٹی ولادت ۱۲۶۶ھ متوفی ۱۳۳۲ھ از تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص ۳۲۲)اپنی قلمی تصنیف ”دہ بند“ میں تحریر فرماتے ہیں:
مبارک پور میں پانچ ہزار خانہائے نور باف ہیں، ہرہرمحلہ محلہ میں مسجدیں موجود ہیں، پانچوں وقت کی جماعتیں نماز کی دھوم دھام سے ہوتی ہیں۔ اہل محلہ سب کاروبار چھوڑ کے واسطے تحصیل فضیلت جماعت کےمسجد میں آتے ہیں۔فقیر، درویش، مُلّے،مسافر، غریب الوطن، مساکین، مرثیہ خواں زیادہ تریہاں وارد ہوکےمبلغ معتدبہ پاجاتے ہیں۔ فی تھان کسی قدر زکوٰۃ کے طور پرنکال کے ایک خزانہ میں کہ موسوم بہ گولک کرلیاہے جُدا دھرتے ہیں جس سے پیسہ ایک مقدار کثیر میں موجود رہتاہے اوراسے مصارف خیر میں صرف کرتے ہیں۔ اکثر باثروت وصاحب مال ہیں۔ گلبدن وسوتی پہلے پہل یہیں بنایاگیا اوراب تک یہاں کاسا عمدہ اور ارزاں دوسری جگہ نہیں بنایاگیا۔ بالفعل مشروع وسنگی واصناف پارچہائے سادہ ورنگین یہاں بہتر بنایا جاتاہے اوربکفایت تام ہاتھ آتاہے۔ بازاروں میں غلہ اس افراط سے آتاہے کہ بڑے بڑے شہروں کاگولہ اس کارشک کھاتاہے(دہ بند،ص:۳)
مدرسہ مصباح العلوم کاقیام
اس کے بعد تاریخی حقائق جاننے کےلیے ہم بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی (علیہ الرحمہ)کی تحریر پیش کرتے ہیں:
آج سے سوسال قبل شعبان ۱۲۹۲ھ کابیان ہے اوریہ لگ بھگ وہی وقت ہے جب کہ مبارک پور کےافق پردُودمان خاندان اشرفیہ شہزادۂ غوث الوریٰ حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کی تبلیغی سرگرمیاں رشد وہدایت کاآفتاب بن کر چمک رہی تھیں اورپورا مبارک پور اُن کے قدموں میں اپنادل بچھائے ہوئے تھا اورعجب نہیں کہ اوپر عباسی صاحب کے حوالے سے یہاں کی جس عام دین داری کاذکر کیاگیاہے انھیں کی مسیحانفسی کااثرہو۔ انھی کی تحریک وترغیب سے آج سے تقریباً اسی سال قبل مبارک پور گولہ بازار کی مسجد میں مدرسہ بنام مصباح العلوم قائم ہوا جس کے انتظام کاروں میں حافظ عبدالسبحان صاحب پورہ رانی اورایوب سردار کانام سرفہرست ہے۔
انتہائی کوشش کےباوجود اس کے ابتدائی مدرسین کاپتا نہ چل سکا۔ نصاب تعلیم کے بارے میں ایسا اندازہ ہوتاہے کہ مکتبی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ عربی کابھی انتظام تھا کیوں کہ اسی میں تعلیم حاصل کرکے مولوی رفیع الدین ومولوی محمدعمر صاحب مولوی کہے جانے لگے۔
دس سال کےبعد مدرسہ کی فلاح وبہبود کی خاطر پورے قصبہ کی ایک عام میٹنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ایک وسیع اورجامع ترکمیٹی عالمِ وجود میں آئی جس کے ارکان میں حسب ذیل افراد نام زد ہوئے۔
مولوی الٰہی بخش صاحب پورہ دلہن، یہ ایک کامیاب طبیب بھی تھے۔ سردار محمد طیب گرہست پورہ خضر، یہ نہایت چالاک اور بااثر شخص تھے۔ حاجی عبدالحق، بابوسردار، ان کاذکر اوپر آچکاہے۔ عبدالحکیم سردار،پورہ صوفی اورحسین بخش وغیرہ اورچوں کہ اس اجتماع میں پورے قصبہ کی نمائندگی تھی اس لیے نسبۃً اس وقت تک یہاں جتنے فرقے ممتاز تھے سبھی خیال کے مدرس رکھے گئے۔
چناں چہ مصنف بہار شریعت حضرت مولانا امجد علی صاحب علیہ الرحمہ کےبرادر بزرگ حضرت مولانا محمدصدیق صاحب جوحضرت مولانا ہدایت اللہ خان جون پوری علیہ الرحمۃ والرضوان کے ارشد تلامذہ سے تھے وہ گھوسی سے بلائے گئے۔ دیوبندیت اس وقت نمایاں نہیں تھی کہ اس کا کوئی نمائندہ ہو لیکن غالباً لاعلمی میں ہی مولوی محمدمحمود صاحب(دیوبندی) ساکن موضع پورہ معروف بلائے گئے۔ مقامی طور پر مولوی نور محمد صاحب مرحوم، یہ سنی مکتب فکر کےترجمان تھے اور شیعہ مدرس ماسٹر مہدی حسن خاں مقرر ہوئے اورمدرسہ گولہ بازار کی مسجد سے منتقل ہوکر پورہ رانی میں کرایہ کےمکان مملوکہ جودھا دھوبی میں قائم ہوا۔
محمود دیوبندی صاحب ساکن پورہ معروف کاقیام پورہ دلہن میں مولوی الٰہی بخش کےوہاں تھا۔ مولوی صاحب موصوف مسلکاً دیوبندی تھے۔ ابتداءً تو وہ تمام سنی معمولات بجالاتے رہے لیکن ہردم کی صحبت اوربات چیت سے مولوی الٰہی بخش اورطیب گرہست وغیرہ ارکان مصباح العلوم پر اثر انداز ہوچکے تھے اورمدرسہ کےطلبہ میں بھی اپنے خیالات کی اشاعت شروع کردی تھی۔ اپنی کسی مجلس میں مولوی محمود مولوی شکراللہ اور مولوی نعمت اللہ نے امکان کذب کامسئلہ بیان کیا اور اپنا عقیدہ ظاہر کیاکہ خدا جھوٹ بول سکتاہے۔
اس وقت کےایک طالب علم ٘ محمود شاہ نے ان لوگوں کےفاسق وبددین ہونے کاتحریری فتویٰ دیا جس کی شکایت ارکان مدرسہ کے پاس پہنچی ۔ طیب گرہست نے معاملہ کی تفتیش مولوی نور محمد صاحب مرحوم کے سپر د کی لیکن پھر قضیہ کواپنے ہاتھ میں لے کر محمود شاہ کومدرسہ سے خارج کردیا۔
طیب گرہست کایہ اقدام پورے قصبہ میں آگ لگادینے کےلیے کافی تھا چناںچہ ایک عام شورش اورعوام کے شدید ہیجان کےنتیجے میں کمیٹی میں نیاخون شامل ہوا۔ اوربد لومیاں، حافظ محمدابراہیم مرحوم سابق متولی
[یہ ہمارے خاندان کے فردہیں ، ہمارے دادا (جناب عبد الکریم بن محمد اسحق مرحوم) کے دادا ، جمن خلیفہ مرحوم تین بھائی تھے، ایک بھائی مبارک پور آکر مستقل آباد ہوگئے،اُسی خاندان سے حافظ محمد ابراہیم علیہ الرحمہ ہیں، وہ تاحیات اشرفیہ کے متولی اور رکن رہے، ۱۹۶۷ یا ۱۹۶۸ ءمیں انتقال ہوا ، ۱۱بجے دن میں جنازہ تھا، حافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم پر دارالعلوم اشرفیہ میں چھٹی کردی گئی ، اور تمام اساتذہ و طلبہ اُن کے جنازہ میں شریک ہوئے۔ ہمارےوالد مرحوم اور بھائی جان قبلہ جنازہ میں شریک تھے، اُس وقت بھائی جان اشرفیہ میں زیر تعلیم تھے۔احمدالقادری (بروایت برادر گرامی حضرت علامہ محمداحمد مصباحی، ناظم تعلیمات ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور ]
حاجی خیراللہ مرحوم سابق متولی دارالعلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم ،ممبران کےزمرے میں داخل ہوئے۔
ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ طیب گرہست ایک شاطر مدبر تھے، چناں چہ انھوں نے منہ بھرائی کےلیے عوام کےکچھ نمائندے تو کمیٹی میں رکھ لیے ،لیکن درپردہ اسی کوشش میں رہے کہ نئے مذہب کوفروغ ،اورمذہب اہل سنت وجماعت کا استیصال ہوجائے اور اس کے لیے حالات یوں ساز گار ہوگئے کہ اسی دوران میں ہندوستان کےسیاسی بازی گروں نے یہاں بیٹھ کرخلافت اسلامیہ کی بقا وتحفظ کاجہاد شروع کردیا اور سارے ہندوستان میں چندہ جمع کرکے قسطنطنیہ بھیجنے لگےاور جنگ بلقان کے سلسلہ میں ترکی کی مدد کرنے کا نام ہورہاتھا۔ مبارک پور کی گلی گلی میں:
بولیں اماں محمدعلی کی
جان بیٹا خلافت پر دے دو
یہاں کی بہو بیٹیوں کے گلے اورہاتھ کے زیوراُ تررہے تھے ۔ اس اثنا میں بقرعید کے موقع پر چرم قربانی کی رقم لگ بھگ سات سو روپیے مدرسہ کے فنڈ میں جمع ہوئی۔ اس موقع پرمدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی (کی میٹینگ)ہوئی۔ طیب گرہست نے یہ تجویز رکھی کہ اس وقت خلافت وقوم کی بقا ،مدرسہ کےتحفظ سے زیادہ اہم ہے اس لیے مدرسہ فی الحال موقوف کیاجائے اور اس کی ساری رقم بھی” سمرنافنڈ“ میں بھیج دی جائے۔ خلافت کےنشہ میں پوری قوم سرشار تھی ہی! تجویز باتفاق آرا پاس ہوئی اورمدرسین اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ کچھ دنوں کےبعد یہ صاف نظرآنے لگا کہ بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے اورمولوی محمود (دیوبندی)حسب دستور پڑھارہے ہیں۔
سابق متولی حاجی خیراللہ صاحب دلال مرحوم کابیان ہے کہ میں، حافظ محمدابراہیم، بابوسردار اورمیاں جی بدلونے جب یہ دیکھا تو ہاتھوں کے طوطے اڑگئے، کیوں کہ جیساہرجگہ ہوتاہے یہاں بھی شیطان دولت کے گنبد پرانڈا دےچکاتھا۔ ثروت، گمرہی کے خانے میں منظم ہوچکی تھی اور یہاں کا سرمایہ دار طبقہ مولوی محمود صاحب(دیوبندی) کے فیور میں تھا۔ ہم چاروں نے طیب گرہست سے پوچھا آخر مدرسہ کے اختتام کی تجویز کیاہوئی؟ انھوں نےکہابحال ہے! ہمارا سوال تھا پھر مولوی محمود صاحب کیسے پڑھارہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا مولوی الٰہی بخش صاحب وغیرہ نے نجی طور پرانھیں روک لیاہے۔
اگرتم میں سکت ہوتو تم بھی اپنے طور پر اپنے مولویوں کوبلواکر تعلیم دلواسکتے ہو۔ ہم نے دیکھا ہم خود ہی لاعلمی میں اپناگلا کاٹ چکے تھے اور حریف خوش تھا کہ ان محتاجوں سے کیا ہوسکے گا؟
ہم لوگ یہ جواب سن کر قصبہ کے زمیندار اور رئیس شیخ عبدالوہاب گرہست کے پاس گئے اوران سے سارا ماجرا بیان کیا، یہ خوش عقیدہ آدمی تھے اور مولوی ٘محمود صاحب(دیوبندی) سے کچھ ایسا متاثر بھی نہ تھے انھوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اورہمیں اسی کی ضرورت تھی چناں چہ ہم نے متوکلاً علی اللہ مولوی محمدصدیق صاحب گھوسوی مرحوم ومغفور اور مولوی نور محمد صاحب مرحوم پیش امام جامع مسجد راجہ مبارک شاہ کی خدمات حاصل کیں۔
مدرسہ کی اپنی نجی عمارت توتھی نہیں، اس لیے پہلی جگہ دونوں فریق میں سے کوئی بھی نہیں پہنچا ہماری اس جدوجہد میں چوں کہ سابق الذکر مولوی محمدعمر صاحب سبزی فروش بھی شامل تھے ،جوشاہ عبداللطیف صاحب ستھنی رحمۃ اللہ علیہ سے مرید تھے اورہم سب لوگوں کوحضور مخدوم اشرف جہاں گیر رضی اللہ عنہ کے سلسلے سے تعلق تھا، اس لیے ہم نے اپنی اپنی عقیدت کے اظہار کےلیے مدرسہ کےسابق نام پرمزید دوحرفوں کااضافہ کیا اوراب پورانام مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم ہوا یہ حادثہ ۱۳۲۹ھ کاہے۔
آمدنی کےسارے ذرائع مثلا کوڑی(گولک وغیرہ) پرمبارک پور کےسرمایہ دار(محمود گروپ) ہی چھائے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کس مپرسی کےعالم میں اس کے علاوہ اور کیاہوسکتاتھا کہ مدرسہ کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی کےدن گزار رہاتھا بالکل خانہ بدوشانہ انداز میں، اِس مسجد سے اُس دالان میں، اوراُس دالان سے اِس برآمدے میں ،اِس برآمدہ سے اُس مکان میں، اُس مکان سے فلاں دوکان میں منتقل ہوتا رہا اور یہی حال اس میں علما کی آمد ورفت کابھی رہا —- مولانا صدیق صاحب علیہ الرحمہ کےوصال کے بعد ان کے شاگرد مولوی عبدالحئی اورمولی محمدیحییٰ صاحبان کام چلاتے رہے پھر مولانا عبدالسلام صاحب شاگر د مولانا محمدصدیق صاحب صدرالمدرسین ہوئے۔ ان کے بعد مولانا عبدالمنان صاحب گیاوی مقرر کیے گئے۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد مولانا اکرام الحق صاحب گنگوہی نے مسند صدارت سنبھالی پھر مولوی انیس احمد صاحب سریر آرائے درس رہوئے۔ اسی طرح تقریباً بارہ سال کی مدت میں چھ مدرس آ جا چکے تھے۔
مولانا محمدصدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اس مدرسہ نے ایک دفعہ غیر معمولی ترقی بھی کی ،جب کہ اس کی دومنزلہ پختہ عمارت مولوی محمدعمر صاحب سبزی فروش کی کوشش سے وہیں تعمیر ہوئی تھی،جہاں اب دیوبندی جامع مسجد ہے (آج سے چالیس سال قبل اس مدرسہ کاشمالی مشرقی کونہ باقی تھا جسے میں نے خود دیکھاہے) کسی وجہ سے اس عمارت کابھی یہاں کے عام سنیوں نے بائیکاٹ کیا اوراسی چپقلش میں مدرسہ کےلطیفیہ کالفظ بھی علیحدہ کردیاگیا اوراب صرف مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم رہ گیا اور مدرسہ اسی سابقہ خانہ بدوشانہ زندگی پر قانع رہا جوابتداسے ہی اس مدرسہ کاطرۂ امتیاز تھا۔ تا آنکہ ۱۳۴۱ھ میں رئیس قصبہ جناب عبدالوہاب صاحب نے محلہ پرانی بستی میں ایک خام دومنزلہ عمارت مدسہ کے لیےمخصوص کردی اور تھکے ماندے مسافر کو گویا ایک منزل مل گئی۔
اسی دوران میں مولوی شکراللہ صاحب دیوبند سے فارغ ہوکر آچکے تھے۔ لوگوں میں نیاخون ، دل میں جوان عزائم اورمزاج میں لیڈری کاشوق، بڑی شدومد کےساتھ انھوں نے مبارک پور کو نئی ریت میں بدلنے کاپرشوراقدام کیا، صاحب ثروت کم، ذی اثر زیادہ تھے، اوردولت مند گروپ بھی انھیں کی طرف تھا۔ بہت جلد ہی یہ محسوس ہونے لگا کہ مبارک پور ایک نئے مذہبی دور میں داخل ہونے والاہے۔
مدرسہ الگ ہونے کے باوجود جمعہ ایک ہی جگہ راجہ مبارک شاہ علیہ الرحمہ کی مسجد میں سنی امام حضرت مولانا نور محمد صاحب علیہ الرحمہ کی امامت میں ہوتاتھا لیکن مولوی شکراللہ صاحب موصوف نے کمال عجلت سے اپنا جمعہ علیحدہ کرلیا۔
معدودے چندپرانے خیال کے خوش عقیدہ مسلمان یہ صورت حال دیکھ کر گھُٹ رہے تھے۔ مدرسہ اشرفیہ زندہ ضرور تھا مگر مردہ سے بد تر، امید ٹوٹ چکی تھی اورمستقبل بھیانک ہورہاتھا کہ تاریکیوں میں نور کی کرن جگمگانے والے پرورد گار نےغیب سے انتظام کردیا۔
مبارک پور کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں دنیاوی سربراہی بھی دینی قیادت کےساتھ چلتی ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے افراد مبارک پور کے افق پرآفتاب وماہتاب بن کرچمکے مگر یہ ساری چمک دمک اسی وقت تک رہی جب تک وہ مذہبی قیادت بھی کرتے رہے، جہاں مذہبی سرگرمیوں سے دل چسپی کم ہوئی ،دنیاوی حیثیت سے بھی ایک دم بجھ گئے بلکہ ختم ہوگئے۔
ہوایہ کہ عبدالوہاب صاحب گرہست کاگھرانہ پورے قصبہ میں ممتاز اورپورے ضلع میں ممتاز مسلم گھرانہ تھا اورپورے قصبہ کی سربراہی بھی تقریبا اسی گھر انے کی میراث تھی۔ مولوی شکراللہ صاحب کی سرگرمیوں کے نتیجہ میں اب سیاسی رہنمائی کامرکز ثقل بھی بدل رہاتھااس لیے اس خاندان کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنےکےلیے نہایت ضروری تھا کہ عوامی رابطہ کی طرف توجہ دی جائے۔ ادھر قصبہ کے غربائے اہل سنت مولوی شکراللہ صاحب کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر اپنی کمزوری کی بنیاد پراس امر کی سخت ضرورت محسوس کرتے تھے کہ کسی مضبوط قیادت کےذریعہ مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کی بقا اورترقی اور مذہب اہل سنت وجماعت کے استحکام کو حتمی بنایاجائے۔ الغرض مبارک پور کے سنیوں کوایک لیڈر کی ضرورت تھی جن کی رہنمائی میں یہ لوگ چلیں۔ اس طرح مبارک پور کی سنیت اورمدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم فریقین کے لیے نقطہ اتحاد ثابت ہوا۔ اورحسن اتفاق سے اس خاندان سے جوفرد اس کام کے لیے آگے بڑھا وہ نہایت جری، انتہائی ہوش مند، پرجوش اور متہوّر میری مراد” مرحوم محمد امین صاحب گرہست انصاری“ سے ہے جن کی شعلہ بیانی اور پرجوش قیادت نےتقریباً چوتھائی صدی پورے مبارک پور کوزندہ اور متحرک رکھا۔
افسوس! آج مرحوم ہم میں نہیں، مگر ان کے زریں کارنامے مبارک پور کی پیشانی پرسنہرے حروف سے لکھے ہوئے ہیں۔ ہم دست بدعاہیں مولیٰ عزوجل ان کی روح کوسکون بخشے اوران کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ ہم اُن کواپنے جذباتِ احترام پیش کرتے ہیں کہ مبارک پور میں گرتی ہوئی سنیت کوسنبھالا بلکہ عروج وارتقاء بخشنے والوں میں ان کانام بھی سرفہرست ہے۔
آسماں تیری لحد پرشبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گل کی نگہبانی کرے
۱۳۴۴ھ کے لگ بھگ جناب جناب محمدامین صاحب مدرسہ کےہی نہیں، پورے قصبہ کے سنیوں کے بھی، صدر قرار پائے۔ مدرسہ کےانتظام میں استقلال پیدا ہوتے ہی، اس کے مدرسوں میں بھی قیام وثبات پیدا ہوگیا۔ اور ۱۳۴۶ھ میں مولانا شمس الحق صاحب ساکن گجہڑہ ضلع اعظم گڑھ کاتقرر بمشاہرہ بیس روپے ماہانہ بعہدہ صدر مدرسی ہوا۔ موصوف تھے توفاضل دیوبند ،لیکن مسلسل چھ سال تک نہایت خوش اسلوبی سے مدرسہ کو فارسی اور ابتدائی عربی تک باقی رکھا انھیں کی کوشش سے مولانا علی احمد صاحب، مولانامحمدمحبوب صاحب اشرفی، مولانا محمدحاتم صاحب، مولاناحفیظ الدین تعلیم پاکر اس لائق ہوئے کہ مزید تعلیم وتکمیل کےلیے بریلی، میرٹھ، امروہہ وغیرہ دور دراز مدارس اہل سنت میں گئے اورمدرسہ کےمذہبی کردار پر بھی مولانا نےآنچ نہ آنے دی۔ گویا
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے
اس وقت بھی صدر کمیٹی محمدامین انصاری مرحوم ہی تھے اورورکنگ کمیٹی میں حسب ذیل افراد کےنام دستیاب ہوسکے ہیں:
(۱)حاجی غلام رسول
(۲)حاجی پھیکو صباغ(یہ نہایت دین دار اورحد درجہ امین تھے اور مدت العمر مدرسہ کے خازن رہے)۔
(۳) حاجی عبدالسبحان صاحب سوت والے
(۴)حاجی محمدعثمان صاحب پورہ رانی۔
(۵)قیاس یہ ہے کہ حاجی خیراللہ دلال متولی
(۶) اور(حافظ)محمدابراہیم صاحب متولی بھی ضرور ممبررہے ہوں گے۔
یہاں یہ بات جان لینی بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ خاندان اشرفی سے رابطہ کی وجہ سے مبارک پور کی سنیت کاتعلق پورے ہندوستان کی سنیت سے قائم اور زندہ تھا، بلکہ ہندوستان کے مقتدر علما ےاہل سنت اس کے نگراں، مربی اورسرپرست تھے، سب سے قدیم روداد جو دستیاب ہوسکی ہے، اس میں تحریر ہے:
”دارالعلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم “ اٹھائیس سال سے (۱۴۴۳ھ میں قریباً۱۱۴ سال سے)تعلیمی اور تبلیغی خدمات انجام دے رہاہے جس کے سرپرست شمع شبستان غوثیت حضرت مولاناشاہ ابوالمحامد ،سید محمدصاحب کچھوچھوی دامت برکاتہم وعلامہ زمن، خاتم الفقہا حضرت صدرالشریعہ مولانا شاہ امجد علی قبلہ دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔(رودا د دارالعلوم اشرفیہ،مبارک پور، ۱۳۵۶ھ۔ ۱۳۵۷ھ ص:۴)
اس وقت بھی یہاں کاسالانہ جلسہ پورے علاقہ میں مشہور تھا اور مشاہیر علماے اہل سنت یہاں تشریف لاتے تھے۔ مثلاً شیخ المشائخ اشرفی میاں علیہ الرحمہ، ان کے خلف ارشد مولانا سید احمداشرف عرف بڑے مولاناصاحب، نواسے حضرت محدث اعظم ہند مولاناسید محمدصاحب اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ، حضور صدرالشریعہ حضرت مولانا شاہ محمدامجد علی صاحب، حضرت مولانا محمدفاخر صاحب الٰہ آباد ی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم۔
آخر وہ دن بھی قریب آگئے کہ مبارک پور کورحمت الٰہی کی بجلیوں نے اپنانشیمن بنایا ۔ کچھ تو مولوی شکراللہ صاحب کی مسلسل جارحیت کےرد عمل میں، کچھ مدرسہ کی حالت کے یک گونہ استحکام کے نتیجے میں اورکچھ جماعت اہل سنت میں بھی مقامی علماء(مثلاً مولاناحفیظ اللہ صاحب قریشی رضوی علیہ الرحمہ وغیرہ) کےپیدا ہوجانے کی وجہ سے یہاں کے سنیوں میں زندگی کی نئی حرارت پیدا ہوئی اور مدرسہ کومزید ترقی دینے کاخیال رو نما ہوا جسے یہاں کے ارکان نے اپنے سرپرستوں کی خدمت میں رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۴؍ویں صدی کی دوسری دہائی میں کچھوچھہ شریف ضلع فیض آباد خانوادۂ اشرفیہ کے مشہور شیخ حضرت مولانا سید شاہ علی حسین صاحب (اشرفی میاں) رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک دینی مدرسہ بنام”مدرسہ مصباح العلوم “ قائم کردیا۔
(مفتی عبدالمنان اعظمی (علیہ الرحمہ): مضمون، مدرسہ اشرفیہ سے الجامعۃ الاشرفیہ تک، مشمولہ ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور ، شمارہ مئی ،جون، جولائی ۱۹۸۴ء)
[ماخوذحیات حافظ ملت ص۶۴۶ تا۶۵۵ ]
جناب مہتاب پیامی صاحب مبارک پور کی زبان اور تاریخی عمارتوںکے سلسلے میں رقم طراز ہیں
مبارک پور کی ایک مخصوص عوامی بولی ہے، اس بولی سے قطع نظر عام طور پر اردو لکھنے پڑھنے اور بولنے والے افراد نظر آتے ہیں۔ اردو کی صورت حال یہاں کافی بہتر ہے اور اردو بولنے والے افراد ۹۵ فی صد ہیں۔اردو کے فروغ میں یہاں موجود مدارس و مکاتب کا کافی اہم کردار ہے ، یہاں کے مدارس کا ذریعہ تعلیم اردو ہے جس کے سبب طلبہ کی ایک بڑی تعداد، اردو سے واقف ہوتی ہے۔اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہل مبارک پور کی خدمات لائق تحسین ہیں۔
مبارک پور ایک قدیم صنعتی بستی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کئی ایک تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔یہاں کی تاریخی عمارتوں میں جامع مسجد راجہ مبارک شاہ کافی اہم ہے۔ یہ مسجد راجہ مبارک شاہ کے زمانے سے ہنوز آباد ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ راجہ مبارک شاہ اس مسجد میں نمازِ جمعہ کی امامت کیا کرتے تھے۔ دوسری قدیم عمارتوں میں عید گاہ حیدر آباد اور شاہ کا پنجہ حیدر آباد وغیرہ ہیں جو صدیوں پرانی ہیں ۔ لاہوری اینٹوں اور چونے سے بنی ہوئی یہ عمارتیں مغلیہ عہد کی یاد گار ہیں۔ عید گاہ حیدر آباد میں اب بھی عید ین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ شاہ کا پنجہ نامی عمارت میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پنجۂ مبارک کا نشان محفوظ ہے۔ یہ کس طرح مبارک پور پہنچا اس کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہے۔البتہ عمارت کے گنبد اور طرزِ تعمیر سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ بھی مغلیہ دور کی یادگاریں ہیں، ان میں وقتاً فوقتاً تعمیراتی مرمت کے کام کیے جاتے رہے ہیں۔
ایک اہم اور قابلِ ذکر تاریخی عمارت قدم رسول (ﷺ)ہے جو مبارک پور کے قلب میں واقع ہے۔ یہ عمارت مغل بادشاہ شاہ جہاں کے عہد میں تعمیر کی گئی۔
مغلیہ دور کی ایک اور یادگار عمارت معروف بہ شاہی مسجد موضع گجہڑا میں واقع ہے ۔ مبارک پور کی یہی قدیم ترین آبادی بھی ہے۔ اس کا ابتدائی نام جو ہندو مذہب کی مذہبی کتابوں اور بدھ مذہب کے لٹریچر میں ملتا ہے وہ ہے ’’گجی ہارا‘‘۔ گجی ایک قسم کا کپڑا ہوتا تھا جو ہاتھ سے بنا جاتا تھا۔ دو ہزار سال قبل یہاں اس کپڑے کی بنائی ہوتی تھی شاید اسی وجہ سے اسے گجی ہارا جاتا تھا۔ ’’گجی ہارا‘‘ نامی بستی امتدادِ زمانہ کے باعث ترقی کے دوڑ سے پیچھے ہو چکی ہے۔ اِن دنوں اسے گجہڑا کہا جاتا ہے۔
عہدِ شاہجہانی میں یہ علاقہ کفرستان تھا سب سے پہلے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولادوں میں سے حضرت سید کمال الدین عرف بندگی شاہ کمال تبلیغِ دین کے لیے گجہڑا تشریف لائے۔ آپ کے صاحب زادے محمد صالح جو حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں تھے، انھوں نے یہاں کی شاہی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ مسجد چونے اور لاہوری اینٹوں سے بنی ہوئی
ہے، اور طرزِ مغلیہ طرزِ تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مسجد کے تین گنبد ہیں، درمیانی گنبد بڑا ہے۔ مسجد کے بیرونی دروازے کے اوپر سنگِ موسیٰ کا ایک کتبہ لگا ہوا ہے۔ جس پر ابھرے ہوئے حرفوں میں قطعہ کندہ ہے۔ اس قطعہ سے اس کا سنِ تعمیر ۱۰۹۹ھ معلوم ہوتا ہے۔
گجہڑا کی یہ شاہی مسجد آج بھی مولانا سید انیس الحق صاحب کے تولیت میں محفوظ ہے۔ آپ حضر ت بندگی شاہ کمال کے خاندان سے ہیں۔
(بہ شکریہ ،آزاد دائرۃ المعارف، اردو ویکی پیڈیا، ملخصاً و تصرفاً)
مبارک پور کی چنداہم عمارتیں
قدم رسول : غالباً شاہ جہانی دور کی یادگارہے۔
الجامعۃ الاشرفیہ: (عربی یونیورسیٹی)سنگ بنیاد۱۳۹۲ھ ۱۹۷۲ء۔ افتتاح ۱۳۹۳ھ۱۹۷۳ ء
روضہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ:الجامعۃ الاشرفیہ؍عربی یونیورسیٹی( ولادت ۱۳۱۲ھ۱۸۹۴ء ، وصال یکم جمادی الآخرہ ۱۳۹۶ ھ ، ۳۱؍ مئی ۱۹۷۶ ء)
دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح العلوم: باغ فردوس ۱۳۵۳ھ، گولہ بازار۔
مدرسہ اشرفیہ (پرانا مدرسہ): پرانی بستی، تعمیر جدید ۱۴۱۲ھ؍ ۱۹۹۱ء
اشرفیہ انٹرکالج: بمقام انجمن اشرفی دارالمطالعہ
المجمع الاسلامی: ملت نگر ، مبارک پور۔ یہ تصنیف و اشاعت کا ایک عظیم قومی ادارہ ہے
مبارک پور کی مساجد
یہاں الحمدللہ مساجد کی بھی خوب کثرت ہے ایک ایک محلہ میں کئی کئی مسجدیں ہیں جوقصبہ کی دینداری اور مذہبی لگاؤ کی طرف واضح اشارہ دیتی ہیں، نمونۃً چند مساجد کے نام حسب ذیل ہیں۔
شاہی مسجدگجہڑا: ۱۰۹۹ھ بزمانہ حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ (مسجد کے باہرحضرت سید کمال الدین شاہ بغدادی علیہ الرحمہ کا مزار مبارک ہے)
عزیز المساجد: الجامعۃ الاشرفیہ (یونیوسیٹی) مبارک پور، یہ اس علاقے کی سب سے بڑی، نئی خوبصورت جامع مسجد ہے
جامع مسجد راجہ مبارک شاہ:پرانی بستی،متعلقہ الجامعۃ الاشرفیہ۔(تعمیر جدید ۱۳۷۰ ھ ۱۹۵۱ء)
عید گاہ ، شاہ کا پنجہ، حیدر آباد: صدیوں پرانی تاریخی مسجد ہے۔
عید گاہ علی نگر: یہ قدیم تاریخی مسجد ہے
قادری جامع مسجد: علی نگر
عزیزی جامع مسجد: علی نگر
مسجد حافظ ملت (مسجد کمال بابا:پرانی بستی، اسی مسجد میں حافظ ملت علیہ الرحمہ ، نماز ادا فرماتے تھے ،اور اُنھیں کے نام سے یہ مسجدمشہور ہے۔
مسجد برکات: پرانی بستی
کنگرہ مسجد :پرانی بستی، یہ مسجد حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ کے پڑوس میں ہے، جب وہ رہتے، اسی کنگرہ والی مسجد میں نماز ادا فرماتے۔
مسجد بلال :لال چوک، پرانی بستی
مدینہ مسجد: لال چوک، کھجوا،پرانی بستی
مسجد عائشہ صدیقہ: کھجوا ،پرانی بستی
مسجد سبزی منڈی :گولہ بازار
مسجد نادرجی : پورہ خواجہ، حضرت ممتاز العلما علیہ الرحمہ جب رہتے تو اسی مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے۔
مسجد طیبہ :پورہ خواجہ
مسجد اعلی حضرت :کٹرہ
جامع مسجد: کٹرہ
مسجد حفصہ: کٹرہ
مسجد غوث الوری :نئی بستی ،کٹرہ
مسجد عمر فاروق :پورہ دیوان
جامع مسجد مبارک بابا: پورہ رانی
مسجد غوثیہ :پورہ رانی
جامع مسجد بیلوریا: پورہ صوفی
مکہ مسجد :پورہ صوفی
مدینہ مسجد: پورہ صوفی
پانا شاہ مسجد : پورہ صوفی
جامع مسجد سبحانی: حیدرآباد
جامع مسجد صدیق اکبر:پورہ دولھن، متعلقہ الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور
جامع مسجد: پورہ باغ
جامع مسجد عائشہ: حیدرآباد
جامع مسجد بیت المکرم: نیا پورہ،
وغیرہ
مبارک پور کی چند مشہور انجمنو ں کے نام
۱۔انجمن اہل سنت و اشرفی دار المطالعہ: (قیام ۱۳۵۵ھ؍۱۹۳۶ء)یہ دارالعلوم اشرفیہ کے طلبہ کی قائم کردہ سب سے قدیم انجمن ہے، اسی انجمن کے زیرِ اہتمام مبارک پور میں عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جلسہ وجلوس کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔
۲۔انجمن رحمانیہ:پرانی بستی
۳۔انجمن غوثیہ: پرانی بستی
۴۔ انجمن مظہر حق: علی نگر
۵۔انجمن اسلامیہ:لال چوک ، پرانی بستی
۶۔انجمن فیضان عزیزی:پورہ خواجہ
۷۔ انجمن مظلومیہ: پورہ خضر
۸۔انجمن رونقِ اسلام:پورہ باغ
۹۔انجمن ملتِ اسلامیہ: پورہ صوفی
۱۰۔انجمن اخلاقیہ: حیدرآباد
۱۱۔ انجمن تنویر الاسلام: نیا پورہ
۱۲۔انجمن عزیزیہ: پورہ صوفی
۱۳۔انجمن گلزارِ مصطفی: پولیس چوکی
۱۴۔انجمن غنچۂ ہاشمیہ: پورہ صوفی
۱۵۔تنظیم ادب:کٹرہ
۱۶۔انجمن فروغِ اسلام: پورہ دیوان
۱۷۔انجمن باغِ رسول: گولہ بازار
۱۸۔انجمن باغِ فردوس: گولہ بازار
۱۹۔انجمن فیضان مصطفی: پورہ دیوان
۲۰۔انجمن قادریہ: علی نگر
۲۱۔انجمن اظہار اشرف: پورہ صوفی
۲۲۔انجمن گلشنِ رضا: پورہ دولھن
وغیرہ۔
چند اسپتالوں کےنام
سرکاری اسپتال: مبارک پور
اشرفیہ ہاسپیٹل: جامعہ اشرفیہ (یونیورسیٹی)
اسلامیہ ہاسپیٹل :(یتیم خانہ) پورہ ، خضر
محمدی ہاسپیٹل:کٹرہ
صبا ہاسپیٹل :سمودھی ،نیا پورہ
وغیرہ
دعا ہےکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا یہ علمی نگر شاد وآباد رہے اوراللہ عزوجل مسلمانان مبارک پور کو خوش حال وسلامت رکھے ۔ آمین ،بجاہ حبیہ سید المرسلین، علیہ وعلی اٰلہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم

احمد القادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
مآخذ و مراجع
ذاتی مشاہدات
زبانی معلومات ازجناب حافظ ہلال احمد صاحب، پرانی بستی و دیگر احباب
حیاتِ حافظ ملت
ماہنامہ اشرفیہ، مبارک پور
مناقبِ غوثی
تذکرہ ٔعلمائے مبارک پور
آزاد دائرۃ المعارف ، اردو ، ویکی پیڈیا
دیگرانٹر نیٹ ؍ ویب سائٹس

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

فلسفہ کیا ہے ؟ از احمد القادری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ ربِّ العٰلَمین ، والصّلٰوۃ والسّلام علی سیِّد الانبیآء والمرسلین ، وعلی آلہٖ واصحابہٖ اجمعین۔

احمد القادری

فلسفہ اوراس کی شرعی حیثیت

فلسفہ لغۃً حکمت، مسائل علمیہ میں غور وفکر اوراصطلاح میں، انسانی طاقت بھر موجودات کےاحوال کاعلم۔
جوجتناہی زیادہ اشیا کا جانکار ہوگا،وہ اتناہی بڑا حکیم اور فلسفی ہوگا۔ حکمت ودانائی خداوندبرترنے انسان کے اندر ودیعت رکھی ہے۔ اور جب سے بنی نوع انسان موجود ہیں اسی وقت سے فلسفہ وحکمت بھی ہے۔ اوریہ علم سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کوعطا کیاگیا۔ ارشاد ربانی ہے:
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّہَا (البقرہ،۲،آیت:۳۱)
رب نے آدم کوتمام اشیا کے نام سکھادیے۔
پھرانسان کوعلومِ انبیا وراثت میں ملے۔ توجس نے جتنا محفوظ کیا اوراس میں نظر وفکر سے کام لیا، وہ اتناہی بڑا حکیم ہوا۔اس نظر وفکر میں بعض غلط راہ پر بھی لگ گئے ،اس لیے اختلاف پیدا ہوا۔
پہلے یہ علوم مدوّن نہیں تھے اور نہ ان کی اصطلاحات موضوع تھیں۔ اس میں اہل یونان نےپہل کی، اس لیے وہ موجد کہلائے۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں، ان کے اندر فلسفہ سے دلچسپی زیادہ بڑھی اور انھوں نے اس کی تدوین کی، اس لیے اس فلسفہ کو فلسفۂ یونانی کہاگیا اور یونان کواس کا مرکز تسلیم کرلیاگیا۔
فلسفہ کادَور ِاوّل
یونانی فلسفہ کابانی طالیس ملیطی، (ولادت:۶۴۰؍ ق م- وفات ۵۴۸ ق م) کو کہاجاتاہے۔ اساطین حکمت میں ابیذقلس، فیثاغورس (۵۷۶-۴۹۶ ق م) کےبعد سقراط (۴۷۰- ۴۰۰ ق م) افلاطون (۴۲۸-۳۴۸ ق م) اور ارسطو (۳۸۴- ۳۲۱ ق م) کوشمار کیاجاتاہے۔ آخرالذکر ہی نے علم منطق سکندررومی کےحکم سے ،فلسفہ سے الگ کرکے تدوین کیا، اس لیے وہ معلم اوّل کےلقب سے مشہور ہوا۔ ارسطو کےبعد بھی یونان میں عرصہ تک فلسفہ کا عروج رہا۔ اور بہت سے فلاسفہ پیداہوئے۔ لیکن جب یونانی حکومت زوال پذیر ہوگئی، رومی یونان پرغالب ہوگئے اورانھوں نے دین مسیحی قبول کرلیا، تب شرعاً فلسفہ پرپابندی لگادی گئی اورہرایک کواس کےسیکھنے سکھانے سے منع کردیاگیا۔شاہ قسطنطین نے تمام یونانی کتابیں جمع کرکے ایک بڑے کمرے میں مقفل کردیں۔( تاریخ اسلام)
دَورِ دوم
مدتوں فلسفہ کی تعلیم بند رہی۔ جب اسلام کا عروج ہوا ،اور مسلمانوں نے قرآن وحدیث کے علاوہ دوسرے علوم کی طرف بھی توجہ کی ، تو قسم قسم کے علوم اختراع کیے۔ اورانھیں تکمیل تک پہنچایا۔ مثلاً اصول تفسیر، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، نحو، صرف، بلاغت، عروض وقوافی، تاریخ، فرائض، کلام، تصوف وغیرہ۔
ان کو علوم کی طرف بڑھتی ہوئی یہی دلچسپی معقولات کی طرف بھی کھینچ لائی۔ ان میں اول خالد بن یزید بن معاویہ ہیں جنھوں نے علوم فلسفہ، یونانی زبان سے عربی میں منتقل کیے۔ بنی عباس کےدورِ خلافت میں اس کی ترقی شروع ہوئی۔ مامون (۱۹۸- ۲۱۸ھ) نےبھر پور اس پر توجہ صرف کی اورفلسفہ کوبام عروج تک پہنچایا۔(تاریخ اسلام )
اس نے ایک بار قیصر روم کے پاس لکھا کہ فلسفہ کی تمام کتابیں میرے پاس بھیج دو۔ قیصر نے تلاش شروع کی توایک خانقاہ نشین راہب نے پتابتایا کہ فلاں مقام پرایک مقفل مکان ہے، جس میں قسطنطین نے تمام یونانی کتابیں بند کرادی تھیں، پھر راہب سے مسلمانوں کےپاس کتابیں بھیجنےکےبارے میں شرعی حیثیت پوچھی تو تجربہ کار راہب نےجواب دیاکہ بھیجنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ثواب ملے گا، کیوں کہ یہ چیزیں جس مذہب میں داخل ہوئیں اس کی بنیادیں ہلادیں، چناں چہ مقفل خزانہ کھولا گیا، اس میں بےشمار قدیم یونانی کتابیں نکلیں ،وہ سب مامون کے پاس بھیج دی گئیں۔( تاریخ اسلام)
مامون نےان کا ترجمہ کرانا شروع کردیا۔ ترجمہ کرنے والے کومترجَم کتاب سے تول کرسونادیتا۔ اس کی اس قدر دانی نےاس انحطاط پذیر بلکہ قدیم وبوسیدہ فلسفہ کوپھر سے شباب بخش دیا۔
دَورِ سوم
چوں کہ بہت سے مترجمین نے مل کران کتابوں کاترجمہ کیا تھا اس لیے ان میں باہم بڑا اختلاف تھا، خلیفہ منصور بن نوح سامانی نے عظیم فلسفی فارابی (م ۳۳۹ھ) سے ان کی تلخیص وتہذیب کی فرمائش کی۔ فارابی نےان کتابوں کوسامنے رکھ کرایک نئی کتاب ”تعلیم ثانی“ ترتیب دی، اس لیے اسےمعلم ثانی کہاجاتاہے۔اب یہی کتاب فلسفہ کامرجع ہوگئی۔ فارابی مسلمانوں میں سب سے بڑا فلسفی گزرا ہے۔
سلطان مسعود کےزمانہ میں ایک بار” کتب خانہ“ میں آگ لگ گئی۔ بہت سی کتابوں کےساتھ تعلیم ثانی بھی جل گئی۔ اب شیخ بوعلی سینا (م ۴۲۸ھ) نے ”شفا“ لکھی جوآج منطق وفلسفہ میں سب سے بڑے درجے کی کتاب مانی جاتی ہے۔ شیخ بہت ذہین تھا جوبھی کتاب ایک بار دیکھ لیتا اسے حرف بحرف زبانی یاد ہوجاتی۔ اس کی ”شفا“ تعلیم ثانی کاخلاصہ ہے۔ لہذا شیخ کو معلم ثالث کہاگیا۔
اس کے بعد بھی مسلمانوں میں بہت بڑے بڑے فلاسفہ پیدا ہوئے اورانھوں نے بےشمار کتابیں تصنیف کیں۔
دَورِچہارم
جب زمانۂ خلافت ختم ہوگیا، مسلمانوں کی حکومتیں متزلزل ہوگئیں، علم وتمدن اس سے عہدہ برآنہ ہوسکے،فلسفہ بھی انحطاط پذیر ہوگیا۔ یہاں تک کہ اہلِ اسلام سے علومِ حکمت اُٹھ کر اہل مغرب میں چلے گئے، انھوں نے ان کو خوب ترقی دی۔ فلسفۂ قدیمہ کےاندر ریسرچ کی۔ اس کی بہت سی باتوں کوصحیح اورکچھ اقوال غلط ثابت کرکے نئی تحقیق کی۔ اوراس کانام فلسفۂ جدید یا سائنس رکھا۔
آج علم حکمت ان کے یہاں انتہائی عروج وکمال کی منزلیں طے کررہاہے۔ اور ہمارے یہاں اپنی غریبی، مفلسی، اور ناقدردانی کا رونا رورہاہے۔
فلسفہ کی شرعی حیثیت
شرعی اعتبار سے فلسفہ کی تین قسمیں ہیں:
(۱) شریعت کے مخالف (۲) شریعت کے موافق (۳) اس کے موافق نہ مخالف۔
حجۃ الاسلام امام غزالی نےجوعلوم عقلیہ ونقلیہ دونوں کے جامع تھے اپنی تصنیف ”المنقذمن الضلال“ میں اس تعلق سے جو لکھاہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
ارسطو کےمباحث جوہم تک پہنچے ہیں ہم انھیں تین قسموں پرمنقسم کرسکتے ہیں:
(۱) ایسے مباحث جن کی بنیاد پران کی تکفیر ضروری ہے۔
(۲) وہ مباحث جن سے ان کی بدمذہبی ثابت ہوتی ہے۔
(۳) وہ مباحث جن سے انکار کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
مقصد وغایت کےاعتبار سے فلسفہ کی چھ قسمیں ہیں:
(۱) منطقیات (۲) ریاضیات (۳) سیاسیات (۴) طبعیات (۵) الٰہیات (۶) اخلاقیات۔
(۱-۲) منطق وریاضی: ان کاشریعت سے اثباتاً نفیاً کوئی تعلق نہیں۔
(۳) سیاست: یہ امور حکومت وسلطنت سے متعلق ہے، وہ موجودہ دَور کی سیاست کی طرح نہیں بلکہ اگلے صحیفوں اور اولیاےسلف کی حکمتوں سے ماخوذ ہے اس لیے مہملات سے عموماً پاک ہے۔
(۴) طبعیات: اس کی دوقسمیں ہیں:
ایک تو وہ جن کاانکار لازم نہیں، جیسے عالم سماوات کےاجسام وکواکب ان کے ماتحت اجسام مفردہ مثلاً پانی،ہوا، خاک، آگ۔ یوں ہی اجسام مرکبہ مثلاً حیوانات، نباتات، معدنیات، نیز ان کے تغیرات واستحالات اورامتزاج کےاسباب۔ جس طرح علم طب میں انسان کےجسم اوراس کےمزاج کے تغیرات سے بحث کی جاتی ہے اورکسی مسلمان کےلیےعلم طب کے مباحث کی تردید داخل ایمان نہیں۔ اسی طرح طبعیات کےان مباحث کاانکار بھی لازم اسلام نہیں۔
البتہ یہاں بھی چند مباحث ایسے آئے ہیں جوحق صریح کےخلاف ہیں، ان میں سے بعض کاذکر کیاجارہاہے۔
[تفصیل کےلیے تَہافُت الفلاسفہ از امام غزالی اور الکلمۃ الملہمۃ از امام احمدر ضا قدس سرہ کامطالعہ کریں۔]
ہاں! ان کی تردید کے لیے مسلمانوں کو یہ عقیدہ اچھی طرح جمالینا چاہیے کہ طبیعت اللہ جل شانہ کے حکم کے تابع ہے، اپنی جانب سے وہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتی، بلکہ اس خالق وپروردگار نے جس کوجس کام پر لگادیاہے اسی میں مصروف ہے۔
فلسفی زمانہ ، گردش فلک اورموالید (مادہ) کی انواع کوقدیم مانتے ہیں، یہ عقائد حقہ کےخلاف ہے ،ملت اسلامیہ میں ذات وصفات الٰہی عز جلالہ کےسوا کوئی شَے قدیم نہیں، سب حادث ہیں۔
مضحکہ خیز بات تویہ ہے کہ فلسفی، گردش فلک ،مادہ ،وغیرہ کےاشخاص وافراد ،سب کو حادث کہتے ہیں ،مگر طبیعتِ کلیہ کوقدیم مانتے ہیں۔ مثلاً فلک کے سب دورے حادث ہیں کوئی خاص دورہ، ازل میں نہ تھا مگرہیں ازل سے۔ یہ صراحتاًکیسا جنون ہے؟
(: الکلمۃ الملہمہ،ص: ۶۷ )
فلک، خرق والتیام قبول نہیں کرسکتا
یہ شرعاً باطل ہے، اس لیے کہ کثیر نصوص قطعیہ اس بات کےشاہد ہیں کہ روز قیامت آسمان پارہ پارہ ہوجائےگا۔
فلاسفہ اسے محال کہتے ہیں، اور ان کے فضلہ خوار نیچری وغیرہم اسی بناپر معراج جسمانی کے منکر ہیں۔(: الکلمۃ الملہمہ،ص: ۶۷ )
فلکیات میں ان کےبہت سے اور مزید مُزَخرفات ہیں جن کی یہاں گنجائش نہیں۔
(۵) الٰہیات
اس علم میں فلاسفہ نےبڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ لطف کی بات تویہ ہے کہ علم منطق میں براہین ودلائل کے لیے جوشرطیں قائم کی تھیں انھیں یہاں نبھا نہ سکے اسی لیے ان میں باہمی اختلاف بھی بکثرت پائےجاتے ہیں۔
الٰہیات میں فلسفیوں کے اغلاط کثیرہ ہیں، جن میں جمہور اہل اسلام کی مخالفت کی گئی ہے۔
(۱) اجسام کاحشر نہیں ہوگا:
یعنی روز قیامت یہ اجسام اٹھائے نہ جائیں گے بلکہ ثواب وعذاب صرف ارواح پرہوگا۔ یعنی یہ سزائیں صرف روحانی ہوں گی،جسمانی نہ ہوں گی۔
حالاں کہ روزقیامت اجسام کاحشر ہوگا اورعذاب وثواب روح وجسم دونوں پرہوگا۔ یہ کثیر نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ کلیات کاعالم ہے جزئیات کا نہیں
(معاذاللہ) یہ بھی صریح کفرہے۔ اس لیے کہ حق یہی ہے کہ باری تعالیٰ کےعلم سے زمین وآسمان کا کوئی ذرہ بھی غائب نہیں۔ خود قرآن مجید کا ارشاد گرامی ہے:
لَا يَعْزُبُ عَنہُ مِثْقَالُ ذَرۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ (السبا:۳۴،آیت:۳)
اس سے غائب نہیں ذرہ بھر کوئی چیز، آسمانوں میں اور نہ زمین میں(کنزالایمان )
اوراللہ کی بات سے بڑھ کر کس کی بات سچی ۔ وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِيْلًا( النساء:۴، آیت:۱۲۲ )
(۳) تمام جہان ازلی اور قدیم:
یعنی حادث نہیں ،ہمیشہ سے یوں ہی چلاآرہاہے۔
فلاسفہ کے یہ تین، تو وہ کفری عقائد ہیں جن کااسلامی فرقوں میں سے کوئی فرقہ بھی قائل نہیں۔(المنقذ من الضلال،ملخصاً )
(۴) مبدأ واحدسے ایک ہی صادرہوگا
اس قول باطل کی بنا پر،فلاسفہ اس خلاق علیم کو،صرف ایک شَے، عقل اوّل کاخالق مانتے ہیں، باقی تمام جہان کی خالقیت عقول کےسرمنڈھتے ہیں۔
حالاں کہ اللہ واحد قہار ایک اکیلا خالق جملہ ٔعالم ہے۔ خالقیت میں عقول وغیرہا کوئی نہ اس کاشریک، نہ ان کاتخلیق میں واسطہ ، ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللہ ( فاطر:۳۵، آیت:۳ ) کیااللہ کےسوا اوربھی کوئی خالق ہے۔ (کنزالایمان )
(۵) فاعل دو متساویوں میں اپنی طرف سے ترجیح نہیں کرسکتاطبیعت جب تک خود اس کی مقتضی نہ ہو یہ قول بھی باطل ہے۔
کیوں کہ قادر مطلق خود فاعل مختار ہے:
يَفْعَلُ اللّٰہُ مَا يَشَآء(ابراہیم:۱۴، آیت:۲۷- )
اللہ جوچاہے کرے۔(کنزالایمان )
فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ ( البروج:۸۵،آیت:۱۷)
ہمیشہ جوچاہے کرنے والا۔(کنزالایمان )
لِّلہِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا ( الرعد:۱۳،آیت:۳۱) سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہیں (کنزالایمان )
یوں ہی فعل انسانی میں بھی آدمی اپنے ارادے کودیکھ رہاہے، کہ بے کسی مُرَجَّح کے، آپ ہی اختیار کرلیتاہے۔
مثلاً دو جام یکساں صورت ایک نظافت کے ہوں اوردونوں میں یکساں پانی بھرا ہو اور برابر کی دوری پرہوں، یہ پینا چاہے ان میں سے جسے چاہے اٹھالے گا۔ مطلوب تک دو راستے برابر ویکساں ہوں جس پر چاہے چلےگا۔ ایک طرح کے دو کپڑے ہوں جسے چاہے گا پہنے گا۔
پھر اس فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ کے ارادہ کا کیاکہنا۔
(۶) اخلاقیات
یہ صوفیۂ کرام کےاقوال سے ماخوذ ہے ان کواپنے مجاہدات میں نفس کے جو محاسن وفضائل اورعیوب ورذائل روشن وہویدا ہوئے ان حضرات نے بیان وتحریر کیا۔ فلاسفہ نے ان سے کچھ اصولی باتیں لے کر اپنے کلام باطل میں ملادیں تاکہ اس پاکیزہ کلام کے ذریعہ اپنے کلام باطل کو رواج دیں۔
یہ بات کبھی نہ بھولیے کہ فلاسفۂ قدیم کے زمانہ میں بھی حق کے متوالوں کایہ گروہ موجود تھا بلکہ ان کے وجود سے تو زمانہ کبھی خالی نہ رہا، انھیں کی برکتوں سے رحمتوں کانزول ہوتاہے۔
حدیث میں وارد ہے: بِھِمْ یُمْطَرُوْنَ وَبِھِمْ یُرْزَقُوْنَ انھیں اولیاے الٰہی کےطفیل لوگوں پر مینہ برسایاجاتاہے اورانھیں کےطفیل رزق دیاجاتاہے۔ انھیں اولیا میں سے اصحاب کہف بھی ہیں۔ (المنقذ من الضلال،ملخصاً )
بعض ضعیف الاعتقاد جب گرامی بزرگوں کاکلام ان فلسفیوں کی تحریرات میں مخلوط دیکھتے ہیں اور دودھ کادودھ اورپانی کاپانی الگ کرلینے میں قدرت نہیں پاتے تو وہ تمام مباحث کو یکساں گمان کرتے ہوئے انکار کربیٹھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں پہلے سے راسخ ہے کہ فلاسفہ اہل باطل ہیں، اور ان کاکلام بطلان پر مبنی ہے۔
یہ بات بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی مسلمان کسی نصرانی سے سنے لَااِلٰہ ِالَّا اللّٰہُ عِیْسیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ اور اس کاانکار کربیٹھے اوربلا توقف کہے کہ یہ نصرانی کا کلام ہے مجھے قبول نہیں۔
حالاں کہ ان کی تکفیر کی وجہ وہ قول نہیں، بلکہ انھیں کافر اس لیے کہاجاتاہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے منکر ہیں۔
( المنقذ من الضلال،ملخصاً)
گزشتہ صفحات سے بخوبی واضح ہوگیا کہ پورا فلسفہ باطل ہے نہ حق ہے۔ بلکہ بعض اس کے مباحث درست وصحیح ہیں بعض خلاف شرع اورباطل ہیں۔ اس لیے اگر ایسا شخص اسے پڑھے جوحق وباطل کےدرمیان امتیاز کرکے حق کو اخذ کرلے اورباطل کی تردید کرے تو جائز ومستحسن ہے۔
اب ذیل میں تحصیل فلسفہ کی چند شرطیں ذکر کی جاتی ہیں جوان شرائط کاحامل ہوگا تو امید ہے کہ فلسفہ کی ضلالت سے محفوظ رہے گا۔
تعلیم فلسفہ کے شرائط
(۱) انہماک فلسفہ نے معلم کے نورقلب کومنطفی نہ کیاہو۔
(۲) معلم عقائد اسلام میں بروجہ کمال واقف وماہر ہو۔ اثبات حق اورابطال باطل پربعونہٖ تعالیٰ قادر ہو۔
(۳) وہ اپنی اس قدرت کوہرسبق کے،باطل مقام پراستعمال کرتاہو، اور ہر مسئلہ باطلہ کابطلان متعلم کےذہن نشین کراتاہو۔
(۴) متعلم ومعلم کےدل میں فلسفۂ ملعونہ کی عظمت ووقعت بالکل نہ ہو۔
(۵) متعلم کاذہن سلیم اور طبیعت مستقیم ہو۔(بعض طبیعتیں خواہی نخواہی اباطیل کی طرف جاتی ہیں) کما قال اللّٰہ تعالیٰ:
وَ اِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوہُ سَبِيْلًا، وَ اِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۔(الاعراف:۷،آیت:۱۴۶)
اگر ہدایت کی راہ دیکھیں اس میں چلنا پسند نہ کریں، اور گمراہی کاراستہ نظر پڑے تواس میں چلنے کوموجود ہوجائیں(کنزالایمان)
(۶) نیت صالح ہو۔
(۷) تنہااس پر قانع نہ ہو بلکہ دینیات کےساتھ اس کاسبق ہو۔(فتاویٰ رضویہ،جلد:دہم-ملخصا )
علم فلسفہ کی اصطلاحات
فلسفہ کی تعریف: متوسط انسانوں (یعنی حُکَما، نہ انبیاےکرام) کی طاقت بھر موجودات واقعیہ کے احوال کاعلم، حکمت اور فلسفہ کہلاتاہے۔
موضوع: موجودات واقعیہ کے احوال ۔
غایت: نفس کی قوت نظری اور قوت عملی کی تکمیل۔
اقسام: فلسفہ کی دوقسمیں ہیں (۱) نظری (۲) عملی
فلسفۂ نظری: ایسے امور کے احوال کا علم، جن کا وجود ہماری قدرت واختیار میں نہیں۔ جیسے باری تعالیٰ، اس کی صفتوں اور آسمان وزمین وغیرہ سے متعلق علم۔
فلسفۂ عملی: ایسے امور کے احوال کےعلم، جن کاوجود ہماری قدرت واختیار میں ہے۔ جیسے عدل کے اچھے اورظلم کے برے ہونے کاعلم۔
غایتِ نظری: جوامور ہماری قدت میں نہیں، ان سے متعلق علم کے حصول سے قوت نظری کی تکمیل۔
غایتِ عملی: جوامور ہماری قدرت میں ہیں، ان سے متعلق علم کے حصول سے قوت نظری کی تکمیل، پھر ان کوعمل میں لانے سے قوتِ عملی کی تکمیل۔
فلسفۂ نظری کی تین قسمیں ہیں:
(۱) الٰہی (۲) ریاضی (۳) طبعی
الٰہی: ایسے امور سے متعلق علم نظری ،جواپنے وجودِ ذہنی اورخارجی دونوں میں مادہ کےمحتاج نہ ہوں۔جیسے معبودبرحق، اس کی صفتوں اوروجود وامکان وغیرہ سے متعلق علم۔
ریاضی: ایسے امور سے متعلق علم نظری جواپنے وجود خارجی میں مادہ کے محتاج ہوں اوروجود ذہنی میں مادہ کے محتاج نہ ہوں۔ جیسے کرہ، مثلث، مربع وغیرہ سے متعلق علم۔
طبعی: ایسے امورسے متعلق علم نظری جواپنے وجود خارجی اورذہنی دونوں میں مادہ کےمحتاج ہوں۔ جیسے انسان، حیوان، نباتات، جمادات وغیرہ سے متعلق علم۔
فلسفۂ عملی کی بھی تین قسمیں ہیں
(۱) تہذیبِ اخلاق (۲) تدبیرِمنزل (۳) سیاست مَدَنِیَّہ
تہذیبِ اخلاق: وہ علم عملی ہے جوکسی ایک شخص کی مصلحتوں سے متعلق ہو۔ جیسے یہ علم ،کہ سچ بولنا اچھاہے،جھوٹ بولنا بُرا ہے۔
تدبیر ِمنزل: وہ علم عملی ہے جوکسی خاندان کی مصلحتوں سے متعلق ہو، جیسے اولاد کی تربیت، ماں باپ کی خدمت، رشتہ داروں کے حقوق کی رعایت وغیرہ سے متعلق علم۔
سیاست مَدَنِیَّہ: وہ علم عملی ہے جوکسی شہر یاملک کی مصلحتوں سے متعلق ہو،جیسے اس بات کاعلم کہ عدل حسن ہے، ظلم قبیح ہے۔
فلسفۂ عملی: شریعت اسلامیہ کےآنے کے بعد متروک ہوگیا۔ اس لیے کہ اسلام نے تہذیبِ اخلاق، تدبیرِمنزل، اورسیاست وحکومت سے متعلق جوجامع اورمکمل دستورِ عمل پیش کردیا ،اس کے سامنے تعلیمِ فلاسفہ کی حاجت نہ رہی۔
علم ریاضی: مفیدہے مگراب وہ مستقل فن کی حیثیت سے ممتاز ہوچکاہے اوراس پر الگ سے کافی کتابیں لکھی جاچکی ہیں، اس لیے مصنف نے فلسفۂ عملی کے ساتھ ریاضی کو بھی ترک کردیا، اوراپنی کتاب تین قسموں پر رکھی:

(۱) منطق: کیوں کہ وہ حصولِ علم کاآلہ وذریعہ ہے۔ (۲) طبعی (۳) الٰہی۔
کتاب کی قسم اول (منطق) نابود ہوگئی۔ قسم دوم (طبعی) اور قسم سوم (الٰہی) موجود ہیں۔
(ماخوذ: از شرح ہدایۃ الحکمۃ وہدیہ سعیدیہ )
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیںفلسفہ کی غلط باتوں سے بچنے، حق و ناحق میں امتیاز کرنے، اور قرآن وسنت کے سارے فرامین دل وجان سے ماننے اور ان پر ہمیشہ عمل پیرا رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، بجاہ حبیبہ سیدالمرسلین علیہ الصلوۃ والتسلیم ۔
احمد القادری

الاسلامی.نیٹ
WWW.ALISLAMI.NET

امریکا میں تبلیغ اسلام کےلیے راہیں ہموار

امریکہ میں تبلیغ اسلام کےلیے راہیں ہموار

[اس وقت پوری دنیا میں اسلام اورمسلمان موضوعِ بحث ہیں، نائن الیون کے بعد سے، عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے جوحالات پیداہوئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ مبصرین کےمطابق ان تمام حالات کے پس پردہ ،بہت حد تک امریکہ کا رول رہاہے، ایسے حالات میں امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کاکیاحال ہوگا؟ وہ کس طرح زندگی گزار رہےہوں گے؟ حکومت کاان کےساتھ کیسا رویہ ہوگا؟ ان تمام حالات سے آگاہی کےلیے لوگوں میں دل چسپی پائی جاتی ہے،چناں چہ برسوں سے امریکا کی سرزمین پر دینی خدمات انجام دینے والے عالم دین حضرت مولانا احمدالقادری مصباحی سے،(مولانا) افضل مصباحی (ایڈیٹر ماہ نور) نے خصوصی بات چیت کی ،ذیل میں پیش ہیں گفتگو کےمخصوص اقتباسات۔ ] (۲۰۰۶ ءکا انٹریو)

قارئین: ماہ نورکوآپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔
٭ میرانام احمدالقادری ہے۔ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور،اعظم گڑھ سے تعلیم حاصل کی ہے،اِس وقت دارالعلوم عزیزیہ،پلینو امریکا میں دینی خدمات انجام دے رہاہوں۔
کس زمانے میں آپ نے اشرفیہ میں تعلیم حاصل کی؟
٭ ۱۹۸۳ء میں اشرفیہ سے میری فراغت ہوئی تھی۔
آپ کےکچھ ایسے ساتھی جو دینی خدمات میں مصروف ہیں؟
٭الحمدللہ میرے کئی ایک ساتھی ہیں،جواہم دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں مولانا بدرعالم مصباحی جوالجامعۃ الاشرفیہ میں استاذ ہیں۔مولانا فروغ احمدقادری مصباحی جودارالعلوم علیمیہ جمداشاہی میں ہیں۔ مولاناشفیق الرحمٰن بستوی جواس وقت ہالینڈ میں دینی خدمات انجام دےرہے ہیں اورحافظ ابراہیم گجراتی جوانگلینڈ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ کےاساتذہ؟
٭جن سے میں نےسب سے زیادہ کتابیں پڑھیں ہیں، وہ ہیں میرے بڑے بھائی ، علامہ محمداحمدمصباحی صاحب،انھوں نے میزان سے لےکر سادسہ تک کی کتابیں بڑے خلوص کےساتھ پڑھائیں۔ فیض العلوم محمدآبادگوہنہ میں ،میں نے مولانانصراللہ رضوی مصباحی اورمولاناامجدعلی قادری سے تعلیم حاصل کی۔حفظ کےاساتذہ میں حافظ جمیل احمدقادری اورحافظ و قاری نثار احمدعزیزی ہیں جبکہ اشرفیہ میں محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفےٰ صاحب،بحرالعلوم علامہ مفتی عبدالمنان صاحب، علامہ عبدالشکور صاحب، مولاناعبداللہ خاں عزیزی صاحب، مولانااعجاز احمد صاحب مبارک پوری،مولانااسرار احمد صاحب،مولانانصیرالدین صاحب، مولانا قاری ابو الحسن صاحب وغیرہ ہمارے اساتذہ رہے ہیں۔
آپ نے تدریسی خدمات کہاں کہاں انجام دیں؟
٭اشرفیہ سےفراغت کےبعد ۱۹۸۳ء میں دارالعلوم قادریہ چریاکوٹ میں تدریسی فریضہ انجام دیا۔
۱۹۸۴ء میں مدرسہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد میں تعلیم دی۔
۱۹۸۵ء سے پانچ سال تک مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم بنارس میں پڑھایا۔بنارس کے بعد ۱۹۹۱ء میں اشرفیہ مبارک پور میں بحیثیت مدرس میری تقرری ہوئی،چارسال تک وہاں تدریسی فریضہ انجام دیا۔۱۹۹۵ء میں، افریقہ جاناہوا ،جہاں میں دوسال رہا،دوسال بعد میں امریکا پہنچا اوراُس وقت سے وہیں خدمات انجام دے رہاہوں۔
امریکا میں مسلمانوں کے لیے کیسے حالات ہیں؟
٭امریکہ میں جو مسلمان ہیں، وہ وہاں رہ کرجوچاہیں دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں، اس کےلیے حکومت کی طرف سے پوری آزادی ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جیساکہ ہم نے دیکھاہے، کہ وہاں اگرکوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتاہے، تواس پر بھی حکومت کوکوئی اعتراض نہیں ہوتا ،اور نہ ہی اس کے کسی گھر والے کو۔ ابھی ہمارے ہی دارالعلوم (عزیزیہ امریکا)میں ایک طالب علم پڑھتاہے، جس کے والدین عیسائی ہیں اور وہ لڑکا مسلمان ہوچکاہے۔ وہ کالج میں بھی پڑھتاہے، اور میرے ادارے میں بھی پڑھنے آتاہے۔ وہ اسلام سیکھ رہاہے۔ اس کے والدین جوعقیدے کےاعتبار سے عیسائی ہیں اور اتنے پکے عیسائی ہیں کہ خود اس کے والدکو بھی داڑھی ہے۔ان کو اپنے لڑکے کے اسلام قبول کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس وہ لوگ ایک دن یہ دیکھنے آئے تھے کہ میرا بچہ کہاں جاتاہے اور کیاپڑھتاہے؟ اس طرح وہاں کوئی پابندی نہیں ہے۔اسی طریقے سے کالج اوریونیور سٹیز میں اسلامی لباس میں، جو بچے جاناچاہیں، انھیں مکمل آزادی ہے، جیسے خود ہی میرا بچہ کرتا،پائجامہ اورٹوپی میں ہی جاتاہے، لیکن اس پرکبھی کسی نے کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اسی طرح سے وہاں جوبچے اوربچیاں اسلامی لباس میں جاناچاہیں ،انھیں پوری آزادی حاصل ہے۔ نماز کی ادائیگی کےلیے باضابطہ چھٹی دی جاتی ہے۔ ہم نےجب اپنے بچے کےلیے درخواست دی ،کہ ظہر کی نماز اداکرنے کی مہلت دی جائے ،توان لوگوں نے نہ صرف اجازت ہی دی ،بلکہ اس کے لیے روم بھی دیا۔ اسی طرح اسے جمعہ کی نماز کے لیے بھی چھٹی ملتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی اسلام کےاصولوں پر عمل کرناچاہے، تواسے مکمل آزادی ہے۔ اسی طرح دارالعلوم ،مدارس، اسلامی ویب سائٹ اوراسلامی آرگنائیز یشن وغیرہ کھولنے کی بھی پوری آزادی ہے۔ساتھ ہی نان پرافٹ(Non Profit) کی جوحیثیت وہاں چرچ کودی جاتی ہے، اسی طرح مسجد کوبھی دی جاتی ہے۔ اس پر کوئی ٹیکس وغیرہ نہیں ہے اس لیے جہاں تک تعصب کاسوال ہے تواسلام کے تعلق سے جوتعصب ہندوستان میں ہے ،میں نے اس سے کم تعصب امریکامیں دیکھاہے۔
امریکہ کےکس علاقے میں آپ تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں؟
٭صوبے کانام ٹیکسس ہے ،جوبڑاشہر ہے وہ ڈیلاس ہے، اور ہمارے شہر کانام پلینو ہے۔ وہاں دارالعلوم عزیزیہ ہے جس میں میں کام کررہاہوں۔
آپ جہاں رہتے ہیں وہاں مسلمانوں کی آبادی کاتناسب کیاہے؟
٭تناسب کےاعتبار سے مسلمان تقریباً دو فیصد ہیں ،ویسے ہم جس شہر میں رہتے ہیں وہاں ایک لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔
مذہب کی طرف مسلمانوں کی کتنی رغبت ہے؟
٭مسلمانوں میں مغربیت زیادہ غالب آگئی ہے ،جیسے ہندوستان میں بھی ،دینی رجحانات والے کم ہیں ،دینی تعلیم حاصل کرنے والے بھی کم ہیں ،اِسی طرح وہاں بھی ایساہی ہے۔ البتہ جولوگ بھی دینی مزاج رکھتے ہیں ،وہ پورے طور پراس پرکاربند ہوتے ہیں ،اور دین کادرد بھی رکھتے ہیں ۔
نائن الیون کےبعد وہاں کے مسلمانوں کوکس طرح کی پریشانیوں کاسامنا کرناپڑا؟
٭ تفتیش،جانچ پڑتال وغیرہ کا سامنا کرناپڑا۔وہ لوگ جوخلاف ِقانون تھے ،ان لوگوں کوزیادہ پریشانیوں کاسامنا کرناپڑا ، ان میں سے بیش تر کوشہر بدر کردیاگیا، اس میں وہی لوگ زیادہ پریشان ہوئے، جو خلاف قانون اور(Illegal) تھے ۔جوقانون کے مطابق زندگی گزار تے ہیں ان کوزیادہ پریشانیوں کاسامنا نہیں کرناپڑتا۔
مسلکی طور پر وہاں مسلمان کتنے خانوں میں بنے ہوئے ہیں؟
٭میں سمجھتاہوں کہ اسلام کے جتنے بھی مکتبۂ فکر دنیامیں پائے جاتے ہیں، وہ سب امریکا میں موجود ہیں ۔اِس وقت اہل سنت والجماعت کاغلبہ ہے اور بہت ہی منظم طور پر وہ لوگ کام کررہے ہیں۔اہل سنت کے مدارس،مساجد اور مکاتب وغیرہ بڑی تعداد میں ہیں ،جوتبلیغ اسلام میں تیزی کےساتھ مصروف ہیں۔
کون کون سی اسلامی ویب سائٹ لوگ زیادہ پڑھتے ہیں؟
٭اسلامی ویب سائٹوں میں سب سے زیادہ دیکھی اورپڑھی جانے والی سائٹ اس وقت ”اسلامک اکیڈمی“ ہے، یہ ویب سائٹ اہل سنت والجماعت ہی کی ہے۔اس سائٹ پر تقریباً ۱۷۵ ملکوں کے لوگ آتے ہیں اوران کےسوالات بھی میرے پاس آتے ہیں جن کاہم جواب دیتے ہیں، جولوگ دینی مسائل دریافت کرتے ہیں ان کےسوالات کےجوابات بھی دیے جاتے ہیں۔
[یہ ۲۰۰۶ کی بات ہے، اب۲۰۲۱ تک ، الحمدللہ ! اہل سنت والجماعت کی کافی اچھی اچھی ویب سائٹ منظر عام پر آچکی ہیں، ان میں سے بعض تو بہت آگےہیں ]
وہابیوں کے بارے میں امریکی حکومت کا کیانظریہ ہے؟
٭ وہ لوگ چوں کہ پہلے امریکا پہنچے اس لیے وہ یہ دیکھاناچاہتے ہیں کہ ہم ہی اسلام کےنمائندے ہیں۔ لیکن حکومت کی سطح پرایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
صوفی ازم کی طرف امریکاکا ،کافی رجحان ہے ۔اس کی کیا وجوہات ہیں؟
٭ اس کی وجہ یہ ہے کہ، یہ لوگوں کومعلوم ہوچکاہے کہ دنیا کےاندر جو دہشت گردی، اورجتنے بھی فتنے ہیں وہ وہابیوں کےہی پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اِس کاان لوگوں نے اندازہ لگالیاہے۔
اور اہل سنت والجماعت یعنی صوفی ازم کابھی ان لوگوں نے اندازہ لگالیا کہ یہ انتہائی امن وسکون والے ہیں۔اس لیے اِس کی طرف ان لوگوں کا زیادہ رجحان ہے۔ چنانچہ امریکا کی اب کوشش ہے کہ صوفی ازم کے اصولوں کوعام کیاجائے تاکہ وہابیت کا غلبہ اوران کی تحریکات کم ہوں۔
کیا آپ کو لگتاہے کہ اسلام کودہشت گردی کامذہب بناکر پیش کرنے میں وہابیت کا بڑا رول رہاہے؟
٭ جی ہاں! وہ حضرات اس طریقے کا کام ہی کرتے ہیں، جس سے اسلام بدنام ہوتاہے۔ انھیں چاہیے کہ واقعی اسلام کی جوتعلیمات ہیں ان پر عمل پیرا ہوں۔ اُن کے اس طریقے سے کام کرنے سے پورا اسلام بدنام ہوتاہے۔جتنی بھی اس طرح کی تنظیمیں ہیں وہ سب کی سب وہابی تنظیمیں ہیں۔ اِس سے میں سمجھتاہوں کہ فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔اسلام بلاشبہ امن کا مذہب ہے۔ وہابیوں کےطریقۂ کارسے اسلام کی بدنامی ہورہی ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنے طریقے میں تبدیلی لائیں۔
امریکیوں کامذہب کی طرف رجحان کتناہے؟
٭ بہ نسبت اور ملکوں کے امریکا میں شہریوں کارجحان مذہب کی طرف زیادہ ہے۔ برطانیہ میں چرچ فروخت کیے جاتے ہیں جبکہ امریکا میں نئے نئے چرچ بنائے جاتے ہیں۔ آپ کوحیرت ہوگی کہ جس صوبے میں ہم رہتے ہیں وہاں”بعض جگہ“ ہے، جہاں ابھی تک شراب پرپابندی ہے۔ وہاں کوئی شراب فروخت نہیں کرسکتا۔ یعنی اس شہر میں، کسی بھی جگہ، کسی بھی اسٹورپر شراب نہیں بک سکتی۔ پورے صوبہ میں ،جُواخانہ (casino)پر پابندی ہے،اسی طریقے سے اوربھی کچھ قوانین ہیں ،جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، اس سے ان کے مذہبی ہونے کاپتا چلتاہے۔
مطلب یہ کہ حکومتی سطح پر بھی امریکامیں شراب کو معیوب سمجھا جاتاہے؟
٭ شراب پر توقسم قسم کی پابندیاں عاید ہیں۔ اگر کوئی شخص شراب پی کر گاڑی چلاتاہے، تواس پر بہت زبردست جرمانہ عاید ہوتاہے، اسی طریقے سے اگر کوئی ۱۸؍سال سے کم کا ہوتو شراب خرید نہیں سکتا ہے۔ سگریٹ پر بھی اسی طرح کی پابندیاں ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ نشہ آور چیزوں کو کم کرنے کی بہت زیادہ کوشش جاری ہے۔ یہ مذہبی رجحان ہونے کی علامت ہے۔ چوں کہ وہ ایک کتاب کومانتے ہیں اپنے کو عیسائی کہتے ہیں، بلکہ ان کے جو بعض پادری ہیں ،وہ تواپنے مذہب پرشدت کےساتھ کاربند ہیں۔ جو نَنْ(عیسائی مبلغہ) ہیں ان میں سے بعض توبہت زیادہ حجاب کااہتمام کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ کاواقعہ ہے کہ راستہ چلتے ایک پردہ پوش خاتون پر نظر پڑی توایسا محسوس ہواکہ وہ کوئی مسلم خاتون ہوگی، لیکن حقیقت میں وہ عیسائی تھی۔
اسلام کے تعلق سے کرسچن اوریہودیوں کاکیا نظریہ ہے؟
٭ دوطرح کے لوگ ہیں۔کچھ تو وہ ہیں جواسلام کے شدیددشمن ہیں اور سخت تعصب رکھتے ہیں، جبکہ دوسرا گروہ صلح پسند لوگوں کاہے جواسلام کےساتھ سخت تعصب نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ حمایت بھی کرتے ہیں۔ یعنی وہاں دونوں طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
اسلام کی تبلیغ واشاعت میں آپ کو کن پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے؟
٭ صحیح پوچھیے تو کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی کاسامنا نہیں کرناپڑتاہے۔ نہ حکومت اس میں کوئی رکاوٹ ڈالتی ہے اور نہ کوئی عوام۔ اسلام کے لیے جوکام کرناچاہے اس کے لیے پورے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
بش کی پالیسی کےبارے میں وہاں کے مسلمانوں کا کیانظریہ ہے؟
٭ مسلمان ہی نہیں ،بلکہ وہاں کے باشندے بھی ،اب بش کی پالیسی کے خلاف ہوتے جارہے ہیں۔ بش کےاس طرح کےکاموں سے ان کے ملک کوبھی نقصان پہنچاہے اور ان کی ملت کوبھی۔
حزب اللہ کے خلاف جنگ میں امریکہ نے جس طرح اسرائیل کاساتھ دیا،کیا اس اقدام سے وہاں کے عوام خوش ہیں؟
٭ ابھی کچھ دنوں قبل پارلیمنٹ کے پاس خود وہاں کے کریسچن نے اس کے خلاف مظاہرہ کیا۔ یعنی وہاں کے صلح پسند عوام بھی بش کی پالیسی کو پسند نہیں کرتے۔
امریکی مسلمانوں کی مالی حالات کیسے ہیں؟
٭ بیشتر مسلمان ملازمت کےلیے وہاں گئے ہیں، اس لیے وہ ملازم پیشہ ہیں۔ مالی اعتبار سے وہاں کےمسلمان کمزور ہیں۔
امریکہ میں اہل سنت والجماعت کے جوعلمائے کرام ہیں، ان میں کون کون زیادہ نمایاں ہیں؟
٭ مولاناقمرالحسن مصباحی بستوی، جوتقریباً ۱۲؍سال سے کام کررہے ہیں، مولاناغلام سبحانی مصباحی، مولاناعبدالرب مصباحی اور مولانامسعود احمدبرکاتی مصباحی (وغیرہم) یہ سب ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح سے ہندوستان کے علاوہ پاکستان کے بھی علمائے کرام ہیں جواچھے کام کررہے ہیں۔
ہندوستانی عوام کے ساتھ امریکیوں کا کیا برتاؤ ہے؟
٭ امریکی عوام، ہندوستانی عوام کےساتھ متعصبانہ برتاؤنہیں رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ جتنے بھی ہنگامے ہوے ہیں ان میں انڈیاکا کوئی بھی شہری شامل نہیں ہوا۔ اس لیے وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انڈیاکے لوگ اچھے ہوتے ہیں۔ لہذا اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔
(مطبوعہ،ماہنامہ، ماہ نور، اکتوبر ۲۰۰۶ ء ملخصاً وتصرفاً)

تقریر نسواں، محبت رسول، علیہ السلام

محبت رسول ﷺ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ، اَمَّا بَعدُ،
فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ ،
صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم ، وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْاَمِیْنُ الْکَرِیْم ،

اللہ تعالیٰ فرماتاہے، اے محبوب تم فرمادو ، اے لوگو! اگر تم اللہ کودوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہوجاؤ، اللہ تمھیں دوست رکھے گا۔ (آل عمران:۳،آیت:۳۱،پارہ:۳)
میری اسلامی بہنیں!آج میں نے اپنی تقریر کا عنوان محبتِ رسول اور اطاعت رسول ﷺ قرار دیاہے۔ لیکن اپنے موضوع پر بیان کرنے سے پہلے میں چاہتی ہوں کہ ہم اور آپ، سب مل کرانتہائی محبت وعقیدت کےساتھ اپنے رسول پاک ﷺ پردرود وسلام کانذرانہ پیش کریں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ صَلَاۃً وَّسَلَاماً عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہ۔
بخاری ومسلم کی حدیث ہے بنی ﷺ نے فرمایا جومجھ پر ایک بار درود بھیجتاہے اللہ اس پردس بار درود بھیجتاہے۔
خود قرآن شریف میں آیاہے:
بےشک اللہ اوراس کے فرشتے بنی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم ان پر درود اورخوب سلام بھیجو
(سورہ احزاب،آیت نمبر ۵۶)
دیکھئے نبی ﷺ پردرود بھیجناکتنا اچھاکام ہے، کہ خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ درود بھیجتاہے اس کے فرشتے بھی درود پڑھتے رہتے ہیں۔اور تمام مومنوں کودرود سلام پڑھنے کی تاکید آئی۔
درود شریف کی کثرت بنی پاک ﷺ کی محبت کی علامت ہے۔چوں کہ آج میری تقریر کاعنوان محبتِ رسول ہے اس لیے اپنی محبت کاثبوت دیتے ہوئے میرے ساتھ مل کرایک بار اور مختصرسادرود وسلام پڑھیں۔
اَلصَّلوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَانَبِیَّ اللہ
وَعَلیٰ آلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللہِ
میری مقدس اسلامی مائیں اوربہنیں! آج یہ میلاد النبی ﷺ کی مبارک محفل ہے۔ سرکار دوجہاں ﷺ کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ ہم تو یہاں سال میں اکٹھاہوتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ تو ہرہفتہ اپنی ولادت کے دن روزہ رکھ کر،اس کی یاد کااہتمام فرماتے تھے۔
مسلم شریف کی حدیث میں ہے ہمارے نبی ﷺ ہر پیر(منڈے) کوروزہ رکھتے تھے۔توپیر کےدن روزہ رکھنے کی وجہ پوچھی گئی توارشاد فرمایا:
”اسی میں میری ولادت ہوئی اوراسی میں مجھ پر وحی نازل ہوئی“
آج اس مبارک محفل میں رسول اکرم تاجدار دوعالم ﷺ کی محبت اورفرماں برداری سے متعلق میں اسلام کا پیغام آپ کوبتاناچاہتی ہوں۔

محمد کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی
خداکے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہے اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہےﷺ

محبت رسول اور اطاعتِ رسول سے متعلق قرآنِ مقدس کی آیت کریمہ اوراس کاترجمہ میں سناچکی ہوں اب میں آپ کو حدیث سناتی ہوں۔ بخاری شریف میں ہے:
تم میں کاکوئی مومن نہیں ہوسکتا،یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اس کی اولاد اورسارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
یعنی ایک مسلمان کےدل میں اپنے نبی ﷺ کی ٘محبت اپنی بیٹی، بیٹا،شوہر،ماں،باپ،سب سے زیادہ ہوناچاہیے۔یہ بھی یاد رکھیں، جسے جتنی زیادہ ان سے محبت ہوگی ،اس کاکام،اس کاعمل اتناہی زیادہ سنت کے مطابق ہوگا۔ محبت کی علامت اطاعت اورفرماں برداری ہے۔جسے جتنی زیادہ سرکار دوجہاں ﷺ سے محبت ہوگی وہ خاتون اتناہی زیادہ نبی اکرم ﷺ کےبتائے ہوئے طریقے پرچلے گی۔
اللہ کامحبوب بندہ یااس کی محبوب بندی بننے کے لیے،اللہ کی دوست بننے کے لیے قرآن کریم میں اتباع رسول کاحکم دیاگیا۔ یعنی ان کی پیروی کریں،ان کےنقش قدم پرچلیں۔جن باتوں کے کرنے کاحکم دیاگیاہے انھیں کریں، اورجن باتوں سے منع کیاہے انھیں ہرگز نہ کریں۔
آج میں آپ کی توجہ ایسی چند عام باتوں کی طرف دلانا چاہتی ہوں جوہماری بہنوں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ میں اپنی اورآپ کی اصلاح کی خاطر عرض کرناچاہتی ہوں۔

شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات

آج کل ہم لوگ جہاں بیٹھتی ہیں اکثراپنی ہی کسی بہن کی برائی،شکایت اورغیبت شروع ہوجاتی ہے۔ بسا اوقات تو وہ عیب اس بہن میں ہوتابھی نہیں۔ یاکم ہوتاہے زیادہ بڑھاچڑھاکرپیش کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔حدیث میں بھی اس سے روکا گیاہے۔
کسی نے پوچھا یارسول اللہ ! اگراس کے اندر وہ عیب ہوتوبیان کرنے میں کیاحرج ہے۔ فرمایا: جبھی تو غیبت ہے، ورنہ توبہتان ہے۔
بہتان باندھنا تو غیبت سے بھی زیادہ براہے۔ہماری بعض بہنیں یہ کہہ دیتی ہیں۔ میں غلط بات تھوڑی کہہ رہی ہوں فلاں سے پوچھ لو وہ ایسی ایسی ہے اس سے ہماری ہی ایک مسلمان بہن کی عزت جاتی ہے۔ اس طرح کی باتیں کرنے کے بجائے ہمیں دین کی باتیں، یااچھی اچھی باتیں کرناچاہیے، جس سے کسی مسلمان بھائی، بہن کےدل کوٹھیس نہ پہنچے۔
جھوٹ، چغلی، خیانت، وعدہ خلافی ان سب باتوں سے ہمیں روکاگیاہے۔ اپنے بچوں سے بھی جھوٹا وعدہ نہیں کرنا چاہیے ہماری بعض بہنیں بچوں کوبہلانے کے لیے ان کوجھوٹی تسلی دیدیتی ہیں یاکچھ منگا کردینے کا وعدہ کرلیتی ہیں اور اسے پورا نہیں کرتیں، اس سے بچوں کےدلوں میں ماں کا وقار گھٹ جاتاہے اور اپنے نبی ﷺ کی نافرمانی بھی ہوتی ہے۔
اسی طرح ہمارے اندر بے پردگی عام ہوگئی ہے۔بےحجاب ننگے سرگھومنا کوئی عیب کی بات نہیں رہی ، حالاں کہ سرکا ڈھکنا فرض ، اورننگےسرنامَحرم مردوں کےسامنے جاناحرام ہے۔
قرآن کریم سورہ نور میں ہم کویہ تعلیم دی گئی:
”مومن عورتیں،اپنی زینت ظاہرنہ کریں مگراپنے شوہروں،یااپنے باپ، یاشوہروں کےباپ ،یااپنے بیٹے، یاشوہروں کےبیٹے، یااپنے بھائی، یااپنے بھتیجے، یااپنے بھانجے، یااپنے دین کی عورتیں،وغیرہ­­­ یاوہ بچے جنھیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں، اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جاناجائے ان کاچھپا ہوا سنگار“۔(سورہ نور،آیت:۳۱)
اس آیت میں جن کےسامنے بے پردہ جاسکتی ہیں ان کو بتادیاگیا۔ ان کےعلاوہ کسی کےسامنے اپنی زینت اوربناؤسنگار بھی ظاہر کرنا منع ہے۔ بچوں کےسامنے ہونے میں حرج نہیں، مگر ہربچہ کےسامنے نہیں بلکہ ایسے بچے جنھیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں ،اگر وہ بڑے ہوگئے اورسمجھ دار ہوگئے تب ان سے بھی پردہ ہے، جب وہ بالغ یابالغ ہونے کے قریب ہوجائیں تو وہ عام مردوں کےحکم میں ہوجاتے ہیں۔
دوسری جگہ قرآن عظیم میں آیاہے:
”اے نبی !اپنی بیویوں اور بیٹیوں، اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادر، کاایک حصہ اپنے منہ پرڈالے رہیں یعنی اپنے سر اورچہرے کو چھپائیں، جب کسی حاجت کےلیے ان کونکلنا ہو“۔(سورہ احزاب آیت:۵۹)

وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر
کی محمد سے وفا تونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں

میری اسلامی بہنیں!ہمارے پیارے نبی ﷺ کےدنیامیں تشریف لانے کامقصد یہی تھا کہ وہ اللہ کاپیغام پہنچائیں لوگوں کو اچھی اچھی باتیں بتائیں، جہنم کےراستے سے ہٹاکر جنت کی راہ پر لگادیں۔ آج میں یوم میلاد النبی ﷺ کےحوالہ سے اپنی یہ آخری گزارش کرناچاہتی ہوں، کہ آئیے ہم سب مل کراپنے گناہوں اور ان غلطیوں سے توبہ کریں جوہم سے ہوچکی ہیں، اوراس بات کاعہد کرکے اٹھیں کہ ہم اب پابندی سے نمازیں پڑھیں گی، ہرطرح کی برائی اور بے پردگی سے بچیں گی، اپنی اولاد اپنی بہنوں اور گھروالوں کوسنتوں پر چلنے کی تلقین کریں گی ،اور خود بھی اس کی پابندی کریں گی ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں احکام شریعت پرچلنے کی توفیق عطافرمائے۔ اور ہم سب کی مغفرت فرمائے۔ اور ایمان پرخاتمہ نصیب فرمائے۔
آمین، بجاہ حبیبہ سیدالمرسلین علیہ الصلوۃ والتسلیم ۔
وماعلینا الا البلاغ المبین۔

تعارف فیض الحکمت ترجمہ ہدایت الحکمت

تعارف ِکتاب

فیض الحکمۃ، ترجمہ ھدایۃ الحکمۃ
از محقق دوراں، صدرالعلما، حضرت علامہ محمد احمد مصباحی، دامت برکاتہم العالیہ
ناظم تعلیمات، الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ ، یوپی، ہند
باسمہٖ وحمدہٖ تعالیٰ وتقدس

ہماری کتب کلامیہ میں مباحث فلسفہ کارد بلیغ کیاگیاہے، دیکھیں شرح مواقف، شرح مقاصد وغیرہ۔ اس لیے یہ جاننے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ فلسفہ کے اصول ومبادی کیاہیں؟ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ” تَہافُتُ الفلاسفہ “ لکھنے سے پہلے ”مقاصد الفلاسفہ“ تحریرفرمائی تاکہ ان کے مقاصد جان لینے کے بعد ان کا رد آسانی سے سمجھاجاسکے۔
اسی فائدے کے پیش نظر ہدایۃ الحکمۃ،ہدیہ سعیدیہ وغیرہ درس نظامی کےنصاب میں اب بھی داخل ہیں،جب کہ صدرا،شمس بازغہ،میبذی وغیرہ خارج ہوچکی ہیں۔
ہدایۃ الحکمۃ میں بیان شدہ مقاصدِ فلاسفہ کی مزید تسہیل کےلیے مولانااحمدالقادری زید مجدہ نے اس کاسلیس اردو ترجمہ کردیا، تاکہ جوطلبہ براہ راست اصل کتاب سے استفادہ نہ کرسکیں وہ ترجمے کی مدد سے مستفیدہوں۔
اس کےعلاوہ ایک مختصر اوروقیع مقدمہ لکھ کرفلسفہ کی تاریخ اور اس کی شرعی حیثیت پرروشنی ڈالی،
اول (فلسفہ کی تاریخ)سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ فلسفہ یونان اور یونانی زبان سے عرب اور عربی زبان میں کیسے منتقل ہوا؟
دوم (فلسفہ کی شرعی حیثیت)سے یہ معلوم ہوتاہے کہ فلسفہ کے سارے مباحث نہ قابل قبول ہیں، نہ سب کے سب قابل رد —قدرے تفصیل سے یہ بتایاکہ ان میں کیااصولِ اسلام سے، متصادم اور مردودہے؟ اورکیامتصادم نہیں اور قابل قبول ہے؟
اس مقدمہ کو پڑھ لینے کےبعد متعلم کوایک بصیرت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ اندھیرے کامسافر نہیں رہتا۔ ساتھ ہی معلم کویہ ہدایت ملتی ہے کہ فلسفہ کی تعلیم کےساتھ اس کے غلط مباحث کےرد پر قدرت بھی ہونی چاہیے، اس کے لیے امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ کی ”الکلمۃ الملھَمہ لِوَ ہاءِ فلسفۃ المشْئمہ“کامطالعہ ضروری ہے۔
مشہور محقق شبیر احمدخان غوری سابق رجسٹرارمدارس عربیہ اترپردیش نےاپنے ایک مضمون(مطبوعہ معارف اعظم گڑھ) میں اس کتاب کو عہد حاضر کا ”تَہافُتُ الفلاسفہ“ قرار دیاہے۔
ترجمۂ ہدایۃ الحکمۃ کانام فیض الحکمۃ ہے جو المجمع الاسلامی سے کئی بار شائع ہوچکاہے۔ان شاءالمولی تعالیٰ جلد ہی اس کی نئی اشاعت بھی عمل میں آئے گی۔

محمداحمدمصباحی
ناظم المجمع الاسلامی مبارک پور
۲۵؍محرم۱۴۴۳ھ مطابق۴؍ستمبر۲۰۲۱ء

عیدِ میلاد کا ثبوت، قرآن و حدیث کی روشنی میں

بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
عید میلاد النبی ﷺ کاثبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں

ہرمسرت ہرخوشی کی جان میلاد النبی
عید کیاہے عید کی بھی شان میلاد النبی
ساعت اعلیٰ واکرم عیدمیلاد النبی
لمحۂ انوار پیہم عید میلادالنبی(ﷺ)

دنیابھر کے مسلمانوں کے لیے یہ عظیم خوشی کادن ہے۔ اسی دن محسنِ انسانیت ،خاتم پیغمبراں، رحمتِ ہرجہاں، انیسِ بیکراں، چارہ ساز درد منداں آقائے کائنات فخر موجودات نبی اکرم، نورمجسم،سرکاردوعالم ﷺ خاکدان گیتی پر جلوہ گر ہوئے۔
آپ کی بعثت اتنی عظیم نعمت ہے جس کامقابلہ دنیاکی کوئی نعمت اوربڑی سے بڑی حکومت بھی نہیں کرسکتی۔ آپ قاسم نعمت ہیں، ساری عطائیں آپ کے صدقے میں ملتی ہیں۔حدیث پاک میں ہے:
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ
میں بانٹتاہوں اور اللہ دیتاہے(بخاری ومسلم)
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی بعثت پراپنا احسان جتایا ۔ارشاد ہوتاہے:
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا
بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ (کنزالایمان ، سورہ بقرہ:۳،آیت:۱۶۴)
انبیا ومرسلین علیہم السلام کی ولادت کادن سلامتی کادن ہوتاہے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کےلئے باری تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ
اورسلامتی ہے ان پر،جس دن پیداہوئے۔(قرآن کریم، سورہ مریم ۱۹،آیت:۱۵)
دوسری جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فرمان منقول ہے:
وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ
اور وہی سلامتی مجھ پر، جس دن میں پیداہوا۔(سورہ مریم ۱۹،آیت:۳۳)
ہمارے سرکار تو امام الانبیاوسید المرسلین اورساری کائنات سے افضل نبی ہیں۔(ﷺ) پھر آپ کایوم میلاد کیوں نہ سلامتی اورخوشی کادن ہوگا بلکہ پیر کےدن روزہ رکھ کراپنی ولادت کی خوشی توخود سرکار دوجہاں ﷺ نے منائی اوران کی اتباع ،صحابہ کرام، تابعین،تبع تابعین، اولیاےکاملین رضوان اللہ علیہم اجمعین کرتے آئے اورآج تک اہل محبت کرتے آرہے ہیں۔
حدیث پاک میں ہے:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم الاثنین والخمیس،
نبی اکرم ﷺ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔(ترمذی شریف)
دوسری حدیث میں ہے:
عن أبي قتادة الأنصاري رضي الله عنه، أنّ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سئل عن صوم يوم الاثنين؟ قال: (ذاك يوم ولدت فيه، ويوم بعثت -أو أنزل علي فيه -)
رسول اللہ ﷺ سے پیر کےدن روزے کاسبب پوچھا گیا،
فرمایا: اسی دن میری ولادت ہوئی اوراسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔(مسلم شریف)
نبی کریم ﷺ کی پیدائش کےوقت ابولہب کی لونڈی حضرت ثُوَیْبَہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نےآکر ابولہب کوولادتِ نبی کریم ﷺ کی خبر دی۔ ابولہب سن کر اتناخوش ہوا کہ انگلی سے اشارہ کرکے کہنےلگا ثویبہ ! جا آج سے توآزاد ہے۔
ابولہب جس کی مذمت میں پوری سورہ لہب نازل ہوئی ایسے بدبخت کافر کومیلادِ نبی(ﷺ) کےموقع پرخوشی منانے کاکیافائدہ حاصل ہوا ۔امام بخاری کی زبانی سنیے:
جب ابولہب مرا تواس کے گھر والوں (میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نےاس کوخواب میں بہت برے حال میں دیکھا۔ پوچھا کیاگزری؟ ابولہب نےکہاتم سے َعلاحدہ ہوکر مجھے خیر نصیب نہیں ہوئی۔ ہاں مجھے(اس کلمے کی) انگلی سے پانی ملتاہے جس سے میرے عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے کیوں کہ میں نے(اس انگلی کے اشارے) ثویبہ کوآزاد کیاتھا۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ(۹۵۸ھ متوفی ۱۰۵۲ھ) جواکبر اور جہاں گیر بادشاہ کےزمانے کےعظیم محقق ہیں ۔ ارشاد فرماتے ہیں:
اس واقعہ میں میلاد شریف کرنے والوں کے لیے روشن دلیل ہے جوسرورعالم ﷺ کی شبِ ولادت خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب جوکافر تھا، جب آں حضرت ﷺ کی ولادت کی خوشی اور لونڈی کےدودھ پلانے کی وجہ سے اس کوانعام دیاگیاتواس مسلمان کا کیاحال ہوگا جو سرور عالم ﷺ کی ولادت کی خوشی میں محبت سے بھر پور ہوکر مال خرچ کرتاہے اور میلاد شریف کرتاہے(مدارج النبوۃ،دوم ص:۲۶)
نبی اکرم ﷺ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی رحمت بن کردنیا میں تشریف لائے:
وَمَآاَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ (کنزالایمان،سورہ:۲۱،آیت:۱۰۷)
اور رحمت الٰہی پرخوشی منانے کاحکم توقرآن مقدس نےہمیں دیاہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا
تم فرماؤ اللّٰہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیےکہ خوشی کریں۔ (کنزالایمان ،سورہ:۱۰، آیت:۵۸)
لہٰذا میلادُالنبی ﷺ کے موقع پر جتنی بھی جائز خوشی ومسرت اورجشن منایاجائے، قرآن وحدیث کےمنشاکے عین مطابق ہے، بلکہ ایسا اچھا اورعمدہ طریقہ ہے، جس پرثواب کاوعدہ ہے۔
حدیث پاک میں ہے:
مَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةًحَسَنَۃٌ فَلَہٗ اَجْرُھَاوَاجرُ مَنْ عمِلَ بها من بَّعْدِه مِنْ غَيْرِ أن يَنقُصَ من اُجُوْرِهِم شيءٌ۔
جواسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا تواُسے اُس کاثواب ملے گا اوراُن کاثواب بھی اُسے ملے گا جواس کے بعد اس نئے طریقہ پرعمل کریں گے اوراُن عمل کرنےوالوں کےثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہوگی۔(مسلم شریف)

احمدالقادری مصباحی
الاسلامی.نیٹ

www.al islami.net

ثبوت ایصال ثواب از احمد القادری مصباحی

ثبوت ِایصالِ ثواب
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن ، وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ وَعَلیٰ اٰ لِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن

اپنے کسی عملِ غیر کےذریعہ مسلمان میت کونفع پہنچانےکانام ایصال ثواب ہے، ایصال ثواب حق ہے۔ قرآن وحدیث اورصحابہ کرام کےاقوال وافعال سے اس کاثبوت ملتاہے۔

(۱) رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ

(نوح علیہ السلام نے کہا)اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مَردوں اور سب مسلمان عورتوں کو ۔ (سورہ نوح۷۱، آیت:۲۸،پارہ:۲۹)
اس آیت سے معلوم ہواکہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے ماں باپ کےلیے جومسلمان تھے اوردیگر مسلمانوں کےلیے بخشش کی دعا مانگ کران کونفع پہنچایا۔

(۲) وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْ ۢ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوٰنِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ۔

اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے ۔
( سورہ حشر:۵۹،آیت:۱۰،پارہ:۲۸)
اس آیت میں مہاجرین وانصار کےبعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کواپنے سے پہلے کے مسلمانوں کے لیے مغفرت اور بخشش چاہنے کی دعاتعلیم فرمائی گئی اس سے معلوم ہوا کہ زندوں کی دعا اوراُن کاعمل میت کےلیے نفع بخش ہے۔
(۳) نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا الخ

اے اللہ ہمارے زندہ کوبخش دے اور ہمارے مُردہ کو۔
یہ دعا اورنماز جنازہ خود میت کے لیے ایک طرح کا ایصالِ ثواب ہے اوراس کاحکم بھی دیاگیاہے۔ ہاں کفار ومنافقین اگرچہ کلمہ گو،ہوںان کےلیے ایصال ِثواب نہیں کیاجائےگا۔اورنہ ان کی نماز ِجنازہ پڑھی جائےگی۔
خداوند کریم ارشاد فرماتاہے:

وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ۔

اور ان میں سے کسی کی میّت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ (سورہ توبہ:۹،آیت:۸۴،پارہ:۱۰)
لیکن میت اگربدمذہب ،گم راہ،بےدین نہ ہو بلکہ مسلمان ہویابزرگان دین میں سے ہوتواس کےلیے دعاےمغفرت، ایصالِ ثواب اورنمازِ جنازہ پڑھنے کی کہیں سے کوئی ممانعت نہیں ۔

احادیث سے بھی اِس کا،کافی ثبوت ملتاہے:

(۴)ابوداؤدشریف میں ہے: عاص بن وائل نے وصیت کی تھی کہ اس کی طرف سے ۱۰۰غلام آزاد کیےجائیں اوراس کے بیٹے ہشام نے۵۰ غلام آزاد کردیے اس کےدوسرے بیٹے عمرو رضی اللہ عنہ نے باقی ۵۰کوآزاد کرناچاہا تو کہا ،پہلے میں رسول اللہ ﷺسے دریافت کرلوں تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی یارسول اللہﷺ! میرے ماں باپ نے ۱۰۰غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور ہشام نے پچاس آزاد کردیے اور پچاس باقی ہیں کیا میں آزاد کردوں؟
رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا: اگر وہ مسلمان ہوتا توتم اس کی طرف سے آزاد کرتے یاصدقہ کرتے یاحج کرتے تو اسے پہنچتا۔
(۵) امام ترمذی اور ابوداؤد ،حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میری ماں مرگئی ہیں اور انھوں نے حج نہیں کیاہے کیا میں اُن کی طرف سے حج کروں؟
فرمایا: ہاں اُس کی طرف سے حج کرو۔
(۶) امام نسائی ابن زبیر رضی اللہ سے روایت کرتے ہیں،
نبی ﷺ نےایک صاحب سے فرمایا: تم اپنے باپ کی اولاد میں سب سے بڑے ہو، تم ان کی طرف سے حج کرو۔
(۷) امام نسائی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، ایک عورت نےنبی ﷺ سے پوچھا میرے باپ مرگئے اورانھوں نے حج نہیں کیا۔
فرمایا: اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔
(۸)ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ سے مروی ہے ایک صاحب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورپوچھا میں اپنے باپ کی طرف سے حج کروں؟
فرمایا: ہاں اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔
(۹)امام ابوداؤدوحضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا،یارسول اللہ ﷺ ! میری ماں کاانتقال ہوگیا توان کے لیے کون ساصدقہ افضل ہے؟۔
فرمایا: پانی۔ توانھوں نے کنواں کھدوادیا اورکہہ دیا کہ یہ سعد کی ماں کےلیے ہے یعنی اس کاثواب سعد کی ماں کوپہنچے۔
(۱۰) امام بخاری اپنی صحیح میں، امام نسائی اپنی سنن میں روایت کرتے ہیں، سعد بن عبادہ نبی ﷺکےساتھ بعض غزوات میں گئے اور مدینہ میں ان کی والدہ موت کے قریب پہنچ گئیں۔ان سے کہا گیاوصیت کرجاؤ۔ انھوں نے کہا کس چیز میں وصیت کرجاؤں سب مال سعد کاہے، حضرت سعد کے واپس ہونے سے پہلے ان کاانتقال ہوگیا۔ جب حضرت سعد آئے توان سے اس کاتذکرہ کیاگیا توانھوں نے حضور اقدسﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ!ﷺمیں ان کی طرف سے صدقہ کروں ،توکیاان کو نفع پہنچے گا؟
حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں ، توانھوں نے نام لے کر کہا، فلاں فلاں باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔
(۱۱) مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک صاحب نے نبی ﷺ سے عرض کیامیرے والد کاانتقال ہوگیا، انھوں نے مال چھوڑا اور وصیت نہیں کی ہے اگر میں صدقہ کروں توان کے گناہوں کے لیے کفارہ ہوگا؟
فرمایا: ہاں۔
(۱۲) اُسی مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے: ایک شخص نبی ﷺ کےپاس آئےاور انھوں نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ! میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور وہ کسی بات کی وصیت نہ کر سکیں۔ میرا گمان ہے کہ انتقال کے وقت اگر کچھ کہنے سننے کا موقع ملتا تووہ صدقہ کرتیں ،تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر وں تو کیا ان کو ملے گا۔
فرمایا:ہاں ۔ (صحیح مسلم،کتاب الزکاۃ،باب وصول ثواب الصدقۃ۔۔۔الخ)
اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر میت کی طرف سے صدقہ دیا جائے تو میت کواس کا فائدہ اور ثواب پہنچتا ہے اسی پر علما کا اتفاق ہے۔
(۱۳)بخاری ومسلم میں یہ حدیث مروی ہے: نبی ﷺ نےدومینڈھے کی قربانی کی ،ایک اپنی طرف سے اور دوسرا ،اپنی امت کی طرف سے۔ امت میں زندہ اورمُردہ دونوں داخل ہیں۔
(۱۴)امام ترمذی نےیہ حدیث روایت کی ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےوہ دومینڈھے کی قربانی کرتے تھے ایک نبی ﷺ کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے۔
(۱۵)طبرانی اوردارقطنی میں ہے: نبی ﷺ نےفرمایا جومقابر(قبروں) پرگزرے اور(سورہ اخلاص) قل ہواللہ احد گیارہ بار پڑھ کراس کاثواب اموات کوبخشے ،توبخشنے والے کوتمام مُردوں کی تعداد کےبرابر ثواب ملے گا۔
(۱۶)طبرانی اوسط میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
نبی ﷺ نے فرمایا : تم میں کوئی شخص کسی صدقۂ نافلہ کاارادہ کرے توکیاحرج ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی نیت سےدے، کہ انھیں اس کاثواب پہنچے گا ،اور دینے والے کو دونوں کےاجروں کےبرابرثواب ملے گا۔
(۱۷)امام دارقطنی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
حضورﷺ نےفرمایا: جب آدمی اپنے والدین کی طرف سے حج کرے، وہ حج، اس حج کرنے والے اورماں باپ، تینوں کی طرف سے قبول کیاجائےگا۔ اوران کی روحیں خوش ہوں گی۔ اور اللہ کےنزدیک ماں باپ کےساتھ اچھا سلوک کرنے والا لکھاجائےگا۔
احادیث بالا سے آفتاب کی طرح روشن ہوگیاکہ مسلمان میت کےلیے ایصالِ ثواب جائز ومستحسن ہے۔ اور اس کاثواب مسلمان میت کو پہنچتاہے۔
حدیث سے حج،قربانی، پانی، کنواں، صدقہ، قرآن شریف کی تلاوت وغیرہ ہرایک کا ثواب پہنچنا ثابت ہے۔
اورحدیث نمبر ۶،۷ میں تو ایصالِ ثواب کاحکم دیاگیاہے، بلکہ حدیث میں تو یہاں تک گزرا کہ جس نے مسلمان اموات کےلیے کوئی نیک عمل کیاتو تمام اموات(مُردوں) کوبرابر برابر ثواب ملےگا اورکسی کےثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اوربخشنے والے کوسب کی تعداد کے مجموعے کے برابر ثواب ملےگا۔ مثلاً کسی نےایک بارسورۂ اخلاص پڑھ کر ۱۰۰ لوگوںکوایصالِ ثواب کیا توہرایک کوایک ایک بارسورۂ اخلاص پڑھنے کاثواب ملے گا اورایصالِ ثواب کرنے والے کےلیے سو۱۰۰بار سورۂ اخلاص پڑھنے کاثواب بڑھادیاجائےگا جیساکہ حدیث ۱۵،۱۶،۱۷، سے ظاہر ہوتاہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پروردگار عالم جس کودیناچاہے توایک نیکی کاثواب بےشمار بڑھاکردے سکتاہے۔ اس کے خزانۂ قدرت ورحمت میں کوئی کمی نہیں ۔ارشاد ہوتاہے:

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَن یَّشَآءُ۔

ان کی کہاوت جو اپنے مال اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ،ہر بال میں سو دانے، اور اللّٰہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے۔ ( سورہ بقرہ:۲،آیت:۲۶۱،پارہ :۳)
(۱۸) بظاہر بھی ایصالِ ثواب نیک اور بہترین کام ہے۔مشکوٰۃ شریف میں ہے:
جس نے اسلام میں کوئی نیاطریقہ ایجاد کیا اسے اس کاثواب ملے گا اوراس کے بعد اس پرجتنے لوگ عمل کریں گے سب کےبرابر ایجاد کرنے والے کوثواب ملےگا اورعمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائےگی۔ جب مطلقاً ایصالِ ثواب ثابت ہےتواسی سے یہ بھی ثابت ہوگیاکہ خاص خاص مواقع پریہ جوبہت سے غربا ومساکین اورمستحقین کوجمع کرکے کھانا کھلایا جاتاہے، اورایصالِ ثواب کیاجاتاہے یہ بھی درست ہے۔ چاہے تنہا ایصالِ ثواب کیاجائے ،یاجمع ہوکر ، ہرطریقہ سے جائز ہوگا۔
خداوند کریم کاارشاد ہے:

لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا۔

تم پر کوئی الزام نہیں کہ مِل کر کھاؤ یا الگ الگ کھاؤ۔ ( سورہ نور:۲۴،آیت:۶۱،پارہ:۱۸)
واللہ تعالیٰ اعلم

احمدالقادری غفرلہ
۲؍ربیع الآخر۱۴۰۷ھ
۵ ؍ دسمبر ۱۹۸۶ ء

ہمارے نبی ﷺ کے عظیم اخلاق – احمد القادری مصباحی
بسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

ہمارے نبی ﷺ کےعظیم اَخلا ق

ترے خُلق کو، حق نے عظیم کہا     ترے خلق کو، حق نے جمیل کیا
تجھ سا کوئی ہوا ہے نہ ہوگاشہا      ترے خالقِ حسن و ادا کی قسم

(۱) خالقِ کائنات خود اپنے برگزیدہ رسول ﷺ کے اخلاق کی عظمت کی گواہی دے رہا ہے۔ ارشادِ رب تعالیٰ ہے۔
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔
اور بیشک تمہاری خُوبو بڑی شان کی ہے۔ (کنزالایمان، سورۂ قلم آیت۴)
(۲) رسولِ عربی ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں۔
بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ۔
(قد رواه مالك في ” الموطأ ،رواه البخاري في ” الأدب المفرد ،أخرجه البيهقى ، والبزار فى المسند )
میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا۔
(۳) جلیل القدر صحابی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نبی ﷺ کے اخلاق حسنہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
خَدَمتُ النَّبِیَّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عَشْرَ سِنِیْنَ، فَمَا قَالَ لِیْ اُفٍّ وَّلاَ لِمَ صَنَعْتَ وَلاَ اَلَّا صَنَعْتَ۔
میں نے نبی ﷺ کی دس سال خدمت کی۔ آپ نے کبھی مجھ سے اف تک نہ کہا۔ نہ یہ کہ ، کیوں کیا اور کیوں نہ کیا۔ (بخاری و مسلم)
یہ معمولی اخلاق کی بات نہیں کہ اپنے ادنیٰ خادم سے بھی، دس سال کے طویل عرصے میں کسی کام کے بگڑ جانے یا ناموافق ہونے پر اف تک نہ کہا جائے۔ اور مزاج کے خلاف کام سرزد ہوجانے پر اتنا معمولی سوال ’’کیوں ایسا کیا‘‘ سننے کی زحمت اپنے خادم کو بھی نہ دی جائے۔ یا اطاعت میں تاخیر یا بھول پر اتنا ٹوکنا بھی ’’کیوں نہیں ایسا کیا‘‘ اخلاق ومروت کے خلاف سمجھا جائے۔ یہ عظیم اخلاق کا بے مثال نمونہ ہے۔
(۴) حِلْم: عرب کے دیہاتوں میں ایسے بہت سے اشخاص رہتے تھے جو آدابِ نبوت سے آشنا نہ تھے۔ ان کے مزاج میں حد درجہ شدت تھی، کسی معاملہ کو نرمی اور بُردباری سے کہنا سننا جانتے ہی نہ تھے۔ آج بھی وہاں کے بعض بدؤوں کی درشتی اور بے اخلاقی امتحان کن ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی قسم کے ایک اعرابی (عرب کے دیہاتی) کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
کُنْتُ أَمْشِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وَعَلَیْہِ بُرْدٌ نَجْرَاِنِیٌّ غَلِیْظُ الْحَاشِیَۃِ فَاَدْرَکَہٗ اَعْرَابِیٌّ فَجَبَذَہٗ بِرِدَائِہٖ جَبْذَہً شَدِیْدَۃً وَرَجَعَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فِیْ نَحْرِ الْاَعْرَابِیِّ حَتّٰی نَظَرْتُ اِلٰی صَفْحَۃِ عَاتِقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قَدْ اَثَّرَتْ بِھَا حَاشِیَۃُ الْبُرْدِ مِنْ شِدَّۃِ جَبْذَتِہٖ ثُمَّ قَالَ یَا مُحَمَّدُ مُرْ لِیْ مِنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ عِنْدَکَ فَالْتَفَتَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ثُمَّ ضَحِکَ ثُمَّ اَمَرَلَہٗ بِعَطَائٍ۔
میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ کے اوپر گہرے حاشیہ والی نجرانی چادر تھی۔ ایک اعرابی آپ کے پاس آئے، اور ا نھوں نے آپ کی چادر پکڑ کر پوری شدت سے، اسے کھینچا۔ نبی کریم ﷺ ، اس اعرابی کی تہ تک پہونچ گئے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی گردن پر چادر کے شدت کے ساتھ کھینچنے کے باعث حاشیہ کے نشانات دیکھے۔ پھرانھوں نے کہا: اے محمد! ( ﷺ) میرے لئے مال کا حکم فرمائیے۔ اللہ کے اس مال سے جو آپ کے پاس ہے۔ رسول اللہ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے ، پھر انھیں دینے کا حکم فرمایا۔ (مشکوٰۃ ، بخاری و مسلم)
اس واقعہ میں سرکار دوعالم ﷺ کے اخلاق ، حلم وبردباری کا کیسا نادر نمونہ ملتا ہے۔ ایک دیہاتی بجائے منت سماجت سے مانگنے کے، سختی پر اترآئے۔ آپ کی چادر مبارک کھینچ کر گردن مبارک اپنی طرف جھکاتے ہوئے بے باکی کے ساتھ عطیے کا سوال کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے بجائے اس درشتی پر تنبیہ اور سخت سست فرمانے کے، مسکراتے ہوئے عطایا اوربخشش وانعامات کا حکم صادر فرماتے ہیں۔ سلطانِ دوجہاں، شہنشاہ کون ومکاں کے ایسے اخلاق عظیمہ کی مثال دنیا کے کس بادشاہ اور حاکم میں مل سکتی ہے۔
(۵) شجاعت : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ حسین، تمام لوگوں سے زیادہ سخی، اور سب لوگوں سے زیادہ بہادر تھے۔ مدینہ منورہ میں ایک بار کسی طرف سے، کوئی خوفناک آواز آئی ، لوگ اس سے گھبرا گئے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔
وَلَقَدْ فَزِعَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَھُمُ النَّبیُّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قَدْ سَبَقَ النَّاسَ اِلٰی الصَّوتِ وھُو یَقُوْلُ لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوْا۔
ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ تو لوگ آواز کی جانب چلے ۔ راستہ میں انھیں نبی کریم ﷺ سامنے سے آتے ہوئے ملے۔ وہ آواز کی طرف، سب سے پہلے چلے گئے اور فرمارہے تھے نہ گھبراؤ۔ نہ گھبراؤ۔(مشکوٰۃ ، بخاری و مسلم)
آج کل کے بادشاہ و وزراء اور حکام، اپنے باڈی گارڈ اور محافظ دستے کے جھرمٹ میں بھی، کسی خوفناک موقع پر، رات کے سناٹے میں تو کجا، دن کے اجالے میں بھی جانے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ بلکہ وہ تو مارے ڈر کے، اپنے بنگلہ، مکان میں محافظ دستوں کی نگرانی میں ، محصور ہوجاتے ہیں، وہ خود اپنی جان کی حفاظت نہیں کرپاتے اور دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں، پھر وہ کسی غیر کی جان کی کیا حفاظت کرسکتے ہیں۔ لیکن آپ سارے حاکموں کے حاکم، بادشاہوں کے بادشاہ، سلطانوں کے سلطان ﷺ کی ذات مبارکہ پر نگاہ ڈالیں ۔ مدینہ منورہ میں ڈراؤنی خوفناک آواز رات کے سنسان سناٹے میں آتی ہے۔ کسی کو ساتھ لئے بغیر سب سے پہلے خود نکل پڑتے ہیں اور جائے واردات پر، سب سے پہلے پہونچ کر پتہ لگاتے ہیں تا کہ اہل مدینہ پریشان نہ ہوں۔ پھر پتہ لگاکر انھیں اطمینان دلاتے ہیں۔ ہزاروں جاں نثار غلاموں کے ہوتے ہوئے خود نکلنا اور کسی خادم کی تکلیف گوارا نہ کرنا کس قدر بلند اخلاق کا پتہ دیتا ہے۔
(۶) سخاوت: آنحضرت ﷺ سے جب بھی کسی نے سوال کیا کبھی ’’نہیں ‘‘سننے کا موقع اسے نہیں ملا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں:
مَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شَیْئاً قَطُّ فَقَالَ لَا
رسول اللہ ﷺ سے ایسا کبھی ثابت نہیں کہ آپ سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ نے ’’نہیں‘‘ فرمایا ہو۔ (مشکوٰۃ ، بخاری و مسلم)
اسی حدیث پاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایشیا کے عظیم محقق ، اپنے وقت کے مجدد اعظم، قطب الاقطاب ، حضرت امام احمد رضا قادری ، محدثِ ہند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

واہ کیا جودو کرم ہے، شہِ بطحا تیرا       ’’نہیں‘‘ سنتا ہی نہیں، مانگنے والا تیرا

دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا تارے کھلتے ہیں سخا کے، وہ ہے ذرہ تیرا
( ۷)سماحت: عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بَیْنَ جَبَلَیْنِ فَاَعْطَاہُ اِیَّاہُ فَاَتٰی قَوْمَہُ فَقَالَ اَیْ قَوْمِ اَسْلِمُوْا فَوَاللّٰہِ اِنَّ مَحَمَّداً لَیُعْطِیْ اِعْطَائً مَا یَخَافُ الْفَقْرَ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ ایک آدمی نے، نبی کریم ﷺ سے دو پہاڑیوں کے درمیان پھیلی ہوئی بکریاں مانگیں، تو آپ نے اسے عطا فرمادیں، وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور کہا اے لوگو! مسلم بن جاؤ! قسم خدا کی ، محمد ﷺ اتنا دیتے ہیں کہ فقر سے نہیں ڈرتے ۔ (مشکوٰۃ ، مسلم)
آپ نے سرکار دو جہاں ﷺ کی داد ودہش کا حال دیکھا، کہ ایک آدمی کے سوال پر دو پہاڑوں کے درمیان پھیلی ہوئی ساری کی ساری بکریاں، عطا فرمادیں۔

ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا       موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام

(۸) عَنْ اَنَسٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی الْغَدَاۃَ جَائَ خَدَمُ الْمَدِیْنَۃِ بِاٰنِیَتِھِمْ فِیْھَا الْمَائُ فَمَا یَأتُوْنَ بِاِنَائٍ اِلَّاغَمَسَ یَدَہٗ فِیْھَا فَرُبَّمَا جَائَ ہُ بِالْغَدَاۃِ الْبَارِدَۃِ فَیَغْمِسُ یَدَہُ فِیْھَا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب فجر کی نماز ادا کرلیتے تو مدینہ منورہ کے خدام برتنوں میں پانی لے کر حاضر بارگاہ ہوجاتے۔ وہ اس لئے برتن لاتے کہ آپ ان میں دست پاک ڈبودیں۔ تو جب سردی کی صبح کو آتے تب بھی آپ ان میں دست مبارک ڈبوتے۔ (مشکوٰۃ ، مسلم)
جاڑے کے دنوں میں صبح صبح ٹھنڈے ٹھنڈے پانی لے کر بارگاہ رسالت ماٰب ﷺ میں لوگ حاضری دیتے اور یہ چاہتے کہ سرکار دو جہاں ﷺ پانی میں اپنا دست مبارک ڈالدیں تا کہ سارا پانی متبرک ہوجائے۔ ہمارے آقا ومولیٰ ﷺ ان عقیدت مندوں کی دلجوئی کی خاطر کبھی انکار نہ فرماتے اور سخت ٹھنڈک کے باوجود بھی ان کی درخواست قبول فرمالیتے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام کا یہ عقیدہ تھا کہ جس پانی سے نبی اکرم ﷺ کا دست مبارک چھوجائے وہ متبرک بن جائے گا۔ اس تبرک کے حصول کی خاطر وہ روزانہ اپنے خادمین کو بھیجتے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ نبی اکرم ﷺ کا بھی یہی عقیدہ تھا۔معلوم ہوا کہ جس چیز سے سرکاردوعالم ﷺ سے نسبت، تعلق ہوجائے یا آپ سے صرف چھوجائے اس کا درجہ بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ مبارک شئی بن جاتی ہے۔ ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی درخواست قبول کرنے کے بجائے انھیں ایسا کرنے سے روک دیتے۔ اور فرما دیتے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں یہ عبث کام ہے۔ لیکن اس کے برخلاف ہمیشہ اس پر عمل کرکے اپنے عقیدتمندوں کے واسطے ہمیشہ کے لئے جواز وسنت کی راہ پیدا فرمادی۔
(۹)خاکساری ، تواضع اور نرمی کا حال یہ تھا کہ غریب سے غریب ، مفلس سے مفلس، حتیٰ کہ لونڈی غلام بھی جب نبی اکرم ﷺ کو کہیں چلنے کی دعوت دیتے تو وہ قبول ہوتی اور وہ جہاں چاہتے یا جتنی دور چاہتے بے تکلف لے جاتے۔ نبی اکرم ﷺ کبھی انکار نہ فرماتے ۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کَانَتْ اَمَۃٌ مِنْ اِمَائِ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ تَاخُذُ بِیَدِرَسُوْلِ اللّٰہِ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فَتَنْطَلِقُ بِہِ حَیْثُ  شائت۔
ترجمہ: مدینہ کی کوئی باندی رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں لے جانا چاہتی لے جاتی۔ (بخاری، مشکوٰۃ)
(۱۰) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔
وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لِنَفْسِہِ فِیْ شَیئ قَطُّ۔
رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی سے اپنی ذات کے لئے انتقام نہیں لیا۔(بخاری ومسلم)
مسلم شریف میں ہے۔
(۱۱) مَاضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قَطُّ بِیَدِہٖ وَلاَ اِمْرَأَۃً وَّلاَ خَادِماً۔
رسو ل اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت کو، نہ کسی خادم کو۔ (مسلم)
(۱۲) یہ مشہور واقعہ ہے جب سرکار دو جہاں ﷺ اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے طائف کی وادی میں تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ کے اوپر پتھر برسائے ۔ اور بڑی ہی سنگدلی اور بد اخلاقی کا ثبوت دیا۔ طائف کے غنڈوں اور بدمعاشوں نے آپ کے جسم مبارک کو خون سے لت پت اور لہو لہان کردیا۔ ایسی حالت میں پہاڑوں کے فرشتہ نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کی۔ یا رسول اللہ ! (ﷺ) آپ مجھے حکم فرمائیں میں اخشین نامی پہاڑوں کو ان نافرمانوں اور بے ادب لوگوں پر گرادوں۔ مگر نثار جائیے خُلْقِ عظیم کے پیکر ﷺ پر ارشاد فرماتے ہیں نہیں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور شرک سے محفوظ رہیں گے۔ (بخاری ومسلم، شان حبیب الباری من روایات البخاری ص۲۷)
فرشتہ خود حاضر ہے۔ آپ پر ظلم وستم ڈھانے والوں کے عتاب وسزا کے لئے ان کے اوپر پہاڑوںکو گرا کر نیست ونابود کرنے کے لئے محض ادنیٰ اشارے کی حاجت ہے۔ مگر رحمت عالم ﷺ نے ظلم وستم خود برداشت کرلئے مگر ان پر آنچ نہ آنے دی۔
(۱۳) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فَاحِشاً وَّلاَ لَعَّاناً وَّلاَ سَبَّاباً کَانَ یَقُوْلُ عِنْدَالْمَعْتِبَۃِ مَالَہ تَرِبَ جَبِیْنُہُ۔
رسول اللہ ﷺ فحش گو، لعنت کرنے والے اور بدکلام نہیں تھے۔ جلال کے وقت صرف اتنا ارشاد فرماتے۔ اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔ (بخاری)
(۱۴) مسلم شریف میں ہے:
اِنِّیْ لَمْ اُبْعَثْ لَعَّاناً وَّاِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃً۔
میں لعنت کرنے والا نہیں بلکہ محض رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔
یقینا ، بلا شبہ ہمارے نبی ﷺ سراپا رحمت ہیں۔ انسان ، فرشتے، جن ، حیوان ، زمین، آسمان، چاند ، سورج، ستارے، دنیا، آخرت، سارے جہان اور پوری کائنات کے لئے رحمت ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے۔
وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِلْعٰلَمِیْن۔
اے محبوب ہم نے تمہیں ساری دنیا کے لئے رحمت ہی بناکر بھیجا۔ (سورۂ انبیا آیت ۱۰۷)

وہ ہر عالم کی رحمت ہیں کسی عالم میں رہ جاتے    یہ ان کی مہربانی ہے کہ یہ عالم پسند آیا

احادیث وتاریخ کے انمٹ نقوش نبی کریم ﷺ کے عظیم اخلاق پر شاہد وگواہ ہیں۔ اشاعتِ اسلام کی برق رفتاری میں سرکار دوجہاں ﷺ کے بلند اخلاق کا بڑا دخل ہے۔ فسق وفجور اور انتقامی جذبہ سے سرشار، اس جنونی اور مشرکانہ ماحول میں جیسا بلند
وبالا اَخلاق آپ نے پیش فرمایا اس کی نظیر دنیا کے کسی قائدورہنما میں نہیں ملتی۔ بلکہ ایسی نظیر ملنا محال ونا ممکن ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مقدس ببانگ دُہَل اعلان فرماتا ہے۔
اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْم
یا رسول اللہ !آپ تو خُلقِ عظیم کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔

فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں      خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھر یرا تیرا

(حدائق بخشش از اعلی حضرت امام احمد رضا قادری ، قدس سرہ)

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

طالبان علوم اسلامیہ اور علمائے کرام مولانا محمد افتخار حسین رضوی

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم
طالبان علوم اسلامیہ اور علمائے کرام: اسلام کی مقدس جماعت

علم دین حاصل کرنا اور باصلاحیت عالم بننا بہت بڑی سعادت ہے، اس کے بےشمار فضائل و برکات اور فوائد ہیں ۔ عالم دین بہت ہی خوش نصیب ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ اسلام کی تعلیمات کو عام کرکے دین کی خدمت اور پاسبانی کا مقدس ترین فریضہ انجام دیتا ہے، اس لئے اگر آپ عالمِ دین ہیں تو آپ کو اپنی پاکیزہ قسمت پر ناز کرنا چاہیے اور دنیا کی مشکلات اور سختیوں سے گھبرا کر دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے، دین کی خدمت کرنا اور مسلمانوں کو راہ راست پر لانا بہت مشکل اور چیلنج والا کام ہے، اس لئے علمائے کرام کو اور خاص کر علمائے اہل سنت کو قدم قدم پر بہت سی سخت ترین رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک عالم دین کے لیے سب سے بڑا چیلنج شریعت پر قائم رہنا اور شریعت کے دائرے میں رہ کر اور پورے طور پر اسلام میں داخل ہوکر زندگی گزارنا ہے، تاکہ وہ خود دین کا کامل عامل بن کر دوسروں کے لیے نمونہ عمل بن سکے، اور ایسا عالم باعمل ہی دین کی دعوت وتبلیغ اور نشر واشاعت کا کام عمدہ اور مؤثر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔
در اصل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جس کامیاب اور مطلوبہ عالم دین کا تصور ہمارے ذہن وفکرمیں ابھر کر سامنے آتا ہے،وہ عالم باعمل ہی ہے، جو ضروری علوم دینیہ و شرعیہ سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ متقی، پرہیزگار اور عامل شریعت ہو، ایسا عالم دین خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے عین مطابق خدمت دین اور اشاعت سنت میں مشغول و مصروف رہتا ہے اور دنیا کی لذتوں، آرام و آسائش اور راحت وسکون کی پرواہ نہیں کرتا۔ اس لئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ حقیقی اور شریعت کے عین مطابق عالم بننا کوئی آسان بات نہیں، کسی درسگاہ سے سند حاصل کرنا اوربعض علومِ اسلامیہ پر دسترس حاصل کرلینا آسان ہے ،مگر بحیثیت عالم دین شریعت کے تمام تقاضوں پر مکمل طور پر کھرا اترنا بہت مشکل ہوتا ہے، اور خاص کر تمام تر مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود شریعت کے احکامات کو عام کرنا اور حق بات کہنا سب سے مشکل ترین کام بن جاتا ہے، مگر سچا اور حق گو عالم دین اللہ تعالیٰ اور پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر اللہ ورسول کی مدد کے بھروسے پر سماج کی تمامتر مخالفتوں اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بحسن وخوبی منزل تک پہنچ جاتا ہے، اور دوسروں کے لیے مثال بن جاتا ہے،لہذا عالم دین اور عالم ربانی کے فضائل ،اور بشارتوں اور حقوق و فرائض پر مشتمل قرآن و احادیث کے ارشادات و احکامات اہل سنّت کے تمام طالبان علوم دینیہ وشرعیہ کے پیشِ نظر رہنا چاہیے اور علمائے کرام کے تعلق سے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہم ترین فرمان [ العلماء ورثة الأنبياء] کوہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور انبیائے کرام کی مقدس وراثت کے سچے وارث اور محافظ و امین بن کر آخرت میں انعاماتِ الہیہ کا مستحق بننا چاہیے، تاکہ آپ حضرات کو جس عظیم الشان اور مقدس منصب پر فائز کرنے کے لئے تیار کیا جارہا ہے اسکا وقار مجروح نہ ہو سکے۔
اے جماعت طالبان علوم اسلامیہ! آپ کی جماعت اس روئے زمین پر وہ مقدس ترین جماعت ہے، جن کے لئے فرشتے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں، آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے آپ پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ہیں، سبحان اللہ آپ سب کی عظمتوں کو سلام۔
آپ سب گلستان اسلام کے ایسے مہکتے ہوئے پھول ہیں جنکی نکہتوں سے مشام جاں معطر ہوجاتے ہیں۔
آپ سب حصول ِعلم کے بعد ،ایسی مقدس ترین جماعت میں شامل ہونے والے ہیں جنکے لئے دریا کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں، اس لیے اگر آپ عالم دین بننا چاہتے ہیں، تو اخلاصِ نیت کے ساتھ دین کا سچا خادم، اور محافظ اور مسلمانوں کا بہترین وفادار رہنما بننے کے لیے عالم دین بنیں، دنیا کمانے کے لئے نہیں ورنہ عالم دین بننے کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا،آپ ایسے عالم دین بنیں کہ آپ کی طرز زندگی کو دیکھ کر بزرگانِ دین اور اسلاف کی یاد تازہ ہو جائے۔
یاد رہے عالم دین پر بہت سی ذمےداریاں عائد ہوتی ہیں، اسلامی سماج اور معاشرہ اور مسلمانوں کی ہمہ جہت تعمیر وترقی اور مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھنے میں علمائے کرام کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔ عوام ، علمائے کرام کی اتباع و پیروی کرتے ہیں، وہ علمائے کرام کو دیکھ کر سدھرتے اور بگڑتے ہیں،وہ دین کے معاملے میں مکمل طور پر علماء کے قول و فعل کو ہی اپنے لیے مشعل راہ مانتے ہیں، لہذا اگر علمائے کرام اور تمام دینی ومذہبی رہنماؤں سے ذرا بھی لغزش ہوتی ہے، شریعت کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو عوام بھی غلطی کرنے لگتی ہے، اگر قوم وملت کا کوئی بھی ذمےدار عالم اور مذہبی رہنما ،گمراہ ہوجائے، تو ان کی پیروی کرنے والی قوم بھی گمراہ اور بےدین ہوجاتی ہے۔
امتِ مسلمہ کے ایک عظیم ذمےدار عالم ربانی، امام محمد غزالی علیہ الرحمہ کا ایک تاریخی قول ہے، کہ قوم گمراہ ہوئی بےعمل مولویوں اور جاہل صوفیوں کی وجہ سے۔
اللہ تعالی اپنے محبوب داناے غیوب پیارے آقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں، طالبان علوم اسلامیہ کو بہترین، عمدہ، عالم باعمل اور دین متین کا سچا خادم، محافظ اور پاسبان بنائے۔
وماعلینا الا البلاغ
ازقلم
محمد افتخار حسین رضوی
ٹھاکر گنج، کشن گنج ،بہار
۳؍ اگست ۲۰۲۱

قربانی کی دعا

{قربانی کا طریقہ}

مسئلہ۲۱ : قربانی کا جانور بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو ،اوراپنا دایاں پاؤں ،اس کے پہلو پر رکھیں ۔ اورذبح سے پہلے یہ دعا پڑھیں۔

{قربانی کی دعا}

اِنِّیّ وَجَّھَتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ حَنِیْفاًوَّمَا اَنَامِنَ المُشْرِکِیْنَ۔ اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ ،لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَلِکَ اُمِرْ تُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔
پھر اَ للّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ پڑھتے ہوئےتیز چھری سے ذبح کریں ۔ قربانی اپنی طرف سے ہو، توذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَماَ تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَ اھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَاالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ ۔
اگردوسرے کی طرف سے ذبح کرنا ہے تو مِنِّی کی جگہ مِنْ کے بعداس کا نام لے۔

مسئلہ: اگر وہ جانور مشترک ہے تو اس طرح لکھ کر ذبح کے بعد پڑھ لیں ۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ
(۱)……………ابن……………
(۲)……………ابن……………
(۳)……………ابن……………
(۴)……………ابن……………
(۵)……………ابن……………
(۶)……………ابن……………
(۷)……………ابن……………
کَمَاتقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَاالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ ۔

اَلاسلامی.نیٹ
www.al islami.net (AL-ISLAMI)

نماز عید الاضحیٰ کا طریقہ

{عید الاضحی }

مسئلہ۱: عیدالاضحی کے دن غسل کرنا ، اچھے کپڑے پہننا ، خوشبو لگانا، ایک راستہ سے عیدگاہ جانا، دوسرے سے واپس آنا ، راستہ میںبلند آواز سے تکبیر کہتے ہوئے جانا مستحب ہے ۔ اور صبح سے قربانی کرنے تک کچھ نہ کھانا پینا، مستحب ہے ۔
مسئلہ۲:عید الاضحی کی نماز ’’دو رکعت ‘ ‘ واجب ہے۔ اور اس میں اذان و اقامت نہیں ہے۔

{عید الاضحی کی نماز کا طریقہ}

مسئلہ۳: پہلے یوں نیت کریں، دورکعت نمازواجب، عیدالاضحی کی میں نے نیت کی ، چھ زائد تکبیروں کے ساتھ، منھ میرا کعبہ شریف کی طرف، اللہ کے واسطے، اَللہُ اکْبَر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لیں۔
امام ثنا پڑھیں گے، پھر تین زائد تکبیر کہیں گے۔پہلی دو تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ لے جائیں اور اَللہُ اکْبَر کہتے ہوئےہاتھ چھوڑ دیں، تیسری تکبیر میں کانوں تک ہاتھ لے جائیں اور اَللہُ اکْبَر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لیں۔ ایک رکعت پوری کر کے دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں کہیںگے۔ تینوں میں کانوں تک ہاتھ لے جائیں اور اَللہُ اکْبَر کہتے ہوئے ہاتھ چھوڑدیں۔ چوتھی تکبیر رکوع کی ہوگی۔ اس میں ہاتھ نہ اٹھائیں۔ ہاتھ اٹھائے بغیر رکو ع میں جائیں اور نماز مکمل کریں۔
سلام کے بعد امام خطبہ پڑھیں گے، سامعین متوجہ ہوکرخطبہ سنیں ۔ خطبہ کے بعد دعا ، مصافحہ اور معانقہ مستحب ہے ۔

{ تکبیـر تـشریق }

مسئلہ۴: نویںذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک جو نماز جماعت کے ساتھ ادا کی گئی ہو ہر نماز کے بعد ایک بار کہنا واجب اور تین بار افضل ہے ، تکبیر یہ ہے۔اَللہُ اَکْبَرْاَللہُ اَکْبَرْ،لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، وَاللہُ اَکْبَرْ،اَللّٰہُ اَکْبَر، وَلِلّٰہِ الْحَمْدْo

قربانی کے مسائل

بسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۵
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

احمد القادری مصباحی

{فضائل ومَسائلِ قربانی}

قربانی:
مخصوص جانور کا ایام ِنحر میں ،بہ نیت ِتَقَرُّبْ، ذبح کرنا قربانی ہے۔
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ مسلمانوں کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ۔ خدا وند کریم کا ارشاد ہے
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر
اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔(سورۃ ۱۱۰: آیت ۲)

{احادیث وآثار }

حد یث۱ } حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے نے فرمایا یہ تمھارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے، صحابہ نے عرض کیا یارسو ل اللہ! ہمیں اس میں کیا ثواب ملے گا ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔(احمد ،ابن ماجہ)
حد یث۲} حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔ قربانی کے دنوں میں ابن آدم کا ،کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے ) سے زیادہ پیارا نہیں، اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں، کھروں کے ساتھ آئے گا ،اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقامِ قبول میں پہنچ جاتا ہے۔
(ترمذی،ابن ماجہ)
حد یث۳ } حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب ہرگز نہ آئے ۔ (ابن ماجہ)
حد یث۴} حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیاگیا اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں ۔ (طبرانی)
حد یث۵} امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔ افضل قربانی وہ ہے جو باعتبارِ قیمت اعلیٰ اور خوب فربہ ہو ۔ (امام احمد)
حد یث۶} حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، رات میں قربانی کرنے سے منع فرمایا ۔
حدیث۷} حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں کا کوئی قربانی کرنا چاہے تو اس کوچاہئے کہ بال منڈانے، یا ترشوانے، اور ناخن کٹانے سے رکا رہے ۔ (مسلم)

{چند اہم مسائل}

مسئلہ ۱ : قربانی کے مسئلے میں صاحبِ نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولے، ( 612.412گرام ،یا 19.755 اونس) چاندی یا ساڑھے سات تولے،( 87.487گرام، 2.822 اونس) سونے کا مالک ہو ۔ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا، سامانِ تجارت یا سامانِ غیر تجارت ، یا اتنے نقد روپیوں کا مالک ہو اور مملوکہ چیزیں حاجتِ اصلیہ سے زائد ہوں۔
مسئلہ۲: حاجتِ اصلیہ یعنی جس کی زندگی بسر کرنے میں آدمی کو ضرورت ہے۔ اس کی وجہ سے قربانی واجب نہیں ، نہ اس میں زکوٰۃ واجب ہے جیسے رہنے کا مکان ، جاڑے گرمیوں میں پہننے کے کپڑے ، خانہ داری کے سامان ، سواری کے جانور یا گاڑیاں ، پیشہ وروں کے اوزار، اہلِ علم کے لیے حاجت کی کتابیں ۔
مسئلہ۳: مسافر پر قربانی واجب نہیں، اگرچہ مالدار ہو ۔ ہاں نفل کے طور پر چاہے تو کرسکتا ہے ۔
مسئلہ۴: عورت کے پاس باپ کا دیا ہوازیور ،یا کوئی اور سامان، جو اس کی ملک ہے، اگر وہ نصاب کی قیمت کے برابر ہو، تو عورت پر بھی قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ۵ : جو مالک ِنصاب، اپنے نام سے ایک بار قربانی کرچکا ہے اور دوسرے سال بھی وہ صاحب ِنصاب ہے، تو اس پر اپنے نام سے قربانی کرنا واجب ہے ۔ یہی حکم ہر سال کا ہے ۔
حدیث میں ہے۔
اِنَّ عَلیٰ کُلِّ اھْلِ بَیْتٍ فِی کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَّۃً
بیشک ہر سال گھر کے ہر(صاحب نصاب) فرد پر قربانی ہے۔ (ترمذی)
مسئلہ۶: اگر کوئی صاحب ِنصاب، اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے ، دوسرے کی طرف سے کردے ، اور اپنے نام سے نہ کرے، تو سخت گنہ گار ہوگا۔اِس لئےاگر دوسرے کی طرف سے کرنا چاہتا ہے، تو اُس کے لیے، ایک دوسری قربانی کا انتظام کرے۔

{ایام قربانی}

مسئلہ۷: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے، بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے، یعنی تین دن، دو راتیں۔
مسئلہ۸: قربانی کے لیے دسویں تاریخ، سب میں افضل ہے، پھر گیارہویں ، پھر بارہویں ۔
مسئلہ ۹: شہر میں نماز عید سے پہلے، قربانی کرنا جائز نہیں ۔

{گوشت کے احکام }

مسئلہ۱۰ : قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے، اوردوسرے شخص، غنی یا فقیر کو دے سکتا ہے یا کھلا سکتا ہے، بلکہ اس میں سے کچھ کھالینا ، قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے ۔
مسئلہ۱۱ : قربانی کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ دسویں ذی الحجہ کو صبح سے کچھ نہ کھائے پیئے، جب قربانی ہوجائے تو اسی کے گوشت سے افطار کرے۔
مسئلہ۱۲: بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے، ایک حصہ فقرا ء ومساکین کے لیے ، ایک حصہ احباب ورشتہ دار کے لیے، ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے ، اگر اہل وعیال زیادہ ہوں تو کل گوشت بھی گھروالوں کو کھلا سکتا ہے ۔
مسئلہ۱۳ : قربانی کا گوشت کا فر کو دینا جائز نہیں ۔
مسئلہ۱۴ : قربانی کا چمڑا یاگوشت یا اس کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت میں دینا جائز نہیں ۔

{ذبح کا طریقہ}

مسئلہ۱۵: ذبح میں چار رگیں کاٹی جاتی ہیں ۔ چاروںرگوں میں سے تین کٹ گئیں یا ہر ایک کا اکثر حصہ تو ذبیحہ حلال ہے ۔
مسئلہ۱۶ : ذبح کرنے میں قصداً بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ نہ کہا (یعنی اللہ کا نام نہ لیا ) توجانور حرام ہے ۔ اور بھول کر ایسا ہو اتو حلال ہے۔
مسئلہ۱۷: اگر پور اذبح کرنے سے پہلے قصاب کے حوالے کیا ،تو اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ، کہہ کر ہی ہاتھ لگائے۔
مسئلہ۱۸: اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سرکٹ کر جداہوجائے مکر وہ ہے، مگروہ ذبیحہ کھایا جائے گا ۔ یعنی کراہت اس فعل میں ہے، ذبیحہ میں نہیں ۔
مسئلہ۱۹ : ذبح میں عورت کا وہی حکم ہے جو مرد کا ہے یعنی دونوں کا ذبیحہ جائز ہے۔
مسئلہ۲۰: مشرک اور مرتد کا ذبیحہ مردار اور حرام ہے ۔

{قربانی کا طریقہ}

مسئلہ۲۱ : قربانی کا جانور بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو ،اوراپنا دایاں پاؤں ،اس کے پہلو پر رکھیں ۔ اورذبح سے پہلے یہ دعا پڑھیں۔
اِنِّیّ وَجَّھَتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ حَنِیْفاًوَّمَا اَنَامِنَ المُشْرِکِیْنَ۔ اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ ،لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَلِکَ اُمِرْ تُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔
پھر اَ للّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ پڑھتے ہوئےتیز چھری سے ذبح کرے ۔ قربانی اپنی طرف سے ہو، توذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَماَ تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَ اھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَاالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ ۔
اگردوسرے کی طرف سے ذبح کرنا ہے تو
مِنِّی کی جگہ
مِنْ کے بعداس کا نام لے۔
مسئلہ۲۲: اگر وہ جانور مشترک ہے تو اس طرح لکھ کر ذبح کے بعد پڑھ لیں ۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ
(۱)……………ابن……………
(۲)……………ابن……………
(۳)……………ابن……………
(۴)……………ابن……………
(۵)……………ابن……………
(۶)……………ابن……………
(۷)……………ابن……………
کَمَاتقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَاالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ ۔

مآ خذ و مراجع

(۱) قرآن کریم
(۲) کنز الایمان، امام احمد رضا قادری، رحمۃ اللہ علیہ(۱۲۷۲۔۱۳۴۰ھ)
(۳) صحیح مسلم، امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری ،رحمۃاللہ علیہ (متوفی۲۶۱ھ)
(۴) جامع ترمذی، امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی ،رحمۃاللہ علیہ (متوفی ۲۷۹ ھ)
(۵) ابن ماجہ،امام محمدبن یزید ابن ماجہ، رحمۃاللہ علیہ(متوفی ۲۷۳ھ)
(۶) طبرانی، امام حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد ایوب اللخمی الطبرانی ، رحمۃاللہ علیہ (متوفی۳۶۰ھ)
(۷) مشکوۃ، شیخ ولی الدین تبریزی ،رحمۃاللہ علیہ( متوفی۷۴۲ھ)
(۸) بہار شریعت، صدرالشریعہ،مولانا امجدعلی اعظمی، رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۹۶۔۱۳۶۷ھ)
(۹) قانونِ شریعت ، شمس العلما ، مولانا قاضی شمس الدین ، جون پوری، رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۲۲ ھ ۔ ۱۴۱۰ ھ)
(۱۰) انوارُالحدیث، فقیہ ملت، مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی ، رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۵۲ ھ۔ ۱۴۲۲ ھ)

احمد القادری مصباحی

اَلاسلامی.نیٹ
www.al islami.net (AL-ISLAMI)

عقیقہ کی دعا

{ عقیقہ کا طریقہ}

مسئلہ۱۲: عقیقہ کے جانور کو بائیں پہلو پر اسی طرح لٹا ئیں کہ اس کا رخ قبلہ کی جانب ہو اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑئیں۔

{ عقیقہ کی دعا}

لڑکے کی دعا
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہِ الْعَقِیْقَۃُ لِا ِبْنِیْ (لڑکے کا نام لیں ) دَمُھَابِدَمِہٖ وَلَحْمُھَا بِلَحْمِہٖ وَعَظْمُھَا بِعَظْمِہٖ وَجِلْدُ ھَا بِجِلْدِہٖ وَشَعْرُ ھَا بِشَعْرِہٖ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَائً لِّا بْنِیْ مِنَ الْنَّارo اِنِیّ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰواتِ وَالارضَ حَنِیْفاًوَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo اِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَا یَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَo لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo

لڑکی کی دعا
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہِ الْعَقِیْقَۃُ لِبِنْتِیْ (لڑکی کا نام لیں ) دَمُھَابِدَمِھَا وَلَحْمُھَا بِلَحْمِھَا وَعَظْمُھَا بِعَظْمِھَا وَجِلْدُ ھَا بِجِلْدِھَا وَشَعْرُ ھَا بِشَعْرِھَا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَائً لِّبِنْتِیْ مِنَ الْنَّارِo اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذیْ فَطَرَالسَّمٰواتِ وَالارضَ حَنِیْفاًوَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَا یَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَo لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo
پھر اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ ۔ پڑھ کرتیزی چھری سے ذبح کردیں ۔
نوٹ: عقیقہ کی دعا ،اپنا لڑکا یا لڑکی ہو تو مندرجہ بالا طریقہ پر پڑھیں، لیکن اگر دوسرے کا لڑکا ہو تو لِا ِبْنِیْ میں لِ کے بعد اِبْنِی ہٹا کر لڑکے اور اس کے باپ کا نام لے ۔ مثلاً لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْز اسی طرح دوسرے کی لڑکی ہو تو لِبِنْتِیْ میں لِ کے بعد بِنْتِی ہٹا کر لڑکی اور اس کے باپ کا نام لے۔(مثلاً لِفَاطِمَۃ بِنْتِ خَالِد ) اس کے علاوہ اور کوئی ترمیم نہیں ہوگی۔

اَلْاِسْلامی.نیٹ
www.al islami.net (AL-ISLAMI)

حالات بنارس، از احمد القادری مصباحی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
احمد القادری مصباحی
بھیرہ، ولیدپور ، مئو ، یوپی، ہند

حالات بنارس

بنارس صوبہ اترپردیش کاایک مشہورصنعتی اورقدیم شہر ہے اس کا طولُ البلد ۸۳؍درجہ،۱؍دقیقہ اور عرض البلد۲۵؍ درجہ، ۱۹؍دقیقہ ہے۔
اس کے آباد ہونے کی صحیح تاریخ نہیں بتائی جاسکتی البتہ سارے مؤرخین کااس پر اتفاق ہے کہ دنیا کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک بنارس بھی ہے۔
بعض مؤرخین نےاس کی آبادی کی نسبت حضرت نوح علیہ السلام کےبیٹےکی جانب کی ہے۔ یہ ممکن بھی ہے ،کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام خلیفۂ ارض بن کر زمینِ ہند پر تشریف لائے اورسراندیپ میں قیام فرمایاتھا، تو یہ ہوسکتاہے کہ اولاً ان کی اولاد ہند ہی میں پھیلی ہو اور ہندوستان دنیا میں سب سے پہلا ملک اور اس کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک بنارس بھی ہو۔
کاشی کھنداورہندوؤں کی دوسری دھارمک کتابوں میں اس کومتبر ک بتایاگیا ہے اوراس سلسلے میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے گئےہیں۔ لیکن اس میں بنارس کی کوئی تاریخ نہیں لکھی ہے۔
تاریخِ بنارس میں سب سے مستند تاریخ ”صنم کدۂ بنارس“ ہے ۔ تاریخ فرشتہ(فارسی) میں بھی کچھ تذکرہ ہے۔ ان دونوں تاریخوں میں ہزاروں سال قبلِ مسیح کی قدیم آبادیوں میں بنارس کوشمار کیاہے۔
بنارس کے چند نام
[۱] کاشی: بنارس کاقدیم نام کاشی ہے۔ یہ سنسکرت لفظ کاش سے بناہے جس کے معنی درخشاں اورروشن کےہیں۔ ہنود کے عقیدہ میں کاشی سچی معرفت حاصل کرنے کی جگہ ہے جیسا کہ ان کے وَیدوں میں ہے۔
کاشی نام پڑنے کی دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ راجہ دیوداس کے خاندان میں کاش نام کاایک راجہ ہوا تھا جس نے اس مقام کوبڑی ترقی دی اس لیے اس کے نام پر مشہور ہوگیا۔
[۲] بارانسی یابنارس: دریاےگنگا کےکنارے برناندی کےسنگم اوراسی گھاٹ کےدرمیان واقع ہے اس وجہ سے اس کانام برنااَسی سے بارانسی ہوا پھر بگڑکربنارس ہوگیا۔
[۳]ایک زمانہ میں اس کانام محمدآبادبھی رہاہے جیساکہ شاہی فرامین اورقدیم دستاویزوں میں اب بھی ملتاہے۔
[۴]وارانسی: اب موجودہ حکومت نےقدامت کی طرف پلٹتے ہوئے دوبارہ بارانسی رکھ دیاجو ہندی تلفظ میں وارانسی کہلاتاہے۔
ہند میں اسلام
ہندوستان میں اسلام حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانۂ مبارکہ ہی میں آچکاتھا۔ اس وقت یہاں اسلام پہنچنے کاایک بڑا سبب معجزۂ شق القمر کاظہور تھا ہندوستان کےراجاؤں کےتذکرے میں اس کاذکر ملتاہے۔
تاریخ فرشتہ میں ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ ملیبار کےاسلام لانے کا سبب یہی چاند کےدوٹکرے ہونےکامعجزہ تھا۔ انھوں نے معجزۂ شق القمر کی رات اپنے محل سے چاند کے دوٹکڑے دیکھے۔تحقیق کے بعد نبی آخرالزماں ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر اوراس رات کے معجزے کی تفصیل معلوم ہوئی اورانھوں نے اسلام قبول کرلیا۔
علم توقیت سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں رات کے ۱۲؍بج کر ۵۰؍منٹ ہورہے تھے۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فاتحانہ طور سے ہند کی سرحد میں مسلمان داخل ہوگئے تھے۔آج سے ۱۳۱۴؍سال قبل ۹۲ھ میں محمدبن قاسم کی سپہ سالاری میں ہندوستان کاایک بہت بڑا حصہ فتح ہوکر خلافتِ اسلامیہ میں شامل ہوگیاتھا۔اس کے بعد تواولیاےکرام ونیک دل انصاف پروَرمسلم بادشاہوں نے ہندوستان کے چپہ چپہ پر رشدوہدایت اورعدل وانصاف کی کرن بکھیردیںاوروہ ہندوستان جوجہالت وگمراہی ،چھوت چھات، ظلم وستم اور بربریت کے پنجوں میں کسا ہواتھا اور بھارت کی قدیم رعایا دسیون(اچھوت) پربر ہمنوں اور راج پوت راجاؤں کی طرف سے جومظالم کےپہاڑ توڑے جارہے تھے انھیں پاش پاش کردیا۔ صدیوں کے بعد بھارت کےقدیم باشندوں نےچین وسکون کاسانس لیا اور مسلمانوں کی آمد کواپنے لیے غیبی تائید سمجھا۔ ہزار سال سے زائد عرصہ تک مسلم بادشاہوں کےزیر سایہ خوش وخرم اورچین وسکون کی زندگی گزارتے رہے۔ اس بیچ کبھی بھی عوام کی طرف سے مسلمان بادشاہوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی بلکہ وہ مسلمان بادشاہوں کی حکومت برقرار رکھنے ہی کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے حتی کہ ۱۸۵۷ء میں ظالم انگریزوں کےخلاف مسلمانوں کےدوش بدوش ہندؤں نےبھی جان توڑ کوشش کی اوربہادر شاہ ظفر کی حکومت میں ہی اپنی خیر جانی۔
بنارس میں اسلام:
تاریخی حیثیت سے صنم کدۂ بنارس میں مسلمانوں کاسب سے پہلا قافلہ حضرت سید سالار مسعودغازی علیہ الرحمہ (متوفی۴۲۴ھ) کےرفقا کا اترا، اورجہاد کےبعد ان کایہ جتھا یہیں قیام پذیر ہوگیا اس طرح بنارس میں پہلی مسلم نوآبادی قائم ہوگئی۔ اس سے قبل بنارس میں مسلمانوں کی آمد کا کوئی حال اب تک دست یاب نہ ہوسکا۔(۱)
چوں کہ بنارس ہندوستان کاقدیم مذہبی شہرتھااس لیے مذہب کےسچے، مسلم بادشاہوں نے بھی اس مذہبی شہراوراس کے باشندوں پرزیادہ توجہ دی اورانھیں آرام پہنچانے کی ہرممکن سعی کی یہی وجہ ہے کہ بنارس کی مساجد کےعلاوہ قدیم مندروں پربعض بادشاہوں کی بخشی ہوئی جائدادوں کےفرامین اب تک ان کے متولیوں کےپاس موجود ہیں۔ رام مندر اور دھرہراگھاٹ پر بخشی ہوئی جائدادوں کے فرامین اب تک موجود ہیں۔
علماے کرام اور اولیاےعظام نے بھی بنارس پرخصوصی توجہ صرف کی اوراطراف عالم سے اہل بنارس کی رشد وہدایت کےلیے یہاں تشریف لائے ہزاروں انسانوں کوضلالت وگمراہی کےعمیق گڑھوں سے نکال کررشدوہدایت کی عظیم بلندیوں پر پہنچادیا ان میں اکثراولیاےکرام جوہزار سال پہلے بنارس میں تشریف لائے تھے ابھی تک یہاں سے واپس نہیں گئے۔ اور اپنی قبروں سےفیوض وبرکات تقسیم فرمارہے ہیں۔
چند مشاہیر بزرگان دین
[۱]حضرت ملک افضل علوی علیہ الرحمہ سیدسالار مسعود غازی علیہ الرحمہ(متوفی ۴۲۴ھ) کے خادم خاص ہیں۔علوی پورہ آپ ہی کےنام سے موسوم ہے۔ سالار پورہ میں علوی شہیدکےنام سے آپ کامقبرہ مشہور ہے۔
[۲]حضرت فخرالدین شہید علوی علیہ الرحمہ حضرت ملک افضل علوی کی فوج کےایک عہدیدار تھے آپ کاروضہ مسجد سالار پورہ میں زیارت گاہِ خلائق ہے۔ ہرسال ۱۴؍جمادی الاولیٰ کوعرس ہوتاہے۔
[۳]حضرت ملک محمدباقر علیہ الرحمہ آپ کے نام سے سالار پورہ میں ایک محلہ باقر کنڈ(بکریاکنڈ) ہے وہیں آپ کاروضہ مبارک ہے۔ حضرت مسعود غازی علیہ الرحمہ آپ کی بڑی تعظیم کرتے تھے ۔ کہاجاتاہے کہ راجہ بنارس کاقلعہ آپ ہی کی دعاؤں سے فتح ہوا تھا۔
[۴]حضرت خواجہ نعیم احمد کابلی علیہ الرحمہ حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ(متوفی۶۳۳ھ) کےخلیفۂ خاص تھے۔ بنارس میں ۳۱؍سال رشدوہدایت کاکام انجام دے کر۵؍محرم ۵۹۷ھ کو ہمیشہ کےلیےبنارس کی گود میں سوگئے۔ محلہ قاضی پورہ متصل بڑی بازار میں آپ کامزار پر انوار ہے۔ ہرسال ۷؍محرم کوعرس ہوتاہے۔
[۵]حضرت مولانا شاہ سعید بنارسی علیہ الرحمہ حضرت سید مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی علیہ الرحمہ (متوفی ۸۰۸ھ) کے خلیفہ ہیں آپ کا مزار جلالی پورہ ریلوے لائن کےکنارے واقع ہے۔ہرسال ۱۱؍۱۲؍رجب کوعرس ہوتاہے۔
[۶]شیخ الاسلام حضرت مولاناخواجہ مبارک شاہ علیہ الرحمہ حضرت خواجہ محمدعیسیٰ تاج جون پوری قدس سرہ( متوفی ۸۷۵ھ) کےخلیفۂ خاص اورصاحبِ کرامت بزرگ تھے حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی آپ ہی کےسلسلے میں آتے ہیں۔ شان استغنا کے ساتھ فقر وفاقہ کی کامیاب زندگی گزاری۔۱۰؍شوال کووصال ہوا۔ محلہ بھدؤں متصل کاشی اسٹیشن ایک احاطہ کےاندر آپ کامزار مبارک ہے۔ ہرسال عرس ہوتاہے اورحضرت شاہ طیب بنارسی علیہ الرحمہ کےسجادہ نشیں اورخدام خصوصی طورپر شرکت کرتے بلکہ عرس کااہتمام بھی کرتے ہیں۔
[۷]حضرت مخدوم شاہ طیب فاروقی قدس سرہ یہ بڑے پایہ کے بزرگ ہیں۔ انھوں نے برنا اورگن گا کےسنگم پر پرانا قلعہ کےقریب کھنڈرات میں اپنا حجرۂ عبادت بنایاتھا اوراس جگہ کانام شریعت آباد رکھا تھااب بھی اس مقام سے کچھ فاصلےپر ایک گاؤں اسی نام سے موسوم ہے۔ آخرشوال۱۰۴۲ھ روز ِدوشنبہ محبوب حقیقی سے جاملے۔ منڈواڈیہ میں آپ کامزار مبارک ہے۔ عارف باللہ حضرت مولاناعبدالعلیم آسی غازی پوری علیہ الرحمہ (متوفی ۱۳۳۵ھ) اس آستانہ کےسجادہ نشین تھے۔ اوراب اس وقت جامع معقول ومنقول حضرت علامہ مفتی عبیدالرحمٰن صاحب قبلہ مصباحی رشیدی پورنوی اس آستانہ کےسجادہ نشین ہیں، جن کے اہتمام سے ہرسال ۷؍شوال کو منڈواڈیہ آستانہ شاہ طیب بنارسی علیہ الرحمہ پر بڑے پیمانے پرعرس ہوتاہے۔
[۸]حضرت قطب زماں مولانا شاہ سید محمدوارث، رسول نما بنارسی علیہ الرحمہ۔ آپ سچے عاشق رسول گزرے ہیں۔ سرکار دوجہاں ﷺ کی محبت میں خود رفتہ رہتے تھے۔ بڑی بڑی کرامتیں آپ سے ظہور میں آئیں آپ کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ بحالت بیداری نبی اکرم ﷺ کادیدار نہ صرف یہ کہ خود کرتے تھے، بلکہ جب چاہتے دوسروں کوبھی زیارت رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے مشرف فرمادیتے اسی وجہ سے آپ کالقب رسول نما ہوا۔
آپ کےبدن سے ہمیشہ مشک کی خوش بو نکلتی حتیٰ کہ جسے آپ ہاتھ لگادیتے وہ بھی مہک اٹھتا۔ ۱۱؍ربیع الآخر ۱۱۶۶ھ میں اس دار فانی کوخیر باد کہا۔ محلہ کوئلہ بازار، مولوی جی کاباڑا(متصل مچھودری پارک) میں مرقد انور مرجع خلائق ہے۔
[۹]حضرت مولاناشاہ رضا علی قطب بنارس علیہ الرحمہ ۱۶؍صفر ۱۲۴۶ھ بروز یک شنبہ آپ کی ولادت ہوئی۔ لکھنؤسے علوم وفنون کی تکمیل فرمائی۔ بڑے عابد وزاہد اورعلم دین میں بڑا عظیم مرتبہ رکھتے تھے دور دور سے استفتاکےلیے بارگاہ میں حاضری دیتے میلاد پاک کے جوازپر مظاہرالحق عربی تالیف فرمائی۔ آپ کے فتاوے کا ایک حصہ” فیوض الرضاء“ کے نام سے مطبوع ہے۔ بعض فتاویٰ فارسی زبان میں ہیں باقی اردو میں۔ آپ کےفتاؤں سے آپ کےمسلک پرروشنی پڑتی ہے۔ آپ کےتعلقات اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی قدس سرہ سے بھی تھے آپ نے اپنے بعض فتاویٰ کواعلیٰ حضرت کےپاس تصدیق کےلیے بھی بھیجا۔
۱۳۰۸ھ میں مشہور فتنہ انگیز کتاب تقویۃ الایمان کےرد میں ایک مبسوط فتویٰ بھی تحریر فرمایا جوعلاحدہ سے چھپ چکاہے۔ ۲۱؍شعبان ۱۳۱۲ھ بروز یک شنبہ عصرومغرب کے درمیان اس جہان فانی سے کوچ کیا۔ لاٹ کی مسجد سے متصل پورب جانب مزار پر انوار ہے اور ہرسال عرس منعقد ہوتاہے۔
[۱۰] مولاناشاہ عبدالسبحان مچھلی شہری قدس سرہ، ۱۱؍ذی الحجہ ۱۲۳۳ھ جمعہ کوولادت ہوئی۔ درس نظامیہ میں مہارت حاصل کی حضرت شاہ گلزار کشنوی علیہ الرحمہ سے بیعت وارادت حاصل تھی۔ مطالعہ کتب کا بڑا شوق تھا۔۲۷؍ربیع الآخر ۱۳۲۳ھ کووصال ہوا مزار پاک شکر تالاب کے قریب بلندی پر واقع ہے جسے اونچواں کہتے ہیں اورہرسال مذکورہ تاریخ میں عرس ہوتاہے۔
[۱۱]حضرت شاہ قطب علی بنارسی علیہ الرحمہ، آپ کا قدیم وطن اعظم گڑھ ہے عرصۂ دراز تک ریاضت ومجاہدہ میں مشغول رہے اس زمانہ میں صرف گھاس کھاکر گزارہ کرتے۔ جنگل کےشیرآپ کے تابع فرمان رہتے ۔
پر بھونارائن مہاراجہ بنارس نے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیاتو چار شرطوں پراپنے پاس آنے کی اجازت دی۔(۱)میں تعظیم نہیں کروں گا۔(۲) جس چٹائی پر میرے مریدین بیٹھتے ہیں اسی پر بیٹھنا ہوگا۔(۳) مجھے کچھ نہ دے۔ (۴) مجھ سے کچھ نہ مانگے۔ مہاراجہ نے سب شرطیں قبول کرکے ملاقات کافخر حاصل کیا۔ ۲۶؍رجب ۱۳۱۹ھ بروز دوشنبہ ۸؍بجےشب کوانتقال فرمایا۔ سنگ مرمر کاعالی شان قبہ جواجمیر شریف کاایک نمونہ ہے باقر کنڈ(بکریاکنڈ) کے کنارے کافی بلندی پر ہے۔
[۱۲]حضرت مولانا اسمٰعیل علیہ الرحمہ، قطب بنارس مولانا رضا علی علیہ الرحمہ کےشاگرد خاص اورباکرامت بزرگ تھے کئی علمی کتابیں بھی آپ نے تصنیف فرمائیں۔ ۱۸؍رمضان المبارک بروز پنجشنبہ ۱۲۹۴ھ استاذ محترم ہی کی زندگی میں انتقال فرمایا۔ بٹاؤشہید (کچی باغ) میں مزار مبارک ہے۔ مشہور عالم مولانا خلیل الرحمٰن صاحب آپ ہی کے صاحب زادے تھے۔ آپ کےعہد ہی سے مسجد لاٹ، سریاں میں عیدین کی امامت آپ ہی کےخاندان سے ہوتی ہے۔ آپ کا خاندان آج بھی علم وفضل کا گہوارہ ہے اورشہر میں اعتماد کی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ آپ کے یہاں حضرت حجۃ الاسلام مولاناحامد رضا خاں اورمشہور سنی بزرگ حضرت شاہ یار علی صاحب علیہ الرحمہ براؤں شریف بھی تشریف لاچکے ہیں۔
[۱۳]استاذ الحفاظ حافظ عبدالمجید عرف حافظ جمن علیہ الرحمہ، ایک عرب شیخ سے(جنھوں نے قطبن شہید میں ایک مدرسہ قائم کیاتھا) حفظ قرآن کی تکمیل کی اورپوری زندگی حفظ قرآن کےدرس میں گزار دی زہدوتقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔۱۵؍رجب ۱۳۲۷ھ کووصال ہوا۔اور لاٹ کی مسجد میں قطب بنارس کے مزار کے قریب میں مدفون ہیں۔ ہرسال عرس ہوتاہے اورکثیر حفاظ شریک ہوتے ہیں۔ ایک خاندانی روایت سے معلوم ہوا ہے کہ آپ مشہور مفسر قرآن حضرت صدرالافاضل مولاناشاہ حافظ سید محمدنعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ مصنف خزائن العرفان فی تفسیر القرآن کےحفظ میں استاذ تھے۔ اورحضرت صدرالافاضل نے جب تفسیر لکھی تواس کانسخہ خود لاکر اپنے استاذ زادگان کو ہدیہ کیا وہ نسخہ خاندان میں اب بھی موجود ہے اور نہایت خستہ ہے۔
[۱۴]حضرت مولاناشاہ عبدالحمید فریدی فاروقی پانی پتی علیہ الرحمہ کی ولادت پانی پت میں ہوئی۔ وہیں تعلیم بھی حاصل کی۔ وہاں سے پھر ہجرت کرکے بنارس تشریف لائے پہلے ہی قطب بنارس مولانا رضا علی علیہ الرحمہ نےآپ کی آمد کی پیشین گوئی کردی تھی۔ ۲۰؍شوال ۱۳۳۹ھ کومحبوب حقیقی سے جاملے۔ وفات کےبعد غسل دیتے وقت کثیر افراد نے انگلیوں پروظیفہ پڑھتے دیکھا۔ مزار پرُانوار شکر تالاب میں ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی(۲) قدس سرہ نےقطعۂ تاریخ وفات تحریر فرمایا:

لِلہِ لَبی عَبْدُالْـحَمِیْدِ           قَالَ الرِّضَا فِی اِرْخِ السَّعِیْد
عَبْدُالْـحَمِیْدُ عِنْدَالْـحَمِیْد         فِیْ نَھْرِ قُرْبٍ رَاجِی الْمَزِیْد 

 

ترجمہ: عبدالحمید بارگاہ خدا میں پہنچے رضانے اس مرد سعید کی تاریخ میں کہا: حمید کابندہ حمید کے یہاں قرب کےدربار میں مزید کاامیدوار ہواہے۔
تذکرۃ الحمید میں آپ کے حالات درج ہیںآپ کے صاحب زادےمولانا عبدالرشید صاحب اورپوتے مولاناعبدالشہید صاحب ،مولانا عبدالوحید شاہ صاحب کےمزارات بھی اسی جگہ ہیں بلکہ مولانا عبدالوحید شاہ صاحب کی قبر توخاص اسی قبے میں ہے جس میں مولانا کامزار ہے۔
[۱۵]حضرت مولاناشاہ محمدنعمت اللہ قادری علیہ الرحمہ آپ نے مختلف اساتذہ سےدرس نظامیہ کی تکمیل کےبعد دو سال مولانا ہدایت اللہ خاں رام پوری علیہ الرحمہ(متوفی۱۳۲۶ھ) سےدرس حاصل کیا، غوث الوقت چراغ ربانی مولانامحمدکامل نعمانی علیہ الرحمہ(۳) کی روحانی بشارت پران کے خلیفۂ خاص حضرت صوفی محمدجان رحمۃ اللہ علیہ نے ولیدپور درگاہ شریف میں برسر عام دستار خلافت اورتبرکات ولایت سے سرفراز فرمایا،خلق کثیرکواپنے فیوض وبرکات سے مالامال کرکے ۴؍رجب ۱۳۶۱ھ بروز یک شنبہ بوقت اشراق داعیٔ اجل کولبیک کہا محلہ اورنگ آباد میں مزار شریف ہے۔
بنارس کے چند تاریخی مقامات
ڈھائی کنگرہ کی مسجد:
۴۰۵ھ میں تعمیر ہوئی شہر کی بڑی ممتازسنگین عمارت ہے۔ تاریخی نام” مسجددونیم کنگرہ“ ہے کاشی اسٹیشن کےپورب تقریباً ایک فرلانگ پرمحلہ ایشور میں واقع ہے۔ یہ پوری مسجد پتھروں سے بنی ہوئی ہے لہذا بہت عالی شان ہے۔
مسجد گنج شہیداں:
یہ انگریزوں کےدور حکومت میں کاشی اسٹیشن کی تعمیر ہوتے وقت کھنڈرات کی تہ سے برآمد ہوئی ہے اس کی قدامت سے پتا چلتا ہے کہ ہزار سال سے کم کی نہیں ہوگی لیکن ابھی تک اس کاسراغ نہ لگ سکا کہ اتنی عالی شان مسجد کب اورکیسے دفن ہوگئی تھی۔ پوری مسجد صرف پتھروں سے بنی ہے اورچھت نیچی ہے۔
جامع مسجد گیان واپی:
مشہور یہ ہے کہ اورنگ زیب عالم گیرعلیہ الرحمہ (متوفی ۱۰۱۷ھ) نےاس کی تعمیر کرائی اورمسجد میں منبر کےاوپر جوکتبہ سید میراث علی متولی مسجد نے ۱۲۰۷ھ (انگریزی حکومت کےزمانہ میں) نصب کرایا ہے اس میں بھی اسی شہرت کی بنیاد پر عالم گیرعلیہ الرحمہ کی طرف نسبت کردی ہے لیکن تحقیق کے بعد پتا چلتاہے کہ عالم گیر علیہ الرحمہ کے دادا ہمایوں( م ۹۶۳ھ) سے بھی پہلے یہ مسجد سلطان ابراہیم شاہ شرقی (م ۸۴۴ھ) کےزمانہ میں بنی ہے۔ شاہ جہاں (م ۱۰۶۷ھ) نے اس مسجد میں ایک مدرسہ قائم کیاتھا اوراس کاتاریخی نام ”ایوان شریعت“ رکھاتھا یہ نام ایک مثلث پتھر پرکندہ کیا ہوا، اب تک اس مسجد کے دفترانتطامیہ میں موجود ہے۔ حضرت عالم گیر علیہ الرحمہ کوبدنام کرنے کےلیے متعصبین نےاس مسجد کی تعمیر کےسلسلے میں اس قدر غلط پروپیگنڈا کیاکہ لوگ جھوٹ کوسچ سمجھ گئے اور اصل حقیقت پرلوگوں کو شبہہ ہونے لگا ۔ جب اسلام مسلمانوں کوصرف حلال وپاکیزہ کمائی کے پیسے مسجد میں لگانے کی اجازت دیتاہے تواس کی شریعت کاپابند ایک متقی بادشاہ غیروں کی رقم سے بنی ہوئی مندر کے کسی پتھر یاجائداد کوظلماً کسی مسجد کی تعمیر میںکیسے لگاسکتاہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آج کے گئے گزرے زمانے میں بھی اگر کوئی جبراً کسی مندر کویاکسی بھی زمین پر ناجائز قبضہ کرکےمسجد بنائے، توکوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی اس میں نماز پڑھنا پسند نہ کرےگا بلکہ اس کے خلاف ہنگامے ہی ہوں گے۔ تو، کل اگرایسا کسی نے کیاہو تا، توضرور اس کے خلاف ہنگامہ ہوتا، اور اس کاکچھ ذکر تاریخ میں ضرور ملتا۔ لہٰذا محض گمان کوتاریخ کادرجہ نہیں دیاجاسکتا۔
مسجد دھرہرہ:
شہنشاہ عالم گیرعلیہ الرحمہ کےدور حکومت میں اس مسجد کی تعمیر ہوئی اس میں دوبلند مینارے تھے جس پرچڑھ جانے سے پورے بنارس کامنظر دکھائی دیتا تھا، مگرافسوس کہ ایک مینارہ ناگہانی طورپر منہدم ہوگیا اوردوسرا بھی محکمۂ آثار قدیمہ نے ٘مخدوش ہونے کےسبب اتاردیا یہ مسجد دریائےگنگا کےکنارے ہے۔
مسجد عالم گیری:
(فوارہ) ۱۰۷۷ھ شہنشاہ عالم گیرعلیہ الرحمہ کے زمانہ میں اس کی تعمیر ہوئی فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ  محراب پرکندہ ہے، اوراس سے سن تعمیر نکلتا ہے۔ محلہ بشیشور گنج سبزی منڈی کے پچھم واقع ہے، افسوس کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد ہے۔
عیدگاہ لاٹ بھیرو:
یہ جلالی پورہ سے متصل ایک قدیم تاریخی عیدگاہ ہے، اس کے چاروں طرف شہرخموشاں آباد ہے۔عید گاہ کےبیچ میں پتھر کاایک ستون قائم تھا، ہندواسے متبرک سمجھ کرپوجاکرنے لگے وہی ستون لاٹ بھیرو کےنام سے مشہور ہے موجودہ عیدگاہ کی تعمیر ۱۲۵۹ھ میں ہوئی ہے۔ اس کے پچھم متصل ہی ایک بزرگ کامزار ہے جنھیں مخدوم صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔ عیدگاہ کے پورب پتھر کی ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے اوراس کے متصل قطب بنارس مولانا رضا علی صاحب علیہ الرحمہ کامزار ہے اوراس کےدکھن تالاب ہے۔
جلالی پورہ:
وارانسی سیٹی(علوی پورہ) ریلوے اسٹیشن اوربڑی ریلوے لائن کے درمیان آباد ہے۔ شہنشاہ غیاث الدین تغلق(م ۷۲۵ھ) نے اپنے زمانے میں جلال الدین احمد کو بنارس کاحاکم مقرر کیاتھا انھیں کے نام پرمحلہ جلالی پورہ مشہورہے۔
اسی محلہ میں بنارس کاقومی وملی ادارہ، مدرسہ مدینۃ العلوم اپنی شان وشوکت کےساتھ قائم ہے۔
عربی مدارس:
بنارس میں تمام ہی مکاتب فکر کے عربی مدارس بڑی تعداد میں موجود ہیں،خاص اہل سنت وجماعت کے مشہور مدارس کےنام یہ ہیں :
جامعہ حمیدیہ رضویہ ، مدن پورہ، جامعہ فاروقیہ مدن پورہ، جامعہ حمیدیہ رشیدیہ شکرتالاب، جامعہ حنفیہ غوثیہ بجرڈیہہ، دارالعلوم امام احمدرضا لوہتہ، مدرسہ مدینۃ العلوم، جلالی پورہ۔وغیرہ

حواشی:
[(۱) مسجد ڈھائی کنگرہ جس کااصل تاریخی نام ہے مسجد ”دونیم کنگرہ“سے اس کاسال تعمیر ۴۰۵ھ نکلتاہے جس سے پتا چلتاہے کہ مسلمان ۴۰۵ھ سے قبل بنارس میں آچکے تھے۔
(۲)امام احمدرضا بریلوی قدس سرہ نے۱۰؍شوال ۱۲۷۲ھ کوخاک دان گیتی پرقدم رکھا چودہ سال سے کم عمر میں تمام علوم عقلیہ ونقلیہ کے عالم ہوکر مسند افتا پررونق افروز ہوئے۔پوری دنیا میں آپ کادارالافتا منفرد حیثیت کاحامل رہا۔ فی سبیل اللہ پوری عمر فتویٰ نویسی ،تصنیف وتالیف، دین حق کی حمایت اورابطال باطل میں وقف فرمادی بے پناہ عشق رسول کریم علیہ السلام آپ کےدل میں موجزن تھا، جواکثر آپ کی تحریروں اورنعتوں کی شکل میں بطور شاہد ہے۔ تقریباً ہزار تصنیفات امت مرحومہ کو عنایت فرماکر ۲۵؍صفر۱۳۴۰ھ بروز جمعہ اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والتسلیم کی زیارت کے شوق میں فرحاں وخنداں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے جہان فانی سے تشریف لے گئے۔ بریلی شریف میں ہرسال مذکورہ تاریخ میں عرس مبارک منعقد ہوتاہے۔
(۳) حضرت مولانامحمدکامل نعمانی علیہ الرحمہ کی جاےپیدائش ولیدپور(اعظم گڑھ) ہے بچپن ہی میں یتیم ہوگئے مولاناعبدالحلیم فرنگی محلی (م ۱۲۸۵ھ) محشی نورالانوار ومصنف نورالایمان وکتب کثیرہ سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ بہت دنوں تک جج کے عہدہ پر فائز رہے راہ طریقت میں عظیم مجاہدہ کیا۔ قیام جون پور کے زمانے میں شاہی مسجد کی تعمیر کراتے وقت جب ایک مزدور چھت سے گر کر مرگیا توآپ ہی کی دعاسے زندہ ہوا۔ یہ کرامت دیکھ کر بہت سے مسلمان آپ کے دست حق پرست پر تائب ہوگئے اوربہت سےغیر مسلموں نے اسلام قبول کرلیا۔ آخر کار بے شمار خلفا ومریدین کومخلوق کی رہنمائی کےلیے جانشین چھوڑ کر ۷؍جمادی الآخرہ ۱۳۲۲ھ کواس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ولیدپور میں ہرسال عرس ہوتاہے۔ مزید معلومات کے لیے راقم الحروف کی کتاب ”حالات کامل“ کامطالعہ کریں جوابھی حال میں اسلامی اکیڈمی بنارس کےزیراہتمام مکتبہ غوثیہ بجر ڈیہہ سے عمدہ کتابت وطباعت کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔

مآخذ
۱۔مرقع بنارس، چودھری (غلام) نبی احمد سندیلوی، مطبوعہ ۱۹۳۹سلطان برقی پریس نظیرآباد، لکھنو
۲۔ آثاربنارس، مطبوعہ ۱۹۶۸ ، از مفتی عبد السلام نعمانی مجددی
۳۔مشائخ بنارس، از مفتی عبد السلام نعمانی مجددی
۴۔تذکرۃ الحمید (علیہ الرحمہ)
۵۔تاریخ بنارس، حکیم سید مظہر حسن
۶۔ صنم کدۂ بنارس
۷۔ تاریخ فرشتہ، از محمد قاسم فرشتہ (متوفی۱۰۳۳ھ ، ۱۶۲۰)
۸۔ مظاہر الحق عربی، قطب بنارس، مولانا شاہ رضا علی علیہ الرحمہ
۹۔ فیوض الرضا، از قطب بنارس، مولانا شاہ رضا علی علیہ الرحمہ
۱۰۔ مدینۃ العلوم کا ماضی اور حال، مطبوعہ ۱۹۸۶ شعبۂ اشاعت، مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم بنارس
۱۱۔سوانح اعلی حضرت ، مولانا بدرالدین احمد قادری علیہ الرحمہ
۱۲۔حالات کامل، از احمد القادری مصباحی، مطبوعہ مکتبہ غوثیہ بجر ڈیہہ، بنارس
۱۳۔ذاتی مشاہدات
۱۴۔ انفرادی معلومات
۱۵۔ کتبات ، وغیرہ

بقلم احمد القادری مصباحی غفرلہ
(پرنسپل، مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم ، جلالی پورہ ، بنارس)
یکم جمادی الاولی ۱۴۰۶ ھ دوشنبہ
مطابق ۱۳ جنوری ۱۹۸۶

بابا قاسم سلیمانی علیہ الرحمہ، مفتی سید محمد فاروق رضوی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
از مولانا سیدمحمدفاروق رضوی
استاذ و مفتی- جامعہ حنفیہ غوثیہ ، بجرڈیہہ،بنارس
ناظم اعلی(جنرل سکریٹری) اسلامی اکیڈمی ، بنارس

مختصرحالات بابا قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ

ولادت: ۹۵۶ھ – وفات ۱۰۱۶ھ

حضرت بابا قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ بہت مشہور بزرگ ہیں، بنارس کےمسلمان آپ کے بہت معتقد ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ” حالات بنارس “میں آپ کا ذکر جمیل کردیاجائےتاکہ قارئین کرام کے لیے حصولِ فیض کاذریعہ ہو۔

ولادت:
حضرت شیخ قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت شیخ قدم قندھاری رحمۃ اللہ علیہ پیشاوری کے فرزند ارجمند ہیں ۔ وطن شریف آپ کاپیشاور تھا، آپ کی ولادت باسعادت ۹۵۶ھ موسم بہار میں، نماز اشراق کےوقت ہوئی، پیدائش سے پہلے بہت سے اولیاےکرام ومشائخ زمانہ نے آپ کےپیداہونے کی خبردی اورمبارک بادی سے نوازا، آپ کی پرورش آپ کی والدہ محترمہ بی بی نیک بخت اور دادی شہیدی نےکی اورشیخ محمد کر زئی نے قرآن عظیم اوردیگر مذہبی کتابیں پڑھائیں۔

شرف بیعت اورابتدائی حالات سفر:
آپ کے حالات میں لکھا ہے کہ جس مقام پرآپ قیام فرماتے اس مقام میں ذکرالٰہی کی برکت سے یہ کیفیت رونماہوتی کہ کسی قوم کا کوئی شخص بھی اس مقام سے گزرتا توبے اختیار ہوکر نعرۂ الااللہ کی ضرب لگا تا۔ ۹۸۳ھ میں مقام دوآبہ(اپنی سسرال) سے رخصت ہوکر حضرت نے غیبی الہام کے مطابق ۵؍فقیروںکوہمراہ لے کرپیشاور کاقصد فرمایا، پھر وہاں سے جلال آباد، کابل ، کوہ ہندوکش، خنجان، غورنامی جگہوں سے ہوتے ہوئے مولاعلی کرم اللہ وجہہ کےقبرانور کی زیارت فرماکرشہر بلخ تشریف لے آئے، پھر وہاں سے سرغان اور دوسرے مقامات کی سیاحت کرتے ہوئے بربو میں حضرت خواجہ عبداللہ انصاری کی زیارت فرمائی۔الغرض آپ مختلف مقامات اورشہروں سے گزرتے ہوئے مشہد مقدس پہنچے وہاں سے خراسان، غزنی، نیشاپور، گیلان شریف اورتبریز ہوکرامیدیہ میں تشریف فرماہوئے۔ اس طویل سفر میں آپ کے چاروں درویش رفقا انتقال کرگئے پھر بھی حضرت باباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنامبارک سفر جاری رکھا۔ جنجیرہ اوردوسرے مقامات سے گزرتے ہوئے شہر حلب اوروہاں سے شہر حمہ حضرت شیخ عفیف الدین سید حسین(سجادہ نشین حضرت قطب الکونین غوث الثقلین سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوکرشرف بیعت سے مشرف ہوئے۔

شہنشاہ جہانگیر اور بابا قاسم سلیمانی
اکبر کی وفات کےبعد جب شہنشاہ جہاں گیر تخت نشین ہوئے اورشہزادہ خسرونے لاہور آکر لاہور کو اپنے قبضے میں کرلیا توشہنشاہ جہاں گیر نے حملہ کرکے خسرو کو شکست دے کر قید کردیا ،کچھ لوگوں نے جہاں گیر کوخبر دی کہ بعض درویشوں نےبھی خسروکےلیے فتح وکامرانی کی دعائیں کی تھیں، جن میں نمایاں طورپرحضرت بابا قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کاذکر کیاگیا اوربادشاہ کوبتلایا گیاکہ حضور باباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کےبہت کافی مرید ہیں اورآپ کا سلسلہ ارادت بہت وسیع ہے۔جس سے حکومت کےلیے کبھی بھی خطرہ ہوسکتاہے۔ بادشاہ نے بتاریخ ۲۸؍ربیع الآخر ۱۰۱۵ھ کوباباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کوبلایا اوراس سلسلے میں گفتگوکی، حضرت بابا قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: خلق خدا کی رشدوہدایت کےلیے لوگوں کومرید کرنا کوئی گناہ نہیں، کچھ دیر بعد آپ کورخصت کردیا اورشہزادۂ پرویز کےیہاں قیام کرنے کی گزارش کی۔ ایک روز کاواقعہ ہے کہ بادشاہ نے ایک طشت میں زنجیر اورشمشیر(تلوار) رکھ کر حضرت کی خدمت میں بھیجوایا، آپ نے فرمایا: فقیروں کوشمشیر کی ضرورت نہیں اور زنجیر قبول فرمائی۔ گویایہ اشارہ تھاکہ بادشاہ کی جانب سے کہ آپ قیدہونا قبول کریں یا جنگ کےلیے تیار ہوجائیں۔ حضرت باباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نےیہ پسند نہ فرمایا کہ دو مسلمان آپس میں لڑیں اورمخلوق خدا کا ناحق خون بہے، اسی لیے آپ نے زنجیر پسند فرمائی۔۸؍جمادی الاولیٰ ۱۰۱۵ھ کوبادشاہ نے خلیفہ باقی خاں کوچنار کاگورنر بناکر روانہ کیا اورحضرت کوبھی چنار کے قلعے میں رکھے جانے کا حکم دیا۔ حضرت باباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ باقی خاں کے ساتھ چنار کی جانب روانہ ہوئے اور ۲۵؍رجب ۱۰۱۵ھ کوداخل قلعہ ہوکر خان اعظم کے محل میں تشریف فرماہوئے اورنظر بند کردیے گئے۔

کراماتِ حضرت باباقاسم سلیمانی
اللہ تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ بندے جن کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ خداکے ہوجاتے ہیں اورخدا ان کاہوجاتاہے ان کاعالم کچھ اورہوتاہے، یہی وجہ تھی کہ باوجود قیدوبند ہونے اور ہرطرح کی نگرانی کےجب آپ کی مرضی ہوتی محل کے باہر تشریف لاتے، پہاڑوں کی سیر کرتے اورپوری آزادی کےساتھ نمازیں ادافرماتے اورجب چاہتے محل سرا میں پہونچ کراپنی سابقہ حالت میں موجود نظرآتے۔جب محافظین نے آپ کی یہ کھلی ہوئی کرامتیں دیکھیں تودل میں خوف پیدا ہواکہ کہیں آپ باہرتشریف لے گئے اور واپس تشریف نہ لائے توہم سب عتاب کیے جائیں گے، انھوں نے فوراً یہ کیفیت لکھ کربادشاہ کے حضور پیش کی ، جواب آیاکہ:
[۱]میری طرف سے حضرت کو ہرطرح کی آزادی ہے جہاں چاہیں بلا روک ٹوک آجاسکتے ہیں۔
[۲]آپ کی مرضی کےمطابق جہاں آپ چاہیں تاحد نظر زمین معاف ہے۔
[۳] میں عن قریب زیارت سے مشرف ہونے کی تمنا رکھتاہوں ۔
آپ نے جواب میں بادشاہ کوفرمایا:
[۱]مجھے تیری بخشی ہوئی آزادی کی ضرورت نہیں ،حق تعالیٰ عن قریب میرے طائرروح کوقفص عنصری سے آزاد کردےگا۔
[۲] بھلا تیرا یہ مقدور کہاں کہ تومجھے تاحد نظر زمین معافی میں دے، جب کہ میری نگاہیں عرش الٰہی تک پہنچاکرتی ہیں۔
[۳]میں کبھی تیری ملاقات پسند نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ خاندان تیموریہ کےکسی فرد کواب تک درگاہ معلیٰ کی زیارت نصیب نہ ہوسکی۔
اس کے بعد چنار کےقلعے دار باقی خان نے عرض کی حضور کوئی مکان اپنی ابدی آرام گاہ کےلیے تجویز فرمالیں، چناں چہ ایک مرتبہ قلعے کی مغربی سمت تیر وکمان لے کر کھڑے ہوئے،تیر چھوڑا توکچھ دور پہنچ کرگرنے لگا، آپ نےفرمایا: ٹک اور ،یعنی کچھ اور دور پھر وہ تیراپنی جگہ سے اٹھا، آگے بڑھ کر ایک مقام پرگرگیا، آپ نے اسی مقام کواپنی آرام گاہ قرار دی، آپ کے لفظ”ٹک اور“ فرمانے کی وجہ سے اس جگہ کانام محلہ ”ٹکور“ ہواجوآج تک مشہور ہے۔

اولیا راہست قدرت از الٰہ
تیر جستہ باز گردانند زراہ

۱۹؍جمادی الاولیٰ ۱۰۱۶ھ کوآپ نے اس دارفنا سے کوچ فرمایا، نوراللہ مرقدہ(۱)

تاج داری کے لیے ان کی گدائی کیجیے
جھولیاں بھرجائیں توفرماں روائی کیجیے

منقبت سلیمانی

(۵) باباقاسم سلیمانی علیہ الرحمہ کاتذکرہ مرتبہ مولاناذکی اللہ اسدالقادری اورمذکورہ منقبت حضرت مولاناحافظ معین الدین صاحب بنارسی کےذریعے دست یاب ہوئیں، اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیردے۔۱۲ناشر]
سیدمحمدفاروق رضوی
خادم تدریس وافتا- جامعہ حنفیہ بجرڈیہ،بنارس
متولی مدرسہ حسامیہ رضویہ، رسول پور قاضی،کوشامبی (الہ آباد)

نماز میں آہستہ آمین کہنے کاثبوت، احمد القادری مصباحی

نماز میں آہستہ آمین کہنے کا ثبوت
ازاحمد القادری مصباحی

نماز میں آہستہ آمین کہنا سنت، اوررسول ﷲ ﷺ کے حکم کے مطابق ہے۔ آہستہ آمین کہنے کے سلسلے میں، متعدد احادیث آئی ہیں۔
{۱} حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے۔
عن وائل ابن حجر( رضی اللہ تعالٰی عنہ )انہ صلے مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلما بلغ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین قال اٰمین و اخفیٰ بھا صوتہ۔
(۱۔امام احمد، ۲۔ابوداؤدطیالسی، ۳۔ابویعلی موصلی، ۴۔طبرانی،۵۔ دارقطنی، ۶۔مستدرک للحاکم )
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب حضور (ﷺ ) غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ، پر پہنچے تو آپ نے آمین کہا،اور آمین میں ،اپنی آواز آہستہ رکھی۔
{۲} حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری روایت ہے۔
قال سمعت رسول اللہ ﷺ قرا غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقال اٰمین و خفض بہٖ صو تہٗ ،
(۷۔ابوداؤد، ۷۔ترمذی،۸۔ ابن ابی شیبہ )
فرما تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھاتو آمین کہا ، اور آواز آہستہ رکھی۔
ان دونوں حدیثوں سےمعلوم ہوا ،کہ آمین، آہستہ کہنا ، رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
{۳} حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے ۔
قال رسول اللہ ﷺ اذا امن الامام فامنوا، فانہ ما وافق تا مینہ تامین الملٰئکۃ،غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہ ۔
(۹۔بخاری،۱۰۔مسلم،۱۱۔احمد،۱۲۔مالک، ۱۳۔ابوداؤ، ۱۴۔ترمذی، ۱۵۔نسائی، ۱۶۔ابن ماجہ )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ،کہ جب امام آمین کہے، تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگی ، اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گناہ کی معافی ،اس نمازی کے لئے ہے جس کی آمین فرشتوں کی آمین کی طرح ہو ۔ فرشتے آمین آہستہ کہتے ہیں اور ہم نے ان کی آ مین آج تک نہیں سنی، تو چاہئے کہ ہماری آمین بھی آہستہ ہو، تاکہ فرشتوں کی موافقت اور گناہوںکی معافی ہو۔
{۴} حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری روایت ہے۔
قال رسول اللہ ﷺ اذا قال الا مام غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآ لِّیْنَ ، {فقولوا اٰمِیْن } فانہٗ من وافق قولہٗ ،قول الملٰئکۃ ،غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہ،
(۱۷۔بخاری، ۱۸۔شافعی، ۱۹۔مالک، ۲۰۔ابوداؤد، ۲۱۔نسائی )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،کہ جب امام ،
غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْن۔
کہے تو تم اٰمِیْن کہو، کیونکہ جس کا یہ اٰمِیْن کہنا فرشتوں کی اٰمِیْن کہنے کے مطابق ہوگا، اس کے گناہ بخش دیئے جا ئیں گے۔
اس حدیث سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔ ایک یہ کہ مقتدی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ ہر گز نہ پڑھے۔ اگر مقتدی کا پڑھنا صحیح ہو تا، تو ہمارے پیارے نبی، رؤف و رحیم ﷺ یوں فرماتے ،کہ جب تم وَلَا الضَّالِّیْن کہو، تو آمین کہو۔معلوم ہوا کہ مقتدی صرف آمین کہیں گے۔سورہ فاتحہ پڑھنا،اور وَلَا الضَّالِّیْن کہنا امام کا کام ہے، مقتدی کا نہیں، بلکہ مقتدی پر قرآن کا سننا اور چپ رہنا واجب ہے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے۔
وَاِذَاقُرِیَٔ الْقُرْ اٰ نُ فَا سْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگاکر سنو اور خاموش رہوکہ تم پر رحم ہو۔
( کنز الایمان، سورہ اعراف، آیت۲۰۴)
دوسرامسئلہ اس حدیث سے یہ معلوم ہو ا کہ اٰمِیْن آہستہ ہونی چاہئے کیونکہ فرشتوں کی اٰمِیْن آہستہ ہی ہوتی ہے جیسا کہ اوپر گزرا۔
{۵} حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نے فرمایا۔
لم یکن عمر و علی رضی اللہ عنھما یجھر ان ببسم اللہ الرحمٰن الرحیم ولا باٰمین۔
(۲۲۔ تہذیب الآثارللطبرانی ،۲۳۔ طحاوی )
حضرت عمر و علی رضی اللہ تعالٰی عنہما نہ تو بِسْمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ اونچی آواز سے پڑھتے تھے، نہ آمین۔
{۶} حضرت ابو معمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے ۔
عن عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ قال یخفی الامام اربعاً ، التعوذ و بسم اللہ و اٰمین و ربنا لک الحمد۔
(۲۴۔عینی)
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا امام چار چیزیں آہستہ کہے۔ اَعُوْذُ بِاللہ، بِسْمِ اللہ،آمِیْن اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد۔
معلوم ہوا کہ آمین آہستہ کہنا ،سنت ِصحابہ اور سنت ِخلفاء راشدین بھی ہے۔
{۷} امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ،اپنے استاذ، حضرت حماد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، انھوں نے اپنے استاذ،حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
قال اربع یخفیھن الامام، التعوذ، و بسم اللہ، و سبحنک اللھم، و اٰمین ،
(۲۵۔ رواہ محمد فی الا ثار، ۲۶۔ وعبد الرزاق فی مصنفہ)
آپ نے فرمایا، کہ امام چار چیزیں آہستہ کہے ،
اَعُوْذُ بِاللّٰہ، بِسْمِ اللّٰہ، سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ اور آمِیْن۔
(یہ حدیث امام محمد نے آثار میں، اورامام عبد الرزاق نے اپنی مُصَنَّفْ میں بیان کی)
معلوم ہواکہ جیسے ثنا، اعوذ باﷲ، بسم اﷲ، رکوع اور سجدے کی تسبیحات، التحیات، درود ابراہیمی، دعائِ ماثورہ وغیرہ سب آہستہ پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی آمین بھی آہستہ پڑھنا سنت ہے ۔یہی احادیث ِصحیحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے اعمال واقوال سے ثابت ہے۔
یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاﷲ علیہ کا بھی قول ہے ۔
امام اعظم ا بو حنیفہ رحمۃﷲ علیہ، جلیل القدر امام، تا بعی،فقیہ، عالم، محقق،مدقق، متقی،محدث ، مفسر،مجتہد،صالح،صاحب کشف اور ولی کامل ہیں،نہ ان کے زمانہ میں ان کے برابر کوئی فقیہ تھا نہ اُن کے بعد اب تک اُ ن کے مثل پیدا ہوا۔ بلا شبہ آپ اِمَامُ الْمُتَّقِیْنْ اور اَمِیْرُ الْمُسْلِمِیْنْ ہیں۔ آپ کی پیروی فرمان ِالٰہی کے مطابق ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ۔
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ،
( سورہ نسا آیت ۵۹)
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطا عت کرو اور اپنے امیرکی۔
اس مختصر رسالے میں آہستہ اٰمین کہنے پر حدیث وفقہ کی ۲۶ مشہور ومعروف اورمستند کتا بوں کے حوالہ سے ،سات احادیث کریمہ پیش کردی گئی ہیں، جو اہل حق کوقبول کرنے کے لئے کا فی ہیں……مزید تفصیل کے لئے حضرت مولانا ظفر الدین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح البہاری شریف، اور حضرت مولانا احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور ومعروف کتاب ْجاء الحقْ کا مطالعہ فرمائیں۔

وَاللّٰہُ الْھَادِی وَالمُعِیْنُ ، نِعمَ المَولٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ، وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰ لِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ، بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔

 

احمدالقادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
۵؍ صفر۱۴۲۳ھ ۲۱؍اپریل ۲۰۰۲ء

رفع یدین کے احکام، احمد القادری مصباحی
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ۝
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۝

رفع یدین کے احکام
ازاحمد القادری مصباحی

نمازپنجگانہ اور جمعہ میں، صرف پہلی تکبیر کے وقت ہی ہاتھ اٹھا نا سنت ہے ،اس کے بعد نہیں۔ اس مسئلہ کے ثبوت میں بکثرت احادیث آئیں ہیں۔ چند حدیثیںملاحظہ فرمائیں۔
{۱} حضرت برا ء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ
کان النبی ﷺ اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ ثم لا یرفعھما حتی یفرغ۔
(۱۔ترمذی،۲۔ ابن شیبہ)
نبی ﷺ جب نماز شروع فرماتے ،تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہونے تک نہ اٹھاتے۔
{۲} حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کان النبی ﷺ یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود۔
(۳)طحاوی شریف، ۴۔فتح القدیر، ۵۔مرقاۃ شرح مشکوۃ)
نبی ﷺ پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے، پھر نہ اٹھاتے۔
{۳}حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرما یا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاــ۔
ترفع الایدی فی سبع مواطن عند افتتا ح الصلوۃ و استقبال البیت والصفا والمروۃ والمو قفین والجمرتین.
(۶۔حاکم، ۷۔بیہقی)
صرف ساتھ جگہ ہاتھ اٹھائیں جائیں۔
(۱) نماز شروع کرتے وقت
(۲) کعبہ کے سامنے منہ کرتے وقت
(۳) صفا،مروہ پہاڑی پر
(۴،۵) دونوں موقف( مِنَی اور مُزْدَلِفَہ) میں۔
(۶،۷)دونوں جمروں کے سامنے ۔
اس حدیث میں صرف نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے، بعد میں نہیں۔
ان کے علاوہ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے ۔
(۸)کتاب المفرد ؔمیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ۔
(۹) بزارؔ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ۔
(۱۰)ابن شیبہؔ اورطبرانی ؔنے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے، کچھ فرق سے بیان کیا۔
{۴} حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں، کہ میں نے صحا بہ کی ایک جماعت سے کہا، کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز، سب سے زیا دہ یا د ہے۔
رأیتہ ﷺاذا کبر جعل یدیہ حذاء منکبیہ ،واذارکع امکن یدیہ من رکبتیہ، ثم ھصر ظھرہ، فاذا رفع راسہ استوی، حتی یعود کل فقار مکانہ، فاذا سجد وضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضھما واستقبل باطراف اصبع رجلیہ القبلۃ، فاذا جلس فی الرکعتین ،جلس علی رجلہ الیسری ونصب الیمنی۔
(۱۱۔ بخاری،۱۲۔ابو داؤد،۱۳۔مشکوۃ،)
میں نے دیکھا ،کہ جب نبی ﷺ تکبیر تحریمہ کہتے، تو ہاتھوں کو کندھے تک اٹھاتے۔ اور جب رکوع کرتے، تو گھٹنوں کو ہا تھوں سے پکڑتے اور کمرسیدھی کرتے، جب سجدہ سے سر اٹھا تے ،تو اس طرح سیدھے کھڑے ہوتے ،کہ کمر کی ہڈی کے تمام مہرے اپنی جگہ آجا تے، اور جب سجدہ کرتے، تو ہاتھوں کو زمین پر رکھتے، نہ ان کو سُکڑ تے، اورنہ کہنیوں کو زمین پر بچھاتے، اور پیروں کی انگلیوں کا رخ، قبلہ کی طرف رکھتے، اور دو رکعت کے بعد بائیں پاؤں پر بیٹھ کر سیدھا پیر کھڑا کرتے۔
اس حدیث میں، حضور ﷺ کی نماز کی ،پوری کیفیت بیان کی گئی ،جس میں صرف ایک بار، تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھا نے کا ذکر ہے، اس کے بعدہاتھ اٹھا نے کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر رکوع کے بعد بھی رفع یدین ،نبی اکرم ﷺ کرتے ہوتے، یا اس کا حکم ہوتا ،تو حضرت ابو حمید سا عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا ذکر کیوں نہ کرتے؟
{۵} حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، کہ ہم سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرما یا ۔
الا اصلی بکم صلاۃ رسول ﷲ ﷺ، فصلی ولم یرفع یدیہ۔ الا مرۃ واحدۃ مع تکبیرۃ الا فتتاح۔
(۱۴۔مجمع الزوائد،۱۵۔ ترمذی، ۱۶۔ابوداؤد، ۱۷۔نسائی، ۱۸۔ابن ابی شیبہ، ۱۹۔طحاوی، ۲۰۔عبدالرزاق)
کیا میں تمھارے سامنے رسول اللہ ﷺکی نماز نہ پڑھوں؟ تو آپ نے نماز پڑھی۔ اس میں سوائے تکبیر تحریمہ کے، کسی موقع پہ ہاتھ نہ اٹھائے۔
{۶}حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،
انہ رأالنبیﷺ حین افتتح الصلوۃ، رفع یدیہ حتی حاذی بھما اذنیہ، ثم لم یعد الی شیئی من ذالک، حتی فرغ من صلاتہ
(۲۱۔دار قطنی)
کہ انھوں نے نبی ﷺ کو دیکھا ،کہ جب حضور ﷺ نے نماز شروع کی تو ہاتھ اتنے اٹھا ئے کہ کانوں کے مقابل کردئے، پھر نماز سے فارغ ہونے تک کسی جگہ ہاتھ نہ اٹھائے۔
{۷} حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری روایت ہے ، فرمایا۔
ان رسول ﷲ ﷺ کان اذاافتتح الصلوۃ رفع یدیی الی قریب من اذنیہ، ثم لایعود۔
(۲۲۔ ابوداؤد)
بے شک رسول ﷲ ﷺ جب نماز شروع کرتے، تو کانوں کے قریب تک ہاتھ اٹھاتے تھے۔ پھردوبارہ ایسا نہ کرتے۔
{۸}امام بخاری اور امام مسلم کے استاذ، امام حمیدی نے اپنی مسند میں ،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا، کہ نبی ﷺ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت، رفع یدین کرتے تھے، اور رکوع کے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ (۲۳۔مسند حمیدی)
{۹} حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔
صلیت مع النبی ﷺ مع ابی بکر ومع عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فلم یرفعوا ایدیھم الا عند التکبیرۃ الاولی فی افتتاح الصلوۃ۔
(۲۴۔ دار قطنی)
میں نے نبی ﷺ حضرت ابوبکر، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ نمازپڑھی یہ لوگ نماز کے شروع میں صرف پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے۔
یہاں تک تو نبی اکرم ﷺ سے، مرفوع حدیثیں تھیں۔ اب صحا بۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی احادیث ملاحظہ فرمائیں ،اس لئے کہ صحابۂ کرام کا قول و فعل بھی مسلمانوںکےلئے دلیل ہے۔ اور صحابہ کی حدیث کو بھی، حدیث کہتے ہیں، اور صحابہ کی بکثرت احادیث، بخاری، مسلم اور دیگر کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
اَصْحَابِیْ کَا لنُّجُوْمِ، بِاَ یِّھِم اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُم ۔
(مشکوۃ)
میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں، ان میں جن کی پیروی کروگے، ہدایت یاب ہوجاؤگے۔
{۹}حضرت مجاہد سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا۔
صلیت خلف ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما، فلم یکن یرفع یدیہ الافی التکبیرۃ الاولی من الصلوۃ ۔
(۲۵۔طحاوی،۲۶۔ ابن ابی شیبہ )
میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پیجھے نماز پڑھی ،آپ نماز میں پہلی تکبیر کے سوا کسی وقت ہا تھ نہ اٹھاتے۔
{۱۱} حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔
انہ کان یرفع یدیہ فی التکبیرۃ الاولی من الصلوۃ، ثم لایرفع فی شیئی منھا۔
(۲۷۔بیہقی،۲۸۔ طحاوی،۲۹۔ مؤطا )
کہ آپ نماز کی پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے ،پھر کسی حالت میں ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔
{۱۲}حضرت اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، کہا
رأیت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود ۔
( ۳۰۔طحاوی شریف)
میں نے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ،کہ آپ نے پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھائے ،پھر نہ اٹھا ئے۔
{۱۳} حضرت سفیا ن (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں کہ
فرفع یدیہ (عبدﷲبن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فی اول مرۃ وقال بعضھم مرۃواحدۃ ۔
(۳۱۔ ابوداؤد شریف، ۳۲۔مؤطا)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلی بار ہی ہاتھ اٹھاتے۔ بعض راویوں نے فرما یا کہ ایک ہی دفعہ ہا تھ اٹھاتے۔
{۱۴} حضرت عبدالعزیز بن حکیم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے کہا کہ
رأیت ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما، یرفع یدیہ حذاء اذنیہ فی اول تکبیرۃ افتتاح الصلوۃ، ولم یرفعھما فی ما سوی ذلک ۔
(۳۳۔ مؤطا شریف )
میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو نماز کے شروع میں تکبیر اولی کے وقت اپنے ہا تھ، کانوں کی لو تک اٹھاتے دیکھا۔ اور اس کے علاوہ وہ ہاتھ نہیںاٹھاتے تھے۔
{۱۵}حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرما یا ۔
ان العشرۃ الذین شھد لھم رسول اﷲ ﷺ بالجنۃ، ماکانوا یرفعون ایدیھم الا افتتاح الصلوۃ ۔
( ۳۴۔فتح القدیر،بدائع الصنائع،اعلاء السنن)
وہ دس( عشرہ مبشرہ )صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم جن کے جنتی ہو نے کی رسول اﷲ ﷺ نے گواہی دی ان میں سے کوئی بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ، رفع یدین نہیں کرتا تھا۔

رَفع یدین کی حدیث بھی آئی ہے مگر وہ منسوخ ہے

{۱۶} حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے
انہ رأی رجلا یرفع یدیہ فی الصلوۃ عند الرکوع وعند رفع راسہ من الرکوع ،فقال لہ لا تفعل فانہ شیئی فعلہ رسول اﷲ ﷺ ثم ترکہ ۔
(۳۵۔عینی شرح بخاری)
کہ آپ نے ایک شخص کو رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھ اٹھاتے دیکھا ،تو اس سے فرمایا کہ، ایسا نہ کرو۔ کیونکہ یہ وہ کام ہے جو رسول اللہ ﷺ نے پہلے کیا تھا،پھر چھوڑ دیا۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے، کہ رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت، رفع یدین (ہاتھ اٹھانے) کی حدیث منسوخ ہے۔
{۱۶} بعض صحابہ کرام تکبیراولیٰ کے علاوہ، رکوع میں جاتے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے ،اس سے منع کیا گیا ۔ حدیث یہ ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا ۔
مالی اراکم رافعی ایدیکم، کانھا اذناب خیل شمس، اسکنوا فی الصلوۃ۔
(۳۶۔ صحیح مسلم،۳۷۔ مسند امام احمد بن حنبل،۳۸۔ابو داؤد، ۳۹۔نسائی،۴۰۔بیہقی، بہار شریعت)
یہ کیا بات ہے کہ میں تم کو (بار بار) ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں ،جیسے چنچل گھو ڑے کی دُمیں،نماز میں سکون کے سا تھ رہو۔
بار بار ہاتھ اٹھا نا، گرانا، یہ سکون و اطمینا ن کے خلاف حرکت ہے، اس لئے اس سے روکا گیا۔ اورنبی اکرم ﷺ نے خود اس سے منع فرمادیا۔
اس حدیثِ مرفوع سےبھی معلوم ہوا، کہ بار بار ، رفع یدین کرنا(ہاتھ اٹھانا) منسوخ ہے۔
چند اکابر صحابہ کرام کے نام، جو صرف پہلی تکبیر کے وقت ہا تھ اٹھاتے تھے۔
حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت زبیر بن العوام، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔یہ تو عشرہ مبشرہ ہیں جنھیں جیتے جی، دنیا ہی میں نبی اکرم ﷺ نے جنت کی بشارت سنادی تھی۔
ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت براء بن عازب، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت ابو سعید خدری، حضرت عبد اللہ بن زبیر وغیرہم، رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین،یہ وہ اکابر صحابہ ہیں جن کے بارے میں روایت موجود ہے کہ وہ تکبیرتحریمہ کے علاوہ اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کر تے تھے۔ (نزھتہ القاری شرح بخاری جلد ۳ ص۲۰۰)

خلاصۂ کلام

مذکورہ بالااحادیث اور دلائل وبراہین سے دن کے اجالے کی طرح یہ واضح ہوگیا کہ پنجگانہ نماز کے شروع میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا سنت ہے۔ رکوع سے پہلے اوررکوع کے بعدرفع یدین کی حدیث منسوخ ہے۔ یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاﷲ علیہ کا فتوی ہے،جو بکثرت احادیث و سنن سے ثابت ہے ، ان کا کوئی فتوی سنت کے خلاف نہیں ہوتا،جو ان کے فتوی کو خلاف سنت بتائے وہ یاتو ان کا حاسدہوگا یا دشمن۔
اس مختصر رسالے میںصرف پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھا نے پر حدیث وفقہ کی۴۰ مشہور ومعروف اورمستند کتا بوں کے حوالہ سے سترہ احادیث کریمہ پیش کردی گئی ہیں، جو حق پسند کو ، حق قبول کرنے کے لئے کا فی ہیں…مزید تفصیل کے لئے حضرت مولانا ظفر الدین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح البہاری شریف، اور حضرت مولانا احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور ومعروف کتاب ْجاء الحقْ کا مطالعہ فرمائیں۔
وَاللّٰہُ الْھَادِی وَالمُعِیْنُ ، نِعمَ المَولٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ، وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰ لِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ، بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔

احمد القادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
۵؍ صفر۱۴۲۳ھ ۲۱؍ اپریل ۲۰۰۲ء

اہل سنت کی ذمہ داریاں، مولانا محمد احمد مصباحی

حالات حاضرہ اور اہل سنت کی ذمہ داریاں
خطاب:علامہ محمداحمدمصباحی
ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور
بموقع آخری نشست ۲۳؍واں فقہی سیمینارمجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور منعقدہ بتاریخ:۲۸؍۲۹؍۳۰؍نومبر۲۰۱۵ء شنبہ تا دوشنبہ

نحمدہ ونصلي علی رسولہ الکریم۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْن۔
﴿آل عمران۱۰۴﴾]

آج عالمی حالات مسلمانوں کےحق میں بہت ہی خطرناک ہیں اور اہل سنت کے جوحالات ہیں وہ اور زیادہ افسوس ناک ہیں، پوری دنیاپر نظرڈالیں تومسلمانوں کوبدنام کرنے کے لیے اور ان کو حکومتوں سے بے دخل کرنے کے لیے بڑی بڑی سازشیں رچی جارہی ہیں اور جولوگ یہ کام انجام دے رہے ہیں سیاسی طاقت بھی ان کے پاس ہے،فوجی قوت بھی ان کے پاس ہے اور مالی طاقت بھی انھیں کے ہاتھ میں ہے،ان سب کو دیکھتےہوئے مسلمانوں کےلیے یہ نہایت ہی نازک دور ہے۔ان حالات میں بھی اگر مسلمان اپنے اوپر غور نہ کریں اور اپنے دشمنوں سےنپٹنےکےلیےراہ نہ تلاش کریںاور انھیں کواپناآقاتسلیم کرتے رہیں تویہ بہت ہی افسوس ناک چیزہے کہ وہ قوم جوامامت اوررہبری کافریضہ انجام دیاکرتی تھی آج وہ غلامی کی دہلیز پرکھڑی ہے اوراسی پراسے فخرہے،بنام مسلم جوحکومتیں ہیں ان کے پاس اس طرح کی قوت اورعقل ہونی چاہیے کہ وہ اپنی روش پر آسکیں اور اگلوں نے امامت وقیادت کو جو فریضہ انجام دیاتھااسے اپنےہاتھ میں لےسکیں، یہ اپنے اندرطاقت وقوت پیداکریں تو بہت کچھ آج بھی کرسکتے ہیں، لیکن جس نے طے کرلیاہوکہ بس غیروں کی غلامی ہی ہمارا حصہ ہے تووہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
آج کچھ فرقے ہیں جن کےنام کی حکومتیں دنیامیں قائم ہیں اوروہ حکومتیں اس فرقے کےفروغ کے لیےاپنےسرمایہ کا بڑاحصہ صرف کررہی ہیں اس طریقے سے یہ باطل فرقے جن کےخطےبہت محدود تھے اور ان کے جاننے اور ماننے والے بہت کم تھے آج بڑھتے اور پھیلتے چلے جارہے ہیں اور اب دنیامیں کوئی ایسا ملک نہیں رہ گیا ہے جہاں ان کے افراد،ان کےلوگ،ان کی تنظیمیں اورتنظیموں کےتحت ان کےادارے نہ قائم ہوں۔
ایسے حالات میں اہل سنت کےنام کی جو خاص مسلک اہل سنت کے فروغ کےلیے قائم ہوایسی کوئی حکومت نظر نہیں آتی،اگرچہ ایک دوحکومتیں ایسی ہیں جہاں پراہل ِ سنت کو بالادستی حاصل ہے وہ اگر چاہیں تومسلک اہل سنت کی بڑی بڑی خدمات انجام دی جاسکتی ہیں لیکن ان سے بھی وہ کام نہیں ہورہاہے جو ہماری حریف اور مخالف جماعتوں کی حکومتیں انجام دے رہی ہیں،ان حالات میں خود عوام اہل سنت پریہ فریضہ عائد ہوتاہے کہ اپنے تشخص کو باقی رکھنےکےلیے، اپنے مذہب کوفروغ دینے کے لیے اوردنیاکے اندران کے خلاف جو ایک مہم چلادی گئی ہے اور باطل کو بڑی تیزی کےساتھ فروغ دیاجارہاہےاس کے مقابلے کے لیے تیار رہیں اس لیے کہ حکومتوں سے یہ کام انجام پذیر ہوتانظر نہیں آرہاہے تو تمام اہل سنت کافریضہ ہوتاہے کہ اپنی قوتین سمیٹیں،اپنی ہمتیں جمع کریں اور اپنی طاقت وہمت سے ان باطل طاقتوں کامقابلہ کریں۔
یہ باطل فرقے سب سے پہلے اہل سنت ہی پر حملہ آور ہوتے ہیں ،کوئی یہودیوں کو مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کررہاہے نہ عیسائیوں کو مسلمان بنانے کی کوشش کررہاہے بلکہ جو بھی نیافرقہ پیداہوتاہے وہ سب سے پہلے اہل سنت کو توڑ کر اپناہم نوا بنانے کی کوشش کرتاہے، یہ آپ کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اس سے کچھ ہی استثناآپ کوملےگا۔
بظاہر وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم اسلام کا فروغ چاہتے ہیں لیکن جتنا وہ اسلام کافروغ نہیں کررہے ہیں اس سے کہیں زیادہ اپنے فرقے کافروغ کررہے ہیں اور اس کے لیے اپنی پوری پوری توانائیاں صرف کررہے ہیں اور ہرطرح کی سیاسی وحکومتی طا قتیں استعمال کررہے ہیں۔
ان حالات میں اہل سنت کو خبردار ہوناچاہیے اور ان کو ہوشیار ہونا چاہیے، اگر عوام اہل سنت اور علماے اہل سنت اس کے لیےبیدارنہیں ہوئے اور انھوں نےاپنی قوتوں کوسمیٹا نہیں بلکہ ٹولیوں میں بٹ گئے،ایک ملت ہوتے ہوئے مختلف فرقوں میں بٹ گئے،ایک جماعت ہوتے ہوئے مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوگئےاور ایک قوم ہوتے ہوئے مختلف قوموں میں بٹ گئے تو جوباطل قوتیں ساری دنیامیں پھیلی ہوئی ہیں ان کامقابلہ محال اور ناممکن ہوجائے گا۔اس لیے سارے اہل سنت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان حالات کا اثر لیں اورسارے حالات کودیکھتے ہوےاور سمجھتے ہوے اپنی قوتوں کو جمع کریں اور ان باطل طاقتوں سے مقابلےکےلیےتیار رہیں،خصوصاًمسلک اہل سنت کوفروغ دینے کےلیے اوراس کےخلاف جو باطل طا قتیں برسر پیکارہیں ان کوزیر کرنے کے لیے طرح طرح کی صلاحیتیں بروے کار لائیں اورجب تک یکجانہیں ہوں گے اورغیر ضروری باتو ں سے اپنے کو الگ نہیں کریں گے اس وقت تک کوئی کام بحسن وخوبی انجام پذیر نہیں ہوگا۔کسی بھی قوم کےادبار کی یہ سب سےبڑی نشانی ہوتی ہے کہ قوم آگے جانے کے بجاے پیچھے جانے کی طرف مائل ہوجائے۔ اپنی اصلاح کےبجائے اپنےافساد کی کوشش کرنے لگے اوراسے احساس زیاں بھی نہ ہوکہ ہم کو کیاکرناتھا اور ہم کیاکررہے ہیں۔
آج آپ جس میدان میں نظرکریں وہاں آپ کوکام کرنے کوملےگا اور اہل باطل نےجوکچھ پھیلارکھاہے مثلاًفقہ میں ،حدیث میں،تفسیرمیں ہرایک میں آپ کو جواب دینےکی ضرورت محسوس ہوگی،اسی طریقہ سےاپنے عقائد کوعام کرنےاور باطل عقائد جو باطل فرقوں نے پھیلارکھے ہیں جدید ذرائع ابلاغ کو اپنے ہاتھ لےکر ان کااستعمال کرتےہوئے ان باطل عقائد کی تردید اوراپنے مذہب حق کو واضح کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے،اسی طریقے سے مذہب اسلام کی صحیح ترجمانی جس طرح اہل سنت کرسکتے ہیں کوئی باطل فرقہ اس طریقے سے انجام نہیں دے سکتاہے۔ہم اہل باطل سے کبھی یہ امید نہ کریں کہ وہ اسلام کی تبلیغ اوراس کی وکالت کا کام صحیح طور پر انجام دیں گے۔
یہ فریضہ ہم پرعائد ہوتاہے کہ یہودونصای مستشرقین اورمشرکین کاجوبھی اعتراض اسلام پرہوتاہے اس کا جواب دینےکےلیےانھیں کےذرائع اوراپنی ساری قوتوں کےساتھ ہم بھی تیاررہیں یہ اس وقت ہوسکتاہے جب ہم سب آپس میں متحدہوں اوراپنےفسادکے بجاے اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔اسلام وسنیت کے فروغ واستحکام کو مطمع نظربنائیں۔
میں بارہاغورکرتاہوں کہ ہماری قوم جو قوم اہل سنت ہے،عمومی اعتبار سے اس سے زیادہ اپنےافساد کی طرف بڑھنےوالی اور اپنی اصلاح سے منہ موڑنے والی شایدہی دنیامیں کوئی قوم ہو۔نئی نئی قومیں پیداہورہی ہیں،نئے نئے فرقے پیداپیدا ہورہے ہیں اورتھوڑے عرصے میں وہ دنیابھرمیں پھیل جاتے ہیں اور لوگوں تک اپنی باتیں پہنچاتے ہیں لیکن ہم جوچودہ سوسال سے اس دنیامیں موجودہیں اور ہمارا معروف تشخص ہم سے چھیناجارہاہے ہم کو ایک کم علم،جاہل جماعت اورفرقۂ شاذّہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہم اس سے غافل ہیں۔
ان حالات میں خودہمیں بیدارہونے، اپنےصاحب علم ہونےاور صاحب کردار ہونے کو ثابت کرناپڑے گایہ اسی وقت ہوسکتاہے جب ہم غیر ضروری اور لایعنی کاموں سے پرہیز کریں، مقصد اوراصلی امور پرتوجہ دیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق خیرسے نوازے۔
ان حالات میں ہماری جو تنظیمیں اور جوادارے دعوتی اصلاحی،تقریری، تحریری، تعلیمی اور تصنیفی واشاعتی میدانوں میں اپنے محدودوسائل وذرائع کو بروے کار لاتے ہوئے اہل سنت کےفروغ کےلیےسرگرم عمل ہیں انہی کے ذریعہ آج ملت کی کشتی رواں دواں ہے۔مولاتعالیٰ انھیں مزید قوت وہمت، ترقی واستحکام اور استقامت بخشےاورجوغافل ومتغافل ہیں بلکہ حال ومآل سے بےپرواہ ہوکر جماعتی انتشار واِدبار کےدرپے ہیں رب تعالیٰ انھیں ہدایت اورسلامت روی نصیب کرے۔
زیادہ تفصیل سے گریز کرتے ہوئے میں انہی کلمات پر اکتفاکرتاہوں اہل علم خود مجھ سے زیادہ باخبرہیں۔
میں پہلےدن کی طرح آج آخری دن بھی تمام مندوبین کرام کاشکریہ ادا کرتاہوں اور معذرت خواہ ہوں کہ آپ کی خدمت میں کوئی کوتاہی ہوئی ہوتو در گزر فرمائیں۔ یہ دیکھیں کہ یہ کسی خاص ادارے کاکام نہیں ہے بلکہ پوری جماعت کاکام ہے،اس لیے اگرانتظامی امور میں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہوتوبجاطور پر ہم آپ سے عفودرگزر کے امیدوار ہیں۔

العفو عند کرام الناس مأمول۔ وآخردعوناأن الحمدللہ رب العالمین۔

—————————————————
مصباحی پبلی کیشن
ندی روڈ محمدآباد گوہنہ ضلع مئو
ہمارے یہاں درسی وغیردرسی کتاب وشرح کی فروختگی،فلائر،ہورڈنگ،کارڈاورکتاب وغیرہ کی چھپائی وکمپوزنگ، ڈیزائننگ کاکام بحسن وخوبی انجام دیاجاتاہے۔ضرورت مندحضرات رابطہ کریں۔
9506191193/8188188465

عیدا لفطر
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہ الْکَرِیم
بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِ ھِم یَعنِی یَومُ فِطْرِھِمْ بَاھٰی بِھِمْ مَلَآئِکَتَہُ (مِشکٰوۃ شریف)
عید الفطر کے دن اللہ (ذاکر) بندوں کے ساتھ فرشتوں میں فخر فرماتا ہے۔
عیدکےاحکام وآداب
عیدکےدن اپنے اہل وعیال اور دیگر قرابت داروںکےساتھ بھلائی سے پیش آنا،اورٹوٹےتعلقات کوجوڑناہے کہ عیدکی صبح فرشتے تمام راستوں کےکنارے کھڑے ہوکر مسلمانوں کوگناہوں کی معافی ،رب تعالیٰ کی رضا اوراس کی عطاوبخشش کی خوش خبری سناتے ہیں، عیدکےدن حجامت بنوانا،ناخن ترشوانا،غسل کرنا،مسواک کرنا، نیایادُھلاہوا اچھالباس پہننا،خوشبولگانا،نماز فجر محلےکی مسجد میں اداکرنا،عیدگاہ جلدآنا،نمازعیدکےلیےایک راستے سے آنا اوردوسرےسے واپس جانا، یہ سب باتیں عیدکی سنتیں اور مستحبات سے ہیں۔
حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے:

وَکَانَ رَسُوْل اللہ ﷺ إذَاْخَرَجَ یَوْمَ الْعِیْدِفِی طَرِیْقٍ، رَجَعَ فِیْ غَیْرِہِ
(سنن الترمذی، أبواب العیدین، ر۵۴۱،ص:۱۴۲)

”رسول اللہﷺ نماز عیدکے لیے ایک راستے سے جاتے اوردوسرے سے واپس تشریف لاتے“۔
ایک راستے سے جانے اوردوسرے سے واپسی میں بہت سی حکمتیں ہیں(۱) حضور نبی کریم ﷺ ایک راستے سے عید گاہ کوجاتے اوردوسرےسے واپس آتے، تاکہ دونوں راستوں کوبرکت حاصل ہوجائے،(۲)دونوں طرف کےلوگ آپ ﷺ سےبروزِ عیدبھی فیض پائیں۔(۳)ہرطرف کےمنافقین وکفارمسلمانوں کی کثرت کودیکھ کردبے رہیں۔(۴)راستوں میں بھیڑ کم ہو (۵)دونوں راستوں کےفقراپرخیرات ہوجائے۔(۶)اہل قرابت کی قبورجوان راستوں میں واقع ہیں ان کی زیارت ہوجائے۔ (۷) اور دونوں راستے ہماری نماز وایمان کے گواہ بھی بن جائیں۔
(مراءۃ المناجیح، عیدین کی نماز کاباب، پہلی فصل، تحت ر، ۱۴۳۴،۲/۳۵۶ بتصرف)
نمازعیدمسجدمیں ہوچاہےعیدگاہ میں،وہاں تک پیدل جانا(گاڑی میں یاسواری پرجانابھی جائزہے) نماز عیدکےلیے اطمینان و وَقار اورنگاہ کچھ نیچی کیےہوئے جانا، آپس میں ایک دوسرے کومبارک باد دینا، یہ باتیں بھی عید کی سنتوں اور مستحباب میں سے ہیں۔
نماز عیدسے پہلے کچھ کھالینا:
عزیز دوستو! نمازِ عید کوجانے سے پہلے،طاق عدد میں چند کھجوریں کھالینا سنت ہے، ناشتہ بھی کیاجاسکتاہے، کھجوریں نہ ہوں تو کوئی بھی میٹھی چیز کھالینی چاہیے۔حضرت سیدنابریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

کَانَ النَّبِیُّﷺ لَاْیَخْرُجْ یَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّی یَطْعَمَ۔
(سنن الترمذی ابواب العیدین ، ر:۵۴۲ص:۱۴۲)

”عیدالفطرکےدن جب تک حضور نبیِ رحمت ﷺ کچھ کھانہ لیتے،عیدگاہ کوتشریف نہ لےجاتے“۔
اذان اوراقامت کےبغیر عیدین کی نماز:
نماز عیدکےلیے نہ اذان ہوتی ہے، نہ اقامت کہی جاتی ہے، حضرت سیدنا جابر بن سمُرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ العِیْدَیْنِ غَیْرَمَرَّۃٍ وَلَاْمَرَّتَیْنِ،بِغَیْرِأذَانٍ وَلَاْإقَاْمَۃٍ۔
”میں نے بارہا عیدین کی نماز نبیِ کریم ﷺ کےساتھ اذان اوراقامت کے بغیر اداکی“۔
لہٰذاصحابۂ کرام وتابعین عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کااسی پر عمل رہا، کہ عیدکی نماز اورنوافل کے لیے اذان نہ دی جائے۔
(سنن الترمذی،ابواب العیدین، ر:۵۳۲،ص ۱۴۰)
عیدکادن عظمت ورفعت کےساتھ ساتھ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کی مہمانی انعام واکرام اورگناہوں کی بخشش کادن بھی ہے، اس دن روزہ رکھناگناہ ہے۔ عیدکےدن خوشی کااظہاراسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیے۔اس دن ملائکہ راستوں میں کھڑے آواز دیتے ہیں کہ”اے مسلمانو! آج تمہاری دعو ت کادن ہے“ کیوں کہ کل تک تواللہ تعالیٰ نےتمہیں روزے کاحکم دیاتھا، لہٰذاتم نےروزے رکھے، عبادت کی۔نماز عید کےبعد صدا کی جاتی ہے کہ سن لو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہ معاف فرمادیے ہیں! تم خوشی خوشی اپنے گھروں کولَوٹ جاؤ! کہ آج کادن تمہارے لیے انعام واِکرام کادن ہے۔
( شعب الایمان،۲۳۔ باب فی الصیام، ر:۳۶۹۵/۳ ۱۳۶۲ بتصرف۔)
لہٰذا ہمیں بھی عیدکےدن زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ بجالانے ہیں،ضرورت مندوں کاخیال رکھناہے اورسب کےساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آناہے۔
عیدخوشی وفرحت کادن ہے:
عزیز دوستو! ہمیں اللہ تعالیٰ نے بےشمار انعام واکرام سے نوازا ہے، عیدالفطر پورے جوش وجذبہ سے مَنانی ہے کہ یہ ہماری یک جہتی کی عظیم مثال ہے، جورہتی دنیاتک قائم رہے گی، ان شاء اللہ ۔ مسلمان اسلامی اصول وضوابط کے مطابق عیدکی خوشیاں منائیں گے۔ عید کادن خوشی وفرحت، رشتہ داروں سے حسن سلوک، دوستوں اورپڑوسیوں سے ملاقات اورغریب ومستحقین کی مدد کادن ہے کیوں کہ باہمی میل ملاپ وہم دردی سے محبت بڑھتی ہے، دلوں کی کدورتیں دور ہوتی ہیں، مصافحہ (ہاتھ ملانے) سے گناہ جھڑ تے ہیں، رحمت عالمیاں ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَا مِنْ مُسْلِمَیْنِ یَلْتَقِیَانِ فَیَتَصَافَحَان إِلَّا غُفِرَلَھُمَا قَبْلَ أَنْ یَفْتَرِقَا
(سنن أبی داؤد،کتاب الادب، باب فی المصافحۃ،ر:۵۲۱۲،ص۷۳۱)

”دومسلمان آپس میں ملتے اورمصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جُدا ہونے سے پہلے ان دونوں کی مغفرت کردی جاتی ہے“۔
عیدکےدن ہرجائز طریقہ سے خوشی کااظہار کرناچاہیے ایک دوسرے کومبارک باد دینا، اورآپس میں مصافحہ ومعانقہ بھی کرناچاہیے کہ مصطفیٰ جان رحمت ﷺ نےمعانقہ کےبارے میں فرمایا:
تَحِیَّۃُ الْأمَمِ وُدُّھُمْ،وَصَالِحٍ وَدَعٍ، وَإِنَّ اَوَّلَ مَنْ عَانَقَ خَلِیْلُ اللہِ إِبْرَاہِیْمُ
مختلف اقوام کاسلام ان کاآپس میں اظہار محبت اوران کی اچھی دوستی ہواکرتی ہے،یقینا سب سے پہلے معانقہ کرنے والے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں“۔
لہٰذا عیدکےدن جائز طورپر اظہارِ خوشی، مصافحہ ومعانقہ، رشتہ دار،عزیز واقارب اوردوست واحباب کی دعوت وغیرہ بھی بہترین خوشی ومسرت کااظہار ہے۔
عید کادن خوشی کادن ہے:
عیدکادن خوشی کادن ہے اس دن اعمال صالحہ کی کثرت کے ساتھ ساتھ خوشی کے اظہار کابھی حکم دیاگیاہے۔ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے، اُس زمانے میں اہلِ مدینہ سال میں ۲؍دن خوشی منایاکرتے تھے۔ مصطفیٰ جان رحمت ﷺ نے فرمایا: مَاھَذَانِ الْیَوْمَانِ؟ یہ دو دن کیسے ہیں؟ لوگوں نے عرض کی کہ زمانۂ جاہلیت سے ہم ان دنوں میں خوشی مناتے آئے ہیں فرمایا:

إِنَّ اللہَ قَدْ أَبْدَلَکُمْ بِہِمَا خَیْراً مِنْھُمَا(۱) یَوْمَ الْأَ ضْحَی(۲) وَیَوْمَ الْفِطْرِ
(سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،ر:۱۱۲۴،ص:۱۷۰)

”اللہ تعالیٰ نے اُن دو دنوں کےبدلے ان سے بہتر دو دن تمھیں عطافرمادیے ہیں،(۱) یوم اضحی(۲) اوریوم فطر“۔
عید کےدن ، دیگر لوگوں کے ساتھ، خصوصاً اپنے اہل وعیال کےساتھ خوشی کااظہار کرنابھی ضروری ہے۔ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میرے ہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اس وقت انصار کی دو بچیاں میرے پاس و ہ اشعار گارہی تھیں، جوانصار نےکہےتھے، حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:کیارسول اللہ ﷺ کے گھر میں گیت گائے جارہے ہیں؟ وہ عید کادن تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

یَاأبَابَکْرٍ إِنَّ لِکُلَّ قَوْمٍ عِیْدًا وَھَذَا عِیْدُنَا
(صحیح البخاری، کتاب العیدین،ر:۹۵۲،ص:۱۵۳)

”اے ابوبکر ! ہرقوم کےلیےایک عید ہوتی ہے اورآج ہماری عید ہے“۔
نماز عید کاطریقہ
پہلی رکعت:
نماز عید کی ادائیگی واجب ہے اوراس کاطریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نماز عیدالفطرواجب کی نیت کرکے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اوراللہ اکبر کہہ کرناف کےنیچے باندھ لیں ،پھرسب آہستہ سے ثنا پڑھیں پھر کانوں تک ہاتھ اٹھا کرتکبیر یعنی”اللہ اکبر“ کہہ کرہاتھ چھوڑدیں،پھر اسی طرح دوسری بار بھی کانوں تک ہاتھ اٹھائیں”اللہ اکبر “ کہہ کر ہاتھ چھوڑدیں، تیسری بار پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور ”اللہ اکبر“ کہہ کر ہاتھ باندھ لیں(یہاں ایک قاعدہ یاد رکھ لیجیے کہ جہاں تکبیر یعنی اللہ اکبر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھتے ہیں اور جہاں کچھ نہیں پڑھنا وہاں ہاتھ چھوڑدیتے ہیں) اب امام صاحب آہستہ سے تعوذوتسمیہ یعنی اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کربلند آواز سے سورۂ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھیں گے۔ مقتدی حضرات اس دوران خاموش رہیں گے کیوں کہ مقتدی پر خاموشی واجب ہے، قراءت مکمل کرنے کےبعد رکوع وسجود کریں گے اور دوسری رکعت کےلیے کھڑے ہوجائیں گے۔
دوسری رکعت:
دوسری رکعت میں پہلےقراءت ہوگی یعنی سورہ فاتحہ وسورت پڑھی جائیں گی،پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیریں ہوں گی جیسے پہلی رکعت میں تھیں، یعنی پہلی دوسری اور تیسری تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دیں گے اور چوتھی تکبیر میں بغیر ہاتھ اٹھائے صرف ”اللہ اکبر“ کہتے ہوئے رکوع میں چلے چائیں گے اور نماز پوری کرکے سلام پھیر دیں گے۔
(بہار شریعت ،حصہ چہارم ،عیدین کابیان ،جلد:۱،ص:۷۸۱،۷۸۲ ملتفطاً بتصرف)
نماز کےاختتام پر دو خطبے پڑھے جائیں گے ،خطبے میں فطرہ کےاحکام بتائے جائیں گے جیسے جمعہ اور نکاح کاخطبہ سننا واجب ہے اسی طرح عیدین کا خطبہ سننا بھی واجب ہے، اس کے بعد دعا ہوگی اورپھر سب لوگ آپس میں عید ملیں گے اورایک دوسرے کومبارک باد پیش کریں گے۔
بہ شکریہ
ادارۂ اھل سنت ، کراچی ، پاکستان
واعظ الجمعہ عیدا لفطر بتصرف
یکم شوال 1442ھجری
13 مئی 2021
الاسلامی.نیٹ
www.alislami.net (AL-ISLAMI.NET)
غوث اعظم، از سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا قادری ، علیہ الرحمہ
منقبت غوث اعظم (علیہ الرحمہ)
سیدی، اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا قادری، علیہ الرحمہ
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے، بالا تیر ا
اونچے اونچوں کے سروں سے، قدم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے ،کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں، وہ ہے تلوا تیرا
جان تو جاتے ہی جائے گی ،قیامت یہ ہے
کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ہے، نظارہ تیرا
عقل ہوتی تو خدا سے، نہ لڑائی لیتے
یہ گھٹائیں، اسے منظور بڑھانا تیرا
وَرَفَعْناَ لَکَ ذِکْرَکْ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا، ذکر ہے اونچا تیرا
مٹ گئے، مٹتے ہیں، مٹ جائیں گے، اعدا تیرے
نہ مٹا ہے، نہ مٹے گا، کبھی چرچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے، نہ گھٹا ہے، نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے، اللہ تعالیٰ تیرا
ہیں رَضاؔ یوں نہ بِلک، تو نہیں جیّد تو نہ ہو
سیّدِ جیّدِ ہر دہر ہے، مولیٰ تیرا
{حدائق بخشش}
الاسلامی.نیٹ
(AL-ISLAMI.NET) www.al islami.net
زمین و زماں، از سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا قادری ، علیہ الرحمہ
زمین وزماں (نعت شریف)
سیدی اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا قادری، علیہ الرحمہ
زمین وزماں تمہارے لئے، مکین و مکاں تمہارے لئے
چُنِینُ و چُنَاں تمہارے لئے، بنے دو جہاں تمہارے لئے
دَہن میں زَباں تمہارے لئے، بدن میں ہے جاں ، تمہارے لئے
ہم آئے یہاں، تمہارے لئے، اُٹھیں بھی وَہاں، تمہارے لئے
تمہاری چمک ،تمہاری دَمک ،تمہاری جھلک ،تمہاری مَہَک
زمین و فَلَک، سَماک وسَمک میں سِکّہ نشاں، تمہارے لئے
یہ شمس و قمر، یہ شام و سَحَر، یہ بَرگ و شَجر، یہ باغ و ثَمر
یہ تِیغ و سِپَر، یہ تاج و کمر ،یہ حُکْمِ رواں، تمہارے لئے
سَحَابِ کرم، روانہ کیے کہ آب نِعَم زمانہ پیے
جو رکھتے تھے ہم، وہ چاک سیے، یہ سِتْرِ بَداں تمہارے لئے
جِناں میں چَمن، چمن میں سَمن، سمن میں پھَبن، پھبن میں دُلھن
سزائے محن، پہ ایسے مِنَن، یہ اَمن و اَماں تمہارے لئے
خَلیل و نَجی، مسَِیحُ و صَفی، سبھی سے کہی، کہیں بھی بنی؟
یہ بے خبری، کہ خَلْق پھری، کہاں سے کہاں ،تمہارے لئے
اشارے سے چاند، چیر دیا، چھپے ہوئے خُور کو، پھیر لیا
گئے ہوئے دن کو عصر کیا، یہ تاب و تواں تمہارے لئے
صبا وہ چلے، کہ باغ پھلے،وہ پھول کھلے، کہ دن ہوں بھلے
لِوا کے تَلے،ثنا میں کھلے، رَضاؔکی زباں، تمہارے لئے
{حدائق بخشش}
الاسلامی.نیٹ
(AL-ISLAMI.NET) www.al islami.net
توحید کا ترانہ، حضور مفتی اعظمِ ھند ، علیہ الرحمہ
توحید کا ترانہ (حمد)
حضور مفتی ٔ اعظم ہند، حضرت علامہ مصطفی رضا نوری، علیہ الرحمہ
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
لَا مَوْجُـــوْدَ اِلَّاﷲ
لَا مَشْہُوْدَ اِلَّاﷲ
لَا مَقْصُوْدَ اِلَّاﷲ
لَا مَعْبُــوْدَ اِلَّاﷲ
لَا اِلٰـــــــہَ اِلَّاﷲ
آمَنَّا بِرَسُــوْلِ ﷲ
ہے موجودِ حقیقی وہ
ہے مشہودِ حقیقی وہ
ہے مقصودِ حقیقی وہ
معبودِ حقُّ و حقیقی وہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ
آمَنَّا بِرَسُوْلِ ﷲ
رَبِّیْ حَسْبِیْ جَلَّ ﷲ
مَافِیْ قَلْبِیْ اِلَّا ﷲ
حَقْ حَقْ حَقْ ﷲ ﷲ
رَبْ رَبْ رَبْ سُبْحَانَ ﷲ
لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ
آمنا برسولِ ﷲ
اﷲ واحد ویکتا ہے
ایک خدا بس تنہا ہے
کوئی نہ اس کا ہمتا ہے
ایک ہی سب کی سنتا ہے
لا اِلٰہ اِلَّا ﷲ
آمَنَّا برَسُوْلِ ﷲ
سوتا پیتا کھاتا نہیں
اس کا رشتہ ناتا نہیں
اس کے پِتا اور ماتا نہیں
اس کے جورو جاتا نہیں
لا اِلٰہ اِلَّا ﷲ
آمنا برسولِ ﷲ
مولیٰ دل کا زنگ چھڑا
قلبِ نوریؔ پائے جِلا
دل کو کردے آئینہ
جس میں چمکے یہ کلمہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ
آمنا برسولِ ﷲ
جَلَّ جَلَالُہٗ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم
{سامان بخشش}
الاسلامی.نیٹ
www.al islami.net (AL-ISLAMI.NET)
دعائے نصف شعبان، دعائے شب براءت
بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

فضائل شب براءت

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ(۲)فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍحَكِیْمٍۙ(۳)

بےشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بےشک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس رات میں ہر حکمت والا کام بانٹ دیا جاتا ہے۔(قرآن کریم سورہ دخان آیت۲، ۳)
بعض مفسرین نے فرمایا، برکت والی رات سے مراد ، شب براءت ہے۔
اس رات سے اگلے سال کی رات کےدرمیان جوکچھ ہونے والا ہوتاہے، وہ سب لکھ دیاجاتاہے مثلاً بندوں کارزق، ان کی موت، اوردوسرے تمام کام۔ بعض مفسرین نے کہاپندرہویں شعبان کی رات میں لوح محفوظ سے کام شروع ہوکر، شبِ قدر کوختم کیاجاتاہے۔(تفسیر روح البیان،سورہ دخان)
شعبان کی پندرہویں رات کانام شب براءت  (لیلۃ البراءۃ)  ہے اس رات کی بڑی فضیلت ہے۔
نبی اکرم ﷺ نےارشادفرمایا:
فَیُغْفَرُ لِاَکْثَرَ عَدَدِ شَعْرِغَنَمِ بَنِیْ کَلْبٍ۔ (ابن ماجہ شریف)
(اس رات، قبیلہ )بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی بخشش ہوجاتی ہے۔
نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائیوں کےدروازے کھول دیتاہے۔
(۱) عیدالاضحیٰ کی رات (۲) عیدالفطر کی رات (۳) شعبان کی پندرہویں رات(۴) عرفہ کی رات۔
(تفسیرصراط الجنان، بحوالۂ درمنثور، سورہ دخان)

شب براءت کے نوافل

(۱)نماز مغرب کےبعد ۶ رکعتیں اولیاءاللہ کےمشہور معمولات سے ہیں۔ اس میں ہر۲ رکعت پرسلام پھیریں اور ہر ۲ ر کعت کےبعد سورۂ یٰسٓ ایک مرتبہ یاسورۂ اخلاص ۲۱ بار پڑھیں۔پہلی بار سورۂ یٰس ٓ ، درازی ِعمر کے لیے پڑھیں، دوسری بار رزق کی ترقی کےلیے، تیسری بار دفعِ بلا کے لیے، پھر دعا ئے نصفِ شعبان پڑھیں۔

دعاےنصفِ شعبان

بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَللّٰهُمَّ یَا ذَا الْمَنِّ، وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکرَامِ، یَا ذَا الطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ، لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ، ظَهْرُ الَّاجِیْنَ، وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ، وَاَمَانُ الْخَائِفِیْنَ، اَللّٰهُمَّ، إِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِي عِنْدَکَ فِيٓ أُمِّ الْکِتَابِ شَقِیًّااَوْمَحْرُوْمًااَوْ مَطْرُوْداً اَوْ مُقَتَّرًا عَلَيَّ فی الرِّزْقِ، فَامْحُ، اَللّٰهُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَاوَتِیْ وَحِرْمَانِیْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَ رِزْقِیْ، وَاَثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ فِیٓ اُمِّ الْکِتَابِ سَعِیْداً مَّرْزُوْقاً لِّلْخَیْرَاتِ، فَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ،فِیْ کتَابِکَ الْمُنْزَلِ، عَلیٰ لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ،یَمْحُواللہُ مَایَشَآءُوَیُثْبِتُ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ. اِلٰھِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ، فِی لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَھْرِ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمِ، اَلَّتِی یُفْرَقُ فِیْھَا کُلُّ اَمْرٍحَکِیْمٍ وَّیُبْرَمُ، اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَآءِ وَالْبَلْوَآءِ مَانَعْلَمُ وَمَالَانَعْلَمُ وَاَنْتَ بِہٖٓ اَعْلَمُ، اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمْ، وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَامُحَمَّدٍ،وَّعَلیٰ اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ، وَالْـحَمْدُلِلہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔

اس رات کی ۱۰۰ ر کعتیں
حضوراقدس ﷺ نے فرمایا جواس رات میں ۱۰۰ رکعت نماز نفل پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے پاس سوفرشتے بھیجےگا۔ تیس فرشتے اس کوجنت کی بشارت دیں گے، تیس فرشتے اس کوجہنم سے بےخوفی کی خوش خبری سنائیں گے، تیس فرشتے دنیوی آفتیں، اس سے ٹالتے رہیں گے اوردس فرشتے، اس کوشیطان کے مکر وفریب سے بچاتے رہیں گے۔(صاوی شریف)
حضورحافظِ ملت ، حضرت مولانا عبدالعزیز محدث مبارک پوری ، بانی جامعہ اشرفیہ مبارک پورہند،اس نماز کےبڑے پابند تھے، سفر میں ہوتے، تب بھی یہ ۱۰۰ رکعتیں پابندی سے پڑھا کرتے۔
(بروایت برادر محترم استاذ گرامی حضرت مولانا محمداحمدمصباحی دامت برکاتہم)
اس رات کی دعا
اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ وَالْمُعَافَاۃَ الدَّائِمَۃَ فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔
(ماثبت من السنۃ)
اس رات میں نبی اکرم ﷺ کے اعمال
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ بقیع الغرقد ( مدینہ منورہ کے قبرستان) میں تشریف لے گئے۔اورمسلمان مردوں، عورتوں اورشہیدوں کےلیےدعافرمائی۔پھر قبرستان سے واپس ہوکر نماز میں مشغول ہوگئے اورسجدے میں بڑی دیر تک ، اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہے۔ پھر سجدے سے سراٹھا کردیر تک یہ دعا کی:
اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنِیْ قَلْبًا تَقِیًّا، مِّنَ الشِّرْکِ نَقِیًّا، لَافَاجِراً ، وَّلَاشَقِیًّا۔
یااللہ ! مجھے پرہیز گاردل عطا کر، جوشرک سے پاک وصاف ہو، جونہ بد کار ہو، نہ بد نصیب ۔
اس رات کی فاتحہ
یہ رات اپ نےمُردوں اوردوسرے بزرگوں کی روحوں کو ثواب پہنچانےاورفاتحہ دلانے کے لیےبڑے خاص رات ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عید اورعاشورہ اور رجب کے پہلے جمعہ کےدن اور شعبان کی پندرہویں رات( شب براءت) اورجمعہ کی رات میں مُردوں کی روحیں اپنے گھروں کےدروازوں پر جاکر پکار تی ہیں اے گھر والو! ہمارے اوپر رحم وکرم اورمہربانی کرو ، آج کی رات میں ہمارے لیے کچھ صدقہ کرو،کیوں کہ ہم لوگ ایصالِ ثواب کے محتاج ہیں، ہمارے اعمال ختم کردیے گئے اور تمہارے نامۂ اعمال جاری ہیں پس اگر یہ روحیں کچھ نہیں پاتیں، تو حسرت وناامیدی کے ساتھ واپس چلی جاتی ہیں۔

شعبان کا روزہ
نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: جب شعبان کی پندرہویں رات آجائے تواس رات کو قیام کرو اوردن میں روزہ رکھو کہ رب تبارک وتعالیٰ غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتاہے۔ اور فرماتاہے کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ اسے بخش دوں،ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں، ہے کوئی ایسا ،ہے کوئی ایسا، اور یہ اس وقت تک فرماتاہے کہ فجر طلوع ہوجائے۔(ابن ماجہ،ملخصا ًموسم ِرحمت : از علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی ، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
لِہٰذَا ، ہمیں چاہیے کہ اس خدائی رات کااستقبال، طاعت وعبادت کےساتھ کریں، اس رات ، دُرود خوانی، توبہ و استغفار، تلاوتِ قرآن، نوافل و عبادات ، ذکر و اذکار وغیرہ میں مشغول ہوں، کثرت سے صدقہ وخیرات کریں اور پندرہویں شعبان کےدن میں روزہ رکھ کر، اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کریں۔

اَلْاِسْلامی.نیٹ
AL islami.net (AL-ISLAMI)

 

احکام قربانی وعقیقہ، احمد القادری
احکام قربانی
بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْ اَرَ یٰ فیِ الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْ بَحُکَ فَانْظُرْ ماَذَا تَرَیٰ قَال یٰأَ بَتِ افْعَلْ
مَاتُؤ مَرُ سَتَجِدُنِي اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِن الصّٰبِرِیْنَ۔
(قرآن کریم سورۃ ۳۷ :آیت ۱۰۲)
اے میرے فرزند! میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمھیں ذبح کررہا ہوں اب دیکھو تمھاری کیا رائے ہے؟ —— اللہ کے دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔
ابا جان ! اسے کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے ۔ ان شاء اللہ عنقریب مجھے صابر پائیں گے۔
ان کے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے جواب دیا ۔
اے مسلمان سن یہ نکتہ درسِ قرآنی میں ہے
عظمتِ اسلام ومسلم، صرف قربانی میں ہے
زندگیِ جا وداں، مومن کی قربانی میں ہے
لذتِ آب بقا، تلوار کے پانی میں ہے
بسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۵
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
{فضائل ومَسائل قربانی}
قربانی:
مخصوص جانور کا ایام ِنحر میں ،بہ نیت ِتَقَرُّبْ، ذبح کرنا قربانی ہے۔
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ مسلمانوں کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ۔ خدا وند کریم کا ارشاد ہے فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔(سورۃ ۱۱۰: آیت ۲)
{احادیث وآثار }
حد یث۱ } حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے نے فرمایا یہ تمھارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے، صحابہ نے عرض کیا یارسو ل اللہ! ہمیں اس میں کیا ثواب ملے گا ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔(احمد ،ابن ماجہ)
حد یث۲} حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔ قربانی کے دنوں میں ابن آدم کا ،کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے ) سے زیادہ پیارا نہیں، اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں، کھروں کے ساتھ آئے گا ،اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقامِ قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ (ترمذی،ابن ماجہ)
حد یث۳ } حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب ہرگز نہ آئے ۔ (ابن ماجہ)
حد یث۴} حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیاگیا اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں ۔ (طبرانی)
حد یث۵} امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔ افضل قربانی وہ ہے جو باعتبارِ قیمت اعلیٰ اور خوب فربہ ہو ۔ (امام احمد)
حدیث۶} حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعا لی ٰ علیہ وسلم نے فرمایا ،چار قسم کے جانور قربانی کے لیے درست نہیں ۔(۱) کانا: جس کا کانا پن ظاہر ہو(۲) بیمار : جس کی بیماری ظاہر ہو(۳)لنگڑا : جس کا لنگ ظاہر ہو (۴) لاغر: ایسا جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو۔ (امام احمد، ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
حد یث ۷ } حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کان کٹے، اور سینگ ٹوٹے ہوئے کی، قربانی سے منع فرمایا۔ (امام احمد، ابن ماجہ)
حد یث۸} حضرت عبد ا للہ ابن مسعو د رضی ا للہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا ۔قربانی میں گائے سات کی طرف سے، اور او نٹ سات کی طرف سے ہے۔ (طبرانی)
حد یث۹} حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، رات میں قربانی کرنے سے منع فرمایا ۔
حدیث۱۰} حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں کا کوئی قربانی کرنا چاہے تو اس کوچاہئے کہ بال منڈانے، یا ترشوانے، اور ناخن کٹانے سے رکا رہے ۔ (مسلم)
حدیث۱۱} حضرت عبد اللہ ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ۔مجھے یوم اضحی کاحکم دیا گیا، اس دن کو خدا نے اس امت کے لیے عید بنایا ہے ۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ بتائیے کہ میرے پاس منیحہ۱ ؎کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیا اسی کی قربانی کروں ؟ فرمایا نہیں ۔ ہاں تم اپنے بال، ناخن، اور مونچھیں ترشواؤ اورموئے زیر ناف مونڈ و، اسی میں تمھاری قربانی خدا کے نزدیک پوری ہوجائے گی ۔( ابو داؤد ،نسائی )
یعنی جس کو قربانی کی توفیق نہ ہوا سے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کا ثواب حاصل ہوجائے گا ۔
۱ ؎ منیحہ: ایسادودھ والا جانور جس سے فائدہ اٹھانے کے لئے کسی کو دیاگیا ہو۔ اس صورت میں اسے جانور کے دودھ سے نفع اٹھانے کا اختیار ہے۔لیکن منیحہ کا مالک نہیں ہوتا، اس لئے اس جانورکی قربانی بھی نہیں کرسکتا، جب تک اس جانور کو مالک سے خرید نہ لے ، یا مالک اسے ھبہ نہ کردے۔
{چند اہم مسائل}
مسئلہ ۱ : قربانی کے مسئلے میں صاحبِ نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولے، ( 612.412گرام ،یا 19.755 اونس) چاندی یا ساڑھے سات تولے،( 87.487گرام، 2.822 اونس) سونے کا مالک ہو ۔ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا، سامانِ تجارت یا سامانِ غیر تجارت ، یا اتنے نقد روپیوں کا مالک ہو اور مملوکہ چیزیں حاجتِ اصلیہ سے زائد ہوں۔
مسئلہ۲: حاجتِ اصلیہ یعنی جس کی زندگی بسر کرنے میں آدمی کو ضرورت ہے۔ اس کی وجہ سے قربانی واجب نہیں ، نہ اس میں زکوٰۃ واجب ہے جیسے رہنے کا مکان ، جاڑے گرمیوں میں پہننے کے کپڑے ، خانہ داری کے سامان ، سواری کے جانور یا گاڑیاں ، پیشہ وروں کے اوزار، اہلِ علم کے لیے حاجت کی کتابیں ۔
مسئلہ۳: کتاب سے مراد قرآن ، تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ اصول فقہ ، علمِ کلام اور اخلاق وغیرہ مذہبی کتابیں ہیں۔ اسی طرح طب کی کتابیں ،طبیب کے لیے حاجتِ اصلیہ سے ہیں ۔
مسئلہ۴: ان کے علاوہ نحو، صرف، نجوم، قصے ، کہانی ، دیوان وغیرہ کتب اور مذہبی کتابوں کے ایک سے زائد نسخے حاجتِ اصلیہ سے نہیں۔ اگر ان کی قیمت، نصاب کو پہنچے تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ۵: حافظ کے لیے قرآنِ مجید حاجتِ اصلیہ سے نہیں ۔
مسئلہ۶: مسافر پر قربانی واجب نہیں، اگرچہ مالدار ہو ۔ ہاں نفل کے طور پر چاہے تو کرسکتا ہے ۔
مسئلہ۷: عورت کے پاس باپ کا دیا ہوازیور ،یا کوئی اور سامان، جو اس کی ملک ہے، اگر وہ نصاب کی قیمت کے برابر ہو، تو عورت پر بھی قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ۸ : جو مالک ِنصاب، اپنے نام سے ایک بار قربانی کرچکا ہے اور دوسرے سال بھی وہ صاحب ِنصاب ہے، تو اس پر اپنے نام سے قربانی کرنا واجب ہے ۔ یہی حکم ہر سال کا ہے ۔
حدیث میں ہے۔ اِنَّ عَلیٰ کُلِّ اھْلِ بَیْتٍ فِی کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَّۃً (ترمذی)
مسئلہ۹: اگر کوئی صاحب ِنصاب، اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے ، دوسرے کی طرف سے کردے ، اور اپنے نام سے نہ کرے، تو سخت گنہ گار ہوگا۔ لہذا، اگر دوسرے کی طرف سے کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے، ایک دوسری قربانی کا انتظام کرے۔
{قربانی کے جانور}
مسئلہ۱۰:اونٹ ،گائے ،بھینس، بکری،بھیڑ، دنبہ، نر ہو یا مادہ ، خصی ہو یا غیرخصی، سب کی قربانی جائز ہے ۔
مسئلہ۱۱:اونٹ پانچ سال کا، گائے بھینس دوسال کی ،بکری بھیڑ دنبہ، ایک سال کاہوناضروری ہے۔ اس سے کم عمرہو، تو قربانی جائز نہیں،اگر زیادہ ہو تو جائز ،بلکہ افضل ہے۔ ہاں صرف بھیڑیا دنبہ کا چھ ماہ کا بچہ، اگر اتنا بڑا ہو، کہ دورسے دیکھنے میں، ایک سال کا معلوم ہوتا ہو، تو اس کی قربانی جائز ہے ۔
مسئلہ۱۲ : صاحب نصاب پر ایک بکری کا ذبح کرنا یا اونٹ، گائے، بھینس کا ساتواں حصہ واجب ہے ۔ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہوسکتا۔
مسئلہ۱۳:ساتویں حصہ سے زیادہ مثلاً گائے، بھینس کو چھ یا پانچ شخصوں کی طرف سے قربانی کریں تو ہوسکتا ہے ۔ بلکہ پوری گائے ایک شخص اپنی طرف سے کرسکتا ہے۔
{ایام قربانی}
مسئلہ۱۴: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے، بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے، یعنی تین دن، دو راتیں۔
مسئلہ۱۵: قربانی کے لیے دسویں تاریخ، سب میں افضل ہے، پھر گیارہویں ، پھر بارہویں ۔
مسئلہ ۱۶: شہر میں نماز عید سے پہلے، قربانی کرنا جائز نہیں ۔
{گوشت وجلد کے احکام }
مسئلہ۱۷ : قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے، اوردوسرے شخص، غنی یا فقیر کو دے سکتا ہے یا کھلا سکتا ہے، بلکہ اس میں سے کچھ کھالینا ، قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے ۔
مسئلہ۱۸ :قربانی کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ دسویں ذی الحجہ کو صبح سے کچھ نہ کھائے پیئے، جب قربانی ہوجائے تو اسی کے گوشت سے افطار کرے۔
مسئلہ۱۹: بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے، ایک حصہ فقرا ء ومساکین کے لیے ، ایک حصہ احباب ورشتہ دار کے لیے، ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے ، اگر اہل وعیال زیادہ ہوں تو کل گوشت بھی گھروالوں کو کھلا سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰: میت کی طرف سے قربانی کی، تو اس کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور احباب کو بھی کھلا سکتا ہے ، جبکہ میت نے وصیت نہ کی ہو، ورنہ کل گوشت صدقہ کردے۔
مسئلہ۲۱: قربانی اگر منت ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھا سکتا ہے نہ اغنیاء کو کھلا سکتا ہے بلکہ اسے صدقہ کردینا واجب ہے ۔ منت ماننے والا فقیر ہو یا مالدار ۔
مسئلہ۲۲ : قربانی کا گوشت کا فر کو دینا جائز نہیں ۔
مسئلہ۲۳ : قربانی کا چمڑا یاگوشت یا اس کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت میں دینا جائز نہیں ۔
{چرم قربانی }
مسئلہ۲۴ : قربانی کا چمڑا بیچ کر قیمت، اپنے مصرف میں لانا جائز نہیں ۔ ہاں چمڑا، اپنے استعمال میں لاسکتا ہے ۔
مسئلہ۲۵: آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدارس میں دیا کرتے ہیں یہ افضل اور بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ بعض مرتبہ وہاں کھال بھیجنے میں دقت ہوتی ہے، تو اسے بیچ کر قیمت بھیج دیتے ہیں، اس میں بھی حرج نہیں ۔
{ذبح کا طریقہ}
مسئلہ۲۶: ذبح میں چار رگیں کاٹی جاتی ہیں ۔ چاروںرگوں میں سے تین کٹ گئیں یا ہر ایک کا اکثر حصہ تو ذبیحہ حلال ہے ۔
مسئلہ۲۷ : ذبح کرنے میں قصداً بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ نہ کہا (یعنی اللہ کا نام نہ لیا ) توجانور حرام ہے ۔ اور بھول کر ایسا ہو اتو حلال ہے۔
مسئلہ۲۸: اگر پور اذبح کرنے سے پہلے قصاب کے حوالے کیا ،تو اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ، کہہ کر ہی ہاتھ لگائے۔
مسئلہ۲۹ : اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سرکٹ کر جداہوجائے مکر وہ ہے، مگروہ ذبیحہ کھایا جائے گا ۔ یعنی کراہت اس فعل میں ہے، ذبیحہ میں نہیں ۔
مسئلہ۳۰ : ذبح میں عورت کا وہی حکم ہے جو مرد کا ہے یعنی دونوں کا ذبیحہ جائز ہے۔
مسئلہ۳۱ : مشرک اور مرتد کا ذبیحہ مردار اور حرام ہے ۔
{قربانی کا طریقہ}
مسئلہ۳۲ : قربانی کا جانور بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو ،اوراپنا دایاں پاؤں ،اس کے پہلو پر رکھیں ۔ اورذبح سے پہلے یہ دعا پڑھیں۔
اِنِّیّ وَجَّھَتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ حَنِیْفاًوَّمَا اَنَامِنَ المُشْرِکِیْنَ0 اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ ،لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَلِکَ اُمِرْ تُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ0
پھر اَ للّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ پڑھتے ہوئےتیز چھری سے ذبح کرے ۔ قربانی اپنی طرف سے ہو، توذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں۔اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَماَ تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَ اھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَاالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ ۔
اگردوسرے کی طرف سے ذبح کرنا ہے تو مِنِّی کی جگہ مِنْ کے بعداس کا نام لے۔
مسئلہ۳۳: اگر وہ جانور مشترک ہے تو اس طرح لکھ کر ذبح کے بعد پڑھ لیں ۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ
(۱)……………ابن……………
(۲)……………ابن……………
(۳)……………ابن……………
(۴)……………ابن……………
(۵)……………ابن……………
(۶)……………ابن……………
(۷)……………ابن……………
کَمَاتقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَاالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ ۔
{نماز عیدین}
مسئلہ۳۴: عید کے دن غسل کرنا ، اچھے کپڑے پہننا ، خوشبو لگانا، ایک راستہ سے عیدگاہ جانا، دوسرے سے واپس آنا ، راستہ میں تکبیر کہتے ہوئے جانا مستحب ہے ۔ عید الفطر میں تکبیر آہستہ اور صبح کچھ میٹھا کھا کر عیدگاہ جانا مستحب ہے، مگر عید الاضحی میں تکبیر ، بلند آواز سے کہتے ہوئے جانا اور صبح سے قربانی کرنے تک کچھ نہ کھانا پینا، مستحب ہے ۔ عید ین کی نماز ’’دو رکعت ‘ ‘ واجب ہے بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ ۔
{نماز عیدین کا طریقہ}
مسئلہ۳۵: پہلے یوں نیت کرے، نیت کی میں نے دورکعت نماز عید… کی واجب، چھ زائد تکبیروں کے ساتھ، منھ میرا کعبہ شریف کی طرف، اللہ کے واسطے، اَللہُ اکْبَر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لے۔ امام ثنا پڑھے گا، تین زائد تکبیر کہے گا ۔پہلی دو تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ لے جائے اور اَللہُ اَکْبَر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے، تیسری تکبیر میں کانوں تک ہاتھ لے جائے اور اَللہُ اکْبَر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لے۔ ایک رکعت پوری کر کے دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں کہے۔ تینوں میں کانوں تک ہاتھ لے جائے اور اَللہُ اکْبَر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑدے۔ چوتھی تکبیر رکوع کی ہوگی۔ اس میں ہاتھ نہ اٹھائے۔ سلام کے بعد امام خطبہ پڑھے گا، سامعین متوجہ ہوکر سنیں ۔ خطبہ کے بعد دعا ، مصافحہ اور معانقہ مستحب ہے ۔
{ تکبیـر تـشریق }
مسئلہ۳۶: نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک جو نماز جماعت کے ساتھ ادا کی گئی ہو ہر نماز کے بعد ایک بار کہنا واجب اور تین بار افضل ہے تکبیر یہ ہے۔ اَللہُ اَکْبَرْاَللہُ اَکْبَرْ،لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، وَاللہُ اَکْبَرْ،اَللّٰہُ اَکْبَر، وَلِلّٰہِ الْحَمْدْo
{احکامِ عقیقہ}
بچہ پیداہونے کے شکریہ میں ،جو جانور ذبح کیا جاتا ہے، اس کو عقیقہ کہتے ہیں ۔ عقیقہ مباح ومستحب ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عقیقہ کیا ہے، اور اس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے ۔
{احادیث وآثار}
حدیث۱: حضرت سلمان بن عامرضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے اس کی طرف سے خون بہاؤ(یعنی جانوذبح کرو)۔ (بخاری)
حدیث۲: حضرت ام کرز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے کی طرف سے دوبکریاں ، اور لڑکی کی طرف سے ایک۔ اس میں حرج نہیں کہ نرہوں یا مادہ ۔
(ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی)
حد یث۳: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکا اپنے عقیقہ میں گروی ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور سر مونڈاجائے ۔
(ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی )
گروی ہونے کا مطلب یہ ہے، کہ جب تک عقیقہ نہ کیا جائے، اس سے پورا نفع حاصل نہ ہوگا۔
بعض نے کہا، بچہ کی سلامتی اور اس کی نشو ونما اور اس میں اچھے اوصاف ہونا، عقیقہ کے ساتھ وابستہ ہیں ۔
حدیث۴: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں۔ زمانہ ٔ جاہلیت میں، جب ہم میں سے کسی کے بچہ پیدا ہوتا، تو بکری ذبح کرتا اور اس کا خون بچے کے سر پر مل دیتا۔ اب جبکہ اسلام آیا تو ہم ساتویں دن بکری ذبح کرتے ہیں اور بچہ کا سر منڈاتے ہیں اور اس پر زعفران لگاتے ہیں۔ (ابودؤد)
حدیث۵: حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے، تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کانوں میں وہی اذان کہی جو نماز کے لیے کہی جاتی ہے ۔ (ابوداؤد ، ترمذی)
{چند فقہی مسائل}
مسئلہ۱ : عقیقہ کے لیے ساتواں دن بہتر ہے، اور ساتویں دن نہ کرسکے تو جب چاہے کرسکتا ہے ۔ سنت ادا ہوجائے گی۔
مسئلہ۲: زندگی میں جب بھی عقیقہ کرے تو ساتویں دن کا لحاظ کرنا بہتر ہے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بچہ کے پیدائش کے دن کو یاد رکھیں اور جب بھی عقیقہ کرنا ہو اس سے ایک دن پہلے کریں ۔ مثلاً جمعہ کو کوئی بچہ پیدا ہوا ہو تو عقیقہ جمعرات کو کریں ۔ اس میں ساتویں دن کا حساب ضرور آئے گا۔
مسئلہ۳: عقیقہ کے جانور کی بھی وہی شرطیں ہیں جو قربانی کے جانور کی ہیں۔
مسئلہ۴: لڑکے کے عقیقہ میں بکر ا،اور لڑکی کے عقیقہ میں بکری ذبح کی جائے۔ یعنی لڑکے میں نرَ اور لڑکی میں مادَہ کرنا مناسب ہے ، اگر برعکس کیا جب بھی حرج نہیں۔
مسئلہ۵: بہتر ہے کہ اس کی ہڈی نہ توڑی جائے بلکہ ہڈیوں سے گوشت اتار لیا جائے، یہ بچہ کی سلامتی کی نیک فال ہے ۔ اگر ہڈی توڑدی جب بھی حرج نہیں۔
مسئلہ۶: گوشت کو جس طرح چاہیں پکاسکتے ہیں ۔ لیکن میٹھا پکانا ،بچہ کے اخلاق اچھے ہو نے کی فال نیک ہے ۔
مسئلہ۷ : عقیقہ کا گوشت، بچہ کے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ تمام افراد کھا سکتے ہیں ۔ اور بطور ضیافت، دوست واحباب کو بھی کھلایا جاسکتا ہے ۔
مسئلہ۸ : بعض فقہاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ سری، پائے حجام کو اور ایک ران دائی کو دیں۔باقی گوشت کے تین حصے کریں ایک حصہ فقراء کا ، ایک احباب کا اور ایک حصہ گھر والے کھائیں ۔
مسئلہ۹: لڑکے کے عقیقہ میں، دو بکر یوں کی جگہ ایک ہی بکری کسی نے کی تو یہ بھی جائز ہے ۔
مسئلہ۱۰: قربانی کے جانور (گائے ، بھینس وغیرہ) میں عقیقہ کی شرکت ہوسکتی ہے ۔
مسئلہ۱۱: اس کی کھال کا وہی حکم ہے جو قربانی کی کھال کا ہے ۔
{ عقیقہ کا طریقہ}
مسئلہ۱۲: عقیقہ کے جانور کو بائیں پہلو پر اسی طرح لٹا ئیں کہ اس کا رخ قبلہ کی جانب ہو اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑئیں۔
لڑکے کی دعا
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہِ الْعَقِیْقَۃُ لِاِبْنِیْ (لڑکے کا نام لیں ) دَمُھَابِدَمِہٖ وَلَحْمُھَا بِلَحْمِہٖ وَعَظْمُھَا بِعَظْمِہٖ وَجِلْدُ ھَا بِجِلْدِہٖ وَشَعْرُ ھَا بِشَعْرِہٖ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَائً لِّابْنِیْ مِنَ الْنَّارo اِنِیّ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰواتِ وَالارضَ حَنِیْفاًوَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo اِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَا یَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَo لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo
لڑکی کی دعا
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہِ الْعَقِیْقَۃُ لِبِنْتِیْ (لڑکی کا نام لیں ) دَمُھَابِدَمِھَا وَلَحْمُھَا بِلَحْمِھَا وَعَظْمُھَا بِعَظْمِھَا وَجِلْدُ ھَا بِجِلْدِھَا وَشَعْرُ ھَا بِشَعْرِھَا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَائً لِّبِنْتِیْ مِنَ الْنَّارِo اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذیْ فَطَرَالسَّمٰواتِ وَالارضَ حَنِیْفاًوَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَا یَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَo لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo
پھر  اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ ۔ پڑھ کرتیزی چھری سے ذبح کردیں ۔
نوٹ: عقیقہ کی دعا ،اپنا لڑکا یا لڑکی ہو تو مندرجہ بالا طریقہ پر پڑھیں، لیکن اگر دوسرے کا لڑکا ہو تو خط کشیدہ عبارتوں میں لِ کے بعد اِبْنِی ہٹا کر لڑکے اور اس کے باپ کا نام لے ۔ مثلاً لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْز اسی طرح دوسرے کی لڑکی ہو تو خط کشیدہ عبارتوں میں لِ کے بعد بِنْتِی ہٹا کر لڑکی اور اس کے باپ کا نام لے۔(مثلاً  لِفَاطِمَۃ بِنْتِ خَالِد ) اس کے علاوہ اور کوئی ترمیم نہیں ہوگی۔
احمد القادری
اَلْاِسْلامی.نیٹ
AL islami.net (AL-ISLAMI)
مآ خذ و مراجع
(۱) قرآن کریم
(۲) کنز الایمان، امام احمد رضا قادری، رحمۃ اللہ علیہ(۱۲۷۲۔۱۳۴۰ھ)
(۳) صحیح بخاری، امام ابو عبداللہ محمد بن اسمعیل بخاری ،رحمۃاللہ علیہ (متوفی۲۵۶ھ)
(۴) صحیح مسلم، امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری ،رحمۃاللہ علیہ (متوفی۲۶۱ھ)
(۵) جامع ترمذی، امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی ،رحمۃاللہ علیہ (متوفی ۲۷۹ ھ)
(۶) سنن ابو داؤد، امام ابو داؤدسلیمان بن اشعث، رحمۃاللہ علیہ (متوفی۲۷۵ھ)
(۷) سنن نسائی، امام ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب نسائی، رحمۃاللہ علیہ (متوفی ۳۰۳ھ(
(۸) ابن ماجہ،امام محمدبن یزید ابن ماجہ، رحمۃاللہ علیہ(متوفی ۲۷۳ھ)
(۹) طبرانی، امام حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد ایوب اللخمی الطبرانی ، رحمۃاللہ علیہ (متوفی۳۶۰ھ)
(۱۰) مشکوۃ، شیخ ولی الدین تبریزی ،رحمۃاللہ علیہ( متوفی۷۴۲ھ)
(۱۱) بہار شریعت، صدرالشریعہ،مولانا امجدعلی اعظمی، رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۹۶۔۱۳۶۷ھ)
(۱۲) قانونِ شریعت ، شمس العلما ، مولانا قاضی شمس الدین ، جون پوری، رحمۃ اللہ علیہ
(۱۳۲۲ ھ ۔ ۱۴۱۰ ھ)
(۱۳) انوارُالحدیث، فقیہ ملت، مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی ، رحمۃ اللہ علیہ
(۱۳۵۲ ھ۔ ۱۴۲۲ ھ)
برکات اولیا، احمد القادری

برکاتِ اولیا ء اللہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ وَالصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی سَیِّدِ الاَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ ۔ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ۔ اَمَّا بَعْدُ،
فَاَعُوْذُ بِالّٰلِہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ۔ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ ( سورہ توبہ، آیت 119)

اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو- (کنز الایمان)
اولیائے کرام کا بڑا اونچا مقام ہے، ان کی بر کتیں بیشمار ہیں
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ "المنقذ من الضلال” میں یہ حدیث نقل فرماتے ہی

بِھَمْ یُمْطَرُوْن، وَ بِھِمْ یُرْزَقُوْن۔

انھیں اولیاء اللہ کے طفیل بارش ہوتی ہے اور انھیں کے طفیل رزق دیا جاتاہے۔ گویا بارش و رزق اولیاءکرام کی برکات کا ایک ثمرہ ہے-
یاد رہے کہ حق کے متوالوں کا ایک گروہ ہر زمانہ میں موجود رہا ہے، بلکہ زمانہ کبھی ان کے وجود سے خالی ہی نہیں رہا، انھیں کی برکتوں سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ انھیں اولیائے کرام میں سے اصحاب کہف بھی ہیں ۔
تمام سلاسلِ اولیاء، برحق ہیں، سلسلہ عالیہ قادریہ، برکاتیہ، رضویہ، نقشبندیہ، مجددیہ، چشتیہ، نظامیہ، سہروردیہ، شاذلیہ وغیرہ ان سلاسلِ اولیاء کی برکات سے پوری دنیا فیضیاب ہے- ان کے درمیان جو اوراد و اشغال میں اختلاف ہے، وہ فروعی ہے، سب کا اصل سرچشمہ، ایک ہی ہے ۔ تمام سلاسل ِحَقَّہ، ذاتِ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و سلم سے ملتے ہیں-
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیدنا خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیدنا مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ، امام اہل سنت، مجدِّد ِدین و ملت، سیدی اعلی حضرت ،امام احمد رضا قادری برکاتی رحمۃ اللہ علیہ، وغیرہم، اولیا ء اللہ کے فیضان و برکات سے ایک عالم، روشن و منور ہے، آج دینا میں اہلِ سنت کے عقیدے میں جوپختگی اور تصلب فی الدین پایا جاتا ہے، وہ انھیں اولیائے کرام اور امام اہل سنت کے فیضان و برکات کا ایک حصہ ہے-
مدارسِ اہل سنت کی برکتیں بھی، اولیاء اللہ کے طفیل ہیں، ان کے بانیان وکارکنان زیادہ تر،صاحب ِ سلسلہ ہیں، جن کے فیضان سے، عالم اسلام مالامال ہے، ان مدارس کی برکات ایشیا، افریقہ، امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا وغیرہ ہر چہار طرف پھیلی ہوئی ہیں-
اس وقت اہلِ سنت و جماعت کے حریف، بدمذہب ہیں- ان کے مقابلہ میں، تمام سلاسلِ اولیا کے پیرو کار و متبعین کو آپسی فروعی اختلافات، نظرانداز کرکے ، بدمذہبیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کومتحد ومتفق ہوکر روکنا چاہئے-
اولیاءِ کرام کی تعلیمات کی برکات کوعام کرنا، ان کے افکارونظریات، اذکار و اشغال کو پھیلانا ، تمام سلاسل کے مریدین و متوسلین اور جملہ اہل سنت کا اہم فریضہ ہے-
اس دورِ پرفتن میں جمیع اہل سنت کو، اولیا ء اللہ کا دامن مضبوطی سے تھام لینا چاہئے اور ان کی تعلیمات و برکات کا جو حصہ ملا ہے، اُس کی نشر و اشاعت، مل جل کر خوب خوب کرنا چاہئے-

وَاللہُ الْمُوَفِّقُ وَالْمُعِیْن، نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر۔

احمد القادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکہ

اَلْاِسْلامی.نیٹ
AL islami.net (AL-ISLAMI)
مینو