
























نماز میں آہستہ آمین کہنے کا ثبوت
ازاحمد القادری مصباحی
نماز میں آہستہ آمین کہنا سنت، اوررسول ﷲ ﷺ کے حکم کے مطابق ہے۔ آہستہ آمین کہنے کے سلسلے میں، متعدد احادیث آئی ہیں۔
{۱} حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے۔
عن وائل ابن حجر( رضی اللہ تعالٰی عنہ )انہ صلے مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلما بلغ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین قال اٰمین و اخفیٰ بھا صوتہ۔
(۱۔امام احمد، ۲۔ابوداؤدطیالسی، ۳۔ابویعلی موصلی، ۴۔طبرانی،۵۔ دارقطنی، ۶۔مستدرک للحاکم )
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب حضور (ﷺ ) غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ، پر پہنچے تو آپ نے آمین کہا،اور آمین میں ،اپنی آواز آہستہ رکھی۔
{۲} حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری روایت ہے۔
قال سمعت رسول اللہ ﷺ قرا غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقال اٰمین و خفض بہٖ صو تہٗ ،
(۷۔ابوداؤد، ۷۔ترمذی،۸۔ ابن ابی شیبہ )
فرما تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھاتو آمین کہا ، اور آواز آہستہ رکھی۔
ان دونوں حدیثوں سےمعلوم ہوا ،کہ آمین، آہستہ کہنا ، رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
{۳} حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے ۔
قال رسول اللہ ﷺ اذا امن الامام فامنوا، فانہ ما وافق تا مینہ تامین الملٰئکۃ،غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہ ۔
(۹۔بخاری،۱۰۔مسلم،۱۱۔احمد،۱۲۔مالک، ۱۳۔ابوداؤ، ۱۴۔ترمذی، ۱۵۔نسائی، ۱۶۔ابن ماجہ )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ،کہ جب امام آمین کہے، تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگی ، اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گناہ کی معافی ،اس نمازی کے لئے ہے جس کی آمین فرشتوں کی آمین کی طرح ہو ۔ فرشتے آمین آہستہ کہتے ہیں اور ہم نے ان کی آ مین آج تک نہیں سنی، تو چاہئے کہ ہماری آمین بھی آہستہ ہو، تاکہ فرشتوں کی موافقت اور گناہوںکی معافی ہو۔
{۴} حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری روایت ہے۔
قال رسول اللہ ﷺ اذا قال الا مام غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآ لِّیْنَ ، {فقولوا اٰمِیْن } فانہٗ من وافق قولہٗ ،قول الملٰئکۃ ،غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہ،
(۱۷۔بخاری، ۱۸۔شافعی، ۱۹۔مالک، ۲۰۔ابوداؤد، ۲۱۔نسائی )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،کہ جب امام ،
غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْن۔
کہے تو تم اٰمِیْن کہو، کیونکہ جس کا یہ اٰمِیْن کہنا فرشتوں کی اٰمِیْن کہنے کے مطابق ہوگا، اس کے گناہ بخش دیئے جا ئیں گے۔
اس حدیث سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔ ایک یہ کہ مقتدی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ ہر گز نہ پڑھے۔ اگر مقتدی کا پڑھنا صحیح ہو تا، تو ہمارے پیارے نبی، رؤف و رحیم ﷺ یوں فرماتے ،کہ جب تم وَلَا الضَّالِّیْن کہو، تو آمین کہو۔معلوم ہوا کہ مقتدی صرف آمین کہیں گے۔سورہ فاتحہ پڑھنا،اور وَلَا الضَّالِّیْن کہنا امام کا کام ہے، مقتدی کا نہیں، بلکہ مقتدی پر قرآن کا سننا اور چپ رہنا واجب ہے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے۔
وَاِذَاقُرِیَٔ الْقُرْ اٰ نُ فَا سْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگاکر سنو اور خاموش رہوکہ تم پر رحم ہو۔
( کنز الایمان، سورہ اعراف، آیت۲۰۴)
دوسرامسئلہ اس حدیث سے یہ معلوم ہو ا کہ اٰمِیْن آہستہ ہونی چاہئے کیونکہ فرشتوں کی اٰمِیْن آہستہ ہی ہوتی ہے جیسا کہ اوپر گزرا۔
{۵} حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نے فرمایا۔
لم یکن عمر و علی رضی اللہ عنھما یجھر ان ببسم اللہ الرحمٰن الرحیم ولا باٰمین۔
(۲۲۔ تہذیب الآثارللطبرانی ،۲۳۔ طحاوی )
حضرت عمر و علی رضی اللہ تعالٰی عنہما نہ تو بِسْمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ اونچی آواز سے پڑھتے تھے، نہ آمین۔
{۶} حضرت ابو معمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے ۔
عن عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ قال یخفی الامام اربعاً ، التعوذ و بسم اللہ و اٰمین و ربنا لک الحمد۔
(۲۴۔عینی)
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا امام چار چیزیں آہستہ کہے۔ اَعُوْذُ بِاللہ، بِسْمِ اللہ،آمِیْن اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد۔
معلوم ہوا کہ آمین آہستہ کہنا ،سنت ِصحابہ اور سنت ِخلفاء راشدین بھی ہے۔
{۷} امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ،اپنے استاذ، حضرت حماد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، انھوں نے اپنے استاذ،حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
قال اربع یخفیھن الامام، التعوذ، و بسم اللہ، و سبحنک اللھم، و اٰمین ،
(۲۵۔ رواہ محمد فی الا ثار، ۲۶۔ وعبد الرزاق فی مصنفہ)
آپ نے فرمایا، کہ امام چار چیزیں آہستہ کہے ،
اَعُوْذُ بِاللّٰہ، بِسْمِ اللّٰہ، سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ اور آمِیْن۔
(یہ حدیث امام محمد نے آثار میں، اورامام عبد الرزاق نے اپنی مُصَنَّفْ میں بیان کی)
معلوم ہواکہ جیسے ثنا، اعوذ باﷲ، بسم اﷲ، رکوع اور سجدے کی تسبیحات، التحیات، درود ابراہیمی، دعائِ ماثورہ وغیرہ سب آہستہ پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی آمین بھی آہستہ پڑھنا سنت ہے ۔یہی احادیث ِصحیحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے اعمال واقوال سے ثابت ہے۔
یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاﷲ علیہ کا بھی قول ہے ۔
امام اعظم ا بو حنیفہ رحمۃﷲ علیہ، جلیل القدر امام، تا بعی،فقیہ، عالم، محقق،مدقق، متقی،محدث ، مفسر،مجتہد،صالح،صاحب کشف اور ولی کامل ہیں،نہ ان کے زمانہ میں ان کے برابر کوئی فقیہ تھا نہ اُن کے بعد اب تک اُ ن کے مثل پیدا ہوا۔ بلا شبہ آپ اِمَامُ الْمُتَّقِیْنْ اور اَمِیْرُ الْمُسْلِمِیْنْ ہیں۔ آپ کی پیروی فرمان ِالٰہی کے مطابق ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ۔
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ،
( سورہ نسا آیت ۵۹)
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطا عت کرو اور اپنے امیرکی۔
اس مختصر رسالے میں آہستہ اٰمین کہنے پر حدیث وفقہ کی ۲۶ مشہور ومعروف اورمستند کتا بوں کے حوالہ سے ،سات احادیث کریمہ پیش کردی گئی ہیں، جو اہل حق کوقبول کرنے کے لئے کا فی ہیں……مزید تفصیل کے لئے حضرت مولانا ظفر الدین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح البہاری شریف، اور حضرت مولانا احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور ومعروف کتاب ْجاء الحقْ کا مطالعہ فرمائیں۔
وَاللّٰہُ الْھَادِی وَالمُعِیْنُ ، نِعمَ المَولٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ، وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰ لِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ، بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔
احمدالقادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
۵؍ صفر۱۴۲۳ھ ۲۱؍اپریل ۲۰۰۲ء
رفع یدین کے احکام
ازاحمد القادری مصباحی
نمازپنجگانہ اور جمعہ میں، صرف پہلی تکبیر کے وقت ہی ہاتھ اٹھا نا سنت ہے ،اس کے بعد نہیں۔ اس مسئلہ کے ثبوت میں بکثرت احادیث آئیں ہیں۔ چند حدیثیںملاحظہ فرمائیں۔
{۱} حضرت برا ء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ
کان النبی ﷺ اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ ثم لا یرفعھما حتی یفرغ۔
(۱۔ترمذی،۲۔ ابن شیبہ)
نبی ﷺ جب نماز شروع فرماتے ،تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہونے تک نہ اٹھاتے۔
{۲} حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کان النبی ﷺ یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود۔
(۳)طحاوی شریف، ۴۔فتح القدیر، ۵۔مرقاۃ شرح مشکوۃ)
نبی ﷺ پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے، پھر نہ اٹھاتے۔
{۳}حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرما یا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاــ۔
ترفع الایدی فی سبع مواطن عند افتتا ح الصلوۃ و استقبال البیت والصفا والمروۃ والمو قفین والجمرتین.
(۶۔حاکم، ۷۔بیہقی)
صرف ساتھ جگہ ہاتھ اٹھائیں جائیں۔
(۱) نماز شروع کرتے وقت
(۲) کعبہ کے سامنے منہ کرتے وقت
(۳) صفا،مروہ پہاڑی پر
(۴،۵) دونوں موقف( مِنَی اور مُزْدَلِفَہ) میں۔
(۶،۷)دونوں جمروں کے سامنے ۔
اس حدیث میں صرف نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے، بعد میں نہیں۔
ان کے علاوہ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے ۔
(۸)کتاب المفرد ؔمیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ۔
(۹) بزارؔ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ۔
(۱۰)ابن شیبہؔ اورطبرانی ؔنے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے، کچھ فرق سے بیان کیا۔
{۴} حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں، کہ میں نے صحا بہ کی ایک جماعت سے کہا، کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز، سب سے زیا دہ یا د ہے۔
رأیتہ ﷺاذا کبر جعل یدیہ حذاء منکبیہ ،واذارکع امکن یدیہ من رکبتیہ، ثم ھصر ظھرہ، فاذا رفع راسہ استوی، حتی یعود کل فقار مکانہ، فاذا سجد وضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضھما واستقبل باطراف اصبع رجلیہ القبلۃ، فاذا جلس فی الرکعتین ،جلس علی رجلہ الیسری ونصب الیمنی۔
(۱۱۔ بخاری،۱۲۔ابو داؤد،۱۳۔مشکوۃ،)
میں نے دیکھا ،کہ جب نبی ﷺ تکبیر تحریمہ کہتے، تو ہاتھوں کو کندھے تک اٹھاتے۔ اور جب رکوع کرتے، تو گھٹنوں کو ہا تھوں سے پکڑتے اور کمرسیدھی کرتے، جب سجدہ سے سر اٹھا تے ،تو اس طرح سیدھے کھڑے ہوتے ،کہ کمر کی ہڈی کے تمام مہرے اپنی جگہ آجا تے، اور جب سجدہ کرتے، تو ہاتھوں کو زمین پر رکھتے، نہ ان کو سُکڑ تے، اورنہ کہنیوں کو زمین پر بچھاتے، اور پیروں کی انگلیوں کا رخ، قبلہ کی طرف رکھتے، اور دو رکعت کے بعد بائیں پاؤں پر بیٹھ کر سیدھا پیر کھڑا کرتے۔
اس حدیث میں، حضور ﷺ کی نماز کی ،پوری کیفیت بیان کی گئی ،جس میں صرف ایک بار، تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھا نے کا ذکر ہے، اس کے بعدہاتھ اٹھا نے کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر رکوع کے بعد بھی رفع یدین ،نبی اکرم ﷺ کرتے ہوتے، یا اس کا حکم ہوتا ،تو حضرت ابو حمید سا عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا ذکر کیوں نہ کرتے؟
{۵} حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، کہ ہم سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرما یا ۔
الا اصلی بکم صلاۃ رسول ﷲ ﷺ، فصلی ولم یرفع یدیہ۔ الا مرۃ واحدۃ مع تکبیرۃ الا فتتاح۔
(۱۴۔مجمع الزوائد،۱۵۔ ترمذی، ۱۶۔ابوداؤد، ۱۷۔نسائی، ۱۸۔ابن ابی شیبہ، ۱۹۔طحاوی، ۲۰۔عبدالرزاق)
کیا میں تمھارے سامنے رسول اللہ ﷺکی نماز نہ پڑھوں؟ تو آپ نے نماز پڑھی۔ اس میں سوائے تکبیر تحریمہ کے، کسی موقع پہ ہاتھ نہ اٹھائے۔
{۶}حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،
انہ رأالنبیﷺ حین افتتح الصلوۃ، رفع یدیہ حتی حاذی بھما اذنیہ، ثم لم یعد الی شیئی من ذالک، حتی فرغ من صلاتہ
(۲۱۔دار قطنی)
کہ انھوں نے نبی ﷺ کو دیکھا ،کہ جب حضور ﷺ نے نماز شروع کی تو ہاتھ اتنے اٹھا ئے کہ کانوں کے مقابل کردئے، پھر نماز سے فارغ ہونے تک کسی جگہ ہاتھ نہ اٹھائے۔
{۷} حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری روایت ہے ، فرمایا۔
ان رسول ﷲ ﷺ کان اذاافتتح الصلوۃ رفع یدیی الی قریب من اذنیہ، ثم لایعود۔
(۲۲۔ ابوداؤد)
بے شک رسول ﷲ ﷺ جب نماز شروع کرتے، تو کانوں کے قریب تک ہاتھ اٹھاتے تھے۔ پھردوبارہ ایسا نہ کرتے۔
{۸}امام بخاری اور امام مسلم کے استاذ، امام حمیدی نے اپنی مسند میں ،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا، کہ نبی ﷺ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت، رفع یدین کرتے تھے، اور رکوع کے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ (۲۳۔مسند حمیدی)
{۹} حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔
صلیت مع النبی ﷺ مع ابی بکر ومع عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فلم یرفعوا ایدیھم الا عند التکبیرۃ الاولی فی افتتاح الصلوۃ۔
(۲۴۔ دار قطنی)
میں نے نبی ﷺ حضرت ابوبکر، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ نمازپڑھی یہ لوگ نماز کے شروع میں صرف پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے۔
یہاں تک تو نبی اکرم ﷺ سے، مرفوع حدیثیں تھیں۔ اب صحا بۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی احادیث ملاحظہ فرمائیں ،اس لئے کہ صحابۂ کرام کا قول و فعل بھی مسلمانوںکےلئے دلیل ہے۔ اور صحابہ کی حدیث کو بھی، حدیث کہتے ہیں، اور صحابہ کی بکثرت احادیث، بخاری، مسلم اور دیگر کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
اَصْحَابِیْ کَا لنُّجُوْمِ، بِاَ یِّھِم اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُم ۔
(مشکوۃ)
میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں، ان میں جن کی پیروی کروگے، ہدایت یاب ہوجاؤگے۔
{۹}حضرت مجاہد سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا۔
صلیت خلف ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما، فلم یکن یرفع یدیہ الافی التکبیرۃ الاولی من الصلوۃ ۔
(۲۵۔طحاوی،۲۶۔ ابن ابی شیبہ )
میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پیجھے نماز پڑھی ،آپ نماز میں پہلی تکبیر کے سوا کسی وقت ہا تھ نہ اٹھاتے۔
{۱۱} حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔
انہ کان یرفع یدیہ فی التکبیرۃ الاولی من الصلوۃ، ثم لایرفع فی شیئی منھا۔
(۲۷۔بیہقی،۲۸۔ طحاوی،۲۹۔ مؤطا )
کہ آپ نماز کی پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے ،پھر کسی حالت میں ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔
{۱۲}حضرت اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، کہا
رأیت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود ۔
( ۳۰۔طحاوی شریف)
میں نے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ،کہ آپ نے پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھائے ،پھر نہ اٹھا ئے۔
{۱۳} حضرت سفیا ن (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں کہ
فرفع یدیہ (عبدﷲبن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فی اول مرۃ وقال بعضھم مرۃواحدۃ ۔
(۳۱۔ ابوداؤد شریف، ۳۲۔مؤطا)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلی بار ہی ہاتھ اٹھاتے۔ بعض راویوں نے فرما یا کہ ایک ہی دفعہ ہا تھ اٹھاتے۔
{۱۴} حضرت عبدالعزیز بن حکیم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے کہا کہ
رأیت ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما، یرفع یدیہ حذاء اذنیہ فی اول تکبیرۃ افتتاح الصلوۃ، ولم یرفعھما فی ما سوی ذلک ۔
(۳۳۔ مؤطا شریف )
میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو نماز کے شروع میں تکبیر اولی کے وقت اپنے ہا تھ، کانوں کی لو تک اٹھاتے دیکھا۔ اور اس کے علاوہ وہ ہاتھ نہیںاٹھاتے تھے۔
{۱۵}حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرما یا ۔
ان العشرۃ الذین شھد لھم رسول اﷲ ﷺ بالجنۃ، ماکانوا یرفعون ایدیھم الا افتتاح الصلوۃ ۔
( ۳۴۔فتح القدیر،بدائع الصنائع،اعلاء السنن)
وہ دس( عشرہ مبشرہ )صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم جن کے جنتی ہو نے کی رسول اﷲ ﷺ نے گواہی دی ان میں سے کوئی بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ، رفع یدین نہیں کرتا تھا۔
رَفع یدین کی حدیث بھی آئی ہے مگر وہ منسوخ ہے
{۱۶} حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے
انہ رأی رجلا یرفع یدیہ فی الصلوۃ عند الرکوع وعند رفع راسہ من الرکوع ،فقال لہ لا تفعل فانہ شیئی فعلہ رسول اﷲ ﷺ ثم ترکہ ۔
(۳۵۔عینی شرح بخاری)
کہ آپ نے ایک شخص کو رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھ اٹھاتے دیکھا ،تو اس سے فرمایا کہ، ایسا نہ کرو۔ کیونکہ یہ وہ کام ہے جو رسول اللہ ﷺ نے پہلے کیا تھا،پھر چھوڑ دیا۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے، کہ رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت، رفع یدین (ہاتھ اٹھانے) کی حدیث منسوخ ہے۔
{۱۶} بعض صحابہ کرام تکبیراولیٰ کے علاوہ، رکوع میں جاتے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے ،اس سے منع کیا گیا ۔ حدیث یہ ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا ۔
مالی اراکم رافعی ایدیکم، کانھا اذناب خیل شمس، اسکنوا فی الصلوۃ۔
(۳۶۔ صحیح مسلم،۳۷۔ مسند امام احمد بن حنبل،۳۸۔ابو داؤد، ۳۹۔نسائی،۴۰۔بیہقی، بہار شریعت)
یہ کیا بات ہے کہ میں تم کو (بار بار) ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں ،جیسے چنچل گھو ڑے کی دُمیں،نماز میں سکون کے سا تھ رہو۔
بار بار ہاتھ اٹھا نا، گرانا، یہ سکون و اطمینا ن کے خلاف حرکت ہے، اس لئے اس سے روکا گیا۔ اورنبی اکرم ﷺ نے خود اس سے منع فرمادیا۔
اس حدیثِ مرفوع سےبھی معلوم ہوا، کہ بار بار ، رفع یدین کرنا(ہاتھ اٹھانا) منسوخ ہے۔
چند اکابر صحابہ کرام کے نام، جو صرف پہلی تکبیر کے وقت ہا تھ اٹھاتے تھے۔
حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت زبیر بن العوام، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔یہ تو عشرہ مبشرہ ہیں جنھیں جیتے جی، دنیا ہی میں نبی اکرم ﷺ نے جنت کی بشارت سنادی تھی۔
ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت براء بن عازب، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت ابو سعید خدری، حضرت عبد اللہ بن زبیر وغیرہم، رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین،یہ وہ اکابر صحابہ ہیں جن کے بارے میں روایت موجود ہے کہ وہ تکبیرتحریمہ کے علاوہ اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کر تے تھے۔ (نزھتہ القاری شرح بخاری جلد ۳ ص۲۰۰)
خلاصۂ کلام
مذکورہ بالااحادیث اور دلائل وبراہین سے دن کے اجالے کی طرح یہ واضح ہوگیا کہ پنجگانہ نماز کے شروع میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا سنت ہے۔ رکوع سے پہلے اوررکوع کے بعدرفع یدین کی حدیث منسوخ ہے۔ یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاﷲ علیہ کا فتوی ہے،جو بکثرت احادیث و سنن سے ثابت ہے ، ان کا کوئی فتوی سنت کے خلاف نہیں ہوتا،جو ان کے فتوی کو خلاف سنت بتائے وہ یاتو ان کا حاسدہوگا یا دشمن۔
اس مختصر رسالے میںصرف پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھا نے پر حدیث وفقہ کی۴۰ مشہور ومعروف اورمستند کتا بوں کے حوالہ سے سترہ احادیث کریمہ پیش کردی گئی ہیں، جو حق پسند کو ، حق قبول کرنے کے لئے کا فی ہیں…مزید تفصیل کے لئے حضرت مولانا ظفر الدین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح البہاری شریف، اور حضرت مولانا احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور ومعروف کتاب ْجاء الحقْ کا مطالعہ فرمائیں۔
وَاللّٰہُ الْھَادِی وَالمُعِیْنُ ، نِعمَ المَولٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ، وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰ لِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ، بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔
احمد القادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
۵؍ صفر۱۴۲۳ھ ۲۱؍ اپریل ۲۰۰۲ء
مسائلِ رمضان
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے، جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے۔ کہ کہیں تمھیں پرہیزگاری ملے (کنزالایمان)
رمضان کی فضیلت
ماہِ رمضان جس میں قرآن اُتارا گیا- لوگوں کی ہدایت اور حق و باطل میں جدائی بیان کرنے کے لئے، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو اسکا روزہ رکھے، اور جو بیمار یا سفر میں ہو، وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔ (کنزالایمان)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، جو اس میں نیکی کا کوئی کام کرے، تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینے میں فرض ادا کیا- اور اس میں جس نے فرض ادا کیا ،تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں ستر فرض ادا کئے۔۔۔یہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا اول رحمت ہے ،اور اوسط مغفرت ہے، اور اس کا آخر جہنم سے آزادی ہے-
(بیہقی شریف)
روزہ کی فضیلت:۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، آدمی کے ہر نیک کام کا بدلہ، دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے- اللہ تعالیٰ نے فرمایا، مگر روزہ ،کہ وہ میرے لئے ہے، اور اس کی جزا میں دوں گا، بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو، میری وجہ سے ترک کرتا ہے- روزہ دار کے لئے، دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت- (بخاری و مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر اسے سونا دیا جائے، جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا- اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملےگا- (طبرانی)
سحری:۔ سحری ضرور کھائے، کیوں کہ احادیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے، سرکار دوجہاں ﷺ نے فرمایا- سحری کل کی کل برکت ہے، اسے نہ چھوڑنا اگر چہ ایک گھونٹ پانی ہی پی لے- کیوں کہ سحری کھانے والوں پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں (مسند امام احمد)
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کسی وجہ سے سحری کے وقت آنکھ نہ کھلی ، تو اس بہانے سے روزہ چھوڑدے کہ سحری نہیں کھا ئی- یا وقتِ سحر ختم ہونے پر بیدار ہوئے ،جب بھی کھالیا کہ بڑی فضیلت ہے، اس صورت میں تو روزہ ہی نہ ہوگا- بلکہ کچھ نہ کھاِئے اور روزہ کی نیت کرے- کیوں کہ روزہ فرض عین ہے، سحری فرض نہیں-
روزہ کی نیت:
میں نے نیت کی، کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس رمضان کافرض روزہ، کل رکھوں گا-
روزہ کے لئے نیت کرنا ضروری ہے اگر چہ اپنی زبان یا دل میں، سحری کھانا بھی نیت ہے- اگر رات میں نیت نہیں کی، تو دن میں یوں نیت کرے۔
میں نے نیت کی، کہ اللہ تعالیٰ کے لئے آج، رمضان کافرض روزہ رکھوں گا- (بہار شریعت)
دن میں نیت کرنے کا وقت: چاشت (ضحوہ کبری) تک نیت کرسکتا ہے اس کے بعد نہیں۔
افطار:۔ حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں، جب تم میں کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور یا چھوہارے سے افطار کرے کہ وہ برکت ہے- اور اگر نہ ملے ،تو پانی سے کہ وہ پاک کرنے والا ہے-
(ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس نے حلال کھانے یا پانی سے روزہ افطار کرایا ، فرشتے ماہ رمضان کے اوقات میں اس کے کے لٔےاستغفار کرتے ہیں- اور جبرئیل (علیہ الصلوۃوالسلام) شب قدر میں اس کے لٔے استغفار کرتے ہیں (طبرانی کبیر)
افطار کی دعا: حضورنبی اکرم ﷺ افطار کے وقت یہ دعا پڑھتے-
اے اللہ! تیرے ہی لئے میں نے روزہ کھا، اور تیرے ہی دۓہوۓرزق پر، میں نے افطار کیا-
مسائلِ ہلال
رویت ہلال: ۔ تمام اسلامی مہینے چاند دیکھنے سے شروع اورچاند دیکھنے پر ختم ہوتے ہیں، اسی طرح رمضان اور عید کا مدار بھی رویت ہلال پر ہے-
نبی اکرمﷺ فرماتےہیں: چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار (عید)کرو – اور اگر ابر ہو تو شعبان کی گنتی، تیس پوری کرلو- (بخاری و مسلم)
چاند دیکھنے کے بعد کی دعا:
اللہ سب سے بڑا ہے- اے اللہ ہم کو، برکت، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ ، چاند دکھا- اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ، جسے تو پسند کرتا ہے،اور راضی ہے- (اے چاند!) میرا ،اور تیرا رب اللہ ہے-
مسائلِ زکوۃ
زکوٰۃ:۔ ہر مسلمان، عاقل، بالغ، صاحبِ نصاب پر فرض ہے، سال پورا ہوجانے کے بعد، اپنے کل مال کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکوۃ نکالنا ضروری ہے- چونکہ صاحب ِنصاب کے لئے، سال پورا ہونے سے پہلے زکوۃ نکالنا جائز ہے، اس لئے مسلمان کثرت سے، رمضان ہی میں زکوۃ نکال دیتے ہیں، سال پورا ہونے کا انتظار نہیں کرتے، کیونکہ رمضان میں ثواب، ستر گنابڑھ جاتا ہے-
مقدارِ نصاب
صاحبِ نصاب، وہ شخص ہے جس کے پاس دوسو درہم یعنی ساڑھے باون تولےچاندی، یا بیس مثقال یعنی ساڑھےسات تولے سونا ہو، یا انٹر نیشنل پیمانہ سے، تقریباً 612.41گرام چاندی یا تقریباً 87.48 گرام ، سونا ہو۔
امریکن پیمانہ سے، تقریباً 19.755 اونس چاندی ،یا تقریباً 2.822 اونس سونا ہو۔
یا ان میں سے کسی ایک، اَدنیٰ کی قیمت کا مالک ہو- آج کل ادنی، چاندی ہے، (بوقت تحریر) ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت، تقریبا 300 یو ایس ڈالر بنتے ہیں، یعنی اتنی رقم، کسی کے پاس ہو تو وہ صاحبِ نصاب ہے۔ سونے چاندی کی قیمت، گھٹتی ، بڑھتی رہتی ہے، اس لئے بوقت ضرورت اس کا موجودہ ریٹ معلوم کر لیا جائے۔
مسائلِ عُشُر
کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا، کہ ہراس چیز میں جسے زمین نےنکالا،عشر یا نصف عشر ہے، (کنزالعمال)
جو چیز کھیت میں پیدا ہو (جیسے گیہوں، دھان، سبزی، پھل وغیرہ) اگر سینچائی سے پیدا ہو، تو کل پیداوار کا بیسواں حصہ، ورنہ دسواں حصہ زکوۃ نکالنا واجب ہے- اس میں سال پورا ہونے کی شرط نہیں- اگر سال میں کئی بار پیدا ہو، تو ہر مرتبہ عشر نکالنا ہوگا-
فطرہ
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا،بندہ کا روزہ آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتاہے، جب تک صدقۂ فطر نہ ادا کرے۔ (بہار شریعت، بحوالہ دیلمی، خطیب، ابن عساکر)
نماز عید سے پہلے پہلے ،ہر صاحبِ نصاب پر، اپنی اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے، آدھا صاع گیہوں، یا اس کا آٹا، اس کی قیمت ، یا ایک صاع جو، یا کھجور ، یا مُنَقّیٰ ،یااِن میںسے، کسی ایک کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے- قیمت دینا افضل ہے
صاع کی مقدار
انٹر نیشنل پیمانہ سے صاع کی مقدار تقریباً 4 کلو 94 گرام ،اور آدھا صاع کی مقدار، تقریباً 2 کلو 47 گرام ہے
امریکن پیمانہ سے صاع کی مقدار، تقریباً 9.016 پو نڈ ، اور آدھا صاع کی مقدار تقریباً 4.508 پونڈ ہے۔
بندہ کا روزہ، آسمان و زمین کے درمیان ،معلق رہتا ہے، جب تک صدقۂ فطر ادا نہ کرے (حدیث)
مصارفِ زکوۃ
اپنی اصل (ماں، باپ، دادا، دادی، نانی وغیرہ) اپنی اولاد (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی،نوسہ، نواسی وغیرہ) اپنی بیوی یا شوہر اور بنی ہاشم کو زکوۃ نہیں دے سکتے- ان کے علاوہ تمام مسلم غربا و مساکین کو زکوۃ دے سکتے ہیں- ہاں اگر وہ غریب مسلمان، طالبِ علمِ دین ہے، تو دوسروں کی بہ نسبت اس کی امداد کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے ،کیونکہ اس میں ایک غریب مسلمان کی مدد بھی ہے اور علم دین کی اشاعت بھی-
اسی لئے مسلمان زیادہ تر زکوۃ مدارس اسلامیہ کو بھیج دیتے ہیں- ہاں مدارس میں زکوۃ بھیجتے وقت، پہلےسے مدرسہ کے مہتمم کو اطلاع دیدیں ،کہ یہ مالِ زکوۃ ہے، تاکہ وہ اسے الگ رکھیں، اور مصارفِ زکوۃ میں خرچ کریں-
ترکیب نماز عید:۔ یہ دوسری نمازوں ہی کی طرح پڑھی جاتی ہے- بس فرق اتنا ہے ،کہ اس میں واجب عیدالفطر کی نیت ہوگی، پہلی رکعت میں ثنا کے بعد تین زائد تکبیریں اور دوسری میں رکوع سے پہلے تین
زائد تکبیریں کہی جائیں گی- اِس میں اقامت نہیں، نماز کے بعد خطبہ ہوگا، اس کے بعد دعا، پھر مصافحہ و معانقہ وغیرہ اظہار مسرت کے لئے جائز مستحسن ہے-
(ماخوذ از بہارشریعت وغیرہ ملخصاً)
احمدالقادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکہ