بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ، نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْم
مجاہد ملت کا سیاسی تدبر
(ولادت ۸ ؍ محرم ۱۳۲۲ ھ بمقام دھام نگر، بالیسر اڑیسہ، وصال ۶؍ جمادَی الاولیٰ ۱۴۰۱ھ ۱۳؍ مارچ ۱۹۸۱ء، مزارمبارک، دھام نگر، اڑیسہ)
رئیس التارکین ،حضرت مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمن ہاشمی عباسی رضوی علیہ الرحمہ، (رئیس اعظم اڑیسہ )بیک وقت بہت سی خوبیوں کے مالک اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے، بے پناہ جذبۂ خدمت اسلام اور اس پر مر مٹنے کا دل رکھتے تھے۔
خداوند کریم نے اپنے فضل سے کئی ایسی صفتیں آپ کے اندر ودیعت کررکھی تھیں، جن کا اجتماع شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ وقت کے رئیس اعظم اور کثیر مال ودولت کے مالک تھے، تو دوسری طرف فقر واستغناء اور زہد وتقویٰ میں بے مثل زمانہ ۔ ایک طرف شریعتِ اسلامیہ کے پابند عالم اور مسلمانوں کے مرشدِ روحانی تھے۔ اور دوسری طرف حکومت وسیاست میں بھی ملک وقوم کے عظیم رہنما۔ ایک طرف وہ مدرسوں اور خانقاہوں کے پاکباز علماء ومشائخ کے قائد اعظم تھے، تو دوسری طرف جیلوں کی کوٹھریوں میں بند بھی نظر آتے تھے ، ایک طرف عاجزی وانکساری کا یہ عالم کہ بڑے بڑے علماء، واسلاف تو درکنار چھوٹوں تک کی دست بوسی کرلیا کرتے تھے، تو دوسری طرف جرأت واستقلال کا یہ عالم کہ کسی جابر وظالم حکومت کے سامنے بھی، کبھی سرخم نہیں کیا۔
غرض کہ خداوند ذوالجلال نے ،بے پناہ خوبیاں آپ کے اندر بیک وقت پیدا کردی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ پوری قوم کے لئے سرمایۂ افتخار تھے۔ بہت سے بزرگانِ دین اور علمائے اسلام کی سیرتوں کا آپ نے مطالعہ کیا ہوگا۔ لیکن لباسِ فقیری میں رہ کر سیاسی میدان میں بھی فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی ٰعنہ) کی یاد تازہ کرنے والے کم ہی افراد ملیں گے۔
آنے والی سطروں میں ان کے سیاسی تدبرہی پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
سیاست سے مراد یزید کی سیاست نہیں، چنگیز و ہلاکو، کی سیاست نہیں، ظالم حکمرانوں کی سیاست نہیں، آج کل کی سیاست نہیں،جوتحصیل زر اور محض حکمرانی کے لئے ہوا کرتی ہے۔ بلکہ وہ پاکباز اور سچی سیاست مراد ہے، جسے تاجدار عرب وعجم ﷺ کی عملی زندگی نے پیش فرمائی۔ وہ سیاست،جس کی فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی ٰعنہ) نے تدوین کی۔ وہ سیاست ، جس پر چل کرحضرت عمر بن عبدالعزیز (رضی اللہ تعالی ٰعنہ) خلیفۂ راشد کہلائے۔ وہ سیاست، جسے حضرت امام حسین(رضی اللہ تعالی ٰعنہ) نے اپنا کر، کربلا کی سر زمین پر افراد خاندان کے ساتھ اپنا لہو پیش کیا۔ وہ سیاست جس نے صلاح الدین ایوبی (علیہ الرحمہ)کو،ظالم عیسائیوں کے پنجوںسے، بیت المقدس فتح کرنے کو ابھارا تھا۔ وہ سیاست جس نے علامہ فضل حق خیرآبادی (علیہ الرحمہ)کو، انگریزوں کے خلاف عَلمِ جہاد بلند کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ وہ سیاست جس کی بنا پر مولانا عنایت احمد کاکوری (علیہ الرحمہ)نے ،انڈمان کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ وہ سیاست ،جو پوری دنیا کو امن کا پیغام دیتی ہے۔ وہ سیاست ،جسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی (علیہ الرحمہ)نے عشقِ نبی ﷺ کی روشنائی سے لکھ کر ہمارے سامنے پیش کی۔ وہ سچی سیاست، جس کی بنا پر دنیائے کفر وضلالت، ان کو دشنام طرازیوں سے یاد کیا کرتی ہے۔ وہ سیاست ،جو سارے انسانوں کو، حق کا علمبردار بنادینا چاہتی ہے۔ وہ سیاست جو روئے زمین پر بسنے والوں کو، ظلم وستم سے باز رکھ کر، ایمان داری کے ساتھ ،اتحاد و یکجہتی کا نمونہ پیش کرنے کا حکم دیتی ہے۔ مجاہدِ ملت (علیہ الرحمہ) بھی اسی طرح کی سیاست کے علمبردار تھے۔
اس لحاظ سے یقینا مجاہد ملت (علیہ الرحمہ) ایک بڑے سیاسی مدبر تھے۔ ان کی عمیق فکر ونظر، ماحول کے ہرگردوپیش پررہا کرتی تھی۔ وہ ہر جماعت، ہر تنظیم، اور ہر پارٹی کے دستورِ اساسی پر، نظر رکھتے تھے۔ شریعت وملت کے خلاف ،کسی بھی پارٹی یا تنظیم کی ایک بات بھی، تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ چاہے اس میں ان کا دنیوی کتنا بڑا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی، کبھی اپنی کوئی باطل بات، نہ منواسکی۔
آزادیٔ ہند کے بعد دستور ِہند مرتب کیا گیا۔اس میں اقلیتوں کے تمام حقوق مساوی قرار دئے گئے۔ ہر اہلِ مذہب کو،اپنے مذہب کی ترقی اور اس پر عمل کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا۔ یہاں تک کہ دستور ِہند کی رو سے ،ہندوستان کا وزیر ِاعظم یا صدر ہونے کے لئے بھی مذہب کی کوئی پابندی نہیں، کسی بھی مذہب کاہو، وزیرِ اعظمِ ہند یا صدر بن سکتا ہے۔ اگرچہ وہ اقلیت یا پسماندہ طبقہ سے کیوں نہ ہو۔لیکن جب نظر اٹھائی جاتی ہے، تو دستورِ ہند، بالائے طاق نظر آتا ہے۔لوگ اس پر عمل کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ گویا حکومت، ایک خاص فرقہ کی بن کر رہ گئی ہے۔اکثر ملازمتوں اور محکموں میں، مسلمانوں کو، نظر انداز کردیا جارہا ہے۔ اور فسادات کا ،ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ،شروع ہوگیا ہے۔ جس کے ذریعہ سے، مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ، توڑے جانے لگے۔ نہ ان کی عزت وآبرو محفوظ ہے، نہ جان ومال ، حتی کہ مذہب اور مذہبی شعائر پر بھی حملے شروع ہوگئے ہیں۔ قانون ِ اسلام (مسلم پرسنل لاء) میں تبدیلی کرنے کی جرأت کا مظاہرہ کیا جانے لگا ہے۔ تو کہیں امن وانصاف کا درس دینے والے، قرآن عظیم کے خلاف زہر افشانی کی جانے لگی ہے۔
چوربازاری، فسادات اور رشوتوں کا، ہر طرف راج ہے۔ اس ماحول میں، مجاہدِ ملت (علیہ الرحمہ) نے، ظلم و فسادات کے خلاف آواز اٹھائی۔ حکومت کو جھنجھوڑا۔ارکانِ دولت کو للکارا ،کہ دیکھو تمہاری کوتاہیوں نے ، نوجوانانِ ہند کی ہزاروں لاشوں کو، خاک و خون میں تڑپا دیا۔ فسادات نے، ہزاروں عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنادیا۔ ابھی تمہیں ہوش نہیں؟
اس کی پاداش میںوہ کئی بار جیل گئے۔ لیکن اُس مرد مجاہد نے ہمت نہ ہاری۔ اور جبل ِمستقیم کی طرح ،اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ آخرکار انسدادِ فسادات کی خود تدبیر کی۔ انصاف پسند اہل وطن کو پکارا، جرأت مند قوم کو آواز دی، دیکھتے دیکھتے ہزاروں پروانے ’’خاکسارانِ حق‘‘ کے نام سے ، تیار ہوگئے۔
فسادات کی روک تھام، مظلومین کی مدد کرنا، ان کو ظالموں کے پنجوں سے نجات دلانا، وطن میں عدل وانصاف قائم کرنا، وطن میں فساد کراکر اس کی طاقتوں کو کھوکھلا کرنے والے فاسد مادوں سے وطن کو بچانا ’’خاکسارانِ حق‘‘ کا مقصد زریں ہے۔
ان کا یہ اقدام صرف اسٹیج پر زبانی نہیں رہا۔ بلکہ بہت سے مورچوں پر ’’خاکسارانِ حق‘‘ نے اپنی جرأت و دانشمندی سے فسادات کی روک تھام میں ،بڑا اہم کردار ادا کیا۔ کتنی سلگتی ہوئی چنگاریوں کو بجھایا۔ جنگ کی آگ بھڑکانے والوں کا، سد باب کیا۔
مجاہدِ ملت (علیہ الرحمہ) کے بڑے بڑے کارنامے اپنی جگہ مسلم، صرف اسی ایک کارنامہ ہی پر غور کیا جائے تو اندازہ لگ جاتا ہے کہ مجاہد ملت (علیہ الرحمہ) کتنے دوراندیش اور مستقبل پر گہری نظر رکھنے والے تھے۔ ان کے اندر انجام کو بھانپ جانے کا ملکہ تھا۔
کاش! اگر قوم نے ان کا اس میں بھرپور تعاون کیا ہوتا۔ توآج ہندوستان کی تاریخ دوسری ہوتی۔ اہل ہند اپنی سر بلندی وانصاف پسندی پر فخر کرتے ۔
ذیل میں حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی تشکیل دی ہوئی تنظیم، تحریکِ خاکسارانِ حق کے اغراض و مقاصد پر، ایک اجمالی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ جس سے حضور مجاہدِ ملت (علیہ الرحمہ) کی بالغ نظری، دور اندیشی اور قوم وملت کے تحفظ کی فکر مندی کا ،اندازہ ہوتا ہے۔
خاکسارانِ حق کے اغراض ومقاصد
(۱)تمام انسانی ضرورتوں کو حتی الوسع پورا کرنا، او رسیاسی، معاشرتی، تعلیمی، اخلاقی اور اقتصادی امور کی ٹھوس خدمت اور حفاظت کرنا۔
(۲) حقیقی جمہوریت کو، عملی شکل دینے کے لئے جد و جہد کرنا۔
(۳) پسماندہ اقوام کو، ان کے حقوق دلانے کے لئے، جد وجہد کرنا۔
(۴) انسانی بنیادوں پر، مساوات قائم کرکے، تعصب و نفرت ختم کرنا۔
(۵) عالمی امن اور انسانی تحفظ کی خاطر، جدوجہد کرنا۔
(۶) شرع مطہر کی روشنی میں، ملک کے آئینی اور حکومت کے تعمیری کاموں میں تعاون کرنا۔
(۷) ملک کے جوان طبقہ کے اخلاق وکردار کو بلند کرکے، ان کی جسمانی طاقت کو مستحکم کرنے ،نیز اطاعت گزارنظم پیدا کرنے کے لئے ،ایک صف میں کھڑا کرکے جسمانی ورزش پر آمادہ کرنا۔
(۸) برائیوں کو روکنا، بھلائیوں کو پھیلانا، مظلومین کی مدد کرنا، عبادت گاہوں اور مقابر کی حفاظت کے لئے، عملی جد و جہد کرنا۔
(۹) تحریک کے غیر مسلم سپاہیوں کو، اسلامی عبادات کے لئے مجبور نہ کیا جائے گا۔ بلکہ ان کو جُوا، شراب، بدکاری، بے حیائی، خود ترک کرنے اور دوسروں کو ترک کرانے کی ترغیب دینا۔ اطاعت ِامیر بہر حال لازمی ہوگی۔
(۱۰) بلا معاوضہ خدمت خلق کرنا۔
چنانچہ تحریک اپنے اغراض و مقاصد کے پیشِ نظر، شاخ در شاخ پھیلتی جار ہی ہے۔ اور حضور مجاہد ملت کے وصال کے بعد، بھی اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔
خاکساران حق کے علاوہ ان کی یادگاریں
آ پ اداروں کے منتظمین سے فرماتے آج زمین خرید لو ایک دن آئے گا پیسے ہوں گے زمین نہیں ملے گی ،چنانچہ انھوں نے خوب ادارے بنوائے، اور متعدد اداروںکے لئے بیش قیمت زمینیں خرید وائیں۔
چند اداروں کے نام
[۱] جامعہ حبیبیہ ، اتر سوئیا، الہ آباد
[۲] مسجد اعظم ، اتر سوئیا، الہ آباد
[۳] مکتبہ حبیبیہ الہ آباد
[۴]حبیب المطابع پریس
[۵]مدرسہ عربیہ غوث اعظم ، پانچپاڑہ، کلکتہ
[۶] اسلامی مرکز ، رانچی
[۷] مدرسہ قادریہ حبیبیہ بھدرک ، اڑیسہ
[۸] مدرسہ قاسمیہ ، دھام نگر ، اڑیسہ
[۹] مدرسہ حبیبیہ ، اڑیسہ
[۱۰] مدرسہ حنفیہ، غوثیہ بنارس
احمد القادری مصباحی