بسم ﷲالرحمٰن الرحیم
مفکراسلام خطیب مشرق ومغرب
حضرت علامہ قمرالزماں صاحب اعظمی
سیکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن، انگلینڈ
از: احمدالقادری،امریکا
موجودہ علماےکرام ومشائخ عظام میں جن شخصیات سے میں زیادہ متاثر ہوں ان میں ایک اہم شخصیت ہمارے اعظمی صاحب قبلہ کی ہے۔ جب سے میں نےہوش کی آنکھیں کھولیں تب سے حضرت کو جانتاہوں۔ آپ الجامعۃ الاشرفیہ کے مایۂ ناز سپوت،حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کے بڑے چہیتے اورلاڈلے شاگرد، مشرقی یوپی کی قابل فخرہستی، اہل سنت کے محبوب خطیب،اسلام کے عظیم مفکر، ملت کے نبض شناس، قوم کے رہبر، مسلمانوں کے قائد اور عظیم قومی رہنما ہیں، جن پراہل وطن ہی کو نہیں بلکہ وطن کی دھرتی کوبھی ناز ہے۔
اُس وقت جب آپ کی خطابت کا پورے ہند میں شہرہ تھا، چارسو آپ کی فصیح وبلیغ، جچی تُلی،،حقائق ومعلومات سے بھر پورتقریروں کاڈنکابج رہاتھا۔ آپ کے شباب کےساتھ تقاریر کابھی شباب تھا۔ پروگراموں کی کثرت کے باعث ایک ایک سال قبل منتظمین اجلاس وکانفرنس کو تاریخیں لینا پڑتی تھیں،اس وقت آپ نے ہندوستان چھوڑ کربرطانیہ کے کفر ستان میں قدم رکھا۔ وہاں نہ اپنی کوئی مسجد تھی، نہ مدرسہ، تنخواہوں کی کفیل نہ کوئی تنظیم تھی نہ ادارہ۔ دو سال تک(کم وبیش) اسلام وسنیت کی تبلیغ واشاعت بےتنخواہ انجام دیتے رہے۔ خود ہی جلسہ کرتے، خود ہی منتظمِ جلسہ ہوتے، خود ہی سامعین کودعوتِ وعظ دیتے، خود ہی تقریر کرتے۔
فخر ملت حضرت علامہ ارشد القادری صاحب قبلہ اس دور میں وہاں تھے، وہ ہرجگہ دوش بدوش ہوتے یاآپ اُن کےدوش بدوش ہوتے۔ بہر حال ہندوبیرونِ ہند،ایثار وقربانی، خلوص وللہیت عزم واستقلال، ہمت وشجاعت کے بے شمار ایسے انمٹ نقوش ہیں جنھیں اب تک نہ زیب قرطاس کیاجاسکا، نہ اُن سے قوم کے کان آشناہیں۔ ان کی زندگی کے روشن وتاب ناک، آفتاب کی طرح درخشندہ انوار وبرکات، فضاؤں میں بکھرے پڑے ہیں،کاش وہ سمٹ کر کاغذ پرنقش ہوجاتے۔ کمال تو یہ ہے کہ علم وفضل کی بلند چوٹی پر پہنچنے کےباوجود خاکساری اور تواضع کے عظیم پیکر ہیں، شفقت واخلاق کے کامل مجسمہ ہیں—
مجھے وہ واقعہ بھولتانہیں جب ہم مادر علمی الجامعۃ الاشرفیہ کی گود میں علائقِ دنیا سے بے فکر علم وفن کی تحصیل میں مشغول تھے۔اشرفیہ میں طلبہ کی اپنی ایک تنظیم ”انجمن اشرفی دارالمطالعہ“ کےنام سے معروف تھی اور ہے۔ طلبہ ہی اس کے کار کن ہوتے ہیں، اس کی اپنی ایک بڑی لائبریری ہے، اس کی طرف سے بھی اجلاس ہوتا رہتاہے، اس دَورمیں اس کی خدمات کی باگ ڈور میرے گلے میں ڈال دی گئی تھی۔ یہ ۱۹۸۲ء کی بات ہے۔ علامہ اعظمی صاحب برطانیہ سے وطن تشریف لائے تھے۔ طلبہ کی جانب سے ان کی تقریر کرانے کاپروگرام طے ہوا۔ تاریخ لینے کے لیے ہم تین طالب علم سائیکل سے آپ کے وطن مالوف خالص پور پہنچے۔یہ مبارک پور سے تقریباً ۱۵؍کلو میٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔ ٹھیک دوپہر میں دولت کدے پر حاضری ہوئی۔ کسی سے اندر خبر بھیجی کہ اشرفیہ سے تین طالب علم ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ ان کی باہر تشریف آوری سے قبل ہی ہمارے لیے چارپائی لگادی گئی اور آرام سے بٹھایاگیا۔ تھوڑی دیر میں حضرت اپنے ہاتھوں میں ٹھنڈا خوش گوار شربت لیے ہوئے تشریف لائے۔ ہرایک سے فرداً فرداً ملاقات کی، مصافحہ کیا، خیریت پوچھی۔ پھر اپنے ہاتھ سے شربت گلاس میں اُنڈیل اُنڈیل کر پلانے لگے، ہم شرم سے پانی پانی ہورہے تھے— ہرچند چاہا کہ حضرت تشریف رکھیں مگر ہمیں حکم دے کر بٹھادیا ”الامر فوق الادب“ انجان طالب علم کےساتھ یہ خاطر تواضع، ابھی نام بھی جن کانہ بتایاگیاتھا، ان کےساتھ یہ شفقت، بچوں کےساتھ جب اس قدر بلند اخلاق ہے توبزرگوں کےساتھ کیاہوگا، اس کااندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ پھر ہرایک کودوپہر کا کھانا کھلایا(یہ مشرقی یوپی کی اپنی تہذیب اورخصوصی طرزہے، مہمان کےآتے ہی ان کےکھانے پینے سے ضیافت ہوتی ہے ۔ اس میں تاخیر دروازے کی عزت وآبرو کے خلاف متصور ہوتی ہے) ہم نے تاریخ کے لیے درخواست پیش کی، قبول ہوئی، نماز ظہر کے بعد جلسے کاٹائم مقرر کیا، فرمایا میرے لیے کچھ انتظام نہ کریں گے۔ میں گھر سے کھانا کھاکر آؤں گا۔ آپ لوگ ہرگز ضیافت وطعام کا کوئی بندوبست نہ کریں گے، نہ اس کی زحمت اٹھائیں۔ ہم نے ہرچنداصرار کی جرأت کی مگراس پیکرِ خلوص کےسامنے کارگر نہ ہوئی۔ وقتِ مقررہ سے چند منٹ پہلے تشریف لائے، تقریر شروع ہوئی، سامعین، اشرفیہ کےہونہار طلبہ تھے، ہمارے اساتذہ بھی رونق اسٹیج تھے۔ یہ آپ کاخالص علمی خطاب تھا، نصاب تعلیم، کتب درسیہ، کتب مطالعہ،مقاصدِ حصول علم، وقت کی قدرو قیمت، طلبہ کا مقام، اشرفیہ کی طرف دنیا کی نگاہیں، دنیاکو باصلاحیت علما کی ضرورت، وغیرہ اہم گوشوں پر روشنی ڈالی، یہ ایک تاریخی خطاب تھا جوطلبہ اورعلما(فارغین) کےلیے رشدوہدایت کا روشن مینارتھے۔(کاش اس کی کیسٹ محفوظ ہوتی)
تقریر کےبعد حضرت محمدآباد گوہنہ کے لیے روانہ ہوئے۔ نذرانہ پیش کیاگیا، قبول نہیں ہوا۔ میں نے عرض کی حضور اسی کے لیے جمع ہواہے، اب کیاہوگا، برجستہ فرمایا: سب کوواپس کردو۔ ایسی بےلوث دینی خدمات فی زمانہ نادر ہے۔ پھر وہ رقم طلبہ کی اجازت سے انجمن اشرفی دارالمطالعہ میں شامل ہوئی۔
دوسراواقعہ:
میرابچپن تھا۔ ابھی شعور کی آنکھیں کھولی تھیں۔ اس وقت حضرت الجامعۃ الاسلامیہ ، روناہی ضلع فیض آباد میں شیخ الحدیث تھے۔ بھیرہ میں حضرت کاپروگرام تھا۔ بھیرہ سے دو آدمی محمدآباد،گوہنہ میں جاکر حضرت کاانتظار کررہے تھے۔محمدآباد میں حضرت اُترے، شام ہوچکی تھی۔ ان دونوں حضرات سے ملاقات نہ ہوسکی، نہ انھوں نے حضرت کو دیکھا،نہ آپ نے ان کوپہچانا، وہاں آپ اُترے اوربھیرہ کےلیے پیدل ہی چل پڑے۔ بھیرہ سے محمد آباد تقریباًدومیل ہے۔بعد مغرب یہ لمبی مسافت قدم قدم طے کرکے غریب خانے پرحاضر ہوئے، اس وقت برادرِ گرامی مولانامحمداحمدصاحب مصباحی آپ کے شدت سے منتظر بیٹھے تھے۔ باہم بےتکلف ملاقات ہوئی۔ ماتھے پہ کوئی شکن یابل نہیں، بے سواری اتنی لمبی مسافت طے کرنی پڑی، کچھ اس کاشکوہ نہیں، یہی وہ خلوص ہے جس کی بنیاد پر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ آپ پر بےپناہ کرم فرماتے تھے اوراپنے اس عظیم شاگرد پر نازاں تھے۔
میری دیرینہ خواہش تھی کہ حضرت کی کچھ خدماتِ عظیمہ لوگوں کےسامنے آئیں، تاکہ وہ ہم بے عملوں کے لیے نمونۂ عمل ،جامعہ اشرفیہ کے لیے قابلِ فخر اور عوام کےلیے سکون کا باعث ہوں اورقوم اپنے لائق وفائق علما کے کارناموں سے روشناس ہو۔
خوش قسمتی سے ۱۸؍محرم الحرام ۱۴۱۸ھ/ ۲۴؍مئی ۱۹۹۷ء کوحضرت چند روز کےلیے شکاگو تشریف لائے۔ شکاگو سنی مسلم سوسائٹی کےاجلاس کی تکمیل کے بعد میں نے انٹرویو کی گزارش کی۔ الحمدللہ ! عرض مقبول ہوئی۔ کل صبح ۱۱؍بجےحضرت نے اپناقیمتی وقت دینے کا وعدہ فرمایا۔
احمد القادری مصباحی
تعارف وانٹرویو
خطیب اعظم، مفکرِ اسلام حضرت علامہ قمرالزماں صاحب اعظمی
جنرل سیکریٹری ورلڈ اسلامک مشن، انگلینڈ
سوالات وترتیب: از احمدالقادری مصباحی
[اختصار کے پیش نظر سوالات کوصرف سرخیوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے]
نام: محمدقمرالزماں خان اعظمی
تاریخ ولادت:۲۳؍مارچ ۱۹۵۶ء
نسب:ابن عبدالحمید عرف ناتواںؔ خاں ابن عبدالصمد خاں ابن عبدالسبحان خاں۔
جائے ولادت: خالص پور،اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا
گھرکاماحول: مذہبی تھا۔ والدمحترم اوردادا سبھی لوگ پابندِ صلوٰۃ اورحتی الامکان منہیات سے پرہیز کرنے والے لوگ تھے۔ دادا اور پردادا دونوں اردو اور فارسی کے عالم تھے۔آپ کاپیشہ زراعت رہا۔
بچپن: ہمارے والد بزرگ وار نے اس بات کاخیال رکھا کہ حسب حدیث مبارکہ سات سال کی عمر میں اپنے ساتھ مسجد لےجاتے رہے۔ قرآن بہت خوب صورت آواز میں پڑھتے تھے۔ اس لیے دس سال کی عمر میں بہت سی سورتیں بغیر کسی کوشش کے یاد ہوگئیں۔ نماز فجر کے بعد تلاوت کی عادت ڈالی گئی۔ اور دوسرے بچوں کےساتھ کھیل کود سے روکنے کے لیے انھوں نے اپنا یہ معمول بنالیاتھاکہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
تعلیم: ۶؍سال کی عمر میں گاؤں کےمدرسے میں داخل ہوا۔۸؍سال کی عمر کے بعد مدرسہ انوارالعلوم جین پور(اعظم گڑھ) میں داخل ہوا۔پرائمری درجات اور ابتدائی عر بی اور فارسی کی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ شام کوہر روز دادا عبدالصمد خاں مرحوم آمد نامہ اورگلزارِ دبستان خود پڑھایاکرتے تھے۔اس طرح سے گھر اورمدرسہ کےماحول نے میرے علمی اور دینی مذاق کی تربیت میں بہت اہم رول ادا کیا۔ ۱۹۵۸ء میں مولوی کاامتحان، الٰہ آباد بورڈ سے پاس کیا اوراسی سال دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ ہوا۔ اس وقت قدوری کی جماعت سے ابتدائی تین سال تک اشرفیہ میں متوسطات تک، تعلیم مکمل کی۔
۱۹۶۱ء میں لکھنؤمیں داخلہ لیا وہاں سے عالمیت کی سند ۱۹۶۳ء میں حاصل کی۔ ۱۹۶۴ء کےابتدامیں تعطیلِ کلاں میں مکان واپس ہوا ،اورحافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم سے ۱۹۶۴ء میں چند مہینوں کے لیے مدرسہ عزیزالعلوم نان پارہ میں بحیثیت مدرس کام کرتارہا۔
پھر حضورحافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم پر ۱۹۶۶ء میں اشرفیہ میں صحیحین کاامتحان دینے کے بعد دستار فضیلت سے نوازا گیا۔
اساتذۂ کرام:
سرکار حافظ ملت علیہ الرحمہ
حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف صاحب قبلہ
حضرت بحرالعلوم مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ
حضرت علامہ ظفر ادیبی صاحب
حضرت مولانا قاری محمدیحییٰ صاحب
حضرت مولانا سید حامد اشرف صاحب
حضرت مولانا شمس الحق صاحب قبلہ
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کچھوچھوی
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ، حضرت مولانا حافظ عبدالرؤف صاحب قبلہ، حضرت مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ، خاص شفقت فرماتے۔
بیعت وارادت:
۱۹۶۳ء میں سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان، ڈاکٹر محمدمختار علوی (سگڑی) کی دعوت پر سگڑی تشریف لائے۔ وہیں میں اُن سے مرید ہوا۔ سرکار مفتی اعظم ہند سے عقیدت توہمیشہ سے رہی۔ زمانۂ طالب علمی میں کبھی مخالفین کے پروپیگنڈوں کی بناپراگر کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمہ کا خیال بہت تسکین دیتا۔ مسلک کے حوالے سے اگرکبھی مخالف علما سے گفتگوہوتی، تو حضرت کےتصور سے بہت مدد ملتی۔ بعض وقت تو یہ خیال ثباتِ قدم کے لیے کافی ہوتاکہ سرکار مفتی اعظم اِسی مسلک پرہیں۔
سرکار مفتی اعظم کی سب سے پہلے میں نے ۱۹۵۸ء میں انوار العلوم جین پور کےجلسے میں زیارت کی تھی اور عالَم یہ تھا کہ سرکار جب اسٹیج پر جلوہ گر ہوئے توان کا نورانی چہرہ اور علما کی ان سے بے پناہ عقیدت نے قلب پر خاص اثر مرتب کیا۔ ان کے قدموں میں حضرت علامہ خلیل احمد صاحب کچھوچھوی اور شاعر اسلام شفیق جون پوری پڑے رہتےتھے،اس وقت سے ارادہ تھاکہ میں حضرت ہی سے مرید ہوں گا۔
۱۹۷۷ء میں سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے ملنے کےلیے حاضر ہوا تھا تو حضرت نے بعض علماکی درخواست پر مجھے خلافت سے نوازا۔
تکمیل تعلیم کے بعد:
اوّلاً حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ نے روناہی، ضلع فیض آباد بھیجا۔ اس وقت وہاں کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۴ء تک وہاں رہے۔
تدریسی خدمات:
دس سال روناہی کی خدمات انجام دی۔
وعظ وتقریر کے ذریعہ اہم دینی خدمات:
۱۹۶۴ء سے۱۹۷۴ء تک ہندوستان کےتمام قابلِ ذکر قصبات،اضلاع اور صوبوں میں تقاریر کےلیے جاتارہا۔
اجتماعی طورپر منقد ہونے والی بڑی کانفرنسوں اورسیمنارس میں، کہیں صرف مقرر کی حیثیت سے اورکہیں مقرر ومنتظم کی حیثیت سے شریک ہوتارہا۔
ہندوستان کی اہم کانفرنسیں:
چندکانفرنسیں: (۱) جامعہ اشرفیہ کی تعلیمی کانفرنس(۲) سیوان کی مسلم پرسنل لا کانفرنس۔
اہم خطبات: (۱) اسلام اورعصرحاضر(۲) اسلام اور سائنس (۳) اسلام اور عورت(۴) اسلام کامعاشی نظام (۵) اسلام اورمستشرقینِ یورپ(۶) سیرت رسولِ اکرم ﷺ کے مختلف عناوین (۷) اسلام کا تعلیمی نظام (۸) قرآن عظیم اور اس کااعجاز (۹) علم اورمشاہدہ (۱۰) نماز (۱۱) روزہ (۱۲) حج (۱۳) زکوٰۃ (۱۴) اسلام کا دعوتی نظام (۱۵) فلسفۂ شہادت— ان میں سے اکثر کی کیسٹیں موجود ہیں۔
تنظیم وادارے – قیام وسرپرستی
(۱) الجامعۃ الاسلامیہ، روناہی ،فیض آباد (۲) بارہ بنکی، سلطان پور اورفیض آباد وغیرہ دیگراضلاع میں تنظیم ومدارس کاقیام۔
بیرون ہند کاسفر:
۱۹۷۴ء میں ورلڈ اسلامک مشن اوراسلامک مشنری کالج کےقیام کے بعد ورلڈ اسلامک مشن کے سیکریٹری کی حیثیت سے علامہ ارشد القادری صاحب کی دعوت پر انگلینڈ حاضر ہوا۔ وہاں اس وقت اہل سنت کی مدارس ومساجد کی تعداد بہت کم تھی۔ مشن کےقیام کےبعد برطانیہ اور ہالینڈ کے تمام شہروں میں جلسوں اور کانفرنسوں اورسیمنار کااہتمام کیاگیا۔ جس سےایک عام بیداری ہوئی اورمسلک کاتشخص نمایاںہوا۔ پھر برصغیر ہندوپاک سے علما کی ایک ٹیم وہاں پہنچی اور کام کی رفتار تیز تر ہوگئی۔اب بحمدہ تعالیٰ صرف برطانیہ میں کم وبیش چھ سو مساجدِاہل سنت ہیں، جن کے ساتھ ملحق مدارس ہیں۔ اسی طرح ہالینڈ کی بیش تر مساجدورلڈ اسلامک مشن کے زیر اہتمام تعمیر ہوئی ہیں۔
ڈین ہاگ، ہالینڈ کی مشہور درس گاہ جامعہ مدینۃ الاسلام بھی ورلڈ اسلامک مشن کی کاوشوں کانتیجہ ہے۔ اوران تمام کاموں میں قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی کی سرپرستی، معمار ملت حضرت علامہ ارشد القادری کی تنظیمی اورتعمیری فکر اور میری اپنی مساعی کادخل ہے۔
اس کے علاوہ ڈنمارک، ناروے بالخصوص ناروے کی سرزمین کی پہلی جامع مسجد بھی ورلڈ اسلامک مشن نے تعمیر کی ہے۔
فرانس،جرمنی وغیرہ میں مشن کام کررہاہے۔ ان کاموں کی نگرانی احقر کےسپرد ہے۔ افریقہ کے مختلف ممالک میں مشن کے وفود دَورہ کرتے رہتے ہیں اورکام کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
امریکہ میں مشن کی قیادت مختلف صوبوں میں مشن کی شاخوں کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ شاہد رضا نعیمی اور خادم کے دَوروں نے اہل سنت وجماعت میں ایک عام بیداری کی لہر دوڑادی ہے۔ اورامید ہے کہ اگلے دس سال میں امریکہ کے تمام کے تمام اسٹیٹ میں ان شاء اللہ مشن کے زیر اہتمام یامشن کےتعاون سے اہل سنت کے مراکز قائم ہوجائیں گے۔
فی الحال ہیوسٹن، ٹیکساس میں مولانا قمرالحسن اور مولانا مسعود رضا اور شکاگو میں احمد القادری [یہ ۱۹۹۷ کی بات ہے ، ۱۹۹۸ ء سے تا حال ۲۰۲۱ء ، سکونت،ٹیکساس میں ہے] نیویارک میں مولانا محمدحسین رضوی اور مولانا غلام زرقانی صاحب فلور یڈا میں پہنچ چکے ہیں، [یہ ۱۹۹۷ کی بات ہے اب وہ ہیوسٹن ،ٹیکساس میں ہیں] اور کام شروع ہوچکاہے۔
ہالینڈ میں مشن کے اداروں کےعلاوہ، حضرت علامہ بدرالقادری صاحب (جوبذات خود ایک تحریک ہیں) حضرت مولانا شفیق الرحمٰن صاحب، حضرت مولانا مفتی عبدالواجد صاحب،حضرت مولاناعبدالمنان صاحب، حضرت مولانا اسرارالحق صاحب اور بہت سے علما مصروفِ تبلیغ واشاعت ہیں۔
بیرون برطانیہ مساجد ومدارس کاقیام:
ورلڈاسلامک مشن کےتحت ہالینڈ میں (۱) جامع مسجد طیبہ،ایمسٹرڈم (۲) جامع مسجد گلزار مدینہ (۳) جامع مسجد اِن تھوفن، جامع مسجد زُوےلو— وغیرہ کی تعمیر ہوئی۔
اس کے علاوہ جامعہ مدینۃ الاسلام ،ہالینڈ اورصفہ اسکول کے نام سے فل ٹائم ہائی اسکول کاقیام، جہاں سرکاری مضامین کےساتھ ساتھ، عربی،اردو اوردینیات کو،لازمی مضمون کی حیثیت دی گئی ہے۔
بیرون ملک کے تبلیغی دوروں میں یورپ، امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا کے بہت سے ممالک اورصوبوں میں مستقل دورے ہوتے رہتے ہیں اورکوشش کی جاتی ہے کہ جہاں تبلیغی اجلاس منعقد ہوں وہاں کوئی مرکز بھی قائم ہو جائے۔ان شاء اللہ اس صدی کے خاتمے تک دنیاکے بیش تر ملکوں میں اہل سنت کے مراکز قائم ہوجائیں گے۔
قلمی واشاعتی خدمات:
ورلڈ اسلامک مشن کی طرف سے ۱۹۶۵ء میں ”الدعوۃ الاسلامیہ“ بریڈفورڈ سے ہماری ادارت میں جاری کیاگیا، جواب بھی انگلش اور عربی میں ورلڈ اسلامک مشن کراچی سے شائع ہورہاہے۔ اس کے علاوہ ۱۹۸۶ء میں ”حجاز انٹر نیشنل“ کے نام سے ماہانہ پرچے کااجرا ہوا۔ اس وقت بھی جرمنی سےصدائے حق، ساؤتھ افریقہ سے ”دی میسیج“ وغیرہ شائع ہورہے ہیں۔
سیاسیات:
سیاسیات کےتعلق سے ورلڈ اسلامک مشن کی یہ پالیسی ہے کہ پوری دنیا میں سیاسی پارٹیوں کےیاملکوں کےایسے فیصلے جواسلام اور روحِ اسلام سے متصادم ہوں، ان کے خلاف احتجاج کیاجائے اور مختلف اشاعتی ذرائع سے ان کی غیر اسلامی حیثیت کوواضح کیا جائے۔ حکومتوں پردباؤڈالاجائے کہ وہ اس طرح کے فیصلے مسلمانوں پرمسلط نہ کریں۔
اس وقت بھی سلمان رشدی کامسئلہ، مسلم پرسنل لا، مسلمان بچوں کی تعلیم ، ان کے لباس کامسئلہ، مسلمانوں کےعلاج، اوراس سے متعلق قوانین پراحتجاج، مختلف ملکوں میں حجاب کامسئلہ، ایسے سیاسی نمائندے جوکسی ایسی بات کے مؤید ہیں جوغیر اسلامی ہے، ان سے عدم تعاون، مختلف ملکوں میں مسلمانوں کا پریشر گروپ تیار کرنا، جوایسے نمائندوں کی حمایت کریں جومسلم کاز کے مؤیدہیں۔
مسلم ملکوں کی غیر اسلامی روش کے خلاف احتجاج کرنا۔ مثلاً مصر، الجزائر، ترکی وغیرہ میں فنڈامینٹل اِزم کے نام سے باکردار مسلمانوں کی کردارکشی، اسلامی تحریکوں پرپابندیوں کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنا اورمسلمانوں کے اندر اسلامی تشخص کوبیدار کرنا، اس سلسلے میں اخبارات اور میڈیاکے دوسرے ذرائع پرنظر رکھنا اوراسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کاجواب دینا۔ دنیا کےمختلف ملکوں میں اُٹھنے والی اسلامی تحریکوں کی حمایت، بوسنیا، چیچنیاوغیرہ کے مسلمانوں کی اخلاقی، مالی اورسیاسی مدد فراہم کرنا، قبلۂ اول کی بازیابی اورفلسطینی مسلمانوں کےحقوق کےسلسلے میں مسلسل جدوجہد۔
عالمی کانفرنسوں میں شرکت:
ورلڈ اسلامک مشن کےنمائندے کی حیثیت سے دنیا کےمختلف ملکوں میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرنے کاشرف حاصل ہوا۔
(۱)انقلاب ایران کے بعد ۱۹۸۳ء میں وہاں کی ہفت روزہ عالمی کانفرنس میں شرکت کی۔
ایشیااور یورپ کے ممالک کی نمائندگی کی۔بعض جلسوں کی صدارت بھی کی۔ ”اسلام ہی پوری دنیا کانجات دہندہ“ اس موضوع پر خطاب ہوا اور اسے وہاں کی میڈیا اورنشریاتی ذرائع نے پوری دنیا میں نشر کیا۔ بہت سے ریڈیائی اوراخبارات میں انٹرویونشرہوئے۔
ایران میں فقۂ جعفری کوغیر متبدل قانون کی حیثیت سے پیش کرنے اوردوسرے مسالک کومتبدل حیثیت دینے پراحتجاج بھی کیاگیا۔ ایران کےسنی مسلمانوں کےحقوق کےلیے آواز بھی اٹھائی گئی اوران کے تعلیمی اورمذہبی امور سے متعلق تجاویز پیش کی گئیں۔
(۲) ایران کے بعد ۸۳ء، ۸۵ء، ۸۷ء، ۸۹ء، میں عراق کی عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی اورایران ،عراق جنگ میں ورلڈاسلامک مشن کےموقف کی وضاحت کی۔
(۳) لیبیا کی متعدد کانفرنسوں میں مشن کےوفد کےساتھ شرکت کاموقع ملا اوراس طرح سے عالمِ اسلام کوقریب سے دیکھنے اور علماومفکرین سے ملنے اور مذاکرات کرنے کا موقع ملا اوریہ احساس بھی قوی تر ہواکہ سعودی عرب کی پون صدی پر پھیلی ہوئی بے پناہ کوششوں اور پیٹرول ڈالر کے ذریعے دینی شخصیات واداروں کوخریدنے کے باوجود عالمِ اسلام کی اکثریت آج بھی اہل سنت وجماعت ہے۔
اس کے علاوہ یورپ کےبہت سے ملکوں میں مثلاً ہالینڈ، بلجیم، فرانس، ڈنمارک، ناروے، جرمنی کی عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اوران تمام ملکوں میں ورلڈاسلامک مشن کےتحت کانفرنسوں کےانعقاد کاشرف بھی حاصل کیا۔ ان کانفرنسوں کے ذریعے یورپ میں اسلام کوبہتر طور پر سمجھانے کی کوشش کی گئی، اوران الزامات کے جوابات دیے گئے جوصدیوں سے مستشرقین یورپ، اسلام کے خلاف عائد کرتے رہے ہیں۔ ان کانفرنسوں اوراجتماعات میں سوال وجواب کے وقفے میں اسلام کے تعلق سے یورپین ذہن کوپڑھنے کا زیادہ موقع ملا۔
اسلامک مشنری کالج:
دنیابھر میں کانفرنسوں، جلسوں اورسیمنارس وغیرہ میں شرکت کے علاوہ برطانیہ میں مختلف اداروں کی تعمیر اوراس کے انتظام وانصرام کابار بھی میرے کاندھوں پر رہا۔ ورلڈ اسلامک مشن کی پہلی عمارت جوبریڈ فورڈ میں خریدی گئی تھی، اس میں بھی پانچ سال تک قیام رہا۔ اس کے قرض کی ادائیگی کےعلاوہ اسلامک مشنری کالج (جوعلامہ ارشدالقادری کاعظیم خواب تھا) کےمنصوبے کو بروئے کار لانے کے لیے جدوجہد اوروسائل کی فراہمی بھی احقر ہی کے ذمے رہی۔
بریڈفورڈسے مانچسٹرمنتقل ہونے کےبعد ہمیں از سرِ نو اپنے خوابوں کی تکمیل کےلیے ایک عظیم ادارے کی ضرورت تھی۔چناں چہ مانچسٹرجیسے بڑے شہر میں ایک بہت بڑا پلاٹ حاصل کیاگیا اوربحمدللہ اب وہاں دوملین پاؤنڈکےمنصوبے سے تین بڑے ہالوں اوردرجنوں کلاس روم اور آفس پرمشتمل ایک پرشکوہ اور فلک بوس عمارت تعمیر ہوچکی ہے۔ جس میں جامع مسجد شمالی مانچسٹرکے علاوہ:
(۲) کلیۃ الدراسۃ الاسلامیہ
(۳)ورلڈ اسلامک مشن
(۴) دارالافتاء
(۵)لائبریری—-وغیرہ کے دفاتر قائم ہیں۔
(۶)تعلیم— کلیۃ الدراسۃ الاسلامیہ میں کم وبیش پانچ سال سے پارٹ ٹائم کالجوں اور یونیورسٹیوں کےطلبہ عربی زبان، تفسیر،حدیث، فقہ، تاریخ اسلامی اورتقابلِ ادیان کے مضامین پڑھ رہے ہیں۔
مستقبل قریب میں اسلامک مشنری کالج کے مجوزہ نصاب کےمطابق علماے کرام کی تربیت کااہتمام ہوگا، جس میں عربی زبان کے علاوہ انگلش اور فرنچ کی تعلیم دی جائےگی، تاکہ فراغت کے بعد یورپ، افریقہ اورامریکا کے ملکوں میں تبلیغی خدمات انجام دینے کے قابل ہوسکیں۔
مخالفین اسلام کے اعتراضات اوران کے جوابات:
داخلی فتنوں کےعلاوہ ورلڈاسلامک مشن کوعیسائیت، نیچریت وغیرہ کے خلاف بھی کام کرناپڑا۔ خاص طور پر مستشرقین یورپ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا جواب دینے کے لیے سینکڑوں اجتماعات کیے گئے اوروہ اب بھی جاری ہیں۔
اسلام پران کے بنیادی اعتراضات:
اعتراض(۱) :اسلام تلوار کے زور پرپھیلا۔
جواب:حالاں کہ یہ قطعاً غلط ہے، اسلام تلوارنہیں ،بلکہ اپنی سچائی اور اخلاقی برتری سے پھیلاہے، جس کے بے شمار شواہد تاریخ کے صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔
اعتراض(۲) :سرورکائنات ﷺ پیغمبر نہیں بلکہ صرف ایک مصلح تھے۔
جواب:حالاں کہ ایک مصلح، معاشرے کی چند قدروں کی اصلاح کرتاہے، جبکہ معاشرے کے خلاف ایک مکمل نظامِ زندگی،ایک مکمل نظامِ عقائد، ایک مکمل نظامِ عبادت، ایک مکمل نظامِ معاش، ایک مکمل نظامِ معیشت، ایک مکمل نظامِ سیاست، ایک مکمل نظام ِمعاشرہ— صرف پیغمبر ہی لے کرجلوہ گرہوتاہے۔ پھر ایک مصلح ، قرآن جیسی عظیم کتاب لے کرنہیں آتا۔ اورنہ ہی وہ معجزات کی قوت سے آراستہ ہوتاہے۔
اعتراض (۳) : اسلام میں نجات کاکوئی تصور نہیں۔
جواب:حالاں کہ نجات کاکامل تصور صرف اسلام نے پیش کیاہے۔ ایک گنہ گار کو اسلام کسی انسان کےسامنے رُسوا کرنے کےبجائے، صرف خدا کی بارگاہ میں حاضری کا حکم دیتاہے، جہاں دنیامیں توبہ کےذریعے سے،اعمالِ حسنہ کےذریعے سے اورآخرت میں شفاعتِ رسول ﷺ اور اللہ( عزوجل) کے کرم کےذریعے سے مکمل نجات حاصل کرلیتاہے۔پھراسلام میں موروثی گناہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہرانسان، فطرتِ اسلام پربےگناہ پیدا ہوتاہے۔
اعتراض(۴):اسلام نے عورتوں کوغلام بنارکھاہے۔
جواب:حالاں کہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے، جس نے عورتوں کو مکمل آزادی عطا فرمائی۔ مَردوں کےبے جاتسلط سے آزاد کیا،انھیں حقوق عطافرمائے۔اور احترام نفس کے حوالے سے انھیں برابر کامقام عطا فرمایا۔اور مرد کوجملہ ضروریات کاکفیل بناکر عورت کےلیے ایک باعزت اورباوقار زندگی کانصب العین عطا فرمایا۔
اعتراض(۵):اسلام میں غلامی کوجائز قراردیاگیا ہے۔
جواب:حالاں کہ اسلام اُس دَور میں جلوہ گر ہوا،جب کہ پوری دنیامیں غلامی کا رواج تھا۔ عیسائیت، یہودیت، زرتشتیت– ہرمذہب میں غلاموں کی خرید وفروخت جاری وساری تھی۔ اسلام نے غلاموں کوآزاد کرنے کے ہزاروں طریقے وضع فرمائے۔ غلاموں کی آزادی،گناہوں کاکفارہ قرار دی گئی، اعمالِ حسنہ کابدل قرار دی گئی۔غلاموں کےساتھ حسنِ سلوک کولازمی قرار دیاگیا، اسلام کادور، دراصل غلاموں کی فرماں روائی کازمانہ ثابت ہوا۔
اعتراض(۶): اسلام نے غیر مسلموں کوذمی قراردے کر ان پرغلامی کاٹیکس نافذ کیا۔
جواب:حالاں کہ اسلام نے غیرمسلم اقلیتوں کومکمل تحفظ فراہم کیا۔ ان کی حفاظت کومسلم حکومت کی ذمے داری قرار دیا، ان کی عزت وآبرو، جان ومال کومسلم کے برابر قرار دیا۔ دشمنوں سے تحفظ کےلیے مسلمانوں پرجہاد فرض کیا اورانھیں جہاد سے مستثنیٰ کردیا۔ زکوٰۃ مسلمانوں پر فرض کی گئی اور وہ زکوٰۃسے بھی مستثنیٰ رہے۔اس کےبدلے میں زکوۃ سے بھی کم رقم بطورحق الخدمت وصول کی گئی، جس کو جزیہ کہتے ہیں۔ جہاد میں مسلمان جان دیتاہے،زکوٰۃ ادا کرتاہے، اس کی جگہ پرتھوڑا سا جزیہ غلامی کاٹیکس نہیں بلکہ اسلامی حکومت کاتعاون اوران کے خود اپنے تحفظ کابدل ہے۔
اعتراض(۷): اسلام کانظامِ عبادات مسلمانوں کو دنیاکی تمام تگ ودَو سے روکتاہے۔
جواب:حالانکہ اسلام کےنظام عبادت میں، کسبِ معاش بھی عبادت کاایک حصہ ہےروزانہ چند لمحوں کی عبادت مزید جذبۂ عمل پیدا کرتی ہے، جمعہ سب سے بہتر دن ہے،یہودی ۲۴؍گھنٹے،ہفتہ (سَبْت)میں کام نہیں کرتے ،عیسائی اتوار کوپورےدن بیکار رہتے ہیں ،مگر اسلام میں،جمعہ کی اذان سے پہلے کام کی اجازت ہے اور نماز کے بعد بھی، فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ۔ اسلام نے حصول رزق کوفضل الٰہی قرار دیاہے۔اسلام کی جلوہ گری کے بعد کم وبیش ایک ہزار سال تک مسلمان معاشی اعتبار سے دنیا کی سب سے عظیم قوم تھی، مگر جب عبادت ترک کی، تو معاش کے دروازے بھی بند ہوگئے،اسلام کا نظام عبادت معاشی زندگی کامعاون ہے۔ (فجر سے ظہر تک بندہ کام کرتا ہے چند منٹ وضو اور نماز میں لگتے ہیں، اس سے بندہ پھر تازہ دم ہوجاتاہے، پھر کئی گھنٹے کام کرنے کے بعد ، چند منٹ کے لئے عصر کی بریک لیتا ہے، اور نماز سے ایک نیانشاط اور سکون حاصل ہو جاتا ہے۔ اسلام نے عبادت ونماز کے اوقات بہت ہی مختصر رکھے ہیں ، ایک نماز میں بس ۵ سے۱۰ منٹ لگتے ہیں، ۸ گھنٹے کام کے دوران ، اتنا وقفہ تو مزاج و روح میں تازگی و بالیدگی پیدا کرتا ہے، بندے کا موڈ فریش ہوجاتا ہے ، اور یہ کام میں معاون ہوتا ہے، نہ کہ کام سے روکتا ہے)
اسلام نے تو محنت پر زور دیاہے اوربہت واضح طور پر ارشاد فرمایاہے: وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (النجم:۵۳،آیت:۳۹،پارہ:۲۷) انسان کووہی ملے گا جووہ کوشش کرے گا۔ اسلام جہد مسلسل کا مذہب ہے ،سعی پیہم کامذہب ہے ،مگر اب ہمارے اندر نہ جہد مسلسل ہے، نہ سعی پیہم ، ورنہ واللہ العظیم ، اللہ تبارک وتعالیٰ نےجتنے انسان پیدا کیے ہیں ، اتنی ہی خوراک بھی عطافرمائی ہے خود فرماتاہے وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا (ہود:۱۱، آیت:۶، پارہ:۱۲)اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللّٰہ کے ذمّہ کرم پر نہ ہو۔
اعتراض(۸):اسلام میں عورتوں کومَردوں کے برابر حیثیت نہیں دی گئی اورانھیں دوسرے درجے کاشہری تسلیم کیاگیاہے۔
جواب:حالاں کہ اسلام میں عورتوں کو حقوق کےسلسلے میں مردوں کےبرابر حیثیت دی گئی ہے۔قرآن کریم کافرمان ہے:ولھنَّ مثل الَّذِی علیھنَّ۔
اعتراض(۹): پردہ کاسسٹم، غلامی کی علامت ہے۔
جواب:اسلام میں پردہ کاسسٹم عورت کی عصمت، غیرت اوروقارکے تحفظ کےلیے ہے جبکہ مغرب میں پردہ نہ ہونے کے سبب سے عورت بہت زیادہ غیر محفوظ اور انسانی درنگی کانشانہ بنی ہوئی ہے۔
اعتراض(۱۰): طلاق کےحقوق صرف مرد کودے کرعورت کوبے بس کردیاگیاہے۔
جواب:حالاں کہ مردکونان ونفقہ اورتمام واجباتِ زندگی کاذمے دار قرار دیاگیاہے۔ اس لیے طلاق کابھی حق اسی کو دیاگیاہے۔ جبکہ عورت کواس بات کی اجازت ہے کہ وہ مردکےظلم اورزیادتی کے خلاف اسلامی عدالت میں طلاق کے لیے رجوع کرسکتی ہے۔
اعتراض(۱۱): دیت، شہادت اور وراثت کونصف قراردے کرعورت کونصف انسان قرار دیاگیاہے۔
جواب:دیت اور وراثت وغیرہ میں نصف قراردینے کی وجہ یہ ہے کہ عورت کی ذمے داریاں مرد کے مقابلے میں نصف بھی نہیں ہیں۔ ایک مرد کی موت پر پورا خاندان متاثر ہوتاہے۔ اس لیے کہ کفالت کی ذمےداری مرد کی ہے، اس لیے اس کی دیت
بھی دُہری دلائی جاتی ہے۔ مرد ایک عورت کواپنے گھر لاتاہے اورعورت کسی مرد کے گھر جاتی ہے۔ مرد کو دوہری وراثت اس لیے دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی اوراپنی بیوی بچوں کی کفالت کرسکے۔ جب کہ عورت باپ کے گھرسے نصف لے کر،شوہر کے گھر میں شوہر کی ذمہ داری بن کر جاتی ہے اوراس کے نان ونفقہ کاذمہ دار شوہر ہوتاہے۔
اعتراض (۱۲) : اسلام نے عورت کوتعلیم سے روک کرانھیں پتھروں کےدَور میں رہنے پر مجبور کردیاہے۔
جواب:حالاں کہ اسلام نے عورت کوتعلیم سے نہیں روکا بلکہ مخلوط تعلیم سے روکاہے۔ اس لیے کہ مخلوط تعلیم، انھیں ایک ایسے دور میں لے جاتی ہے جوپتھروں کےدَور سے بھی بھیانک اورلرزہ خیز ہے۔
اعتراض (۱۳): قرآن عظیم محمد(ﷺ) کی اپنی تصنیف ہے۔
جواب:قرآن عظیم اگر پیغمبر اسلام کی تصنیف ہے توآج تک پوری دنیاسے اس چیلنج کاجواب کیوں نہیں بن سکا، جوآج سے چودہ سوسال پیش تر قرآن دےچکاہے۔
اعتراض (۱۴):حضور ﷺ کی مکی زندگی پیغمبرانہ تھی، اس کے بالکل برعکس مدینے میں پیغمبراسلام نے زندگی کی آسائشوںسے محروم کچھ لوگوں کو جمع کرکے ایک جماعت تیار کی اورانھیں آسائشوں کے حصول کےلیے دوسری قوموں سے جنگ کی۔
جواب:حالاں کہ پیغمبر ہمیشہ پیغمبرہوتاہے۔ پیغمبر اسلام مکہ میں پیغمبراور مدینہ میں بھی پیغمبر ہی تھے۔اور جہاد، نبوت کے منافی نہیں۔ کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاےبنی اسرائیل (علیہم السلام)کاجہاد خود توریت وانجیل سے ثابت ہے۔ اگر پیغمبر اسلام ﷺ اوران کے صحابہ نے دنیاوی آسائشوں کےلیے جہاد کیاہوتا تو قیصروکسریٰ کے فاتحین کےپاس اگر قیصروکسریٰ جیسے محلات نہیں تو کم ازکم ان کے اپنے اچھے مکان توہوتے۔
یہ اوراسی طرح کے بہت سے اعتراضات جوعیسائی اور یہودی کرتے ہیں ان کے جوابات مذاکروں کی شکل میں دئے جارہے ہیں۔
مانچسٹر اور لیسٹرکے اسلامی مراکز میں اکثر یونی ورسٹیوں اورکالجوں کے طلبہ، چرچوں (کلیساؤں) کےرہنما،عیسائت کے مبلغین، مشرقیات کے محققین اور مذاہب پرریسرچ کرنے والے حاضر ہوتے ہیں اور اکثراپنے سوالات کے معقول جواب پاکر مطمئن واپس جاتے ہیں۔
مناظرہ:مخالفینِ اسلام کے مقابلے اوران کادفاع:
اہل سنت وجماعت کوداخلی محاذپر وہابیت، مرزائیت وغیرہ سے مسلسل تصادم اور مقابلے سے دوچار ہوناپڑتاہے۔
ہندوستان میں بھی ایسے بہت سے مواقع آئے جب دیابنہ کے مختلف گروپ سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ جامعہ اسلامیہ روناہی کے قیام کے بعد جگن پوراور فیض آباد میں مناظرے کے نام پر مخالفین جمع ہوئے۔ لیکن تمہیدی خطاب کےبعد ہی انھوں نے مناظرہ سے انکار کردیا۔
ببھنان(ضلع بستی) کےمناظرہ میں ایک منتظم کی حیثیت سے شریک ہوا۔یہ مناظرہ ایک ہفتہ تک چلتارہا۔ اخیرمیں دیابنہ نےپولیس سے درخواست کرکے مناظرے کودوماہ کے لیے ملتوی کرادیا۔ لیکن دوماہ کےبعد، دوبارہ وہاں نہیں آئے اورعلمائے اہل سنت نے جشن فتح منایا۔
اس مناظرہ میں حضور مجاہد ملت، علامہ مشتاق احمد نظامی، حضرت علامہ مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ،مولانامشاہدرضاصاحب، براؤں شریف کے تمام علما شریک تھے۔ دیوبندیوں کی طرف سے ارشاد کےعلاوہ دیوبند کے دودرجن سے زیادہ علما موجود تھے۔
بدمذہبوں کی مخالفت اوراس کے نتائج واثرات:
برطانیہ میں ابتداءً سعودی لابی نے ورلڈ اسلامک مشن کےقیام کی شدید مخالفت کی اور خالد محمود (دیوبندی) نے”احمدرضاخاں کاتعارف“ کے عنوان سے برطانیہ کے مرکزی شہروں میں جلسے کیے اوراس بات کی کوشش کی کہ علماے اہل سنت کے قدم جمنے سے پہلے ہی برطانیہ کی سرزمین ان کے لیے تنگ کردی جائے۔ اس کے جواب میں علامہ ارشد القادری کی سرپرستی میں تمام شہروں میں جلسے کیے گئے۔ ان کے عقائد پرمشتمل پوسٹرس نکالے گئے، مناظرے کا چیلنج کیاگیا۔ لیکن مخالف قوتیں جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں اوران تمام مساجد سےان کاخراج عمل میں لایاگیا جہاں وہ سنی بن کر اہل سنت کو مبتلا ے فریب کیے ہوئے تھے۔
مانچسٹر،روچڈیل، لیسٹر، بریڈفورڈ وغیرہ میں اہل سنت منظم ہوئے اوران کی مساجد کاقیام عمل میں لایاگیا۔ انھوں نے امام احمدرضا پرالزام تراشی کی تھی مگروہ خود بے نقاب ہوگئے۔
(تجلیاتِ قمر صفحہ ۱۰ تا ۲۶ ملخصاً و تصرفاً)
الاسلامی.نیٹ
www.alislami.net