مرشد حافظ ملت شیخ المشائخ حضرت شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہ‘
(ولادت ۲۲؍ ربیع الاخر۶۶ ۲اھ ؍ وصال ۱۱؍ رجب ۱۳۵۵ ھ)
احمد القادری بھیروی مصباحی

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ ( ۱۳۰۴ ھ۱۸۹۴ء ؍ ۱۹۷۶ ء ۱۳۹۶ ھ)شیخ المشائخ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ (۱۲۶۶ ھ ؍ ۱۳۵۵ ھ ) کے دور طالب علمی ہی سے معتقد تھے، اسی عقیدت نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے حافظ ملت کو حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہکے سلسلۂ بیعت وارادت میں داخل کردیا۔ اور دارالعلوم معینیہ عثمانیہ، اجمیر شریف کے زمانۂ طالب علمی میں حافظ ملت حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے دست مبارک پر سلسلۂ عالیہ قادریہ منوریہ میں بیعت ہوگئے۔ اس سلسلے میں حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہ سے حضور غوث اعظم علیہ الرحمہ تک صرف چار واسطے ہیں (تفصیلی ذکر اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں) قلت وسائط اور علو سند میں دنیا کا کوئی سلسلۂ قادری اس سلسلۃ الذہب کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ نے شوال ۱۳۵۲ھ میں دارالعلوم اشرفیہ کو بحیثیت صدرالمدرسین زینت بخشی، مبارکپور میں حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہ کا ورود مسعود قریباً ہر سال ہوا کرتا۔ حافظ ملت کے قیام مبارکپور کے دوران ایک بار حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہ کی آمد ہوئی تو انھوں نے حافظِ ملت کو خلافت دینا چاہی حافظ ملت کی منکسر ومتواضع طبیعت اور ’’خود راہیچ مداں‘‘ (اپنے کو کچھ مت سمجھو)والی عادت عرض کر اٹھی، حضور مجھ میں تو کچھ صلاحیت نہیں ہے خلافت کیسے لوں؟ جواباً حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہنے یہ امتیازی تمغہ عطا فرمایا ’’مرد حق را قابلیت شرط نیست‘‘ (مرد حق کے لئے قابلیت شرط نہیں)اور خلافت واجازت سے سرفراز فرمایا۔(بروایت استاذ محترم مولانا محمد احمد مصباحی بھیروی)
حافظ ملت ہر سال جامع مسجد راجہ مبارک شاہ مبارکپور میں اپنے پیرومرشد علیہ الرحمہ کا عرس منایا کرتے، قرآن خوانی ، ایصال ثواب، اجلاس اور تقسیم تبرک کا اہتمام ہوتا اور آج بھی اسی روایت کے مطابق ۱۱؍رجب المرجب کو دن کے نصف اول میں یہ عرس وہیں منعقد ہوتا ہے جس میں اہل مبارک پور اشرفیہ کے علماء و طلبہ شریک ہوتے ہیں۔
نام ونسب: نام نامی اسم گرامی ’’علی حسین‘‘ کنیت ’’ابو احمد‘‘لقبِ خاندانی، شاہ، پیر ، شیخ المشائخ، اور اعلیٰ حضرت ہے خطاب سجادہ نشین سرکارِ کلاں اور تخلص اشرفی ہے اور جناب ممدوح کا خاندان بھی اشرفی کہلاتا ہے۔
شیخ المشائخ علیہ الرحمہ ۲۲؍ ربیع الاخر۶۶ ۲اھ بروز دو شنبہ بوقت صبح صادق پیدا ہوئے۔
آپ کا نسب: چوبیسویں پشت میں جاکر حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل جاتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے
حضرت مولانا سید شاہ علی حسین
(۱)ابن حاجی سید شاہ سعادت علی (متوفیٰ ۲۲؍ ربیع الآخر ۱۳۱۳ھ)
(۲) ابن سید شاہ قلندر بخش
(۳)ابن سید شاہ تراب اشرف
(۴)ابن سید شاہ محمد نواز
(۵) ابن سید شاہ محمد غوث
(۶) ابن سید شاہ جمال الدین،
(۷)ابن سید شاہ عزیز الرحمن
(۸)ابن سید شاہ محمد عثمان
(۹) ابن سید شاہ ابوالفتح
(۱۰) ابن سید شاہ محمد
(۱۱) ابن سید شاہ محمد اشرف (متوفی ۹۱۰ھ)
(۱۲) ابن سید شاہ حسن (متوفیٰ۷۹۸ھ)
(۱۳)ابن سید شاہ عبدالرزاق نورالعین قدس سرہم (م ۸۷۲ھ مخدوم آفاق ، تاریخ وفات ہے) آپ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ کے بھانجے ہیں جن کی وفات ۸۰۸ھ میں ہوئی اور اشرف المومنین ، مادّۂ وفات ہے۔)
(۱۴)ابن سید عبدالغفور حسن
(۱۵) ابن سید ابوالعباس احمد
(۱۶) ابن سید بدرالدین حسن
(۱۷) ابن سید علاء الدین علی
(۱۸)ابن سید شمس الدین
(۱۹)ابن سید سیف الدین نجی
(۲۰) ابن سید ظہیرالدین احمد
(۲۱) ابن سید ابونصر محمد
(۲۲) ابن سید محمد الدین ابوصالح نصر
(۲۳) ابن قاضی القضاۃ سید تاج الدین خلف اکبر غوث الثقلین ،غیث الملوین
(۲۴) حضرت شیخ سید ابو محمد محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہم (م ۵۶۱ھ)
چونکہ شیخ المشائخ علیہ الرحمہ حضرت نورالعین قدس سرہ کے خلف اکبر سید شاہ حسن قدس سرہ کی اولاد سے ہیں اس لئے آپ کا خاندان سرکار کلاں یا بڑی سرکار سے بھی ملقب ہے۔
حضرت شیخ المشائخ علیہ الرحمہ کے والد ماجد حضرت سید شاہ سعادت علی علیہ الرحمہ بھی بہت قابل اور باکرامت بزرگ تھے۔ آپ سیدنا عبدالرزاق نورالعین علیہ الرحمہ کی اولاد سے ہیں۔
جائے پیدائش: ضلع فیض آباد ۔ یوپی (ہندوستان ) کا مشہور قصبہ کچھوچھہ شریف آپ کی جائے ولادت ہے۔ یہ وہ مقدس و پاک سر زمین ہے جسے آج سے صدیوں پیشتر حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جائے قیام بنایا، اور قیامت تک کے لئے اپنا مسکن متعین فرمایا۔ اور اسے تمام اوہام واصنام سے پاک کر کے اپنا فیضان جاری فرمایا۔ جو بعد وفات بھی پورے ملک پر ویسے ہی جاری وساری ہے بلکہ اس سے فزوں ترجو حیات میں تھا۔ اس آستانۂ پاک پر امراضِ روحانی کی طرح آفات جسمانی اور سحر وآسیب سے بھی لوگ شفا یاب ہوتے ہیں۔ یہیں ہر سال ماہ محرم کی اٹھائیسویں تاریخ کو حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ کا عرس مبارک بھی ہوتا ہے۔ جس میں ملک سے لاکھوں کی تعداد میں عوام وخواص ، اولیاء وصالحین، علماء ،طلبہ،امراء، وفقراء بھی شریک ہوتے اور فیض پاتے ہیں۔
(اگر چہ اس مبارک عرس میں بھی آج کل عوام کی طرف سےکچھ ایسی مذموم حرکتیں ہونے لگی ہیں جو خلافِ شرع اور سراسر ناجائز ہیں، مگر ان کی وجہ سے نفس عرس ناجائز نہیں ہوجائے گا، جیسے بعض شادی کی محفلوں میں بہت سے ناجائز امور کا ارتکاب ہوتاہے ، ان کی وجہ سے نفس نکاح ناجائز نہیں ہوجاتا )
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اکثر وبیشتر فرمایا کرتے تھے کہ:
’’جس وقت میں بارگاہ سمنانی میں حاضر ہوا(۱) اس وقت سے اتنا روحانی فیض پہونچا اور پہونچ رہا ہے جس کو بیا ن نہیں کرسکتا ۔
بچپن: حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ بچپن ہی سے نیک سیرت عمدہ خصلت کے حامل اور اپنے تمام ہم عصر بچوں میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔
علوم ظاہری کی تکمیل: جب آپ کا سن شریف چار برس چار ماہ چاردن کا ہوا تو معمول خاندان کے مطابق مولانا گل محمد صاحب خلیل آبادی نے جو بہت بڑے اہل دل عارف کامل اور خدا کے مقرب بندے تھے بسم اللہ کرائی۔ اس کے بعد مولانا امانت علی صاحب کچھوچھوی نے فارسی کی درسی کتابیں پڑھائیں۔ پھر مولوی سلامت علی صاحب گورکھپوری اور مولوی قادر بخش صاحب کچھوچھوی سے تعلیم پائی غرض کہ سولہ سال کی قلیل عمر میں تمام علوم ظاہری کی تکمیل فرمائی۔
بیعت وخلافت: ۱۲۸۲ھ میں اپنے برادر معظم حضرت مولانا شاہ ابو محمد اشرف حسین صاحب علیہ الرحمہ سے بیعت ہوکر خلافت واجازت حاصل کی
عقد مسنون: ۱۲۸۵ ھ میں حضرت سید شاہ حمایت اشرف بسکھاری کی دختر نیک اختر سے آپ کی شادی ہوئی۔
علوم باطنی کی تکمیل: بیعت وخلافت حاصل ہونے کے بعد ۱۲۹۰ھ میں آپ نے کامل ایک سال آستانۂ عالیہ اشرفیہ پر حسب ارشاد مشائخ کرام تارک الدنیا ہوکر چلہ کشی فرمائی، اور منازلِ عرفان اس طرح طے فرمائے کہ آپ کی ذات بابرکات سے آثار جہاں گیری نمودار ہونے لگے، محبوب یزدانی مخدوم سلطان سیداشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ العزیز کی دعا اور نظر کرم سے اس خاندان میں بڑے بڑے جلیل القدر بزرگ پیدا ہوئے۔ لیکن ایسا آفتابِ رشدوہدایت طلوع نہیں ہوا جس نے سلسلۂ اشرفیہ کا نام اتنا روشن کیا ہو۔ حضرت شیخ المشائخ کو بلا شبہ سلسلۂ عالیہ اشرفیہ کا مجدد اعظم کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان وہندوستان ہی نہیں بلکہ بلاد اسلامیہ (شام ، عراق، مصر، حلب وغیرہ) کے طویل سفر فرماکر سلسلۂ عالیہ اشرفیہ کی اشاعت فرمائی۔ بے شمار افراد سلسلۂ ارادت میں منسلک ہوئے بتایا جاتا ہے کہ آپ جادۂ شریعت پر بڑی سختی سے گامزن تھے۔ اربابِ حاجت کی حاجت رفع کرنا آپ کا جِبِلّیِ شعار تھا۔ کوئی سائل آپ کے در سے محروم نہیں گیا۔ آپ کا دسترخوان ہمیشہ وسیع رہا۔ آپ نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔
اہل کشف ومشاہدہ اور مشائخ کرام کا بیان ہے کہ آپ ہم شکل محبوب سبحانی تھے، برکات باطنیہ کے علاوہ جمال صورت سے بھی آراستہ تھے، جس کو دیکھ کر مخالفین بھی معتقد ہوجاتے تھے۔ اور ماننا پڑتا تھا کہ

یہی نقشہ ہے ،یہی رنگ ہے، ساماں ہے یہی
یہ جو صورت ہے تری ، صورت جاناں، ہے یہی

’’حضرت شیخ المشائخ‘‘ محدث بریلوی کی نظر میں
اس جگہ امام اہل سنت مجدد دین وملت امام احمد رضا محدث بریلوی ( ۱۲۷۲ ھ ؍ ۱۳۴۰ ھ) اور شیخ المشائخ علیہما الرحمہ کے مابین جو محبت وعقیدت تھی اس کا اظہار ضروری معلوم ہوتا ہے صاحبزادہ محدث اعظم ہند سید حسن مثنی انور صاحب ماہنامہ المیزان کچھوچھہ میں رقمطراز ہیں۔
شیخ المشائخ جب شہر بریلی میں رونق افروز ہوئے تو وہیں امام احمد رضا فاضل بریلوی سے ملاقات ہوئی اور پھر سلسلہ دراز ہوتا ہی گیا۔ دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے کو بہت قریب سے دیکھا اور مراتب علیا سے واقف ہوئے شیخ المشائخ امام موصوف کے تبحر علمی اور دینی فہم وبصیرت کے بہت معترف تھے۔ اسی طرح امام احمد رضا علیہ الرحمہ حضرت شیخ المشائخ کی مشیخت اور جمال ظاہری وباطنی نیز روحانی کمالات کے دلدادہ تھے۔ (المیزان)
ایک بار شیخ المشائخ ، حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی رضی اللہ عنہ کے مزار پاک سے فاتحہ پڑھ کر نکل رہے تھے اور فاضل بریلوی (رضی اللہ عنہ)بغرض فاتحہ جارہے تھے کہ فاضل بریلوی کی نظر شیخ المشائخ پر پڑی دیکھا تو بالکل ہم شکل محبوب الہی تھے۔ اسی وقت برجستہ یہ شعر کہا ؎

اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردۂ وپروردۂ سہ محبوباں

اس شعر میں سہ محبوباں سے مراد
(۱)حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء
(۲)حضرت محبوب یزدانی مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی
(۳)حضور غوث اعظم
محبوب سبحانی رضی اللہ عنہم ہیں۔
ایک زمانے میں اس شعر کی مقبولیت علم وادب کی دنیا میں اس قدر تھی کہ اکثر علماء وشعرا نے تضمینیں لکھی تھیں اور فکر وخیال کے مختلف النوع پہلو دکھائے تھے ان میں سے ایک تضمین جو اسی دور میں شائع ہوکر مقبول ہوچکی تھی حضور محدث اعظم ہندقدس سرہ (۱۳۱۱ھ ؍۱۳۸۳ھ) کی ہے اور دوسری تضمین جانشین حضور محدث اعظم ہند مولانا سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کے فکر سخن کا نتیجہ ہے ان شعری تحائف سے بطور نمونہ ہدیۂ ناظرین ہے۔
تضمین حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ
اے زہے مظہر اخلاق حبیب رحمٰں
اے گلے منظر نورستہ غوث جیلاں
اے خوشازیب وہ جادۂ شاہ سمناں
اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردۂ وپروردۂ سہ محبوباں
مورے داتا مورے مہراج گرو مور میاں
جگ کا دیکھا مدا کچھ اور ہے بتیاں تو نہاں
توری مہما کا بکھانت ہیں رضا شیخ جہاں
اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردۂ وپروردۂ سہ محبوباں
شہزادۂ حضور محدث اعظم ہند ، (شیخ الاسلام)حضرت مولانا سید محمد مدنی اختر اشرفی مصباحی کی تضمین کا آخری بند اور مقطع حاضر خدمت ہے۔
تیرا سر ناز کرے جس پہ کلاہ عرفاں
تیرا در، آکے جہاں خم ہو نعیمؔ ۲؎دوراں
تیرے بازو کہ زمانہ ہے رہین احساں
اشرفی اے ر خت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردۂ وپروردۂ سہ محبوباں
سجادہ نشینی: ۲۸؍ محرم الحرام ۱۲۹۷ھ کو زینتِ سجادہ مشیخت ہوئے اور خرقۂ خاندان جو حضرت مخدوم اشرف قدس سرہ کا عطیہ ہے زیب تن فرمایا۔
زیارت حرمین شریفین: آپ نے چار حج کئے پہلا حج ۱۲۹۳ھ میں ادا کیا، اس حج میں دربار رسالت مآب ﷺ سے بعض نعمتیں خاص طور پر حاصل ہوئیں۔ پھر تیس سال بعد دوسرا حج ۱۳۲۳ھ میں ادا فرمایا، اس میں بعض اذکار واشغال کی اجازت بھی مشائخ حرمین شریفین سے حاصل ہوئی۔ تیسرا حج مبارک چھ سال بعد ۱۳۲۹ ھ میں ادا کیا بعد زیارت مدینہ منورہ طائف شریف ، بیت المقدس ، ودیگر مقامات عالیہ شام، مصر ، عامہ شریف حمص شریف میں حاضر ہوکر وہ وہ نعمتیں حاصل کیں جن کی تفصیل کے لئے ایک لمبی کتاب در کار ہے۔ آخری حج وزیارت سے ۱۳۵۴ھ میں شرف یاب ہوئے۔ اس مرتبہ مذکورہ بالا دیار میں صدہا علماء ومشائخ داخل سلسلہ ہوئے اور اجازت وخلافت سے نوازے گئے۔
اوراد و وظائف: شیخ المشائخ علیہ الرحمہ نے باطنی علوم اپنے برادر بزرگ زائر الحرمین سید شاہ اشرف حسین علیہ الرحمہ سے حاصل فرمائے۔ (جن کو علاوہ خاندان اشرفیہ کے تمام مشائخ ہم عصر سے فیض صوری ومعنوی حاصل تھا) شغل وجودیہ اور بعض اذکار مخصوصہ کی تعلیم حضرت سید شاہ عمادالدین اشرف اشرفی عرف لکڑ شاہ کچھوچھوی قدس سرہ سے حاصل کی۔ حضرت لکڑ شاہ صاحب خاندان اشرفیہ میں مشاہیر مشائخ سے گذرے ہیں۔ اسی طرح دیگر اوراد و وظائف کی اجازت اکثر علماء ومشائخ ہند سے حاصل فرمائی۔ چنانچہ حضرت میاں راج شاہ صاحب (ساکن سوندھ شریف ضلع گڑگانواں پنجاب متوفی ۱۲؍ رمضان ۱۳۰۶ھ ) نے سلسلۂ قادریہ زاہدیہ کے ساتھ سلطان الاذکار ودیگر اشغال مخصوصہ کی اجازت دی اور ایک ’’دُوَنّی‘‘ عطا فرمائی۔
سلسلۃ الذہب: مولانا شاہ محمد امیر کابلی نے سلسلۂ قادریہ منوریہ کی اجازت سے نوازا، اس سلسلہ کو سلسلۃ الذہب کہتے ہیں جو عرفی طور سے چار واسطوں سے حضرت غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہونچتا ہے یعنی شیخ المشائخ کو حضرت شاہ محمد امیر کابلی سے ان کو حضرت ملا اخون رامپوری سے ان کو حضرت شاہ منورالہ آبادی سے جن کی عمر ساڑھے پانچ سو برس کی ہوئی ان کو حضرت شاہ دولا قدس سرہ سے ان کو حضور غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی سے (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)
اسی طرح سلسلۂ اویسیہ اشرفیہ کی تعلیم حضرت سید محمد حسن غازی پوری سے حاصل ہوئی ان کو شاہ باسط علی قادری سے ان کو شاہ عبدالعلیم بھیروی سے ان کو شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ (متولی آستانہ بھیرہ ضلع اعظم گڑھ مدفون لہرا، مبارکپور) علیہ الرحمہ سے ان کو حضرت مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ سے ان کو خود حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل ہے۔
خلافت سلسلۂ برکاتیہ: ان کےعلاوہ بہت سے اذکار واشغال کی اجازت حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ سے حاصل ہوئی، آپ نے پھر کسی کو خلافت و اجازت نہیں بخشی، آپ ان کے خاتم الخلفاء ہیں۔
علاوہ ازیں دیگر نعمات وبرکات مختلف واسطوں سے آپ کو حاصل ہوئیں ان کی تفصیل بہت طویل ہے مختصر یہ کہ آپ کی ذات جامع صفات وحسناتِ مشائخ کبار واکابر دیار وامصار کی نعمتوں اور سلاسل مختلفہ متعددہ کی برکتوں کا خزینہ ہے۔
ذَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ
تبلیغ اسلام: آپ نے تبلیغ اسلام کا بہت بڑا کام انجام دیا لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو صراط مستقیم پر گامزن فرمایا اور روحانی فیض پہونچایا۔ آپ کی تقریر نہایت مؤثر ہوتی تھی۔ مواعظ میں جس انداز سے آپ مثنوی پڑھتے وہ بے نظیر تھا۔ ساتھ ہی بہت سی مسجدوں ، اور مدرسوں کا سنگ بنیاد رکھا اور آخر دم تک اس کے تحفظ وبقا کے لئے کوشاں رہے۔ مثلاً مدرسہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد اعظم گڑھ، مدرسہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ، اسی طرح بہت سے مدارس قائم فرمائے۔یہی نہیں بلکہ ہندوستان کی مایۂ ناز درسگاہ دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور کا سنگ بنیاد انھیں کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا اور پوری عمر دارالعلوم کو اپنی روحانی عظمتوں سے فیض پہونچایا۔اس وقت سے لے کر آخر عمر تک آپ نے دارالعلوم اشرفیہ کی سر پرستی قبول فرمائی۔ اس ادارہ کی تمام خدمات آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہیں۔
نمونۂ کلام اشرفی: شیخ المشائخ کا دربار میکدۂ عرفان وآگہی بھی تھا جہاں بادہ گساران طریقت کا ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا۔ متقدمین صوفیہ کی روش پر فارسی، اردو، ہندی، میں فکر سخن بھی فرماتے تھے۔ آپ کے محبوب مرید اور مشہور مبلغ اسلام، میر غلام بھیک نیرنگ، وکیل انبالہ نے دیوان عرفان ترجمان کا مجموعہ بنام تحائف اشرفی ۱۳۳۳ھ میں مرتب کرکے شائع کیا۔ سبحان اللہ کیا کلام عرفان نظام ہے ایک ایک لفظ اثر میں ڈوبا ہوا، زبان شیریں،بیان رنگیں، مگربایں ہمہ تصنع سے مبرا، تکلف سے معرا ہے۔ عندلیبان گلشن قال کے زمزمے کچھ اور ہوتے ہیں بلبلان حال کے چہچہے کچھ اور ، وہاں زیادہ تر قوا ئے عقلیہ سے خطاب ہوتا ہے یہاں سراسر قلب وروح کی جانب توجہ، وہاں اصول بلاغت کی پابندی میںکوہ کندن وکاہ برآوردن ہوتا ہے یہاں باتباع سنت، وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ ، کوئی کہلاتا ہے، تو کہتے ہیں ورنہ خاموش رہتے ہیں نتیجہ یہ کہ۔؎
شعر می گویم بہ از آب حیات
من ندانم فا علاتن فاعلات
اب یہاں فارسی، اردو، اور ہندی اشعار کے ایک ایک نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔
کلام فارسی
عمر ہا جلوۂ او جست نگاہم پیدا
کرد آئینۂ دل ، صورت ماہم پیدا
کعبہ و دیر زآوار گیم تنگ آمد
نیست در عشق، مگر جائے پنا ہم پیدا
مگذار از رہِ الطاف کہ ایں شیوۂ تست
گرچہ صد فتنہ نمایند گنا ہم پیدا
حال بیتابی دل از من بیمار مپرس
کہ شرر ہا شود از سوزش آہم پیدا
فشم گریاں دل سوزاں رخ زرد وتن زار
در رہِ عشق تو گشتند گو اہم پیدا
اشرفی ذلت ورسوائی کوئے خوباں
کرد در ہر دو جہاں عزت وجا ہم پیدا
کلام اردو
چشم جاناں ہے شبیہِ چشم آہو، ہوٗ بہو
عنبریں ہیں کاکلیں شب رنگ کے موٗ موٗ بمو
مست ہوگا ایک عالم مثل آہوئے ختن
اے صبا مت کر پریشاں بوئے گیسو، مو بسوٗ
عشق سر وقد جاناں میں ہے عاشق کا یہ رنگ
کررہا ہے فاختہ کی مثل کوٗ کوٗ کوٗ بہ کوٗ
قتل کاگر ہے ارادہ دیر کیوں کرتے ہیں آپ
دیکھئے موجود ہے یہ تیغ ابروٗ رو بروٗ
اشرفی اللہ سمجھے ان بتوں کے ظلم سے
آنکھ دکھلانے ہی میں کرتے ہیں جادو دو بدوٗ
کلام ہندی
یہ کلام ہندی مکہ معظمہ میں ۱۲۹۴ھ سفراول میںکہا گیا تھا۔
درشن بنا من کیسے مانے داتا کے گھر جائے من کیسے مانے
نرگن جان پیاہیں چتوت جیا مورا جات لجائے۔ من کیسے مانے
گنونتی درشن مدھ ماتی دھن بوری پچھتائے۔ من کیسے مانے
سائیں مونہہ نراس جن پھیرو اپنے دوار بلائے من کیسے مانے
راہ تمہارا اشرفی جو ہت تمپر دھیان لگائے۔
وفات: ۱۱؍رجب ۱۳۵۵ ھ کو ہزاروں حاضرین آپ کے ساتھ ذکر جہر میں شریک تھے، کہ آپ نے کلمۂ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے نوے سال کی عمر میں جان ، جان آفریں کے حوالے کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مریدین وخلفاء وصال کے وقت آپ کے ۲۳لاکھ مریدین اور ساڑھے تیرہ سو خلفاء تھے۔
مزار مبارک کچھوچھہ شریف ضلع فیض آباد میں حضرت مخدوم علیہ الرحمہ کے روضۂ پاک کے قریب ایک چبوترے پر واقع ہے۔ جہاں اہل دل حاضر ہوکر فیوض وبرکات حاصل کرتے ہیں۔
اولاد وامجاد: اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں اپنے اولیاء کاملین کو ہر قسم کے علم وفضل سے نوازتا ہے، اسی کے ساتھ ان کی ہر طرح سے آزمائش وابتلا فرماتا ہے، کبھی افعال وکردار سے، کبھی مصیبتوں اور مشقتوں میں صبر سے کبھی ازواج و اولاد کی موت سے غرض کہ جس طرح خداوند کریم چاہتا ہے آزماتا ہے۔
اسی طرح شیخ المشائخ علیہ الرحمہ کو جہاں بہت سی مصیبتوں اور مشقتوں کو برداشت کرنا پڑا ساتھ ہی اپنی پہلی زوجہ محترمہ جو بہت نیک طینت اور پاکیزہ صفات کی حامل تھیں، اور اپنے جوان بیٹے کی موت بھی دیکھنی پڑی مگر آپ کے پائے استقلال ، اور صبر وشکر میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی۔
سید احمد اشرف علیہ الرحمہ:پہلی بیوی سے ایک فرزند تولدہوئے جن کا نام نامی سید احمد اشرف ہے۔ آپ کی ولادت طیبہ ۴؍شوال المکرم ۱۲۸۶ ھ بروز جمعہ ہوئی، مولانا ابوالمحمود سید شاہ احمد اشرف ، مادہ تاریخ ولادت ہے۔ آپ جہاں ظاہری شکل وصورت میں اپنے والد ماجد علیہ الرحمہ کی جیتی جاگتی تصویر تھے وہیںباطنی کمالات میں بھی انھیں کے جانشین تھے۔۱۳۴۳ ھ میں وصال فرمایا۔ موجودہ سجادہ نشین سرکار کلاں حضرت مولانا سید مختار اشرف صاحب قبلہ انھیں کے صاحب زادے ہیں۔ آپ کے دوسرے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ مصطفی اشرف علیہ الرحمہ ہیں۔ آپ ذیقعدہ ۱۳۱۱ ھ میںپیدا ہوئے اور ۱۷؍ربیع الاول ۱۳۹۱ھ میں رحلت فرماگئے حضرت کے دو مشہور صاحبزادے حضرت مولانا سید مجتبیٰ اشرف (۳؎)اور حضرت مولانا سید حامد اشرف صاحبان (۴؎) ہیں، یہ دونوں حضرات حضور حافظ ملت کے ممتاز شاگردوں میں ہیں۔ اول الذکر تبلیغ وارشاد میں ممتاز اور آخرالذکر بمبئی کی سر زمین پر دارالعلوم محمدیہ کے مؤسس ومحرک اور شیخ الحدیث ہیں۔
حضرت شیخ المشائخ اشرفی میاں علیہ الرحمہ کی شفقتیں جو حضور حافظ ملت پر تھیں اس کا واضح ثبوت آج بھی ان کے شہزادوں میں موجود ہے۔ حافظ ملت عمر بھر اپنے مرشد کامل کے وفادار رہے اور اس خانوادہ ٔمقدسہ کے ایک ایک بچہ سے اپنی گہری وابستگی اور دلی تعلق کا ثبوت موجود ہ دور میں علمائے کچھوچھہ شریف کی نوجوان نسل ہے۔
(بحوالہ صحائف اشرفی ، تحائف اشرفی وغیرہ)
حواشی
(۱ )اس حاضری کی تقریب یوں ہے کہ غالباً ۱۳۹۲ھ ؍۱۹۷۲ء میں قصبہ کچھوچھہ شریف کےکچھ لوگوں نےحافظ ملت علیہ الرحمہ کوایک اجلاس کی دعوت دی، حضرت نےدعوت منظور فرمائی اورکچھوچھہ شریف میں جلسہ کا اعلان ہوگیا، پھرکسی وجہ سے جلسہ منسوخ ہوگیا،منتظمین نےمبارک پور اجلاس کی منسوخی کا ٹیلی گرام کیا مگر حافظ ملت سفرپرتھے اورسفر سے واپسی میں براہ راست کچھوچھہ شریف پہنچ گئے۔مگر منتظمین جلسہ کچھ اونچے لوگوں کےدباؤمیں تھے، تیار نہ ہوئے، بسکھاری میں حضرت مولاناسید ظفرالدین اشرف صاحب،سجادہ نشین ومتولی آستانۂ مخدوم سمنانی کومعلوم ہواتو وہ حضرت کواپنے گھر لے گئے اوردوسرے دن کچھوچھہ شریف میں خاص آستانۂ مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ پر حافظِ ملت علیہ الرحمہ کی تقریر کرائی اور بعد تقریر ایک صالح مرد حضرت کےدست اقدس پربیعت ہوئے جوآستانہ پاک کی مسجد میں معتکف تھے۔ اس کےبعد حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ کافیض کچھ اس طرح جاری ہوا کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ جہاں پہنچتے بکثرت حضرات داخل سلسلہ ہونے کےلیےٹوٹ پڑتے اورآستانہ کے زینہ پر توبیک وقت سیکڑوں کی تعداد میں لوگ بیعت ہوئے باوجودیکہ لوگوں کواس کےلیے آمادہ بھی نہ کیاجاتا ،بلکہ حضرت تواس طرح کی اپیل کےسخت مخالف تھے، چنانچہ بہار کے کوٹام نامی ایک مقام پر بعض مخلصین نے اجلاس میں حافظ ملت سے مرید ہونے کی طرف لوگوں کومتوجہ کیا اس وقت حافظ ملت اپنی تقریر ختم کرکے قیام گاہ تشریف لے جارہے تھے یہ آواز سنی توراستہ سے واپس ہوئے اورمائک پرآکر بڑے جلال میں ارشاد فرمایاکہ میں کوئی پیشہ ور پیر نہیں، نہ ہی اپنی پیری مریدی کےلیےاس طرح کی اپیل پسند کرتاہوں، یہ میرا کوئی کاروبار نہیں، میرے لیےاس طرح کااعلان ہرگز نہیں ہونا چاہیے مگر فیضان مخدوم سمنانی کو کون روک سکتاہے اسی کوٹام نامی مقام پر قریباً ڈیڑھ سو افراد حافظ ملت علیہ الرحمہ کےدست پاک پر تائب ہوکر داخل سلسلہ ہوئے والحمدللہ رب العالمین۔
(بروایت حضرت مولانامحمداحمد صاحب مصباحی بھیروی)
[مطبوعہ،حافظ ملت نمبر ،ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور، رجب، شعبان، رمضان ۱۳۹۸ ھ جون جولائی اگست ۱۹۷۸ ء]
(۲) نعیم دوراں: صدر الافاضل، حضرت مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ (ولادت ۲۱ صفر ۱۳۰۰ھ ، یکم جنوری ۱۸۸۳ء پیر ؍ وفات: ۱۸ ذی الحجہ ۱۳۶۷ ھ ۲۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۸ ء جمعہ)
(۳) حضرت مولانا مجتبیٰ اشرف علیہ الرحمہ ( آپ کی ولادت ، ۲۶؍ ربیع الاخر ۱۳۴۶ھ مطابق ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو کچھوچھہ شریف میں ہوئی۔ اور ۲۱؍ ذی القعدہ ۱۴۱۸ھ مطابق ۲۰؍ مارچ ۱۹۹۸ء بروز جمعہ ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے)
(۴)حضرت مولانا حامد اشرف علیہ الرحمہ (ولادت ۱۳۴۹ھ ۱۱ جولائی ۱۹۳۰ ء ؍ متوفیٰ ۱۸ ؍ صفر ۱۴۲۵ ھ ۹ ؍اپریل ۲۰۰۴ ء بروز جمعہ)

احمد القادری
الاسلامی۔نیٹ
www.al islami.net (AL ISLAMI.NET)

مزید
مینو