بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور گیارہویں شریف
(ولادت: ۳۰؍شعبان ۴۷۰ھ، ۱۷ ؍مارچ ۱۰۷۸ء ، وصال: ۱۱؍ربیع الآخر۵۶۱ھ ، ۱۲؍ فروری ۱۱۶۶ء)
غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ ۳۰؍شعبان ۴۷۰ھ میں جیلان میں پیداہوئے۔پیدائشی ولی تھے، ان کے ماں باپ بھی ولی تھے اور نانا بھی ولیِّ کامل تھے۔
ابتدائی تعلیم جیلان میں حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کےلیے بغداد شریف کاسفر کیا اوربڑے جلیل القدر عالم دین بنے۔ علماےبغدادہی نہیں بلکہ بلادِ اسلامیہ کے علماسے سبقت لےگئے۔ آپ کوتمام علما پر فوقیت حاصل ہوگئی ، سب نے آپ کواپنا مرجع بنالیا۔
اللہ تعالیٰ نےآپ کی مقبولیتِ تامہ، عوام وخواص کے دلوں میں ڈال دی اورآپ کوولایت عظمی اور غوثیت کبریٰ کے درجہ پرفائز کیا۔آپ کی مجلس میں بے شمار لوگ سواروپیدل آتے اورمجلس میں جگہ نہ ملتی تواس کےارد گرد بیٹھ کر وعظ سنتے یہاں تک کہ سننے والوں کی تعداد ستر ہزار کے قریب پہنچ جاتی ۔ چار سو آدمی قلم دوات لے کرمجلسِ وعظ میں بیٹھتے اورجوکچھ سنتے اسے لکھتے رہتے۔ مجلسِ وعظ میں یہود ونصاریٰ آپ کے ہاتھ پراسلام لاتے ،ڈاکو، بدمذہب اور فساق وفجار اپنی بد اعمالیوں سے آپ کےسامنے توبہ کرتے۔ لاکھوں سے زیادہ لوگ آپ کےہاتھ پر تائب ہوئے۔
کرامات:
آپ دودھ پینے کے زمانے میں، جب رمضان آتا تودن میں ماں کا دودھ نہ پیتے، جیلان میں مشہور ہوگیا تھا کہ سادات کے فلاں گھرانے میں ایسا بچہ پیدا ہواہے، جورمضان میں دن کےوقت دودھ نہیں پیتا۔
جب آپ مکتب جاتے فرشتوں کی جماعت ساتھ ہوتی اورجب مکتب پہنچ جاتے توفرشتوں کو بچوں سے یہ کہتے ہوئے آپ خود سنتے اے بچو! اللہ کےولی کےلیے جگہ کشادہ کرو۔
کتنے مُردے آپ کی دعاسے زندہ ہوئے ،بیمار اورکوڑھی شفایاب ہوئے، حاجت مند وں کی حاجتیں پوری ہوئیں۔ دستِ مبارک تو بڑی بات ہے آپ کاقدمِ مبارک جس کی گردن پر پڑگیا وہ اللہ کا ولی بن گیا۔
ارشادات:
آپ نے ارشاد فرمایا: جوشخص خود کو میری طرف منسوب کرے اورمجھ سے عقیدت رکھے توحق تعالیٰ اسے قبول فرمائےگا، اس پر رحمت فرمائےگا،اسے توبہ کی توفیق بخشے گا، اور جنت میں داخل فرمائےگا۔
فرماتے ہیں: قیامت تک میں اپنے مریدوں کی دست گیری کرتارہوں گا۔ فرمایا جوکسی مصیبت میں میرے وسیلے سے امداد چاہے تواس کی مصیبت دور ہو، جوکسی سختی میں میرا نام لے کر پکارے اسے کشادگی ہو اور جومیرے وسیلہ سے اللہ کی بارگاہ میں اپنی مرادیں پیش کرے توپوری ہوں۔ (اخبار الاخیار،از: شیخ عبدالحق محدث دہلوی ملخصاً ص:۳۳ تا ۵۰)
آپ کا وصال ۱۱؍ربیع الآخر۵۶۱ھ بغداد شریف میں ہوا۔ وہیں آپ کامزارِ مبارک، مرجعِ خلائق ہے۔ ماہ ربیع الآخر میں ہرسال وہاں آپ کاعرس پاک بڑی ہی شان وشوکت سے منعقد ہوتاہے۔ انھیں کی یاد میں اس ماہ میں گیارہویں شریف کی جگہ جگہ محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ بعض بزرگان دین ہرماہ چاند کی گیارہویں تاریخ کوغوث پاک کی نیاز کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں چند ایسے علماے کرام کے اقوال تحریر کیے جاتے ہیں جوسبھی مکاتب فکر کے نزدیک مستند اورمسلمہ بزرگ تسلیم کیے جاتے ہیں:
(۱)شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ( ولادت: ۱۱۱۴ھ؍ ۱۷۰۳ء ۔ وصال: ۱۱۷۶ھ ؍ ۱۷۶۲ء) خود گیارہویں شریف کرنے کے قائل تھے اورملفوظاتِ مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ (ولادت:۱۱۱۱ھ شہادت :۱۱۹۵ھ؍۱۷۸۰ء ) میں ،گیارہویں شریف کی فضیلت پر تفصیل سے اُن کا قول نقل کیاگیا ہے۔ (ملفوظاتِ مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ ص ۷۷)
(۲)حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت: ۹۵۸ھ وصال:۱۰۵۲ھ) فرماتے ہیں:بےشک ہمارے شہروں میں سیدناغوث اعظم کی گیارہویں شریف مشہور ہے اور یہی تاریخ آپ کی اولاد ومشائخ میں معروف ہے (ماثبت بالسنۃ ،از:شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ)
(۳)شیخ امان اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ (۸۷۶ھ متوفی ۹۹۷ھ) جوبرصغیر کےزبردست ولی گزرے ہیں۔ان کےبارے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ خود غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عرس کرتے اوراس دن کھاناپکوا کر تقسیم کرتے۔ (اخبار الاخیار،از:شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ص:۴۹۸)
(۴)سیدشیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ(۹۰۰۲ھ م ۱۰۰۱ھ) صاحبِ کرامت بزرگ گزرے ہیں، آپ مکہ معظمہ میں مقیم تھے۔۴۴؍حج کیے،حضور خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین ﷺ کو(خواب یابیداری) میں سو مرتبہ سے زیادہ دیکھا، ایسے جلیل القدر بزرگ بھی غو ث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عرس کیاکاکرتے تھے۔ (ماثبت بالسنۃ،از: شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ)
چوں کہ گیارہویں شریف کی محفل منعقد کرنا نیک کام ہے، وعظ ونصیحت اورتبلیغِ اسلام کاایک بڑا ذریعہ ہے، اس لیے علماے کرام، سلف صالحین اوراولیاے کاملین اسے کرتے آئے۔جیسے سیرت النبی کےجلسے،دینی اجتماعات، اسلامک کنونشن، کانفرنسیں اورسمینار ہوتے ہیں جن سے عوام کوکچھ سیکھنے کاموقع ملتاہے، اسی طرح گیارہویں شریف کی محفلوں اورتقریروں سے اولیاےکرام کےحالات، ان کی عبادت وریاضت، تقویٰ اورپرہیز گاری کے واقعات سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے کاموقع ملتاہے، خیرات وصدقات اورایثار و قربانی کرنے کاجذبہ پیدا ہوتاہے۔
حدیث پاک میں ہے:
مَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةًحَسَنَۃٌ فَلَہٗ اَجْرُھَاوَاجرُ مَنْ عمِلَ بها من بَّعْدِهٖ مِنْ غَيْرِ أن يَنقُصَ من اُجُوْرِهِم شيءٌ۔
جواسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا تواُسے اُس کاثواب ملے گا اوراُن کاثواب بھی اُسے ملے گا جواس کے بعد اس نئے طریقہ پرعمل کریں گے اوراُن عمل کرنےوالوں کےثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہوگی۔(مسلم شریف)
احمدالقادری مصباحی
الاسلامی.نیٹ
www.al islami.net