بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ،
رویت ہلال
آج مؤرخہ ۲۶؍ذی الحجہ ۱۴۱۷ ھ، مطابق ۴؍اپریل ۱۹۹۷ ء بروز اتوار ،اردو ٹائمز کا ۲۳؍ذی الحجہ ۱۴۱۷ ھ یکم ؍مئی ۱۹۹۷ ء جمعرات کا شمارہ نظر سے گزرا۔اس میں اہل علم سے رویت ہلال کے مسئلے پر لکھنے کی اپیل کی گئی ہے۔یہ نہایت اچھا اقدام ہے۔مسلمان اپنے شرعی مسائل سے واقفیت رکھیں اور مذہبی مسائل خود اپنے مذہب وشرع کے مطابق حل کرنے کی کوشش کریں۔ادارہ اردو ٹائمز کی فرمائش پر ذیل کا مضمون زیب قرطاس کیا گیا ہے۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃَ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجْ
(سورہ بقرہ آیت ۱۸۹)
اے محبوب آپ سے نئے چاند کے بارے میں لوگ پوچھتے ہیں،آپ فرما دیجئے وہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ہیں۔
ہلال: لغت میں نئے چاند،اور اصطلاح میں پہلی رات کے چاند کو ہلال کہتے ہیں۔چودہویں رات کے چاند کو بدر اور ان کے علاوہ مطلقاً چاند کو قمر کہتے ہیں۔
نماز کے علاوہ اسلام کی دیگر عبادتیں چاند سے متعلق ہیں۔حج ،زکوٰۃ،روزئہ رمضان،عید الفطر،عید الاضحی،محرم،عید میلاد النبی ﷺ،سارے مبارک دن ،ساری مبارک راتیں،تمام اسلامی تہوار،عشر،صدقۂ فطر،بیوہ اور مطلقہ عورتوں کی عدت،بچوں کو دودھ پلانے کی مدت(ایام رضاعت) غرض کہ مسلمانوں کے بے شمار مسائل چاند سے وابستہ ہیں۔
چاند ایک آسمانی جنتری ہے۔اسے دیکھ کر ہر پڑھا ،لکھا اور اَن پڑھ تاریخ کا پتہ لگا سکتا ہے۔چاند کے پیدا کرنے والے رب نے خود چاند کو حج اور دیگر کاموں کی تاریخیں حاصل کرنے کی علامت قرار دیا۔ اس سے قمری مہینے اور اس کی تاریخ کی اہمیت و افضلیت واضح ہوجاتی ہے۔مندرجہ بالا بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ کثیر اسلامی امور کا دارومدار رویت ہلال پر ہے۔لہٰذا اب احادیث وفقہ کی روشنی میں اس کے ثبوت کے طریقے ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث ۱۔عن ابن عمر قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول اذا رأیتموہ فصوموا واذا ر أیتموہ فافطرو فان غم علیکم فا قدرو لہ (لھلال رمضان)
(بخاری شریف ،کتاب الصوم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا،جب تم رمضان کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا شروع کرو اور جب(شوال کاچاند) دیکھو،تو افطار کرو(یعنی عید الفطر کرو) اگر مطلع (غبار یا) ابر آلود ہو تو اس کا حساب لگالو، یعنی تیس دن مکمل کر لو۔
سر کار دوجہاں ﷺ کی اس حدیث پاک سے صاف واضح ہو گیا کہ چاند دیکھ کر رمضان کا روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ کر ہی عید منائی جائے۔کسی وجہ سے چاند نظر نہ آسکے، تو تیس دن کی گنتی پوری کر کے (یعنی تیس روزے مکمل کرکے) عید منائی جائے۔
حدیث ۲۔قول النبیﷺ اذا رأ یتم الھلال فصومو واذارأیتوہ فا فطرو وقال صلۃ عن عمار من صام یوم الشک فقد عصی ابا القاسمﷺ۔ (بخاری ،کتاب الصوم)
ارشاد نبی کریم ﷺ ہے۔چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔
حضرت صلہ،حضرت عمار سے روایت کرتے ہیں۔جس نے شک کے دن روزہ رکھا ،اس نے ابو القاسم(ﷺ) کی نافرمانی کی۔
اس حدیث پاک سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ چاند دیکھے یا اس کے ثبوت کے بغیر کسی نے روزہ جیسی اہم عبادت ادا کی، تو ناجائز کام کیا۔بلکہ اس کو شک ہو کہ شاید چاند ہو چکا ہو،بادل کی وجہ سے ہمیں نظر نہ آسکا، یا ہو سکتا ہے ان مقام پر چاند نظر آگیا ہو اور اس تک شہادت نہ پہونچ سکی۔لہٰذا اس شبہ کی بنیاد پر اِس نیت سے روزہ رکھ لیا ،کہ آج اگر رمضان ہو تو اس کی طرف سے یہ روزہ ہو جائے گا۔اس نے گناہ کیا اور نبی کریم ﷺ کی نا فرمانی کی۔
حدیث۳۔عن عبد اللہ بن عمر ان رسول اللہ ﷺ ذکر رمضان فقال لا تصومو احتیٰ تروالھلال ولا تفطروا حتیٰ تروہ فان غم علیکم فا قدرولہ۔(بخاری،کتاب الصوم)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر فرمایا تو کہا،جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو۔اور نہ ہی افطار (عید الفطر) کرو۔یہاں تک کہ چاند دیکھ لو ،اگر مطلع ابر آلود ہو تو حساب کر لو۔’’یعنی تیس دن پورے کرو‘‘۔
اس حدیث سے بھی چاند دیکھنے پر ہی رمضان و عید کا دارومدار رکھا گیا۔یہ ارشاد نہیں ہوا کہ اگر انتیس کا چاند نظر نہ آسکے تو اِدھراُ دھربھاگ دوڑ کر کے چاند کا پتہ لگائو ۔تمہارے شہر میں بادل ہے،شاید دوسرے شہر میں مطلع صاف ہو،وہاں کے لوگوں نے دیکھا ہو۔وہاں فوراً گھوڑے دوڑائو،اور کہیں نہ کہیں سے چاند ضرور تلاش کر کے لائو۔ان سب تکلفات کا ہم کو مکلف نہیں بنایا گیا،بلکہ سیدھا سادہ ،آسان سانسخہ عطا ہوا۔تیس دن کی گنتی پوری کرلو۔فقط۔
اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرْ۔(رواہ البخاری)
بیشک دین آسان ہے۔
یُرِیْدُ ﷲ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔(قرآن کریم)
اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ سختی نہیںچاہتا۔
جب اللہ و رسول( ﷺ) ہمارے لئے آسانی فراہم کرتے ہیں کہ تم چاند دیکھو تو روزہ ،عید کرو، نہ دیکھو تو مت کرو۔ یہ ہمارے اوپر فرض نہیں کیا گیا کہ دنیا بھر کے لوگ یا ملک بھر،اور تمام شہر کے لوگ ایک ہی دن عید کریں۔تو پھر کیوں لوگ عید کے چاند کے لئے پریشان ہو کر بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ٹیلیفون،ریڈیو کا سہارا لے کر بے چاند دیکھے خواہ مخواہ عید کرنے کے لئے خود پریشان ہوتے ہیں۔اور ملت مسلمہ کو پریشان کرتے اور اختلاف میں ڈالتے ہیں۔
حدیث ۴ ۔ان رسول اللہ ﷺ قال الشھرتسع و عشرون لیلۃفلا تصوموا حتیٰ تر وہ فان غم علیکم فاکملوا العدۃ ثلاثین۔(بخاری )
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،مہینہ (بسا اوقات) انتیس راتوں کا ہوتا ہے،اس لئے جب تک چاند نہ دیکھ لو، روزہ نہ رکھواور جب تک چاند نظر نہ آئے روزہ نہ افطار کرو(عید الفطر نہ کرو) اگر بادل چھائے ہوئے ہوں تو تیس دن پورے کرو۔
حدیث ۵۔عن ابی ھریرۃ قال ابو القاسمﷺ صومو الرویتہ و افطرو لرو یتہ فان غبی علیکم فاکملو عدۃ ثلثین۔(بخاری ، جلد اول)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضرت ابو القاسم ﷺ نے ارشاد فرمایا ،چاند دیکھ کر روزہ رکھو،اور چاند دیکھ کر روزہ افطار کرو،اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس دن پورے کرو۔
مندرجہ بالا احادیث کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ اسلامی مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا۔اور اس گنتی کا اعتبار رویت ہلال (چاند کے دیکھنے)پر ہے۔چاند کے ہونے، یا چاند کی پیدائش پر نہیں۔ہر حدیث میں بادل کے بار بار ذکر سے یہ ثبوت فراہم ہوجاتا ہے کہ اگر چہ بادل کے اوپر چاند نکلا ہو مگر زمین پر بسنے والے مسلمانوں نے، بادل کے نیچے سے چاند نہیں دیکھا، تو مہینہ تیس دن مانا جائے گا۔
حدیث پاک میں چاند کے ہونے نہ ہونے سے بحث نہیں،محض چاند دیکھنے سے بحث ہے۔اور اسی سے ثبوت رویت ہوتا ہے۔
حدیث ۶۔ عن ابی زفر قال کنا عند عمار بن یا سر فاتی کشادہ مصلیۃ فقال کلو فتخی بعض القوم فقال انی صائم فقال عمار ومن صام الیوم الذی شک فیہ فقد عصی ابا القاسم(ﷺ)وفی الباب عن ابی ھریرۃ وانس رضی اللہ تعالٰی عنھما ۔
ابن زفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں(تیس شعبان کو) ہم حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی۔انھوں نے فرمایا’’کھائو ‘‘ایک شخص علحدہ ہو گیا اور کہنے لگا میں روزہ دار ہوں۔حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا،جس نے شک کے دن روزہ رکھا اس نے ابو القاسم ﷺ کی نا فرمانی کی۔
اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی روایت ہے۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، سرکار دو عالمﷺ نے ان کو اپنے اہل بیت میں شامل فرمالیا تھا۔ان کے پاس تیس شعبان کو بہت سے لوگ جمع تھے۔بھنی ہوئی ایک بکری پیش ہوئی ،حضرت عمار بن یاسررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب کو کھانے کی دعوت دی،سب کھانے پر حاضر ہوئے مگر ایک شخص علحدہ ہو گیا اور کہنے لگا میں روزہ دار ہوں۔تو حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سرکار دو جہاں ﷺ کا نا فرمان ٹھہرایا۔اور ایسا روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی۔
مذکورہ بالا حدیث، بخاری،ترمذی،مشکوٰۃ وغیرہ حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی موجود ہیں۔آج بہت سے لوگ چاند دیکھے بغیر تیس شعبان کو روزہ رکھ کر اپنا تقوی جتاتے ہیں، کہ احتیاطاً روزہ رکھ لیا ہے۔اور انھیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ نبی کریم ﷺ کا فتوی اس کے برخلاف ہے۔
حدیث۷۔ ابو عیسیٰ حدیث عمار حدیث حسن صحیح والعمل علی ھذا عند اکثر اھل العلم من اصحاب النبی ﷺ ومن بعد ھم من التابعین وبہ یقول سفیان الثوری ومالک ابن انس وعبد اللہ ابن مبارک و الرجل الیوم الذی یشک فیہ ورأی اکثرھم ان صامہ و کان من شھر رمضان ان یقضی یو ماً مکانہ۔(ترمذی شریف ، جلد اول)
امام ترمذی فرماتے ہیں:۔حدیث عمار،حسن صحیح ہے۔اکثر صحابہ کرام اور تابعین کا اس پر عمل ہے۔(ائمہ مجتہدین میں سے) حضرت سفیان ثوری،حضرت امام مالک،حضرت عبد اللہ ابن مبارک(شاگرد امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ)،امام شافعی،امام احمد بن حنبل اور حضرت اسحق(رحمۃ اللہ علیہم) بھی اسی کے قائل ہیں ۔اکژ کی رائے ہے کہ اگر شک کے دن روزہ رکھا اور (بعد میں پتہ چلا کہ) وہ دن رمضان کا تھا تو پھر اس روزہ کی قضا کرے۔
اِن احادیث کریمہ سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ شریعت مطہرہ میں، رمضان و عید وغیرہ سارے اسلامی مہینوں کی ابتدا کادارومدار، رویتِ ہلال( چاند دیکھنے) پر ہے۔ ثبوتِ رویت کے بغیر نہ رمضان کا روزہ رکھنا درست ہے نہ عید کرنانہ قربانی کرنا۔۲۹ ویں کو کسی سبب سے چاند نظر نہ آسکے تو نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق مہینہ تیس دن کا شمار کرلیاجائے۔ اگر پوری امت مسلمہ اپنے نبی کریم ،رؤف و رحیم ﷺ کے اِن ارشادات عالیہ پر متفق ہوجائیں ،اور شریعت مطہرہ پر مضبوطی سے گامزن ہوجائیں تو رمضان و عید وغیرہ کے موقع پہ رونما ہونے والے، آپسی اختلافات بڑی آسانی سے دور ہوسکتے ہیں۔
اللہ عزوجل ہمیں اور پوری امتِ مسلمہ کو شریعتِ مطہرہ پر دل وجان سے، خوشی خوشی، چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین، بجاہ حبیبہ سیدالمرسلین علیہ الصلوۃ والتسلیم ۔
احمد القادری رَضوی مصباحی
ڈیلاس ، ٹیکساس، امریکا
الاسلامی.نیٹ www.alislami.net