نماز میں آہستہ آمین کہنے کا ثبوت
ازاحمد القادری مصباحی

نماز میں آہستہ آمین کہنا سنت، اوررسول ﷲ ﷺ کے حکم کے مطابق ہے۔ آہستہ آمین کہنے کے سلسلے میں، متعدد احادیث آئی ہیں۔
{۱} حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے۔
عن وائل ابن حجر( رضی اللہ تعالٰی عنہ )انہ صلے مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلما بلغ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین قال اٰمین و اخفیٰ بھا صوتہ۔
(۱۔امام احمد، ۲۔ابوداؤدطیالسی، ۳۔ابویعلی موصلی، ۴۔طبرانی،۵۔ دارقطنی، ۶۔مستدرک للحاکم )
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب حضور (ﷺ ) غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ، پر پہنچے تو آپ نے آمین کہا،اور آمین میں ،اپنی آواز آہستہ رکھی۔
{۲} حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری روایت ہے۔
قال سمعت رسول اللہ ﷺ قرا غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقال اٰمین و خفض بہٖ صو تہٗ ،
(۷۔ابوداؤد، ۷۔ترمذی،۸۔ ابن ابی شیبہ )
فرما تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھاتو آمین کہا ، اور آواز آہستہ رکھی۔
ان دونوں حدیثوں سےمعلوم ہوا ،کہ آمین، آہستہ کہنا ، رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
{۳} حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے ۔
قال رسول اللہ ﷺ اذا امن الامام فامنوا، فانہ ما وافق تا مینہ تامین الملٰئکۃ،غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہ ۔
(۹۔بخاری،۱۰۔مسلم،۱۱۔احمد،۱۲۔مالک، ۱۳۔ابوداؤ، ۱۴۔ترمذی، ۱۵۔نسائی، ۱۶۔ابن ماجہ )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ،کہ جب امام آمین کہے، تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگی ، اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گناہ کی معافی ،اس نمازی کے لئے ہے جس کی آمین فرشتوں کی آمین کی طرح ہو ۔ فرشتے آمین آہستہ کہتے ہیں اور ہم نے ان کی آ مین آج تک نہیں سنی، تو چاہئے کہ ہماری آمین بھی آہستہ ہو، تاکہ فرشتوں کی موافقت اور گناہوںکی معافی ہو۔
{۴} حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری روایت ہے۔
قال رسول اللہ ﷺ اذا قال الا مام غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآ لِّیْنَ ، {فقولوا اٰمِیْن } فانہٗ من وافق قولہٗ ،قول الملٰئکۃ ،غفر لہٗ ما تقدم من ذنبہ،
(۱۷۔بخاری، ۱۸۔شافعی، ۱۹۔مالک، ۲۰۔ابوداؤد، ۲۱۔نسائی )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،کہ جب امام ،
غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْن۔
کہے تو تم اٰمِیْن کہو، کیونکہ جس کا یہ اٰمِیْن کہنا فرشتوں کی اٰمِیْن کہنے کے مطابق ہوگا، اس کے گناہ بخش دیئے جا ئیں گے۔
اس حدیث سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔ ایک یہ کہ مقتدی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ ہر گز نہ پڑھے۔ اگر مقتدی کا پڑھنا صحیح ہو تا، تو ہمارے پیارے نبی، رؤف و رحیم ﷺ یوں فرماتے ،کہ جب تم وَلَا الضَّالِّیْن کہو، تو آمین کہو۔معلوم ہوا کہ مقتدی صرف آمین کہیں گے۔سورہ فاتحہ پڑھنا،اور وَلَا الضَّالِّیْن کہنا امام کا کام ہے، مقتدی کا نہیں، بلکہ مقتدی پر قرآن کا سننا اور چپ رہنا واجب ہے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے۔
وَاِذَاقُرِیَٔ الْقُرْ اٰ نُ فَا سْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگاکر سنو اور خاموش رہوکہ تم پر رحم ہو۔
( کنز الایمان، سورہ اعراف، آیت۲۰۴)
دوسرامسئلہ اس حدیث سے یہ معلوم ہو ا کہ اٰمِیْن آہستہ ہونی چاہئے کیونکہ فرشتوں کی اٰمِیْن آہستہ ہی ہوتی ہے جیسا کہ اوپر گزرا۔
{۵} حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نے فرمایا۔
لم یکن عمر و علی رضی اللہ عنھما یجھر ان ببسم اللہ الرحمٰن الرحیم ولا باٰمین۔
(۲۲۔ تہذیب الآثارللطبرانی ،۲۳۔ طحاوی )
حضرت عمر و علی رضی اللہ تعالٰی عنہما نہ تو بِسْمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ اونچی آواز سے پڑھتے تھے، نہ آمین۔
{۶} حضرت ابو معمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے ۔
عن عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ قال یخفی الامام اربعاً ، التعوذ و بسم اللہ و اٰمین و ربنا لک الحمد۔
(۲۴۔عینی)
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا امام چار چیزیں آہستہ کہے۔ اَعُوْذُ بِاللہ، بِسْمِ اللہ،آمِیْن اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد۔
معلوم ہوا کہ آمین آہستہ کہنا ،سنت ِصحابہ اور سنت ِخلفاء راشدین بھی ہے۔
{۷} امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ،اپنے استاذ، حضرت حماد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، انھوں نے اپنے استاذ،حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
قال اربع یخفیھن الامام، التعوذ، و بسم اللہ، و سبحنک اللھم، و اٰمین ،
(۲۵۔ رواہ محمد فی الا ثار، ۲۶۔ وعبد الرزاق فی مصنفہ)
آپ نے فرمایا، کہ امام چار چیزیں آہستہ کہے ،
اَعُوْذُ بِاللّٰہ، بِسْمِ اللّٰہ، سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ اور آمِیْن۔
(یہ حدیث امام محمد نے آثار میں، اورامام عبد الرزاق نے اپنی مُصَنَّفْ میں بیان کی)
معلوم ہواکہ جیسے ثنا، اعوذ باﷲ، بسم اﷲ، رکوع اور سجدے کی تسبیحات، التحیات، درود ابراہیمی، دعائِ ماثورہ وغیرہ سب آہستہ پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی آمین بھی آہستہ پڑھنا سنت ہے ۔یہی احادیث ِصحیحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے اعمال واقوال سے ثابت ہے۔
یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاﷲ علیہ کا بھی قول ہے ۔
امام اعظم ا بو حنیفہ رحمۃﷲ علیہ، جلیل القدر امام، تا بعی،فقیہ، عالم، محقق،مدقق، متقی،محدث ، مفسر،مجتہد،صالح،صاحب کشف اور ولی کامل ہیں،نہ ان کے زمانہ میں ان کے برابر کوئی فقیہ تھا نہ اُن کے بعد اب تک اُ ن کے مثل پیدا ہوا۔ بلا شبہ آپ اِمَامُ الْمُتَّقِیْنْ اور اَمِیْرُ الْمُسْلِمِیْنْ ہیں۔ آپ کی پیروی فرمان ِالٰہی کے مطابق ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ۔
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ،
( سورہ نسا آیت ۵۹)
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطا عت کرو اور اپنے امیرکی۔
اس مختصر رسالے میں آہستہ اٰمین کہنے پر حدیث وفقہ کی ۲۶ مشہور ومعروف اورمستند کتا بوں کے حوالہ سے ،سات احادیث کریمہ پیش کردی گئی ہیں، جو اہل حق کوقبول کرنے کے لئے کا فی ہیں……مزید تفصیل کے لئے حضرت مولانا ظفر الدین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح البہاری شریف، اور حضرت مولانا احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور ومعروف کتاب ْجاء الحقْ کا مطالعہ فرمائیں۔

وَاللّٰہُ الْھَادِی وَالمُعِیْنُ ، نِعمَ المَولٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ، وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰ لِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ، بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔

 

احمدالقادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
۵؍ صفر۱۴۲۳ھ ۲۱؍اپریل ۲۰۰۲ء

مزید
مینو