بِسْمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
الحمد للّہ رب العلمین ، والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین ، وعلی الہ واصحابہ اجمعین ،
ممتاز العلما کا وطن مبارک پور

بتاریخ ۱۶ ؍ ذی الحجہ ۱۴۴۲ ھ مطابق ۲۶؍ جولائی ۲۰۲۱ ء بروز دوشنبہ ، محب محترم مولانا ارشاد احمد شیدا اعظمی کا انگلینڈ سے فون آیا، انھوں نے ممتاز العلما کی حیات وخدمات پر ایک کتاب شائع کرنے کی خوش خبری سنائی اور اس خاکسار کو منتخب عنوانا ت میں سے کسی عنوان پر لکھنے کی فرمائش کی۔
کل عنوانات چالیس تھے ، دوسرے نمبر پر یہ عنوان تھا۔۔۔۔ممتاز العلما کا وطن مبارک پور۔۔۔۔۔یہ عنوان منتخب ہوا۔ ۔۔ وباللہ التوفیق، نعم المولیٰ، ونعم النصیر۔

احمد القادری مصباحی

مبارک پور کا نام
وجہ تسمیہ: حضرت راجہ سید مبارک شاہ علیہ الرحمہ (متوفی ۲؍ شوال ۹۶۵ھ) مبارک پور کے بانی ہیں، ان کے نام پر اِس کا نام مبارک پور پڑا۔ جامع مسجد راجہ مبارک شاہ بھی انھیں کے نام پر ہے۔
عام معلومات
جائے وقوع: مبارک پور کا طول البلد(لانگی ٹیوڈ) ۸۳ درجہ ۱۸ دقیقہ شرقی اور عرض البلد(لاٹی ٹیوڈ) ۲۶ درجہ ۵ دقیقہ شمالی ہے۔
نگرپالیکا: مبارک پور
ڈاک خانہ: مبارک پور
تھانہ: مبارک پور
تحصیل: اعظم گڑھ
ریلوے اسٹیشن:سٹھیاؤں
ضلع : اعظم گڑھ
قریبی ایر پورٹ: گورکھپور، بنارس، لکھنؤ۔اعظم گڑھ ایر پورٹ کی تعمیرجاری ہے، مستقبل قریب میں کی افتتاح کی امید ہے۔
صوبہ: اتر پردیش
پن کوڈ: ۲۷۶۴۰۴
ملک: ہند ؍ ہندوستان؍ بھارت؍ انڈیا
آبادی:مبارکپور کی مجموعی آبادی ۲۰۱۱ میں ایک لاکھ نو ہزار ، پانچ سو، انتالیس (۱۰۹۵۳۹ ) افراد پر مشتمل تھی۔
رقبہ ؍ایریا: تقریبا ًدس (۱۰ء۳۱) اسکوائر کلو میٹر
بلندی: ۶۹میٹر (۲۲۶ فٹ)سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہے
زبان: مبارک پوری،اردو، ہندی،پوربی؍ بھوجپوری ۔
منطقۂ وقت؍ٹائم زون: ہند کا معیاری وقت،یو، ٹی، سی (یونیورسل، ٹائم، کورڈی نیٹیڈ، قدیم نام: گرینچ مین ٹائم زون) جی، ایم ،ٹی
ٹائم سے پانچ گھنٹے ۳۰ منٹ زائد ہے۔
مبارک پور کی چوحدی
اتر :گوجر پار وغیرہ
دکھن :لہرا، سٹھیاؤں
پورب: ابرہیم پور، وغیرہ
پچھم : سرائے مبارک وغیرہ ہے
مبارک پور کے محلے
مبارک پور میں چھوٹے بڑے کثیر محلے ہیں ، بچپن میں والدہ مرحومہ سے ۲۸ پُورے کا نام سنتے تھے، اب تو اور زیادہ ہوگئے ہیں جن کے نام دستیاب ہوگئے مرقوم ہیں۔
۱۔ پرانی بستی: پرانا مدرسہ، اشرفیہ مصباح العلوم یہیں پر تھا، یہیں پر حافظ ملت علیہ الرحمہ کی مستقل رہائش گاہ تھی۔ عزیز ملت حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب قبلہ دامت برکاتہم سربراہ اعلی جامعہ اشرفیہ کی رہائش گاہ کی سعادت بھی اسی محلہ کو حاصل ہے۔ اسی محلہ میں خواجہ محمد صالح کے نام پر،خواجہ تالاب (کھجوا) ہے، حافظ محمد ابراہیم متولی، رکن اشرفیہ مبارک پور، یہیں کے باشندہ تھے۔
۲۔پورہ خواجہ: خواجہ محمد صالح حاکم بنارس(دورجہاںگیری ) کے نام پر بناہے، ہمارے ممدوح حضرت ممتاز العلما علیہ الرحمہ کا دولت کدہ یہیں پر ہے۔ اس محلہ میں اشرفیہ کی شاخ ہے۔
۳۔پورہ خضر: اسی محلہ میں متصل قبرستان بن رہی باغ (بنری باغ) استاذ محترم حضرت بحرالعلوم مفتی عبد المنان علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث ،جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور،( ۱۳۴۴ھ وصال ۱۵؍محرم ۱۴۳۴ھ) کا مزار مبارک ہے۔
یہاں دوسرامشہورقبرستان سمودھی(شاہ محمودی)ہے،جہاں نوگزے( نو غازی) پیر بابا کا مزار ہے ، یہیںحضرت مولانا عبد الرؤف علیہ الرحمہ سابق نائب شیخ الحدیث، جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور، (ولادت ۱۹۱۲ء وصال۱۳؍شوال ۱۳۹۱ھ ۲؍دسمبر۱۹۷۱ء) اور حضرت مولانا قاری محمد یحییٰ علیہ الرحمہ، امام جامع مسجد راجہ مبارک شاہ ،و سابق ناظم، جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور ( ولادت ۸؍محرم ۱۳۴۳ھ ۹؍اگست ۱۹۲۴ء وصال۱۵؍ مئی ۱۹۹۶ء) کا مزار مبارک ہے۔
۴۔پورہ رانی: اسی محلے میں گولہ بازار کے پاس ، باغ فردوس( ۱۳۵۳ ھ) دارالعلوم اشرفیہ کی شاندار تین منزلہ بلڈنگ ہے۔یہاں مولاناقاری محمدیحیی صاحب علیہ الرحمہ اور استاذ محترم حافظ جمیل احمد صاحب مدظلہ سابق استاذِ حفظ جامعہ اشرفیہ کا دولت خانہ ہے۔
مدرسہ یتیم خانہ ، بھی اسی محلے میں ہے۔
۵۔پورہ دیوان: یہاں ہماراا ننہال، اور ہمارے استاذ مولانا اعجاز علیہ الرحمہ کا دولت خانہ ہے۔یہیں استاذ محترم حضرت مولانا محمد شفیع اعظمی علیہ الرحمہ سابق استاذ و ناظم اعلیٰ، جامعہ اشرفیہ ،مبارک پور (۱۳۴۴ ھ وصال ۱۴۱۱ ھ ۱۹۹۱ ء) کا روضہ ہے۔
اسی محلہ میں اونچی تکیہ ہے ، جہاں استاذ محترم حافظ نثار احمد علیہ الرحمہ سابق استاذ، دارالعلوم اشرفیہ، مبارک پور، (وصال ۵؍ شوال ۱۴۳۹ ھ ۲۱؍ جون ۲۰۱۸ ء بروز جمعرات) کا روضہ ہے۔یہیںعائشہ تالاب (استلاؤ) بھی ہے۔
۶۔پورہ باغ: پورہ دیوان سے متصل پورہ باغ ہے۔
۷۔شاہ محمد پور: جلوس میلاد النبی ﷺ یہاں املی کے پاس، صحن میںہر سال تھوڑی دیرٹھہرتا ہے۔
۸۔ پورہ صوفی : صوفی بہادر کے نام پر تقریباً ۱۰۴۶ھ میں بنا ہے، پورہ صوفی اور حیدرآباد سے متصلکپورہ شاہ، دیوان کا باغ ہے۔
۹۔حیدرآباد:یہ قصبہ کے پچھم ہے ، یہاں روضہ شاہ کاپنجہ ہے، نواب اودھ کے زمانہ میں، چراغ علی شاہ نے بنوایا ہے۔ یہاں مدرسہ عزیزیہ ، حیدرآباد، مذہبی تعلیم گاہ ہے۔
۱۰۔سکٹھی: مبارک پور سے شمال مغرب میں زمینداروں کی پرانی آبادی ہے۔مدرسہ اسلامیہ اشرفیہ، یہاں کا مشہور دارالعلوم ہے
۱۱۔سرائے مبارک: سکٹھی کے آگے سرائے مبارک ہے ۔
۱۲۔مصطفی آباد: سرائے مبارک سے اتر ہے، حضرت شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ بھیروی علیہ الرحمہ کے خسر شیخ غلام رسول یہیں کے باشندہ تھے۔
۱۳۔پورہ دولھن: میرے استاذ حافظ نثارا حمد علیہ الرحمہ کا یہیں مکان تھا۔
۱۴۔کٹرہ: یہا ں حضرت سید سالا مسعود غازی علیہ الرحمہ کی نسبت سے، صحبت کے نام سے ،سالانہ ایک بڑا میلہ لگتا ہے۔حضرت مولانا ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی رکن جامعہ اشرفیہ (مقیم دہلی) کا یہ وطن ہے ۔
۱۵۔نئی بستی : یہ کٹرہ کے قریب علی نگر سے اتر نئی آبادی ہے۔
۱۶۔علی نگر: یہ پوری آبادی ، اہل سنت کی ہے۔ علی نگرکا قبرستان موسومہ اوسر یہیں پر ہے ۔ ممتاز العلما کے والد گرامی جناب حافظ عبد الحلیم علیہ الرحمہ(رکن دارالعلوم اشرفیہ) اور ان کے اہل خاندان کی قبریں اسی قبرستان میں ہیں۔ علی نگر کے پورب پوکھرا کے نام سے ایک پختہ تالاب ہے۔ اِسی سے متصل تھانہ (پولیس اسٹیشن)مبارک پور ہے، ۱۸۱۳ء میں یہاں تھانہ قائم ہوا، اس سے پہلے یہ محمد آباد تھانہ کے ماتحت تھا اور یہاں صرف پولیس چوکی ہوا کرتی تھی۔
۱۷۔املو: علی نگر کے پورب ،یہ مشہور آبادی ہے۔ مبارک پور کی قدیم آبادی میں اس کا شمار ہوتاہے
۱۸۔لوہیا: یہ املو سے پورب مشہور بستی ہے۔
۱۹۔چکیا: یہ املو سے دکھن ہے۔
۲۰۔نوادہ:سریاں اور رسول پور کے بیچ میں آباد ہے، یہاں اہل سنت کا مدرسہ سراج العلوم ہے۔
۲۱۔رسول پور: قصبہ کے شمال مشرق میں، سریا ں اور نوادہ سے تھوڑے فاصلہ پر ہے۔
۲۲۔سریاں: قصبہ کے شمال مشرق میں ہے،گورکھپور اور کچھار جانے والے قافلوں کے لئے یہاں کئی سرائیں تھیں ، جن میں مسافر ٹھہرتے تھے، بعد میں کثرت استعمال سے سریاں ہوگیا۔یہاں قدیم تاریخی یادگار ،ملک شدنی بابا کا مزار ہے۔
۲۳۔حسین آباد: قصبہ کے اتر ۱۵ منٹ کی مسافت پر ہے، دسویں ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ مطابق دسمبر ۱۹۳۹ء حسین آبا د کے شمال گوجر پار میں ہندو مسلم فساد ہواتھا، جس میں قصبہ کے چار مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ اسی جنگ میں ہمارے ماموں جناب عبد العزیز بن عبد الرشید بن عبد الصمد علیہ الرحمہ بھی شہید ہوئے تھے۔ یہاں غوثیہ جامع مسجد ہے۔
۲۴۔اسلام پورہ:یہیں مولانا عبد الغفار اعظمی رکن المجمع الاسلامی کا مکان ہے۔
۲۵۔نیا پورہ: یہاں کی انجمن تنویر الاسلام ہے۔
۲۶۔شہید نگر: یہاں ایک شہید کا مزار ہے، ان کے نام پر یہ محلہ آباد ہے۔
۲۷۔ملت نگر: یہاں پر تصنیف واشاعت کا عظیم ادارہ المجمع الاسلامی قائم ہے۔اور ایک تعلیمی ادارہ بنام، مدرسہ صدیق اکبر ہے
۲۸۔ آدم پور: ملت نگر سے پورب یہ آبادی ہے
۲۹۔نور پور: المجمع الاسلامی سے اتر، نور پور کہلاتا ہے
۳۰۔عزیز نگر: حافظ ملت علیہ الرحمہ کےنام سے یہ ایک نیا محلہ ہے۔
۳۱۔اساوُر: یہ مبارک پور سے جنوب مشرق میں زمینداروں کی بستی ہے،یہاں دو شہیدوں کا روضہ ہے، عمر شیخ شہید اور شیخ ہندی شہید (معروف سیکھندی) یہ ، المجمع الاسلامی سے کچھ فاصلے پر ہے۔
۳۲۔گجہڑا: جامعہ اشرفیہ (عربی یونیورسیٹی) سےدکھن طرف کچھ فاصلے پر پرانی آبادی ہے،مولانا شاہ عبد الحق علیہ الرحمہ (وصال: ۲۸؍ شعبان ۱۴۰۸ھ ۱۶ ؍اپریل ۱۹۸۸ء مدفن اجمیر شریف)، مولانا شاہ شمس الحق علیہ الرحمہ(وصال ۹؍شعبان ۱۳۹۳ھ ۷؍ستمبر ۱۹۷۳ء) یہیں کے باشندے تھے۔مولانا شاہ شمس الحق علیہ الرحمہ دارالعلوم اشرفیہ کےمشہور استاذ اور فارسی زبان کے استاذ کامل تھے۔ میرے استاذحضرت مولانا اسراراحمد صاحب مدظلہ بھی یہیں کے باشندہ ہیں۔یہاں شاہ جہانی دور ۱۰۹۹ھ کی ایک عظیم الشان مسجد تاریخی یادگار ہے۔اور یہیںحضرت سید کمال الدین شاہ بغدادی علیہ الرحمہ( متوفی گیارہویں صدی ہجری)کا مزار مبارک ہے۔
۳۳۔لہرا (وحدت آباد): گجہڑاسے متصل دکھن طرف قدیم آبادی ہے۔یہ مشائخ بھیرہ کا موروثی مقام تھا، یہاں حضرت مولانا گرم دیوان شاہ بھیروی علیہ الرحمہ (ولادت۱۱۰۰ھ- وصال ۱۱۷۸ھ)نے مستقل سکونت اختیار کرکے خانقاہ اور مدرسہ بنوایا۔ یہیں ان کا مزار مبارک ہے۔ ان کے دور میں اس کا نام وحدت آباد تھا۔
۳۴۔فخرالدین پور: گجہڑا ہی سے متصل یہ آبادی ہے۔
۳۵۔بمہور: قصبہ کےجنوب مغرب میں دو میل پر آباد ہے۔
۳۶۔حاجی پور : بمہور سے قریب مسلم بستی ہے۔
۳۷۔ککرہٹا: بمہور سے قریب مسلم بستی ہے۔
۳۸۔ڈھکوا : بمہور سے قریب مسلم بستی ہے۔
۳۹۔داؤد پور:
۴۰۔ سالار پور:
مبارک پور کی تاریخ
مفکر اسلام حضرت علامہ بدرالقادری علیہ الرحمہ حیات حافظ ملت میں لکھتے ہیں،
یہ بات تومسلم ہے کہ پہلےپہل، یوپی کے خطۂ پورب کو اپنے سمنداقبال سے نواز نے والے، سلطان الشہدا،سید سالار مسعود غازی، بہرائچی، رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کے روحانی وعرفانی قافلہ کے غازیوں اورمجاہدوں نے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ مبارک پور کوبھی اپنے گھوڑوں کی تاپوں سے روند کر،اسے برکتیں عطاکیں اورحضرت ملک شدنی اور نہ معلوم کن کن شہداء کے وجود کاتخم اس خطۂ ارض کوحاصل ہوا۔
زمانہ آگے بڑھتا رہا تاآنکہ دور ہمایوں ۹۲۵ھ میں جب مسلمانوں کے دم قدم سے نوآبادیاں قائم ہورہی تھی اس قت قصبہ مبارک پور کی بنیاد پڑی۔ اگرچہ اس وقت تک اسے کوئی باقاعدہ نام نہیں ملاتھا۔
بانی مبارک پور
مبارک پور کےبانی حضرت سید راجہ مبارک شاہ علیہ الرحمۃ الرضوان ہیں ،حضرت راجہ سیدمبارک بن حضرت راجہ سید احمدبن حضرت راجہ نور بن حضرت راجہ سید حامد(رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہم) کاسلسلۂ نسب حضرت امام محمدباقر بن حضرت امام جعفرصادق(رضی اللہ عنہا) سے جاملتاہے۔
حضرت راجہ سید مبارک رحمۃ اللہ علیہ کامختصر تذکرہ”گنج ارشدی“ نامی کتاب میں ملتاہے۔
حضرت راجہ سید مبارک کے والد ماجد حضرت راجہ سید احمدقدس سرہ عین جوانی میں شادی کے چند ماہ بعد انتقال کرگئے تھے۔ راجہ سید مبارک کی والدہ کواس وقت ایک ماہ کاحمل تھا۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے جد محترم حضرت راجہ سید نور علیہ الرحمہ نے آپ کی پرورش کی۔ وہ پیار سے راجہ سیدمبارک کو ”ماکھو“ کہاکرتے تھے۔
جدمحترم نےاپنےیتیم پوتے کی تعلیم وتربیت
کرکے بچپن ہی میں ان کوخلافت واجازت بھی مرحمت کردی تھی۔
گوراجہ سید مبارک ظاہری علوم سے زیادہ واقف نہیں تھے مگر مشیخیت وروحانیت میں بلند مقام ومرتبے کے مالک تھے۔ آپ کے حلقۂ ارادت وخلافت میں اولیائےکاملین کی ایک کثیر تعداد تھی۔
راجہ سید مبارک علیہ الرحمہ نےاپنے خاندان کےبزرگوں کی طرح جون پور اوراس کے اطراف وجوانب مین رہ کر ارشاد وتبلیغ کی خدمت انجام دی۔
آپ تبلیغ واشاعت دین کی غرض سے کڑامانک پور ضلع پرتاب گڑھ(یوپی) سے قاسم آباد تشریف لائے، قاسم آباد میں آپ نے اپنی تبلیغ وارشاد اوربیعت وارادت سے ایک نئی روح پھونکی، اسلام کوضیاء بخشی، مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کیا، معصیت اورگمراہی میں مبتلا لوگوں کوراہ راست دکھائی اورقاسم آباد کو ازسرنو آباد کرکے اس کانام مبارک پور رکھا۔
آپ بڑے عابد وزاہد اوربلند روحانی مقام کے مالک تھے، کٹرامانک پور میں ۲؍شوال ۹۶۵ھ کوآپ کا وصال ہوا ،اوراپنے دادا حضرت سید نور کےپہلو میں دفن ہوئے۔آپ کے صاحب زادے راجہ سید مصطفیٰ نے مزار پرگنبد تعمیر کرایا۔
آپ کا سال وفات (۹۶۵ھ) مندرجہ ذیل مصرعہ کے حروف تہجی کے نمبرس جمع کرنے سے نکلتا ہے۔
گنج ارشدی میں مرقوم ہے: بحق شد راجی سید مبارک (۹۶۵ھ)
مسجد راجہ مبارک شاہ
الجامعۃ الاشرفیہ سے متعلق ”مسجد راجہ مبارک شاہ“ جواپنی وسعت وعظمت اورشان وشوکت میں دور دور تک مشہور ہے وہ راجہ مبارک شاہ صاحب ہی کےنام سے موسوم ہے۔ قصبہ مبارک پور میں جمعہ وعیدین کی سب سے بڑی جماعت یہیں ہوتی ہے۔
حضرت راجہ سید مبارک شاہ علیہ الرحمہ کےخانوادہ کے ایک بزرگ حضرت سید غلام نظام الدین (م ۱۱۲۸ھ) راجہ خیراللہ شاہ محمدآبادی کےنام سے مشہورہوئے اور”محمدآباد گوہنہ“ سے تقریباً ایک کلو میٹر مغرب میں واقع موجودہ قصبہ ”خیرآباد“ آپ ہی نے بسایا۔
سلسلۂ چشتیہ میں ،شاہ ابوالغوث گرم دیوان شاہ متوفی ۱۱۷۸ھ مزار،لوہرا مبارک پور آپ ہی کے مرید ہیں۔
(علامہ یٰس اختر مصباحی: الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ص:۱۴)
مبارک پور کےدینی وعلمی ادارے
مبارک پور کےمغرب میں مدرسہ حنفیہ جون پور اورمشرق میں مدرسہ چشمۂ رحمت غازی پور دوقدیم دینی وعلمی ادارے تھے۔ مقامی سطح پرکچھ لوگ ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے مذکورہ دونوں اداروں اور معدودے چند لکھنؤ یادلی حصول تعلیم کےلیے جاتے تھے۔
یہ مبارک پور میں حافظ ملت کی تشریف آوری اور مدرسہ اشرفیہ باغ فردوس(۱۳۵۳ھ) کےقیام کے پہلے کی بات ہے اورآج الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور تو عالم اسلام کا ایک نمایاں علمی مرکز ہے۔
مبارک پور کی شہرت وعظمت کاسبب
ملک ہندوستان کے صوبۂ اترپردیش کےشہراعظم گڑھ کودسمبر۱۸۳۲ء میں ضلعی حیثیت حاصل ہوئی۔ اعظم گڑھ میں بڑی بڑی عظیم ونامور علمی وادبی ہستیوں نے جنم لیاہے اوراسی بناء پر اسے مردم خیز خطہ بھی کہاجاتاہے۔
کل تک یہ قصبہ گم نام تھا لیکن اس نے پوری دنیا میں ایک غیر معمولی پہچان بنالی ہے۔ عالم اسلام کا کوئی بھی خطہ وعلاقہ ایسانہیں جہاں مبارک پور کی شہرت نہ پہنچی ہو۔ اورمبارک پور کی یہ شہرت، عظیم مرکز علمی الجامعۃ الاشرفیہ کےسبب ہے۔ لیکن الجامعۃ الاشرفیہ کو مبارک پور کی سرزمین پر وجود کس نے بخشا؟ حضرت حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ نے اورآج مبارک پور کویہ شہرت ومقبولیت،عزت وعظمت اوربڑا ئی وبلندی بلاشبہ اسی ذات بابرکات کی بدولت حاصل ہے۔
اسی معمار قوم وملت، باغبان باغ فردوس، جلالۃ العلم، استاذ العلماء حافظ ملت، محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری، بانی الجامعۃ الاشرفیہ ہی نے مبارک پور کو قابل مبارک باد بنایا۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ نے مبارک پور کی سرزمین پر الجامعۃ الاشرفیہ کی شکل میں علم وحکمت کاایسامرکز قائم فرمادیا جس پربغداد وقرطبہ، شیراز واصفہان، سمرقند وبخارا اور قاہرہ کےجامعات کوبھی رشک آتاہے اور جہاں کے فاضلین دنیاکے کسی بھی جدید دانش کدہ اورماڈرن یونیورسٹی کے دانش وروں اورپروفیسروں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرعلم وحکمت کےکسی بھی موضوع پر گفتگو کرسکتے ہیں اوراحساس کمتری میں مبتلا ہونے کے بجائے خود انھیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے کامادہ رکھتے ہیں۔
الجامعۃ الاشرفیہ ایک ایسا منارۂ نور ہے جوتہذیب جدید کے اخلاق وانسانیت سوز شعلوں کوکاٹتا ہوا، نئی روشنی کی برپاکی ہوئی جہالت وگمرہی کی تیرگی کو چیرتاہوا بندگان الٰہی کی ہدایت ورہنمائی کافریضہ انجام دیتاہوا انھیں صراط مستقیم پرگامزن کرتاچلاجارہاہے۔
نہ صرف برصغیر بلکہ یورپ وامریکہ اورافریقہ کےتشنگان علوم نبویہ بھی اپنی پیاس بجھانے اورسرمست وسرشاد ہونے کےلیے اسی میخانہ علم وحکمت کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں۔
الجامعۃ الاشرفیہ کےکیمپس میں داخل ہوتے ہی نگاہوں میں چمک اورچہرہ پر تازگی آجاتی ہے، دل مضطرب کو قرار آجاتاہے۔ سینہ فخر سے ،تَن جاتاہے، اللہ اکبر! یہ ایسا باغ فردوس ہے جہاں ہرسو ،علم وحکمت ودانش کوثر وتسنیم کےدھارے بہتے نظر آتے ہیں۔
جامعہ کےدرودیوار سے حمد الٰہی اورمدح رسالت پناہی کے مچلتے ہوئے نغمے، جامعہ کی فضاؤں میں گونجتی ہوئی قرآن وسنت کی جاں بخش اورایمان افروز صدائیں ذہن کے دریچوں کوبہار ابد کی جاں فزا ہواؤں کےلیے وا کردیتی ہیں۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ نےعمر بھر الجامعۃ الاشرفیہ (باغ فردوس) کی باغبانی وپاسبانی کافریضہ انجام دیا۔طلبائے اسلام کی جماعت کوتعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کرتے رہے اوراشرفیہ ہی کو آخری آرام گاہ بنالیا۔
یہ حافظ ملت ہی کے قدموں کی برکت ہے کہ انھوں نے مبارک پورکی سرزمین کوآسمان کی بلندی عطاکردی۔ اللہ کےاحسان یافتہ بندوں کی یہی تو شان ہوتی ہے کہ
توجہاں ناز سے قدم رکھ دے
وہ زمیں آسمان ہے پیارے
مبارک پور اس کی مذہبی تاریخ
مبارک پوراپنے ضلعی مقام اعظم گرھ سے تقریباً سترہ کلومیٹر شمال مشرق میں کئی مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ایک مسلم اکثریت کی آبادی ہے۔ مسلمانوں میں بنکر طبقہ کی تعداد غالب ہے۔
مبارک پور کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے حضرت استاذ محترم بحرالعلوم مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ اعظمی سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ نےجوکچھ تحریرفرمادیاہے وہ سندکی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت نے اس پورے ماحول کی بہترین تصویر کشی فرمائی ہے جسے ہم یہاں من وعن نقل کرتے ہیں۔
مبا رک پور کی صنعت
”یہ آبادی آج سے تقریباً ساڑھے تین سوسال قبل کی ہے۔یہاں کاخاص ذریعۂ معاش بنکاری ہے۔ قدیم عہدمیں سوتی کپڑے (گزّی وغیرہ) تیار ہوتے تھے، لیکن جلد ہی یہاں کے ہنر مندوں نے ریشم اورسوت کی آمیزش سے چند نفیس قسم کی پوشیش بنائیں جومدتوں شرفاء کالباس اورخوشرؤں کی زینت رہیں اور مشروع، غلطاں ، سنگی، گلبندن وغیرہ کےنام سے مشہور عالم ہوئیں۔ اب خالص ریشم اورزری کےبنارسی کپڑوں میں یہاں کے ہنر مند اپنا جواب نہیں رکھتے“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرت یہاں کی نہایت سیدھی سادی اورتقریباً اسلامی احکام کے موافق تھی۔ اب انقلاب زمانہ کےساتھ یہاں بھی کچھ تجدد کی ہوا چل پڑی ہے۔ بیشترآبادی اگرچہ بےپڑھی لکھی تھی لیکن خیرغالب اور نیکی نمایاں تھی۔
مولوی مکرم احمدعباسی چریاکوٹی (بن مولانا محمد اعظم چریاکوٹی ولادت ۱۲۶۶ھ متوفی ۱۳۳۲ھ از تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص ۳۲۲)اپنی قلمی تصنیف ”دہ بند“ میں تحریر فرماتے ہیں:
مبارک پور میں پانچ ہزار خانہائے نور باف ہیں، ہرہرمحلہ محلہ میں مسجدیں موجود ہیں، پانچوں وقت کی جماعتیں نماز کی دھوم دھام سے ہوتی ہیں۔ اہل محلہ سب کاروبار چھوڑ کے واسطے تحصیل فضیلت جماعت کےمسجد میں آتے ہیں۔فقیر، درویش، مُلّے،مسافر، غریب الوطن، مساکین، مرثیہ خواں زیادہ تریہاں وارد ہوکےمبلغ معتدبہ پاجاتے ہیں۔ فی تھان کسی قدر زکوٰۃ کے طور پرنکال کے ایک خزانہ میں کہ موسوم بہ گولک کرلیاہے جُدا دھرتے ہیں جس سے پیسہ ایک مقدار کثیر میں موجود رہتاہے اوراسے مصارف خیر میں صرف کرتے ہیں۔ اکثر باثروت وصاحب مال ہیں۔ گلبدن وسوتی پہلے پہل یہیں بنایاگیا اوراب تک یہاں کاسا عمدہ اور ارزاں دوسری جگہ نہیں بنایاگیا۔ بالفعل مشروع وسنگی واصناف پارچہائے سادہ ورنگین یہاں بہتر بنایا جاتاہے اوربکفایت تام ہاتھ آتاہے۔ بازاروں میں غلہ اس افراط سے آتاہے کہ بڑے بڑے شہروں کاگولہ اس کارشک کھاتاہے(دہ بند،ص:۳)
مدرسہ مصباح العلوم کاقیام
اس کے بعد تاریخی حقائق جاننے کےلیے ہم بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی (علیہ الرحمہ)کی تحریر پیش کرتے ہیں:
آج سے سوسال قبل شعبان ۱۲۹۲ھ کابیان ہے اوریہ لگ بھگ وہی وقت ہے جب کہ مبارک پور کےافق پردُودمان خاندان اشرفیہ شہزادۂ غوث الوریٰ حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کی تبلیغی سرگرمیاں رشد وہدایت کاآفتاب بن کر چمک رہی تھیں اورپورا مبارک پور اُن کے قدموں میں اپنادل بچھائے ہوئے تھا اورعجب نہیں کہ اوپر عباسی صاحب کے حوالے سے یہاں کی جس عام دین داری کاذکر کیاگیاہے انھیں کی مسیحانفسی کااثرہو۔ انھی کی تحریک وترغیب سے آج سے تقریباً اسی سال قبل مبارک پور گولہ بازار کی مسجد میں مدرسہ بنام مصباح العلوم قائم ہوا جس کے انتظام کاروں میں حافظ عبدالسبحان صاحب پورہ رانی اورایوب سردار کانام سرفہرست ہے۔
انتہائی کوشش کےباوجود اس کے ابتدائی مدرسین کاپتا نہ چل سکا۔ نصاب تعلیم کے بارے میں ایسا اندازہ ہوتاہے کہ مکتبی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ عربی کابھی انتظام تھا کیوں کہ اسی میں تعلیم حاصل کرکے مولوی رفیع الدین ومولوی محمدعمر صاحب مولوی کہے جانے لگے۔
دس سال کےبعد مدرسہ کی فلاح وبہبود کی خاطر پورے قصبہ کی ایک عام میٹنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ایک وسیع اورجامع ترکمیٹی عالمِ وجود میں آئی جس کے ارکان میں حسب ذیل افراد نام زد ہوئے۔
مولوی الٰہی بخش صاحب پورہ دلہن، یہ ایک کامیاب طبیب بھی تھے۔ سردار محمد طیب گرہست پورہ خضر، یہ نہایت چالاک اور بااثر شخص تھے۔ حاجی عبدالحق، بابوسردار، ان کاذکر اوپر آچکاہے۔ عبدالحکیم سردار،پورہ صوفی اورحسین بخش وغیرہ اورچوں کہ اس اجتماع میں پورے قصبہ کی نمائندگی تھی اس لیے نسبۃً اس وقت تک یہاں جتنے فرقے ممتاز تھے سبھی خیال کے مدرس رکھے گئے۔
چناں چہ مصنف بہار شریعت حضرت مولانا امجد علی صاحب علیہ الرحمہ کےبرادر بزرگ حضرت مولانا محمدصدیق صاحب جوحضرت مولانا ہدایت اللہ خان جون پوری علیہ الرحمۃ والرضوان کے ارشد تلامذہ سے تھے وہ گھوسی سے بلائے گئے۔ دیوبندیت اس وقت نمایاں نہیں تھی کہ اس کا کوئی نمائندہ ہو لیکن غالباً لاعلمی میں ہی مولوی محمدمحمود صاحب(دیوبندی) ساکن موضع پورہ معروف بلائے گئے۔ مقامی طور پر مولوی نور محمد صاحب مرحوم، یہ سنی مکتب فکر کےترجمان تھے اور شیعہ مدرس ماسٹر مہدی حسن خاں مقرر ہوئے اورمدرسہ گولہ بازار کی مسجد سے منتقل ہوکر پورہ رانی میں کرایہ کےمکان مملوکہ جودھا دھوبی میں قائم ہوا۔
محمود دیوبندی صاحب ساکن پورہ معروف کاقیام پورہ دلہن میں مولوی الٰہی بخش کےوہاں تھا۔ مولوی صاحب موصوف مسلکاً دیوبندی تھے۔ ابتداءً تو وہ تمام سنی معمولات بجالاتے رہے لیکن ہردم کی صحبت اوربات چیت سے مولوی الٰہی بخش اورطیب گرہست وغیرہ ارکان مصباح العلوم پر اثر انداز ہوچکے تھے اورمدرسہ کےطلبہ میں بھی اپنے خیالات کی اشاعت شروع کردی تھی۔ اپنی کسی مجلس میں مولوی محمود مولوی شکراللہ اور مولوی نعمت اللہ نے امکان کذب کامسئلہ بیان کیا اور اپنا عقیدہ ظاہر کیاکہ خدا جھوٹ بول سکتاہے۔
اس وقت کےایک طالب علم ٘ محمود شاہ نے ان لوگوں کےفاسق وبددین ہونے کاتحریری فتویٰ دیا جس کی شکایت ارکان مدرسہ کے پاس پہنچی ۔ طیب گرہست نے معاملہ کی تفتیش مولوی نور محمد صاحب مرحوم کے سپر د کی لیکن پھر قضیہ کواپنے ہاتھ میں لے کر محمود شاہ کومدرسہ سے خارج کردیا۔
طیب گرہست کایہ اقدام پورے قصبہ میں آگ لگادینے کےلیے کافی تھا چناںچہ ایک عام شورش اورعوام کے شدید ہیجان کےنتیجے میں کمیٹی میں نیاخون شامل ہوا۔ اوربد لومیاں، حافظ محمدابراہیم مرحوم سابق متولی
[یہ ہمارے خاندان کے فردہیں ، ہمارے دادا (جناب عبد الکریم بن محمد اسحق مرحوم) کے دادا ، جمن خلیفہ مرحوم تین بھائی تھے، ایک بھائی مبارک پور آکر مستقل آباد ہوگئے،اُسی خاندان سے حافظ محمد ابراہیم علیہ الرحمہ ہیں، وہ تاحیات اشرفیہ کے متولی اور رکن رہے، ۱۹۶۷ یا ۱۹۶۸ ءمیں انتقال ہوا ، ۱۱بجے دن میں جنازہ تھا، حافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم پر دارالعلوم اشرفیہ میں چھٹی کردی گئی ، اور تمام اساتذہ و طلبہ اُن کے جنازہ میں شریک ہوئے۔ ہمارےوالد مرحوم اور بھائی جان قبلہ جنازہ میں شریک تھے، اُس وقت بھائی جان اشرفیہ میں زیر تعلیم تھے۔احمدالقادری (بروایت برادر گرامی حضرت علامہ محمداحمد مصباحی، ناظم تعلیمات ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور ]
حاجی خیراللہ مرحوم سابق متولی دارالعلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم ،ممبران کےزمرے میں داخل ہوئے۔
ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ طیب گرہست ایک شاطر مدبر تھے، چناں چہ انھوں نے منہ بھرائی کےلیے عوام کےکچھ نمائندے تو کمیٹی میں رکھ لیے ،لیکن درپردہ اسی کوشش میں رہے کہ نئے مذہب کوفروغ ،اورمذہب اہل سنت وجماعت کا استیصال ہوجائے اور اس کے لیے حالات یوں ساز گار ہوگئے کہ اسی دوران میں ہندوستان کےسیاسی بازی گروں نے یہاں بیٹھ کرخلافت اسلامیہ کی بقا وتحفظ کاجہاد شروع کردیا اور سارے ہندوستان میں چندہ جمع کرکے قسطنطنیہ بھیجنے لگےاور جنگ بلقان کے سلسلہ میں ترکی کی مدد کرنے کا نام ہورہاتھا۔ مبارک پور کی گلی گلی میں:
بولیں اماں محمدعلی کی
جان بیٹا خلافت پر دے دو
یہاں کی بہو بیٹیوں کے گلے اورہاتھ کے زیوراُ تررہے تھے ۔ اس اثنا میں بقرعید کے موقع پر چرم قربانی کی رقم لگ بھگ سات سو روپیے مدرسہ کے فنڈ میں جمع ہوئی۔ اس موقع پرمدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی (کی میٹینگ)ہوئی۔ طیب گرہست نے یہ تجویز رکھی کہ اس وقت خلافت وقوم کی بقا ،مدرسہ کےتحفظ سے زیادہ اہم ہے اس لیے مدرسہ فی الحال موقوف کیاجائے اور اس کی ساری رقم بھی” سمرنافنڈ“ میں بھیج دی جائے۔ خلافت کےنشہ میں پوری قوم سرشار تھی ہی! تجویز باتفاق آرا پاس ہوئی اورمدرسین اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ کچھ دنوں کےبعد یہ صاف نظرآنے لگا کہ بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے اورمولوی محمود (دیوبندی)حسب دستور پڑھارہے ہیں۔
سابق متولی حاجی خیراللہ صاحب دلال مرحوم کابیان ہے کہ میں، حافظ محمدابراہیم، بابوسردار اورمیاں جی بدلونے جب یہ دیکھا تو ہاتھوں کے طوطے اڑگئے، کیوں کہ جیساہرجگہ ہوتاہے یہاں بھی شیطان دولت کے گنبد پرانڈا دےچکاتھا۔ ثروت، گمرہی کے خانے میں منظم ہوچکی تھی اور یہاں کا سرمایہ دار طبقہ مولوی محمود صاحب(دیوبندی) کے فیور میں تھا۔ ہم چاروں نے طیب گرہست سے پوچھا آخر مدرسہ کے اختتام کی تجویز کیاہوئی؟ انھوں نےکہابحال ہے! ہمارا سوال تھا پھر مولوی محمود صاحب کیسے پڑھارہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا مولوی الٰہی بخش صاحب وغیرہ نے نجی طور پرانھیں روک لیاہے۔
اگرتم میں سکت ہوتو تم بھی اپنے طور پر اپنے مولویوں کوبلواکر تعلیم دلواسکتے ہو۔ ہم نے دیکھا ہم خود ہی لاعلمی میں اپناگلا کاٹ چکے تھے اور حریف خوش تھا کہ ان محتاجوں سے کیا ہوسکے گا؟
ہم لوگ یہ جواب سن کر قصبہ کے زمیندار اور رئیس شیخ عبدالوہاب گرہست کے پاس گئے اوران سے سارا ماجرا بیان کیا، یہ خوش عقیدہ آدمی تھے اور مولوی ٘محمود صاحب(دیوبندی) سے کچھ ایسا متاثر بھی نہ تھے انھوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اورہمیں اسی کی ضرورت تھی چناں چہ ہم نے متوکلاً علی اللہ مولوی محمدصدیق صاحب گھوسوی مرحوم ومغفور اور مولوی نور محمد صاحب مرحوم پیش امام جامع مسجد راجہ مبارک شاہ کی خدمات حاصل کیں۔
مدرسہ کی اپنی نجی عمارت توتھی نہیں، اس لیے پہلی جگہ دونوں فریق میں سے کوئی بھی نہیں پہنچا ہماری اس جدوجہد میں چوں کہ سابق الذکر مولوی محمدعمر صاحب سبزی فروش بھی شامل تھے ،جوشاہ عبداللطیف صاحب ستھنی رحمۃ اللہ علیہ سے مرید تھے اورہم سب لوگوں کوحضور مخدوم اشرف جہاں گیر رضی اللہ عنہ کے سلسلے سے تعلق تھا، اس لیے ہم نے اپنی اپنی عقیدت کے اظہار کےلیے مدرسہ کےسابق نام پرمزید دوحرفوں کااضافہ کیا اوراب پورانام مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم ہوا یہ حادثہ ۱۳۲۹ھ کاہے۔
آمدنی کےسارے ذرائع مثلا کوڑی(گولک وغیرہ) پرمبارک پور کےسرمایہ دار(محمود گروپ) ہی چھائے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کس مپرسی کےعالم میں اس کے علاوہ اور کیاہوسکتاتھا کہ مدرسہ کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی کےدن گزار رہاتھا بالکل خانہ بدوشانہ انداز میں، اِس مسجد سے اُس دالان میں، اوراُس دالان سے اِس برآمدے میں ،اِس برآمدہ سے اُس مکان میں، اُس مکان سے فلاں دوکان میں منتقل ہوتا رہا اور یہی حال اس میں علما کی آمد ورفت کابھی رہا —- مولانا صدیق صاحب علیہ الرحمہ کےوصال کے بعد ان کے شاگرد مولوی عبدالحئی اورمولی محمدیحییٰ صاحبان کام چلاتے رہے پھر مولانا عبدالسلام صاحب شاگر د مولانا محمدصدیق صاحب صدرالمدرسین ہوئے۔ ان کے بعد مولانا عبدالمنان صاحب گیاوی مقرر کیے گئے۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد مولانا اکرام الحق صاحب گنگوہی نے مسند صدارت سنبھالی پھر مولوی انیس احمد صاحب سریر آرائے درس رہوئے۔ اسی طرح تقریباً بارہ سال کی مدت میں چھ مدرس آ جا چکے تھے۔
مولانا محمدصدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اس مدرسہ نے ایک دفعہ غیر معمولی ترقی بھی کی ،جب کہ اس کی دومنزلہ پختہ عمارت مولوی محمدعمر صاحب سبزی فروش کی کوشش سے وہیں تعمیر ہوئی تھی،جہاں اب دیوبندی جامع مسجد ہے (آج سے چالیس سال قبل اس مدرسہ کاشمالی مشرقی کونہ باقی تھا جسے میں نے خود دیکھاہے) کسی وجہ سے اس عمارت کابھی یہاں کے عام سنیوں نے بائیکاٹ کیا اوراسی چپقلش میں مدرسہ کےلطیفیہ کالفظ بھی علیحدہ کردیاگیا اوراب صرف مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم رہ گیا اور مدرسہ اسی سابقہ خانہ بدوشانہ زندگی پر قانع رہا جوابتداسے ہی اس مدرسہ کاطرۂ امتیاز تھا۔ تا آنکہ ۱۳۴۱ھ میں رئیس قصبہ جناب عبدالوہاب صاحب نے محلہ پرانی بستی میں ایک خام دومنزلہ عمارت مدسہ کے لیےمخصوص کردی اور تھکے ماندے مسافر کو گویا ایک منزل مل گئی۔
اسی دوران میں مولوی شکراللہ صاحب دیوبند سے فارغ ہوکر آچکے تھے۔ لوگوں میں نیاخون ، دل میں جوان عزائم اورمزاج میں لیڈری کاشوق، بڑی شدومد کےساتھ انھوں نے مبارک پور کو نئی ریت میں بدلنے کاپرشوراقدام کیا، صاحب ثروت کم، ذی اثر زیادہ تھے، اوردولت مند گروپ بھی انھیں کی طرف تھا۔ بہت جلد ہی یہ محسوس ہونے لگا کہ مبارک پور ایک نئے مذہبی دور میں داخل ہونے والاہے۔
مدرسہ الگ ہونے کے باوجود جمعہ ایک ہی جگہ راجہ مبارک شاہ علیہ الرحمہ کی مسجد میں سنی امام حضرت مولانا نور محمد صاحب علیہ الرحمہ کی امامت میں ہوتاتھا لیکن مولوی شکراللہ صاحب موصوف نے کمال عجلت سے اپنا جمعہ علیحدہ کرلیا۔
معدودے چندپرانے خیال کے خوش عقیدہ مسلمان یہ صورت حال دیکھ کر گھُٹ رہے تھے۔ مدرسہ اشرفیہ زندہ ضرور تھا مگر مردہ سے بد تر، امید ٹوٹ چکی تھی اورمستقبل بھیانک ہورہاتھا کہ تاریکیوں میں نور کی کرن جگمگانے والے پرورد گار نےغیب سے انتظام کردیا۔
مبارک پور کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں دنیاوی سربراہی بھی دینی قیادت کےساتھ چلتی ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے افراد مبارک پور کے افق پرآفتاب وماہتاب بن کرچمکے مگر یہ ساری چمک دمک اسی وقت تک رہی جب تک وہ مذہبی قیادت بھی کرتے رہے، جہاں مذہبی سرگرمیوں سے دل چسپی کم ہوئی ،دنیاوی حیثیت سے بھی ایک دم بجھ گئے بلکہ ختم ہوگئے۔
ہوایہ کہ عبدالوہاب صاحب گرہست کاگھرانہ پورے قصبہ میں ممتاز اورپورے ضلع میں ممتاز مسلم گھرانہ تھا اورپورے قصبہ کی سربراہی بھی تقریبا اسی گھر انے کی میراث تھی۔ مولوی شکراللہ صاحب کی سرگرمیوں کے نتیجہ میں اب سیاسی رہنمائی کامرکز ثقل بھی بدل رہاتھااس لیے اس خاندان کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنےکےلیے نہایت ضروری تھا کہ عوامی رابطہ کی طرف توجہ دی جائے۔ ادھر قصبہ کے غربائے اہل سنت مولوی شکراللہ صاحب کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر اپنی کمزوری کی بنیاد پراس امر کی سخت ضرورت محسوس کرتے تھے کہ کسی مضبوط قیادت کےذریعہ مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کی بقا اورترقی اور مذہب اہل سنت وجماعت کے استحکام کو حتمی بنایاجائے۔ الغرض مبارک پور کے سنیوں کوایک لیڈر کی ضرورت تھی جن کی رہنمائی میں یہ لوگ چلیں۔ اس طرح مبارک پور کی سنیت اورمدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم فریقین کے لیے نقطہ اتحاد ثابت ہوا۔ اورحسن اتفاق سے اس خاندان سے جوفرد اس کام کے لیے آگے بڑھا وہ نہایت جری، انتہائی ہوش مند، پرجوش اور متہوّر میری مراد” مرحوم محمد امین صاحب گرہست انصاری“ سے ہے جن کی شعلہ بیانی اور پرجوش قیادت نےتقریباً چوتھائی صدی پورے مبارک پور کوزندہ اور متحرک رکھا۔
افسوس! آج مرحوم ہم میں نہیں، مگر ان کے زریں کارنامے مبارک پور کی پیشانی پرسنہرے حروف سے لکھے ہوئے ہیں۔ ہم دست بدعاہیں مولیٰ عزوجل ان کی روح کوسکون بخشے اوران کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ ہم اُن کواپنے جذباتِ احترام پیش کرتے ہیں کہ مبارک پور میں گرتی ہوئی سنیت کوسنبھالا بلکہ عروج وارتقاء بخشنے والوں میں ان کانام بھی سرفہرست ہے۔
آسماں تیری لحد پرشبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گل کی نگہبانی کرے
۱۳۴۴ھ کے لگ بھگ جناب جناب محمدامین صاحب مدرسہ کےہی نہیں، پورے قصبہ کے سنیوں کے بھی، صدر قرار پائے۔ مدرسہ کےانتظام میں استقلال پیدا ہوتے ہی، اس کے مدرسوں میں بھی قیام وثبات پیدا ہوگیا۔ اور ۱۳۴۶ھ میں مولانا شمس الحق صاحب ساکن گجہڑہ ضلع اعظم گڑھ کاتقرر بمشاہرہ بیس روپے ماہانہ بعہدہ صدر مدرسی ہوا۔ موصوف تھے توفاضل دیوبند ،لیکن مسلسل چھ سال تک نہایت خوش اسلوبی سے مدرسہ کو فارسی اور ابتدائی عربی تک باقی رکھا انھیں کی کوشش سے مولانا علی احمد صاحب، مولانامحمدمحبوب صاحب اشرفی، مولانا محمدحاتم صاحب، مولاناحفیظ الدین تعلیم پاکر اس لائق ہوئے کہ مزید تعلیم وتکمیل کےلیے بریلی، میرٹھ، امروہہ وغیرہ دور دراز مدارس اہل سنت میں گئے اورمدرسہ کےمذہبی کردار پر بھی مولانا نےآنچ نہ آنے دی۔ گویا
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے
اس وقت بھی صدر کمیٹی محمدامین انصاری مرحوم ہی تھے اورورکنگ کمیٹی میں حسب ذیل افراد کےنام دستیاب ہوسکے ہیں:
(۱)حاجی غلام رسول
(۲)حاجی پھیکو صباغ(یہ نہایت دین دار اورحد درجہ امین تھے اور مدت العمر مدرسہ کے خازن رہے)۔
(۳) حاجی عبدالسبحان صاحب سوت والے
(۴)حاجی محمدعثمان صاحب پورہ رانی۔
(۵)قیاس یہ ہے کہ حاجی خیراللہ دلال متولی
(۶) اور(حافظ)محمدابراہیم صاحب متولی بھی ضرور ممبررہے ہوں گے۔
یہاں یہ بات جان لینی بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ خاندان اشرفی سے رابطہ کی وجہ سے مبارک پور کی سنیت کاتعلق پورے ہندوستان کی سنیت سے قائم اور زندہ تھا، بلکہ ہندوستان کے مقتدر علما ےاہل سنت اس کے نگراں، مربی اورسرپرست تھے، سب سے قدیم روداد جو دستیاب ہوسکی ہے، اس میں تحریر ہے:
”دارالعلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم “ اٹھائیس سال سے (۱۴۴۳ھ میں قریباً۱۱۴ سال سے)تعلیمی اور تبلیغی خدمات انجام دے رہاہے جس کے سرپرست شمع شبستان غوثیت حضرت مولاناشاہ ابوالمحامد ،سید محمدصاحب کچھوچھوی دامت برکاتہم وعلامہ زمن، خاتم الفقہا حضرت صدرالشریعہ مولانا شاہ امجد علی قبلہ دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔(رودا د دارالعلوم اشرفیہ،مبارک پور، ۱۳۵۶ھ۔ ۱۳۵۷ھ ص:۴)
اس وقت بھی یہاں کاسالانہ جلسہ پورے علاقہ میں مشہور تھا اور مشاہیر علماے اہل سنت یہاں تشریف لاتے تھے۔ مثلاً شیخ المشائخ اشرفی میاں علیہ الرحمہ، ان کے خلف ارشد مولانا سید احمداشرف عرف بڑے مولاناصاحب، نواسے حضرت محدث اعظم ہند مولاناسید محمدصاحب اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ، حضور صدرالشریعہ حضرت مولانا شاہ محمدامجد علی صاحب، حضرت مولانا محمدفاخر صاحب الٰہ آباد ی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم۔
آخر وہ دن بھی قریب آگئے کہ مبارک پور کورحمت الٰہی کی بجلیوں نے اپنانشیمن بنایا ۔ کچھ تو مولوی شکراللہ صاحب کی مسلسل جارحیت کےرد عمل میں، کچھ مدرسہ کی حالت کے یک گونہ استحکام کے نتیجے میں اورکچھ جماعت اہل سنت میں بھی مقامی علماء(مثلاً مولاناحفیظ اللہ صاحب قریشی رضوی علیہ الرحمہ وغیرہ) کےپیدا ہوجانے کی وجہ سے یہاں کے سنیوں میں زندگی کی نئی حرارت پیدا ہوئی اور مدرسہ کومزید ترقی دینے کاخیال رو نما ہوا جسے یہاں کے ارکان نے اپنے سرپرستوں کی خدمت میں رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۴؍ویں صدی کی دوسری دہائی میں کچھوچھہ شریف ضلع فیض آباد خانوادۂ اشرفیہ کے مشہور شیخ حضرت مولانا سید شاہ علی حسین صاحب (اشرفی میاں) رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک دینی مدرسہ بنام”مدرسہ مصباح العلوم “ قائم کردیا۔
(مفتی عبدالمنان اعظمی (علیہ الرحمہ): مضمون، مدرسہ اشرفیہ سے الجامعۃ الاشرفیہ تک، مشمولہ ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور ، شمارہ مئی ،جون، جولائی ۱۹۸۴ء)
[ماخوذحیات حافظ ملت ص۶۴۶ تا۶۵۵ ]
جناب مہتاب پیامی صاحب مبارک پور کی زبان اور تاریخی عمارتوںکے سلسلے میں رقم طراز ہیں
مبارک پور کی ایک مخصوص عوامی بولی ہے، اس بولی سے قطع نظر عام طور پر اردو لکھنے پڑھنے اور بولنے والے افراد نظر آتے ہیں۔ اردو کی صورت حال یہاں کافی بہتر ہے اور اردو بولنے والے افراد ۹۵ فی صد ہیں۔اردو کے فروغ میں یہاں موجود مدارس و مکاتب کا کافی اہم کردار ہے ، یہاں کے مدارس کا ذریعہ تعلیم اردو ہے جس کے سبب طلبہ کی ایک بڑی تعداد، اردو سے واقف ہوتی ہے۔اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہل مبارک پور کی خدمات لائق تحسین ہیں۔
مبارک پور ایک قدیم صنعتی بستی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کئی ایک تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔یہاں کی تاریخی عمارتوں میں جامع مسجد راجہ مبارک شاہ کافی اہم ہے۔ یہ مسجد راجہ مبارک شاہ کے زمانے سے ہنوز آباد ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ راجہ مبارک شاہ اس مسجد میں نمازِ جمعہ کی امامت کیا کرتے تھے۔ دوسری قدیم عمارتوں میں عید گاہ حیدر آباد اور شاہ کا پنجہ حیدر آباد وغیرہ ہیں جو صدیوں پرانی ہیں ۔ لاہوری اینٹوں اور چونے سے بنی ہوئی یہ عمارتیں مغلیہ عہد کی یاد گار ہیں۔ عید گاہ حیدر آباد میں اب بھی عید ین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ شاہ کا پنجہ نامی عمارت میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پنجۂ مبارک کا نشان محفوظ ہے۔ یہ کس طرح مبارک پور پہنچا اس کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہے۔البتہ عمارت کے گنبد اور طرزِ تعمیر سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ بھی مغلیہ دور کی یادگاریں ہیں، ان میں وقتاً فوقتاً تعمیراتی مرمت کے کام کیے جاتے رہے ہیں۔
ایک اہم اور قابلِ ذکر تاریخی عمارت قدم رسول (ﷺ)ہے جو مبارک پور کے قلب میں واقع ہے۔ یہ عمارت مغل بادشاہ شاہ جہاں کے عہد میں تعمیر کی گئی۔
مغلیہ دور کی ایک اور یادگار عمارت معروف بہ شاہی مسجد موضع گجہڑا میں واقع ہے ۔ مبارک پور کی یہی قدیم ترین آبادی بھی ہے۔ اس کا ابتدائی نام جو ہندو مذہب کی مذہبی کتابوں اور بدھ مذہب کے لٹریچر میں ملتا ہے وہ ہے ’’گجی ہارا‘‘۔ گجی ایک قسم کا کپڑا ہوتا تھا جو ہاتھ سے بنا جاتا تھا۔ دو ہزار سال قبل یہاں اس کپڑے کی بنائی ہوتی تھی شاید اسی وجہ سے اسے گجی ہارا جاتا تھا۔ ’’گجی ہارا‘‘ نامی بستی امتدادِ زمانہ کے باعث ترقی کے دوڑ سے پیچھے ہو چکی ہے۔ اِن دنوں اسے گجہڑا کہا جاتا ہے۔
عہدِ شاہجہانی میں یہ علاقہ کفرستان تھا سب سے پہلے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولادوں میں سے حضرت سید کمال الدین عرف بندگی شاہ کمال تبلیغِ دین کے لیے گجہڑا تشریف لائے۔ آپ کے صاحب زادے محمد صالح جو حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں تھے، انھوں نے یہاں کی شاہی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ مسجد چونے اور لاہوری اینٹوں سے بنی ہوئی
ہے، اور طرزِ مغلیہ طرزِ تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مسجد کے تین گنبد ہیں، درمیانی گنبد بڑا ہے۔ مسجد کے بیرونی دروازے کے اوپر سنگِ موسیٰ کا ایک کتبہ لگا ہوا ہے۔ جس پر ابھرے ہوئے حرفوں میں قطعہ کندہ ہے۔ اس قطعہ سے اس کا سنِ تعمیر ۱۰۹۹ھ معلوم ہوتا ہے۔
گجہڑا کی یہ شاہی مسجد آج بھی مولانا سید انیس الحق صاحب کے تولیت میں محفوظ ہے۔ آپ حضر ت بندگی شاہ کمال کے خاندان سے ہیں۔
(بہ شکریہ ،آزاد دائرۃ المعارف، اردو ویکی پیڈیا، ملخصاً و تصرفاً)
مبارک پور کی چنداہم عمارتیں
قدم رسول : غالباً شاہ جہانی دور کی یادگارہے۔
الجامعۃ الاشرفیہ: (عربی یونیورسیٹی)سنگ بنیاد۱۳۹۲ھ ۱۹۷۲ء۔ افتتاح ۱۳۹۳ھ۱۹۷۳ ء
روضہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ:الجامعۃ الاشرفیہ؍عربی یونیورسیٹی( ولادت ۱۳۱۲ھ۱۸۹۴ء ، وصال یکم جمادی الآخرہ ۱۳۹۶ ھ ، ۳۱؍ مئی ۱۹۷۶ ء)
دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح العلوم: باغ فردوس ۱۳۵۳ھ، گولہ بازار۔
مدرسہ اشرفیہ (پرانا مدرسہ): پرانی بستی، تعمیر جدید ۱۴۱۲ھ؍ ۱۹۹۱ء
اشرفیہ انٹرکالج: بمقام انجمن اشرفی دارالمطالعہ
المجمع الاسلامی: ملت نگر ، مبارک پور۔ یہ تصنیف و اشاعت کا ایک عظیم قومی ادارہ ہے
مبارک پور کی مساجد
یہاں الحمدللہ مساجد کی بھی خوب کثرت ہے ایک ایک محلہ میں کئی کئی مسجدیں ہیں جوقصبہ کی دینداری اور مذہبی لگاؤ کی طرف واضح اشارہ دیتی ہیں، نمونۃً چند مساجد کے نام حسب ذیل ہیں۔
شاہی مسجدگجہڑا: ۱۰۹۹ھ بزمانہ حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ (مسجد کے باہرحضرت سید کمال الدین شاہ بغدادی علیہ الرحمہ کا مزار مبارک ہے)
عزیز المساجد: الجامعۃ الاشرفیہ (یونیوسیٹی) مبارک پور، یہ اس علاقے کی سب سے بڑی، نئی خوبصورت جامع مسجد ہے
جامع مسجد راجہ مبارک شاہ:پرانی بستی،متعلقہ الجامعۃ الاشرفیہ۔(تعمیر جدید ۱۳۷۰ ھ ۱۹۵۱ء)
عید گاہ ، شاہ کا پنجہ، حیدر آباد: صدیوں پرانی تاریخی مسجد ہے۔
عید گاہ علی نگر: یہ قدیم تاریخی مسجد ہے
قادری جامع مسجد: علی نگر
عزیزی جامع مسجد: علی نگر
مسجد حافظ ملت (مسجد کمال بابا:پرانی بستی، اسی مسجد میں حافظ ملت علیہ الرحمہ ، نماز ادا فرماتے تھے ،اور اُنھیں کے نام سے یہ مسجدمشہور ہے۔
مسجد برکات: پرانی بستی
کنگرہ مسجد :پرانی بستی، یہ مسجد حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ کے پڑوس میں ہے، جب وہ رہتے، اسی کنگرہ والی مسجد میں نماز ادا فرماتے۔
مسجد بلال :لال چوک، پرانی بستی
مدینہ مسجد: لال چوک، کھجوا،پرانی بستی
مسجد عائشہ صدیقہ: کھجوا ،پرانی بستی
مسجد سبزی منڈی :گولہ بازار
مسجد نادرجی : پورہ خواجہ، حضرت ممتاز العلما علیہ الرحمہ جب رہتے تو اسی مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے۔
مسجد طیبہ :پورہ خواجہ
مسجد اعلی حضرت :کٹرہ
جامع مسجد: کٹرہ
مسجد حفصہ: کٹرہ
مسجد غوث الوری :نئی بستی ،کٹرہ
مسجد عمر فاروق :پورہ دیوان
جامع مسجد مبارک بابا: پورہ رانی
مسجد غوثیہ :پورہ رانی
جامع مسجد بیلوریا: پورہ صوفی
مکہ مسجد :پورہ صوفی
مدینہ مسجد: پورہ صوفی
پانا شاہ مسجد : پورہ صوفی
جامع مسجد سبحانی: حیدرآباد
جامع مسجد صدیق اکبر:پورہ دولھن، متعلقہ الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور
جامع مسجد: پورہ باغ
جامع مسجد عائشہ: حیدرآباد
جامع مسجد بیت المکرم: نیا پورہ،
وغیرہ
مبارک پور کی چند مشہور انجمنو ں کے نام
۱۔انجمن اہل سنت و اشرفی دار المطالعہ: (قیام ۱۳۵۵ھ؍۱۹۳۶ء)یہ دارالعلوم اشرفیہ کے طلبہ کی قائم کردہ سب سے قدیم انجمن ہے، اسی انجمن کے زیرِ اہتمام مبارک پور میں عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جلسہ وجلوس کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔
۲۔انجمن رحمانیہ:پرانی بستی
۳۔انجمن غوثیہ: پرانی بستی
۴۔ انجمن مظہر حق: علی نگر
۵۔انجمن اسلامیہ:لال چوک ، پرانی بستی
۶۔انجمن فیضان عزیزی:پورہ خواجہ
۷۔ انجمن مظلومیہ: پورہ خضر
۸۔انجمن رونقِ اسلام:پورہ باغ
۹۔انجمن ملتِ اسلامیہ: پورہ صوفی
۱۰۔انجمن اخلاقیہ: حیدرآباد
۱۱۔ انجمن تنویر الاسلام: نیا پورہ
۱۲۔انجمن عزیزیہ: پورہ صوفی
۱۳۔انجمن گلزارِ مصطفی: پولیس چوکی
۱۴۔انجمن غنچۂ ہاشمیہ: پورہ صوفی
۱۵۔تنظیم ادب:کٹرہ
۱۶۔انجمن فروغِ اسلام: پورہ دیوان
۱۷۔انجمن باغِ رسول: گولہ بازار
۱۸۔انجمن باغِ فردوس: گولہ بازار
۱۹۔انجمن فیضان مصطفی: پورہ دیوان
۲۰۔انجمن قادریہ: علی نگر
۲۱۔انجمن اظہار اشرف: پورہ صوفی
۲۲۔انجمن گلشنِ رضا: پورہ دولھن
وغیرہ۔
چند اسپتالوں کےنام
سرکاری اسپتال: مبارک پور
اشرفیہ ہاسپیٹل: جامعہ اشرفیہ (یونیورسیٹی)
اسلامیہ ہاسپیٹل :(یتیم خانہ) پورہ ، خضر
محمدی ہاسپیٹل:کٹرہ
صبا ہاسپیٹل :سمودھی ،نیا پورہ
وغیرہ
دعا ہےکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا یہ علمی نگر شاد وآباد رہے اوراللہ عزوجل مسلمانان مبارک پور کو خوش حال وسلامت رکھے ۔ آمین ،بجاہ حبیہ سید المرسلین، علیہ وعلی اٰلہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم

احمد القادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی آف امریکا
مآخذ و مراجع
ذاتی مشاہدات
زبانی معلومات ازجناب حافظ ہلال احمد صاحب، پرانی بستی و دیگر احباب
حیاتِ حافظ ملت
ماہنامہ اشرفیہ، مبارک پور
مناقبِ غوثی
تذکرہ ٔعلمائے مبارک پور
آزاد دائرۃ المعارف ، اردو ، ویکی پیڈیا
دیگرانٹر نیٹ ؍ ویب سائٹس

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

مزید
مینو