بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ، نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْم
’’حافظ ملت کی سیاسی بصیرت‘‘
سیاست کا لغوی معنی انتظام ،معاملات کی نگہداشت ،تدبیرملکی ،سربراہی ،پالیسی، حکمتِ عملی ۔
سیاسی :سیاست داں ، سیاست میں حصہ لینے والا۔
حافظِ ملت علیہ الرحمہ: اس بزرگ، وجلیل القدرشخصیت کا نام ہے ، جن کے بچپن ، جوانی، بڑھاپا، طالبِ علمی اور زمانۂ تعلیم وتدریس جس دَور کوبھی دیکھاجائے درخشاں وتابندہ نظر آتا ہے ۔
’’حافظِ ملت‘‘ اس درد مندِ قوم کا نام ہے، جس نے اپنی زندگی کی ساری توانائیاں قومِ مسلم کیلئے وقف فرمادیں ۔
’’حافظِ ملت‘‘ علم وشعور کے اس عاشق صادق کا نام ہے ،جس نے علم وفن کے حصول اوراس کی تر ویج واشاعت میں اپناتن من دھن سب قربان کردیا۔
’’حافظِ ملت‘‘ اس محبِّ رسول( ﷺ) کانام ہے، جو اپنے رسول( ﷺ)کی ہرہراداپہ جان قربان کرنے کے لئے ہمیشہ سرگرداں رہے ۔حکم ِرسول (ﷺ )کے آگے ہمیشہ ان کی پیشانی خم رہی۔ طاعتِ رسول (ﷺ ) سے ، بال برابر، تجاوزوانحراف کرتے ہوئے انہیں، نہیں دیکھاگیا۔
’’حافظِ ملت‘‘ اس رہنمائے قوم کا نام ہے جس نے ہمیشہ اپنی قوم کو سر بلند دیکھنے کے لئے مخلصانہ جِدُّوجَہد میں عمرعزیزصرف کردی ۔
’’حافظِ ملت‘‘ بے شمار خوبیوں کے مالک، بے پناہ صفات کے جامع، بے شمار خصوصیات کے حا مل ہیں، ان کی ہر خوبی، ہر صفت، اس لائق ہے کہ اس پر بہت کچھ لکھا جائے۔
’’حافظِ ملت‘‘ کی زندگی کا جو گوشہ، میں زیرِعنوان لاناچاہتا ہوں وہ حافظ ملت کا سیاسی تدبرہے ۔
’’حافظ ملت‘‘ کو اس صفت کے ساتھ کم لوگ پہچانتے ہیں ۔کچھ لوگ توسیاست کو مذہب سے جداتصور کرتے ہیں۔وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اہل مذہب کو، سیاست سے الگ رہناچاہئے۔آج کل کے کچھ سیاسی افراد سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مذہب کو دور ہی سلام کرتے ہیں ۔اور مذہب پر ثابت قدمی کو سیاست کادشمن سمجھتے ہیں ۔
ایک اخبار میں اپنے کو سیاست کا ٹھیکیدار سمجھنے والے ایک لیڈر کا بیان جب میری نظر سے گزراتو میں متحیررہ گیا۔ وہ لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سیاست ہے مذہبی رہنمااور مولویوں کو اس سے کیا کام ،انہیں قطعاًسیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے ، نہ انہیں اس سلسلے میںکوئی مشورہ دیناچاہئے۔
اس طرح کا خیال رکھنے والے افراد کو میںباور کراناچاہتا ہوں کہ قطعاًمذہبِ اسلام سے، سیاست وحکومت جدانہیں،کسی اور مذہب سے جداہوتوہو۔اسلام ہر گزاپنے ماننے والوںکو سیاست وحکومت سے الگ نہیں کرتا۔
بے شمار قرآنی آیات ،احادیث کریمہ ،اقوالِ صحابہ وتابعین، فرموداتِ سلَف وخلَف ،سیاست وحکومت کی جانب رہنمائی کرتے ہیں، اور اپنے متبعین کو اس کے صحیح طریقۂ کار سے روشناس کراتے ہیں ۔
خود نبی اکرم تاجداردوعالم ﷺنے حکومتِ اسلامی کی داغ بیل ڈالی اور سیاست وحکومت کا سچاطریقہ سکھایا۔سرکاردوعالم ﷺکے جانشین صحا بۂ کرام (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)نے دورِخلافتِ راشدہ میں اسلامی سیاست وحکومت کو کہاں سے کہاں تک پہونچادیا۔
امیر المؤمنین ،حضرت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف مثال میں لے لیجئے۔ان کی سیاست سے دنیاکی بڑی بڑی حکومتیںتھرا اٹھیں۔اسلام کاجھنڈا ،عرب کے صحراسے نکل کر قیصروکسریٰ کے محلات پرلہرانے لگا۔
حضرت عمر بن عبد العزیزاموی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ،ایک جلیل القدرعا لم اور محدث ہونے کے باوجودخلافت کی باگ ڈوراپنے ہاتھوں میںلے کراپنی بے مثال اصلاحات، دنیاکے سامنے پیش کرکے یہ ثابت کردیاکہ درحقیقت اسلامی سیاست ہی انسان کو اطمینان وسکون دلاسکتی ہے ۔
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے خلیفۂ خاص حضرت قطب الدین بختیارکا کی، کی خانقاہ کے ایک تربیت یافتہ سلطان شمس الدین التمش نے سرزمینِ ہند پر سلطانی کرکے، کیا یہ یقین نہیں دلایا؟کہ کسی خانقاہ کاتربیت یافتہ ادنی غلام بھی ،جہاں بانی کے وہ جوہر دکھاسکتاہے جہاں بڑے بڑے مذہب بیزار لیڈران، پہنچنے کاخواب بھی نہیں دیکھ سکتے ۔
اسلام اور سیاست ، ایک مستقل عنوان ہے، جس پر کوئی قلمکار اپنے قلم کو جنبش دے توبے شمار مواد،اکٹھاہوسکتے ہیں ۔
میں اس وقت صرف حافظِ ملت کی سیاسی بصیرت پرگفتگو کرناچاہتاہوں اور اس خیالِ خام کی تردیدکرتاہوں جومذہبی رہنماکوسیاست سے الگ کرنے کا حامی ہے ۔
قوم مسلم کو جب بھی جس قسم کی ضرورت پیش آئی، حافظ ملت نے ان کی دستگیری فرمائی ،اسی طرح سیاست میں بھی اپنی قوم کوراہ راست پرلگانے سے دلچسپی لی اور مستقل سیاست میںحصہ لیا۔بلکہ حافظِ ملت نے ہندوستانی سیاست پرایک مستقل رسالہ’’الارشاد‘‘کے نام سے تصنیف فرمایا۔
میں اِس وقت آپ کو ہندوستان کی سیاست کے اس موڑ پرلے جاناچاہتاہوں جوحصولِ آزادی کے نام سے جاناجاتاہے ۔ ۱۹۴۷ءسے قبل ہندوستان نے سیاست کے بڑے بڑے کھیل دیکھے ہیں ۔کہیں تحریکِ خلافت تھی، توکہیں ترکِ موالات ،کبھی کانگریس ، تنہا ہندومسلمان دونوںکی نمائندگی کادعوٰ ی کرتی تھی، توکبھی مسلم لیگ صرف مسلمانوںکی قیادت کادم بھرتی تھی ۔ غرض کہ اس موڑ پر ہر فن کارِسیاست، مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کی فکر میں تھا۔اس موقع پرحافظِ ملت نے کس طرح قوم کی رہنمائی کی ،اس کا ایک عکس آپ کے سامنے پیش کررہاہوں ۔
حصول ِآزادی کی کوشش اور مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے ’’آل انڈیاسنی کا نفر نس ‘‘ کاانعقادعمل میںآیا۔اس تنظیم نے سیاست اور حصول آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔اس سے متعلق اپنی جدوجہدکے بارے میں حافظِ ملت یوں رقمطراز ہیں :
’’یہ خادم ،اپنے عقیدتمندانہ جذبات کے ساتھ، سنی کانفرنس کی خدمت کے لئے تیارہوا ۔ حسب الحکم حضوروالا(محدث اعظم حضرت مولانا سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ) مبارک پورمیںضلع سنی کانفرنس قائم کی ۔اطراف میںاس کی شاخیں پھیلائیں نہایت جدوجہدسے کام ہوا۔چنانچہ ڈھائی ہزارسنی مسلمان باضابطہ اس کے ممبربنائے۔ (الارشاد ص۱۶)
اس وقت ہندوستان میں دو عظیم سیاسی جماعتیں ابھر کر سامنے آئیں ’’انڈین نیشنل کانگریس ‘‘ اور ’’مسلم لیگ ‘‘ باقی سبھی چھوٹی جماعتیں ان میں سے کسی کے ساتھ ضم ہو گئیں ۔
کانگریس کا دعویٰ ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے چھڑا کر ہندو ، مسلم ،سکھ ، عیسائی ، سبھی ہندوستانیوں کی ملی جلی جمہوری حکومت کاقیام تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ ہندو مسلمان مل کرانگریزوں کو بھگائیں، انھیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیں ۔اورملک کوان کی غلامی سے نجات دلائیں۔
انگریزوں کو ہٹانا تنہا کانگریس کے بس کی بات نہ تھی ،نہ وہ اپنے اند ر سکت ہی پارہے تھے، اس لئے مسلمانوں کا سہارا لیا۔
ادھر مسلم لیڈر ان نے مسلم لیگ کے نام سے الگ ایک تنظیم بنائی ۔بہت سے مسلمان تو پہلے ہی سے کانگریس کے خلاف تھے، ان کی دو رخی پالیسی کا پہلے ہی سے تجربہ حاصل ہوچکا تھا، مگر کوئی سیاسی تنظیم ابھرکر سامنے نہیں آئی تھی ،لیگ کی آواز بلند ہوتے ہی مسلمان لیگ میں، فوج در فوج داخل ہونے لگے، لیگ میں مسلمانوں کی شمولیت کا اندازہ ذیل کی تحریر سے لگایا جاسکتاہے۔
حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اُس وقت کی عکاسی اپنے الفاظ میں یو ں کرتے ہیں :’’ وہ مسلمان جو کانگریس کے خلاف مصروف ِعمل ہونے کے لئے بے چین تھے ،مسلم لیگ کی طرف ٹوٹ پڑے اور انتہائی جوش و خروش کے ساتھ اس کی تائید و تقویت کرنے لگے ، تھوڑے ہی عرصہ میں ہندوستان کے طول وعرض میں لیگ پھیل گئی اور اس شان سے پھیلی کہ بہیتری خانقاہوں سے مشائخِ کرام تسبیح ومصلّٰی، پھینک پھانک کر اس کی صف میں آنے لگے ۔ بہتیرے مدرسوں سے علماء بغلوں میں قرآن و حدیث دبائے ہوئے د و ڑ پڑے ۔ (اشک رواں ص۲۰)
لیگ کی جانب اس دوڑ میں سنی کانگریس کے نمائندے بھی شامل ہوئے ۔ انہوں نے اپنی تحریر و تقریر ، تدبیر و تجویز جان و مال ، ہر طرح سے لیگ کی حمایت کی ۔لیکن بھلا ہو سنی کانفرنس کے ضلعی نمائندے حافظ ملت علیہ الرحمہ کا اُن کی دور بیں نگاہوں نے لیگ کو فوراً بھانپ لیا ۔کہ لیگ، کانگریس سے جدا کوئی نظر یہ نہیں رکھتی ۔ اسلامی حکومت کا قیام ، ان کا مقصد بھی نہیں، جو فرق ہے وہ صرف دکھاوے کاہے۔
کانگریس اور لیگ میں یکسانیت : کانگریس کاخیا ل تھا کہ تمام ہند و ستا نیو ں کی ملی جلی ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آئے جس میں مذہب ، ذات ، رنگ و نسل کا کو ئی امتیاز نہ ہو ۔
لیگ کاخیال تھاکہ ہندوستان سے الگ، بنام پاکستان ایک جمہوری حکومت وجود میں آئے ،
جس کی تشریح ، مسڑ محمد علی جناح صاحب نےیو ں کی ۔
’’پاکستان میں حکومت الٰہیہ ہر گز قائم نہیں ہو سکتی ــ، پاکستان ایک جمہوری اسٹیٹ ہو گا ۔ جس میںغیر مسلموں کا بھی حصہ ہو گا ۔ پاکستان میں کٹھ ملائوں کی حکومت نہیں ہوگی ۔
(الارشادص۱۷)
دونوں نظریات پر غور کیا جائے ۔ دونوں میں کیا فرق ہے؟ دونوں جمہوری اسٹیٹ، اورلادینی حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں ، دونوں سیکولرازم کے خواستگار ہیں ۔ دونوں میںکوئی بھی اسلامی نظامِ حکومت کاخواہش مند نہیں ۔
حافظِ ملت کی دور بیں نگاہیں اسی وقت دیکھ رہی تھیں اور قیام پاکستان کےمنصوبے کو بخوبی سمجھ رہی تھیں ۔ کہ یہ صرف سیاسی قیادت کی جنگ ہے ۔ نہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوگی نہ ہندوستان میں ۔ کانگریسی کھل کر جمہوریت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں اور اہل لیگ اسلام کالیبل چسپاں کرکے جمہوری اسٹیٹ قائم کرنے کی فکر میں ہیں۔
اسلامی نظام اورجمہوری نظام میں کتنا عظیم فرق ہے۔ اہل علم پرمخفی نہیں ۔
بانیان پاکستان نے بڑے زور و شور سے اسلام اور مسلمان کا نعرہ بلند کیا، جس کے نتیجے میں یقیناً پاکستان بن گیا۔ مگر یہ بتایا جائے کہ کیا وہاں اسلامی حکومت قائم ہوگئی ؟ کیا وہاں کے مسلمان مطمئن ہو گئے ؟ کیا وہاں احکامِ اسلا م جاری ہوگئے ؟ وہاں نظام مصطفیٰ نافذ ہوگیا؟ کیا وہاں اسلامی احکام بر سر عام پامال نہیں ہورہے ہیں ؟
اسلام کے نام پر لیگیوں کی حمایت ان کے ہر کردارو عمل کی حمایت تھی ۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جان قربان کردی مگر یزید کی حمایت کے لئے تیار نہ ہوسکے تو انہیں کا ایک شیدائی و فرما ںبردار عاشق ، ملت کا نگہبان کیسے ان کی حمایت کرتا؟
سنی کانفرنس کے نمائندوں نے لیگ کی بھر پور حمایت و تائید کی ،اُس دور میں لیگ کے نیتائوں کو اسلام کا نمائندہ تصور کیا جاتا تھا ۔
حافظ ملت بھی سنی کانفرنس کے خصوصی نمائندہ تھے ،اگر سنی کانفرنس خود خالص مسلمانوں کانمائندہ بن کر اسلامی اسٹیٹ کی کوشش کرتی توحافظِ ملت یقیناً ان کے شانہ بشانہ نظر آتے جیسا کہ ان کی تحریروں سے ظاہر ہے ۔ لیکن اس وقت لیگ کے ساتھ لوگوں کا اعتقاد راسخ تھا، حافظ ملت کی باتوں پر کیوںکر کوئی کان دھرتا۔
سنی کانفرنس نے بھی لیگ کی پرزور حمایت کی ۔ لیکن خود لیگ نے اس کو بالکل نظر انداز کردیا۔ سنی علماء و مشائخ کو کہیں بھی نمائندگی نہیں دی گئی ۔ لیگ میں سنیوں کی حیثیت کیا تھی اس کانقشہ ایک مقام پر حافظ ملت نے یوں کھینچا ہےـ:
سنیوں کاکام یہ ہے کہ لیگ کے جھنڈے اٹھائیں ، لیگی لیڈروں کاشاندار استقبال کریں،مسلم لیگ زندہ باد ، قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگائیں ۔ لیگ کے جلسوںکا پنڈال سجائیں ۔ کمر بستہ ہو کر جگہ صاف کریں ۔ فرش بچھائیں ، لیگ کے جلسوں کو خو ب کامیاب بنائیں ۔ الکشن میںلیگ کا ورک کریں ۔ خوب دوڑ دھوپ کریں ، بڑی جد و جہد کے ساتھ سنی مسلمانوں سے لیگ کے لئے بڑے بڑے چندے کریں ، لیگی نمائندوں کی کامیابی کے لئے گراں قدر رقمیں صرف کریں ۔ ہر امکانی کوشش ختم کرکے لیگ کو کامیاب بنائیں ۔ اور بس ۔ (الارشاد ص ۸)
غیر سنیوں کا حال یہ ہے کہ : ’’ وہ لیگ میں فرماں رواہیں ۔ حاکم ہیں ، مخدوم ہیں ، سنی اکثریت کی تمام خدمات انہیں کے اعزاز و اقتدار کی نذ ر ہیں ، وہ مختار ہیں، سیاہ سفید کے مالک ہیں ۔ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ۔ (الارشاد ص۱۴)
جس وقت لیگی لیڈروں کو عام مسلمان مذہبی اور روحانی مسیحا خیال کرتے تھے اور ان سے اسلامی حکومت کی خام توقع وابستہ کئے تھے اس موقع پر حافظ ملت کی سیاسی بصیرت کا ایک ایمان افروز بیان ملاحظہ فرما یئے:
’’جب الکشن کا دور شروع ہوا ۔ کارکنان سنی کانفرنس نے لیگ کی حمایت شروع کردی ، منفرد اً مجتمعا ہر طرح لیگ کی تائید کرتے رہے۔ بڑے بڑے عمائد کانفرنس نے، پوری طاقت سے لیگ کا ورک کیا ، چنانچہ ان کی محنتوں کا نتیجہ یہ شائع ہوا کہ لیگ کی نوے فیصد کامیابی کا سہرا سنی کانفرنس کے سر ہے ۔ کارکنان سنی کانفرنس کی اس لیگ نوازی سے خادم متاثر ضرور تھا ،تاہم اس کی تاویل کرتا تھا اور اس کو ان حضرات کی شخصی اور مقامی خصوصیت پر محمول کرتا تھا ۔ یہ خیال کرتا تھا کہ سنی کانفرنس بنارس کے اجلاس میں اس کی تلافی ہو جائیگی مگر بنارس کے اجلاس کا دعوت نامہ آیا تو اس میں مقاصد سنی کانفرنس میں پاکستان اور لیگ شامل ہے۔
اگر چہ پاکستان کی تفسیر بایں الفاظ ہے‘‘۔
’’آئین شریعتِ اسلامیہ کے مطابق فقہی اصول پر ایک آزاد بااختیا ر حکومت کا مطالبہ ‘‘ لیکن سنی کانفرنس کی طرف سے یہ الفاظ پاکستان کے لئے صرف دعائیہ ہو سکتے ہیں بطور مطالبہ ہرگز نہیں ۔اس لئے کہ پاکستان لیگ کا مطالبہ ہے جو تمام مسلمانوں کی واحد نمائندگی کی مدعی ہے۔ اور سنی کانفرنس نے اپنی تائید سے لیگ کے اس دعوے کو حکومت برطانیہ سے منوا دیا ہے، لہذا اگر سنی کانفرنس کی تائید و حمایت سے بالفرض پاکستان ملا بھی تو لیگ کو ملے گا اور وہ لیگی پاکستان ہوگا ۔ جس کی تشریح مسٹر جناح نے بارہا کی ہے پاکستان مین حکومت الٰہیہ ہرگز قائم نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔۔پاکستان ایک جمہوری اسٹیٹ ہو گا ۔ جس میں غیر مسلموں کا بھی حکومت میں حصہ ہوگا ۔
لیگی اخبار تنویر ۱۲؍اپریل (۱۹۳۹ء) میں ہے ۔ قائد اعظم نے کہا، پاکستان میں کٹھ ملائوں کی حکومت نہیں ہو گی ، لہذا اب پاکستان کی وہ تفسیر جو سنی کانفرنس کر رہی ہے کیا معنی رکھتاہے ؟ اگر کوئی معنی ہو سکتاہے تو یہ کہ اس تفسیر سے مسلمان متاثر ہو کر حمایت پاکستان میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں پیش کریں ۔ اور بس۔ (الارشادص ۱۶،۱۷)
لیگیوں کے ایک پرانے لیڈر راجا محمود آباد نے اپنے بیان میں یوں کہا ۔۔۔’’افسوس ہے کہ آج چالاکی سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کے سوالات اٹھاکر مسلمان میں نااتفاقی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اسلام میںکوئی اختلاف نہیں ۔ مگر ہاں سیاست میں ہے، آج مذہب کے نام سے لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔۔۔ہمارے مولوی مولانا کہلانے والے ہم کو ملیا میٹ کررہے ہیں ۔انہوں نے مذہبی دوکانیں کھول رکھی ہیں ۔ ان سے ہم کو بچنا چاہئے۔
(روز نامہ اخبار انصاف بمبئی مورخہ ۱۳؍جولائی ۳۹ ۱۹ ء نمبر ۱۱۰حاشیہ الارشاد ص ۱۷ ، از علامہ مفتی محمد شریف الحق صاحب امجدی )
سنی کانفرنس نے جب پاکستان کے لئے ’’آئینِ شریعت اسلامیہ کے مطابق فقہی اصول پرایک آزاد بااختیار حکومت کے مطالبہ ‘‘ کا اعلان کیا تو حافظ ملت نے اسی وقت کتنا صاف صاف بیان کردیا کہ سنی کانفرنس کی طرف سے یہ الفا ظ پاکستان کے لئے صرف دعائیہ ہو سکتے ہیں بطور مطالبہ ہرگز نہیں ۔ پھر آنے والے وقت نے یہ ظاہر کردیا کہ یقینا ًپاکستان اسلامی حکومت نہیں بلکہ لیگی حکومت ہے اور ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی حدیثیں اور صحابہ کرام و ائمہ مجتہدین کے اقوال پیش کرنے والے شخص کو نا اتفاقی پھیلانے والا ، اختلاف کرنے والا کہہ کر اس طرح نظر انداز کیاگیا، کہ سنی کانفرنس کے ارکان بھی دنگ رہ گئے ۔
لیگ نے مسلمانانِ اہلِ سنت کے عقائد و نظریات پر کس قد ر برا ، اثر ڈالااس کا ایک مقام پر حافظ ملت نے یوں ذکر کیا۔
’’جس کے زہر یلے نتائج مذہب پر،اس قدر اثر انداز ہوئے کہ تصلب فی الدین کا خاتمہ ہوگیا۔ اور اس کی خوش عقیدگی ،لیگ سے اس قدر بڑھی کہ خواہ قادیانی ہو یا رافضی ، دیوبندی ہو یا خارجی اگر وہ لیگی ہے سنی مسلمان اس کی تعظیم و توقیر کے لئے تیار ہیں ۔
مبارکپور کے سنی اپنی مذہبی خصوصیت میں ممتاز تھے مگر لیگ کی خوش عقیدگی نے ان سےاشرف علی تھانوی کے خلیفہ ظفر احمد تھانوی (دیوبندی)کا استقبال کرایا اس کالکچر سنوایا ۔ اس کے پیچھے نماز پڑھوائی ، اس کے پیر کے موزے دھلوائے ۔ غرضیکہ بڑی دھوم سے اس کی تعظیم و تکریم کرائی ۔۔۔۔ اگر مسلمانان مبار ک پورپر لیگ کابھوت سوار نہ ہوتا تووہ ہرگز ایسانہ کرتے ۔(الارشاد ص۱۸)
لیگ کے اِن سیکولر اثرات سے متاثر ہونے اور اس کے عواقب و انجام پر غور وفکر کرنے کے بعد آخر کار حافظ ملت نے ۱۳؍جمادی الاولیٰ۱۳۶۵ھ مطابق ۱۶؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو سنی کانفرس کی لیگ نوازی کی بنیاد پراس کی نمائندگی سے استعفا ء پیش کردیا۔ تقریر اً و تحریر اً ہرطرح، ناراضگی اور برأت کا اظہار فرمایا ۔
حافظ ملت میں دور اندیشی ، معاملہ فہمی ، نکتہ سنجی ،انجام رسی ، قوت فکر ، مستقبل پرنظر حد درجہ تھی ۔ بعض پیش گوئیوں کو توآپ اِس اذعان و یقین سے بیان کرتے کہ گویا لوح محفوظ پر دیکھ لیاہے ۔ معاصرین میں سے کسی کی جہاں گہرائی و گیرائی تک سوچ بھی نہیں پہونچ سکتی حافظ ملت کی نظریں وہاں جمی رہتیں ۔
آج کل کی سیاست، مذہب بیزاری ، دروغ گوئی ، کذب بیانی ، وعدہ خلافی ، مکروفریب ، ظلم وستم ، جبر واستبداد ، ناانصافی ، رشوت ستانی ، غرضیکہ بیشمار برائیوں کا پیش خیمہ ہے اور سیاست کی خوبیاں ان برائیوں کے ساتھ اس طرح حلول کرگئی ہیں کہ اچھے اور برے سیاسی نیتائوں کو پہچاننا دشوارہی نہیں بلکہ نا ممکن ساہوگیا ہے۔ جس کو لوگ رہبر سمجھتے ہیں رہزن نکل جاتاہے ۔ لیکن ۔ حافظ ملت ان نیتائوں کی خوبیوںاور خامیوں کے پرکھنے میں ید ِطولیٰ رکھتے تھے اور دودھ کادودھ ، پانی کاپانی الگ کردینے پر انھیںبے پناہ قدرت حاصل تھی۔
حافظ ملت کاخیال تھا کہ سنی کانفرنس تمام سنیوں کی حمایت سے خود اپنے طور پر اسلامی حکومت کا مطالبہ کرے ۔ لیگ میں ہرگز شامل نہ ہو، نہ اس کی حمایت کرے ۔ یہ کوئی مشکل نہ تھا یہ فیصلہ کثرت تعداد کی بنیاد پر مبنی تھا اور سنیوں کی کافی اکثریت موجود تھی، اس وقت سنیوں کی اکثریت کا اندازہ ذیل کے جملوں سے لگایاجا سکتاہے۔
’’مسلمانانِ اہل سنت کی اتنی اکثریت ہے کہ اگر ایک دم سارے سنی مسلمان خلافت کمیٹی ( یا مسلم لیگ ) سے نکل جائیں تو کوئی مجھے بتادے کہ خلافت کمیٹی ( یا لیگ ) کسے کہا جائے گا ؟ اس کادفتر کہاں رہے گا ؟ اس کا جھنڈا سارے ملک میں کو ن اٹھائے گا ؟ ان حقائق میں کیا اس دعویٰ کی روشنی نہیں کہ خلافت (اور حکومت ) صرف سنیوں کو قائم کرنا ہے۔ ( الارشاد ص۷)
غرضیکہ حافظ ملت جہاں دیگر علوم وفنون میں کافی مہارت اور دستگاہ رکھتے تھے ،سیاست میں بھی ان کی بصیرت و بصارت ممتاز نظر آتی ہے۔
سیاسی رہنمائی کا ایک اہم واقعہ جو مندرجہ بالا ۱۹۴۷ءسے قبل کےواقعات ہی کا ایک جز ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
والد گرامی علیہ الرحمہ (جو بڑے متصلب فی الدین اور سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے بڑے شیدائی تھے، اپنی ذاتی ہمت و جرأت کی وجہ سے کبھی کسی باطل سے دبتے نہ تھے) بیان کرتے ہیں :
جب خوب لیگ، کانگریس کی سیاسی جنگ چھڑی ہوئی تھی ہرایک شخص کسی نہ کسی پارٹی سے جڑا ہو ا تھااور اپنی پارٹی کی حمایت اور مقابل پارٹی کی مخالفت میں جان کی بازی لگانے کے لئے تیارتھا ۔
انھوں نے اہل سنت کے بعض مقتدر علماء کرام ۔۔۔۔۔۔۔۔ سے اس سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا ۔ انھوںنے لیگ کو ترجیح دی ، اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی۔
اسی درمیان حافظ ملت علیہ الرحمہ سے ملاقات ہوئی عرض حال کیا، عین موقع پہ حافظ ملت نے رہنمائی کی ۔ فرمایا ۔ لیگ اور کانگریس یہ کوئی مذہبی لڑائی نہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ (د ونوں سیکولر ہیں )۔۔۔۔۔۔مخالفت مول لینا بے سود ہے ۔
حافظ ملت علیہ الرحمہ ہی کی یہ دستگیری تھی کہ جو تصلب، مذہب کے بجائے، لادینی سیاست کے لئے استعمال ہو رہا تھا، پھر مذہب کی طرف مڑ گیا ۔
یہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی سیاسی و دینی بصیرت کے چند گوشے تھے ۔ اسی طرح اگر دیگر مواقع کے گوشے یکجا کئے جائیں، تو نہ معلوم کتنے اہم سیا سی واقعات حضورحافظ ملت علیہ الرحمہ کے دامن سے وابستہ ملیں گے۔
احمد القادری مصباحی
بھیرہ، ولید پور، مئو، یوپی، ہند
۱۴۰۷ ھ ؍ ۱۹۸۵ء