بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ ربِّ العٰلَمین ، والصّلٰوۃ والسّلام علی سیِّد الانبیآء والمرسلین ، وعلی آلہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
احمد القادری
فلسفہ اوراس کی شرعی حیثیت
فلسفہ لغۃً حکمت، مسائل علمیہ میں غور وفکر اوراصطلاح میں، انسانی طاقت بھر موجودات کےاحوال کاعلم۔
جوجتناہی زیادہ اشیا کا جانکار ہوگا،وہ اتناہی بڑا حکیم اور فلسفی ہوگا۔ حکمت ودانائی خداوندبرترنے انسان کے اندر ودیعت رکھی ہے۔ اور جب سے بنی نوع انسان موجود ہیں اسی وقت سے فلسفہ وحکمت بھی ہے۔ اوریہ علم سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کوعطا کیاگیا۔ ارشاد ربانی ہے:
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّہَا (البقرہ،۲،آیت:۳۱)
رب نے آدم کوتمام اشیا کے نام سکھادیے۔
پھرانسان کوعلومِ انبیا وراثت میں ملے۔ توجس نے جتنا محفوظ کیا اوراس میں نظر وفکر سے کام لیا، وہ اتناہی بڑا حکیم ہوا۔اس نظر وفکر میں بعض غلط راہ پر بھی لگ گئے ،اس لیے اختلاف پیدا ہوا۔
پہلے یہ علوم مدوّن نہیں تھے اور نہ ان کی اصطلاحات موضوع تھیں۔ اس میں اہل یونان نےپہل کی، اس لیے وہ موجد کہلائے۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں، ان کے اندر فلسفہ سے دلچسپی زیادہ بڑھی اور انھوں نے اس کی تدوین کی، اس لیے اس فلسفہ کو فلسفۂ یونانی کہاگیا اور یونان کواس کا مرکز تسلیم کرلیاگیا۔
فلسفہ کادَور ِاوّل
یونانی فلسفہ کابانی طالیس ملیطی، (ولادت:۶۴۰؍ ق م- وفات ۵۴۸ ق م) کو کہاجاتاہے۔ اساطین حکمت میں ابیذقلس، فیثاغورس (۵۷۶-۴۹۶ ق م) کےبعد سقراط (۴۷۰- ۴۰۰ ق م) افلاطون (۴۲۸-۳۴۸ ق م) اور ارسطو (۳۸۴- ۳۲۱ ق م) کوشمار کیاجاتاہے۔ آخرالذکر ہی نے علم منطق سکندررومی کےحکم سے ،فلسفہ سے الگ کرکے تدوین کیا، اس لیے وہ معلم اوّل کےلقب سے مشہور ہوا۔ ارسطو کےبعد بھی یونان میں عرصہ تک فلسفہ کا عروج رہا۔ اور بہت سے فلاسفہ پیداہوئے۔ لیکن جب یونانی حکومت زوال پذیر ہوگئی، رومی یونان پرغالب ہوگئے اورانھوں نے دین مسیحی قبول کرلیا، تب شرعاً فلسفہ پرپابندی لگادی گئی اورہرایک کواس کےسیکھنے سکھانے سے منع کردیاگیا۔شاہ قسطنطین نے تمام یونانی کتابیں جمع کرکے ایک بڑے کمرے میں مقفل کردیں۔( تاریخ اسلام)
دَورِ دوم
مدتوں فلسفہ کی تعلیم بند رہی۔ جب اسلام کا عروج ہوا ،اور مسلمانوں نے قرآن وحدیث کے علاوہ دوسرے علوم کی طرف بھی توجہ کی ، تو قسم قسم کے علوم اختراع کیے۔ اورانھیں تکمیل تک پہنچایا۔ مثلاً اصول تفسیر، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، نحو، صرف، بلاغت، عروض وقوافی، تاریخ، فرائض، کلام، تصوف وغیرہ۔
ان کو علوم کی طرف بڑھتی ہوئی یہی دلچسپی معقولات کی طرف بھی کھینچ لائی۔ ان میں اول خالد بن یزید بن معاویہ ہیں جنھوں نے علوم فلسفہ، یونانی زبان سے عربی میں منتقل کیے۔ بنی عباس کےدورِ خلافت میں اس کی ترقی شروع ہوئی۔ مامون (۱۹۸- ۲۱۸ھ) نےبھر پور اس پر توجہ صرف کی اورفلسفہ کوبام عروج تک پہنچایا۔(تاریخ اسلام )
اس نے ایک بار قیصر روم کے پاس لکھا کہ فلسفہ کی تمام کتابیں میرے پاس بھیج دو۔ قیصر نے تلاش شروع کی توایک خانقاہ نشین راہب نے پتابتایا کہ فلاں مقام پرایک مقفل مکان ہے، جس میں قسطنطین نے تمام یونانی کتابیں بند کرادی تھیں، پھر راہب سے مسلمانوں کےپاس کتابیں بھیجنےکےبارے میں شرعی حیثیت پوچھی تو تجربہ کار راہب نےجواب دیاکہ بھیجنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ثواب ملے گا، کیوں کہ یہ چیزیں جس مذہب میں داخل ہوئیں اس کی بنیادیں ہلادیں، چناں چہ مقفل خزانہ کھولا گیا، اس میں بےشمار قدیم یونانی کتابیں نکلیں ،وہ سب مامون کے پاس بھیج دی گئیں۔( تاریخ اسلام)
مامون نےان کا ترجمہ کرانا شروع کردیا۔ ترجمہ کرنے والے کومترجَم کتاب سے تول کرسونادیتا۔ اس کی اس قدر دانی نےاس انحطاط پذیر بلکہ قدیم وبوسیدہ فلسفہ کوپھر سے شباب بخش دیا۔
دَورِ سوم
چوں کہ بہت سے مترجمین نے مل کران کتابوں کاترجمہ کیا تھا اس لیے ان میں باہم بڑا اختلاف تھا، خلیفہ منصور بن نوح سامانی نے عظیم فلسفی فارابی (م ۳۳۹ھ) سے ان کی تلخیص وتہذیب کی فرمائش کی۔ فارابی نےان کتابوں کوسامنے رکھ کرایک نئی کتاب ”تعلیم ثانی“ ترتیب دی، اس لیے اسےمعلم ثانی کہاجاتاہے۔اب یہی کتاب فلسفہ کامرجع ہوگئی۔ فارابی مسلمانوں میں سب سے بڑا فلسفی گزرا ہے۔
سلطان مسعود کےزمانہ میں ایک بار” کتب خانہ“ میں آگ لگ گئی۔ بہت سی کتابوں کےساتھ تعلیم ثانی بھی جل گئی۔ اب شیخ بوعلی سینا (م ۴۲۸ھ) نے ”شفا“ لکھی جوآج منطق وفلسفہ میں سب سے بڑے درجے کی کتاب مانی جاتی ہے۔ شیخ بہت ذہین تھا جوبھی کتاب ایک بار دیکھ لیتا اسے حرف بحرف زبانی یاد ہوجاتی۔ اس کی ”شفا“ تعلیم ثانی کاخلاصہ ہے۔ لہذا شیخ کو معلم ثالث کہاگیا۔
اس کے بعد بھی مسلمانوں میں بہت بڑے بڑے فلاسفہ پیدا ہوئے اورانھوں نے بےشمار کتابیں تصنیف کیں۔
دَورِچہارم
جب زمانۂ خلافت ختم ہوگیا، مسلمانوں کی حکومتیں متزلزل ہوگئیں، علم وتمدن اس سے عہدہ برآنہ ہوسکے،فلسفہ بھی انحطاط پذیر ہوگیا۔ یہاں تک کہ اہلِ اسلام سے علومِ حکمت اُٹھ کر اہل مغرب میں چلے گئے، انھوں نے ان کو خوب ترقی دی۔ فلسفۂ قدیمہ کےاندر ریسرچ کی۔ اس کی بہت سی باتوں کوصحیح اورکچھ اقوال غلط ثابت کرکے نئی تحقیق کی۔ اوراس کانام فلسفۂ جدید یا سائنس رکھا۔
آج علم حکمت ان کے یہاں انتہائی عروج وکمال کی منزلیں طے کررہاہے۔ اور ہمارے یہاں اپنی غریبی، مفلسی، اور ناقدردانی کا رونا رورہاہے۔
فلسفہ کی شرعی حیثیت
شرعی اعتبار سے فلسفہ کی تین قسمیں ہیں:
(۱) شریعت کے مخالف (۲) شریعت کے موافق (۳) اس کے موافق نہ مخالف۔
حجۃ الاسلام امام غزالی نےجوعلوم عقلیہ ونقلیہ دونوں کے جامع تھے اپنی تصنیف ”المنقذمن الضلال“ میں اس تعلق سے جو لکھاہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
ارسطو کےمباحث جوہم تک پہنچے ہیں ہم انھیں تین قسموں پرمنقسم کرسکتے ہیں:
(۱) ایسے مباحث جن کی بنیاد پران کی تکفیر ضروری ہے۔
(۲) وہ مباحث جن سے ان کی بدمذہبی ثابت ہوتی ہے۔
(۳) وہ مباحث جن سے انکار کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
مقصد وغایت کےاعتبار سے فلسفہ کی چھ قسمیں ہیں:
(۱) منطقیات (۲) ریاضیات (۳) سیاسیات (۴) طبعیات (۵) الٰہیات (۶) اخلاقیات۔
(۱-۲) منطق وریاضی: ان کاشریعت سے اثباتاً نفیاً کوئی تعلق نہیں۔
(۳) سیاست: یہ امور حکومت وسلطنت سے متعلق ہے، وہ موجودہ دَور کی سیاست کی طرح نہیں بلکہ اگلے صحیفوں اور اولیاےسلف کی حکمتوں سے ماخوذ ہے اس لیے مہملات سے عموماً پاک ہے۔
(۴) طبعیات: اس کی دوقسمیں ہیں:
ایک تو وہ جن کاانکار لازم نہیں، جیسے عالم سماوات کےاجسام وکواکب ان کے ماتحت اجسام مفردہ مثلاً پانی،ہوا، خاک، آگ۔ یوں ہی اجسام مرکبہ مثلاً حیوانات، نباتات، معدنیات، نیز ان کے تغیرات واستحالات اورامتزاج کےاسباب۔ جس طرح علم طب میں انسان کےجسم اوراس کےمزاج کے تغیرات سے بحث کی جاتی ہے اورکسی مسلمان کےلیےعلم طب کے مباحث کی تردید داخل ایمان نہیں۔ اسی طرح طبعیات کےان مباحث کاانکار بھی لازم اسلام نہیں۔
البتہ یہاں بھی چند مباحث ایسے آئے ہیں جوحق صریح کےخلاف ہیں، ان میں سے بعض کاذکر کیاجارہاہے۔
[تفصیل کےلیے تَہافُت الفلاسفہ از امام غزالی اور الکلمۃ الملہمۃ از امام احمدر ضا قدس سرہ کامطالعہ کریں۔]
ہاں! ان کی تردید کے لیے مسلمانوں کو یہ عقیدہ اچھی طرح جمالینا چاہیے کہ طبیعت اللہ جل شانہ کے حکم کے تابع ہے، اپنی جانب سے وہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتی، بلکہ اس خالق وپروردگار نے جس کوجس کام پر لگادیاہے اسی میں مصروف ہے۔
فلسفی زمانہ ، گردش فلک اورموالید (مادہ) کی انواع کوقدیم مانتے ہیں، یہ عقائد حقہ کےخلاف ہے ،ملت اسلامیہ میں ذات وصفات الٰہی عز جلالہ کےسوا کوئی شَے قدیم نہیں، سب حادث ہیں۔
مضحکہ خیز بات تویہ ہے کہ فلسفی، گردش فلک ،مادہ ،وغیرہ کےاشخاص وافراد ،سب کو حادث کہتے ہیں ،مگر طبیعتِ کلیہ کوقدیم مانتے ہیں۔ مثلاً فلک کے سب دورے حادث ہیں کوئی خاص دورہ، ازل میں نہ تھا مگرہیں ازل سے۔ یہ صراحتاًکیسا جنون ہے؟
(: الکلمۃ الملہمہ،ص: ۶۷ )
فلک، خرق والتیام قبول نہیں کرسکتا
یہ شرعاً باطل ہے، اس لیے کہ کثیر نصوص قطعیہ اس بات کےشاہد ہیں کہ روز قیامت آسمان پارہ پارہ ہوجائےگا۔
فلاسفہ اسے محال کہتے ہیں، اور ان کے فضلہ خوار نیچری وغیرہم اسی بناپر معراج جسمانی کے منکر ہیں۔(: الکلمۃ الملہمہ،ص: ۶۷ )
فلکیات میں ان کےبہت سے اور مزید مُزَخرفات ہیں جن کی یہاں گنجائش نہیں۔
(۵) الٰہیات
اس علم میں فلاسفہ نےبڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ لطف کی بات تویہ ہے کہ علم منطق میں براہین ودلائل کے لیے جوشرطیں قائم کی تھیں انھیں یہاں نبھا نہ سکے اسی لیے ان میں باہمی اختلاف بھی بکثرت پائےجاتے ہیں۔
الٰہیات میں فلسفیوں کے اغلاط کثیرہ ہیں، جن میں جمہور اہل اسلام کی مخالفت کی گئی ہے۔
(۱) اجسام کاحشر نہیں ہوگا:
یعنی روز قیامت یہ اجسام اٹھائے نہ جائیں گے بلکہ ثواب وعذاب صرف ارواح پرہوگا۔ یعنی یہ سزائیں صرف روحانی ہوں گی،جسمانی نہ ہوں گی۔
حالاں کہ روزقیامت اجسام کاحشر ہوگا اورعذاب وثواب روح وجسم دونوں پرہوگا۔ یہ کثیر نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ کلیات کاعالم ہے جزئیات کا نہیں
(معاذاللہ) یہ بھی صریح کفرہے۔ اس لیے کہ حق یہی ہے کہ باری تعالیٰ کےعلم سے زمین وآسمان کا کوئی ذرہ بھی غائب نہیں۔ خود قرآن مجید کا ارشاد گرامی ہے:
لَا يَعْزُبُ عَنہُ مِثْقَالُ ذَرۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ (السبا:۳۴،آیت:۳)
اس سے غائب نہیں ذرہ بھر کوئی چیز، آسمانوں میں اور نہ زمین میں(کنزالایمان )
اوراللہ کی بات سے بڑھ کر کس کی بات سچی ۔ وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِيْلًا( النساء:۴، آیت:۱۲۲ )
(۳) تمام جہان ازلی اور قدیم:
یعنی حادث نہیں ،ہمیشہ سے یوں ہی چلاآرہاہے۔
فلاسفہ کے یہ تین، تو وہ کفری عقائد ہیں جن کااسلامی فرقوں میں سے کوئی فرقہ بھی قائل نہیں۔(المنقذ من الضلال،ملخصاً )
(۴) مبدأ واحدسے ایک ہی صادرہوگا
اس قول باطل کی بنا پر،فلاسفہ اس خلاق علیم کو،صرف ایک شَے، عقل اوّل کاخالق مانتے ہیں، باقی تمام جہان کی خالقیت عقول کےسرمنڈھتے ہیں۔
حالاں کہ اللہ واحد قہار ایک اکیلا خالق جملہ ٔعالم ہے۔ خالقیت میں عقول وغیرہا کوئی نہ اس کاشریک، نہ ان کاتخلیق میں واسطہ ، ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللہ ( فاطر:۳۵، آیت:۳ ) کیااللہ کےسوا اوربھی کوئی خالق ہے۔ (کنزالایمان )
(۵) فاعل دو متساویوں میں اپنی طرف سے ترجیح نہیں کرسکتاطبیعت جب تک خود اس کی مقتضی نہ ہو یہ قول بھی باطل ہے۔
کیوں کہ قادر مطلق خود فاعل مختار ہے:
يَفْعَلُ اللّٰہُ مَا يَشَآء(ابراہیم:۱۴، آیت:۲۷- )
اللہ جوچاہے کرے۔(کنزالایمان )
فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ ( البروج:۸۵،آیت:۱۷)
ہمیشہ جوچاہے کرنے والا۔(کنزالایمان )
لِّلہِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا ( الرعد:۱۳،آیت:۳۱) سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہیں (کنزالایمان )
یوں ہی فعل انسانی میں بھی آدمی اپنے ارادے کودیکھ رہاہے، کہ بے کسی مُرَجَّح کے، آپ ہی اختیار کرلیتاہے۔
مثلاً دو جام یکساں صورت ایک نظافت کے ہوں اوردونوں میں یکساں پانی بھرا ہو اور برابر کی دوری پرہوں، یہ پینا چاہے ان میں سے جسے چاہے اٹھالے گا۔ مطلوب تک دو راستے برابر ویکساں ہوں جس پر چاہے چلےگا۔ ایک طرح کے دو کپڑے ہوں جسے چاہے گا پہنے گا۔
پھر اس فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ کے ارادہ کا کیاکہنا۔
(۶) اخلاقیات
یہ صوفیۂ کرام کےاقوال سے ماخوذ ہے ان کواپنے مجاہدات میں نفس کے جو محاسن وفضائل اورعیوب ورذائل روشن وہویدا ہوئے ان حضرات نے بیان وتحریر کیا۔ فلاسفہ نے ان سے کچھ اصولی باتیں لے کر اپنے کلام باطل میں ملادیں تاکہ اس پاکیزہ کلام کے ذریعہ اپنے کلام باطل کو رواج دیں۔
یہ بات کبھی نہ بھولیے کہ فلاسفۂ قدیم کے زمانہ میں بھی حق کے متوالوں کایہ گروہ موجود تھا بلکہ ان کے وجود سے تو زمانہ کبھی خالی نہ رہا، انھیں کی برکتوں سے رحمتوں کانزول ہوتاہے۔
حدیث میں وارد ہے: بِھِمْ یُمْطَرُوْنَ وَبِھِمْ یُرْزَقُوْنَ انھیں اولیاے الٰہی کےطفیل لوگوں پر مینہ برسایاجاتاہے اورانھیں کےطفیل رزق دیاجاتاہے۔ انھیں اولیا میں سے اصحاب کہف بھی ہیں۔ (المنقذ من الضلال،ملخصاً )
بعض ضعیف الاعتقاد جب گرامی بزرگوں کاکلام ان فلسفیوں کی تحریرات میں مخلوط دیکھتے ہیں اور دودھ کادودھ اورپانی کاپانی الگ کرلینے میں قدرت نہیں پاتے تو وہ تمام مباحث کو یکساں گمان کرتے ہوئے انکار کربیٹھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں پہلے سے راسخ ہے کہ فلاسفہ اہل باطل ہیں، اور ان کاکلام بطلان پر مبنی ہے۔
یہ بات بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی مسلمان کسی نصرانی سے سنے لَااِلٰہ ِالَّا اللّٰہُ عِیْسیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ اور اس کاانکار کربیٹھے اوربلا توقف کہے کہ یہ نصرانی کا کلام ہے مجھے قبول نہیں۔
حالاں کہ ان کی تکفیر کی وجہ وہ قول نہیں، بلکہ انھیں کافر اس لیے کہاجاتاہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے منکر ہیں۔
( المنقذ من الضلال،ملخصاً)
گزشتہ صفحات سے بخوبی واضح ہوگیا کہ پورا فلسفہ باطل ہے نہ حق ہے۔ بلکہ بعض اس کے مباحث درست وصحیح ہیں بعض خلاف شرع اورباطل ہیں۔ اس لیے اگر ایسا شخص اسے پڑھے جوحق وباطل کےدرمیان امتیاز کرکے حق کو اخذ کرلے اورباطل کی تردید کرے تو جائز ومستحسن ہے۔
اب ذیل میں تحصیل فلسفہ کی چند شرطیں ذکر کی جاتی ہیں جوان شرائط کاحامل ہوگا تو امید ہے کہ فلسفہ کی ضلالت سے محفوظ رہے گا۔
تعلیم فلسفہ کے شرائط
(۱) انہماک فلسفہ نے معلم کے نورقلب کومنطفی نہ کیاہو۔
(۲) معلم عقائد اسلام میں بروجہ کمال واقف وماہر ہو۔ اثبات حق اورابطال باطل پربعونہٖ تعالیٰ قادر ہو۔
(۳) وہ اپنی اس قدرت کوہرسبق کے،باطل مقام پراستعمال کرتاہو، اور ہر مسئلہ باطلہ کابطلان متعلم کےذہن نشین کراتاہو۔
(۴) متعلم ومعلم کےدل میں فلسفۂ ملعونہ کی عظمت ووقعت بالکل نہ ہو۔
(۵) متعلم کاذہن سلیم اور طبیعت مستقیم ہو۔(بعض طبیعتیں خواہی نخواہی اباطیل کی طرف جاتی ہیں) کما قال اللّٰہ تعالیٰ:
وَ اِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوہُ سَبِيْلًا، وَ اِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۔(الاعراف:۷،آیت:۱۴۶)
اگر ہدایت کی راہ دیکھیں اس میں چلنا پسند نہ کریں، اور گمراہی کاراستہ نظر پڑے تواس میں چلنے کوموجود ہوجائیں(کنزالایمان)
(۶) نیت صالح ہو۔
(۷) تنہااس پر قانع نہ ہو بلکہ دینیات کےساتھ اس کاسبق ہو۔(فتاویٰ رضویہ،جلد:دہم-ملخصا )
علم فلسفہ کی اصطلاحات
فلسفہ کی تعریف: متوسط انسانوں (یعنی حُکَما، نہ انبیاےکرام) کی طاقت بھر موجودات واقعیہ کے احوال کاعلم، حکمت اور فلسفہ کہلاتاہے۔
موضوع: موجودات واقعیہ کے احوال ۔
غایت: نفس کی قوت نظری اور قوت عملی کی تکمیل۔
اقسام: فلسفہ کی دوقسمیں ہیں (۱) نظری (۲) عملی
فلسفۂ نظری: ایسے امور کے احوال کا علم، جن کا وجود ہماری قدرت واختیار میں نہیں۔ جیسے باری تعالیٰ، اس کی صفتوں اور آسمان وزمین وغیرہ سے متعلق علم۔
فلسفۂ عملی: ایسے امور کے احوال کےعلم، جن کاوجود ہماری قدرت واختیار میں ہے۔ جیسے عدل کے اچھے اورظلم کے برے ہونے کاعلم۔
غایتِ نظری: جوامور ہماری قدت میں نہیں، ان سے متعلق علم کے حصول سے قوت نظری کی تکمیل۔
غایتِ عملی: جوامور ہماری قدرت میں ہیں، ان سے متعلق علم کے حصول سے قوت نظری کی تکمیل، پھر ان کوعمل میں لانے سے قوتِ عملی کی تکمیل۔
فلسفۂ نظری کی تین قسمیں ہیں:
(۱) الٰہی (۲) ریاضی (۳) طبعی
الٰہی: ایسے امور سے متعلق علم نظری ،جواپنے وجودِ ذہنی اورخارجی دونوں میں مادہ کےمحتاج نہ ہوں۔جیسے معبودبرحق، اس کی صفتوں اوروجود وامکان وغیرہ سے متعلق علم۔
ریاضی: ایسے امور سے متعلق علم نظری جواپنے وجود خارجی میں مادہ کے محتاج ہوں اوروجود ذہنی میں مادہ کے محتاج نہ ہوں۔ جیسے کرہ، مثلث، مربع وغیرہ سے متعلق علم۔
طبعی: ایسے امورسے متعلق علم نظری جواپنے وجود خارجی اورذہنی دونوں میں مادہ کےمحتاج ہوں۔ جیسے انسان، حیوان، نباتات، جمادات وغیرہ سے متعلق علم۔
فلسفۂ عملی کی بھی تین قسمیں ہیں
(۱) تہذیبِ اخلاق (۲) تدبیرِمنزل (۳) سیاست مَدَنِیَّہ
تہذیبِ اخلاق: وہ علم عملی ہے جوکسی ایک شخص کی مصلحتوں سے متعلق ہو۔ جیسے یہ علم ،کہ سچ بولنا اچھاہے،جھوٹ بولنا بُرا ہے۔
تدبیر ِمنزل: وہ علم عملی ہے جوکسی خاندان کی مصلحتوں سے متعلق ہو، جیسے اولاد کی تربیت، ماں باپ کی خدمت، رشتہ داروں کے حقوق کی رعایت وغیرہ سے متعلق علم۔
سیاست مَدَنِیَّہ: وہ علم عملی ہے جوکسی شہر یاملک کی مصلحتوں سے متعلق ہو،جیسے اس بات کاعلم کہ عدل حسن ہے، ظلم قبیح ہے۔
فلسفۂ عملی: شریعت اسلامیہ کےآنے کے بعد متروک ہوگیا۔ اس لیے کہ اسلام نے تہذیبِ اخلاق، تدبیرِمنزل، اورسیاست وحکومت سے متعلق جوجامع اورمکمل دستورِ عمل پیش کردیا ،اس کے سامنے تعلیمِ فلاسفہ کی حاجت نہ رہی۔
علم ریاضی: مفیدہے مگراب وہ مستقل فن کی حیثیت سے ممتاز ہوچکاہے اوراس پر الگ سے کافی کتابیں لکھی جاچکی ہیں، اس لیے مصنف نے فلسفۂ عملی کے ساتھ ریاضی کو بھی ترک کردیا، اوراپنی کتاب تین قسموں پر رکھی:
(۱) منطق: کیوں کہ وہ حصولِ علم کاآلہ وذریعہ ہے۔ (۲) طبعی (۳) الٰہی۔
کتاب کی قسم اول (منطق) نابود ہوگئی۔ قسم دوم (طبعی) اور قسم سوم (الٰہی) موجود ہیں۔
(ماخوذ: از شرح ہدایۃ الحکمۃ وہدیہ سعیدیہ )
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیںفلسفہ کی غلط باتوں سے بچنے، حق و ناحق میں امتیاز کرنے، اور قرآن وسنت کے سارے فرامین دل وجان سے ماننے اور ان پر ہمیشہ عمل پیرا رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، بجاہ حبیبہ سیدالمرسلین علیہ الصلوۃ والتسلیم ۔
احمد القادری
الاسلامی.نیٹ
WWW.ALISLAMI.NET