احکام قربانی
بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْ اَرَ یٰ فیِ الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْ بَحُکَ فَانْظُرْ ماَذَا تَرَیٰ قَال یٰأَ بَتِ افْعَلْ
مَاتُؤ مَرُ سَتَجِدُنِي اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِن الصّٰبِرِیْنَ۔
(قرآن کریم سورۃ ۳۷ :آیت ۱۰۲)
اے میرے فرزند! میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمھیں ذبح کررہا ہوں اب دیکھو تمھاری کیا رائے ہے؟ —— اللہ کے دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔
ابا جان ! اسے کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے ۔ ان شاء اللہ عنقریب مجھے صابر پائیں گے۔
ان کے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے جواب دیا ۔
اے مسلمان سن یہ نکتہ درسِ قرآنی میں ہے
عظمتِ اسلام ومسلم، صرف قربانی میں ہے
زندگیِ جا وداں، مومن کی قربانی میں ہے
لذتِ آب بقا، تلوار کے پانی میں ہے
بسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۵
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
{فضائل ومَسائل قربانی}
قربانی:
مخصوص جانور کا ایام ِنحر میں ،بہ نیت ِتَقَرُّبْ، ذبح کرنا قربانی ہے۔
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ مسلمانوں کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ۔ خدا وند کریم کا ارشاد ہے فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔(سورۃ ۱۱۰: آیت ۲)
{احادیث وآثار }
حد یث۱ } حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے نے فرمایا یہ تمھارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے، صحابہ نے عرض کیا یارسو ل اللہ! ہمیں اس میں کیا ثواب ملے گا ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔(احمد ،ابن ماجہ)
حد یث۲} حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔ قربانی کے دنوں میں ابن آدم کا ،کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے ) سے زیادہ پیارا نہیں، اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں، کھروں کے ساتھ آئے گا ،اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقامِ قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ (ترمذی،ابن ماجہ)
حد یث۳ } حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب ہرگز نہ آئے ۔ (ابن ماجہ)
حد یث۴} حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جومال عید کے دن قربانی میں خرچ کیاگیا اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں ۔ (طبرانی)
حد یث۵} امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔ افضل قربانی وہ ہے جو باعتبارِ قیمت اعلیٰ اور خوب فربہ ہو ۔ (امام احمد)
حدیث۶} حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعا لی ٰ علیہ وسلم نے فرمایا ،چار قسم کے جانور قربانی کے لیے درست نہیں ۔(۱) کانا: جس کا کانا پن ظاہر ہو(۲) بیمار : جس کی بیماری ظاہر ہو(۳)لنگڑا : جس کا لنگ ظاہر ہو (۴) لاغر: ایسا جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو۔ (امام احمد، ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
حد یث ۷ } حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کان کٹے، اور سینگ ٹوٹے ہوئے کی، قربانی سے منع فرمایا۔ (امام احمد، ابن ماجہ)
حد یث۸} حضرت عبد ا للہ ابن مسعو د رضی ا للہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا ۔قربانی میں گائے سات کی طرف سے، اور او نٹ سات کی طرف سے ہے۔ (طبرانی)
حد یث۹} حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، رات میں قربانی کرنے سے منع فرمایا ۔
حدیث۱۰} حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں کا کوئی قربانی کرنا چاہے تو اس کوچاہئے کہ بال منڈانے، یا ترشوانے، اور ناخن کٹانے سے رکا رہے ۔ (مسلم)
حدیث۱۱} حضرت عبد اللہ ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ۔مجھے یوم اضحی کاحکم دیا گیا، اس دن کو خدا نے اس امت کے لیے عید بنایا ہے ۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ بتائیے کہ میرے پاس منیحہ۱ ؎کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیا اسی کی قربانی کروں ؟ فرمایا نہیں ۔ ہاں تم اپنے بال، ناخن، اور مونچھیں ترشواؤ اورموئے زیر ناف مونڈ و، اسی میں تمھاری قربانی خدا کے نزدیک پوری ہوجائے گی ۔( ابو داؤد ،نسائی )
یعنی جس کو قربانی کی توفیق نہ ہوا سے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کا ثواب حاصل ہوجائے گا ۔
۱ ؎ منیحہ: ایسادودھ والا جانور جس سے فائدہ اٹھانے کے لئے کسی کو دیاگیا ہو۔ اس صورت میں اسے جانور کے دودھ سے نفع اٹھانے کا اختیار ہے۔لیکن منیحہ کا مالک نہیں ہوتا، اس لئے اس جانورکی قربانی بھی نہیں کرسکتا، جب تک اس جانور کو مالک سے خرید نہ لے ، یا مالک اسے ھبہ نہ کردے۔
{چند اہم مسائل}
مسئلہ ۱ : قربانی کے مسئلے میں صاحبِ نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولے، ( 612.412گرام ،یا 19.755 اونس) چاندی یا ساڑھے سات تولے،( 87.487گرام، 2.822 اونس) سونے کا مالک ہو ۔ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا، سامانِ تجارت یا سامانِ غیر تجارت ، یا اتنے نقد روپیوں کا مالک ہو اور مملوکہ چیزیں حاجتِ اصلیہ سے زائد ہوں۔
مسئلہ۲: حاجتِ اصلیہ یعنی جس کی زندگی بسر کرنے میں آدمی کو ضرورت ہے۔ اس کی وجہ سے قربانی واجب نہیں ، نہ اس میں زکوٰۃ واجب ہے جیسے رہنے کا مکان ، جاڑے گرمیوں میں پہننے کے کپڑے ، خانہ داری کے سامان ، سواری کے جانور یا گاڑیاں ، پیشہ وروں کے اوزار، اہلِ علم کے لیے حاجت کی کتابیں ۔
مسئلہ۳: کتاب سے مراد قرآن ، تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ اصول فقہ ، علمِ کلام اور اخلاق وغیرہ مذہبی کتابیں ہیں۔ اسی طرح طب کی کتابیں ،طبیب کے لیے حاجتِ اصلیہ سے ہیں ۔
مسئلہ۴: ان کے علاوہ نحو، صرف، نجوم، قصے ، کہانی ، دیوان وغیرہ کتب اور مذہبی کتابوں کے ایک سے زائد نسخے حاجتِ اصلیہ سے نہیں۔ اگر ان کی قیمت، نصاب کو پہنچے تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ۵: حافظ کے لیے قرآنِ مجید حاجتِ اصلیہ سے نہیں ۔
مسئلہ۶: مسافر پر قربانی واجب نہیں، اگرچہ مالدار ہو ۔ ہاں نفل کے طور پر چاہے تو کرسکتا ہے ۔
مسئلہ۷: عورت کے پاس باپ کا دیا ہوازیور ،یا کوئی اور سامان، جو اس کی ملک ہے، اگر وہ نصاب کی قیمت کے برابر ہو، تو عورت پر بھی قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ۸ : جو مالک ِنصاب، اپنے نام سے ایک بار قربانی کرچکا ہے اور دوسرے سال بھی وہ صاحب ِنصاب ہے، تو اس پر اپنے نام سے قربانی کرنا واجب ہے ۔ یہی حکم ہر سال کا ہے ۔
حدیث میں ہے۔ اِنَّ عَلیٰ کُلِّ اھْلِ بَیْتٍ فِی کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَّۃً (ترمذی)
مسئلہ۹: اگر کوئی صاحب ِنصاب، اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے ، دوسرے کی طرف سے کردے ، اور اپنے نام سے نہ کرے، تو سخت گنہ گار ہوگا۔ لہذا، اگر دوسرے کی طرف سے کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے، ایک دوسری قربانی کا انتظام کرے۔
{قربانی کے جانور}
مسئلہ۱۰:اونٹ ،گائے ،بھینس، بکری،بھیڑ، دنبہ، نر ہو یا مادہ ، خصی ہو یا غیرخصی، سب کی قربانی جائز ہے ۔
مسئلہ۱۱:اونٹ پانچ سال کا، گائے بھینس دوسال کی ،بکری بھیڑ دنبہ، ایک سال کاہوناضروری ہے۔ اس سے کم عمرہو، تو قربانی جائز نہیں،اگر زیادہ ہو تو جائز ،بلکہ افضل ہے۔ ہاں صرف بھیڑیا دنبہ کا چھ ماہ کا بچہ، اگر اتنا بڑا ہو، کہ دورسے دیکھنے میں، ایک سال کا معلوم ہوتا ہو، تو اس کی قربانی جائز ہے ۔
مسئلہ۱۲ : صاحب نصاب پر ایک بکری کا ذبح کرنا یا اونٹ، گائے، بھینس کا ساتواں حصہ واجب ہے ۔ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہوسکتا۔
مسئلہ۱۳:ساتویں حصہ سے زیادہ مثلاً گائے، بھینس کو چھ یا پانچ شخصوں کی طرف سے قربانی کریں تو ہوسکتا ہے ۔ بلکہ پوری گائے ایک شخص اپنی طرف سے کرسکتا ہے۔
{ایام قربانی}
مسئلہ۱۴: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے، بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے، یعنی تین دن، دو راتیں۔
مسئلہ۱۵: قربانی کے لیے دسویں تاریخ، سب میں افضل ہے، پھر گیارہویں ، پھر بارہویں ۔
مسئلہ ۱۶: شہر میں نماز عید سے پہلے، قربانی کرنا جائز نہیں ۔
{گوشت وجلد کے احکام }
مسئلہ۱۷ : قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے، اوردوسرے شخص، غنی یا فقیر کو دے سکتا ہے یا کھلا سکتا ہے، بلکہ اس میں سے کچھ کھالینا ، قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے ۔
مسئلہ۱۸ :قربانی کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ دسویں ذی الحجہ کو صبح سے کچھ نہ کھائے پیئے، جب قربانی ہوجائے تو اسی کے گوشت سے افطار کرے۔
مسئلہ۱۹: بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے، ایک حصہ فقرا ء ومساکین کے لیے ، ایک حصہ احباب ورشتہ دار کے لیے، ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے ، اگر اہل وعیال زیادہ ہوں تو کل گوشت بھی گھروالوں کو کھلا سکتا ہے ۔
مسئلہ۲۰: میت کی طرف سے قربانی کی، تو اس کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور احباب کو بھی کھلا سکتا ہے ، جبکہ میت نے وصیت نہ کی ہو، ورنہ کل گوشت صدقہ کردے۔
مسئلہ۲۱: قربانی اگر منت ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھا سکتا ہے نہ اغنیاء کو کھلا سکتا ہے بلکہ اسے صدقہ کردینا واجب ہے ۔ منت ماننے والا فقیر ہو یا مالدار ۔
مسئلہ۲۲ : قربانی کا گوشت کا فر کو دینا جائز نہیں ۔
مسئلہ۲۳ : قربانی کا چمڑا یاگوشت یا اس کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت میں دینا جائز نہیں ۔
{چرم قربانی }
مسئلہ۲۴ : قربانی کا چمڑا بیچ کر قیمت، اپنے مصرف میں لانا جائز نہیں ۔ ہاں چمڑا، اپنے استعمال میں لاسکتا ہے ۔
مسئلہ۲۵: آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدارس میں دیا کرتے ہیں یہ افضل اور بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ بعض مرتبہ وہاں کھال بھیجنے میں دقت ہوتی ہے، تو اسے بیچ کر قیمت بھیج دیتے ہیں، اس میں بھی حرج نہیں ۔
{ذبح کا طریقہ}
مسئلہ۲۶: ذبح میں چار رگیں کاٹی جاتی ہیں ۔ چاروںرگوں میں سے تین کٹ گئیں یا ہر ایک کا اکثر حصہ تو ذبیحہ حلال ہے ۔
مسئلہ۲۷ : ذبح کرنے میں قصداً بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ نہ کہا (یعنی اللہ کا نام نہ لیا ) توجانور حرام ہے ۔ اور بھول کر ایسا ہو اتو حلال ہے۔
مسئلہ۲۸: اگر پور اذبح کرنے سے پہلے قصاب کے حوالے کیا ،تو اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ، کہہ کر ہی ہاتھ لگائے۔
مسئلہ۲۹ : اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سرکٹ کر جداہوجائے مکر وہ ہے، مگروہ ذبیحہ کھایا جائے گا ۔ یعنی کراہت اس فعل میں ہے، ذبیحہ میں نہیں ۔
مسئلہ۳۰ : ذبح میں عورت کا وہی حکم ہے جو مرد کا ہے یعنی دونوں کا ذبیحہ جائز ہے۔
مسئلہ۳۱ : مشرک اور مرتد کا ذبیحہ مردار اور حرام ہے ۔
{قربانی کا طریقہ}
مسئلہ۳۲ : قربانی کا جانور بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو ،اوراپنا دایاں پاؤں ،اس کے پہلو پر رکھیں ۔ اورذبح سے پہلے یہ دعا پڑھیں۔
اِنِّیّ وَجَّھَتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ حَنِیْفاًوَّمَا اَنَامِنَ المُشْرِکِیْنَ0 اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ ،لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَلِکَ اُمِرْ تُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ0
پھر اَ للّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ پڑھتے ہوئےتیز چھری سے ذبح کرے ۔ قربانی اپنی طرف سے ہو، توذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں۔اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَماَ تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَ اھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَاالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ ۔
اگردوسرے کی طرف سے ذبح کرنا ہے تو مِنِّی کی جگہ مِنْ کے بعداس کا نام لے۔
مسئلہ۳۳: اگر وہ جانور مشترک ہے تو اس طرح لکھ کر ذبح کے بعد پڑھ لیں ۔
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ
(۱)……………ابن……………
(۲)……………ابن……………
(۳)……………ابن……………
(۴)……………ابن……………
(۵)……………ابن……………
(۶)……………ابن……………
(۷)……………ابن……………
کَمَاتقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَاالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ ۔
{نماز عیدین}
مسئلہ۳۴: عید کے دن غسل کرنا ، اچھے کپڑے پہننا ، خوشبو لگانا، ایک راستہ سے عیدگاہ جانا، دوسرے سے واپس آنا ، راستہ میں تکبیر کہتے ہوئے جانا مستحب ہے ۔ عید الفطر میں تکبیر آہستہ اور صبح کچھ میٹھا کھا کر عیدگاہ جانا مستحب ہے، مگر عید الاضحی میں تکبیر ، بلند آواز سے کہتے ہوئے جانا اور صبح سے قربانی کرنے تک کچھ نہ کھانا پینا، مستحب ہے ۔ عید ین کی نماز ’’دو رکعت ‘ ‘ واجب ہے بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ ۔
{نماز عیدین کا طریقہ}
مسئلہ۳۵: پہلے یوں نیت کرے، نیت کی میں نے دورکعت نماز عید… کی واجب، چھ زائد تکبیروں کے ساتھ، منھ میرا کعبہ شریف کی طرف، اللہ کے واسطے، اَللہُ اکْبَر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لے۔ امام ثنا پڑھے گا، تین زائد تکبیر کہے گا ۔پہلی دو تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ لے جائے اور اَللہُ اَکْبَر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے، تیسری تکبیر میں کانوں تک ہاتھ لے جائے اور اَللہُ اکْبَر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لے۔ ایک رکعت پوری کر کے دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں کہے۔ تینوں میں کانوں تک ہاتھ لے جائے اور اَللہُ اکْبَر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑدے۔ چوتھی تکبیر رکوع کی ہوگی۔ اس میں ہاتھ نہ اٹھائے۔ سلام کے بعد امام خطبہ پڑھے گا، سامعین متوجہ ہوکر سنیں ۔ خطبہ کے بعد دعا ، مصافحہ اور معانقہ مستحب ہے ۔
{ تکبیـر تـشریق }
مسئلہ۳۶: نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک جو نماز جماعت کے ساتھ ادا کی گئی ہو ہر نماز کے بعد ایک بار کہنا واجب اور تین بار افضل ہے تکبیر یہ ہے۔ اَللہُ اَکْبَرْاَللہُ اَکْبَرْ،لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، وَاللہُ اَکْبَرْ،اَللّٰہُ اَکْبَر، وَلِلّٰہِ الْحَمْدْo
{احکامِ عقیقہ}
بچہ پیداہونے کے شکریہ میں ،جو جانور ذبح کیا جاتا ہے، اس کو عقیقہ کہتے ہیں ۔ عقیقہ مباح ومستحب ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عقیقہ کیا ہے، اور اس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے ۔
{احادیث وآثار}
حدیث۱: حضرت سلمان بن عامرضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے اس کی طرف سے خون بہاؤ(یعنی جانوذبح کرو)۔ (بخاری)
حدیث۲: حضرت ام کرز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے کی طرف سے دوبکریاں ، اور لڑکی کی طرف سے ایک۔ اس میں حرج نہیں کہ نرہوں یا مادہ ۔
(ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی)
حد یث۳: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکا اپنے عقیقہ میں گروی ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور سر مونڈاجائے ۔
(ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی )
گروی ہونے کا مطلب یہ ہے، کہ جب تک عقیقہ نہ کیا جائے، اس سے پورا نفع حاصل نہ ہوگا۔
بعض نے کہا، بچہ کی سلامتی اور اس کی نشو ونما اور اس میں اچھے اوصاف ہونا، عقیقہ کے ساتھ وابستہ ہیں ۔
حدیث۴: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں۔ زمانہ ٔ جاہلیت میں، جب ہم میں سے کسی کے بچہ پیدا ہوتا، تو بکری ذبح کرتا اور اس کا خون بچے کے سر پر مل دیتا۔ اب جبکہ اسلام آیا تو ہم ساتویں دن بکری ذبح کرتے ہیں اور بچہ کا سر منڈاتے ہیں اور اس پر زعفران لگاتے ہیں۔ (ابودؤد)
حدیث۵: حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے، تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کانوں میں وہی اذان کہی جو نماز کے لیے کہی جاتی ہے ۔ (ابوداؤد ، ترمذی)
{چند فقہی مسائل}
مسئلہ۱ : عقیقہ کے لیے ساتواں دن بہتر ہے، اور ساتویں دن نہ کرسکے تو جب چاہے کرسکتا ہے ۔ سنت ادا ہوجائے گی۔
مسئلہ۲: زندگی میں جب بھی عقیقہ کرے تو ساتویں دن کا لحاظ کرنا بہتر ہے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بچہ کے پیدائش کے دن کو یاد رکھیں اور جب بھی عقیقہ کرنا ہو اس سے ایک دن پہلے کریں ۔ مثلاً جمعہ کو کوئی بچہ پیدا ہوا ہو تو عقیقہ جمعرات کو کریں ۔ اس میں ساتویں دن کا حساب ضرور آئے گا۔
مسئلہ۳: عقیقہ کے جانور کی بھی وہی شرطیں ہیں جو قربانی کے جانور کی ہیں۔
مسئلہ۴: لڑکے کے عقیقہ میں بکر ا،اور لڑکی کے عقیقہ میں بکری ذبح کی جائے۔ یعنی لڑکے میں نرَ اور لڑکی میں مادَہ کرنا مناسب ہے ، اگر برعکس کیا جب بھی حرج نہیں۔
مسئلہ۵: بہتر ہے کہ اس کی ہڈی نہ توڑی جائے بلکہ ہڈیوں سے گوشت اتار لیا جائے، یہ بچہ کی سلامتی کی نیک فال ہے ۔ اگر ہڈی توڑدی جب بھی حرج نہیں۔
مسئلہ۶: گوشت کو جس طرح چاہیں پکاسکتے ہیں ۔ لیکن میٹھا پکانا ،بچہ کے اخلاق اچھے ہو نے کی فال نیک ہے ۔
مسئلہ۷ : عقیقہ کا گوشت، بچہ کے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ تمام افراد کھا سکتے ہیں ۔ اور بطور ضیافت، دوست واحباب کو بھی کھلایا جاسکتا ہے ۔
مسئلہ۸ : بعض فقہاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ سری، پائے حجام کو اور ایک ران دائی کو دیں۔باقی گوشت کے تین حصے کریں ایک حصہ فقراء کا ، ایک احباب کا اور ایک حصہ گھر والے کھائیں ۔
مسئلہ۹: لڑکے کے عقیقہ میں، دو بکر یوں کی جگہ ایک ہی بکری کسی نے کی تو یہ بھی جائز ہے ۔
مسئلہ۱۰: قربانی کے جانور (گائے ، بھینس وغیرہ) میں عقیقہ کی شرکت ہوسکتی ہے ۔
مسئلہ۱۱: اس کی کھال کا وہی حکم ہے جو قربانی کی کھال کا ہے ۔
{ عقیقہ کا طریقہ}
مسئلہ۱۲: عقیقہ کے جانور کو بائیں پہلو پر اسی طرح لٹا ئیں کہ اس کا رخ قبلہ کی جانب ہو اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑئیں۔
لڑکے کی دعا
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہِ الْعَقِیْقَۃُ لِاِبْنِیْ (لڑکے کا نام لیں ) دَمُھَابِدَمِہٖ وَلَحْمُھَا بِلَحْمِہٖ وَعَظْمُھَا بِعَظْمِہٖ وَجِلْدُ ھَا بِجِلْدِہٖ وَشَعْرُ ھَا بِشَعْرِہٖ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَائً لِّابْنِیْ مِنَ الْنَّارo اِنِیّ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰواتِ وَالارضَ حَنِیْفاًوَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo اِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَا یَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَo لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo
لڑکی کی دعا
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہِ الْعَقِیْقَۃُ لِبِنْتِیْ (لڑکی کا نام لیں ) دَمُھَابِدَمِھَا وَلَحْمُھَا بِلَحْمِھَا وَعَظْمُھَا بِعَظْمِھَا وَجِلْدُ ھَا بِجِلْدِھَا وَشَعْرُ ھَا بِشَعْرِھَا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَائً لِّبِنْتِیْ مِنَ الْنَّارِo اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذیْ فَطَرَالسَّمٰواتِ وَالارضَ حَنِیْفاًوَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَا یَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَo لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo
پھر  اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ ۔ پڑھ کرتیزی چھری سے ذبح کردیں ۔
نوٹ: عقیقہ کی دعا ،اپنا لڑکا یا لڑکی ہو تو مندرجہ بالا طریقہ پر پڑھیں، لیکن اگر دوسرے کا لڑکا ہو تو خط کشیدہ عبارتوں میں لِ کے بعد اِبْنِی ہٹا کر لڑکے اور اس کے باپ کا نام لے ۔ مثلاً لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْز اسی طرح دوسرے کی لڑکی ہو تو خط کشیدہ عبارتوں میں لِ کے بعد بِنْتِی ہٹا کر لڑکی اور اس کے باپ کا نام لے۔(مثلاً  لِفَاطِمَۃ بِنْتِ خَالِد ) اس کے علاوہ اور کوئی ترمیم نہیں ہوگی۔
احمد القادری
اَلْاِسْلامی.نیٹ
AL islami.net (AL-ISLAMI)
مآ خذ و مراجع
(۱) قرآن کریم
(۲) کنز الایمان، امام احمد رضا قادری، رحمۃ اللہ علیہ(۱۲۷۲۔۱۳۴۰ھ)
(۳) صحیح بخاری، امام ابو عبداللہ محمد بن اسمعیل بخاری ،رحمۃاللہ علیہ (متوفی۲۵۶ھ)
(۴) صحیح مسلم، امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری ،رحمۃاللہ علیہ (متوفی۲۶۱ھ)
(۵) جامع ترمذی، امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی ،رحمۃاللہ علیہ (متوفی ۲۷۹ ھ)
(۶) سنن ابو داؤد، امام ابو داؤدسلیمان بن اشعث، رحمۃاللہ علیہ (متوفی۲۷۵ھ)
(۷) سنن نسائی، امام ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب نسائی، رحمۃاللہ علیہ (متوفی ۳۰۳ھ(
(۸) ابن ماجہ،امام محمدبن یزید ابن ماجہ، رحمۃاللہ علیہ(متوفی ۲۷۳ھ)
(۹) طبرانی، امام حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد ایوب اللخمی الطبرانی ، رحمۃاللہ علیہ (متوفی۳۶۰ھ)
(۱۰) مشکوۃ، شیخ ولی الدین تبریزی ،رحمۃاللہ علیہ( متوفی۷۴۲ھ)
(۱۱) بہار شریعت، صدرالشریعہ،مولانا امجدعلی اعظمی، رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۹۶۔۱۳۶۷ھ)
(۱۲) قانونِ شریعت ، شمس العلما ، مولانا قاضی شمس الدین ، جون پوری، رحمۃ اللہ علیہ
(۱۳۲۲ ھ ۔ ۱۴۱۰ ھ)
(۱۳) انوارُالحدیث، فقیہ ملت، مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی ، رحمۃ اللہ علیہ
(۱۳۵۲ ھ۔ ۱۴۲۲ ھ)
مزید
مینو