اذان و اقامت اور ان کے آداب
اذان کے فضائل
اذان دینے کی بہت فضیلت ہے اورا حادیث کریمہ میں اسکا بہت ثواب آیا ہے۔
(۱) رسو ل ﷲ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ، میں جنت میں گیا ،اس میں موتی کے گنبد دیکھے ،اسکی
خاک مشک کی ہے ،فرمایا ، اے جبریل ـ! یہ کس کے لئے ہے؟ عرض کی،حضور (ﷺ ) کی امت کے مؤذن اور اماموں کے لئے ۔ (رواہ ابو یعلی فی مسندہ )
(۲) مؤذن کی جہاں تک آواز پہونچتی ہے اسکے لئے مغفرت کردی جاتی ہے اور ہر تر وخشک، جس نے اس کی آواز سنی، اس کی تصدیق کرتا ہے۔ (رَوَاہُ اَحْمَد)
(۳) ِطلبِ ثواب کے لئے اذان دینے والا اس شہید کی طرح ہے جو خون میں آلودہ ہے ۔اوروہ جب مرے گا ،قبر میں ا س کے بدن میں کیڑے نہیں پڑیںگے ۔
(رواہ الطبرانی )
(۴)اگرلوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان میں کتنا ثواب ہے ؟ تو اس پر باہم تلوارچلتی۔ (رَوَاہُ اَحْمَد)
(۵) اذان واقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی۔(ابو داؤد،ترمذی)
اذان کاطریقہ
(۶)مسجد کے با ہر اونچی جگہ قبلہ رخ کھڑے ہو کر، کانوں کے سوراخوں میں انگلیاں ڈال کر، یا کانو ں پر ہاتھ رکھ کر، اذان کہیں۔
اَللہُ اَکْبَرْ ، اَللہُ اَکْبَرْ۔ اَللہُ اَکْبَرْ، اَللہُ اَکْبَرْ،
اَشْھَدُاَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہْ۔ اَشْھَدُاَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہْ ۔
اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہْ۔ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللہْ
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃْ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃْ
حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حْ ٭ حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حْ ٭
اَللہُ اَکْبَرْ، اَللہُ اَکْبَرْ۔ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہْ۔٭
(۷) فجرکی اذان میں٭ حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حْ ٭ کے بعد٭ اَلصَّلٰو ۃُخَیْرٌ مِّنَ النَّوْمْ٭ اَلصَّلٰو ۃُخَیْرٌ مِّنَ النَّوْمْ٭کا اضافہ کریں ۔
(۸)حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ٭ پر داہنے طرف اور٭حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حْ ٭پر بائیں طرف منہ پھیریں۔ اسی طرح اقامت میں بھی۔
(۹)اذان کے بعد کی دعا٭ پہلے درود شریف پڑھیں ۔پھر یہ دعا ۔
اللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہٖ الدَّ عْوَۃِ التَّا مَّۃِ ، وَالصَّلٰو ۃِالْقَائِمَۃِ ، آتِ سَیِّدَنَا مُحَمَّدَ نِ الْوَ سِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَوَالدَّرَجَۃَ الرَّ فِیْعَۃَ ، وَابْعَثْہُ مَقَامًامَّحْمُوْدَنِ الَّذِیْ وَعَدتَّہ، وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادْ ق
پھردرود شریف پڑھیں۔
اقامت
(۱۰)اقامت اذان کی طرح ہے ،مگر چند باتوں میں فرق ہے۔
٭حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حْ ٭ کے بعد٭ قَدْقَامَتِ الصَّلٰوۃ٭ قَدْقَامَتِ الصَّلٰوۃ٭کا اضافہ کریں ۔
اقامت کے وقت کانوں میں انگلیاں نہ ڈالیں ،اور نہ کانوں پر ہاتھ رکھیں۔
اس میں اذان سے آواز کچھ کم بلند ہو، مگر اتنی کم نہیں ،کہ حاضرین تک بھی آواز نہ پہونچ سکے۔
اقامت کے کلمات جلدجلد کہیں، اذان کی طرح درمیان میں سکتہ نہ کریں۔
اَللہُ اَکْبَرْ ، اَللہُ اَکْبَرْ ، اَللہُ اَکْبَرْ ، اَللہُ اَکْبَرْ ۔ (ایک ساتھ)
اَشْھَدُاَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہْ، اَشْھَدُاَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہْ۔ (ایک ساتھ)
اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہْ، اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللہْ، (ایک ساتھ)
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ،حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ۔ (ایک ساتھ)
حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حِ،حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حْ۔ (ایک ساتھ)
قَدْقَامَتِ الصَّلٰوۃُ، قَدْقَامَتِ الصَّلٰوۃ۔ (ایک ساتھ)
اَللہُ اَکْبَرْ ، اَللہُ اَکْبَرْ ، (ایک ساتھ) لاَاِلٰہَ اِلَّا اللہْ۔
اقامت کے وقت شروع سے کھڑا رہنا مکروہ ہے
(۱۱) اقامت کے وقت امام ومقتدی اورسب حاضرین بیٹھے رہیں، جب مکبر حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ،حَیَّ عَلَی الْفَلاَ ح پر پہونچے تو کھڑے ہوں ،پہلے سے کھڑے ہونا خلاف سنت ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ کے شاگرد، امام محمد رحمۃﷲ علیہ (متوفی ۱۸۹ ھ)جو امام بخاری رحمۃﷲ علیہ کے دادا استاذہیں،اپنی حدیث کی مشہور کتاب مؤطا شریف میں لکھتے ہیں۔
یَنْبَغِیْ لِلْقَوْمِ اِذَاقَالَ الْمُؤَذِّنُ حَیَّ عَلَی الْفَلاَ ح اَنْ یَّقُوْمُوْا اِلَی الصَّلٰوۃِ فَیَصُفُّوْا وَیُسَوُّا الصُّفُوْفَ،وَیُحَاذُوْا بَیْنَ الْمَنَاکِب،(اِلٰی اٰخِرِہٖ) وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی ۔
لوگو ں کے لئے مستحب ہے کہ جب مؤذن ٭حَیَّ عَلَی الْفَلاَ ح ٭کہے تو نماز کے لئے کھڑے ہوں ،پھر صف لگائیں ،اور صف سیدھی کریں، اور کندھے سے کندھا ملائیں۔اور یہی( امام اعظم ) ابو حنیفہ رحمۃﷲ علیہ کا فتوی ہے ۔(مؤطا شریف ص ۶۸)
(۱۲) بعض لوگ اقامت کے وقت حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ٭کہنے سے پیشتر، پہلے سے کھڑے ہوجاتے ، ان کو ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے نبی اکر م ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
فَلاَتَقْوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْنِی (بخاری شریف)
جب تک مجھے دیکھ نہ لو ،کھڑے مت ہو ؤ ۔
(۱۳)یُکْرَہُ لَہُ الاِنْتِظَارُ قَائِمًا، وَلٰکِن یَقْعُدُ ثُمَّ یَقُوْمُ اِذَابَلَغَ الْمُؤَذِّنُ حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حْ۔
اقامت کے وقت کھڑے ہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے، لیکن بیٹھ جائے اور اسوقت کھڑا ہو، جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حْ کہے۔ (رَدُّالْمُحْتَارج۲ص۷۱ ، فتاوی عالمگیری ج۱ص۵۷)
اذان سنیں
اذان و اقامت کے آداب اور ان کاجواب
(۱۴)جب اذان ہو تو خوب غور سے اذان سننا چاہئے اور اس کا جواب دینا چاہئے۔اس وقت بات چیت کرنا، سلام کرنا ، یا اس کا جواب دینا منع ہے ، حتیٰ کہ اگرکوئی قرآن مقدس کی تلاوت کر رہا ہو تو اس کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ تلا وت روک کر اذان سنے اور اس کا جواب دے ۔
(۱۵) اذان واقامت کے جواب کی احادیث میںیہ فضیلت آئی ہے ،کہ ﷲتعالی تمھارے لئے ہر کلمہ کے بدلے ایک لاکھ نیکی لکھے گا،اور ہزار درجے بلند فرما ئے گا،اور ہزار گناہ مٹادے گا ۔( ابن عساکر)
(۱۶)طبرانی شریف میںہے ،ہر کلمہ کے بدلے دس لاکھ درجے بلند کئے جائیںگے ۔
(۱۷)مومن کی بدبختی و نامرادی کے لئے کافی ہے ،کہ مؤذن کو تکبیر کہتے سنے اور جواب نہ دے ۔
(۱۸) جب مؤذن اذان دے ،توجو شخص اسکی مثل کہے ۔اور وہ جب حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ٭حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حْ،کہے تو یہ لاَ حَوْ لَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلَّا بِا ﷲ ٭کہے ، وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ (مسلم شریف)
(۱۹) اَلصَّلٰو ۃُخَیْرٌ مِّنَ النَّوْمْ،کے جواب میں، صَدَقْتَ وَبَرَرْ تَ وَبِالْحَقِّ نَطَقْتَ کہے اور قَدْقَامَتِ الصَّلٰوۃ،کے جواب میں، اَقَامَھَا اللہُ وَاَدَامَھَا مَادَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَ الاَرْضُ٭ کہے ۔
اذان میں اسمِ رسالت ﷺ پر انگو ٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانا مستحب ہے
(۲۰) جب مؤذن اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللہ کہے تو سننے والے یہ درود شریف پڑھیں صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲ ۔ اور اپنے انگوٹھے چوم کر آنکھو ں سے لگائیں ،اور یہ پڑھیں
٭ قُرَّۃُ عَیْنِیْ بِکَ یَا رَسُوْلَ ﷲ، اَلّٰلھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَر،جو شخص ایسا کرے گا،نبی علیہ السلام جنت میں اس کے قائد ہوںگے۔
رَدُّالْمُحْتَار( از علامہ ابن عابدین شامی رحمۃﷲ علیہ جِلْد ثَانِی ص۶۸)
الطَحْطَاوِی (از علامہ اَحْمَدْبِن محمد بن اسماعیل الطَحْطَاوِی رحمۃﷲ علیہ متوفی ۱۲۳۱ھ مطبوعہ بیروت،لبنان ص۲۰۵)
(۲۱) نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا ٭ مَنْ قَبَّلَ ظَفَرَیْ اِبْھَامَیْہِ عِنْدَ سَمَاعِ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللّٰہ ْ اَنَا قَائِدُہٗ وَمُدْخِلُہٗ فِیْ صُفُوْفِ الْجَنَّۃ٭
جس نے ٭ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللّٰہ ٭ سنتے وقت اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنو ں کو چوما ،میں اس کا قائد ہوں اور اسے جنت کی صفوں میں داخل کراؤںگا۔
( رَدُّالْمُحْتَار شرح در مختارجلد ثانی ص۶۸)
(۲۲)امام دیلمی حضرت ابو بکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث نقل فرماتے ہیں۔
لَمَّا سَمِعَ قَوْلَ الْمُؤَذِّنِ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللہ قَالَ ھٰذَا( اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا، وَّ باِلْاِسْلاَمِ دِیْناً، وَّ بِمُحَمَّدٍ ﷺ نَبِیّاً) وَقَبَّلَ بَاطِنَ الاَنْمُلَتَیْنِ السَّبَّابَتَیْنِ وَمَسَحَ عَیْنَیْہِ فَقَالَ ﷺ
مَنْ فَعَلَ مِثْلَ مَافَعَلَ خَلِیْلِیْ فَقَدْ حَلَّتْ عَلَیْہِ شَفَاعَتِی٭
(اَلْمَقَاصِدُالْحَسَنَۃ ازامام علامہ شمس الدین سخاوی رحمۃﷲ علیہ، حدیث ۱۰۲۱ مطبوعہ بیروت،لبنان ص۳۸۴)
حضرت ابو بکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جب مؤذن کو اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللہ کہتے ہوئے سنا ،تویہ پڑھا
اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا، وَّ باِلْاِسْلاَمِ دِیْناً، وَّ بِمُحَمَّدٍ ﷺ نَبِیّاً
اور دونوں کلمے کی انگلیوں کے پورے ،اندر کی طرف سے چوم کر آنکھوں سے لگائے، اس پر حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ، جوایسا کرے جیسا میرے خلیل نے کیا، اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو جائے۔
(فتاوی رضویہ مترجم ج ۵ ص۴۳۲ ، از اعلی حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃﷲ علیہ)
حضرت مولانا، ملا علی قاری رحمۃﷲ علیہ اس حدیث پاک کے سلسلے میں فرماتے ہیں،
وَاِذَا ثَبَتَ رَفْعُہُ اِلَی الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ،فَیَکْفِی لِلْعَمَلِ بِہٖ، لِقَوْلِہٖ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ، عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ ۔
جب صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے(شہادت کی انگلیاں چوم کر آنکھو ں سے لگانا ) ثابت ہوگیا، تو اس پر عمل کرنے کے لئے یہی ثبوت کافی ہے،کیوں کہ نبی کریم علیہ الصلوہ والتسلیم فرماتے ہیں،
تم پر میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرنا لازم ہے
الاسرار المرفوعۃ ، حدیث ۸۲۹ مطبو عہ دارلکتب العلمیہ بیروت ص ۲۱۰
احمد القادری