بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ
نام کتاب : خلفاےراشدین اور اسلامی نظام اخلاق
تصنیف: مولانامحمداحمدمصباحی
تزئین وپروف: فیضان رضا مصباحی،مصباحی پبلی کیشن محمدآبادگوہنہ
اشاعت اول: ۱۴۲۴ھ/۲۰۰۴ء-الاسلامی مبارک پور
اشاعت دوم: ۱۴۳۲ھ/۲۰۱۱ء-الاسلامی مبارک پور
اشاعت سوم: ۱۴۳۵ھ/۲۰۱۴ء-الاسلامی مبارک پور
اشاعت چہارم: ۱۴۳۶ھ/۲۰۱۵ء مصباحی پبلی کیشن محمدآبادگوہنہ
اشاعت پنجم: ذی الحجہ۱۴۴۲ھ/جولائی۲۰۲۱ء-الاسلامی.نیٹ
صفحات: ۳۹
ناشر
مصباحی پبلی کیشن،مہروپور، محمدآبادگوہنہ،مئو،یوپی
موبائل نمبر ۸۱۸۸۸۱۸۴۶۵
حرف آغاز
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ـــــــــــ حامدا ومصلیا
یہ مقالہ ”اہل سنت کی آواز“ کےلیے لکھا گیاتھا۔”اہل سنت کی آواز“ تاج العلما حضرت مولاناسید اولادرسول محمدمیاں برکاتی قدس سرہ کی ادارت میں مارہرہ شریف سے ماہانہ شائع ہوتا تھا دورِ طالب علمی میں اس کے چند شمارے حضرت مولاناشاہ سراج الہدیٰ مصباحی بیت الانوار، گیاکے کتب خانےسے ان کے فرزند، رفیق گرامی مولانا مبین الہدیٰ نورانی مصباحی کے ذریعہ حاصل کرکے میں نے پڑھے تھے۔ غالباً حضرت تاج العلما قدس سرہ کےآخری دور حیات میں اس کاسلسلۂاشاعت موقوف ہوگیا۔ احسن العلما حضرت مولانا شاہ مصطفیٰ حیدر حسن میاں کے وصال کے بعد پروفیسر سید جمال الدین اسلم کی ادارت میں بطور سال نامہ اس کی نشأۃ ثانیہ عمل میں آئی۔ اکتوبر میں عرس قاسمی کےموقع پراس کااجرا ہوا کرتاہے۔
ایک خاص منصوبے کےتحت ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کےحادثے کے بعد مغربی میڈیا نے عالمی پیمانے پراسلام کے ساتھ دہشت گردی کاپروپیگنڈہ پہلے سے زیادہ زور وشور کے ساتھ کرناشروع کیا۔اسی کے ردِّ عمل میں خانقاہ برکاتیہ مارہرہ کےاہل بصیرت ارباب حل وعقد نے یہ طے کیا کہ اکتوبر۲۰۰۲ء کا سال نامہ ”اسلامی نظام اخلاق“ کے عنوان سے شائع ہو۔اس سے قبل اکتوبر ۲۰۰۱ء کاشمارہ”اسلام اورتصوف“ کےعنوان سے شائع ہوچکاتھا۔
جولائی ۲۰۰۲ء میں سید جمال الدین اسلم صاحب اورسید محمداشرف میاں کاحکم نامہ موصول ہوا، جس میں میرے لیے”خلفاےراشدین اوراسلامی نظام اخلاق“ کا عنوان منتخب ہواتھا جب کہ برادرگرامی مولانا محمدعبدالمبین نعمانی رکن الاسلامی کےلیے ”احادیث کریمہ اور اسلامی نظام اخلاق“ کاعنوان متعین تھا۔
کثرت کار اور ہجوم افکار کےباعث اب میں خود کم ہی لکھ پاتاہوں بلکہ بعض اوقات تویہ حال ہوتاہے کہ لکھنے والوں کوخاطر خواہ مشورے بھی نہیں دے پاتا۔ لیکن میں نے سوچاکہ مذکورہ گرامی نامہـــــــــــــــ پھر ایک موقع سےحضرت امین ملت ڈاکٹر سیدمحمدامین میاں زیب سجادۂعالیہ مارہرہ مطہرہ کی تاکید مزید ــــــــــــــ میرے جمود کوتوڑنے کےلیے ایک تازیانہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے تحریری کام بھی جاری رہنا چاہیے ـــــــــــــ الحاصل اس طرف متوجہ ہوا۔
میں نے محسوس کیا کہ خلافت راشدہ کے دور میں تمام اخلاقی محاسن کااحاطہ توایک ضخیم کتاب کاطالب ہے، خاص خاص اخلاق جن کاتعلق نظام حکومت سے ہوتاہے ان ہی کے ذکر پراکتفا کیاجائے اسی لحاظ سے اہم اور معتمد ومستند کتابوں کی مراجعت شروع کرکے ایک خاکہ تیار کیا اوراشارات نوٹ کرلیے، مگر لکھنے کےلیے نہ فرصت ملتی نہ یکسوئی حاصل ہوتی۔مقالہ بھیجنے کی مقررہ تاریخ بھی شاید گزرگئی، تقاضا بھی آگیا، لامحالہ اخیر دسمبر میں سب کام چھوڑ کر دو تین دن اسی مضمون پر لگ گیا۔ فل سکیپ بیس صفحات ہوگئے اور بہت سے عنوانات باقی رہ گئے۔۳۰؍ستمبر کی تاریخ آگئی۔مسودہ جس حال میں تھا ارسال کردیا۔ مدیر محترم نے کافی رعایت اور چشم پوشی کےساتھ شریک اشاعت کرلیا، ان کاممنون وشکر گزار ہوں۔
مولانامحمدعبدالمبین نعمانی کامضمون غالباً پچاس صفحات تک پہنچ گیا جب کہ بطور تمہید ابھی وہ آیات کریمہ اور اخلاق حسنہ کے تذکرے میں تھے۔ باقاعدہ احادیث کی روشنی میں بحث نہ آسکی تھی، وہ بھی اسی قدر شائع ہوگیا، وہ بہت اہم اور قابل مطالعہ ہے۔
بعد اشاعت بعض احباب کی خواہش ہوئی کہ ان دونوں مقالوں کوالگ الگ کتابی شکل میں شائع کردیاجائے۔ مولانا سعید الرحمٰن منیجرالاسلامی نے کمپوزنگ کےلیے دے دیا۔مولانانعمانی صاحب نے اپنے مضمون پرنظر ثانی کرکے ضروری اضافہ بھی کردیا مگر مجھے نہ اس کی فرصت ملی،نہ آئندہ ہی ایسی توقع نظرآئی،اس لیے وہ جیسا تھا ویساہی نذرقارئین ہے۔تاہم امیدہے کہ افادیت سے خالی نہ ہوگا۔ خاص احباب اوربزرگوں سے استدعاہے کہ میرے لیے علم وعمل اوروقت میں برکت واستقامت کی دعا فرمائیں تو کرم ہوگا۔
والصلاۃ والسلام علیٰ رسولہ خاتم النبیین وعلیٰ آلہ وصحبہٖ اجمعین۔
الاسلامی مبارک پور محمداحمدمصباحی
۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ صدرالمدرسین الجامعۃ الاشرفیہ
۲۰؍نومبر۲۰۰۳ء-شب جمعہ مبارک پور- اعظم گڑھ-یوپی
خلفائے راشدین اور اسلامی نظام اخلاق
اصل موضوع پر گفتگو سے پہلے مناسب ہوگا کہ اخلاق، نظام اخلاق اور اسلامی نظام اخلاق کی قدرے وضاحت کردی جائے۔
اَخلاق، خُلق کی جمع ہے اس کی اصل خَلق ہے جس کے معنی ٹھیک اندازے پر بنانا ہے۔ پھر طبعی شکل و صورت کو خَلق اور عادت و خصلت کو خُلق کہا جاتا ہے۔ یہ عادت اچھی بھی ہوتی ہے بری بھی۔ اسی لحاظ سے اخلاق حسنہ اور اخلاق قبیحہ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اردو کے بعض محاورات میں "اخلاق” بول کر اخلاق حسنہ مراد لیتے ہیں۔
ہر قوم یا مذہب یا قانون میں کچھ خاص اوصاف ہوتے ہیں جن کی پابندی انسان کے لیے باعث تعریف ہوتی ہے اور ایسے ہی کچھ دیگر اوصاف ہوتے ہیں جن سے بچنا ضروری ہوتا ہے کسی فرد یا خاندان یا سماج اور قوم کے لیے ان طے شدہ اوصاف حسنہ کو اپنانے یا برے اوصاف سے بچنے کی پابندی کو "نظام اخلاق” کہا جاتا ہے۔
اور "اسلامی نظام اخلاق” وہ ہے جو خالق کائنات اور اس کے رسول اکرم ﷺ نے بیان کر کے دنیا کو اس کی پابندی کی ہدایت کی ہے اور اس کے اپنانے پر آخرت میں انعام کی بشارت دی ہے اور خلاف ورزی پر سزا کی وعید سنائی ہے۔
اس لیے اسلامی نظام اخلاق کا رشتہ خدا و رسول اور آخرت پر ایمان سے استوار ہوتا ہے اور مومن اچھے اخلاق کو اپناتا ہے تو صرف اس لیے نہیں کہ اس سے دنیاوی منفعت یا نگاہ خلق میں عزت حاصل ہوگی بلکہ اس لیے کہ وہ خدا و رسول کے نزدیک مطلوب اور ان کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں اسی لیے وہ خلوت و جلوت ہر حال میں نیک اخلاق کی پابندی کو ضرور جانتا ہے اگرچہ بعض صورتوں میں اسے دنیاوی نقصان سے دوچارہونا پڑے۔
بہت سے اخلاق وہ ہیں جو گزشتہ قوموں میں اچھے شمار ہوتے تھے اور اسلام نے بھی ان کو برقرار رکھا مثلاً امانت، سخاوت، عفّت، عدل وغیرہ اور بعض وہ ہیں جو کسی قوم میں عمدہ شمار ہوتے مگر اسلام نے انھیں برا قرار دیا۔مثلاً عرب زمانۂ جاہلیت میں کہا کرتے انصر اخاک ظالماً کان او مظلوماً۔ اپنے بھائی کی حمایت کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔اس کا حاصل یہ ہے کہ انسان میں خاندان یا قبیلہ کی عصبیت کا جذبہ بھر پور ہونا چاہیے خواہ عدل و انصاف کا خون ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اسلام نے اس خیال کو یکسر بدل دیا اور ظلم و نا انصافی کی حمایت کو کسی حال میں روا نہ رکھا یہاں تک کہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انصر اخاک ظالماً او مظلوماً (اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم) تو صحابۂ کرام پکار اٹھے یا رسول اللہ! ہمارا بھائی اگر ظالم ہے تو ہم اس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ سرکار نے ارشاد فرمایا: اس کی مدد یہ ہے کہ ظلم سے اس کا ہاتھ روک دو۔ (بخاری و مسلم)
آج بھی خاندان، قوم یا ملک کے لیے عصبیت کے جذبات کو برانگیختہ کرکے اس سے بہت سے ناجائز فائدے اٹھائے جاتے ہیں اور اسے اچھا سمجھا جاتا ہے اس لیے کہ ان قوموں کا اصل مذہب "نفع اندوزی” ہے خواہ وہ کسی طرح بھی حاصل ہو اور خواہ وہ امر عقل سلیم اور مذہب کی رو سے کتنا ہی مذموم ہو مگر ان کے نزدیک اچھا ہے۔
اس تمہید کے بعد ان اخلاق و عادات کی تفصیل و توضیح ہونی چاہیے جو خدا و رسول کے نزدیک مطلوب ہیں، یا جن سے بچنا ضروری ہے۔ لیکن یہ تفصیل خود ایک مستقل مضمون کی طالب ہے۔ اس لیے یہاں صرف چند اخلاق حسنہ اور اخلاق قبیحہ کی فہرست دینے کے بعد اصل عنوان پر گفتگو کی جائے گی۔
اخلاق حسنہ:
(۱) ایمان (۲) اخلاص (۳) تدبّر (۴) تفکر
(۵) تامل (۶) اطاعت (۷) استقامت (۸) خوف خدا
(۹) رَجا (۱۰) نماز (۱۱) روزہ (۱۲) حج
(۱۳) زکوۃ (۱۴) پاکیزگی (۱۵) عفّت (۱۶) حسن سلوک
(۱۷) انفاق فی الخیر (۱۸) ذکر (۱۹) دعا (۲۰) استعانت
(۲۱) دعوت خیر (۲۲) ارشاد حق (۲۳) موعظت (۲۴) بشارت
(۲۵) انذار (۲۶) شکر (۲۷) تواضع (۲۸) صبر
(۲۹) احتساب (۳۰) یقین (۳۱) توکل (۳۲) قوت ارادہ
(۳۳) ہمت (۳۴) عزم (۳۵) ثَبات (۳۶) توبہ
(۳۷) استعاذہ (۳۸) استغفار (۳۹) استخارہ (۴۰) فراست
(۴۱) زیرکی (۴۲) عتاب (۴۳) انصاف (۴۴) احتیاط
(۴۵) امانت (۴۶) راست بازی (۴۷) عبرت پذیری (۴۸) قبول نصیحت
(۴۹) حیا (۵۰) بیدار مغزی وغیرہا
اخلاق قبیحہ:
(۱) الحاد (۲) بدمذہبی (۳) نافرمانی (۴) گمراہ گری
(۵) سحر (۶) سرکشی (۷) سخت دلی (۸) فریب نفسی
(۹) تکبر (۱۰) بخل (۱۱) بزدلی (۱۲) اسراف
(۱۳) زنا (۱۴) فحش گوئی (۱۵) تکاثُر (۱۶) غفلت
(۱۷) طمع (۱۸) غضب (۱۹) قتل ناحق (۲۰) ظلم و زیادتی
(۲۱) بدکاری (۲۲) رشوت (۲۳) خیانت (۲۴) نفاق
(۲۵) احسان نا شناسی(۲۶) سرقہ (۲۷) والدین کی نافرمانی (۲۸) کذب
(۲۹) غیبت (۳۰) بہتان (۳۱) چغل خوری (۳۲) حرام خوری
(۳۳) سود (۳۴) سوے معاملات (۳۵) ریاکاری (۳۶) بد سلوکی
(۳۷) کینہ پروری (۳۸) حسد (۳۹) بد عہدی (۴۰)تعاون علی الاثم وغیرہا
اس فہرست میں احاطہ مقصود نہیں، چند کے شمار پر اکتفا ہے۔
صحابۂ کرام کی جماعت وہ عظیم المرتبت جماعت تھی جس کی تربیت رسول اکرم ﷺ نے فرمائی تھی، اس لیے یہ نفوس قدسیہ، اخلاق عالیہ کا نمونہ تھے۔ ان میں اُن حضرات کا حصہ زیادہ تھا جن کو فیض صحبت اور تربیت سرکارِ رسالت سے حظِّ وافر ملا تھا۔ اور ان میں بھی خلفائے راشدین کا درجہ سب سے زیادہ بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ تھا۔اس لیے جب ان حضرات نے زمامِ خلافت سنبھالی ہے تو پوری امت میں وہی روح جاری و ساری رکھنے کی کوشش کی جو زمانۂ رسالت سے انھیں حاصل ہوئی تھی۔ ان حضرات نے خوفِ خدا، امانت و دیانت، پاس عہد، احساسِ ذمہ داری، انسانی ہمدردی، زہد و قناعت، ایثار و تواضع اور عدل و انصاف وغیرہ اخلاق عالیہ کا وہ ریکارڈ قائم کیا ہے جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں مل سکتی۔ اس کے چند نمونے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
زہد و قناعت:
امارت و حکومت ملنے کے بعد ہوتا یہ ہے کہ آدمی بڑے عیش و عشرت کی زندگی اپنا لیتا ہے۔ خورد و نوش، لباس و پوشاک، ظروف و سامان، مکان و جائداد، خدم و خشم سب میں شاہانہ ٹھاٹ باٹ آجاتا ہے اور سارا حساب قومی ملکیت سے چکایا جاتا ہے۔ صرف وُزَرا اور حکام کی ذات پر آنے والے مصارف کا تخمینہ لگایا جائے تو ملک بھر کی رعایا، یا اکثر رعایا کے مجموعی مصارف کے برابر پہنچ جائے مگر اس سلسلے میں خلفائے راشدین طرز عمل ساری دنیا کے مال داروں اور ساری حکومتوں کے سلاطین و حکام کے طرز عمل سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ ان حضرات میں سے جس کے پاس وسعت ہوئی بیت المال سے ایک حَبّہ بھی اپنی ذات پر صرف نہ کیا اور جو حضرات لینے پر مجبور ہوئے انھوں نے اتنا ہی لیا جس سے ایک عام شہری کی گزر بسر ہو سکے۔ ذیل کے واقعات دیدۂ عبرت سے پڑھنے کے قابل ہیں۔
(۱) حضرت ابو بکر صدیق کپڑوں کی تجارت کیا کرتے تھے، اسی سے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرتے۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ بار خلافت سر پر آنے کے بعد بھی چھ ماہ تک اپنی تجارت ہی سے گھر کے مصارف کا انتظام کرتے۔ اور ابن سعد نے عطا ابن سائب سے یہ روایت کی ہے کہ خلافت کی صبح ہاتھوں میں کپڑے لے کر حضرت ابو بکر بازار کی طرف چلے تو راستے میں حضرت عمر ملے اور عرض کیا: اب آپ کے اوپر خلافت کی ذمہ داری آچکی ہے تو تجارت کی مشغولیت کے ساتھ خلافت کا کام کیسے سر انجام ہوگا؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا: پھر میرے اہل و عیال کی گزر بسر کا ذریعہ کیا ہوگا؟ حضرت عمر نے کہا: اس کا انتظام حکومت کی طرف سے ہوگا۔ چلیے ابو عبیدہ ابن الجراح آپ کے لیے وظیفہ مقرر کریں گے۔ حضرت ابو عبیدہ نے مہاجرین میں سے ایک متوسط آدمی کے برابر خوراک اور لباس مقرر کیا۔([1])
(۲) یہی اسلامی حکومت کے سب سے بڑے فرمانروا کا سامان معیشت تھا جس پر وہ تا حیات قائم رہے۔ آخری وقت میں ان کے پاس ایک اونٹنی رہ گئی تھی جس کا دودھ پیتے تھے، ایک لگن جس میں کھانا کھاتے اور ایک بوسیدہ چادر جو اوڑھنے کے کام آتی۔ ان کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا: دیکھو ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا ہمیں اسی وقت تک حق تھا جب تک ہم مسلمانوں کا کام انجام دیتے تھے۔ میرے مرنے کے بعد یہ سب عمر کے پاس بھیج دینا۔ بعد وصال حضرت صدیقہ نے بھیجا تو حضرت عمر نے فرمایا: ابو بکر! آپ پر اللہ کی رحمت ہو، آپ نے اپنے بعد آنے والے کو مشقت میں ڈال دیا۔([2])
(۳) ایک بار حضرت صدیق کی اہلیہ نے کسی میٹھی چیز کی فرمائش کی، صدیق اکبر نے فرمایا ہمارے پاس اسے خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اہلیہ نے کہا: میں چند دن کے اندر مصارف سے بچا کر اتنا جمع کر دوں گی جس سے اس کا انتظام ہو جائے۔ فرمایا: ایسا کر سکتی ہو تو کرو۔ بہت دنوں کے بعد وہ تھوڑے سے پیسے جمع کر سکیں اور حضرت صدیق کو بتایا کہ اب انتظام ہو جائے گا۔ صدیق اکبر نے وہ رقم ان سے لے کر بیت المال میں داخل کر دی اور آئندہ مصارف سے اتنی مقدار کم کردی اور سابقہ مصارف میں سے اتنی مقدار کا تاوان بیت المال میں جمع کیااور فرمایا: اتنا ہم اپنے خرچ سے زیادہ لیا کرتے تھے۔([3])
اس احساس اور ورع و تقویٰ کی مثال کسی دوسری قوم کے فرماں روا میں کیا ملے گی۔ خلفائے راشدین کے بعد کسی مسلمان حکمراں کی تاریخ میں بھی نہیں مل سکتی۔
(۴) اسی پر بس نہیں، مرض وفات میں صدیق اکبر نے یہ بھی وصیت فرمائی کہ میری فلاں زمین بیچ دی جائے اور اب تک قومی ملکیت سے جتنا کچھ میں لے چکا ہوں اس زمین کی قیمت سے ادا کر دیا جائے۔([4])
(۵) حضرت عمر کا دور خلافت آیا تو انھوں نے مسلمانوں سے فرمایا: میں ایک تاجر آدمی تھا، میری تجارت سے میرے اہل و عیال کو فراخی حاصل تھی ، اب آپ لوگوں نے مجھ کو خلافت کے کام میں لگا دیا تو یہ بتائیے کہ مال مسلمین سے کس قدر لینے کی مجھے اجازت ہے؟ حضرت علی بھی موجود تھے، انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اکثر حضرات نے کہا: علی آپ کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: عمر آپ کو اتنا ہی لینے کا حق ہے جس سے دستور کے مطابق آپ کا اور آپ کے اہل و عیال کا کام چل سکے۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ دیگر حضرات نے اس کی تائید کی۔
حضرت عمر بس خرچ بھر لیتے تھے، بعد میں ضرورت زیادہ ہو گئی اور بہت مشقت میں پڑے۔ یہ دیکھ کر حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، سربرآوردہ صحابۂ کرام کی راے ہوئی کہ اب عمر کے وظیفہ میں اضافہ کر دینا چاہیے۔ حضرت عثمان نے فرمایا: اس بارے میں کسی طرح خود حضرت عمر کی راے معلوم کرنی چاہیے۔ ان حضرات نے ام المومنین حضرت حفصہ بنت فاروق کو واسطہ بنایا اس طرح کہ حضرت عمر کو یہ نہ معلوم ہو کہ کچھ صحابہ ان کی راے جاننا چاہتے ہیں۔ ام المومنین نے آکر فرمایا کہ اس سخت حالات میں اپنے وظیفہ میں کچھ اضافہ کرا لینا چاہیے۔ اس پر حضرت عمر غضب ناک ہو گئے۔ فرمایا: بتاؤ تمھارے گھر میں رسول اللہ ﷺ کا سب سے عمدہ لباس کیا تھا؟ انھوں نے کہا گیروئے رنگ کے دو کپڑے، جنھیں جمعہ و عیدین میں اور وفود کے سامنے پہن کر تشریف لاتے۔ فرمایا: سب سے عمدہ کون سی غذا ہے جو تمھارے یہاں سرکار نے تناول فرمائی ہو؟ کہا: جو کی گرم روٹی جس پر میں نے شہد ڈال کر اسے چکنی اور میٹھی بنا دیا تھا۔ فرمایا: تمھارے یہاں سب سے عمدہ اور نرم گداز بچھونا کیا تھا؟ کہا: اون کی موٹی چادر، جسے گرمی میں چار تہ کر دیا جاتا اور جاڑے میں پوری پھیلا کرآدھی بچھا دی جاتی اور آدھی اوڑھ لی جاتی۔ فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے قدرت ہوتے ہوئے زائد کو ترک کر دیا اور قدر کفایت پر گزر بسر کیا، میں بھی اسی طرز عمل کی پیروی کروں گا۔([5])
عکرمہ بن خالد وغیرہ کا بیان ہے کہ حضرت حفصہ اور عبد اللہ وغیرھما نے حضرت عمر سے کہا: اگر آپ عمدہ غذا کھاتے تو یہ حق کی ادائیگی کی راہ آپ کے لیے زیادہ قوت کا باعث ہوتا، فرمایا: کیا تم سب کی یہی رائے ہے؟ انھوں نے کہا ہاں، فرمایا: تمھاری خیر خواہی کا مجھے اعتراف ہے لیکن مجھ سے پہلے دونوں حضرات جس راہ پر گامزن رہ چکے ہیں اگر میں نے وہ راہ چھوڑ دی تو ان کی منزل تک میری رسائی نہ ہو سکے گی۔([6])
(۶) حضرت عمر نے ایک لڑکی کو دیکھاکہ لاغری کے باعث اس کے قدم سیدھے نہیں پڑتے۔ فرمایا: یہ کون ہے؟ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا: آپ کی بیٹی ہے، فرمایا: یہ میری کون بیٹی ہے؟ عرض کیا: میری بیٹی ہے۔ فرمایا: اسے اتنی لاغری کیوں پہنچی؟ عرض کیا: آپ کے کار خلافت نے اس کا یہ حال بنا دیا ہے۔ خرچ آپ دیتے نہیں۔ فرمایا: عبد اللہ! خدا کی قسم میں تمھاری اولاد کی کفالت نہیں کر سکتا، تم خود ان کا انتظام کرو۔([7])
(۷) حضرت عمر کی سسرال کے ایک صاحب آئے اور چاہا کہ بیت المال سے کچھ دے دیا جائے۔ حضرت عمر نے انھیں ڈانٹا اور فرمایا تم یہ چاہتے ہو کہ میں خیانت کار بادشاہ کے روپ میں خدا کے یہاں پہنچوں؟ پھر اپنے ذاتی مال سے انھیں دس ہزار درہم عطا کیے۔([8])
(۸) حضرت عمر اپنے دور خلافت میں اون کا جبہ پہنتے جس میں پیوند لگے ہوتے بعض پیوند چمڑے کے بھی ہوتے، اسی حالت میں دُرّہ لیے بازاروں میں گشت کرتے، لوگوں کو غلطیوں پر سزا دیتے۔ راستے میں ٹوٹے ہوئے دھاگے اور گٹھلیاں پاتے تو چن کے لوگوں کے گھروں میں ڈال دیتے کہ لوگ ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
(۹) عبد اللہ بن عامر بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک حج میں حضرت عمر کے ہمراہ تھا۔ کہیں بھی انھوں نے منزل کی تو کوئی شامیانہ یا خیمہ نہ لگایا، اون کی چادر یا چمڑے کا دسترخوان کسی درخت پر ڈال دیتے اور اسی کے سایے میں آرام کر لیتے۔
(۱۰) کسی شخص کو گورنر بنا کر بھیجتے تو اس سے یہ شرط لیتے کہ ترکی گھوڑے پر سواری نہ کرنا، عمدہ عمدہ غذا نہ کھانا، نرم نرم لباس نہ پہننا، حاجت مندوں کےلیے دروازہ بند نہ رکھنا، اگر ایسا کیا تو سزا کے مستحق ہوگے۔([9])
خلفائے راشدین کی زندگی میں اس طرح کی مثالیں بے شمار ہیں۔ سب کو جمع کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہو جائے۔ مگر آج جب کہ معمولی اور متوسط آدمی بھی ہر طرح کے عش و تنعّم میں سرگرداں ہے۔ ان واقعات سے فائدہ اٹھانے والا کون ہوگا؟
تواضع:
کوئی معمولی عہدہ اور منصب ملنے کے بعد اپنے کو سابقہ روش پر برقرار رکھنا اور عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔گورنر یا سلطان یا خلیفہ کا منصب تو بہت اونچا ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد عام ملنے والوں کو تو درکنار خاص قرابت داروں اور اخص دوستوں کا پاس و لحاظ انتہائی نادر ہے۔ کسی کے سامنے ذمہ داریوں اور مصروفیتوں کا انبار حائل ہوتا ہے تو کسی کے سر میں اس کے ساتھ امیرانہ نخوست و پندار کا نشہ بھی سمایا ہوتا ہے۔ لیکن قربان جائیے خلفائے راشدین کی سیرت پر کہ اتنی عظیم و وسیع سلطنت کی فرماں روائی کے باوجود اس طرح زندگی گزار دی کہ ناآشنا آدمی فرق نہیں کر سکتا کہ کون خلیفہ ہے اور کون عام انسان۔ قیصر و کسریٰ کے سفیر آتے اور ان کی معمولی اور خاکسارانہ زندگی دیکھ کر دنگ رہ جاتے۔
(۱) قبل خلافت حضرت صدیق اکبر کا معمول تھا کہ کمزوروں اور ناداروں کا کام کر دیا کرتے، محلّہ کی لڑکیاں اپنی بکریاں لے کر آتیں تو ان کا دودھ دوہ دیتے۔ جب خلیفہ ہو گئے تو ایک لڑکی نے کہا اب ہماری بکریوں کا دودھ نہ دوہیں گے۔ حضرت ابو بکر نے سنا تو فرمایا: کیوں نہیں، بقسم میرا اب بھی وہی معمول رہے گا۔ مجھے امید ہے کہ منصب خلافت میری سابقہ خدمت گزاری میں فرق نہ لا سکے گا۔([10])
(۲) حضرت عمر اطراف مدینہ میں رہنے والی ایک نابینا سن رسیدہ بڑھیا کی دیکھ بھال کے لیے جایا کرتے، اس کے لیے پانی بھر کر لاتے اور دوسرے کام کر دیا کرتے۔ کچھ دنوں بعد دیکھا کہ کوئی دوسرا شخص ان سے پہلے آکر سارے کام کر جاتا ہے، بہت کوشش فرمائی کہ خود پہلے پہنچیں مگر نہ ہو سکا۔ ایک بار گھات میں بیٹھے کہ دیکھیں کون آتا ہے۔ دیکھا کہ حضرت ابو بکر ہیں جو ان سے پہلے آجاتے ہیں۔ اس وقت حضرت ابو بکر خلیفہ ہو چکے تھے۔([11])
(۳) ایک مرتبہ بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ نکلا، حضرت عمر اس کی تلاش میں نکلے عین اسی وقت ایک رئیس احنف بن قیس آپ سے ملنے کے لیے آئے۔ دیکھا تو حضرت عمر دامن چڑھائے ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں۔ احنف کودیکھ کر فرمایا: آؤ تم بھی میرا ساتھ دو۔ بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے۔ ایک اونٹ میں جانتے ہو کتنے غریبوں کا حق ہوگا۔ کسی نے کہا امیر المومنین! خود کیوں زحمت اٹھاتے ہیں کسی غلام سے فرمائیے، وہ خود ڈھونڈھ لائے گا۔ فرمایا: مجھ سے بڑھ کر غلام کون ہوگا؟
(۴) حضرت علی مرتضیٰ کھجوروں کا بوجھ اپنی چادر میں لیے بازار سے آ رہے تھے۔ لوگوں نے دیکھا تو عرض کیا: امیر المومنین! یہ بوجھ ہم پہنچائے دیتے ہیں۔ فرمایا: صاحب عیال کو اپنا بوجھ اٹھانے کا زیادہ حق ہے۔([12])
رعایا کی خبر گیری اور خدمت گزاری:
ارباب حکومت اپنی شاندار کوٹھیوں میں داد عیش دیتے ہیں،رعیت کے افراد کس مصیبت میں گرفتار ہیں انھیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ حکومت کے کارندے بالعموم انھیں یہی خبر دیتے ہیں کہ ہر جگہ خوش حالی اور امن و امان ہے۔ یہ حکام اگر خود پبلک سے ملیں، ناداروں اور پریشان حالوں کی مزاج پرسی کریں تو انھیں قوم کی ضرورتوں اور رعایا کے مسائل کا اندازہ ہو۔ اگر کسی کو صحیح صورت حال معلوم بھی ہے تو اسے اپنے آرام سے فرصت نہیں۔ فکر ہے تو صرف یہ کہ میرا بینک بیلنس اور میری املاک و جائداد زیادہ سے زیادہ کیسے ہوں، میں رشوت ستانی اور ذخیرہ اندوزی میں دوسروں پر سبقت کیسے لے جاؤں۔ حکام کے اس انداز نے اچھے اچھے ملکوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، قومی املاک اور قوم دونوں کی بربادی میں ہر صبح و شام اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ ایک ایسا سیلاب بلا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔
مگر خلفائے راشدین عام پبلک میں اٹھتے بیٹھتے، ان کے دکھ درد سنتے اور اس کا مداوا پیش کرتے، عیش و عشرت اور ذخیرہ اندوزی کا ان کے یہاں تصور بھی نہیں تھا۔ ایک عظیم سلطنت کی باگ ڈور ہاتھ میں رکھنے کے باوجود کمزوروں کی خدمت، بیماروں کی مزاج پرسی، پریشان حالوں کی خبر گیری اور غمزدوں کی غم خواری ان کی زندگی کا معمول تھا۔
(۱) ایک بار بازار مدینہ کے قریب کوئی قافلہ رات کے وقت آیا۔ حضرت فاروق اعظم کا دور خلافت تھا۔ فاروق اعظم کو فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں اس قافلہ پر چوروں کی دست درازی نہ ہو۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کے یہاں آئے، وہ رات کی تنہائی میں مشغول نماز تھے۔ نماز پوری کر کے پوچھا عمر! اس وقت کیوں آئے؟ فاروق اعظم نے سبب بتایا اور فرمایا: آؤ آج کی رات اس قافلہ کی پاسبانی میں گزاریں، دونوں حضرات تشریف لائے اور قافلہ سے تھوڑی دور ایک ٹیلے پر بیٹھے باتوں میں رات گزاری۔
(۲) اپنے دور خلافت میں راتوں کو گشت کرنا اور رعایا کی نگرانی حضرت فاروق کا معمول تھا۔ ان کے غلام اسلم کا بیان ہے کہ ایک رات حضرت عمر ” حَرّہ واقم” کی طرف نکلے۔ ساتھ میں، میں بھی تھا۔ جب ہم "صرار” میں پہنچے تو ایک جگہ جلتی ہوئی آگ نظر آئی، فاروق نے فرمایا: چلو دیکھیں وہاں کون لوگ ہیں۔ قریب آئے تو دیکھا ایک عورت ہے جس کے ساتھ چند بچے ہیں۔ آگ پر دیگچی چڑھی ہوئی ہے اور بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: "السلام علیکم یا اھل الضوء” (یا اہل النار کہنا مناسب نہ سمجھا) عورت نے سلام کا جواب دیا: پوچھا یہ دیگچی کیوں رکھی ہوئی ہے اور بچے کیوں رو رہے ہیں، جواب دیا یہ بھوک سے رو رہے ہیں اور دیگچی میں نے انھیں بہلانے کے لیے رکھی ہے تاکہ سمجھیں کہ کچھ پک رہا ہے اور روتے روتے سو جائیں۔ خدا ہمارے اور عمر کے درمیان فیصلہ کرے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے۔ عمر کو تمھاری کیا خبر؟ عورت نے کہا: وہ ہمارا والی ہے تو ہم سے غافل اور بے خبر کیوں ہے؟ مجھ سے فرمایا: واپس چلو، ہم تیزی سے لوٹے۔ حضرت فاروق غلہ کے گودام تک پہنچے ایک بورا لیا جس میں آٹا، گھی، چربی، کھجوریں، کپڑے اور دراہم رکھے یہاں تک کہ بورا بھر گیا فرمایا: اسلم! میری پیٹھ پر لاد دو، میں نے عرض کیا: یہ بوجھ لے جانا تو میرا کام ہے، مگر انھوں نے انکار کیا، میں نے اصرار کیا تو تیسری یا چوتھی بار یہ فرمایا: قیامت کے دن بھی میرے گناہوں کا بوجھ تم اٹھاؤ گے؟ یہ سن کر بورا میں نے ان کی پشت پر رکھ دیا اور ہم تیزی سے اس عورت کے پاس پھر واپس آئے۔ امیر المومنین نے بورا اس عورت کے پاس رکھ دیا۔ اور دیگچی لے کر اس میں آٹا اور کچھ چربی اور کھجوریں ڈال دیں اور پکانے لگے۔ دیگچی کے نیچے آگ تیز کرنے کے لیے خود ہی پھونکتے۔ میں نے دیکھا کہ دھواں ان کی داڑھی کے نیچے سے نکلتا جا رہا ہے اور وہ پکاتے جا رہے ہیں، کھانا تیار ہو گیا تو عورت ایک طبق لائی جس میں کھانا انڈیل دیا گیا، فرمایا: بچوں کو کھلاؤ، وہ کھاتے کھاتے آسودہ ہو گئے۔ جو بچ رہا عورت کے پاس چھوڑ کر اٹھ گئے۔ ان کے ساتھ میں بھی اٹھ گیا۔ عورت نے کہا خدا تمھیں جزائے خیر دے۔ خلافت کے حق دار تم ہو نہ کہ عمر۔ فرمایا: اچھی بات کہو، جب تم امیر المومنین کے یہاں جاؤگی تو ان شاء اللہ مجھے وہاں پاؤگی۔ یہاں تک کہ دیکھا بچے خوش ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے کھیلتے ہوئے سو گئے اور انھیں سکون ہو گیا۔ تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اٹھے اور مجھ سے فرمایا: اسلم! بھوک کی وجہ سے یہ رو رہے تھےاور ان کی نیند اڑ گئی تھی۔ میں نے چاہا کہ ان کی خوشی اور آرام سے سونے کی حالت بھی دیکھ لوں تو چلوں۔([13])
(۳) حضرت سعید بن مسیَب سید التابعین فرماتے ہیں؛ حضرت عمر ان کے گھروں پر جاتے جن کے مرد باہر کہیں جا چکے ہیں اور عورتوں کے پاس خبر بھیجتے کہ اگر تمھیں سودا سلف لانے کی ضرورت ہو تو بتاؤ میں لا دوں، ورنہ تم لوگ دھوکے اور گھاٹے میں پڑ سکتی ہو۔ وہ اپنی کنیزوں کو بھیجتیں، حضرت عمر بازار جاتے تو ان کے پیچھے غلاموں اور کنیزوں کی ایک جماعت ہوتیں جن کے گھروں کے لیے وہ ضروریات خریدتے۔ جن کے پاس پیسے نہ ہوتے ان کے لیے اپنے پاس سے خریددیتے۔([14])
(۴) حضرت عمر اپنے دور خلافت میں شام گئے تو واپسی میں رعایا کی خبر گیری کے لیے لوگوں سے کچھ دیر جدا ہو گئے۔ اس درمیان ایک بُڑھیا کے خیمے کے پاس سے گزرے فرمایا: عمر کی کچھ خبر ہے؟ اس نے کہا: ہاں شام سے بخیریت روانہ ہو چکے ہیں، خدا اس کو میری جانب سے جزائے خیر نہ دے۔ فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا جب سے اس نے خلافت المسلمین کی ذمہ داری سنبھالی ہے مجھے اس کے یہاں سے ایک حَبہ نہ ملا۔ فرمایا: تم اتنے دور مقام میں ہو عمر کو تمھاری کیا خبر؟ کہا: سبحان اللہ! خدا کی قسم میں یہ نہیں سمجھتی کہ کوئی شخص لوگوں پر حکمراں ہو اور اسے اپنی حکومت کے مشرق و مغرب کی خبر نہ ہو۔ یہ سن کر حضرت عمر اشک بار ہو گئے۔ کہنے لگے عمر! بوڑھیاں بھی تم سے زیادہ فقیہہ ہیں۔ پھر بڑھیا سے فرمایا: اے خدا کی بندی! عمر کی جانب سے تم پر جو زیادتی ہوئی ہے وہ کتنے میں فروخت کروگی، اس پر مجھے جہنم کی تکلیف سے ترس آرہا ہے۔ اس نے کہا: خدا تم پر رحم کرے، مجھ سے مذاق نہ کرو۔ حضرت عمر نے فرمایا: میں مذاق نہیں کرتا۔ اس سے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس سے پچیس دینار کے عوض خرید لیا۔ اسی درمیان حضرت علی اور عبد اللہ بن مسعود آگئے اور کہا السلام علیک یا امیر المومنین! یہ سن کر بڑھیا نے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ہائے بربادی! امیر المومنین کے سامنے ہی میں نے ان کو برا بھلا کہہ دیا۔ حضرت عمر نے فرمایا: ڈرو نہیں، تم پر خدا رحم فرمائے، پھر لکھنے کے لیے کاغذ طلب کیا، مگر نہ ملا، پھر اپنی گدڑی سے ایک ٹکڑا کاٹ کر اس پر لکھا۔
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یہ اس کی دستاویز ہے کہ جب سے عمر کو خلافت ملی ہے اس وقت سے فلاں وقت تک ، فلاں عورت کے ظلم کی شکایت عمر نے اس سے پچیس دینار میں خرید لی ہے۔ اب یہ اگر محشر میں رب العالمین کے حضور عمر کی حاضری کے وقت اس کے خلاف دعویٰ کرے تو عمر اس سے بری ہے۔ اس پر علی بن ابو طالب اور ابن مسعود گواہ ہیں۔”
پھر یہ تحریر اپنے فرزند کو دے دی اور فرمایا: میرے مرنے کے بعد اسے میرےکفن میں رکھ دینا۔([15])
(۵) حضرت طلحہ ایک بار رات کی تاریکی میں نکلے۔ دیکھا کہ حضرت عمر ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد باہر آئے۔ صبح کو حضرت طلحہ اس گھر میں گئے تو دیکھا کہ ایک نابینا اپاہج بڑھیا اس میں ہے۔ فرمایا: یہ شخص تمھارے یہاں کس لیے آتا ہے؟ اس نے کہا: ارے وہ تو اتنے سال سے میری دیکھ بھال کے لیے آتا رہتا ہے۔ میری ضرورت کی چیزیں فراہم کرتا ہے اور گندگی دور کرتا ہے۔ یہ سن کر حضرت طلحہ سیدنا فاروق کی خدمت گزاری پر دنگ رہ گئے۔ کہنے لگے طلحہ تیری ماں تجھ پر روئے تو عمر کی لغزشیں ڈھونڈھنے آیا تھا۔([16])
(۶) دور فاروقی میں ایک بار سخت قحط پڑا۔ ہر طرف خاک اڑتی تھی۔ اس لیے اس سال کا نام ہی ” عام الرّمادہ” ہو گیا۔ اس زمانے میں رعایا کے لیے فاروق اعظم کی بے چینی قابل دید تھی۔ گوشت، چربی، گھی سب ترک کر دیا۔ محض روغنِ زیتون اور بے چھنے آٹے کی روٹی پر گزر بسر تھی۔ خشکی کی وجہ سے پیٹ بجنے لگا۔ مگر حضرت فاروق فرماتے بجتا رہ، تیرے لیے ہمارے پاس روغنِ زیتون کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں تک کہ لوگوں کی حالت درست ہو جائے۔ ان کے غلام اسلم کا بیان ہے کہ ہمیں ایسا لگتا تھا کہ اگر قحط دور نہ ہو تو مسلمانوں کے غم میں حضرت عمر کی موت واقع ہو جائے گی۔
اسی زمانے میں اپنے ایک چھوٹے بچے کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھ لیا، فرمایا: ارے امیر المومنین کے بیٹے! تو پھل کھا رہا ہے اور امت محمد ﷺ بھوک سے لاغر ہوئی جا رہی ہے۔ بچہ روتا ہوا بھاگا۔ بعد میں حضرت عمر کو بتایا گیا کہ اس نے کھجوروں کی گٹھلیاں جمع کر کے ایک مٹھی گٹھلیوں کے عوض کسی طرح یہ کھانے کی چیز حاصل کی ہے۔ یہ معلوم ہوا تو خاموش ہوئے۔([17])
اس باب میں واقعات بے شمار ہیں۔ سب کو جمع کرنا ممکن نہیں۔ نہ ہی ایسے احساس ذمہ داری، رعایا کے لیے امیر کی بے تابی اور رعایا کی خاطر خود ہر لذت و راحت سے کنارہ کشی کی مثال ممکن ہے۔
عمال کی خبر گیری:
حکومت و سلطنت کے باب میں ماتحت حکام کو راہ راست پر رکھنے کی ذمہ داری شاید سارے کاموں سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔ اگر خلیفہ یا سلطان بذات خود بہت امانت دار، قوم اور ملک کا سچا ہم درد، ملک کی ترقی اور قوم کی خوش حالی کے لیے شب و روز سرگرداں ہے مگر زیر دست حکام عیش و عشرت کے رسیا، رشوت ستانی کے خوگر، قومی ملکیت کو ذاتی ملکیت میں تبدیل کرنے کی ترکیبوں کے ماہر، اپنے فرائض سے بے پروا، صرف اپنے لوگوں کی خوش حالی کے جویا، دوسروں پر ظلم و ستم اور ان کی حق تلفی کے عادی، ملک و قوم کی ترقی اور بھلائی کے لیے ہمدردانہ سوچ اور جفا کشانہ عمل سے خالی ہوں تو صرف ایک سلطان یا چند خاص وزراء کی امانت داری کوئی رنگ نہیں لا سکتی۔ اور اگر سلطان اور امرا سبھی بگڑ چکے ہوں تو پھر حق، انصاف، احساس ذمہ داری اور فرض کی ادائیگی نام کی کوئی چیز ملک بھر میں ملنا بہت مشکل ہے۔
اس باب میں خلفائے راشدین کا عمل ساری دنیا کے لیے رہ نما اور تازیانۂ عبرت ہے۔ آئیے دیکھیں اس سلسلے میں ان کے اخلا ق کی پختگی اور کردار و عمل کی مضبوطی کہاں تک پہنچی ہوئی ہے:
(۱) مصر کا ایک شخص حضرت عمر کے پاس مدینہ آیا۔ عرض کیا ’’ امیر المومنین میں ظلم کی فریاد لے کر آپ کے یہاں پناہ لینے آیا ہوں۔‘‘ فرمایا: ’’تم نے جائے پناہ کی پناہ لی۔‘‘ اس نے بیان کیا کہ میں نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص کے بیٹے سے اسپ سواری میں مقابلہ کیا اور اس پر سبقت لے گیا تو وہ مجھے کوڑے سے مارنے لگا اور کہنے لگا میں اشراف کا بیٹا ہوں۔ اس پر حضرت عمر نے عمرو بن عاص کو لکھا کہ اپنے بیٹے کو لے کر مدینہ حاضر ہوں۔ آنے پر معاملہ پیش ہوا۔ حضرت عمر نے مستغیث سے فرمایا: یہ کوڑا لے اور اس کو ضرب لگا۔ وہ مارنے لگا اور حضرت بولتے جا رہے تھے کہ ’’اضرب ابن الامین‘‘ اشراف کے بیٹے کو ضرب لگا۔ حضرت انس فرماتے ہیں وہ مار رہا تھا اور ہمیں اس کا مارنا پسند تھا۔ وہ اس وقت رکا جب ہماری آرزو ہوئی کہ اب بس کر دے۔ پھر مصری سے حضرت عمر نے فرمایا: کوڑا عمرو کی چندیا پر رکھ دے۔ مصری نے عرض کیا ’’امیر المومنین ان کے بیٹے نے مجھے مارا تھا اور میں نے اس سے بدلہ لے لیا۔‘‘ فاروق اعظم نے حضرت عمرو سے فرمایا: ’’ تم نے کب سے انسانوں کو غلام بنا لیا کہ یہ اپنی ماؤوں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: امیر المومنین اس قصے کا نہ مجھے علم ہوا نہ یہ میرے پاس فریاد لایا۔([18])
(۲) ملیح بن عوف سُلمی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کو خبر ملی کہ کوفہ کے گورنر سعد بن ابی وقاص نے اپنا شاندار پھاٹک بنوایا ہے اور ڈیوڑھی بھی بنوائی ہے۔ اس پر انھوں نے محمد بن مُسلمہ کو بھیجا اور ان کے ساتھ مجھے بھی جانے کا حکم دیا کیوں کہ شہروں اور راستوں کی رہ نمائی میں ہی کرتا تھا۔ امیر المومنین نے حکم دیا تھا کہ پھاٹک اور ڈیوڑھی میں آگ لگا دینا، محمد بن مسلمہ نے کوفہ پہنچ کر اس کی تعمیل کی۔
دوسری شکایت یہ پہنچی تھی کہ خمس کا مال فروخت کرنے میں سعد نے کچھ جانب داری سے کام لیا ہے۔ اس پر یہ حکم تھا کہ سعد کو اہل کوفہ کے سامنے مسجد میں کھڑا کر کے اس معاملہ کی تفتیش کرو۔ انھوں نے اس کی بھی تعمیل کی مگر کسی شخص نے اس طرح کی کوئی بات نہ بتائی بلکہ سب نے حضرت سعد کی تعریف کی۔([19])
(۳) حضرت عمر کا حکم تھا کہ تمام حکام موسم حج میں مکہ آئیں، اس موقع سے حضرت عمر سب کے سامنے اعلان کرتے کہ کسی کو اپنے حاکم سے کوئی شکایت ہو تو پیش کرے۔ میں اس کا انصاف کروں گا۔ میں نے عمال کو اس لیے مقرر نہیں کیا کہ تمھیں زد و کوب کریں یا تمھارے مال و آبرو پر دست درازی کریں۔ میں نے ان کو اس لیے بھیجا ہے کہ تمھیں دین کی تعلیم دیں اور نبی کی سنت سکھائیں۔ جس کے ساتھ اس کے خلاف سلوک ہو وہ پیش کرے میں بدلہ دلاؤں گا۔
ایک بار یہ اعلان فرمایا تو پورے مجمع حج سے صرف ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ میرے عامل (عمرو بن عاص) نے مجھے سو کوڑے مارے ہیں۔ حضرت عمر نے تفتیش کی اور فریادی سے فرمایا اٹھ اپنے گورنر سے بدلہ لے۔ حضرت عمرو نے کہا: امیر المومنین اگر آپ نے عمال کے خلاف قصاص کا دروازہ کھولا تو ان پر بہت گراں ہوگا اور آپ کے بعد بھی یہ ہوتا رہے گا۔ فرمایا: میں عامل سے قصاص کیوں نہ دلاؤں جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ اپنی ذات سے قصاص دلاتے۔ اٹھو فریادی! تم بدلہ لو۔ عمرو نے کہا: اجازت دیجیے ہم اسے راضی کر لیتے ہیں۔ امیر المومنین نے فرمایا: وہ معاف کر دے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ گورنر نے اسے دو سو دینار دے کر راضی کیا، ہر کوڑے کے بدلے دو اشرفی۔([20])
(۴) حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حضرت عمر کی زوجہ عاتکہ بنت زید بن عمر و بن نُفیل کو ایک دوپٹہ ہدیہ میں بھیجا۔ حضرت عمر نے دیکھا تو اہلیہ سے پوچھا یہ کہاں سے آیا؟ عرض کیا ابو موسیٰ نے ہدیہ کیا ہے۔ حضرت عمر نے دوپٹہ لیا اور ان کے سر پر مارا، ان کی ساری خوشی جاتی رہی۔ پھر حکم دیا کہ ابو موسیٰ کو حاضر کیا جائے۔ لوگوں نے حاضر کیا وہ بالکل تھک گئے تھے۔ آتے ہی بولے امیر المومنین جلدی نہ کیجیے گا۔ فرمایا: عمر کی عورتوں کے پاس ہدیہ بھیجنے کا باعث کیا ہے؟ وہ جواب نہ دے سکے۔ حضرت عمر نے دوپٹہ اٹھایا اور ان کے سر پر مارا، فرمایا اسے لے جاؤ ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔([21])
اس طرح کی مثالیں دیگر خلفائے راشدین کی سیرت کا بھی درخشاں باب ہیں۔ اور فاروق اعظم کے یہاں تو اس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے صوبوں کے گورنر اپنی ساری طاقت کے باوجود حکم فاروقی کے خلاف سیکڑوں میل دور رہ کر بھی دم نہیں مار سکتے تھے۔
عدل و مساوت:
ہر حکومت اور ہر حاکم کی جانب سے عدل و مساوت کا چرچا ہوتا ہے۔ مگر عدل ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ معاملات کو قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں۔ جہاں کوئی طاقت ور، مال دار، قرابت دار، دوست یا تعلقاتی ہوا فیصلہ اسی کے حق میں ہوتا ہے۔ فریقین میں کوئی اگر ایسا نہیں ہے تو رشوت ہر انصاف کا خون کرنے کے لیے کافی ہے۔ حکام کی طمع و حرص کے سامنے مظلوموں، ناداروں اور کمزوروں کی ہر تدبیر رائیگاں ہے۔ مزید ظلم یہ ہے کہ اپنی تدابیر، اپنی چرب زبانی اور اپنے ذرائع ابلاغ سے مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم باور کرا دینا ان کا روزانہ کا معمول ہے۔ جب آقاؤں کا یہ حال ہو تو ماتحتوں کا نمبر ان سے کچھ زیادہ ہی ہوگا۔ کسی کے پاس ضمیر نہیں کہ اپنا محاسبہ کرے اور اپنے کردار میں کوئی تبدیلی لائے۔ خوف خدا سے تو انھیں کوئی واسطہ نہیں، رہ گئی شرم خلق تو اس کا ازالہ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور بے حیائی جب حد سے سوا ہو جاتی ہے تو ہر طرح کی شرم بھی رخصت ہو جاتی ہے۔
مگر خلفائے راشدین نے جو ریکارڈ قائم کیا ہے وہ رہتی دنیا تک کے لیے درس عبرت ہے۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ عزیزوں، قرابت داروں اور زور دستوں سے انصاف دلایا ہے بلکہ اپنی ذات سے بھی انصاف دلایا ہے۔ دیکھیے یہ ان کی سیرت کے کیسے زریں اور فقید المثال واقعات ہیں:
(۱) اَہواز کے قریب واقع سرزمینِ بَیْرُوز کی فتح کے بعد بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری نے مال خمس ایک وفد کے ساتھ دار الخلافہ مدینہ بھیجا۔ ضَبَّہ بن مِحصَن عَنَزِی نے مطالبہ کیا کہ وفد میں مجھے بھی شامل کر دیجیے۔ ابو موسیٰ نے فرمایا: میں نے تم سے بہتر لوگوں کو اس کام کے لیے منتخب کر لیا ہے۔ اس پر ضبَّہ خفا ہو گیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے اس کا قصہ بھی لکھ کر وفد کے ساتھ امیر المومنین کے پاس بھیج دیا۔ وفد کے بعد ضبَّہ نے پہنچ کر حضرت ابو موسیٰ کی شکایت درج کرائی کہ انھوں نے زمین داروں کی اولاد سے ساٹھ غلام خود لے لیے۔ عقیلہ نامی ان کی ایک باندی ہے جس کی خوارک دونوں وقت لگن بھر کر کھانا ہے۔ ناپ کے دو پیمانے رکھتے ہیں۔ زیاد بن ابو سفیان کو بصرہ کے امور سپرد کر دیے ہیں۔ مشہور ہجو گر شاعر حُطْیٔہ کو انعام میں ایک ہزار دیا ہے۔
امیر المومنین نے عامل بصرہ کو طلب کیا اور ضبّہ کو بھی سامنے بلایا۔ اس نے اپنی شکایت بتائی کہ انھوں نے ساٹھ غلام خود لیے۔ ابو موسیٰ نے جواب دیا: ان غلاموں کے ذمہ فدیہ تھا۔ لوگوں کی راہ نمائی پر میں نے ان کا فدیہ ادا کر دیا اور فدیہ کا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ اس طرح یہ غلام میرے قبضہ میں آگئے۔ ضبّہ نے کہا: ابو موسیٰ نے جھوٹ نہ کہا اور میں بھی جھوٹ نہ بولا۔ دوسری شکایت یہ کہ دو پیمانے رکھتے ہیں۔ اس پر ابو موسیٰ نے فرمایا: ایک قفیز میرے گھر والوں کے لیے ہے جس سے ان کو غلّہ دیا جاتا ہے اور ایک قفیز مسلمانوں کا ان کے قبضے میں ہے وہ اس سے اپنا غلہ لیا کرتے ہیں۔ ضبّہ نے کہا: سچ ہے اور میں بھی جھوٹ نہ بولا۔ عقیلہ کا ذکر آیا تو ابو موسیٰ خاموش رہے۔ حضرت عمر نے سمجھ لیا کہ اس سے متعلق شکایت درست ہے۔ زیاد کو افسر بنانے کا ذکر آیا تو ابو موسیٰ نے کہا میں نے اس کے اندر کمال و شرف اور اصابت رائے دیکھی اس لیے اس کو کام سُپرد کیا۔ حطیٔہ کو ایک ہزار انعام دینے کی شکایت پر انھوں نے کہاکہ وہ اپنی ہجو سے شرفا کی آبرو ریزی کرتا ہے میں نے مال دے کر اس کا منہ بند کیا ہے۔ یہ سب سننے کے بعد حضرت عمر نے ابو موسیٰ کو بصرہ واپس کر دیا اور حکم دیا کہ زیاد اور عقیلہ کو مدینہ بھیجیں۔
عقیلہ زیاد سے ایک دن پہلے آئی، اسے مدینہ میں روک دیا۔ زیاد آیا تو دروازے پر رہا۔ حضرت عمر نکلے تو زیاد کو دروازے پر کھڑا پایا۔ حضرت عمر نے کچھ سوالات کیے زیاد کی حالت، تنخواہ، فرائض، سنن، قرآن سے متعلق امور پوچھے جوابات سے حضرت عمر نے دیکھا یہ شخص فقیہ اور صاحب رائے ہے۔ اس لیے اسے اس کے کام پر بحال رکھا اور بصرہ کے امراء کو فرمان لکھا کہ اس سے مشورہ لیا کریں۔
ضبّہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ابو موسیٰ پر اس لیے خفا ہوا کہ ایک دنیاوی امر اس کو سُپرد نہ ہوا۔ اس نے ابو موسیٰ کے خلاف جھوٹ اور سچ دونوں بیان کیے۔ اس کے جھوٹ نے سچ کو بھی خراب کر دیا۔ تم لوگ جھوٹ سے بچو اس لیے کہ وہ جہنم میں لے جانے والا ہے۔([22])
(۲) جنگ صفین میں جاتے وقت حضرت علی کی زرہ کھو گئی جنگ کے بعد کوفہ واپس آئے تو ایک یہودی کے ہاتھ میں زرہ پائی۔ یہودی سے فرمایا یہ میری زرہ ہے جو میں نے نہ بیچی نہ ہبہ کی۔ یہودی نے کہا کہ میری زرہ ہے اور میرے ہاتھ میں ہے۔ امیر المومنین نے کہا کہ قاضی کے یہاں چلو۔ قاضی شریح نے معاملہ پوچھا، امیر المومنین نے بیان کیا۔ یہودی سے پوچھا تو اس نے کہا زرہ میری ہے اور میرے قبضے میں ہے۔ قاضی شریح نے پوچھا: امیر المومنین آپ کے پاس گواہ ہیں؟ فرمایا: ہاں حسن اور قنبر گواہ ہیں کہ زرہ میری ہے۔ قاضی نے کہا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی مقبول نہیں۔ زرہ یہودی کے ہاتھ میں رہ گئی۔ وہ لے کر چلتا بنا۔ کچھ دور جانے کے بعد واپس آیا اور کہا یہ تو انبیا کا طرز عمل ہے۔ امیر المومنین ہو کر وہ خود اپنا معاملہ قاضی کے یہاں لائے۔ قاضی بھی ان کا ہے مگر اس نے ان ہی کے خلاف فیصلہ دیا۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ صفین جاتے ہوئے علی کے ہاتھ سے یہ زرہ گر گئی تھی اور میں نے اٹھا لی۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کا دین سچا ہے۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ۔ لیجیے یہ زرہ آپ کی ہے۔ امیر المومنین کو اس کے اسلام لانے سے اتنی خوشی ہوئی کہ اسے زرہ بھی دے دی اور ایک گھوڑا بھی دیا۔([23])
(۳) حضرت عبد اللہ بن عمر نے کچھ اونٹ خریدے اور سرکاری چراگاہ میں چرنے کے لیے بھیج دیے۔ فربہ ہوگئے تو فروخت کرنے کے لیے بازار لے گئے۔ فاروق اعظم نے بازار میں دیکھا تو دریافت کیا: یہ فربہ اونٹ کس کے ہیں؟ بتایا گیا عبد اللہ بن عمر کے ہیں۔ امیر المومنین نے انھیں طلب کیا اور کیفیت معلوم کی، انھوں نے عرض کیا: میں نے انھیں خریدا اور چراگاہ میں بھیج دیا، اس سے جس طرح دیگر مسلمانوں کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے میں نے بھی وہی فائدہ اٹھانا چاہا۔ فرمایا: امیر المومنین کا بیٹا ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازموں نے تمھارے اونٹوں کی نگہ داشت کی، خود تم نے اس پر ملازم نہ رکھا۔ اس لیے انصاف یہ ہے کہ اونٹ بیچ کر اپنا راس المال لے لو اور باقی رقم سرکاری خزانے میں داخل کرو۔([24])
(۴) بنی مخزوم کا ایک شخص امیر معاویہ کے باپ حضرت ابو سفیان کے خلاف فاروق اعظم کے پاس فریاد لایا کہ انھوں نے میری زمین کی حد کے بارے میں مجھ پر ظلم کیا ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا میں اس حد کو جانتا ہوں بارہا ہم اور مکہ کے لڑکے وہاں کھیلا کرتے تھے۔ جب میں مکہ آؤں تب تم مجھ سے ملنا۔ جب فاروق اعظم مکہ پہنچے تو وہ مخزومی حضرت ابو سفیان کو لے کر آیا۔ حضرت عمر اس حد تک پہنچے اور دیکھنے کے بعد فرمایا:ـ ابو سفیان تم نے حد میں تبدیلی کر دی، یہ پتھر یہاں سے اٹھاؤ اور وہاں رکھو۔ انھوں نے انکار کیا تو درّہ لگایا اور فرمایا تعمیل کرو، تمھاری ماں نہ ہو۔ ابو سفیان نے پتھر اٹھایا اور وہیں رکھا جہاں فاروق نے حکم دیا۔ حضرت عمر نے قبلہ رو ہو کر کہا اللہ! شکر ہے تیرا کہ میں ابوسفیان کی خواہش نفس پر غالب آیا اور اسے حکم اسلام کی تابعداری پر مجبور کیا۔ ابو سفیان نے بھی کعبہ کی طرف رخ کیا اور کہا یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ موت سے پہلے اسلام کی یہ وقعت میرے دل کو نصیب ہوئی کہ حکم اسلام کی خاطر میں نے عمر کی تابعداری کی۔([25])
(۵) عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں میں جَلُولاء کی جنگ میں شریک تھا۔ غنیمت آئی تو چالیس ہزار کا سامان اس میں سے میں نے خرید لیا۔ حضرت عمر کے پاس آیا تو انھوں نے فرمایا: بیٹا! اگر مجھے آگ میں ڈالنے کا حکم ہو اور تم سے کہا جائے کہ فدیہ دے کراسے چھڑا لو تو کیا تم فدیہ دے کر مجھے آزاد کرا سکتے ہو۔ میں نے عرض کیا: خدا کی قسم آپ کو جس چیز سے بھی اذیت ہو اس سے رہائی کے لیے فدیہ دینے کو تیار ہوں۔ فرمایا: گویا میں اپنی نگاہوں سے دیکھ رہا ہوں کہ مال غنیمت کا جب تم سودا کر رہے ہوتو لوگ کہہ رہے ہیں: عبد اللہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، امیر المومنین کے فرزند ہیں، امیر المومنین کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور واقعی تم ایسے ہی ہو اس حالت میں ان کے نزدیک زیادہ پسند ہوگا کہ سو کم کر کے دیں بجائے اس کے کہ ایک درم گراں کرکے فروخت کریں۔
تقسیم کی ذمہ داری میری ہے اور مجھ کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ میں تم کو ایک درم پر ایک درم نفع دیتا ہوں، قریش کے کسی تاجر نے جو نفع پایا ہوگا یہ اس سے زیادہ ہوگا۔ یہ فرما کر تاجروں کو بلایا اور دام لگوائے انھوں نے چار لاکھ میں خریدا۔ اسی ہزار حضرت عبد اللہ کو دیے اور تین لاکھ بیس ہزار حضرت سعد بن وقاص کے پاس اس فرمان کے ساتھ بھیج دیے کہ معرکہ میں شریک ہونے والوں کے درمیان اسے تقسیم کر دیں اور کسی کا انتقال ہو چکا ہو تو اس کے ورثہ کو دے دیں۔([26])
(۶) حضرت احنف بن قیس ایک وفد کے ساتھ فاروق اعظم کے پاس فتح عظیم کی خوش خبری لے کر آئے۔ امیر المومنین ان لوگوں سے ابھی حالات کی تفتیش کر رہے تھے کہ ایک آدمی خلل انداز ہوا کہا: فلاں نے میرے اوپر ظلم کیا ہے میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوا کہ آپ میرے ساتھ چلیں اور میری فریاد کو پہنچیں۔ درمیان کلام ناگہاں اس خلل اندازی پر فاروق کو غصہ آیا اور درّہ اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا اور فرمایا: امیر المومنین جب تمھاری فریاد سننے کو بیٹھتا ہے تو نہیں آتےاور جب مسلمانوں کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہے تو آتے ہو کہ فریاد رسی کیجیے، فریاد رسی کیجیے۔وہ شخص شکستہ خاطر ہو کر لوٹ گیا۔ امیر المومنین کو کچھ خیال آیا اور اس کو واپس بلوایا۔ وہ حاضر ہوا تو کوڑا اس کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا ’’بدلہ لے لو‘‘ اس نے کہا نہیں خدا کی قسم! میں اسے اللہ کے واسطے اور آپ کی خاطر معاف کرتا ہوں۔ فرمایا: اس طرح نہ ہوگا۔ یا تو اللہ کے لیے اس کے ثواب کی خاطر معاف کرو، یا میری خاطر معاف کر رہے ہو تو مجھے بتاؤ۔ اس نے کہا میں اللہ کے لیے معاف کرتا ہوں۔ پھر وہ واپس چلا گیا۔ امیر المومنین گھر میں گئے دو رکعت نماز پڑھی اور مصلّے پر بیٹھ گئے۔ کہنے لگے: اے خطاب کے بیٹے! تو پست تھا، اللہ نے تجھے بلند کیا۔ تو گمراہ تھا، خدا نے تجھے ہدایت دی۔ تو ذلیل تھا، اللہ نے تجھے عزت بخشی پھر تجھے مسلمانوں کا حکمراں بنایا۔ اب ایک شخص تیرے پاس فریاد لے کر آیاتو اسے تونے درّہ لگا دیا۔ کل رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو کیا جواب دے گا؟ اس طرح اپنے نفس کو عتاب کرتے رہے۔ احنف فرماتے ہیں: یہ منظر دیکھ کر ہمیں خیال ہوا کہ یہ روئے زمین کا سب سے بہتر شخص ہے۔([27])
ذمیوں کی رعایت:
آج جہاد اور جزیہ کے تعلق سے اسلام پر بہت کچھ اعتراض کیا جاتا ہے۔ یہاں پوری بحث کی تو گنجائش نہیں مگر مختصرا یہ عرض ہے کہ یہ اعتراضات اسلام کی حقیقت سے بے خبری کے باعث ہیں۔ اور اس بنیاد پر ہیں کہ یہ کوئی آسمانی مذہب نہیں بلکہ ایک قوم کا اپنا وضع کردہ مذہب ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام خدا کا نازل کیا ہو دین ہے۔ قرآن اللہ کا سچا کلام ہے۔ اور اس کے قوانین وضعی نہیں بلکہ ربّانی ہیں۔
اللہ عزوجل نے اہل اسلام کو اس کا ذمہ دار بنایا ہے کہ وہ خدا کی ہدایت ساری دنیا میں پہنچائیں اور اللہ کا قانون پوری دنیا میں نافذ کریں۔ دنیا سے کفر و شرک اور ظلم و نا انصافی کو مٹائیں اور حق و عدل کی بالا دستی قائم کریں۔
اس کی تعمیل میں اہل اسلام نے ساری دنیا کو حق کی دعوت دی اور روے زمین پر حکم الٰہی کی تنفیذ کے لیے جان و مال سے کوشش کی۔ دوسری قوم اگر اسلام قبول نہیں کرتی، تو اس کے لیے کم از کم یہ تھا کہ حکومت اسلام کی ماتحتی قبول کرے اور حکومت اس کی جان و مال کی تحفظ کی ذمہ دار ہوگی جس کے لیے اسے جزیہ دینا ہوگا۔
جنگ یرموک کے وقت مسلمانوں کو حمص چھوڑ کر محاذ جنگ دوسری جگہ قائم کرنا تھا اسلامی سپہ سالار نے حکم دیا کہ جب ہم یہ شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں تو یہاں کے لوگوں کی حفاظت سے قاصر ہیں اس لیے جزیہ کی رقم واپس کر دی جائے۔ چنانچہ حمص اور اس کے اطراف کے لوگوں سے لی ہوئی رقم واپس کر دی گئی۔ اس عدل پر وہ دم بخود تھے اور روتے تھے، دعائیں کرتے تھے کہ خدا تمھیں پھر واپس لائے۔ اس لیے کہ مسلمانوں نے انھیں جو آزادی اور عزت دی وہ اپنی حکومت کے سائے میں بھی انھیں حاصل نہ تھی۔ اس کے ساتھ جہاد میں آبادیاں ویران کرنے، درختوں اور ہرے کھیتوں کو برباد کرنے کی قطعاً اجازت نہ تھی۔ بوڑھوں، کمزوروں، عورتوں کو قتل کرنا منع تھا۔
آج جب کسی کو طاقت حاصل ہوتی ہے تو وہ لاکھوں انسانوں کو بے دریغ قتل کرتا ہے۔ شہر کے شہر ویران کر دیتا ہے۔ اور اپنی چلانے کے لیے پوری دنیا کو غلام بنا لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس کے حمایتی اس کی یہ ساری کارروائی جائز تصور کرتے ہیں۔ اگر اپنی بالا دستی کے لیے کوئی سب کچھ کرنے کا حق رکھتا ہے تو خدا کے قانون کی بالا دستی کے لیے اس کی پوری مخلوق پر رحم و عدل والا قانون نافذ کرنا کیوں جرم سمجھا جاتا ہے؟
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں مجاہدین کو کیا ہدایت ہوتی اور ذمیوں کو کیا حیثیت دی جاتی۔
(۱) صدیق اکبر نے یزید بن ابی سفیان کی سرکردگی میں شام کی جانب لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا: میں دس باتوں کی تمیں وصیت کرتا ہوں۔
۲۔۳: کسی عورت یا بچے یا سن رسیدہ بوڑھے کو قتل نہ کرنا۔ ۴: کوئی پھل دار درخت نہ کاٹنا۔ ۵: کوئی آباد جگہ ویران نہ کرنا۔ ۶: کھانے کی ضرورت کے سوا کوئی بکری یا اونٹ ذبح نہ کرنا۔ ۷- کوئی کھجور کا درخت غرقاب نہ کرنا۔۸- نہ ہی اسے جلا کر برباد کرنا۔ ۹: غنیمت میں خیانت نہ کرنا۔ ۱۰: بزدلی اختیار نہ کرنا۔([28])
(۲) بیت المقدس کے عیسائیوں نے مصالحت کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ امیر المومنین خود صلح نامہ لکھیں۔ اس لیے فاروق اعظم نے سفر کیا اور ’’جابیہ‘‘ پہنچے وہیں اسلامی سپہ سالار اور بیت المقدس کے عیسائی ان سے ملے اور یہ صلح نامہ لکھا گیا:
’’یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے عمر امیر المومنین نے ایلیا والوں کو دی، یہ امان، جان، مال، گرجا، صلیب، بیمار، تندرست اور ان کے مذہب کے سارے لوگوں کے لیے ہے۔ ان کے گرجوں میں سکونت نہ اختیار کی جائےگی نہ انھیں منہدم کیا جائے گا نہ ان گرجوں یا ان کی حدوں میں یا صلیبوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔ نہ ان کا مال کم کیا جائے گا۔ نہ دین کے معاملہ میں ان پر کوئی جبر ہوگا، نہ کسی کو ضرر پہنچایا جائے گا،نہ ان کے ساتھ ایلیا میں کوئی یہودی سکونت پذیر رکھا جائے گا۔ اور ایلیا والوں کے ذمہ یہ ہے کہ جیسے مدائن والے جزیہ ادا کرتے ہیں یہ بھی ادا کریں‘‘ اور اپنے یہاں سے رومیوں اور چوروں کو نکال دیں۔ ان میں سے بھی جو از خود نکل جائے اس کی جان و مال کو امان ہےیہاں تک کہ وہ اپنی جائے امن تک پہنچ جائے۔ اور جو سکونت پذیر رہے اسے بھی امان ہے اور اس کے ذمہ بھی جزیہ اسی طرح ہے جیسے ایلیا والوں پر ہے اور ایلیا والوں میں سے جو لوگ اپنے گرجوں اور صلیبوں کو چھوڑ کر رومیوں کے ساتھ جانا چاہیں ان کو بھی امان ہے یہاں تک کہ اپنی جائے امن تک پہنچ جائیں، ان کے گرجوں اور صلیبوں سے بھی تعرض نہ ہوگا۔ اور ایلیا میں فلاں کے قتل سے پہلے کے جو باشندے ہیں وہ اگر یہاں رہنا چاہیں تو جزیہ کی ادائیگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور رومیوں کے ساتھ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں یا اپنے لوگوں کے پاس دوسری جگہ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں، جب تک ان کی زراعت کی کٹائی نہ ہو جائے ان سے کچھ وصول نہ کیا جائے۔
جو کچھ اس نوشتے میں لکھا گیا اس پر اللہ کا عہد ہے اور اس کے رسول کا ذمہ، خلفا کا ذمہ اور مومنین کا ذمہ ہے جب تک کہ وہ جزیہ ادا کرتے رہیں۔ اس پر خالد بن ولید، عمرو بن عاص، عبد الرحمٰن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان گواہ ہیں۔
دیگر مقامات کے معاہدہ ناموں میں بھی اسی طرح جان، مال، گرجوں، صلیبوں کی امان وغیرہ کا ذکر ہے۔([29])
(۳) جب ذمیوں نے مسلمانوں کی وفاداری اور ان کا احسن سلوک دیکھا تو مسلمانوں کے معاون ہو گئے اور مسلمانوں کے دشمنوں کی خبر گیری کرنے لگے۔ ہر شہر کے لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ جاسوس اس کام پر لگا دیے کہ وہ روم اور شاہ روم کی خبر لاتے رہیں اور یہ معلوم کریں کہ وہ اب کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہر شہر میں ان کے قاصد یہ خبر لائے کہ رومی بہت زبردست تیاری کر رہے ہیں اور بڑا لشکر اکٹھا کر لیا ہے۔ سردارانِ شہر نے اپنے اپنے والی شہر کو مطلع کیا، والیان بلاد نے حضرت ابو عبیدہ کو آگاہ کیا۔ ابو عبیدہ اور سربرآوردہ مسلمانوں نے دیکھا کہ معاملہ بڑا سنگین ہے اور مقابلہ کے لیے شہر چھوڑ کر ہمیں باہر کسی مناسب مقام پر لشکر کشی کرنی ہوگی اس لیے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہ نے ہر حاکم شہر کو لکھا کہ ذمیوں سے جو جزیہ و خراج لیا گیا ہے وہ واپس کر دیا جائے اور بتا دیا جائے کہ ہم نے یہ رقم اس شرط پر لی تھی کہ تمھاری حفاظت کریں گے لیکن موجودہ صورت حال میں ہم اس پر قادر نہیں اس لیے تمھاری رقم واپس کرتے ہیں۔ اگر ہم کو فتح حاصل ہوئی اور ہم واپس آئے تو سابقہ شرط پر ہم قائم رہیں گے۔یہ رقم واپس کی گئی اور یہ بات بتائی گئی تو اہل ذمہ نے کہا خدا تمھیں واپس لائے اور دشمنوں پر تمھیں فتح نصیب کرے، تمھاری جگہ اگر وہ لوگ ہوتے تو کچھ واپس نہ کرتے اور جو کچھ بچا ہے وہ بھی لے لیتے، ہمارے لیے کچھ نہ چھوڑتے۔
یرموک میں مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان سخت معرکہ رہا۔ اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی۔ اب ہر شہر کے والی اور مسلمان ان شہروں میں واپس آنے لگے تو وہاں کے اہل ذمہ ان کا استقبال کرتے اور جو مال انھیں واپس کیا گیا تھا خود لا کر دیتے جاتے۔
یہ صورت حال جب ان بلاد والوں نے دیکھی جن سے مصالحت نہ ہوئی تھی تو وہ بھی اسی شرط پر صلح کے لیے تیار ہو گئے۔ انھوں نے جزیہ ادا کیا اور اپنے شہروں پر مسلمانوں کو قبضہ دے دیا۔([30])
حضرت خالد بن ولید فتح اُلیس کے بعد حِیرہ پہنچے تو وہاں شاہ ایران کے مقرر کردہ والی اِیاس بن قبیصہ طائی سے یہ گفتگو ہوئی:
میں تم کو اللہ کی جانب اور اسلام کی جانب بلاتا ہوں اگر تم نے دعوت قبول کی تو تمھارے لیے بھی وہ حقوق ہوں گے جو مسلمانوں کے لیے ہیں اور تمھارے اوپر بھی وہ فرائض ہوں گے جو مسلمانوں کے اوپر ہیں۔ یہ اگر تم کو منظور نہیں تو جزیہ ادا کرو، اگر یہ بھی قبول نہیں تو سن لو میں تمھارے پاس ایسی قوم لے کر آیا ہوں کہ تمھیں جس قدر جینے کی حرص ہے اس سے زیادہ اسے مرنے کی حرص ہے۔ ایاس نے کہا: ہمیں تم سے جنگ کی ضرورت نہیں، نہ ہی ہم تمھارے دین میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے دین پر قائم رہیں گے اور جزیہ ادا کریں گے۔
حضرت خالد نے نوے ہزار سالانہ جزیہ کی شرط پر ان سے صلح کرلی اور یہ معاہدہ ہوا کہ ان کا کوئی گرجا، کلیسا یا قلعہ منہدم نہ کیا جائے گا، نہ ہی ناقوس بجانے سے روکا جائے گا، نہ تہوار کے دن صلیب نکالنے سے روکا جائے گا اور وہ کوئی دغا نہ کریں گے۔ مسلمانوں میں سے کوئی اگر ان کے یہاں سے گزرے گا تو مذہب اسلام کی رو سے حلال کھانے کے ذریعہ ان کی ضیافت کرنی ہوگی اس وقت جو صلح نامہ تحریر ہوا اس کے الفاظ یہ ہیں:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ اہل حیرہ کے لیے خالد بن ولید کی تحریر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ ابو بکر نے مجھے حکم دیا کہ یمامہ سے واپسی میں اہل عراق کے یہاں جاؤں اور ان کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب دعوت دوں، انھیں جنت کی بشارت اور جہنم کی وعیدیں سناؤں۔ اگر وہ قبول کر لیں تو انھیں وہی حق حاصل ہوگا جو مسلمانوں کو ہوتا ہے اور ان کے اوپر بھی وہی فرض ہوگا جو مسلمانوں پر ہوتا ہے۔
حکم کے مطابق میں حیرہ پہنچا میرے پاس ایاس بن قبیصہ طائی چند سرداران حیرہ کے ساتھ آیا۔ میں نے انھیں خدا اور رسول کی جانب دعوت دی، انھوں نے قبول نہ کی تو میں نے ان کے سامنے جزیہ یا جنگ کی بات رکھی۔ انھوں نے کہا ہمیں جنگ کی ضرورت نہیں۔ لیکن جیسے دیگر اہل کتاب نے جزیہ کی ادائیگی پر صلح کی ہے اسی شرط پر ہم بھی مصالحت چاہتے ہیں۔
میں نے دیکھا کہ سات ہزار مرد ہیں۔ ان میں غور کیا تو ایک ہزار اپاہج یا معذور ملے ان کو میں نے شمار سے خارج کر دیا۔ جن پر جزیہ ہوا وہ چھ ہزار مرد ہوئے۔ انھوں نے نوے ہزار کی ادائیگی پر مصالحت کی۔ میں نے شرط رکھی ان پر اللہ کا عہد اور میثاق ہے جو اہل تورات و انجیل سے لیا گیا ہے کہ وہ نہ مخالفت کریں گے، نہ عرب و عجم کے کسی مسلم کے خلاف کسی کافر کو مدد دیں گے۔ نہ مسلمانوں کے خاص مقامات کا غیروں کو پتہ دیں گے۔ ان پر اس سے متعلق اللہ کا عہد اور وہ میثاق ہے جو اس نے اہل تورات و انجیل سے لیا ہے اور وہ سب سے سخت عہد و پیمان جو کسی نبی پر لیا گیا ہے۔ اگر اس عہد کی خلاف ورزی کریں تو ان کے لیے امان اور ذمہ باقی نہ رہے گا۔ اور اگر اس کی نگہ داشت کریں تو کسی عہد والے کو جو حق دیا جاتا ہے ان کے لیے بھی ہوگا۔ اور ہمارے ذمہ ان کی حفاظت ہے اگر اللہ نے ہم کو دشمنوں پر فتح دی تو بھی یہ اس عہد پر رہیں گے۔ ان کے لیے اس پر خدا کا عہد اور میثاق ہے۔
ان کے لیے میں نے یہ بھی رکھا ہے کہ جو شخص سن رسیدہ ہو کر کام سے قاصر ہو جائے یا جسے کوئی ناگہانی آفت پہنچ جائے یا محتاج و نادار ہو جائے کہ اس کے مذہب والے اس پر خیرات کرنے لگیں تو اس کا جزیہ ساقط کر دیا جائے گا اور جب تک وہ دار الاسلام میں رہے اس کی اور اس کے اہل و عیال کی کفالت مسلمانوں کے بیت المال سے کی جائے گی۔ اگر وہ دار الہجرۃ اور دار الاسلام سے نکل کر کسی دوسری جگہ چلے جائیں تو ان کا نفقہ مسلمانوں کے ذمہ نہ ہوگا۔ اور ان کا جو غلام بھی مسلمان ہو جائے اسے مسلمانوں کے بازار میں کھڑا کر کے بغیر کسی کمی اور عجلت کے زیادہ سے زیادہ دام پر فروخت کیا جائے گا اور اس کی قیمت غلام کے مالک کو دے دی جائے گی۔
اور وہ جو بھی پوشاک پہنتے ہیں پہن سکتے ہیں مگر جنگی لباس کی اجازت نہیں، نہ ہی یہ کہ مسلمانوں کا لباس پہن کر ان کے مشابہ ہو جائیں۔ اگر کسی شخص کو جنگی لباس میں دیکھا گیا تو اس بارے میں اس سے باز پرس ہوگی اگر کوئی وجہ جواز بتائی تو ٹھیک ورنہ لباس کے بقدر اسے سزا دی جائے گی۔ ان سے میں نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ جس رقم پر مصالحت ہوئی ہے اسے وصول کر کے مسلمانوں کے بیت المال کو ادا کرنا ان کے عمّال کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں اگر مسلمانوں سے معاون طلب کریں تو انھیں معاون دیے جائیں گے اور معاون کا خرچ مسلمانوں کے بیت المال سے ادا ہوگا۔([31])
ان صلح ناموں سے صاف ظاہر ہے کہ ذمیوں کی جان، مال، معابد کا تحفظ اور ان کے مذہب اور مراسم سے عدم تعرض کا ذمہ لیا جاتا۔ کسی بھی دوسری قوم کے لیے اس سے زیادہ تحفظ کی نظیر کیا ہےَ
خوف خدا:
مسلمانوں کے سارے اخلاق کی اصل ان کا ایمان اور خوف خدا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو ہر حال میں انسان کو اخلاق عالیہ کی دعوت دیتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو عارضی طور پر یا نمائشی طور پر انسان اچھی باتیں اپنا سکتا ہے مگر جب اسے کسی کی آگاہی یا رسوائی کا اندیشہ نہ ہو تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی طاقت ور اور فاتح کسی کمزور اور مفتوح سے کوئی بھی سخت سے سخت معاہدہ کر لے لیکن اس کے اندر اگر عہد شکنی اور بے وفائی پر خدا کا خوف نہیں تو کسی وقت بھی وہ معاہدہ کی خلاف ورزی کر سکتا ہے اور مفتوح و کمزور اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ رہ گیا دنیا میں رسوائی اور بدنامی کا اندیشہ تو جھوٹ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ایسی طاقت ہے جو کسی بھی کمزور کے سچ کو بڑی آسانی سے زیر کر سکتی ہے۔ دنیا وہی مانے گی جو سنے گی۔ آج جو اخلاقی گراوٹ آچکی ہے اس کا سب سے بڑا سبب خوف خدا کا فقدان اور دنیا کی حرص ہے۔ خلفائے راشدین کا حال یہ تھا:
(۱) حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ایک بار بیت المال صاف کیا اس میں ایک درہم رہ گیا تھا اتفاقاً حضرت عمر کا کوئی فرزند وہاں سے گزرا حضرت ابو موسیٰ نے وہ درہم اسے دے دیا۔ فاروق اعظم نے بچے کے ہاتھ میں درہم دیکھا تو پوچھا یہ تجھ کو کہاں سے ملا؟ اس نے بتایا حضرت ابو موسیٰ نے دیا۔ حضرت عمر حضرت ابو موسیٰ کے پاس آئے فرمایا: تم کو مدینہ میں آل عمر سے کمتر کوئی گھرانا نہ ملا۔ تم چاہتے ہو کہ ایک درہم کے واسطے امت کا ہر فرد اس ایک درہم میں اس کی جو حق تلفی ہوئی ہے اس کا مطالبہ لائے اور آخرت میں ہم سے سوال ہو۔ یہ فرمایا اور وہ درہم لے کر بیت المال میں داخل کر دیا۔([32])
(۲) حضرت عمر نے حضرت سلمان فارسی سے پوچھا: میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ؟ انھوں نے کہا: اگر آپ نے اس زمین سے ایک درہم یا کم و بیش وصول کیا پھر اسے وہاں صرف کیا جہاں اسے صرف کرنے کا حق نہ تھا تو آپ بادشاہ ہیں خلیفہ نہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر اشک بار ہو گئے۔ ([33])
(۳) حضرت ابو بکر کے ایک فرزند کا آخری وقت تھا، وہ بار بار اپنے تکیہ کی طرف نگاہ ڈالتا، اس کی وفات ہو گئی تو لوگوں نے صدیق اکبر سے کہا آپ کے فرزند کو ہم نے بار بار تکیے کی جانب نظر کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ تکیہ ہٹایا گیا تو اس کے نیچے پانچ یا چھ دینار ملے۔ حضرت ابو بکر نے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنے لگے۔ فرمایا اے فلاں! میں نہیں سمجھتا کہ تیری جلد ان دیناروں کا بار برداشت کر سکے گی۔
(۴) اپنے وصال کے وقت صدیق اکبر نے فاروق اعظم کو خوف خدا کی تلقین فرمائی اور یہ وصیت کی:
اے عمر! اللہ کا ایک وہ حق ہے جو رات میں ادا ہوتا ہے اور وہ اسے دن میں قبول نہیں فرماتا اور ایک وہ حق ہے جو دن میں ادا ہوتا ہے وہ اسے رات میں قبول نہیں فرماتا۔ یقین جانو کہ جب تک فرض ادا نہ کیا جائے کوئی نفل قبول نہیں ہوتا۔ عمر! تم نے دیکھا نہیں کہ روز قیامت جن لوگوں کی میزان عمل بھاری ہوئی اسی وجہ سے بھاری ہوئی کہ انھوں نے حق کی پیروی کی اور ان کے حق کا پلّہ بھاری رہا۔ اور جس میزان میں کل صرف حق ہی رکھا جائے گا اسے گراں ہونا بھی چاہیے۔ ائے عمر! دیکھا نہیں کہ روزِ قیامت جن کی ترازوے اعمال ہلکی ہوئی اسی سبب سے ہلکی ہوئی کہ انھوں نے باطل کی پیروی کی اور باطل ان کے اوپر ہلکا رہا۔ اور جس میزان میں کل باطل ہی رکھا جائے اسے ہلکا ہونا بھی چاہیے۔ الخ۔([34])
(۵) مصر کے گورنر حضرت عمرو بن عاص نے معاویہ بن خُدیج کو فتح اسکندریہ کی خبر دینے کے لیے مدینہ فاروق اعظم کے پاس بھیجا وہ پہنچے تو دوپہر کا وقت تھا، سواری مسجد کے دروازے پر بٹھائی اور خود مسجد کے اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ ایک باندی آگئی کہ امیر المومنین طلب فرما رہے ہیں۔ خیر و خبر اور طعام و ضیافت کے بعد حضرت عمر نے معاویہ سے پوچھا تم میرے پاس آنے کے بجائے مسجد میں کس خیال سے چلے گئے، انھوں نے عرض کیا: میں نے سوچا دوپہر کا وقت ہے امیر المومنین قیلولہ کر رہے ہوں گے، فرمایا: تم نے برا گمان کیا۔ سن لو اگر دن کو سوتا ہوں تو رعایا کا نقصان اور ان کی بربادی ہے اور اگر رات کو سوؤں تو میرا اپنا نقصان اور میری بربادی ہے۔ معاویہ! ان دونوں باتوں کے ہوتے ہوئے سونا کیسا؟([35])
رہ گئی دوسری چیزیں جیسے بیماروں کی عیادت، کمزوروں کی اعانت، غمزدوں کی تعزیت، ہم سایہ کی رعایت وغیرہ اخلاق فاضلہ تو ان میں خلفائے کرام کا حصہ اوروں سے زیادہ تھا۔ حضرت عمر کے پاس صوبوں سے جب کوئی وفد آتا تو اس سے پوچھتے تمھارے امیر کا کیا حال ہے؟ وہ تعریف کرتے تو پوچھتے: کیا وہ بیماروں کی عیادت کرتا ہے؟ کیا غلاموں کی مزاج پرسی کرتا ہے؟ کیا کمزوروں کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا ہے؟ کیا اپنے دروازے کے باہر لوگوں کی شکایت سننے کے لیے بیٹھتا ہے؟ ان میں سے کسی بات سے متعلق اگر وہ نفی میں جواب دیتے تو حضرت عمر اس امیر کو معزول کر دیتے۔([36])
ان سب کا نتیجہ یہ تھا کہ انھوں نے قوم میں حریت کی روح پھونک دی اور امرا کے لیے اتباع حق کے سوا چارہ نہ رہا۔ کمزوروں، بیماروں کی امداد و عیادت ان کی طبیعت بن گئی۔ اور ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ کسی حاکم نے اگر ہم پر ظلم کیا تو ایسی پناہ گاہ موجود ہے جہاں ظالموں کا زور نہیں چل سکتا۔ ان سب سے فزوں تر یہ ہے کہ خود امیر المومنین کی اگر گرفت ہوتی تو وہ قبول حق کے لیے بخندہ پیشانی تیار رہتا اور اس کا شکر گزار ہوتا جس نے اسے ناحق سے روکا اور حق کی ہدایت کی، یہ صرف اس لیے کہ ان کے دلوں میں خدا کا خوف اور آخرت پر ایمان تھا۔ وہ دنیا کی ذلت و رسوائی کو آخرت کی رسوائی اور سزا کے سامنے ہیچ سمجھتے تھے۔ اور وہاں کی عافیت کو یہاں کی بڑی سے بڑی آسائش پر ترجیح دیتے تھے۔
محمد بن مسلمہ وہ جلیل القدر صحابی تھے جنھیں حضرت عمر گورنروں سے متعلق شکایت کی تفتیش اور بر سر عام ان کی جانچ کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ ایک بار ان سے فاروق اعظم نے پوچھ لیا: تم مجھے کیسا پاتے ہو؟ انھوں نے کہا: خدا کی قسم آپ کو ویسا ہی پاتا ہوں جیسا میں چاہتا ہوں اور جیسا ہر وہ شخص چاہتا ہے جو آپ کی بھلائی چاہتا ہے۔ میں آپ کو مال جمع کرنے پر قادر، خود مال سے کنارہ کش اور مال کی تقسیم میں عادل پاتا ہوں۔ اور اگر راہ عدل سے آپ نے کجی اختیار کی تو ہم آپ کو سیدھا کر دیں گے جیسے تیر کو آلہ سے سیدھا کیا جاتا ہے۔ حضرت فاروق نے فرمایا: خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسی قوم میں رکھا ہے کہ اگر میں کج ہو جاؤں تو وہ مجھے سیدھا کردے۔([37])
یہ وہ اخلاق عالیہ ہیں جن کی مثال کسی قوم کے بڑے بڑے عابدوں اور پارساؤں میں نہیں مل سکتی اور جہاں بانی اور حکمرانی کے باب میں خلفائے راشدین نے جو احتیاطیں برتی ہیں اور جس طرح قوم کو راحت پہنچائی ہے اور خود کو ہر آرام سے کنارہ کش رکھا ہے اس کی نظیر کسی دوسری قوم میں ملنے کی توقع ایک خیال خام سے زیادہ نہیں۔ آج باطل کی قوت اور مسلمانوں کی مجرمانہ مسلسل غفلت نے لوگوں کے لیے طرح طرح کی زبان درازی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ لیکن ہر انصاف پسند اور حق نگر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ عالمی امن اور دائمی خوش حالی اسلامی قوانین اور رسول اسلام اور خلفائے راشدین کی سیرت کے اتباع کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔
وصلی اللہ تعالی و بارک وسلم علیٰ رسولہ و آلہ و خلفائہ و اتباعہ واتباعہم اجمعین.
(۱) طبقات ابن سعد، تاریخ الخلفا، ص:۷۸
(۱) مسند طبرانی، تاریخ الخلفا، ص: ۷۸
(۲) تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام، از شمس الدین محمد بن احمد ذھبی، ۲ / ۲۶۷۔ کنز العمال، ۱۴ / ۲۳۰، تاریخ الخلفا، للسیوطی، ص:۱۲۸
(۳) تاریخ ذھبی، ۲ / ۲۷۱، مناقب عمر، ابن الجوزی، ص: ۱۰۵۔ طبقات ابن سعد، ۳/ ۲۷۷
(۴) تاریخ ذھبی، ۲ / ۲۷۱، طبقات ابن سعد، ۳/ ۳۰۳، ۳۰۴۔ تاریخ الخلفا، للسیوطی، ص: ۱۳۰
(۳) ابن عساکر، تاریخ الخلفا، ص: ۸۰
(۱) الکامل، ابن اثیر، ۲/۴۳۴، کنز العمال، ۱۴/ ۲۹۶
(۲) حیاۃ الحیوان، علامہ کمال الدین دَرمیری، ۱/۴۷
(۱) حیاۃ الحیوان،للدمیری، ۱/۴۷، مطبع حجازی قاہرہ ۱۳۵۳ھ
(۲) حیاۃ الحیوان، ۱/۴۷، کنز العمال ، ۱۴/ ۲۲۹
(۳) کنز العمال، ۱۴/ ۲۵۶ تا ۲۵۹
(۲) طبقات ابن سعد، کنز العمال، ۱۴/ ۳۰۹
(۱) کتاب الخراج للامام ابی یوسف، ص: ۲۴۳، کنز العمال، ۱۴/ ۳۰۷
(۲) طبقات ابن سعد، ابن عساکر۔ کنزالعمال، ۱۴/۲۱۷
(۱) تاریخ الامم و الملوک، ابو جعفر محمد بن جریر طبری، ۵/۱۷۶۔ طبع بیروت۔ الکامل، ۲/۴۲۶
(۱) تاریخ الخلفا، ص:۱۸۵، تاریخ الکامل، ابن اثیر، ۲/۷۵۰
(۲) ابن عساکر، کنزالعمال، ۱۴/۳۲۱
(۱) تاریخ طبری، ۴/۴۳۶، طبع بیروت، دار الفکر۔
(۲) کتاب الخراج للامام ابی یوسف، ص: ۲۸۲ تا ۲۸۸ ملخصاً
(۱) کتاب الخراج للامام ابی یوسف، ص: ۲۸۸ تا ۲۹۰، ملخصاً
(۱) طبقات ابن سعد، کنز العمال، ۱۴/۲۱۴