بِسْمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
الحمد للّہ رب العلمین ، والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین ، وعلی الہ واصحابہ اجمعین ،

مولانا نصراللّٰہ رضوی علیہ الرحمۃ کی حیات وخدمات
(ولادت: ۱۵فروری ۱۹۵۶ ء وفات: ۴؍ محرم ۱۴۳۵ھ مطابق۹؍ نومبر ۲۰۱۳ٕء ، سنیچر)

مولاناحافظ شاداب رضاامجدی بن علامہ نصراللّٰہ رضوی علیہ الرحمہ

اس رنگ ونوربھری دنیا میں، روزانہ نئی زندگیاں جنم لیتی ہیں اور پھر اس کی وسعتوں میں فنا ہو جاتی ہیں، اس میں اکثرو بیشتر کی زندگی اپنی جدوجہدتک محدود رہتی ہے لیکن ایسے افراد بہت کم ملتے ہیں جواپنے اخلاق وکردارسے دوسروں کے لئے مشعل راہ بنیں۔
جامع معقول ومنقول حضرت علامہ نصراللّٰہ رضوی مصباحی علیہ الرحمۃوالرضوان انہیں پاکباز شخصیتوں میں سے ایک تھے، جنہوں نےتدریس وتصنیف اور دین متین کی خدمات زندگی کے آخری لمحات تک بڑے احسن طریقے سے انجام دیں ، یہ ابوالفیض حضور حافظ ملّت علیہ الرحمہ کا فیض ،اورابوالبرکات مفتیٔ اعظم ہند مصطفیٰ رضا قادری علیہ الرحمہ کی برکتیں تھیں، جن کے دامن ارادت سے آپ منسلک تھے ۔
آپ کی جائے پیدائش ضلع اعظم گڈھ موجودہ ضلع مئوکا مشہور ومعروف موضع بھیرہ ہے۔جو ایک قدیم آبادی ہے بھیرہ اعظم گڈھ شہر سے تقریبًا۲۵کلو میٹرپورب مئو شہر سے۲۷کلو میٹر پچھم اور تحصیل محمدآ باد گوہنہ سے۳کلو میٹر اتر واقع ہے ٹونس ندی اسے تین طرف سے گھیرے ہوئےہے گویا یہ علاقہ ایک جزیرہ نما ہےصرف پورب کی طرف سے خشکی کا راستہ ملتا ہے اور اس سر زمین پر بہت سے بزرگوں کی تاریخی یادگار یںہے ۔
اسی سرزمین پرعلامہ رضوی علیہ الرحمہ ۱۵فروری۱۹۵۶کو پیدا ہوئے،آپ کے والد کا نام ماسٹر محمد یونس برکاتی (مرحوم )ہے جنکا وصال ۱۰فروری ۲۰۰۴ منگل کی رات میں ہوا ،ماسٹر محمد یونس برکاتی {مرحوم} صوم و صلوۃ کے بڑے پابند تھے ،اپنے اکلوتے بیٹے کے ہوش سنبھالتے ہی تعلیم علوم نبویہ پر پوری توجہ دی، اور گاؤں کے مدرسہ رحیمیہ میں داخل فرمایا، جہاں آپ نے پرائمری اور ابتدائی فارسی کی تعلیم حاصل کی ، درس نظامی کی ابتدائی کتابیں (میزان، منشعب وغیرہ) صدرالعلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہم العالیہ کے پاس ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوکر پڑھیں۔
اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم اور درس نظامیہ کی تکمیل کے لئے باغ فردوس دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور جاکر اپنے وقت کے ممتاز علماےکرام سے اکتساب فیض کیا ،جن میں حضور حافظ ملّت علامہ شاہ عبدالعزیز محدّث مرادآبادی بانی جامعہ اشرفیہ مبارکپور سر فہرست ہیں ۔ ۱۰؍شعبان ۱۳۹۲ھ مطابق ۱۹۶۹ٕ میں سند فراغت حاصل کی جبکہ الہ آباد بورڈ سے منشی ، منشی کامل ،مدرسہ جدید جغرافیہ وریاضی ،مولوی ، عالم،فاضل دینیات،فاضل ادب،فاضل طب، اور علی گڑھ سےادیب ماہراور ادیب کامل کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔
سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں ،شہزادہ اعلیٰ حضرت تاجدار اہلسنّت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر ۱۹۶۹ ٕ میں بیعت وارادت سے منسلک ہوئے۔
حضرت علامہ نصراللّٰہ رضوی علیہ الرحمہ مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے ،ان کا علمی پایہ بہت بلند تھا ،علما کے درمیان قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، تا دم حیات علمی مشاغل سے منسلک رہے تقریبًا چالیس سال تک آپ کا دریائے علم و عرفان تشنگان علم وآگہی کو سیراب کرتا رہا ،آپ نے ۱۹۷۴ ٕ میں مدرسہ عربیہ ضیا ٕالعلوم ادری ضلع مئو میں، بحکم حافظ ملّت تدریسی سلسلہ شروع کیا، ۱۹۷۶ میں دارالعلوم غوثیہ ذاکر نگر جمشید پور بحیثیت صدرالمدرسین تشریف لے گئےاور پھر ۱۹۷۸ ٕسے مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گوہنہ ضلع مئو میں، تا دم حیات مسند تدریس پر جلوہ فرما تھے آپ کو دینی مدارس کے مروجہ علوم و فنون پر عبور حاصل تھا، کوئی بھی کتاب ہو بے تکلف پڑھاتے تھے ، علم میراث میں تو مہارت تامہ رکھتے تھے ،کہ عربی زبان میں سراجی کا ایک شاندار علمی وتحقیقی حاشیہ لکھا اور آپ کی تفہیم ایسی تھی، کہ مشکل سے مشکل مباحث بآسانی طلبہ کے ذہن میں اتار دیتے، بے تکلفی اور خوش مقالی تو آپ کی زندگی کا لازمہ تھا ،عفو ، در گزر اور رحم و مروت میں اسلاف کی یادگار تھے، تدریس کے ساتھ ساتھ آپ کا شوق وذوق تصنیف و تالیف ،مضمون نگاری،حاشیہ نگاری اورعلمی وفقہی سیمیناروں میں شرکت ،آپ کا محبوب مشغلہ تھا ،آپ کے رشحات قلم درج ذیل ہیں ۔
۱۔برکات السراج لحل اصول السراجیہ {حاشیہ سراجی}
; ۲۔رسم الفرائض{قواعدمیراث}
۳۔بہار جاوداں{حاشیہ گلستاں}
۴۔ضوفشاں{حاشیہ بوستاں}
۵۔ایضاح حقیقت{ترجمہ، شرح حقیقت محمدیہ، فارسی}
۶۔حاشیہ مؤطاامام محمد (علیہ الرحمہ)
۷۔فقہی مقالے {مجلس شرعی کے فقہی سیمیناروں میں دوسرے سے بارہویں سیمینار تک تقریبًا ۴۰ مقالےومضامین قلمبند فرمائے}
امین شریعت فقہی کونسل دہلی کے ساتویں سیمینار کے لئے تحقیقی مقالے لکھے
۸۔مکالماتی مضمون{برکتاب سیدناعبدالوہاب جیلانی کا مدفن بغداد یا ناگور }
ان کے علاوہ دیگر موضوعات پر مضامین و مقالات سامنے آئے، جہاں آپ ان اوصاف و کمالات کے حامل تھے، وہیں پر آپ مکانات کی نقشہ سازی،زمین کی پیمائش مجوزہ عمارت کی لاگت کا تخمینا لگانا یعنی فنّ تعمیر میں آپ ایک ماہر انجینئربھی تھے ۔ غرضیکہ ہر کام، دینی، مذہبی،سماجی گتھیوں کو حل کرنے کا ہنر رکھتے تھے ۔مذہبی کاموں کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے ۔ زیارت حرمین شریفین پہلا سفر حج آپ نے۱۹۹۸ٕ ادا فرمایا اور دوسرا سفرحج مع اہلیہ اور والدہ محترمہ کے ساتھ۲؍دسمبر ۲۰۰۶ٕ میں حج کے فرائض ادا کئے،
طبیعت علیل ہونے کے باعث اچانک۴؍ محرم الحرام ۱۴۳۵ھ مطابق۹؍ نومبر ۲۰۱۳ٕء بروز سنیچر۴ بجکر ۲۵منٹ پر، فجر سے پہلے داعیِ اَجَل کو لَبَّیْک کہا ،اور اپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔
محلہ احمد نگر ،بھیرہ ،برکاتی مسجد کے پاس ،آپ کے نئے مکان کے اتر جانب، آپ کا مدفن ہے۔
ٓٓآپ تاحیات المجمع الاسلامی مبارک پور کے رکن، انجمن امجدیہ اہل سنت اور رضامسجد بھیرہ کے نائب صدر رہے۔
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کی تربت پر رحمت و غفران کی بارش برساتا رہے۔

شاداب رضاامجدی
استاذ، دارالعلوم بشیریہ رضویہ، مادھو سنگھ، اورائی، ضلع بھدوہی، یوپی، ہند
(ملخصاً و تصرفاً)

الاسلامی.نیٹ
www.AL ISLAMI.NET

مزید
مینو