امریکہ میں تبلیغ اسلام کےلیے راہیں ہموار

[اس وقت پوری دنیا میں اسلام اورمسلمان موضوعِ بحث ہیں، نائن الیون کے بعد سے، عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے جوحالات پیداہوئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ مبصرین کےمطابق ان تمام حالات کے پس پردہ ،بہت حد تک امریکہ کا رول رہاہے، ایسے حالات میں امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کاکیاحال ہوگا؟ وہ کس طرح زندگی گزار رہےہوں گے؟ حکومت کاان کےساتھ کیسا رویہ ہوگا؟ ان تمام حالات سے آگاہی کےلیے لوگوں میں دل چسپی پائی جاتی ہے،چناں چہ برسوں سے امریکا کی سرزمین پر دینی خدمات انجام دینے والے عالم دین حضرت مولانا احمدالقادری مصباحی سے،(مولانا) افضل مصباحی (ایڈیٹر ماہ نور) نے خصوصی بات چیت کی ،ذیل میں پیش ہیں گفتگو کےمخصوص اقتباسات۔ ] (۲۰۰۶ ءکا انٹریو)

قارئین: ماہ نورکوآپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔
٭ میرانام احمدالقادری ہے۔ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور،اعظم گڑھ سے تعلیم حاصل کی ہے،اِس وقت دارالعلوم عزیزیہ،پلینو امریکا میں دینی خدمات انجام دے رہاہوں۔
کس زمانے میں آپ نے اشرفیہ میں تعلیم حاصل کی؟
٭ ۱۹۸۳ء میں اشرفیہ سے میری فراغت ہوئی تھی۔
آپ کےکچھ ایسے ساتھی جو دینی خدمات میں مصروف ہیں؟
٭الحمدللہ میرے کئی ایک ساتھی ہیں،جواہم دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں مولانا بدرعالم مصباحی جوالجامعۃ الاشرفیہ میں استاذ ہیں۔مولانا فروغ احمدقادری مصباحی جودارالعلوم علیمیہ جمداشاہی میں ہیں۔ مولاناشفیق الرحمٰن بستوی جواس وقت ہالینڈ میں دینی خدمات انجام دےرہے ہیں اورحافظ ابراہیم گجراتی جوانگلینڈ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ کےاساتذہ؟
٭جن سے میں نےسب سے زیادہ کتابیں پڑھیں ہیں، وہ ہیں میرے بڑے بھائی ، علامہ محمداحمدمصباحی صاحب،انھوں نے میزان سے لےکر سادسہ تک کی کتابیں بڑے خلوص کےساتھ پڑھائیں۔ فیض العلوم محمدآبادگوہنہ میں ،میں نے مولانانصراللہ رضوی مصباحی اورمولاناامجدعلی قادری سے تعلیم حاصل کی۔حفظ کےاساتذہ میں حافظ جمیل احمدقادری اورحافظ و قاری نثار احمدعزیزی ہیں جبکہ اشرفیہ میں محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفےٰ صاحب،بحرالعلوم علامہ مفتی عبدالمنان صاحب، علامہ عبدالشکور صاحب، مولاناعبداللہ خاں عزیزی صاحب، مولانااعجاز احمد صاحب مبارک پوری،مولانااسرار احمد صاحب،مولانانصیرالدین صاحب، مولانا قاری ابو الحسن صاحب وغیرہ ہمارے اساتذہ رہے ہیں۔
آپ نے تدریسی خدمات کہاں کہاں انجام دیں؟
٭اشرفیہ سےفراغت کےبعد ۱۹۸۳ء میں دارالعلوم قادریہ چریاکوٹ میں تدریسی فریضہ انجام دیا۔
۱۹۸۴ء میں مدرسہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد میں تعلیم دی۔
۱۹۸۵ء سے پانچ سال تک مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم بنارس میں پڑھایا۔بنارس کے بعد ۱۹۹۱ء میں اشرفیہ مبارک پور میں بحیثیت مدرس میری تقرری ہوئی،چارسال تک وہاں تدریسی فریضہ انجام دیا۔۱۹۹۵ء میں، افریقہ جاناہوا ،جہاں میں دوسال رہا،دوسال بعد میں امریکا پہنچا اوراُس وقت سے وہیں خدمات انجام دے رہاہوں۔
امریکا میں مسلمانوں کے لیے کیسے حالات ہیں؟
٭امریکہ میں جو مسلمان ہیں، وہ وہاں رہ کرجوچاہیں دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں، اس کےلیے حکومت کی طرف سے پوری آزادی ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جیساکہ ہم نے دیکھاہے، کہ وہاں اگرکوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتاہے، تواس پر بھی حکومت کوکوئی اعتراض نہیں ہوتا ،اور نہ ہی اس کے کسی گھر والے کو۔ ابھی ہمارے ہی دارالعلوم (عزیزیہ امریکا)میں ایک طالب علم پڑھتاہے، جس کے والدین عیسائی ہیں اور وہ لڑکا مسلمان ہوچکاہے۔ وہ کالج میں بھی پڑھتاہے، اور میرے ادارے میں بھی پڑھنے آتاہے۔ وہ اسلام سیکھ رہاہے۔ اس کے والدین جوعقیدے کےاعتبار سے عیسائی ہیں اور اتنے پکے عیسائی ہیں کہ خود اس کے والدکو بھی داڑھی ہے۔ان کو اپنے لڑکے کے اسلام قبول کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس وہ لوگ ایک دن یہ دیکھنے آئے تھے کہ میرا بچہ کہاں جاتاہے اور کیاپڑھتاہے؟ اس طرح وہاں کوئی پابندی نہیں ہے۔اسی طریقے سے کالج اوریونیور سٹیز میں اسلامی لباس میں، جو بچے جاناچاہیں، انھیں مکمل آزادی ہے، جیسے خود ہی میرا بچہ کرتا،پائجامہ اورٹوپی میں ہی جاتاہے، لیکن اس پرکبھی کسی نے کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اسی طرح سے وہاں جوبچے اوربچیاں اسلامی لباس میں جاناچاہیں ،انھیں پوری آزادی حاصل ہے۔ نماز کی ادائیگی کےلیے باضابطہ چھٹی دی جاتی ہے۔ ہم نےجب اپنے بچے کےلیے درخواست دی ،کہ ظہر کی نماز اداکرنے کی مہلت دی جائے ،توان لوگوں نے نہ صرف اجازت ہی دی ،بلکہ اس کے لیے روم بھی دیا۔ اسی طرح اسے جمعہ کی نماز کے لیے بھی چھٹی ملتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی اسلام کےاصولوں پر عمل کرناچاہے، تواسے مکمل آزادی ہے۔ اسی طرح دارالعلوم ،مدارس، اسلامی ویب سائٹ اوراسلامی آرگنائیز یشن وغیرہ کھولنے کی بھی پوری آزادی ہے۔ساتھ ہی نان پرافٹ(Non Profit) کی جوحیثیت وہاں چرچ کودی جاتی ہے، اسی طرح مسجد کوبھی دی جاتی ہے۔ اس پر کوئی ٹیکس وغیرہ نہیں ہے اس لیے جہاں تک تعصب کاسوال ہے تواسلام کے تعلق سے جوتعصب ہندوستان میں ہے ،میں نے اس سے کم تعصب امریکامیں دیکھاہے۔
امریکہ کےکس علاقے میں آپ تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں؟
٭صوبے کانام ٹیکسس ہے ،جوبڑاشہر ہے وہ ڈیلاس ہے، اور ہمارے شہر کانام پلینو ہے۔ وہاں دارالعلوم عزیزیہ ہے جس میں میں کام کررہاہوں۔
آپ جہاں رہتے ہیں وہاں مسلمانوں کی آبادی کاتناسب کیاہے؟
٭تناسب کےاعتبار سے مسلمان تقریباً دو فیصد ہیں ،ویسے ہم جس شہر میں رہتے ہیں وہاں ایک لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔
مذہب کی طرف مسلمانوں کی کتنی رغبت ہے؟
٭مسلمانوں میں مغربیت زیادہ غالب آگئی ہے ،جیسے ہندوستان میں بھی ،دینی رجحانات والے کم ہیں ،دینی تعلیم حاصل کرنے والے بھی کم ہیں ،اِسی طرح وہاں بھی ایساہی ہے۔ البتہ جولوگ بھی دینی مزاج رکھتے ہیں ،وہ پورے طور پراس پرکاربند ہوتے ہیں ،اور دین کادرد بھی رکھتے ہیں ۔
نائن الیون کےبعد وہاں کے مسلمانوں کوکس طرح کی پریشانیوں کاسامنا کرناپڑا؟
٭ تفتیش،جانچ پڑتال وغیرہ کا سامنا کرناپڑا۔وہ لوگ جوخلاف ِقانون تھے ،ان لوگوں کوزیادہ پریشانیوں کاسامنا کرناپڑا ، ان میں سے بیش تر کوشہر بدر کردیاگیا، اس میں وہی لوگ زیادہ پریشان ہوئے، جو خلاف قانون اور(Illegal) تھے ۔جوقانون کے مطابق زندگی گزار تے ہیں ان کوزیادہ پریشانیوں کاسامنا نہیں کرناپڑتا۔
مسلکی طور پر وہاں مسلمان کتنے خانوں میں بنے ہوئے ہیں؟
٭میں سمجھتاہوں کہ اسلام کے جتنے بھی مکتبۂ فکر دنیامیں پائے جاتے ہیں، وہ سب امریکا میں موجود ہیں ۔اِس وقت اہل سنت والجماعت کاغلبہ ہے اور بہت ہی منظم طور پر وہ لوگ کام کررہے ہیں۔اہل سنت کے مدارس،مساجد اور مکاتب وغیرہ بڑی تعداد میں ہیں ،جوتبلیغ اسلام میں تیزی کےساتھ مصروف ہیں۔
کون کون سی اسلامی ویب سائٹ لوگ زیادہ پڑھتے ہیں؟
٭اسلامی ویب سائٹوں میں سب سے زیادہ دیکھی اورپڑھی جانے والی سائٹ اس وقت ”اسلامک اکیڈمی“ ہے، یہ ویب سائٹ اہل سنت والجماعت ہی کی ہے۔اس سائٹ پر تقریباً ۱۷۵ ملکوں کے لوگ آتے ہیں اوران کےسوالات بھی میرے پاس آتے ہیں جن کاہم جواب دیتے ہیں، جولوگ دینی مسائل دریافت کرتے ہیں ان کےسوالات کےجوابات بھی دیے جاتے ہیں۔
[یہ ۲۰۰۶ کی بات ہے، اب۲۰۲۱ تک ، الحمدللہ ! اہل سنت والجماعت کی کافی اچھی اچھی ویب سائٹ منظر عام پر آچکی ہیں، ان میں سے بعض تو بہت آگےہیں ]
وہابیوں کے بارے میں امریکی حکومت کا کیانظریہ ہے؟
٭ وہ لوگ چوں کہ پہلے امریکا پہنچے اس لیے وہ یہ دیکھاناچاہتے ہیں کہ ہم ہی اسلام کےنمائندے ہیں۔ لیکن حکومت کی سطح پرایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
صوفی ازم کی طرف امریکاکا ،کافی رجحان ہے ۔اس کی کیا وجوہات ہیں؟
٭ اس کی وجہ یہ ہے کہ، یہ لوگوں کومعلوم ہوچکاہے کہ دنیا کےاندر جو دہشت گردی، اورجتنے بھی فتنے ہیں وہ وہابیوں کےہی پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اِس کاان لوگوں نے اندازہ لگالیاہے۔
اور اہل سنت والجماعت یعنی صوفی ازم کابھی ان لوگوں نے اندازہ لگالیا کہ یہ انتہائی امن وسکون والے ہیں۔اس لیے اِس کی طرف ان لوگوں کا زیادہ رجحان ہے۔ چنانچہ امریکا کی اب کوشش ہے کہ صوفی ازم کے اصولوں کوعام کیاجائے تاکہ وہابیت کا غلبہ اوران کی تحریکات کم ہوں۔
کیا آپ کو لگتاہے کہ اسلام کودہشت گردی کامذہب بناکر پیش کرنے میں وہابیت کا بڑا رول رہاہے؟
٭ جی ہاں! وہ حضرات اس طریقے کا کام ہی کرتے ہیں، جس سے اسلام بدنام ہوتاہے۔ انھیں چاہیے کہ واقعی اسلام کی جوتعلیمات ہیں ان پر عمل پیرا ہوں۔ اُن کے اس طریقے سے کام کرنے سے پورا اسلام بدنام ہوتاہے۔جتنی بھی اس طرح کی تنظیمیں ہیں وہ سب کی سب وہابی تنظیمیں ہیں۔ اِس سے میں سمجھتاہوں کہ فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔اسلام بلاشبہ امن کا مذہب ہے۔ وہابیوں کےطریقۂ کارسے اسلام کی بدنامی ہورہی ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنے طریقے میں تبدیلی لائیں۔
امریکیوں کامذہب کی طرف رجحان کتناہے؟
٭ بہ نسبت اور ملکوں کے امریکا میں شہریوں کارجحان مذہب کی طرف زیادہ ہے۔ برطانیہ میں چرچ فروخت کیے جاتے ہیں جبکہ امریکا میں نئے نئے چرچ بنائے جاتے ہیں۔ آپ کوحیرت ہوگی کہ جس صوبے میں ہم رہتے ہیں وہاں”بعض جگہ“ ہے، جہاں ابھی تک شراب پرپابندی ہے۔ وہاں کوئی شراب فروخت نہیں کرسکتا۔ یعنی اس شہر میں، کسی بھی جگہ، کسی بھی اسٹورپر شراب نہیں بک سکتی۔ پورے صوبہ میں ،جُواخانہ (casino)پر پابندی ہے،اسی طریقے سے اوربھی کچھ قوانین ہیں ،جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، اس سے ان کے مذہبی ہونے کاپتا چلتاہے۔
مطلب یہ کہ حکومتی سطح پر بھی امریکامیں شراب کو معیوب سمجھا جاتاہے؟
٭ شراب پر توقسم قسم کی پابندیاں عاید ہیں۔ اگر کوئی شخص شراب پی کر گاڑی چلاتاہے، تواس پر بہت زبردست جرمانہ عاید ہوتاہے، اسی طریقے سے اگر کوئی ۱۸؍سال سے کم کا ہوتو شراب خرید نہیں سکتا ہے۔ سگریٹ پر بھی اسی طرح کی پابندیاں ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ نشہ آور چیزوں کو کم کرنے کی بہت زیادہ کوشش جاری ہے۔ یہ مذہبی رجحان ہونے کی علامت ہے۔ چوں کہ وہ ایک کتاب کومانتے ہیں اپنے کو عیسائی کہتے ہیں، بلکہ ان کے جو بعض پادری ہیں ،وہ تواپنے مذہب پرشدت کےساتھ کاربند ہیں۔ جو نَنْ(عیسائی مبلغہ) ہیں ان میں سے بعض توبہت زیادہ حجاب کااہتمام کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ کاواقعہ ہے کہ راستہ چلتے ایک پردہ پوش خاتون پر نظر پڑی توایسا محسوس ہواکہ وہ کوئی مسلم خاتون ہوگی، لیکن حقیقت میں وہ عیسائی تھی۔
اسلام کے تعلق سے کرسچن اوریہودیوں کاکیا نظریہ ہے؟
٭ دوطرح کے لوگ ہیں۔کچھ تو وہ ہیں جواسلام کے شدیددشمن ہیں اور سخت تعصب رکھتے ہیں، جبکہ دوسرا گروہ صلح پسند لوگوں کاہے جواسلام کےساتھ سخت تعصب نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ حمایت بھی کرتے ہیں۔ یعنی وہاں دونوں طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
اسلام کی تبلیغ واشاعت میں آپ کو کن پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے؟
٭ صحیح پوچھیے تو کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی کاسامنا نہیں کرناپڑتاہے۔ نہ حکومت اس میں کوئی رکاوٹ ڈالتی ہے اور نہ کوئی عوام۔ اسلام کے لیے جوکام کرناچاہے اس کے لیے پورے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
بش کی پالیسی کےبارے میں وہاں کے مسلمانوں کا کیانظریہ ہے؟
٭ مسلمان ہی نہیں ،بلکہ وہاں کے باشندے بھی ،اب بش کی پالیسی کے خلاف ہوتے جارہے ہیں۔ بش کےاس طرح کےکاموں سے ان کے ملک کوبھی نقصان پہنچاہے اور ان کی ملت کوبھی۔
حزب اللہ کے خلاف جنگ میں امریکہ نے جس طرح اسرائیل کاساتھ دیا،کیا اس اقدام سے وہاں کے عوام خوش ہیں؟
٭ ابھی کچھ دنوں قبل پارلیمنٹ کے پاس خود وہاں کے کریسچن نے اس کے خلاف مظاہرہ کیا۔ یعنی وہاں کے صلح پسند عوام بھی بش کی پالیسی کو پسند نہیں کرتے۔
امریکی مسلمانوں کی مالی حالات کیسے ہیں؟
٭ بیشتر مسلمان ملازمت کےلیے وہاں گئے ہیں، اس لیے وہ ملازم پیشہ ہیں۔ مالی اعتبار سے وہاں کےمسلمان کمزور ہیں۔
امریکہ میں اہل سنت والجماعت کے جوعلمائے کرام ہیں، ان میں کون کون زیادہ نمایاں ہیں؟
٭ مولاناقمرالحسن مصباحی بستوی، جوتقریباً ۱۲؍سال سے کام کررہے ہیں، مولاناغلام سبحانی مصباحی، مولاناعبدالرب مصباحی اور مولانامسعود احمدبرکاتی مصباحی (وغیرہم) یہ سب ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح سے ہندوستان کے علاوہ پاکستان کے بھی علمائے کرام ہیں جواچھے کام کررہے ہیں۔
ہندوستانی عوام کے ساتھ امریکیوں کا کیا برتاؤ ہے؟
٭ امریکی عوام، ہندوستانی عوام کےساتھ متعصبانہ برتاؤنہیں رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ جتنے بھی ہنگامے ہوے ہیں ان میں انڈیاکا کوئی بھی شہری شامل نہیں ہوا۔ اس لیے وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انڈیاکے لوگ اچھے ہوتے ہیں۔ لہذا اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔
(مطبوعہ،ماہنامہ، ماہ نور، اکتوبر ۲۰۰۶ ء ملخصاً وتصرفاً)

مزید
مینو