بِسمِ اللّٰہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
حالات اعظمی

محب گرامی ،حضرت مولانا عبد الغفار، اعظمی ،نوری ، الجامعۃ الاشرفیہ ، مبارکپور، اعظم گڑھ کے سعادت مند ، لائق و فائق اور ذی استعداد فاضلین میں سے ہیں ۔ اور باذوق مقا لہ نگا ر بھی ہیں، جن کے مضامین، رسائل و اخبارات میں نکلتے رہتے ہیں ۔ قوم و ملت کی فلاح و بہبود کا جذبہ ان کے دلوں میں موجزن ہے ۔ ان کی متعدد کتابیں طبع ہو کر ،منظر عام پہ آچکی ہیں ،جو ان کے دینی و اصلاحی جذبے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
اسم گرامی: عبد الغفار اعظمی ابن عبد العظیم ابن محمد ابراہیم ابن میرو ہے ۔ آپ کے والد بزرگوار ایک محنتی زراعت پیشہ شخص تھے ،جنہوں نے اپنی تنگ دستی اور غربت کی پرواکئے بغیر اپنے اس ہونہار بیٹے کو دینی و مذہبی تعلیم دلاکر اپنے لئے بہترین سامان آخرت تیار کرلیا ۔ جب کہ اپنے دوسرے بیٹے جناب عبد السلام کو حافظ قرآن بناکر اپنے لئے شفاعت کا ذریعہ فراہم کر لیا ۔
ولادت: آپ کی تاریخ پیدائش ۴؍ مئی۱۹۶۲ ء مطابق ۳۰ ؍ ذی قعدہ ۱۳۸۲ھ بروز جمعہ ہے ۔
جائے پیدائش: آپ کی ولادت اپنے آبائی وطن ریوری ڈیہہ متصل ندوہ سرائے ضلع مئو یوپی ہے۔ پہلے یہ علاقہ اعظم گڑھ میں تھا ۱۹؍ نومبر ۱۹۸۸ء کو جب مئو ضلع ہوا تو یہ اس میں شا مل ہوگیا ۔ اسی لئے آپ اپنے نام کے ساتھ اعظمیـ لگاتے ہیں اور جملہ مارکشیٹوں ا ور اسناد میں نام کے ساتھ ۔۔اعظمی۔۔ جڑا ہوا ہے ۔
ابتدائی تعلیم: ندوہ سرائے میں،ابتداء تا درجہ پنجم ،تعلیم حاصل کی اور وہیں ابتدائی فارسی وغیرہ شروع کی ۔
اعلیٰ تعلیم : علاقہ میں باقاعدہ عربی و فارسی کے لئے کوئی مدرسہ نہیں تھا اس لئے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ شوال ۱۳۹۴ھ میں مدرسہ اشرفیہ ضیا ء العلوم، خیر آباد ، مئو میں جماعت اعدادیہ میں داخلہ لیا ۔
اور تقریبا ۴؍ سال تک زیر تعلیم رہے ۔ شوال ۱۳۹۸ھ میں مدرسہ شمس العلوم ، گھوسی میں آگئے ۔ پھر ایک سال بعد شوال ۱۳۹۹ھ مطابق ستمبر۱۹۷۹ء میں مدرسہ عربیہ فیض العلوم ، محمد آباد گوہنہ میں داخلہ لیا ۔
ان دنوں محقق عظیم ،ادیب زماں ، مخلص بے پایاں ، خیر الاذکیا ، حضرت علامہ محمد احمد مصباحی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی خدمات حاصل کرنے میں ار کان فیض العلوم کامیاب ہو چکے تھے اور محقق موصوف صدر المدرسین کی حیثیت سے فیض العلوم تشریف لا چکے تھے ۔ ان کے علمی فیضان کا شہرہ سن کر با ذوق طلباء کشاں کشاں فیض العلوم کی جانب ہر طرف سے ٹوٹے پڑ رہے تھے ۔ انہیں میں مولانا عبد الغفار اعظمی صاحب بھی تھے ۔ یہیں سے میرا اور ان کا ساتھ ہوا ،اور فراغت تک ایک مخلص ہمدرد ، محنتی، رفیق درس کی حیثیت سے ساتھ ساتھ رہے ۔ اور بحمدہ تعالیٰ آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ اُس زمانے میں وہاں مشکوٰۃ شریف تک تعلیم تھی ۔
الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں داخلہ: پھر مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے مرکزی درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ میں ہمارے ساتھ شوال ۱۴۰۱ھ مطابق اگست ۱۹۸۱ء میں داخلہ لیا ۔ اور درس نظامیہ کی تکمیل کی ۔ اور یکم جماد ی الآخرہ ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۷ ؍ مارچ ۱۹۸۳ء بروز جمعرات، عرس حافظ ملت علیہ الرحمہ کے پر بہار موقع پر دستار فضیلت و قراء ت سے نوازے گئے ۔ بخاری شریف ۱۴۰۳ھ سے ہجری اور شرف بخاری شریف ۱۹۸۳ء سے سالِ عیسوی کی تاریخ فراغت نکلتی ہے ۔
مدرسہ فیض العلوم کی تعلیم کا اثر: ان کی تعلیم فیض العلوم میں تو کل دو ہی سال رہی لیکن یہی دو سال در حقیقت ان کی تعلیم کے اہم ایام ہیں جن کو وہ اپنی زندگی کے بیش قیمت لَیْلُ و نَہَار شمار کر تے ہیں ۔
وہاں کی تعلیم کے سلسلے میں اپنے ایک مکتوب میں یوں رقمطراز ہیں ۔ ،، حقیقی معنوں میں فیض العلوم کی تعلیم ہی میرے لئے کامیابی کا باعث بنی ،،
بورڈ کے امتحانات و اسناد
مولوی ( عربی) مدرسہ ضیاء العلوم ،خیر آباد
منشی ( فارسی ) مدرسہ فیض العلوم ،محمد آباد گوہنہ
عالم ( عربی ) مدرسہ فیض العلوم ،محمد آباد گوہنہ
منشی کامل ( فارسی ) مدرسہ فیض العلوم ،محمد آباد گوہنہ
فاضل دینیات ( عربی ) الجامعۃ الاشرفیہ ،مبارکپور
فاضل ادب (عربی)پرائیویٹ، بہ زمانۂ تدریس دارالعلوم سرکار آسی،
فاضل طب ۔ ،، ،، ،،، ،،،، ،،،
فاضل معقولات ۔ ،، ،، ،، ،،، ،،،
بحمدہ تعالیٰ اکثر امتحانات میں اعلیٰ نمبر سے پاس ہوئے ۔
اساتذئہ کرام
آپ کے مشہور و معروف اساتذئہ کرام کے نام مندر جہ ذیل ہیں ۔
بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ ،
محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ صاحب قادری دامت برکاتہم( شہزادۂ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ )
خیر الاذکیاء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہم (ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور، ناظم و بانی المجمع الاسلامی مبارک پور)
قاضی شریعت حضرت علامہ محمدشفیع اعظمی علیہ الرحمہ ،
مفسر قرآن، حضرت علامہ عبد اللہ خاںعزیزی علیہ الرحمہ ،
محدث جلیل حضرت علامہ عبد الشکورعلیہ الرحمہ ،
نصیر ملت حضرت علامہ نصیر الدین عزیزی صاحب ،
استاذ القرا حضرت مولانا قاری ابو الحسن صاحب علیہ الرحمہ ،
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد امجد علی قادری صاحب ،
شارح سراجی حضرت علامہ نصر اللہ رضوی علیہ الرحمہ ،
حضرت مولانا قمر الدین قمر اشرفی علیہ الرحمہ ،
حضرت مولانا فداء المصطفیٰ امجدی صاحب (شہزادۂ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ) حضرت مولانا شفیق احمد علیہ الرحمہ،
حضرت مولانا عبد المنان کلیمی صاحب،
حضرت مولانا سیف الدین علیہ الرحمہ،
حضرت مولانا محمد عمر خیرآبادی علیہ الرحمہ،
حضرت مولانا شمس الضحیٰ خیرآبادی علیہ الرحمہ ،
حضرت مولانا محبوب احمد اشرفی مبارکپوری علیہ الرحمہ۔
حضرت مولانا محبوب احمد صاحب خیرآبادی ، وغیرہم قابل ذکر ہیں ۔
بیعت و ارادت: شہزادئہ اعلیٰ حضرت، حضور سرکار مفتی اعظم ہند ، علامہ مصطفیٰ رضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان سے ( ۱۹۸۲؁ ء میںان کے وصال سے تقریبا ۴؍ ماہ قبل بریلی شریف حاضر ہوکر) بیعت و ارادت سے سرفراز ہوئے ۔

تدریسی خدمات
فراغت کے بعد حضرت مصباحی صاحب قبلہ کے ایماء پرتھوڑے دنوں المجمع الاسلامی؍ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ ، میں رہے، پھر اُس وقت کے صدر المدرسین حضرت مولاناعبد الرب صاحب اعظمی کی دعوت پر، مدرسہ مفتاح العلوم مہراج گنج، اعظم گڑھ میں تقریباً ڈیڑھ سال رہے ۔اس کے بعد شیخ طریقت حضرت مولانامحمد عبد المبین نعمانی صاحب دامت برکاتہم کی دعوت پر دارالعلوم قادریہ، چریا کوٹ ،مئو میں تین ماہ خدمات انجام دیں ۔پھرتقریباایک ماہ مدرسہ عربیہ بحر العلوم ،سدھور ،ضلع بارہ بنکی میں رہے، وہاں اپنا نشان قدم چھوڑ کر شوال ۱۹۸۵ء سے تادم تحریر دارالعلوم سر کار آسی سکندر پور ،بلیا میں نائب صدر المدرسین کے عہدہ پر رہ کر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
پرنسپل کاعہدہ خالی ہونے پر( ۲۱؍ اپریل ۲۰۲۱ء سے ۳۱؍جولائی ۲۰۲۲ء تک ) صدر المدرسین کا فریضہ انجام دیا۔
زیر تدریس کتابیں
دارالعلوم سرکار آسی میں سادسہ تک تعلیم ہوتی ہے۔ مولانا موصوف نے وہاں مندرجہ ذیل کتابیں پڑھائی ہیں۔
(۱) جلالین شریف (عربی زبان میں ایک مختصر اور جامع تفسیر کی کتاب ، جو صدیوںسے درس نظامی؍عالم کورس میں داخل ہے)
(۲) درس قرآن
(۳) مشکوۃ ة شریف، عربی ( حدیث)
(۴) موطا شریف، عربی (حدیث)
(۵) شرح وقایہ اول، دوم، عربی (فقہ ؍ اسلامی قانون)
(۶) قدوری عربی (فقہ ؍ اسلامی قانون)
(۷) نورالایضاح عربی (فقہ ؍ اسلامی قانون)
(۸) کافیہ عربی (نحو ؍ عربی گرامر)
(۹) ہدایت النحو عربی ( نحو ؍ عربی گرامر)
(۱۰) نحومیر فارسی ( نحو ؍ عربی گرامر)
(۱۱)فصول اکبری فارسی ( صرف ؍ عربی گرامر)
(۱۲) علم الصیغہ فارسی ( صرف ؍ عربی گرامر)
(۱۳) پنج گنج فارسی ( صرف ؍ عربی گرامر)
(۱۴) میزان ومنشعب فارسی ( صرف ؍ عربی گرامر)
(۱۵) مجانی الادب (عربی ادب)
(۱۶) فیض الادب (عربی ادب)
(۱۷)شرح تہذیب عربی (منطق)
(۱۸) مرقات ، عربی (منطق)
(۱۹) فارسی کی پہلی، دوسری (فارسی ادب)
(۲۰) گلزار دبستان (فارسی ادب)
(۲۱) تاریخ الخلفاء (تاریخ اسلام)
(۲۲) تاریخ اسلام ۔۔۔۔۔ ۔ ۔وغیرہ
شادی : محمد آباد گوہنہ کے قریب، موضع بھات کول میں، جناب محمد عیدو صاحب کی دختر نیک اختر تسلیم النساء صاحبہ ( پیدائش: ۱۸؍جمادی الآخرہ ۱۳۸۵ھ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۶۵ء بدھ) سے بچپن میں نکاح ہوا ، اور۲۲؍ رجب المرجب ۱۴۰۲ھ مطابق ۲۶؍ اپریل ۱۹۸۲ء پیر کو رسم شادی اور رخصتی عمل میں آئی۔
اولاد
آپ کی کل ۴ ؍ اولادیں ہوئیں ، دو بیٹے، دوبیٹیاں
(۱) احمد رضا (تاریخی نام محمد قدیر رضا۱۴۰۷ ھ)
ولادت : یکم جماد ی الاولیٰ۱۴۰۷ھ مطابق یکم جنوری ۱۹۸۷ء بروزجمعرات ۔
(۲) گلشن آرا
ولادت: ۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۹ھ مطابق ۲۰؍ دسمبر ۱۹۸۸ء بروز منگل ۔
(۳) انجم آرا
ولادت: ۱۳ ؍ جمادی الآ خرہ ۱۴۱۱ھ مطابق یکم جنوری ۱۹۹۱ ء بروز جمعرات ۔
(۴) محمد رضا قادری (تاریخی نام محمد رضا شاہدی ۱۴۱۳ھ)
ولادت: ۲۸؍ رجب المرجب ۱۴۱۵ھ مطابق ۲۲؍ جنوری ۱۹۹۵ء بروز جمعرات ۔
بڑے لڑکے احمد رضا نے ایم ، اے تک تعلیم حاصل کی اور فی الحال کمپوٹر چلارہے ہیں ۔
دوسرے لڑکے محمد رضاقادری نے حفظ ضیاء العلوم خیر آباد میں کیا، قرا ء ت کی تعلیم دارالعلوم وارثیہ (گومتی نگر، لکھنؤ) سے حاصل کی ،اور فضیلت کی دستار، ۲۵؍ اپریل ۲۰۱۹ ء میں مدرسہ شمس العلوم گھوسی سےحاصل ہوئی ۔ فی الحال ایک مکتب میں تعلیم و تدریس میں مشغول ہیں ۔
تنظیمی کام
آپ کو زمانۂ طالب علمی سے تنظیمی و اشاعتی کاموں سے گہرا لگائو تھا ۔ مجلس اشاعت طلبۂ فیض العلوم محمدآبادکے مشیر کار اور اہم رکن رہے ۔ اسی ذوق و شوق کی بناء پر فراغت کے بعد، ابتدا میں المجمع الاسلا می میں آپ کا تقرر ہوا تھا۔
انجمن نوریہ کا قیام: اپنے وطن عزیز، ریوری ڈیہ گائوں میں قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے، ایک تنظیم قائم کی ۔ جس کا نام،پیر و مرشد علیہ الرحمہ کی نسبت سے ـ،،انجمن نوریہ ،، رکھا۔ اس میں جملہ اراکین ماہانہ فیس دیتے، اسی رقم سے وہاں کے قبر ستان میں پیڑ پودے لگائے گئے تھے۔
مدرسہ عربیہ نور العلوم کا قیام: آپ نے انجمن نوریہ اور اس کے اراکین کے تعاون سے زمین کی احاطہ بندی کرائی ،پھر عزیز ملت سربراہ اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ حضرت علامہ عبد الحفیظ صاحب دام ظلہ کو مدعو کیا، اور ان کے دست مبارک سے ۱۱؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ مطابق ۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۷ء بروز جمعہ اسکی بنیاد رکھی گئی ۔ بحمدہ تعالیٰ آج بھی یہ مدرسہ اپنی آب و تاب کے ساتھ رواں ہے ۔
نوری جامع مسجد: دوسرا اہم کام ،گائوں کی مسجد کی توسیع کا تھا
گائوں کے با اثر حضرات سے رائے ،مشورہ کرنے کے بعد اسے شہید کر کے مورخہ ۲۶ ؍ شوال المکرم ۱۴۱۴ھ مطابق ۸؍ اپریل ۱۹۹۴ء بروز جمعہ حضور سربراہ اعلیٰ صاحب مد ظلہ کے مقدس ہاتھوں اس کی بنیاد رکھی گئی جس کا نام ،، نوری جامع مسجد ،، رکھا گیا ۔
اصلاحی کارنامہ
ریوری ڈیہ کی آبادی میں سب سنی ہیں، مگر ان کے درمیان شدید خاندانی اختلاف تھا، کئی پارٹیوں میں بٹے ہوے تھے ،یہاں تک کہ ایک دوسرے کے یہاں کھانا پینا، شادی بیاہ ، آنا جانا بند تھا۔آپس میں لڑائیاں اور جھگڑے ہوتے رہتے،حالانکہ سب ایک شیخ برادری کےتھے ، یہ ہمارے اعظمی صاحب کا عظیم کارنامہ ہے کہ مسجد کی تعمیر کے وقت، اپنی انفرادی اور اجتماعی کوشش سے سمجھا بھجاکر اور ذہن سازی کرکے سب کو ایک کردیا۔پھرسب نےمتحد ہوکر پورے جوش خروش اور ولولے کے ساتھ نوری مسجد کی تعمیر میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا۔
دوسرے مقامات پر اور قرب و جوار میں جہاں اہل سنت کے آپسی اختلافات ہیں یہ اتحاد ان کے لئے نمونۂ عمل اور مِشعل ہدایت ہے۔کہ
رضاے الٰہی کی خاطر اپنے سارے ذاتی اختلافات بھول کر ایک دوسرے کےقصور معاف کرکے متحد ہوجائیں، پھر دیکھیں کتنی تیزی سے اہل سنت وہاں ترقی کرتے ہیں اور دین و مسلک کا کام ، کس طرح تیزی سے بام عروج پرپہونچتا ہے۔
مدرسۃ البنات قمر النساء کا قیام: گائوں اور قرب و جوار میں دختران اسلام کی اعلیٰ مذہبی تعلیمات کے لئے کوئی دینی ادارہ نہیں تھا ۔ آپ نے اسے محسوس کیا اورساڑھے ۵ بسوا، زمین خرید کر بچیوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا بندو بست کیا ،اس کی بنیاد بھی حضور سربراہ اعلیٰ صاحب مد ظلہ کے مقدس ہاتھوں ۱۰؍ رجب المرجب ۱۴۳۳ھ مطابق یکم جون ۲۰۱۲ء بعد نماز جمعہ، رکھی گئی جس کا نام ،، ان کی والدہ مرحومہ کے نام پہ ــ،، مدرسۃ البنات قمر النساء ،، رکھا ۔
آغاز تعلیم : بحمدہ تعالیٰ ۸؍ ماہ کی قلیل مدت میں مورخہ ۱۴؍ ربیع الاول ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۷؍ جنوری ۲۰۱۳ء بروز اتوار ۱۰؍ بجے دن باضابطہ مولانا اعظمی صاحب کے دعائیہ کلمات سے تعلیم کا آغاز ہوا ۔ فی الحال اردو ، دینیات ، وغیرہ کے علاوہ جماعت ثالثہ تک ، باصلاحیت معلمات کی نگرانی میں تعلیم کا سلسلہ جاری و ساری ہے، اور طالبات شرعی پردہ کے ساتھ علوم دینیہ ، اور افکار اسلامیہ کی تعلیم و تربیت حاصل کر رہی ہیں ۔
زیارت حرمین شریفین
پہلا سفرحج: ۱۷؍ فروری ۲۰۰۱ء کو بائی ایر انڈیا دلی سے جدہ پھر وہاں سے بذریعہ بس قیام گاہ مکہ مکرمہ ۔ارکان حج کی ادائیگی کے بعد ۲۲؍ مارچ ۲۰۰۱ء کو مدینہ منورہ حاضری ہوئی ، وہاں ۸؍ روز قیام کے بعد جدہ شریف، وہاں سے یکم اپریل ۲۰۰۱ء کو( بذریعہ ایر انڈیا) دلی واپسی ہوئی ۔
دوسرا سفرحج: ۲۲ ؍ اکتو بر ۲۰۱۰ء کو ( والدین کریمین اور اہلیہ محترمہ کے ساتھ، ۴ نفر) حج و زیارت کے لئے بنارس سے (بذریعہ ایر انڈیا)مدینہ منورہ کی روانگی ہوئی، ۸ ؍دن وہاں قیام کے بعد (بذریعہ بس )مکہ مکرمہ حاضری ہوئی۔یہاں حج کے ارکان ادا کرنے کے بعد ۲؍ دسمبر ۲۰۱۰ء کو جدہ کے لئے روانہ ہوئے، پھر وہاں سے ۳؍ دسمبر ۲۰۱۰ء کو (بذریعہ ایرانڈیا بنارس ) واپسی ہوئی۔
تیسرا سفر برائے عمرہ
اس سفر کے سلسلے میں ایک مکتوب میں اعظمی صاحب کچھ اس طرح رقمطراز ہیں
ایک عرصہ سے یہ دلی خواہش تھی کہ کاش رمضان المبارک کے با برکت مہینے میں عمرہ کی سعادت حاصل ہو جائے ، مگر مدرسہ وغیرہ کی ذمہ داریوں کے پیش نظر ٹلتا رہا ، آخر کا ر رب قدیر نے یہ خواہش بھی پوری کردی۔
چنانچہ ۸؍ مارچ ۲۰۲۴ء مطابق ۲۶؍ شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ بروز جمعہ مع اہلیہ گھر سے بذریعہ ٹرین دلی کے لئے روانہ ہوا ۔ دوسرے دن دوپہر کو دلی پہونچا اور ۹؍ مارچ ۲۰۲۴ء بذریعہ سعودی ایر لائن ۸ بجکر ۱۰ منٹ پر روانہ ہوکر جدہ پہونچا۔
پھر وہاں سے بذریعہ بس سعودی ٹائم کے مطابق ۵؍ بجے بھور میں مکہ شریف قیام گاہ پر پہونچا۔ پھر ضروریات سے فارغ ہو کر ۸؍ بجے صبح حرم شریف پہونچ کر عمرہ کی سعادت حاصل کی
(ذٰلِک فضل ا ٱللهيُؤْتِيہِ مَنْ يَشَآءُ وَاللہ ذُو ا ٱلْفَضْل ا ٱلْعَظِيم ۔
یہ اللہ کا فضل ہے جسے چا ہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ سورہ جمعہ آیت ۴)
اس طرح یہ دیرینہ خواہش بھی پوری ہو گئی ۔ یہاں دس (۱۰)دن قیام کے بعد ۲۰؍ مارچ ۲۰۲۴ء
کو ۸؍ بجے صبح بذریعہ بس ، مکہ شریف سے روانہ ہوکر ۳؍ بجے مدینہ منورہ شریف قیام گاہ پر پہونچا ،بعد غسل ،حرم شریف پہونچ کر روضئہ رسول ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا ۔
یہاں ۸؍ دن قیام کے بعد ۲۸؍ مارچ ۲۰۲۴ء کو بعد نماز ظہر ۴؍ بجے دن ہوٹل سے بذریعہ بس جدہ ایر پورٹ پہونچا اور ۲۹؍ مارچ کی بھور میں ڈیڑھ بجے شب کی فلائٹ سے ۹؍ بجے صبح دلی پہونچا ،پھر وہاں سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوکر ۳۰؍ مارچ ۲۰۲۴ء کی صبح، گھر پہونچ گیا ۔
عمرہ کے دوران ایک ایسا عظیم حادثہ پیش آیا جو نہ ٹالا جا سکتا تھا اور نہ اسے پوری زندگی بھلایا جا سکتا ہے ، یعنی ہمارے عظیم مشفق والد بزرگوار حاجی عبد العظیم علیہ الرحمہ۲۶؍ مارچ ۲۰۲۴ء مطابق ۱۵؍ رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ شب منگل، ڈیڑھ بجے اللہ کو پیارے ہو گئے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ہم لوگوں کو یتیم چھوڑ کر دار بقا کی راہ لے لی ۔ جس کا بے حد صدمہ ہوا کوشش کے باوجود جنازے میں شرکت کی کوئی سبیل پیدا نہ ہو سکی، اس لئے آخری زیارت اور نماز جنازہ پڑھا نے سے محروم رہا ۔ نماز جنازہ برادر صغیر حافظ عبد السلام صاحب نے پڑھائی ۔
تقریبا ساڑھے تین سال قبل ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء مطابق شب ۲؍ ربیع الاول بروز پیر ۹؍ بجے ہماری مشفقہ والدہ محترمہ حجن قمر النساء علیہا الرحمہ بھی اس دنیا کو الوداع کر چکی تھیں ، اب ہم سایۂ مادری و پدری دونوں سے محروم ہو گئے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے والدین کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ ۔
بیرون ملک کا سفر: مولانا موصوف نے ۳ بار امریکا کا سفر کیا ۔
پہلا سفر: حافظ عبد السلام بھیروی(گجراتی مسلم سوسائٹی شکاگو) کی دعوت پر ۲۶؍ جنوری ۲۰۰۴ء کو (بذریعہ ایر انڈیا وایا لندن) شکاگو کا سفر کیا ،جوامریکا کا خوبصورت اور مردم خیز خطہ ہے ۔
اُن دنوں وہاں کے امام خطیب حضرت مولانامفتی حفیظ الرحمٰن صاحب حج بیت اللہ اور اپنے آبائی وطن ہند کے سفر پر گئے تھے ۔ ان کی واپسی تک وہاںامامت و خطابت اور قوم و ملت کے نو نہالوںکی مذہبی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔
پھرجناب حافظ غلام اسمٰعیل پٹیل صاحب ( بانی و سرپرست المدینہ اسلامک سینٹرشکاگو ) کی خواہش پر، وہاں جمعہ کی امامت و خطابت اور ہفتہ وار درس قرآن ، دینی و مذہبی مسائل ا ور دیگر خدمات تقریبا ڈھائی ماہ تک انجام دیں۔شکاگومیںکل ۶ ماہ قیام رہا ، اس دوران متعدد جگہوں کاتبلیغی دورہ ہوا، اور کئی پروگرامس میں شرکت رہی۔ ۱۴؍ مئی کو ،،انڈیانا ،، کےجلسئہ عید میلاد النبی ﷺ میں شریک ہوئے ۔
آن لائن پروگرام : ۲۹ ، ۳۰ جنوری ۲۰۰۴ء کوقربانی اور اس کے احکام ،، کے عنوان سے آن لائن سوالات کےجوابات کے لئے موصوف کو مدعو کیا گیا ۔
ریڈیو پروگرام: ۷؍ فروری کو ،، سیرت رسول ،، کے عنوان سے ، جناب مشتاق احمد صاحب ہیو سٹن کی معرفت ریڈیو بصیرت پربیان نشر ہوا ۔
ہیوسٹن: ۵؍ جو ن ۲۰۰۴؁ء کو حضرت مولانا عبد الرب اعظمی نوری ، ( بانی ومہتمم، آدم مسجد، ہیوسٹن ) کی دعوت پر شکاگو سے ہیوسٹن بذریعہ جہاز تشریف آوری ہوئی ۔ اور النور مسجد کے پروگرام میں شرکت فرمائی۔
ڈِیلَس: ۸؍ جون ۲۰۰۴ء کو ہیوسٹن سے ڈیلس تشریف لاے اور دارالعلوم عزیزیہ پلینو، ٹیکسَس کے پروگرام میں شرکت فرمائی ۔ پھر ۱۰ ؍ جون ۲۰۰۴ء کو شکاگو واپس تشریف لےگئے ۔
دوسرا سفر: یکم دسمبر ۲۰۰۵ء کو گجراتی مسلم سوسائٹی شکاگو کی دعوت پر( وایا لندن ) امریکا تشریف لائے ۔ وہاں مسجد عائشہ، دیوان،شکاگو میں امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ تعلیم بالغاں کے لئے تفسیر قرآن کا درس اور گجراتی مسلم سو سائٹی میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ اور دیگر قرب و جوار کے پروگرام میں شرکت کی ۔پھر ۲۶؍ فروری ۲۰۰۶ء کو شکاگو سے( وایا لندن بذریعہ ایر انڈیا) دلی واپسی ہوئی ۔
تیسرا سفر: ۴ ؍ نومبر ۲۰۰۹ ء کو بذریعہ ایر انڈیا ، اسلامک ڈائریکشن اینڈ انہنس منٹ ایسوسی ایشن (IDEA)گارلینڈ، ٹیکساس، امریکا کی دعوت پر ڈیلس تشریف لائے۔
،،مکہ مسجد ،، میں امامت و خطابت اور بچوں کو دینی تعلیم دینےکے علاوہ بالغین کے لئےتفسیر قرآن ، عربی اور قراء ت کی تعلیم کا بھی اہتمام تھا ۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا غلام سبحانی صاحب رشیدی کی دعوت پر، ضیاء القرآن مسجد، ارلنگٹن اور حضرت مولانا حافظ سراج احمد مصباحی صاحب کی دعوت پر ،، مدینہ مسجد کیر لنٹن، تشریف لے گئے۔
ڈیلس میں قیام کے دوران میری ان سے بارہا ملاقات رہی ۔
با لآخر ۳؍ فروری ۲۰۱۰ء کو ڈیلس سے دلی کے لئے روانہ ہوگئے ۔
تصنیف و تالیف
(۱) سیرت رسول اعظم: ﷺ جو سیرت کے عنوان پر عام فہم اردو زبان میں ایک عمدہ کتاب ہے با لخصوص طالبان علوم نبویہ کے لئے سیرت میںمعاون ہے، طلبہ اس سے بخوبی استفادہ کر سکتے ہیں ۔ )المجمع الاسلامی مبارک پور سے شائع ہوئی ہے، اس کے تین ایڈیشن نکل چکے ہیں)
(۲) اصلاح رسوم: مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط رسومات کے خلاف اصلاحی پیغام جسے پڑھ کر عوام راہ راست پر آ سکتے ہیں ۔ )المجمع الاسلامی مبارک پور سے شائع ہوئی ہے، اور اس کےتین ایڈیشن نکل چکے ہیں)
(یہ کتاب رضا اکیڈمی رجسٹرڈ لا ہور پاکستان سے بھی شائع ہوئی ہے )
(۳) علماء و مشائخ سکندرپور: سکندرپور علماء و مشائخ کرام وبزرگان دین کا مرکز رہا ہے ۔ مگراب تک ان کے حالات کتابی شکل میں عوام کے سامنے نہیں آسکے تھے۔ مولانا نے کافی تگ و دَو اور محنت و مشقت سے یکجا کرکے،سکندر پور کے حالات عوام کے سامنے پیش کئے ۔ (مطبوعہ)
(۴) چالیس احادیث کا انمول تحفہ: اس کتاب میں چالیس احادیث منتخب کرکے کتابی شکل دی گئی ہے ۔ (مطبوعہ)

مقالات و مضامین
ان میں سےبیشتر کسی رسالے یا اخبار میں شائع ہوچکے ہیں
(۱) معجزات رسول ﷺ کی ایک جھلک
(۲)رسول اللہ ﷺ کی تاریخی حیثیت
(۳) مختصر حالات حضرت سرکار آسی
(۴)حضرت سرکار آسی کا وطن عزیز
(۵) حضرت آسی کی شاعری پرسرسری جائزہ
(۶)حضرت آسی بحیثیت شاعر
(۷)سکندر پورتاریخ کے آئینے میں
(۸)مختصر حالات حضرت دیوان جی قدس سرہ
(۹)خانقاہ رشیدیہ کی مثالی وامتیازی خصوصیات
(۱۰)حضرت فانیؔ گورکھ پوری کی ہمہ گیر شخصیت
(۱۱) مشائخ خانقاہ رشیدیہ کا اجمالی تعارف
(۱۲) مولانا وکیل احمد سکندر پوری کی ادبی خدمات
(۱۳) امام احمدرضا کا تبحر علمی
(۱۴) حضرت محدث ثناء اللہ کی عبقری شخصیت
(۱۵)مختصر سوانح حیات حکیم امیر احمد مشاہدیؔ
(۱۶) بلبل ہند کی دینی وملی خدمات
(۱۷)مختصر حالات حاجی الحرمین حضرت محمدعرف حاجی شاہ محمد
(۱۸)مختصر حالات حضرت مخدوم شیخ پور
(۱۹) ضلع مئو کی تاریخی حیثیت
(یہ مقالہ ریڈیو اسٹیشن گورکھ پور میں ۴؍ فروری ۱۹۹۹ء کو ریکارڈ ہوا ، اور ۱۶؍ فروری ۱۹۹۹ء ساڑھے نو بجے نشر ہوا)
(۲۰)اردو کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ کا کردار
(یہ مضمون گورکھ پور ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوا)
(۲۱) اردو ادب اور صوفیاےکرام
(۲۲) ہندوستان اور اردو ادب
(۲۳) یوم عاشورہ کاتاریخی پس منظر
(۲۴) فضائل شعبان المعظم
(۲۵)تاریخ مکہ مکرمہ
(۲۶)تاریخ مدینہ
(۲۷)عدل اسلامی اور ہندوستان
(۲۸) فضیلت نماز
(۲۹) حالات قادری
(۳۰) حالات حضرت مولانا آزاد سبحانی ، وغیرہ
بقیۃ السلف حضرت مولانا محمد عبد المبین نعمانی صاحب
دامت برکاتہم کے تأثرات
اصلاح رسوم نامی کتاب میں اس کے مرتب مولانا عبد الغفار نوری مصباحی استاذ دارالعلوم سرکار آسی ، سکندر پور، بلیا نے علمائے اہل سنت کی چند کتابوں سے اقتباسات لے کر ایک لڑی میں پرو دیا ہے، ضرورت ہے کہ اس اصلاحی کوشش سراہا جائے اوراس کی اشاعت و تقسیم میں حصہ لیا جائےتاکہ شادی بیاہ کی راہ سے جوخرابیاں پیدا ہوگئی ہیں وہ دور ہوں۔
ائمۂ مساجد حضرات سے گزارش ہے کہ اس کے مضامین پڑھ کر یا ذہن نشیں کرکے جمعہ کے بیانات میں سنائیں۔
(اصلاح رسوم ص ۹)
دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ قبول فرماے ، دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرماے،ان کی تالیفات کو قبولیت عامہ عطا فرماے، امت مسلمہ کو ان سےزیادہ سے زیادہ استفادۂ و افادہ کی توفیق بخشے۔
آمین، یا رب العلمین، بجاہ حبیبک سید المرسلین، علیہ وعلیہم الصلاۃ والتسليم

احمدالقادری مصباحی
اسلامک اکیڈمی، ڈیلس ، ٹیکساس، امریکا
نظر ثانی: ۴ ؍محرم ۱۴۴۶ھ ؍۱۱ جولائی ۲۰۲۴ ء بروز جمعرات

مراجع و مآخذ
۱۔معلومات و مشاہدات از صاحب سوانح ، مولانا عبد الغفار اعظمی
۲۔سیرتِ رسول اعظم صفحہ ۸ تا۰ ۱
۳۔معلومات از مولانا حافظ محمد رضا بن مولانا عبد الغفار اعظمی
۴۔ذاتی معلومات و مشاہدات
۵۔اصلاح رسوم
۶۔ مکتوبات اعظمی

احمد القادری مصباحی
الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

مزید
مینو