علامہ محمداحمدمصباحی دامت برکاتہم
صدرالعلماخیرالاذکیاحضرت علامہ محمداحمدمصباحی دامت برکاتہم القدسیہ، ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور، دور حاضر کی ایسی مثالی اور نابغۂ روزگار شخصیت ہیں، جن کو خدائے تعالیٰ نےبےشماراوصاف وکمالات سے نوازاہے ۔
آپ عالم اسلام کی ان چند شخصیتوں میں سے ایک ہیں جن کو انگلیوں پرشمارکیا جاسکتاہے ۔آپ کی حیات کا لمحہ لمحہ خدمت اسلام کےلیے وقف ہے آپ کانام اور کام برصغیر ہندوپاک میں محتاج تعارف نہیں ۔
خیرالاذکیامدظلہ نہایت صالح، نیک طینت، رقیق القلب، شریعت کےسخت پابند،اوراسوۂ رسول پر کار بندہیں ،کم خفتن ،کم گفتن ،کم خوردن آپ کا شیوہ ہے تصنیف وتالیف اور تعلیم وتعلم آپ کااوڑھنابچھونا ہے، اس دور میں آپ کی عظیم شخصیت کتاب وسنت کےمسندعلم ودانش کی نقیب بن کرابھری اور ابھرتی ہی چلی گئی ،یہاں تک کہ آسمان سنیت پر چھاگئی اوروہ وقت بھی آیاکہ اس ہستی کی عبقری شان دن کےاجالے کی طرح ،آسمان دنیاکےسامنے اجاگر ہوگئی اور قوم نے خیرالاذکیا، صدرالعلما، وقارعلم وحکمت کے مؤقرالقابات دےکرشہرہ آفاق، مرکزی ادارہ جامعہ اشرفیہ مبارک پورکے صدرالمدرسین پھر ناظم تعلیمات کا عظیم عہدہ آپ کوسونپ دیا۔
آپ کااسم گرامی محمداحمدہے، والدماجد محمدصابراشرفی (ولادت ۱۳۲۳ھ ۱۹۰۵ء۔م۵؍جمادالآخرہ۱۴۱۱ھ مطابق ۲۳؍دسمبر۱۹۹۰ء شب دوشنبہ۱۰بجے) ابن عبدالکریم مرحوم ابن محمداسحاق مرحوم ہیں۔
حضرت صدرالعلما ایک زمیں دار، دینی اسلامی خانوادے میں ۱۸؍ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ مطابق ۹؍ستمبر۱۹۵۲ء میںپیداہوئے۔
آپ کےوالدجناب محمدصابر اشرفی مرحوم دینی تعلیم کاوافر شوق رکھنے والے اور علما نواز شخص تھے ۔اسلام وسنیت میں نہایت پختہ، پابندصوم وصلوٰۃ، نہایت سادہ مزاج اورخداترس تھے،رفاہی کاموں سے کافی دلچسپی رکھتے اورمسلک اہل سنت وجماعت میں کافی سرگرم تھے۔
آپ سیدشاہ اشرف حسین کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے ۵؍جمادی الآخرہ ۱۳۴۵ھ کو پنجشبہ کےدن بیعت ہوئے۔
والدہ ماجدہ محترمہ تسلیمہ بنت عبدالرشید ابن عبدالصمد محلہ پورہ دیوان ،تقریباً۱۳۲۵ھ مطابق ۱۹۰۷ء میں پیداہوئیں اور بھیرہ میں ۱۵؍محرم الحرام ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۳؍نومبر۱۹۸۱ءبروز جمعہ ۱۰؍بج کر ۳۵؍منٹ پرقبل جمعہ، داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔اسی دن بعد نمازعصرجنازہ کی نماز چھوٹے صاحبزادے حضرت مولانا حافظ احمدالقادری نےپڑھائی۔حضرت علامہ مصباحی صاحب والدہ کے انتقال سےایک دن قبل بریلی شریف پیرومرشد حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی نمازجنازہ میں شرکت کےلیےجاچکےتھے۔دوسرے دن واپس آکروالدہ ماجدہ کی قبرپرحاضری دی اورفاتحہ پڑھی۔
والد ماجد محمدصابر اشرفی مرحوم اکابراہل سنت مثلا صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی(۱۲۹۶ھ مطابق ۱۸۷۸ء۔م۱۳۶۷ھ مطابق۱۹۴۸ء)حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز (۱۳۱۲ھ۔ م ۱۳۹۶ھ) شیخ العلماعلامہ غلام جیلانی اعظمی (۱۳۲۰ھ ۱۹۰۲ء۔ وفات ۶؍ربیع الاول ۱۳۹۷ھ ۲۵؍فروری ۱۹۷۷ء جمعہ)سلطان الواعظین علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی(۱۳۳۳ھ۔ م ۱۴۰۶ھ)شارح بخاری علامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی(۱۹۲۱ء۔ م ۶؍صفر ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء) علیہم الرحمہ وغیر ہم سے بڑے اچھے تعلقات تھےبعض اوقات خیرالاذکیا مدظلہ العالی بھی آپ کے ہمراہ ہوتے اورعلماےکرام سےاپنےہونےوالے اس جیدعالم دین بیٹے کےلیےدعائیں لیتے ۔بڑی ہی محنت ولگن کیساتھ آپ نے تعلیم دلوائی اوراس راہ میں آنےوالی ہرپریشانی کوخندہ پیشانی کیساتھ برداشت کیا مگرتعلیم وتربیت میں کسی طرح کاکوئی نقصان نہ آنےدیا۔
تعلیم
ابتدائی تعلیم والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ پھردرجہ سوم تک پرائمری تعلیم مدرسہ اسلامیہ رحیمیّہ بھیرہ میں ہوئی جسے شاہ رحیم اللہ فاروقی بھیروی علیہ الرحمہ نے ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۶ء میں قائم فرمایا۔حضرت شاہ صاحب بڑے علم دوست ،پختہ سنی تھے۔ہرجمعرات کو ان کے یہاں میلاد شریف کی محفل ہوتی اورہرسال حضرت شاہ ابوالخیربھیروی علیہ الرحمہ ؍ حضرت مخدوم شاہ اسماعیل بھیروی علیہ الرحمہ کاعرس بڑے تزک و احتشام کےساتھ منعقد کرتے۔
۱۸؍اپریل ۱۹۶۲ءبروزیکشنبہ مطابق ۴؍ذی قعدہ ۱۳۸۱ھ سے شعبان ۱۳۸۶ھ مطابق نومبر ۱۹۶۶ء تک ۵؍سال بڑے اطمینان وسکون ،محنت،لگن اورپوری توجہ کےساتھ اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد میں ابتدائی فارسی سے شرح جامی تک تعلیم حاصل کی ۔
۱۰؍شوال ۱۳۸۶ھ مطابق ۲۲؍جنوری ۱۹۶۷ء دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور میں داخلہ لیا اور ۱۰؍ شعبان ۱۳۸۹ھ مطابق ۲۳؍اکتوبر۱۹۶۹ء مقتدرعلماومشائخ کےمبارک ہاتھوں دستارفضیلت باندھی گئی۔
دستارفضیلت کے بعد تدریس کےلیےایک جگہ آئی والدماجد نےتدریس کےلیےاجازت دے دی، مگر جب حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) کو معلوم ہواتو انہوں نے روکااور یہ فرمایاکہ’’میں اور قیمتی بناناچاہتاہوں‘‘اس لیے آپ نےتدریس کاارادہ ترک کردیا،اوروالد ماجد کی اجازت سےپھرشوال ۱۳۸۹ھ مطابق دسمبر۱۹۶۹ء سے ربیع الآخر ۱۳۹۰ھ مطابق جون ۱۹۷۰ء تک دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم میں مزید تعلیم حاصل کی۔ واقعی حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ۔ م ۱۳۹۶ھ)نے جیسا فرمایا تھااس سے کہیں زیادہ قیمتی بنادیا۔
علامہ مصباحی کےاساتذہ کرام کے اسماحسب ذیل ہیں ۔
اساتذہ ضیاء العلوم خیرآباد
مولانامحمدعمرخیرآبادی،مولانا محمدحنیف مصباحی مبارک پوری ،مولانا محمد سلطان رضوی ادروی، مولاناغلام محمدبھیروی(۱۵؍مئی ۱۹۴۷ء۔م ۲۷؍صفر ۱۴۱۱ھ ؍۸؍ ستمبر ۱۹۹۱ء) حافظ قاری نثاراحمدمبارک پوری (وصال ۵ ؍شوال ۱۴۳۹ھ، ۲۱؍جون ۲۰۱۸ء)،ماسٹر اسراراحمدخاں ادروی، ماسٹر محمدرفیق مبارک پوری۔
اساتذہ جامعہ اشرفیہ
جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ الشاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری(ولادت ۱۳۱۲ھ۔ م ۱۳۹۶ھ) حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی(۱۹۱۳ء۔ م ۱۳۹۱ھ؍۱۹۷۱ء)قاضیٔ شریعت حضرت مولانامحمدشفیع مبارک پوری (۱۳۴۴ھ۔ م ۱۴۱۱ھ؍۱۹۹۱ء) بحر العلوم مفتی عبدالمنان اعظمی(۱۳۴۴ھ۔ م ۱۵؍محرم ۱۴۳۴ھ) حضرت مولاناقاری محمدیحییٰ صاحب مبارک پوری(۱۹۲۴ء۔ م ۲۶؍ذی الحجہ ۱۴۱۶ھ؍۱۹۹۶ء)حضرت مولاناسیدحامداشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ (م۱۸؍صفر ۱۴۲۵ھ) مولانامظفر حسن ظفرؔادیبی،مولانااسرار احمد لہراوی ۔
اسناد
(۱)سندتجوید
(۲)سندفضیلت درس نظامی ۱۳۸۹ھ ؍۱۹۶۹ء(جامعہ اشرفیہ)
(۳)مولوی ۱۹۶۶ء (عربی فارسی بورڈ اترپردیش)
(۴)عالم ۱۹۶۸ء
(۵)فاضل دینیات ۱۹۷۵ء
(۶)فاضل ادب ۱۹۷۷ء
(۷)فاضل طب ۱۹۸۰ء
(۸)منشی ۱۹۸۱ء
(۹)منشی کامل ۱۹۸۳ء۔ (عربی فارسی بورڈ اترپردیش)
تدریسی خدمات
ربیع الآخر۱۳۹۰ھ مطابق جون۱۹۷۰ءمیںبحکم حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ۔ م ۱۳۹۶ھ) اشرفیہ چھوڑ کر، حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی (۱۹۱۳ء۔ م ۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱ء)اورحضرت قاری محمدیحییٰ صاحب علیہماالرحمۃ(۱۹۲۴ء۔ م ۲۶؍ذی الحجہ ۱۴۱۶ھ/۱۹۹۶ء) کی ہم رکابی میں دارالعلوم فیضیہ نظامیہ، باراہاٹ، اشی پور،ضلع بھاگل پور،براے تدریس تشریف لے گئےیہاں شعبان۱۳۹۱ھ اکتوبر۱۹۷۱ء تک رہے،پھر مولانا حافظ قاری فضل حق مصباحی غازی پوری کے توسط سےمدرسہ عربیہ فیض العلوم جمشید پور تشریف لاے (زمانۂ تدریس دسمبر ۱۹۷۱ءتانومبر۱۹۷۶ء) اس کے علاوہ دارالعلوم نداے حق جلال پورفیض آباد(زمانہ ٔ تدریس ذی الحجہ ۱۳۹۶ھ دسمبر ۱۹۷۶ءتاشوال ۱۳۹۸ھ ۱۷؍ستمبر ۱۹۷۸ء)مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گہنہ(زمانہ تدریس شوال ۱۳۹۸ھ ۱۹۷۸ءتا۸؍شوال ۱۴۰۶ھ جون ۱۹۸۶ء) میںپھر۹؍شوال ۱۴۰۶ جون ۱۹۸۶ء سے شہرۂ آفاق مرکزی ادارہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں۔منصب صدارت پر یکم اگست ۲۰۰۱ءتاجون ۲۰۱۴ء فائزرہے اور جون۲۰۱۴ءمیں ریٹائرڈ ہونے کے بعد جامعہ اشرفیہ ہی میںنا ظم تعلیمات کی حیثیت سے سرگرم عمل ہیں ۔
تصانیف
۱-تدوین قرآن-اردو
۲-امام احمدرضااورتصوف-اردو
۳-تنقیدمعجزات کا علمی محاسبہ-اردو
۴-شادی اورآداب زندگی–اردو
۵-المواہب الجلیل لتجلیۃ مدارک التنزیل -عربی
۶-حدوث الفتن وجہاداہل السنن۱۳۲۱ھ-عربی
۷-حاشیہ جدالممتارالجزءالثانی-عربی
۸-امام احمدرضاکی فقہی بصیرت- اردو
۹-معین العروض-اردو
۱۰-فرائض وآداب متعلم ومعلم-اردو
۱۱-خلفاےراشدین اوراسلامی نظام اخلاق-اردو
۱۲-رسم قرآنی اوراصول کتابت-اردو
۱۳-رہنماےعلم وعمل-اردو
۱۴-شرک کیاہے-اردو
۱۵-امام احمد رضا کی زندگی کے چند تابندہ نقوش
تراجم،تصحیح،تقدیم،تحشیہ،تسہیل، تحقیق ،خطبات
[۱]وشاح الجیدفی تحلیل معانقۃ العید(معانقۂ عید)
[۲]جمل النورفی نہی النساءعن زیارۃ القبور(مزارات پرعورتوں کی حاضری)
[۳] صیانۃ المکانۃ الحیدریۃ عن وصمۃ عہدالجاہلیہ(براءت علی ازشرک جاہلی)
[۴] مقامع الحدید علی خدالمنطق الجدید(فلسفہ اوراسلام)
[۵] ہادی الناس فی رسوم الاعراس (رسوم شادی)
[۶]جدالممتاراول ،ثانی
[۷] الکشف شافیافی حکم فونوجرافیاعربی
[۸] وصاف الرجیح فی بسملۃ التراویح(تعریب)
[۹]قصیدتان رائعتان
[۱۰]جہان مفتی اعظم
[۱۱]جہان انوارمفتی اعظم
[۱۲]بہارشریعت حصہ۱۶ (اسلامی اخلاق وآداب)
[۱۳] فتاویٰ رضویہ جدید۔اول،سوم ،چہارم، نہم( عربی وفارسی عبارتوں کااردوترجمہ)
[۱۴]تاب منظم ،ترجمہ قصیدہ اکسیر اعظم و مجیر اعظم
[۱۵]انوارآفتاب صداقت
[۱۶] انوار ساطعہ۔
[۱۷] تقدیر و تدبیر
[۱۸]امام احمد رضا اور جہان علوم ومعارف اول دوم سوم ، تین جلدیں(ترتیب وتحقیق)-اردو
[۱۹] نواے دل (مجموعۂ خطبات)-اردو
[۲۰]خطبات صدرالعلما-اردو-زیرترتیب
[۲۱] مقالات صدرالعلما-اردو-زیرترتیب
جملہ تصانیف میں مواہب الجلیل حاشیۂ مدارک التنزیل، تقدیم وتحشیہ جدالممتارثانی اورحدوث الفتن وجہاد اعیان السنن بزبان عربی آپ کےبیش بہا علمی وقلمی شاہکارہیں جس کے زریں صفحات میں حقائق ومعارف کا ایک سمندر موجزن ہےان تحقیقات نادرہ پرارباب علم وقلم اوراصحاب فکرودانش نے دلی مسرت وشادمانی کااظہارکیاہے۔
ان مصنفات کےعلاوہ کثیرمعیاری وقیع مضامین مشہورجرائدورسائل میں اشاعت پذیرہوتے رہے۔
اولاد
دوصاحبزادے عالم طفولیت ہی میں انتقال کرچکےہیں۔
۱-شمیم رضا عرف غلام جیلانی(پیدائش:۲۰؍ شوال ۱۳۹۱ھ ۲۱؍دسمبر ۱۹۷۰ء دوشنبہ بعد مغرب، وفات: ۲۲؍صفر ۱۳۹۵ھ ۶؍مارچ ۱۹۷۵ء ، جمعرات ساڑھے ۹ بجے دن)
۲۔ محمد احمد( ولادت: ۲۴؍ ربیع الآخر ۱۳۹۸ھ، ۳ ا؍پریل ۱۹۷۸ ء دوشنبہ بوقت مغرب ۔وفات: ۲۰ شعبان ۱۳۹۸ھ، ۲۷ جولائی ۱۹۷۸ء، جمعرات، سوا ۸ بجے، صبح)
تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں بقیدحیات ہیں
۱-سالمہ خاتون قاسمہ (ولادت: ۲۱ ؍شوال ۱۳۹۹ھ جمعہ،سالمہ خاتون قاسمہ سے، سال ولادت۱۳۹۹ھ نکلتاہے)
۲-مولانا محمدعرفان رضامصباحی (عرفان رضا سے، سال ولادت۱۳۹۷ھ نکلتاہے)
۳-سعیدہ خاتون
۴-مبارک حسین رضوی(مبارک حسین رضوی سے، سال ولادت۱۴۰۷ھ نکلتاہے)
۵-مولانافیضان رضاامجدمصباحی(فیضان رضاامجدسے، سال ولادت۱۹۹۰ء نکلتاہے)
۶-ام الخیرفاطمہ
سالمہ خاتون ،راقم الحروف محمدابوالوفارضوی ابن عبدالرضامرحوم سابق ناظم مدرسہ عزیزیہ خیرالعلوم بھیرہ کےعقدمیں ہیں، جن کے بطن سےچاربچیاں بنام ۱-زہرااختری۲-ذاکرہ بتول احمدی۳-شگفتہ تارکہ۴-تائبہ رضوی اورایک لڑکامحمدسعید اختر عرف خوش تر تقی بقیدحیات ہیں۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
تلامذہ
آپ کےتلامذہ کی تعداد توبہت کثیرہےجسے احاطۂ تحریر میں لانامشکل ہے تاہم چند مشاہیرتلامذہ کےاسما حسب ذیل ہیں۔
۱-حضرت علامہ و مولانا محمدنصراللہ رضوی علیہ الرحمہ (۱۵؍فروری ۱۹۵۶ءم ۴؍محرم ۱۴۳۵ھ /۹؍نومبر ۲۰۱۳ء)
۲-حضرت مولانا عبدالغفارمصباحی استاذ مدرسہ ضیاءالعلوم خیرآبادضلع مئو ورکن المجمع الاسلامی مبارک پور
۳-حضرت مولانا محمدعارف اللہ خاں فیضی، استاذ مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گہنہ
۴-حضرت مولانا مفتی احمدالقادری صاحب قبلہ، سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۵-حضرت مولانا سیدمحمدفارو ق صاحب، صدرشعبۂ افتاجامعہ حنفیہ بجرڈیہہ بنارس
۶-حضرت مولانا مبارک حسین مصباحی، ایڈیٹرماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور
۷-حضرت مولانا ناظم علی رضوی مصباحی، استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۸-حضرت مولاناصدرالوریٰ مصباحی، استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۹-حضرت مولانامحمدنظام الدین مصباحی، استاذ دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی
۱۰-حضرت مولانامفتی آل مصطفیٰ مصباحی، استاذ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی
۱۱-حضرت مولانامفتی شمشاداحمدصاحب، استاذ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی
۱۲-حضرت مولاناعالم گیر مصباحی، دارالعلوم اسحاقیہ جودھ پورراجستھان
۱۳-حضرت مولانانفیس احمدمصباحی، بارہ بنکوی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۱۴-حضرت مولانااختر حسین فیضی، جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۱۳-حضرت مولاناساجد علی مصباحی، جامعہ اشرفیہ مبارک پور
عنایات بزرگاں
حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ)ایک مرتبہ آپ کےگھرتشریف لاےتوآپ کے والد گرامی جناب محمد صابر اشرفی مرحوم نے دوران گفتگوحضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) سے عرض کیاحضور!ہمارے مولوی صاحب کوبھی اچھا عالم بنائیےگا۔ارشاد فرمایا ان شاء اللہ ایساہی ہوگا۔
حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) کی دعاؤں کایہ اثرہےکہ آپ کرداروعمل ،گفتارورفتار،علم وحکمت اور دینی خدمات کی انجام دہی میںاپنے ہم عصروں میں ممتاز نظرآتےہیں۔
۲۰۰۳ءکےعرس مارہرہ شریف کےموقع پرحضرت سیدامین میاں دامت برکاتہ نے برسراجلاس ارشادفرمایاکہ حاشیہ والاکام حضرت علامہ مفتی محمداحمدمصباحی نے کیا یہ اور بات ہے کہ ان کے ساتھ ایک فوج ہے۔لیکن جب فوج جیت کرآتی ہے تونام کمانڈرکاہوتاہے۔یہ کام مصباحی صاحب نے کیا۔ حضرت امین ملت نے آپ کو بڑے اعزازواکرام سےنوازا۔منبررسول پراس وقت حضرت امین ملت کے بغل میں بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبدالمنان علیہ الرحمہ رونق افروز تھے اور ٹھیک ان کے بغل میں حضرت خیرالاذکیاتھے۔
بروایت :ڈاکٹر شکیل احمد،مدینۃ العربیہ سلطان پور
رکن المجمع الاسلامی
المجمع الاسلامی (۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء) ایک شہرت یافتہ خالص تصنیفی اشاعتی دینی قومی ادارہ ہےجو چند علماے کرام پرمشتمل ایک کمیٹی کےماتحت ہے۔ اس تصنیفی واشاعتی ادارے کے انتظام وانصرام کی ذمہ داریوںکاسہرابھی حضرت خیرالاذکیا کے ہی سرہے۔اس اکیڈمی کےعزائم بہت بلندہیں ۔ علامہ مصباحی جواس اکیڈمی کے روح رواں ہیں شب وروز اس کی توسیع وترقی میں فی سبیل اللہ وقف ہیں۔
صدرانجمن امجدیہ
’’انجمن امجدیہ‘‘ بھیرہ کےخوش عقیدہ مسلمانوں کی ایک انجمن ہے ،جس کے صدراعلیٰ(۱۳۹۷ھ ۱۹۷۷ءسے تا حال) حضرت خیرالاذکیاہیں۔
۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء)میں اس انجمن کاقیام عمل میں آیا جس کے تحت ایک مدرسہ ہےبنام عزیزیہ خیرالعلوم (قائم شدہ۷؍رجب۱۳۹۸ھ ۱۳؍جون ۱۹۷۸ء شب چہار شنبہ بعدنماز عشا)
نیز اس کے تحت مدرسۃ البنات العزیزیہ خیرالعلوم(قیام ۱۴۲۸ھ/۲۰۰۳ء) دارالحفظ والقراءت اور کئی مساجد اور تنظیمیں قائم ہیں ۔سال میں ایک مرتبہ عید میلادالنبی ﷺ کےموقع پرجلسہ وجلوس کا اہتمام بھی کیاجاتاہےجس میں اہل دیار پورےجذبہ وشوق کےساتھ شریک ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ کچھ عوامی فلاحی کام بھی وقتاًفوقتاًہوتے رہتے ہیں۔
فدابھیروی نےادارہ اورصدرادارہ کےتعلق سے یہ قطعہ قلم بندکیاہے:
ہیں صدرعالمِ دوراں محمداحمد جب
توکس لیے یہ ادارہ نہ کامیاب رہے
فدابنے یہ علوم وفنون کا مرکز
جوذرہ اٹھے یہاں سےوہ آفتاب رہے
لحاظ اوقات
آپ کےنزدیک وقت کی بہت ہی قدروقیمت ہے آپ وقت کو ضائع نہیں ہونےدیتے بلکہ اسے کام میں استعمال کرتےہیں۔
برادر گرامی مولانا شاہ عالم مصباحی رضوی کا بیان ہے کہ حضرت کی بڑی صاحب زادی کے عقدکےموقع پرکسی خاص مجبوری کے تحت حاضری نہ ہوسکی توایک مرتبہ عدمِ شمولیت پرمعذرت کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں توشریک نہ ہوسکا ،شادی کی رسومات بحسن وخوبی سب بیت گئیں؟ تو فرمایاکیا بیت گئیںصرف وقت کانقصان ہوا۔
وقت کااتناپاس ولحاظ ہے کہ بیٹی کی شادی میں بھی غیرضروری اوقات کا صَرف ہونا آپ کے لیے بارِ خاطرہوا۔
آپ سرشت میں بڑے ہی خاموش طبع واقع ہوئے ہیں ۔مختصر اور بامعنی کلام آپ کی فطر ت ہے ۔تدبر،اخلاق ،عجزوانکساری اور قائدانہ صلاحیت ان کی ذات کے خاصے ہیں۔ایفاے عہد،عدل ومساوات،مزاج کی سادگی اورذات کی سادہ لوحی میں اپنی مثال آپ ہیں۔
صدرالعلماکےنام حضورحافظ ملت کاگرامی نامہ
محب محترم مولوی محمداحمدزیدمجدکم——-دعاےخیروسلام مسنون
محبت نامہ ملا آپ کی سعادت مندانہ زندگی اور مخلصانہ محبانہ روش اس منزل پرہےکہ میرے حاشیہ خیال میں بھی غلطی وناراضگی کاکوئی گوشہ شوشہ نہیں۔
میں آپ کامخلص دعاگوہوں مولائےکریم ہمیشہ بصحت وسلامتی شادآباد رکھے دین متین کی نمایاں وممتاز خدمات انجام دلائے۔(آمین)
آپ کے متعلق میراخیال یہ ہے کہ ابھی آپ اشرفیہ کو کچھ وقت اوردیں توآپ اورزیادہ قیمتی ہوجائیںگے۔
چناں چہ آپ کےوالدصاحب سےمیں نےکہاتھاآپ کی اور آپ کے متعلقین کی جورائےہو ۔اگرآپ کو خالص پور کی جگہ پسندہےاورجاناچاہتےہیں تومیری اجازت ہے اپنےوالدصاحب کو سلام کہہ دیجئے۔
عبدالعزیزعفی عنہ ۲۱شوال ۱۳۸۹ ھ
بیعت وارادت
۲۶؍صفر۱۳۹۳ھ مطابق یکم اپریل ۱۹۷۳ء بروزیکشنبہ بریلی شریف محلہ سوداگران رضوی دارالافتامیں، شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتیٔ اعظم ہندعلامہ الشاہ محمدمصطفیٰ رضاقادری بریلوی علیہ الرحمۃ (۱۳۱۰ھ ۱۸۹۲ء م ۱۴؍محرم ۱۴۰۲ھ /۱۹۸۱ء) سے بیعت وارادت کاشرف حاصل ہوا۔ اور ربیع الاول ۱۳۹۴ء کوسلسلہ معمریہ میں حضور حافظ ملت حضرت علامہ الحاج الشاہ عبدالعزیزمحدث مبارک پوری علیہ الرحمہ(۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) سے طالب ہوئے
مجاہد ملت، رئیس الاتقیاحضرت علامہ حبیب الرحمٰن قادری علیہ الرحمہ نےفیض العلوم جمشید پورمیں ’’دلائل الخیرات شریف‘‘اورجملہ اورادو اشغال کی سند اجازت عطافرمائی۔
خلافت
ڈاکٹر سید محمدامین میاںدام ظلہ جانشین خانقاہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے عرس قاسمی برکاتی کے موقع پر حضرت کو اجازت وخلافت عطافرمائی۔
زیارت حرمین شریفین
غالباً۱۹۹۵ءمیں پہلی بارزیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے۔دوسری مرتبہ ۲۰۱۶ء میں حج بیت اللہ کےلیے تشریف لے گئے،مدینہ منورہ اور بغداد معلی ہوتے ہوئے واپس ہوئے۔
صدرالعلما علماےاہل سنت کی نظر میں
(۱)قدرت نے انہیں ذہانت وفطانت اورقوت حفظ کے ساتھ مطالعہ کا ذوق شوق بہت زیادہ عطافرمایا،حفظ اوقات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیتے ہروقت مصروف ،یہی وجہ ہے کہ جملہ علوم وفنون میں مہارت تامہ رکھتے ہیں خصوصیت کےساتھ علم ادب میں اقران پر فائق ہیں۔
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہےہندوستان میں رضویات کا ان جیسا کوئی واقف کار نہیں ان سب پر مستزاد یہ کہ انتہائی متواضع ،منکسر مزاج،قناعت پسند، زاہد صفت بزرگ ہیں،شریعت کے پابند،شبہات تک سے بچنے والے، تقویٰ شعار فرد،صاحب تصانیف دانش ور ۔
از: فقیہ عصر شارح بخاری مفتی محمدشریف الحق امجدی علیہ الرحمہ
ماخوذ ابتدائیہ امام احمدرضا کی فقہی بصیرت
————————————-
(۲)فاضل جلیل محترم مولانا محمداحمدمصباحی زید لطفہ نے اس عظیم حاشیہ(جد الممتار) کا تعارف قلم بند فرماکر ایک اہم علمی فریضہ ادا کیا ہےایسے جلیل القدر حاشیہ کے تعارف کے لیے ایسے ہی جلیل القدر عالم کی ضرورت تھی،مولانامحمداحمد مصباحی ،الجامعۃ الاشرفیہ کےاستاذ المجمع الاسلامی کے رکن اوردارالعلوم فیض العلوم محمدآباد گوہنہ کے سابق پرنسپل ہیں ،وہ محقق بھی ہیں،مصنف بھی ہیں،مدرس بھی ہیں، مقرر بھی ہیںاورقلم کار بھی ان کی کئی نگارشات منظرعام پرآچکی ہیں جس سے ان کے تبحر علمی ،دینی وفقہی بصیرت اوردقت نظر کا اندازہ ہوتاہے۔فاضل موصوف سے راقم کا برسوںسے غائبانہ تعارف ہےلیکن اب یہ کیفیت ہوگئی ہے ؎
اے غائب از نظر کہ شدی ہم نشین دل
راقم فاضل ممدوح کی عنایات ونوازشات پیہم کا تہ دل سے ممنون ہے اوران کے خلوص للہیت ،عاجزی وانکساری سے متاثر، یہ خوبیاں علما میں عنقا ہوتی جارہی ہیں۔مولاتعالیٰ مولاناے محترم کے علمی فیوض وبرکات کو جاری وساری رکھے۔ آمین۔
از :پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد دام فضلہ، تقدیم،’’ امام احمد رضا کی فقہی بصیرت ‘‘
—————————-
علامہ محمداحمدمصباحی بھیروی حضرت حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ) کےقابل فخر شاگرداوربرصغیر پاک وہند کی مایۂ ناز مادر علمی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ہندوستان کے شیخ الادب ہیں ۔آپ قدیم وجدید علوم کے ماہر کئی علمی تحقیقی کتب کے مصنف اور متر جم ہیں حضرت امام احمدرضا بریلوی رحمہ اللہ کے متعدد رسائل وفتاویٰ کو ترجمہ تحقیق اور تحشیہ کےبعد عام اردو خواں حضرات کےلیے آسان بناچکے ہیں، اس وقت فن لغت مبسوط اوروقیع کتاب تحریرکررہے ہیں۔
علامہ مصباحی امام احمدرضا خاں بریلوی قدس سرہ کی علمی شخصیت اور آپ کی تحقیقات جلیلہ کو علم ودانش کی دنیا میں متعارف کرانے میں نمایاں کردار اداکرنے والے ادارہ المجمع الاسلامی مبارک پور کے روح رواں ہیں ۔
از:محمدصدیق ہزاروی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور پیش لفظ۔فتاویٰ رضویہ سوم جدید
————————
علامہ محمداحمدمصباحی حضورحافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ م ۱۳۹۶ھ)کی نگاہ کیمیا کا انتخاب اور ان کی پاکیزہ دعاؤں کاثمرہ ہیں ۔
بدرالقادری
بانی و مہتمم اسلامک اکیڈمی، ہالینڈ
————————-
ایک محمداحمدمصباحی اوردوسرے عبدالحکیم شرف قادری ان دونوں حضرات کے قلم میں، میں نےیہ خاص بات نوٹ کی کہ خالص درسگاہی ہونے کے باوجود یہ حضرات ایک شگفتہ اور معیاری نثر لکھنے پر قدرت رکھتے ہیں ۔
اسید الحق عاصم قادری
مدرسہ عالیہ قادریہ ، بدایو ں شریف
جام نور اکتوبر ۲۰۰۷ءص ۴۵
سپاس نامے
(۱)
ہوالقادر
بخدمت گرامی منزلت فاضل جلیل عالم نبیل استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا محمد احمد صاحب مصباحی شیخ الادب الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ (یوپی)
————————————
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
آج مورخہ ۱۸؍ستمر ۱۹۸۸ء کو مدینۃ الاولیا بدایوں شریف میں، ہندوستان کاسب سے قدیمی مرکزی ادارہ مدرسہ عالیہ قادریہ مولوی محلہ جس کی تعلیمی خدمات، صدیوں پرمحیط ہیں جسے ایک طویل عرصہ سے جامع معقول و منقول حضرت علامہ محمد شفیع صاحب، مرتب از مرتبین فتاویٰ عالمگیری ،وبحرالعلوم حضرت مولانا محمد علی صاحب جانشین قاضی مبارک ،وحضرت شاہ عین الحق، وحضرت شاہ فضل رسول، وتاج الفحول حضرت شاہ محب رسول، وسرکار صاحب الاقتدارحضرت شاہ مطیع الرسول، ومفتی اعظم شاہ عاشق الرسول رضی اللہ تعالیٰ عنہم، جیسی شہرۂ آفاق ہستیوں اور آسمان علم وفضل کے درخشندہ ستاروں کی سرپرستی حاصل رہی ہے اوراس وقت جس کی زمام قیادت بقیۃ السلف، عمدۃ الخلف، شیخ طریقت حضرت مولانا الحاج حافظ عبدالحمید سالم القادری زیب سجادہ آستانہ عالیہ قادریہ مجیدیہ کےمبارک ہاتھوں میں ہے۔
نسیم صبح کے خوشگوار جھونکوں کی طرح ایک ایسی عظیم المرتبت شخصیت نے تشریف ارزانی فرمائی ہے جن کی ذات سراپا انجمن ہے ۔ دارالتصنیف ہویا دارالافتا، تحریرہویاادبی بزم،درس گاہ یا دانش کدہ، وہ ہرمیدان کے شہسوار ہیں اورہرمحفل کی شمع، اگر ایک طرف ان کے شاگردوں کاسیل رواں ہے تو دوسری طرف ان کی تحریر وتصنیف سے ہند اور بیرون ہند کی فضا مشک بار ہے۔
آپ کی تشریف ارزانی ہم لوگوں کے لیےنہایت بابرکت اورباعث مسرت ہے ۔ مدرسہ عالیہ کے ہم جملہ متعلمین حضرت کی کرم فرمائی کے ممنون ومشکور ہیں اورحضرت کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں ساتھ ہی اس بات کی بھی گزارش کرتے ہیں کہ حضور والا صفات اپنے چند پند آمیز کلمات سے ہم لوگوں کو نوازیں تاکہ وہ ہماری زندگی کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں، ساتھ ہی یہ تمنا ہے کہ حضور والا آئندہ بھی اسی طرح اپنی نوازشات سے مستفیض فرماتے رہیں گے۔
ہم نےکچھ اشک مسرت کے کیے ہیں حاضر
توجوچاہے تویہی اشک گہر ہوجائیں
فقط
طلبہ مدرسہ عالیہ قادریہ مولوی محلہ بدایوں شریف (یوپی)
۵؍صفرالمظفر ۱۴۰۹ھ مطابق ۱۸؍ستمبر۱۹۸۸ء روزیکشنبہ
(۲)
اعتراف خدمات
بموقع عرس قاسمی برکاتی بتاریخ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۰ء
بجناب عالی، عمدۃ المحققین، مولانا محمداحمد مصباحی مد ظلہ العالی صدرالمدرسین الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ یوپی ۔
——————————–
عصرحاضر میں سواد اعظم اہل سنت وجماعت میں ،وہ چند شخصیات جو بیک وقت علم وفضل ،بےنیازی،تفکر وتدبر اورمثبت ومتواظن فکر وعمل کی حامل ہیں ان میں حضرت مولانا محمد احمد مصباحی صدرالمدرسین الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی شخصیت بہت ہی نمایاں اورمنفرد ہے۔حضرت والا، جہاں ایک متبحر عالم ،باکمال مدرس،صاحب طرز نثرنگاراوربلند پایہ محقق ہیں وہیں دین وسنیت کےبے لوث خادم اوراخلاص وایثار کےسچے آئینہ دار ہیں۔آپ کی علمی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، جس کا احاطہ دشوار ہے۔خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے جن میں کچھ توایسی ہیں جن سے اہل نظر بخوبی واقف ہیں مگر انہی کی تہہ میں بہت سی ایسی خدمات بھی ہیں جوعام نگاہوں سے پوشیدہ ہیں جب کہ وہ آپ کی مخلصانہ جدوجہد ، جفاکشی اورعرق ریزی کانتیجہ ہیں۔
صاحب رائے اپنی دنیا میں مگن ،وقت کےقدردان ،تحقیقی نظر اورتعمیری فکر کے حامل ،کم گو اوربسیار جو ۔یہ تمام صفات آپ کی شخصیت میں مجتمع ہوکر آپ کو ہزاروں سے ممتاز اور نمایاں کردیتی ہیں۔ اہل سنت کی عظیم درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی صدارت ونظامت کے گراں بار فرائض کے ساتھ تحریروقلم اور علم وتحقیق کی دنیا سے خود کو جوڑے ہوئے ہیں،تدوین قرآن ،امام احمد رضا اور تصوف،معین العروض والقوافی،تنقید معجزات کا علمی محاسبہ ،تعارف جدالممتار ، حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن اور مواہب الجلیل لتجلیۃ مدارک التنزیل آپ کے قلمی وعلمی شاہ کار ہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کے متعدد رسائل کی توضیح وتسہیل اوران پر حواشی بھی آپ کا یاد گار کام ہے۔ اہل سنت کےمنفرد تصنیفی وتحقیقی ادارہ المجمع الاسلامی مبارک پور کی اپنے احباب کےساتھ تاسیس اوراس کی سرپرستی ،مجلس برکات کے ذریعہ تصنیف وتالیف اورتحقیق وحاشیہ نگاری کی قیادت ورہنمائی،تنظیم المدارس کاقیام اوراس کے تحت متوازن نصاب تعلیم کی تشکیل کلیدی کردار اورمجلس شرعی مبارک پور کی صدارت۔یہ سب ایسے زریں کارنامے ہیں جن میں سے ہرایک کے لیے الگ الگ گراں قدر ایوارڈ پیش کیاجانا چاہیے ۔ان تمام اوصاف کے ساتھ جو وصف حضرت مصباحی صاحب کو معاصرین میں ممتاز کرتاہے وہ علمی گہرائی کےساتھ اہل سنت وجماعت کی خاموش فکری تعمیر وقیادت ہے یہی وجہ ہے کہ اہل سنت وجماعت کے موجودہ اندرونی مسائل ونزاعات میں حضرت مصباحی صاحب کی رائے کی طرف سب کی نظراٹھتی ہے اوران کے مختصر جملے مطولات پر بھاری ہوتے ہیں اورمضطرب ذہنوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ثابت ہوتے ہیں ۔
اراکین آستانہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ان کے ان عظیم الشان کارناموں کے اعتراف میں ان کے حضور ہدیہ سپاس پیش کرتے ہوئے فخر وخوشی محسوس کرتے ہیں اورمستقبل میں آں موصوف سے دین و ملت کی بیش از بیش خدمات کی توقع کرتے ہیں،خداےتعالیٰ انھیں اس کی توفیق بخشے۔
ایں دعااز ما واز جملہ جہاں آمین باد
اراکین آستانہ عالیہ قادریہ برکاتیہ
بڑی سرکار مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ یوپی
بحکم حضرت صاحب سجادہ پروفیسر سید شاہ محمدامین میاں قادری برکاتی مدظلہ العالی
(۳)
بخدمت عالی خیرالاذکیا،عمدۃ المحققین، حضرت علامہ محمداحمد مصباحی حفظہ اللہ تعالیٰ
سابق صدرالمدرسین وناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پوراعظم گڑھ
بموقع تحریری وتقریری مسابقہ طلباجامعہ صمدیہ پھپھوندشریف
۲۱؍۲۲؍محرم الحرام ۱۴۳۷ھ مطابق ۴؍۵؍نومبر ۲۰۱۵ء
——————————–
برصغیرہندوپاک کی جن شخصیتوں کو صحیح معنوں میں عبقری اورعہد ساز کہا جاسکتا ہے ان میں ایک نمایاں نام، خیرالاذکیا،عمدۃ المحققین ، عالم اجلّ، حضرت علامہ محمداحمد مصباحی حفظہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔آپ جماعت اہل سنت کے قدآور عالم دین ،بلند پایہ ناقد ومحقق ،صاحب طرز ادیب اوربافیض استاذ ومربی ہیں،زہدو تقویٰ،توکل واستغنا، تواضع وانکساری آپ کے نمایاں اوصاف ہیں آپ اپنی گوناگوں خصوصیات اوراوصاف وکمالات کی بنیاد پر اہل سنت کے سرخیل علمامیں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں ۔۱۸؍ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ کو ضلع اعظم گڑھ موجودہ ضلع مئو کےقصبہ بھیرہ ولیدپور میں آپ کی ولادت ہوئی مدرسہ رحیمیہ بھیرہ،مدرسہ اشرفیہ ضیاءالعلوم خیرآباد مئومیں ابتدائی تعلیم کےبعد ماہ شوال ۱۳۸۶ھ میں اہل سنت کی عظیم درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں داخلہ ہوا ۔جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں پوری توجہ اورلگن کےساتھ اکتساب علم کیااورحضور حافظ ملت کے علمی فیضان سے بہرہ مند ہوکر۱۳۸۹ھ میں فراغت حاصل کی۔دارالعلوم فیضیہ نظامیہ باڑا ہاٹ بھاگل پور،مدرسہ فیض العلوم جمشید پور،دارالعلوم ندائے حق جلال پوراور مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآبادگوہنہ میں اپنا علمی فیضان تقسیم فرمایا،۱۴۰۶ھ میں الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں آپ کا تقرر ہوا ،اگست ۲۰۰۱ء تک بحیثیت استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں خدمات انجام دیتے رہے،۲۰۰۱ء میں تعلیمی امور میں درک ومہارت ،اعلیٰ فکروتدبر،حد درجہ دیانت اورفرض شناسی کی بنیاد پر آپ کو الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کا صدرالمدرسین منتخب کیا گیا،۲۰۰۱ءسے ۲۰۱۵ء تک آپ نے صدارت کے فرائض بحسن وخوبی انجام دیے، آپ کاعہد صدارت الجامعۃ الاشرفیہ کاعہدزرین کہلاتاہے۔آپ نےاپنی فکر رسااوراعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کےذریعہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے تعلیمی معیار کو بام عروج تک پہنچایا،جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں اعلیٰ تعلیمی نظم ونسق آپ کی مخلصانہ کدوکاوش کارہین منت ہے۔
خیرالاذکیاعلامہ محمداحمد مصباحی حفظہ اللہ تعالیٰ مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے صدراعلیٰ ،مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے نگراں اورالمجمع الاسلامی مبارک پور کے بانی ورکن ہیں،آپ اپنے ان تمام عہدوں کےفرائض کو پوری دیانت کےساتھ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ،مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ذریعہ درسی کتب کےحواشی اورتعلیقات کےساتھ از سرنو اشاعت کا عظیم کام آپ ہی کی سرپرستی میں انجام پارہاہے۔
خیرالاذکیاعلامہ محمداحمد مصباحی حفظہ اللہ تعالیٰ تصنیف وتالیف کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں عربی اور اردو زبان میں یکساں عبور حاصل ہے،آپ کی تحریریں تحقیقی ہونے کےساتھ ساتھ ادب کا بھی اعلیٰ شاہکار ہوتی ہیں ،رواں دواں نثرلکھتے ہیں، آپ کے زر نگار قلم سے دس سے زائد کتابیں اردو اورعربی زبان میں معرض وجود میں آچکی ہیں،جن میں ،حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن ،تدوین قرآن ،معین العروض،مواہب الجلیل لتجلیۃ مدارک التنزیل،امام احمدرضا اورتصوف ، امام احمد رضا کی فقہی بصیرت جدالممتار کے آئینے میںخاص طور
سے اہمیت کی حامل ہیں، آپ نے ایک درجن سے زائد کتب کو اپنے حواشی ،تقدیم اورتصحیح کےساتھ المجمع الاسلامی مبارک پور سے شائع کیا،آپ کی تصنیف حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن عرب وعجم میں بہت مقبول ہوئی،مصر کے ایک عالم شیخ خالد ثابت مصری نے متاثرہوکراسے اپنے مطبع دارالمقطم مصرسے شائع کیا،انھوں نے اس کتاب پر تاثر پیش کرتے ہوئے کہاکہ اگراس کے مصنف مولانامحمداحمد مصباحی کوئی اورکتاب نہ لکھتے تو صرف یہی ان کے لیے کافی ہوتی، اوران کے حق میں نبی کریم ﷺ کی یہ بشارت ثابت ہوتی کہ آخری زمانے میں میری امت کو شدید بلا پہنچے گی، جس سے وہی شخص نجات پائے گا جس نے اللہ کا دین پہچان لیا ،پھر اپنی زبان اوردل سے اس پرجہاد کیا،تووہی ہے جس کے لیے سبقت کرنےوالے انعام ثابت ہوں گے۔
آپ شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا قادری نوری علیہ الرحمہ سے بیعت وارادت رکھتے ہیں اوراعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی قدس سرہ کی تصانیف کی اشاعت اورتسہیل وتخریج سے حد درجہ شغف رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آپ نے فتاویٰ رضویہ کی جلد اول ،سوم،چہارم اورنہم کی عربی وفارسی عبارتوں کا ترجمہ کیا،جدالممتار ،مقامع الحدید علی خدالمنطق الجدید ،اور مجیرمعظم کو پہلی بار اپنے اشاعتی ادارہ المجمع الاسلامی مبارک پور سے شائع کیا،بخاری شریف پر اعلیٰ حضرت کی تعلیقات کو بھی مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پورسے پہلی بار شائع کیا، فکر رضا کی ترسیل واشاعت کے حوالے سے ایک مکمل لائحہ عمل رکھتے ہیں۔
آپ علم وعمل کے ساتھ اپنے اخلاق وکردار کےاعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہیں ،کشادہ قلبی،اعلیٰ ظرفی،خندہ روئی،صبروضبط اورسادگی وتکلفی آپ کی فطرت ہے،قحط الرجال کے اس دور میں آپ کی شخصیت ملت اسلامیہ کے لیے ایک عظیم نعمت ہےجس کی جتنی قدرکی جائے کم ہے۔ہم بہت شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہماری دعوت پر طلباکے مسابقےمیں فیصل کی حیثیت سے شرکت کی اورسفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے ساتھ اپنا قیمتی وقت دے کر ہمارے ادارے کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرف یاب کیا،اللہ تعالیٰ آپ کے علم وفضل میں بےپناہ ترقی عطافرمائےاورحاسدین کےحسد سے محفوظ فرمائے،آمین بجاہ حبیبہ سید المرسلین ۔
سید محمدانور چشتی
خادم جامعہ صمدیہ، دارالخیر، پھپھوند شریف ،آستانہ عالیہ صمدیہ مصباحیہ، پھپھوند شریف
(۴)
سپاس نامہ حافظ ملت ایوارڈ
بخدمت گرامی صدرالعلما،عمدۃ المحققین حضرت علامہ محمداحمد مصباحی دام ظلہ العالی
ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
———————————-
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
نہایت ہی مسرت کی بات ہے کہ’’ تنظیم ابناے اشرفیہ‘‘مبارک پورآج ۴۳؍ویں عرس عزیزی کے مبارک موقع پر صدرالعلما،عمدۃ المحققین حضرت علامہ محمداحمد مصباحی دام ظلہ کی گوناگوں دینی وعلمی،تعمیری وتنظیمی،تربیتی واصلاحی اور تدریسی وتصنیفی خدمات کے اعتراف میں’’ حافظ ملت ایوارڈ ‘‘تفویض کررہی ہے۔
آپ کی ولادت ۱۸؍ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ مطابق ۹؍ستمبرکو سہ شنبہ کےدن بھیرہ ولیدپور ضلع اعظم گڑھ (حال ضلع مئو) یوپی میں ہوئی ۔آپ کے والد ماجد جناب محمد صابراشرفی مرحوم (متوفیٰ ۱۴۱۱ھ ۱۹۹۰ء)اسلام وسنیت میں بڑے متصلب پابند صوم صلوۃ نہایت سادہ مزاج اورخداترس تھے۔
حضرت صدرالعلما مدظلہ العالی نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ محترمہ تسلیمہ بنت عبدالرشید بن عبدالصمد (محلہ پورہ دیوان مبارک پور)سے گھر ہی میں حاصل کی ،پھردرجہ سوم تک پرائمری تعلیم مدرسہ اسلامیہ رحیمیہ بھیرہ میں ہوئی، درجہ سوم پڑھنے کے بعد ۸؍اپریل ۱۹۶۲ءمطابق ۴؍ذی قعدہ ۱۳۸۱ھ کو مدرسہ اشرفیہ ضیاءالعلوم خیرآباد ضلع مئو میں داخلہ لیا اورپانچ سال تک وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۰؍شوال ۱۳۸۶ھ مطابق ۲۲؍جنوری ۱۹۶۷ء دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور میں داخلہ لیا اور۱۰؍شعبان ۱۳۸۹ھ مطابق ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۹ء کو علما ومشائخ کے ہاتھوں دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔
دستار فضیلت کے بعد تدریس کے لیے ایک جگہ آئی والد ماجد نے تدریس کے لیے اجازت دیدی مگر جب آپ کے استاذ گرامی حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کو معلوم ہواتو انھوں نے روک دیا اورفرمایاکہ ’’میں انھیں اورقیمتی بنانا چاہتاہوں‘‘پھر آپ نے تقریباً ایک سال دارالعلوم اشرفیہ ہی میں رہ کر مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،اس مختصر سی مدت میں حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان نے انھیں اتنا قیمتی بنادیاکہ اب ان کی درس گاہ فیض سے مستفیض ہونے والے بھی قیمتی ہوجاتے ہیں ۔
تعلیم سے فراغت کے بعد دارالعلوم فیضیہ نظامیہ ،بارا ہاٹ اشی پورضلع بھاگل پور بہار،مدرسہ فیض العلوم جمشید پور،دارالعلوم ندائے حق جلال پور، ضلع امبیڈ کر نگر اور مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گوہنہ ضلع مئو میں تدریسی خدمات انجام دیں، مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد میں ۱۹۷۸ءسے ۱۹۸۶ءتک ۹؍سال صدرالمدرسین کی حیثیت سے نہایت ذمہ داری کے ساتھ تعلیم وتربیت کافریضہ انجام دیا۔پھر ۹؍شوال ۱۴۰۶ھ جون ۱۹۸۶ء کو برصغیر کی سب سے عظیم اور بافیض درس گاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شیخ الادب والتفسیر کی حیثیت سے تقرر ہوا اور نائب صدرالمدرسین کے منصب پر رہتے ہوئے جامعہ کے نظام تعلیم وامتحان میں ایسی شان دار اورنمایاں تحسین واصلاح فرمائی کہ دینی مدارس کی دنیا میں آپ ایک عظیم ماہر تعلیم اور بے مثال ناظم امتحان کی حیثیت سے مشہور ہوگئے۔
جولائی ۲۰۰۰ءجون ۲۰۱۴ءتک ۱۴؍سال آپ جامعہ اشرفیہ کے صدرالمدرسین کے عہدے پر فائز رہے اور اخلاص وللہیت کے ساتھ شب وروز کی محنت وجانفشانی سے جامعہ کا تعلیمی اور امتحانی نظام اوج ثریا تک پہنچادیا ۔آپ کی صدارت کے زمانے میں جامعہ میں تخصص فی الحدیث ،تخصص فی الادب اور تقابل ادیان جیسے عظیم تعلیمی وتحقیقی شعبوں کا اضافہ ہوا ،اور مجلس برکات جیسا تحقیقی وتصنیفی اور اشاعتی شعبہ قائم ہوا جس سے نئی درسی کتابوں کی تالیف کے ساتھ بہت سی قدیم درسی کتابوں کی تعلیقات ،حواشی اور شرحیں بھی لکھی گئیں،اوراس کے زیر اہتمام اب تک سو سے زائد درسی کتابیں چھپ کر اہل علم سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔ یہ سارا کام آپ کی بافیض رہنمائی ،نگرانی،اوراصلاح ونظرثانی کی برکت سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچا۔
آپ کے دور صدارت ہی میں مجلس شرعی جیسے بےمثال علمی فقہی اورتحقیقی شعبے کی نشاۃ ثانیہ بھی ہوئی جس کے زیراہتمام اب تک ۲۴؍فقہی سمینار ہوچکے ہیں ، جن میں اَسّی سے زائد جدید،پیچیدہ اورمشکل فقہی مسائل کے فیصلے ہوچکے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں عہدۂ صدارت سے سبک دوشی کے بعد جامعہ کے ذمہ داروں نے ناظم تعلیمات کااہم منصب آپ کو تفویض فرمایاجس کے بجاطور پر آپ حق دار تھے۔
آپ کے عہد صدارت ہی میں ۲۰۰۸ء میں تنظیم المدارس کا قیام عمل میں آیا، جس کا اہم مقصد دینی مدارس کو باہم مربوط کرنا اوریکساں نصاب تعلیم سے جوڑ ناہے ،اسی کے زیر اہتمام ایک نصاب ساز کمیٹی کی تشکیل ہوئی جس نے کامل غوروخوض کے بعد مدارس کے قدیم نصاب میں ضروری اور مفید اصلاح وترمیم کی ، اس کی سرخیل اورروح رواں حضرت علامہ محمداحمد مصباحی مدظلہ ہی تھے ۔
جامعہ اشرفیہ میں تقررسے پہلے ہی آپ نے اپنے مخلص رفقا کےساتھ مل کر المجمع الاسلامی جیسے تحقیقی ،تصنیفی اور اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی جس سے اب تک درجنوں دینی واسلامی کتابیں شائع ہوچکی ہیں یہ ادارہ تحقیق وتصنیف کا مزاج رکھنے والے نوجوان علما کے لیے علم وتحقیق اور تصنیف و تالیف کےسفر میں سنگ میل ثابت ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو تصنیف وتحقیق کی بےمثال صلاحیت عطافرمائی ہے، اب تک آپ کے قلم سے کثیرعلمی وتحقیقی مقالات کےساتھ عربی اور اردو میں درجنوں کتابیں معرض تحریر میں آچکی ہیں،جن میں تدوین قرآن ،امام احمد رضا اور تصوف،تنقید معجزات کا علمی محاسبہ ،امام احمد رضا کی فقہی بصیرت اور حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔حدوث الفتن کو علمی دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی یہ عربی کتاب رضا اکیڈمی ممبئی ،مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور کےساتھ ہی دارالمقطم قاہرہ مصر اور دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان سے بھی چھپ چکی ہے۔
آپ کے اوصاف حمیدہ میں خلوص وایثار،امانت ودیانت،تقویٰ وپرہیز گاری،احساس ذمہ داری ،خوداعتمادی وخود داری،نماز باجماعت کی پابندی، اورادو وظائف اورسنن ونوافل پراستقامت ،کاموں میں سرعت،تحریرمیں فصاحت، زبان وبیان میں بلاغت،تقریرمیں اختصار وجامعیت ،علوم فنون میں مہارت، مسائل میں باریک بینی ونکتہ سنجی،معانی میں گہرائی وگیرائی،ظاہر وباطن میں یکسانیت،دین داروں سے محبت ،بےدینوں سے نفرت،حق گوئی وبےباکی، رعب ودبدبہ ،عالمانہ وقار اورزاہدانہ اوصاف بہت نمایاں ہیں۔لایعنی مصروفیتوں سے اجتناب اورحفظ اوقات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔علم دین کی تعلیم خالصاً لوجہ اللہ دیتے ہیںاورطلبہ میں دینی ،علمی،عملی اورانسانی وقلمی صلاحتیں پیداکرنے میں ممکنہ تدابیر عمل میں لاتے ہیں۔
رب کریم سے دعاہے کہ وہ اپنے محبوبان بارگاہ کےصدقے آپ کو عمر خضر عطافرمائے آپ کا علمی وعملی فیضان اسی طرح جاری وساری رکھے اورآپ کو مزید خدمات جلیلہ مقبولہ کی توفیق عطافرمائے،آمین
عبدالحفیظ عفی عنہ
صدر تنظیم ابناے اشرفیہ وسربراہ اعلیٰ
جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
یکم جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ ، ۱۸؍فروری ۲۰۱۸ء شب دوشنبہ
اوصاف حمیدہ
آپ کواللہ تعالیٰ نےاپنےخاص فضل وکرم سے اوصاف حمیدہ اور خصائص جمیلہ کادھنی بنایاہے۔ خلوص وایثار،جودوکرم،امانت
ودیانت،تقویٰ وپرہیز گاری،احساس ذمہ داری،خوداعتمادی وخود داری،عہدوپیمان میں پختگی، حفظ اوقات،جماعت کی پابندی، اورادووظائف اورسنن ونوافل پراستقامت،کاموں میں سرعت، تحریر میں فصاحت، زبان وبیان میں بلاغت،تقریرمیں اختصار وجامعیت، علوم وفنون میںمہارت، مسائل میں باریک بینی ونکتہ سنجی،معانی میں گہرائی وگیرائی، ظاہرو باطن میں یکسانیت، دین داروں سےمحبت،بےدینوں سے نفرت، بدمذہبوں سےاجتناب، بزرگوںکا احترام، اکابرکاادب، اصاغر پرشفقت، مقدمات کے فیصلے میں دوربینی، ہمت وشجاعت، حق گوئی وبےباکی، رعب و دبدبہ،عالمانہ وقار،نظم ونسق میں کمال،افہام وتفہیم کا ملکہ،بےلوث خدمات کا جذبہ اور اعمال وکردار کے اعلیٰ نمونےجویہاں دیکھے،کم دیکھنےمیں آئے۔(مولاناعبدالغفاراعظمی مصباحی ،فتنوں کاظہور اوراہل حق کا جہاد ص ۱۳)
(تذکرہ علماے بھیرہ ولید پور ،از مولانا محمد ابولوفا رضوی، صفحہ ۱۱۰ تا ۱۴۱ ملخصاً و تصرفاً)
نوٹ: مزیدتفصیل کے لئے علامہ محمد احمد مصباحی ، احوال وافکار کامطالعہ فرمائیں، جو اُن کے احوال میں ۵۶۰ صفحات پر مشتمل ، مولانا توفیق احسن برکاتی مصباحی مدظلہ العالی کا قلمی شاہکار ہے۔
الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET