تعارف ِکتاب
فیض الحکمۃ، ترجمہ ھدایۃ الحکمۃ
از محقق دوراں، صدرالعلما، حضرت علامہ محمد احمد مصباحی، دامت برکاتہم العالیہ
ناظم تعلیمات، الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ ، یوپی، ہند
باسمہٖ وحمدہٖ تعالیٰ وتقدس
ہماری کتب کلامیہ میں مباحث فلسفہ کارد بلیغ کیاگیاہے، دیکھیں شرح مواقف، شرح مقاصد وغیرہ۔ اس لیے یہ جاننے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ فلسفہ کے اصول ومبادی کیاہیں؟ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ” تَہافُتُ الفلاسفہ “ لکھنے سے پہلے ”مقاصد الفلاسفہ“ تحریرفرمائی تاکہ ان کے مقاصد جان لینے کے بعد ان کا رد آسانی سے سمجھاجاسکے۔
اسی فائدے کے پیش نظر ہدایۃ الحکمۃ،ہدیہ سعیدیہ وغیرہ درس نظامی کےنصاب میں اب بھی داخل ہیں،جب کہ صدرا،شمس بازغہ،میبذی وغیرہ خارج ہوچکی ہیں۔
ہدایۃ الحکمۃ میں بیان شدہ مقاصدِ فلاسفہ کی مزید تسہیل کےلیے مولانااحمدالقادری زید مجدہ نے اس کاسلیس اردو ترجمہ کردیا، تاکہ جوطلبہ براہ راست اصل کتاب سے استفادہ نہ کرسکیں وہ ترجمے کی مدد سے مستفیدہوں۔
اس کےعلاوہ ایک مختصر اوروقیع مقدمہ لکھ کرفلسفہ کی تاریخ اور اس کی شرعی حیثیت پرروشنی ڈالی،
اول (فلسفہ کی تاریخ)سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ فلسفہ یونان اور یونانی زبان سے عرب اور عربی زبان میں کیسے منتقل ہوا؟
دوم (فلسفہ کی شرعی حیثیت)سے یہ معلوم ہوتاہے کہ فلسفہ کے سارے مباحث نہ قابل قبول ہیں، نہ سب کے سب قابل رد —قدرے تفصیل سے یہ بتایاکہ ان میں کیااصولِ اسلام سے، متصادم اور مردودہے؟ اورکیامتصادم نہیں اور قابل قبول ہے؟
اس مقدمہ کو پڑھ لینے کےبعد متعلم کوایک بصیرت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ اندھیرے کامسافر نہیں رہتا۔ ساتھ ہی معلم کویہ ہدایت ملتی ہے کہ فلسفہ کی تعلیم کےساتھ اس کے غلط مباحث کےرد پر قدرت بھی ہونی چاہیے، اس کے لیے امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ کی ”الکلمۃ الملھَمہ لِوَ ہاءِ فلسفۃ المشْئمہ“کامطالعہ ضروری ہے۔
مشہور محقق شبیر احمدخان غوری سابق رجسٹرارمدارس عربیہ اترپردیش نےاپنے ایک مضمون(مطبوعہ معارف اعظم گڑھ) میں اس کتاب کو عہد حاضر کا ”تَہافُتُ الفلاسفہ“ قرار دیاہے۔
ترجمۂ ہدایۃ الحکمۃ کانام فیض الحکمۃ ہے جو المجمع الاسلامی سے کئی بار شائع ہوچکاہے۔ان شاءالمولی تعالیٰ جلد ہی اس کی نئی اشاعت بھی عمل میں آئے گی۔
محمداحمدمصباحی
ناظم المجمع الاسلامی مبارک پور
۲۵؍محرم۱۴۴۳ھ مطابق۴؍ستمبر۲۰۲۱ء