بِسْمِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
الـحمدللہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہٖ واصحابہ اجمعین

بحرالعلوم کی یادیں اور باتیں
ولادت: ۷؍ربیع الآخر ۱۳۴۴ھ ۲۶؍نومبر ۱۹۲۵ء
وصال: ۱۵ محرم ۱۴۳۴ھ ۲۹؍نومبر ۲۰۱۲ء

[احمد القادری مصباحی]

استاذ گرامی، شیخ الاساتذہ، بحرالعلوم ،حضرت علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی مبارکپوری علیہ الرحمۃ والرضوان بےشمار علوم وفنون کے جامع، درس وتدریس کےبادشاہ، فضل وکمال کے شہنشاہ،میدان خطابت کے شہسوار ،تصنیف وتالیف کے سلطان تھے۔ فضائل وکمالات کے آسمان پر متمکن ہوتے ہوئے سادگی، خاک ساری اور تواضع کی زمین پراپنی مثال آپ تھے۔
ایک مدت دراز تک جامعہ اشرفیہ مبارکپورکے مفتی،شیخ الحدیث،صدرالمدرسین اورشیخ الجامعہ رہے۔ حافظ ملت کے بڑے ہی عزیر اور چہیتے شاگرد تھے ،ہرموقع پر حافظ ملت کے ساتھ ساتھ، قدم بہ قدم ،دست وبازو بنے رہے۔دارالعلوم اشرفیہ کو عربی یونیورسٹی کی شکل میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں پیش پیش رہے۔ جامعہ اشرفیہ کادستور مرتب کرنے میں آپ کااہم کردار ہے۔ جس وقت حافظ ملت اوراشرفیہ کے خلاف آندھی طوفان آئے۔ مخالفت کےبادل گرجے، آپ حافظ ملت کے ساتھ جبل مستقیم بن کرڈٹے رہے۔
جب سے میں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں، تب سے آپ کوجانتاہوں۔ ہمارے والد مرحوم کا،ان کے والد مرحوم سے دوستانہ تھا۔ طالب علمی میں بحرالعلوم میرابڑا خیال رکھتے،فرماتے تھے کہ تمہارے والد ہمارے والد کے دوستوں میں تھے۔ انجمن اہل سنت والجماعت بھیرہ کےسالانہ جلسہ میں حافظ ملت علیہ الرحمہ اور حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ ایک ساتھ تشریف لاتے اور بیان فرماتے تھے۔ غریب خانہ پر بھی کبھی کبھی تشریف لاتے اورخدمت کاموقع عنایت فرماتے۔ بچپن کی سنی ہوئی ایک تقریر کے الفاظ مجھے اب تک یاد ہیں۔ حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا: یہ بحرالعلوم ہیں،بحرالعلوم۔ علم کے سمندر اورعلم کی لائبریری ہیں۔ استاذ کریم کایہ فرمان اپنے عظیم شاگرد کے لیے سند کادرجہ رکھتاہے۔

طریقۂ تعلیم اورپابندی اوقات
درجۂ ثانیہ میں ہماری جماعت کی قلیوبی حضرت بحرالعلوم کے پاس تھی۔ اس میں حضرت کاطریقۂ درس یہ تھا۔ پہلے طلبہ سے عبارت پڑھاتے۔ اس میں افعال آتے توان کاصیغہ باب وغیرہ کی تفصیل پوچھتے، اسم ہوتا، تواس کااعراب، وجوہ اعراب کی قسمیں، لغت وغیرہ کاسوال کرتے۔ پھر طلبہ سے ہی ترجمہ کرواتے۔ اس طریقۂ تعلیم کی بنیاد پرطلبہ کواگلے سبق کی بھرپور تیاری اورکافی مطالعہ کے بعد ان کی درس گاہ میں جانا پڑتاتھا ورنہ عبارت خوانی صحیح نہیں ہوسکتی تھی نہ ہی ترجمہ۔ وہاں ہر غلطی پرتادیب بھی ہوتی تھی۔ اس طرح طلبہ میں مطالعہ اورخود سے عبارت حل کرنے کا ذوق بیدار ہوگیا۔
بخاری شریف بھی ہماری حضرت بحرالعلوم کےپاس تھی یہ پہلی اوردوسری گھنٹی میں ہوا کرتی تھی۔ حضرت وقت کےبڑے پابند تھے سلام سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی آجاتے۔ میں نے کبھی ان کودرس گاہ میں لیٹ آتے نہیں دیکھا، بڑے والہانہ انداز میں پڑھاتے۔ دونوں گھنٹیاں پوری کی پوری تدریس میں صرف کرتے۔ اوقات درس میں نہ کسی سے ملاقات کرتے، نہ کسی سے بات، نہ آفس کاکام، نہ طلبہ کی کوئی درخواست لیتے دیتے، نہ کبھی آفس یاکسی دوسری کلاس میں جاکر درس کاناغہ کرتے بلکہ اوقات تعلیم سے زائد پڑھاتے۔موسم گرمامیں جب ایک وقت کامدرسہ ہوتاتو وہ رک جاتے۔ دوپہر کے بعد بھی ہمیں بخاری شریف پڑھاتے۔ اس خارجی وقت کی تعلیم کی بھی ویسی ہی پابندی کرتے،جس کے باعث ہم نے بخاری شریف کی دونوں جلدیں ختم کیں۔ بخاری شریف جب ختم کرنے کا وقت ٓایا،توولی کامل حضرت مولانا مبین الدین امروہوی علیہ الرحمہ کو دعوت دی، جن کو حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ زندہ ولی کہاکرتے تھے۔ ختم بخاری کے لیے بحرالعلوم نے فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ کسی بزرگ سے ختم کرایاجائے۔(حالاں کہ آپ خود بھی بڑے بزرگ تھے یہ آپ کی تواضع اورانکساری تھی)۔
چندہ کرنے میں عزت
اشرفیہ سے فراغت کے بعد تدریس کے لیے میرے لیے جگہ آئی، وہاں جانے سے قبل ملاقات واجازت کے لیے حاضر ہوا۔ باتوں باتوں میں میری زبان سے نکلا ”وہاں چندہ بھی کرناہے“ اس پرفرمایا: ارے یہ توبہت اچھاکام ہے، حافظ ملت بھی چندہ کرتے تھے۔ ہم لوگ بھی چندہ کرتے ہیں، اس میں تو اورعزت ملتی ہے۔ دیکھو ہم جاتے ہیں لوگ عزت سے بٹھاتے ہیں، کھلاتے، پلاتے ہیں اور عزت سے چندہ بھی دیتے ہیں۔ مدارس اسی سے چلتے ہیں اگر چندہ نہ ہوتو یہ مدارس کیسے چلیں گے۔ نبیِ اکرم ﷺ نے بھی چندہ کیاہے۔ ان کی اثرانگیز باتیں دل نشین ہوگئیں اور آج تیس سال ہونے کے بعد بھی یاد ہیں۔
حرمین طیبین میں جماعت اوربحرالعلوم کی سادگی
ایک بار دوران تعلیم گفتگو میں فرمایا: دیکھو حرمین طیبین میں اپنی الگ نماز پڑھنے اورجماعت کرنے میں کوئی دقت نہیں۔ میں اور قاری یحییٰ صاحب(علیہ الرحمہ) بحری جہاز سے شعبان ہی میں پہنچ گئے تھے۔ روزانہ ایک عمرہ کرتے اورایسے ہی سادگی سے رہتے تھے۔ حرم میں ادھر ادھر کہیں بھی جگہ ملتی اپنی جماعت کرلیتے، کوئی روکتاٹوکتانہیں تھا۔ ان کی نگاہیں صرف ان لوگوں پر ہوتی ہیں جو آن بان سے رہتے ہیں ان کے آگے پیچھے ،دائیں بائیں لوگ عقیدت سے چلتے ہیں تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا شخص ہے پھراس پر نظررکھتے ہیں۔ ہم لوگ توکرتا،ٹوپی،تہبند یاپاجامہ میں بڑی سادگی سے رہتے ایسے لوگ توہزاروں پھرتے رہتے ہیں ان کوکون پوچھتاہے۔
جامع الاحادیث بحرالعلوم کی آرزو کی تکمیل
ایک بار حضرت بحرالعلوم مدرسہ فیض العلوم محمدآباد گوہنہ تشریف لائے اس وقت میں وہاں زیر تعلیم تھا، ملاقات کے لیے حاضر ہوا اورحضرت مولانا عارف اللہ صاحب فیضی بھی تھے۔ فتاوی رضویہ شریف کا ذکر چھڑ گیا۔ آپ نے فرمایا:اگر کوئی فتاویٰ رضویہ کی احادیث اکٹھا کردے تویہ ایک بڑا کام ہوجائےگا۔ جب ایک عرصہ کےبعد جامع الاحادیث منظر عام پر آئی تو میں نے اسے آپ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی آرزوؤں کی تکمیل سمجھی۔
تقریر کے خلاف تقریر
جامعہ اشرفیہ میں میرے دوران تدریس سکٹھی مبارک پور میں اصلاحِ معاشرہ کانفرنس منعقد ہوئی اس میں صرف علما، مقررین اور دانشور مدعوتھے۔عوام نہ تھے۔ اس کا موضوع تھا،
معاشرہ کی اصلاح کیسے ہو؟
ہرشخص اپنی صواب دیدسے رائے پیش کررہاتھا۔ اس درمیان ایک صاحب کھڑے ہوئےاور انھوں نے فرمایا: اب تقریروں سے کچھ ہونے والا نہیں ، اسی موضوع پراپنا پورا بیان دیا، جب وہ تقریر کرکے بیٹھے، توحضرت بحرالعلوم نےبرجستہ فرمایاکہ دیکھیے ! مولانا ،تقریر کےخلاف ایک تقریر کرگئے۔اس پرحاضرین ہنس دیے اوراس ایک ہی جملہ سے ان کی پوری تقریر پرپانی پھر گیا۔
شمس العلوم کی قدرومنزلت
بیرون ہند رہتے مجھے سترہ سال ہوگئے، جب بھی میں ہندوستان جاتا، توپابندی سے حضرت بحرالعلوم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتا، فتاویٰ رضویہ کےدورانِ اشاعت ایک بار شمس العلوم گھوسی ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا۔ دورانِ گفتگو فرمایا: دیکھیے شمس العلوم کے لوگوں نے مجھے کتنی چھوٹ دےرکھی ہے، بس دو گھنٹیاں بخاری کی پڑھاناہے،اس کے بعد،ان سے کوئی مطلب نہیں کہ میں کیاکرتا ہوں ،سوؤں یاجو چاہوں کروں ،اپنی مرضی، یہ روم بھی دے دیاہے۔تو بجائے سونے کے میں فتاویٰ رضویہ کےکام میں لگ جاتا ہوں اگر انھوں نے مجھے اتنی چھوٹ نہ دی ہوتی توکیسے یہ کام ہوتا۔ پھر دیر تک اپنا طریقۂ کاراور فتاویٰ رضویہ کی کئی فائلیں دکھاتے رہے۔
انجمن اشرفی دارالمطالعہ
یہ دارالعلوم اشرفیہ کے طلبہ کی قدیم انجمن اور لائبریری ہے اس کے زیر اہتمام مبارک پور کاجلوس میلاد النبی پوری شان وشوکت کے ساتھ نکلتاہے۔ اس کے قیام وارتقامیں حضرت کی محنت وجانفشانی کابڑادخل ہے۔
ایک بار گفتگوکےدرمیان مجھ سے فرمایا: اس لائبریری کے قیام کے لیے زمانۂ طالب علمی میں ہم نے بڑی محنتیں کی ہیں، کسی جگہ قلمی نسخہ کا پتا چل جاتا توہم وہاں کا سفر کرتے ،پہلے اس کوحاصل کرنے کی کوشش کرتے ،نہ ملتا توپھر اس کی نقل کرکے لائبریری میں جمع کرتے ،اس طرح لائبریری میں ہم نے بہت سے قلمی نسخےاورنایاب کتابیں جمع کی ہیں۔
اپنے ہاتھ سے کام کی لذت
میرے پڑھنے کے زمانہ میں ایک بار درس گاہ میں فرمایا اپنی محنت اوراپنے ہاتھ سے جوکام ہوتاہے، اس کی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔
ہم تلسی پور(گونڈہ،یوپی) میں پڑھاتے تھے، اپنے ہاتھ سے لکڑی چیرتے،آگ بناتے،پھر اس پر روٹی پکاتے، آدھی پکی آدھی کچی ،پھر بیٹھ کرکھاتے تواس کامزہ ہی کچھ اور ہوتا۔”ہم“ سے مراد حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ اورحضرت مولانامحمدشفیع مبارک پوری علیہ الرحمہ۔
حضرت نے اس مشقت کو لذت سے تعبیر کیا۔ پریشانیاں اس طرح خندہ پیشانی کےساتھ برداشت کرلینا ہمارے اساتذہ کی شان ہے۔
استاذ الاساتذہ کی آمد
ایک بار حضرت مولانا قاری محمدعثمان اعظمی علیہ الرحمہ (مصنف مصباح التجوید) جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لائے ۔ حضرت بحرالعلوم نے ہم تمامی طلبہ کو ہال کمرے میں جمع کرایا۔ پھر خود کھڑے ہوئے اور حضرت قاری صاحب کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا: یہ ہمارے استاذ ہیں، جب ہمارا کوئی بزرگ آتاہے، توہم طلبہ کوجمع کرتے ہیں تاکہ طلبہ ان کی نصیحت سنیں اوراس پر عمل کریں۔
یہ پہلا موقع تھا جومیں نے جاناکہ حضرت قاری صاحب ہمارے شیخ الجامعہ کےاستاذ ہیں۔ حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ علمائے کرام کی بڑی عزت کرتے۔ اپنے سے کم علم اور کم رتبہ کی بھی حوصلہ افزائی کرتے۔ ہم لوگ توادنیٰ شاگرد ٹھہرے، مگر جب کبھی ملاقات کے لیے جاتے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے۔ جب تک میں وہاں بیٹھا رہتا پوری طرح متوجہ ہوکر گفتگو فرماتے بغیر ضیافت کے واپس نہیں آنے دیتے۔
فیض الحکمت ترجمہ ہدایۃ الحکمت پر تقریظ جلیل
جن دنوں بھائی جان قبلہ(استاذ گرامی حضرت علامہ محمداحمدمصباحی دامت برکاتہم العالیہ) کے پاس، فیض العلوم میں، ہدایۃ الحکمت پڑھ رہاتھا اس کاترجمہ لکھتا جاتا اوربھائی جان قبلہ اس کی اصلاح بھی فرماتے جاتے۔ اس ترجمہ کےچھپوانے کاوقت آیا تومیں استاذ محترم حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ کےپاس(مبارک پوران کےدولت کدہ پر) اسے دکھانے کے لیے حاضر ہوا، حضرت نے فرمایا اسے تھوڑے دنوں میرے پاس رکھ دو تاکہ میں دیکھ لوں، پھر دوبارہ اسے لینے کے لیے حاضر ہوا، تو فرمایاکہ اس کی شرح بھی لکھ دو۔اوراس کاطریقہ بھی بتایا اوردیرتک سمجھا یا، برادر گرامی، حضرت مولانا شکیب ارسلان صاحب وہاں موجود تھے۔وہ میری حمایت میں بولے ایسے ہی چھپ جانےدیجیے۔ یہ سن کر فرمایا: دیکھو دیکھو یہ بزنس مین ہیں، اسی اعتبار سے سوچتے ہیں ،شرح سے کتاب ضخیم ہوجائے گی، قیمت بڑھ جائے گی، طلبہ کم خریدیں گے۔
پھرطباعت کی اجازت عطافرمائی ،اور دوپہر کےکھانے کے لیے روک لیا، کھانا کھلاکر رخصت فرمایا۔اوریہ تقریظِ جلیل لکھ کر عنایت فرمائی۔

بِسْمِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، نحمدہٗ ونصلی علی رسولہِ الکریم

مولوی احمد القادری صاحب مصباحی، ہمارے اشرفیہ کے سعادت مند فاضلین میں سے ہیں۔فلسفہ کی ابتدائی کتاب ہدایۃ الحکمت مولوی الہ آباد کورس میں شامل ہے۔ اور ایک نامانوس فن ہونے کی وجہ سے امتحان دینے والے طلبہ کے لئے پریشانی کا سبب بنی ہوئی تھی، مولانا نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرکے وقت کی ایک بڑی ضرورت پوری کی ہے، اور مولوی عالم، فاضل کی لائن اختیار کرنے والے ہزاہا ہزار طلبہ کو شکر گزار ہونا چاہئے۔ بلکہ اس کتاب سے درس نظامیہ کے طلبہ کو بھی بڑی مدد ملے گی۔
دعاء ہے کہ مَولیٰ تبارک َ و َ تعالی ان کی اس کوشش کو کامیاب بنائے اور اس کے نفع کو عام فرمائے۔ آمین
عبد المنان اعظمی
۲؍ شوال ۱۴۰۴ھ
(شیخ الحدیث و صدرالمدرسین ، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، اعظم گڑھ، یوپی، ہند)
آخری ملاقات
امسال شوال ۱۴۳۳ھ اگست ۲۰۱۲ء ہندوستان کاسفر ہوا، مدارس عربیہ کھلنے کے بعد دارالعلوم اہل سنت شمس العلوم گھوسی جانا ہوا۔ حضرت بحرالعلوم سے ملاقات کےلیے حاضر ہوا۔ میرے ساتھ مولانا قاری مہتاب عالم صاحب بھی تھے،دیکھتے ہی دوکرسیاں اور منگائیں،دست بوسی کاشرف بخشا اوراپنے قریب بٹھایا، فوراً چائے کاآڈر دیا، میں نے عذر خواہی کی ،مگر منظور نہ ہوئی، میں اسے اپنے لیے سعادت اور اعزاز سمجھ کرخاموش ہوگیا۔
خیریت اورمزاج پرسی کے بعد میری طرف متوجہ ہوکر بے تکلف گفتگو فرمانے لگے اپنی اور خانگی باتوں کےبعد سنی دارالاشاعت کےقیام اوراس زمانے کی دشواریوں اور کامیابیوں کاتذکرہ فرمایا۔ پھر فتاویٰ رضویہ کے بچے ہوئے نسخوں سے متعلق فرمایا۔ کتاب کابنڈل بنانا،پارسل کرنا، بیچنا مجھ سے کہاں ہوتا، تو میں یہ کرتا ہرسال اپنی زکات سے فتاویٰ رضویہ کے نسخے خریدلیتا اور مستحق طلبہ میں
تقسیم کردیتا۔اس طرح ساری کتابیں نکل گئیں۔اب میں نے سنی دارالاشاعت کاسارا اثاثہ، رقم اورساری چیزیں مولانا محمدحنیف خاں صاحب رضوی کودیدی ہیں۔ انھوں نے تصنیف وتالیف کاادارہ(امام احمدرضا اکیڈمی) بنایاہے اس کے حوالہ کردیں ہیں۔وہ بھی اسی طرح کاادارہ ہے۔دوسرے اکثرادارےتو ذاتی ہیں، قومی چیز تھی ،قومی ادارہ میں دےدی۔
چائے پینے کے بعد دوبارہ دست بوسی کی، اپنے سرپر ان کادست مبارک رکھا اور وہاں سے اجازت لے کررخصت ہوا۔ کیا معلوم تھاکہ یہ ملاقات آخری اور تاریخی بن جائے گی۔

احمدالقادری
اسلامک اکیڈمی امریکہ
۸؍صفر۱۳۳۴ھ، یکم جنوری ۲۰۱۳ء

(مزیدتفصیل کے لئے تجلیات رضا ، امام احمد رضا اکیڈمی ، بریلی شریف کابحرالعلوم نمبرمطالعہ فرمائیں، جو اُن کے احوال میں بارہ سو صفحات پر مشتمل ہے)

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

مزید
مینو