ثبوت ِایصالِ ثواب
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن ، وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ وَعَلیٰ اٰ لِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن
اپنے کسی عملِ غیر کےذریعہ مسلمان میت کونفع پہنچانےکانام ایصال ثواب ہے، ایصال ثواب حق ہے۔ قرآن وحدیث اورصحابہ کرام کےاقوال وافعال سے اس کاثبوت ملتاہے۔
(۱) رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ
(نوح علیہ السلام نے کہا)اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مَردوں اور سب مسلمان عورتوں کو ۔ (سورہ نوح۷۱، آیت:۲۸،پارہ:۲۹)
اس آیت سے معلوم ہواکہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے ماں باپ کےلیے جومسلمان تھے اوردیگر مسلمانوں کےلیے بخشش کی دعا مانگ کران کونفع پہنچایا۔
(۲) وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْ ۢ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوٰنِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ۔
اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے ۔
( سورہ حشر:۵۹،آیت:۱۰،پارہ:۲۸)
اس آیت میں مہاجرین وانصار کےبعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کواپنے سے پہلے کے مسلمانوں کے لیے مغفرت اور بخشش چاہنے کی دعاتعلیم فرمائی گئی اس سے معلوم ہوا کہ زندوں کی دعا اوراُن کاعمل میت کےلیے نفع بخش ہے۔
(۳) نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا الخ
اے اللہ ہمارے زندہ کوبخش دے اور ہمارے مُردہ کو۔
یہ دعا اورنماز جنازہ خود میت کے لیے ایک طرح کا ایصالِ ثواب ہے اوراس کاحکم بھی دیاگیاہے۔ ہاں کفار ومنافقین اگرچہ کلمہ گو،ہوںان کےلیے ایصال ِثواب نہیں کیاجائےگا۔اورنہ ان کی نماز ِجنازہ پڑھی جائےگی۔
خداوند کریم ارشاد فرماتاہے:
وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ۔
اور ان میں سے کسی کی میّت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ (سورہ توبہ:۹،آیت:۸۴،پارہ:۱۰)
لیکن میت اگربدمذہب ،گم راہ،بےدین نہ ہو بلکہ مسلمان ہویابزرگان دین میں سے ہوتواس کےلیے دعاےمغفرت، ایصالِ ثواب اورنمازِ جنازہ پڑھنے کی کہیں سے کوئی ممانعت نہیں ۔
احادیث سے بھی اِس کا،کافی ثبوت ملتاہے:
(۴)ابوداؤدشریف میں ہے: عاص بن وائل نے وصیت کی تھی کہ اس کی طرف سے ۱۰۰غلام آزاد کیےجائیں اوراس کے بیٹے ہشام نے۵۰ غلام آزاد کردیے اس کےدوسرے بیٹے عمرو رضی اللہ عنہ نے باقی ۵۰کوآزاد کرناچاہا تو کہا ،پہلے میں رسول اللہ ﷺسے دریافت کرلوں تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی یارسول اللہﷺ! میرے ماں باپ نے ۱۰۰غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور ہشام نے پچاس آزاد کردیے اور پچاس باقی ہیں کیا میں آزاد کردوں؟
رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا: اگر وہ مسلمان ہوتا توتم اس کی طرف سے آزاد کرتے یاصدقہ کرتے یاحج کرتے تو اسے پہنچتا۔
(۵) امام ترمذی اور ابوداؤد ،حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میری ماں مرگئی ہیں اور انھوں نے حج نہیں کیاہے کیا میں اُن کی طرف سے حج کروں؟
فرمایا: ہاں اُس کی طرف سے حج کرو۔
(۶) امام نسائی ابن زبیر رضی اللہ سے روایت کرتے ہیں،
نبی ﷺ نےایک صاحب سے فرمایا: تم اپنے باپ کی اولاد میں سب سے بڑے ہو، تم ان کی طرف سے حج کرو۔
(۷) امام نسائی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، ایک عورت نےنبی ﷺ سے پوچھا میرے باپ مرگئے اورانھوں نے حج نہیں کیا۔
فرمایا: اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔
(۸)ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ سے مروی ہے ایک صاحب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورپوچھا میں اپنے باپ کی طرف سے حج کروں؟
فرمایا: ہاں اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔
(۹)امام ابوداؤدوحضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا،یارسول اللہ ﷺ ! میری ماں کاانتقال ہوگیا توان کے لیے کون ساصدقہ افضل ہے؟۔
فرمایا: پانی۔ توانھوں نے کنواں کھدوادیا اورکہہ دیا کہ یہ سعد کی ماں کےلیے ہے یعنی اس کاثواب سعد کی ماں کوپہنچے۔
(۱۰) امام بخاری اپنی صحیح میں، امام نسائی اپنی سنن میں روایت کرتے ہیں، سعد بن عبادہ نبی ﷺکےساتھ بعض غزوات میں گئے اور مدینہ میں ان کی والدہ موت کے قریب پہنچ گئیں۔ان سے کہا گیاوصیت کرجاؤ۔ انھوں نے کہا کس چیز میں وصیت کرجاؤں سب مال سعد کاہے، حضرت سعد کے واپس ہونے سے پہلے ان کاانتقال ہوگیا۔ جب حضرت سعد آئے توان سے اس کاتذکرہ کیاگیا توانھوں نے حضور اقدسﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ!ﷺمیں ان کی طرف سے صدقہ کروں ،توکیاان کو نفع پہنچے گا؟
حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں ، توانھوں نے نام لے کر کہا، فلاں فلاں باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔
(۱۱) مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک صاحب نے نبی ﷺ سے عرض کیامیرے والد کاانتقال ہوگیا، انھوں نے مال چھوڑا اور وصیت نہیں کی ہے اگر میں صدقہ کروں توان کے گناہوں کے لیے کفارہ ہوگا؟
فرمایا: ہاں۔
(۱۲) اُسی مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے: ایک شخص نبی ﷺ کےپاس آئےاور انھوں نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ! میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور وہ کسی بات کی وصیت نہ کر سکیں۔ میرا گمان ہے کہ انتقال کے وقت اگر کچھ کہنے سننے کا موقع ملتا تووہ صدقہ کرتیں ،تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر وں تو کیا ان کو ملے گا۔
فرمایا:ہاں ۔ (صحیح مسلم،کتاب الزکاۃ،باب وصول ثواب الصدقۃ۔۔۔الخ)
اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر میت کی طرف سے صدقہ دیا جائے تو میت کواس کا فائدہ اور ثواب پہنچتا ہے اسی پر علما کا اتفاق ہے۔
(۱۳)بخاری ومسلم میں یہ حدیث مروی ہے: نبی ﷺ نےدومینڈھے کی قربانی کی ،ایک اپنی طرف سے اور دوسرا ،اپنی امت کی طرف سے۔ امت میں زندہ اورمُردہ دونوں داخل ہیں۔
(۱۴)امام ترمذی نےیہ حدیث روایت کی ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےوہ دومینڈھے کی قربانی کرتے تھے ایک نبی ﷺ کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے۔
(۱۵)طبرانی اوردارقطنی میں ہے: نبی ﷺ نےفرمایا جومقابر(قبروں) پرگزرے اور(سورہ اخلاص) قل ہواللہ احد گیارہ بار پڑھ کراس کاثواب اموات کوبخشے ،توبخشنے والے کوتمام مُردوں کی تعداد کےبرابر ثواب ملے گا۔
(۱۶)طبرانی اوسط میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
نبی ﷺ نے فرمایا : تم میں کوئی شخص کسی صدقۂ نافلہ کاارادہ کرے توکیاحرج ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی نیت سےدے، کہ انھیں اس کاثواب پہنچے گا ،اور دینے والے کو دونوں کےاجروں کےبرابرثواب ملے گا۔
(۱۷)امام دارقطنی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
حضورﷺ نےفرمایا: جب آدمی اپنے والدین کی طرف سے حج کرے، وہ حج، اس حج کرنے والے اورماں باپ، تینوں کی طرف سے قبول کیاجائےگا۔ اوران کی روحیں خوش ہوں گی۔ اور اللہ کےنزدیک ماں باپ کےساتھ اچھا سلوک کرنے والا لکھاجائےگا۔
احادیث بالا سے آفتاب کی طرح روشن ہوگیاکہ مسلمان میت کےلیے ایصالِ ثواب جائز ومستحسن ہے۔ اور اس کاثواب مسلمان میت کو پہنچتاہے۔
حدیث سے حج،قربانی، پانی، کنواں، صدقہ، قرآن شریف کی تلاوت وغیرہ ہرایک کا ثواب پہنچنا ثابت ہے۔
اورحدیث نمبر ۶،۷ میں تو ایصالِ ثواب کاحکم دیاگیاہے، بلکہ حدیث میں تو یہاں تک گزرا کہ جس نے مسلمان اموات کےلیے کوئی نیک عمل کیاتو تمام اموات(مُردوں) کوبرابر برابر ثواب ملےگا اورکسی کےثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اوربخشنے والے کوسب کی تعداد کے مجموعے کے برابر ثواب ملےگا۔ مثلاً کسی نےایک بارسورۂ اخلاص پڑھ کر ۱۰۰ لوگوںکوایصالِ ثواب کیا توہرایک کوایک ایک بارسورۂ اخلاص پڑھنے کاثواب ملے گا اورایصالِ ثواب کرنے والے کےلیے سو۱۰۰بار سورۂ اخلاص پڑھنے کاثواب بڑھادیاجائےگا جیساکہ حدیث ۱۵،۱۶،۱۷، سے ظاہر ہوتاہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پروردگار عالم جس کودیناچاہے توایک نیکی کاثواب بےشمار بڑھاکردے سکتاہے۔ اس کے خزانۂ قدرت ورحمت میں کوئی کمی نہیں ۔ارشاد ہوتاہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَن یَّشَآءُ۔
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ،ہر بال میں سو دانے، اور اللّٰہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے۔ ( سورہ بقرہ:۲،آیت:۲۶۱،پارہ :۳)
(۱۸) بظاہر بھی ایصالِ ثواب نیک اور بہترین کام ہے۔مشکوٰۃ شریف میں ہے:
جس نے اسلام میں کوئی نیاطریقہ ایجاد کیا اسے اس کاثواب ملے گا اوراس کے بعد اس پرجتنے لوگ عمل کریں گے سب کےبرابر ایجاد کرنے والے کوثواب ملےگا اورعمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائےگی۔ جب مطلقاً ایصالِ ثواب ثابت ہےتواسی سے یہ بھی ثابت ہوگیاکہ خاص خاص مواقع پریہ جوبہت سے غربا ومساکین اورمستحقین کوجمع کرکے کھانا کھلایا جاتاہے، اورایصالِ ثواب کیاجاتاہے یہ بھی درست ہے۔ چاہے تنہا ایصالِ ثواب کیاجائے ،یاجمع ہوکر ، ہرطریقہ سے جائز ہوگا۔
خداوند کریم کاارشاد ہے:
لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا۔
تم پر کوئی الزام نہیں کہ مِل کر کھاؤ یا الگ الگ کھاؤ۔ ( سورہ نور:۲۴،آیت:۶۱،پارہ:۱۸)
واللہ تعالیٰ اعلم
احمدالقادری غفرلہ
۲؍ربیع الآخر۱۴۰۷ھ
۵ ؍ دسمبر ۱۹۸۶ ء