بسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

ہمارے نبی ﷺ کےعظیم اَخلا ق

ترے خُلق کو، حق نے عظیم کہا     ترے خلق کو، حق نے جمیل کیا
تجھ سا کوئی ہوا ہے نہ ہوگاشہا      ترے خالقِ حسن و ادا کی قسم

(۱) خالقِ کائنات خود اپنے برگزیدہ رسول ﷺ کے اخلاق کی عظمت کی گواہی دے رہا ہے۔ ارشادِ رب تعالیٰ ہے۔
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔
اور بیشک تمہاری خُوبو بڑی شان کی ہے۔ (کنزالایمان، سورۂ قلم آیت۴)
(۲) رسولِ عربی ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں۔
بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ۔
(قد رواه مالك في ” الموطأ ،رواه البخاري في ” الأدب المفرد ،أخرجه البيهقى ، والبزار فى المسند )
میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا۔
(۳) جلیل القدر صحابی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نبی ﷺ کے اخلاق حسنہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
خَدَمتُ النَّبِیَّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عَشْرَ سِنِیْنَ، فَمَا قَالَ لِیْ اُفٍّ وَّلاَ لِمَ صَنَعْتَ وَلاَ اَلَّا صَنَعْتَ۔
میں نے نبی ﷺ کی دس سال خدمت کی۔ آپ نے کبھی مجھ سے اف تک نہ کہا۔ نہ یہ کہ ، کیوں کیا اور کیوں نہ کیا۔ (بخاری و مسلم)
یہ معمولی اخلاق کی بات نہیں کہ اپنے ادنیٰ خادم سے بھی، دس سال کے طویل عرصے میں کسی کام کے بگڑ جانے یا ناموافق ہونے پر اف تک نہ کہا جائے۔ اور مزاج کے خلاف کام سرزد ہوجانے پر اتنا معمولی سوال ’’کیوں ایسا کیا‘‘ سننے کی زحمت اپنے خادم کو بھی نہ دی جائے۔ یا اطاعت میں تاخیر یا بھول پر اتنا ٹوکنا بھی ’’کیوں نہیں ایسا کیا‘‘ اخلاق ومروت کے خلاف سمجھا جائے۔ یہ عظیم اخلاق کا بے مثال نمونہ ہے۔
(۴) حِلْم: عرب کے دیہاتوں میں ایسے بہت سے اشخاص رہتے تھے جو آدابِ نبوت سے آشنا نہ تھے۔ ان کے مزاج میں حد درجہ شدت تھی، کسی معاملہ کو نرمی اور بُردباری سے کہنا سننا جانتے ہی نہ تھے۔ آج بھی وہاں کے بعض بدؤوں کی درشتی اور بے اخلاقی امتحان کن ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی قسم کے ایک اعرابی (عرب کے دیہاتی) کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
کُنْتُ أَمْشِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وَعَلَیْہِ بُرْدٌ نَجْرَاِنِیٌّ غَلِیْظُ الْحَاشِیَۃِ فَاَدْرَکَہٗ اَعْرَابِیٌّ فَجَبَذَہٗ بِرِدَائِہٖ جَبْذَہً شَدِیْدَۃً وَرَجَعَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فِیْ نَحْرِ الْاَعْرَابِیِّ حَتّٰی نَظَرْتُ اِلٰی صَفْحَۃِ عَاتِقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قَدْ اَثَّرَتْ بِھَا حَاشِیَۃُ الْبُرْدِ مِنْ شِدَّۃِ جَبْذَتِہٖ ثُمَّ قَالَ یَا مُحَمَّدُ مُرْ لِیْ مِنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ عِنْدَکَ فَالْتَفَتَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ثُمَّ ضَحِکَ ثُمَّ اَمَرَلَہٗ بِعَطَائٍ۔
میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ کے اوپر گہرے حاشیہ والی نجرانی چادر تھی۔ ایک اعرابی آپ کے پاس آئے، اور ا نھوں نے آپ کی چادر پکڑ کر پوری شدت سے، اسے کھینچا۔ نبی کریم ﷺ ، اس اعرابی کی تہ تک پہونچ گئے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی گردن پر چادر کے شدت کے ساتھ کھینچنے کے باعث حاشیہ کے نشانات دیکھے۔ پھرانھوں نے کہا: اے محمد! ( ﷺ) میرے لئے مال کا حکم فرمائیے۔ اللہ کے اس مال سے جو آپ کے پاس ہے۔ رسول اللہ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے ، پھر انھیں دینے کا حکم فرمایا۔ (مشکوٰۃ ، بخاری و مسلم)
اس واقعہ میں سرکار دوعالم ﷺ کے اخلاق ، حلم وبردباری کا کیسا نادر نمونہ ملتا ہے۔ ایک دیہاتی بجائے منت سماجت سے مانگنے کے، سختی پر اترآئے۔ آپ کی چادر مبارک کھینچ کر گردن مبارک اپنی طرف جھکاتے ہوئے بے باکی کے ساتھ عطیے کا سوال کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے بجائے اس درشتی پر تنبیہ اور سخت سست فرمانے کے، مسکراتے ہوئے عطایا اوربخشش وانعامات کا حکم صادر فرماتے ہیں۔ سلطانِ دوجہاں، شہنشاہ کون ومکاں کے ایسے اخلاق عظیمہ کی مثال دنیا کے کس بادشاہ اور حاکم میں مل سکتی ہے۔
(۵) شجاعت : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ حسین، تمام لوگوں سے زیادہ سخی، اور سب لوگوں سے زیادہ بہادر تھے۔ مدینہ منورہ میں ایک بار کسی طرف سے، کوئی خوفناک آواز آئی ، لوگ اس سے گھبرا گئے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔
وَلَقَدْ فَزِعَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَھُمُ النَّبیُّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قَدْ سَبَقَ النَّاسَ اِلٰی الصَّوتِ وھُو یَقُوْلُ لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوْا۔
ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ تو لوگ آواز کی جانب چلے ۔ راستہ میں انھیں نبی کریم ﷺ سامنے سے آتے ہوئے ملے۔ وہ آواز کی طرف، سب سے پہلے چلے گئے اور فرمارہے تھے نہ گھبراؤ۔ نہ گھبراؤ۔(مشکوٰۃ ، بخاری و مسلم)
آج کل کے بادشاہ و وزراء اور حکام، اپنے باڈی گارڈ اور محافظ دستے کے جھرمٹ میں بھی، کسی خوفناک موقع پر، رات کے سناٹے میں تو کجا، دن کے اجالے میں بھی جانے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ بلکہ وہ تو مارے ڈر کے، اپنے بنگلہ، مکان میں محافظ دستوں کی نگرانی میں ، محصور ہوجاتے ہیں، وہ خود اپنی جان کی حفاظت نہیں کرپاتے اور دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں، پھر وہ کسی غیر کی جان کی کیا حفاظت کرسکتے ہیں۔ لیکن آپ سارے حاکموں کے حاکم، بادشاہوں کے بادشاہ، سلطانوں کے سلطان ﷺ کی ذات مبارکہ پر نگاہ ڈالیں ۔ مدینہ منورہ میں ڈراؤنی خوفناک آواز رات کے سنسان سناٹے میں آتی ہے۔ کسی کو ساتھ لئے بغیر سب سے پہلے خود نکل پڑتے ہیں اور جائے واردات پر، سب سے پہلے پہونچ کر پتہ لگاتے ہیں تا کہ اہل مدینہ پریشان نہ ہوں۔ پھر پتہ لگاکر انھیں اطمینان دلاتے ہیں۔ ہزاروں جاں نثار غلاموں کے ہوتے ہوئے خود نکلنا اور کسی خادم کی تکلیف گوارا نہ کرنا کس قدر بلند اخلاق کا پتہ دیتا ہے۔
(۶) سخاوت: آنحضرت ﷺ سے جب بھی کسی نے سوال کیا کبھی ’’نہیں ‘‘سننے کا موقع اسے نہیں ملا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں:
مَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شَیْئاً قَطُّ فَقَالَ لَا
رسول اللہ ﷺ سے ایسا کبھی ثابت نہیں کہ آپ سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ نے ’’نہیں‘‘ فرمایا ہو۔ (مشکوٰۃ ، بخاری و مسلم)
اسی حدیث پاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایشیا کے عظیم محقق ، اپنے وقت کے مجدد اعظم، قطب الاقطاب ، حضرت امام احمد رضا قادری ، محدثِ ہند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

واہ کیا جودو کرم ہے، شہِ بطحا تیرا       ’’نہیں‘‘ سنتا ہی نہیں، مانگنے والا تیرا

دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا تارے کھلتے ہیں سخا کے، وہ ہے ذرہ تیرا
( ۷)سماحت: عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بَیْنَ جَبَلَیْنِ فَاَعْطَاہُ اِیَّاہُ فَاَتٰی قَوْمَہُ فَقَالَ اَیْ قَوْمِ اَسْلِمُوْا فَوَاللّٰہِ اِنَّ مَحَمَّداً لَیُعْطِیْ اِعْطَائً مَا یَخَافُ الْفَقْرَ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ ایک آدمی نے، نبی کریم ﷺ سے دو پہاڑیوں کے درمیان پھیلی ہوئی بکریاں مانگیں، تو آپ نے اسے عطا فرمادیں، وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور کہا اے لوگو! مسلم بن جاؤ! قسم خدا کی ، محمد ﷺ اتنا دیتے ہیں کہ فقر سے نہیں ڈرتے ۔ (مشکوٰۃ ، مسلم)
آپ نے سرکار دو جہاں ﷺ کی داد ودہش کا حال دیکھا، کہ ایک آدمی کے سوال پر دو پہاڑوں کے درمیان پھیلی ہوئی ساری کی ساری بکریاں، عطا فرمادیں۔

ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا       موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام

(۸) عَنْ اَنَسٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی الْغَدَاۃَ جَائَ خَدَمُ الْمَدِیْنَۃِ بِاٰنِیَتِھِمْ فِیْھَا الْمَائُ فَمَا یَأتُوْنَ بِاِنَائٍ اِلَّاغَمَسَ یَدَہٗ فِیْھَا فَرُبَّمَا جَائَ ہُ بِالْغَدَاۃِ الْبَارِدَۃِ فَیَغْمِسُ یَدَہُ فِیْھَا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب فجر کی نماز ادا کرلیتے تو مدینہ منورہ کے خدام برتنوں میں پانی لے کر حاضر بارگاہ ہوجاتے۔ وہ اس لئے برتن لاتے کہ آپ ان میں دست پاک ڈبودیں۔ تو جب سردی کی صبح کو آتے تب بھی آپ ان میں دست مبارک ڈبوتے۔ (مشکوٰۃ ، مسلم)
جاڑے کے دنوں میں صبح صبح ٹھنڈے ٹھنڈے پانی لے کر بارگاہ رسالت ماٰب ﷺ میں لوگ حاضری دیتے اور یہ چاہتے کہ سرکار دو جہاں ﷺ پانی میں اپنا دست مبارک ڈالدیں تا کہ سارا پانی متبرک ہوجائے۔ ہمارے آقا ومولیٰ ﷺ ان عقیدت مندوں کی دلجوئی کی خاطر کبھی انکار نہ فرماتے اور سخت ٹھنڈک کے باوجود بھی ان کی درخواست قبول فرمالیتے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام کا یہ عقیدہ تھا کہ جس پانی سے نبی اکرم ﷺ کا دست مبارک چھوجائے وہ متبرک بن جائے گا۔ اس تبرک کے حصول کی خاطر وہ روزانہ اپنے خادمین کو بھیجتے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ نبی اکرم ﷺ کا بھی یہی عقیدہ تھا۔معلوم ہوا کہ جس چیز سے سرکاردوعالم ﷺ سے نسبت، تعلق ہوجائے یا آپ سے صرف چھوجائے اس کا درجہ بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ مبارک شئی بن جاتی ہے۔ ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی درخواست قبول کرنے کے بجائے انھیں ایسا کرنے سے روک دیتے۔ اور فرما دیتے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں یہ عبث کام ہے۔ لیکن اس کے برخلاف ہمیشہ اس پر عمل کرکے اپنے عقیدتمندوں کے واسطے ہمیشہ کے لئے جواز وسنت کی راہ پیدا فرمادی۔
(۹)خاکساری ، تواضع اور نرمی کا حال یہ تھا کہ غریب سے غریب ، مفلس سے مفلس، حتیٰ کہ لونڈی غلام بھی جب نبی اکرم ﷺ کو کہیں چلنے کی دعوت دیتے تو وہ قبول ہوتی اور وہ جہاں چاہتے یا جتنی دور چاہتے بے تکلف لے جاتے۔ نبی اکرم ﷺ کبھی انکار نہ فرماتے ۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کَانَتْ اَمَۃٌ مِنْ اِمَائِ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ تَاخُذُ بِیَدِرَسُوْلِ اللّٰہِ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فَتَنْطَلِقُ بِہِ حَیْثُ  شائت۔
ترجمہ: مدینہ کی کوئی باندی رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں لے جانا چاہتی لے جاتی۔ (بخاری، مشکوٰۃ)
(۱۰) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔
وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لِنَفْسِہِ فِیْ شَیئ قَطُّ۔
رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی سے اپنی ذات کے لئے انتقام نہیں لیا۔(بخاری ومسلم)
مسلم شریف میں ہے۔
(۱۱) مَاضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قَطُّ بِیَدِہٖ وَلاَ اِمْرَأَۃً وَّلاَ خَادِماً۔
رسو ل اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت کو، نہ کسی خادم کو۔ (مسلم)
(۱۲) یہ مشہور واقعہ ہے جب سرکار دو جہاں ﷺ اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے طائف کی وادی میں تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ کے اوپر پتھر برسائے ۔ اور بڑی ہی سنگدلی اور بد اخلاقی کا ثبوت دیا۔ طائف کے غنڈوں اور بدمعاشوں نے آپ کے جسم مبارک کو خون سے لت پت اور لہو لہان کردیا۔ ایسی حالت میں پہاڑوں کے فرشتہ نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کی۔ یا رسول اللہ ! (ﷺ) آپ مجھے حکم فرمائیں میں اخشین نامی پہاڑوں کو ان نافرمانوں اور بے ادب لوگوں پر گرادوں۔ مگر نثار جائیے خُلْقِ عظیم کے پیکر ﷺ پر ارشاد فرماتے ہیں نہیں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور شرک سے محفوظ رہیں گے۔ (بخاری ومسلم، شان حبیب الباری من روایات البخاری ص۲۷)
فرشتہ خود حاضر ہے۔ آپ پر ظلم وستم ڈھانے والوں کے عتاب وسزا کے لئے ان کے اوپر پہاڑوںکو گرا کر نیست ونابود کرنے کے لئے محض ادنیٰ اشارے کی حاجت ہے۔ مگر رحمت عالم ﷺ نے ظلم وستم خود برداشت کرلئے مگر ان پر آنچ نہ آنے دی۔
(۱۳) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فَاحِشاً وَّلاَ لَعَّاناً وَّلاَ سَبَّاباً کَانَ یَقُوْلُ عِنْدَالْمَعْتِبَۃِ مَالَہ تَرِبَ جَبِیْنُہُ۔
رسول اللہ ﷺ فحش گو، لعنت کرنے والے اور بدکلام نہیں تھے۔ جلال کے وقت صرف اتنا ارشاد فرماتے۔ اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔ (بخاری)
(۱۴) مسلم شریف میں ہے:
اِنِّیْ لَمْ اُبْعَثْ لَعَّاناً وَّاِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃً۔
میں لعنت کرنے والا نہیں بلکہ محض رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔
یقینا ، بلا شبہ ہمارے نبی ﷺ سراپا رحمت ہیں۔ انسان ، فرشتے، جن ، حیوان ، زمین، آسمان، چاند ، سورج، ستارے، دنیا، آخرت، سارے جہان اور پوری کائنات کے لئے رحمت ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے۔
وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِلْعٰلَمِیْن۔
اے محبوب ہم نے تمہیں ساری دنیا کے لئے رحمت ہی بناکر بھیجا۔ (سورۂ انبیا آیت ۱۰۷)

وہ ہر عالم کی رحمت ہیں کسی عالم میں رہ جاتے    یہ ان کی مہربانی ہے کہ یہ عالم پسند آیا

احادیث وتاریخ کے انمٹ نقوش نبی کریم ﷺ کے عظیم اخلاق پر شاہد وگواہ ہیں۔ اشاعتِ اسلام کی برق رفتاری میں سرکار دوجہاں ﷺ کے بلند اخلاق کا بڑا دخل ہے۔ فسق وفجور اور انتقامی جذبہ سے سرشار، اس جنونی اور مشرکانہ ماحول میں جیسا بلند
وبالا اَخلاق آپ نے پیش فرمایا اس کی نظیر دنیا کے کسی قائدورہنما میں نہیں ملتی۔ بلکہ ایسی نظیر ملنا محال ونا ممکن ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مقدس ببانگ دُہَل اعلان فرماتا ہے۔
اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْم
یا رسول اللہ !آپ تو خُلقِ عظیم کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔

فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں      خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھر یرا تیرا

(حدائق بخشش از اعلی حضرت امام احمد رضا قادری ، قدس سرہ)

الاسلامی.نیٹ
WWW.AL ISLAMI.NET

مزید
مینو