بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
احمد القادری مصباحی
بھیرہ، ولیدپور ، مئو ، یوپی، ہند

حالات بنارس

بنارس صوبہ اترپردیش کاایک مشہورصنعتی اورقدیم شہر ہے اس کا طولُ البلد ۸۳؍درجہ،۱؍دقیقہ اور عرض البلد۲۵؍ درجہ، ۱۹؍دقیقہ ہے۔
اس کے آباد ہونے کی صحیح تاریخ نہیں بتائی جاسکتی البتہ سارے مؤرخین کااس پر اتفاق ہے کہ دنیا کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک بنارس بھی ہے۔
بعض مؤرخین نےاس کی آبادی کی نسبت حضرت نوح علیہ السلام کےبیٹےکی جانب کی ہے۔ یہ ممکن بھی ہے ،کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام خلیفۂ ارض بن کر زمینِ ہند پر تشریف لائے اورسراندیپ میں قیام فرمایاتھا، تو یہ ہوسکتاہے کہ اولاً ان کی اولاد ہند ہی میں پھیلی ہو اور ہندوستان دنیا میں سب سے پہلا ملک اور اس کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک بنارس بھی ہو۔
کاشی کھنداورہندوؤں کی دوسری دھارمک کتابوں میں اس کومتبر ک بتایاگیا ہے اوراس سلسلے میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے گئےہیں۔ لیکن اس میں بنارس کی کوئی تاریخ نہیں لکھی ہے۔
تاریخِ بنارس میں سب سے مستند تاریخ ”صنم کدۂ بنارس“ ہے ۔ تاریخ فرشتہ(فارسی) میں بھی کچھ تذکرہ ہے۔ ان دونوں تاریخوں میں ہزاروں سال قبلِ مسیح کی قدیم آبادیوں میں بنارس کوشمار کیاہے۔
بنارس کے چند نام
[۱] کاشی: بنارس کاقدیم نام کاشی ہے۔ یہ سنسکرت لفظ کاش سے بناہے جس کے معنی درخشاں اورروشن کےہیں۔ ہنود کے عقیدہ میں کاشی سچی معرفت حاصل کرنے کی جگہ ہے جیسا کہ ان کے وَیدوں میں ہے۔
کاشی نام پڑنے کی دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ راجہ دیوداس کے خاندان میں کاش نام کاایک راجہ ہوا تھا جس نے اس مقام کوبڑی ترقی دی اس لیے اس کے نام پر مشہور ہوگیا۔
[۲] بارانسی یابنارس: دریاےگنگا کےکنارے برناندی کےسنگم اوراسی گھاٹ کےدرمیان واقع ہے اس وجہ سے اس کانام برنااَسی سے بارانسی ہوا پھر بگڑکربنارس ہوگیا۔
[۳]ایک زمانہ میں اس کانام محمدآبادبھی رہاہے جیساکہ شاہی فرامین اورقدیم دستاویزوں میں اب بھی ملتاہے۔
[۴]وارانسی: اب موجودہ حکومت نےقدامت کی طرف پلٹتے ہوئے دوبارہ بارانسی رکھ دیاجو ہندی تلفظ میں وارانسی کہلاتاہے۔
ہند میں اسلام
ہندوستان میں اسلام حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانۂ مبارکہ ہی میں آچکاتھا۔ اس وقت یہاں اسلام پہنچنے کاایک بڑا سبب معجزۂ شق القمر کاظہور تھا ہندوستان کےراجاؤں کےتذکرے میں اس کاذکر ملتاہے۔
تاریخ فرشتہ میں ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ ملیبار کےاسلام لانے کا سبب یہی چاند کےدوٹکرے ہونےکامعجزہ تھا۔ انھوں نے معجزۂ شق القمر کی رات اپنے محل سے چاند کے دوٹکڑے دیکھے۔تحقیق کے بعد نبی آخرالزماں ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر اوراس رات کے معجزے کی تفصیل معلوم ہوئی اورانھوں نے اسلام قبول کرلیا۔
علم توقیت سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں رات کے ۱۲؍بج کر ۵۰؍منٹ ہورہے تھے۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فاتحانہ طور سے ہند کی سرحد میں مسلمان داخل ہوگئے تھے۔آج سے ۱۳۱۴؍سال قبل ۹۲ھ میں محمدبن قاسم کی سپہ سالاری میں ہندوستان کاایک بہت بڑا حصہ فتح ہوکر خلافتِ اسلامیہ میں شامل ہوگیاتھا۔اس کے بعد تواولیاےکرام ونیک دل انصاف پروَرمسلم بادشاہوں نے ہندوستان کے چپہ چپہ پر رشدوہدایت اورعدل وانصاف کی کرن بکھیردیںاوروہ ہندوستان جوجہالت وگمراہی ،چھوت چھات، ظلم وستم اور بربریت کے پنجوں میں کسا ہواتھا اور بھارت کی قدیم رعایا دسیون(اچھوت) پربر ہمنوں اور راج پوت راجاؤں کی طرف سے جومظالم کےپہاڑ توڑے جارہے تھے انھیں پاش پاش کردیا۔ صدیوں کے بعد بھارت کےقدیم باشندوں نےچین وسکون کاسانس لیا اور مسلمانوں کی آمد کواپنے لیے غیبی تائید سمجھا۔ ہزار سال سے زائد عرصہ تک مسلم بادشاہوں کےزیر سایہ خوش وخرم اورچین وسکون کی زندگی گزارتے رہے۔ اس بیچ کبھی بھی عوام کی طرف سے مسلمان بادشاہوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی بلکہ وہ مسلمان بادشاہوں کی حکومت برقرار رکھنے ہی کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے حتی کہ ۱۸۵۷ء میں ظالم انگریزوں کےخلاف مسلمانوں کےدوش بدوش ہندؤں نےبھی جان توڑ کوشش کی اوربہادر شاہ ظفر کی حکومت میں ہی اپنی خیر جانی۔
بنارس میں اسلام:
تاریخی حیثیت سے صنم کدۂ بنارس میں مسلمانوں کاسب سے پہلا قافلہ حضرت سید سالار مسعودغازی علیہ الرحمہ (متوفی۴۲۴ھ) کےرفقا کا اترا، اورجہاد کےبعد ان کایہ جتھا یہیں قیام پذیر ہوگیا اس طرح بنارس میں پہلی مسلم نوآبادی قائم ہوگئی۔ اس سے قبل بنارس میں مسلمانوں کی آمد کا کوئی حال اب تک دست یاب نہ ہوسکا۔(۱)
چوں کہ بنارس ہندوستان کاقدیم مذہبی شہرتھااس لیے مذہب کےسچے، مسلم بادشاہوں نے بھی اس مذہبی شہراوراس کے باشندوں پرزیادہ توجہ دی اورانھیں آرام پہنچانے کی ہرممکن سعی کی یہی وجہ ہے کہ بنارس کی مساجد کےعلاوہ قدیم مندروں پربعض بادشاہوں کی بخشی ہوئی جائدادوں کےفرامین اب تک ان کے متولیوں کےپاس موجود ہیں۔ رام مندر اور دھرہراگھاٹ پر بخشی ہوئی جائدادوں کے فرامین اب تک موجود ہیں۔
علماے کرام اور اولیاےعظام نے بھی بنارس پرخصوصی توجہ صرف کی اوراطراف عالم سے اہل بنارس کی رشد وہدایت کےلیے یہاں تشریف لائے ہزاروں انسانوں کوضلالت وگمراہی کےعمیق گڑھوں سے نکال کررشدوہدایت کی عظیم بلندیوں پر پہنچادیا ان میں اکثراولیاےکرام جوہزار سال پہلے بنارس میں تشریف لائے تھے ابھی تک یہاں سے واپس نہیں گئے۔ اور اپنی قبروں سےفیوض وبرکات تقسیم فرمارہے ہیں۔
چند مشاہیر بزرگان دین
[۱]حضرت ملک افضل علوی علیہ الرحمہ سیدسالار مسعود غازی علیہ الرحمہ(متوفی ۴۲۴ھ) کے خادم خاص ہیں۔علوی پورہ آپ ہی کےنام سے موسوم ہے۔ سالار پورہ میں علوی شہیدکےنام سے آپ کامقبرہ مشہور ہے۔
[۲]حضرت فخرالدین شہید علوی علیہ الرحمہ حضرت ملک افضل علوی کی فوج کےایک عہدیدار تھے آپ کاروضہ مسجد سالار پورہ میں زیارت گاہِ خلائق ہے۔ ہرسال ۱۴؍جمادی الاولیٰ کوعرس ہوتاہے۔
[۳]حضرت ملک محمدباقر علیہ الرحمہ آپ کے نام سے سالار پورہ میں ایک محلہ باقر کنڈ(بکریاکنڈ) ہے وہیں آپ کاروضہ مبارک ہے۔ حضرت مسعود غازی علیہ الرحمہ آپ کی بڑی تعظیم کرتے تھے ۔ کہاجاتاہے کہ راجہ بنارس کاقلعہ آپ ہی کی دعاؤں سے فتح ہوا تھا۔
[۴]حضرت خواجہ نعیم احمد کابلی علیہ الرحمہ حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ(متوفی۶۳۳ھ) کےخلیفۂ خاص تھے۔ بنارس میں ۳۱؍سال رشدوہدایت کاکام انجام دے کر۵؍محرم ۵۹۷ھ کو ہمیشہ کےلیےبنارس کی گود میں سوگئے۔ محلہ قاضی پورہ متصل بڑی بازار میں آپ کامزار پر انوار ہے۔ ہرسال ۷؍محرم کوعرس ہوتاہے۔
[۵]حضرت مولانا شاہ سعید بنارسی علیہ الرحمہ حضرت سید مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی علیہ الرحمہ (متوفی ۸۰۸ھ) کے خلیفہ ہیں آپ کا مزار جلالی پورہ ریلوے لائن کےکنارے واقع ہے۔ہرسال ۱۱؍۱۲؍رجب کوعرس ہوتاہے۔
[۶]شیخ الاسلام حضرت مولاناخواجہ مبارک شاہ علیہ الرحمہ حضرت خواجہ محمدعیسیٰ تاج جون پوری قدس سرہ( متوفی ۸۷۵ھ) کےخلیفۂ خاص اورصاحبِ کرامت بزرگ تھے حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی آپ ہی کےسلسلے میں آتے ہیں۔ شان استغنا کے ساتھ فقر وفاقہ کی کامیاب زندگی گزاری۔۱۰؍شوال کووصال ہوا۔ محلہ بھدؤں متصل کاشی اسٹیشن ایک احاطہ کےاندر آپ کامزار مبارک ہے۔ ہرسال عرس ہوتاہے اورحضرت شاہ طیب بنارسی علیہ الرحمہ کےسجادہ نشیں اورخدام خصوصی طورپر شرکت کرتے بلکہ عرس کااہتمام بھی کرتے ہیں۔
[۷]حضرت مخدوم شاہ طیب فاروقی قدس سرہ یہ بڑے پایہ کے بزرگ ہیں۔ انھوں نے برنا اورگن گا کےسنگم پر پرانا قلعہ کےقریب کھنڈرات میں اپنا حجرۂ عبادت بنایاتھا اوراس جگہ کانام شریعت آباد رکھا تھااب بھی اس مقام سے کچھ فاصلےپر ایک گاؤں اسی نام سے موسوم ہے۔ آخرشوال۱۰۴۲ھ روز ِدوشنبہ محبوب حقیقی سے جاملے۔ منڈواڈیہ میں آپ کامزار مبارک ہے۔ عارف باللہ حضرت مولاناعبدالعلیم آسی غازی پوری علیہ الرحمہ (متوفی ۱۳۳۵ھ) اس آستانہ کےسجادہ نشین تھے۔ اوراب اس وقت جامع معقول ومنقول حضرت علامہ مفتی عبیدالرحمٰن صاحب قبلہ مصباحی رشیدی پورنوی اس آستانہ کےسجادہ نشین ہیں، جن کے اہتمام سے ہرسال ۷؍شوال کو منڈواڈیہ آستانہ شاہ طیب بنارسی علیہ الرحمہ پر بڑے پیمانے پرعرس ہوتاہے۔
[۸]حضرت قطب زماں مولانا شاہ سید محمدوارث، رسول نما بنارسی علیہ الرحمہ۔ آپ سچے عاشق رسول گزرے ہیں۔ سرکار دوجہاں ﷺ کی محبت میں خود رفتہ رہتے تھے۔ بڑی بڑی کرامتیں آپ سے ظہور میں آئیں آپ کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ بحالت بیداری نبی اکرم ﷺ کادیدار نہ صرف یہ کہ خود کرتے تھے، بلکہ جب چاہتے دوسروں کوبھی زیارت رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے مشرف فرمادیتے اسی وجہ سے آپ کالقب رسول نما ہوا۔
آپ کےبدن سے ہمیشہ مشک کی خوش بو نکلتی حتیٰ کہ جسے آپ ہاتھ لگادیتے وہ بھی مہک اٹھتا۔ ۱۱؍ربیع الآخر ۱۱۶۶ھ میں اس دار فانی کوخیر باد کہا۔ محلہ کوئلہ بازار، مولوی جی کاباڑا(متصل مچھودری پارک) میں مرقد انور مرجع خلائق ہے۔
[۹]حضرت مولاناشاہ رضا علی قطب بنارس علیہ الرحمہ ۱۶؍صفر ۱۲۴۶ھ بروز یک شنبہ آپ کی ولادت ہوئی۔ لکھنؤسے علوم وفنون کی تکمیل فرمائی۔ بڑے عابد وزاہد اورعلم دین میں بڑا عظیم مرتبہ رکھتے تھے دور دور سے استفتاکےلیے بارگاہ میں حاضری دیتے میلاد پاک کے جوازپر مظاہرالحق عربی تالیف فرمائی۔ آپ کے فتاوے کا ایک حصہ” فیوض الرضاء“ کے نام سے مطبوع ہے۔ بعض فتاویٰ فارسی زبان میں ہیں باقی اردو میں۔ آپ کےفتاؤں سے آپ کےمسلک پرروشنی پڑتی ہے۔ آپ کےتعلقات اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی قدس سرہ سے بھی تھے آپ نے اپنے بعض فتاویٰ کواعلیٰ حضرت کےپاس تصدیق کےلیے بھی بھیجا۔
۱۳۰۸ھ میں مشہور فتنہ انگیز کتاب تقویۃ الایمان کےرد میں ایک مبسوط فتویٰ بھی تحریر فرمایا جوعلاحدہ سے چھپ چکاہے۔ ۲۱؍شعبان ۱۳۱۲ھ بروز یک شنبہ عصرومغرب کے درمیان اس جہان فانی سے کوچ کیا۔ لاٹ کی مسجد سے متصل پورب جانب مزار پر انوار ہے اور ہرسال عرس منعقد ہوتاہے۔
[۱۰] مولاناشاہ عبدالسبحان مچھلی شہری قدس سرہ، ۱۱؍ذی الحجہ ۱۲۳۳ھ جمعہ کوولادت ہوئی۔ درس نظامیہ میں مہارت حاصل کی حضرت شاہ گلزار کشنوی علیہ الرحمہ سے بیعت وارادت حاصل تھی۔ مطالعہ کتب کا بڑا شوق تھا۔۲۷؍ربیع الآخر ۱۳۲۳ھ کووصال ہوا مزار پاک شکر تالاب کے قریب بلندی پر واقع ہے جسے اونچواں کہتے ہیں اورہرسال مذکورہ تاریخ میں عرس ہوتاہے۔
[۱۱]حضرت شاہ قطب علی بنارسی علیہ الرحمہ، آپ کا قدیم وطن اعظم گڑھ ہے عرصۂ دراز تک ریاضت ومجاہدہ میں مشغول رہے اس زمانہ میں صرف گھاس کھاکر گزارہ کرتے۔ جنگل کےشیرآپ کے تابع فرمان رہتے ۔
پر بھونارائن مہاراجہ بنارس نے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیاتو چار شرطوں پراپنے پاس آنے کی اجازت دی۔(۱)میں تعظیم نہیں کروں گا۔(۲) جس چٹائی پر میرے مریدین بیٹھتے ہیں اسی پر بیٹھنا ہوگا۔(۳) مجھے کچھ نہ دے۔ (۴) مجھ سے کچھ نہ مانگے۔ مہاراجہ نے سب شرطیں قبول کرکے ملاقات کافخر حاصل کیا۔ ۲۶؍رجب ۱۳۱۹ھ بروز دوشنبہ ۸؍بجےشب کوانتقال فرمایا۔ سنگ مرمر کاعالی شان قبہ جواجمیر شریف کاایک نمونہ ہے باقر کنڈ(بکریاکنڈ) کے کنارے کافی بلندی پر ہے۔
[۱۲]حضرت مولانا اسمٰعیل علیہ الرحمہ، قطب بنارس مولانا رضا علی علیہ الرحمہ کےشاگرد خاص اورباکرامت بزرگ تھے کئی علمی کتابیں بھی آپ نے تصنیف فرمائیں۔ ۱۸؍رمضان المبارک بروز پنجشنبہ ۱۲۹۴ھ استاذ محترم ہی کی زندگی میں انتقال فرمایا۔ بٹاؤشہید (کچی باغ) میں مزار مبارک ہے۔ مشہور عالم مولانا خلیل الرحمٰن صاحب آپ ہی کے صاحب زادے تھے۔ آپ کےعہد ہی سے مسجد لاٹ، سریاں میں عیدین کی امامت آپ ہی کےخاندان سے ہوتی ہے۔ آپ کا خاندان آج بھی علم وفضل کا گہوارہ ہے اورشہر میں اعتماد کی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ آپ کے یہاں حضرت حجۃ الاسلام مولاناحامد رضا خاں اورمشہور سنی بزرگ حضرت شاہ یار علی صاحب علیہ الرحمہ براؤں شریف بھی تشریف لاچکے ہیں۔
[۱۳]استاذ الحفاظ حافظ عبدالمجید عرف حافظ جمن علیہ الرحمہ، ایک عرب شیخ سے(جنھوں نے قطبن شہید میں ایک مدرسہ قائم کیاتھا) حفظ قرآن کی تکمیل کی اورپوری زندگی حفظ قرآن کےدرس میں گزار دی زہدوتقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔۱۵؍رجب ۱۳۲۷ھ کووصال ہوا۔اور لاٹ کی مسجد میں قطب بنارس کے مزار کے قریب میں مدفون ہیں۔ ہرسال عرس ہوتاہے اورکثیر حفاظ شریک ہوتے ہیں۔ ایک خاندانی روایت سے معلوم ہوا ہے کہ آپ مشہور مفسر قرآن حضرت صدرالافاضل مولاناشاہ حافظ سید محمدنعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ مصنف خزائن العرفان فی تفسیر القرآن کےحفظ میں استاذ تھے۔ اورحضرت صدرالافاضل نے جب تفسیر لکھی تواس کانسخہ خود لاکر اپنے استاذ زادگان کو ہدیہ کیا وہ نسخہ خاندان میں اب بھی موجود ہے اور نہایت خستہ ہے۔
[۱۴]حضرت مولاناشاہ عبدالحمید فریدی فاروقی پانی پتی علیہ الرحمہ کی ولادت پانی پت میں ہوئی۔ وہیں تعلیم بھی حاصل کی۔ وہاں سے پھر ہجرت کرکے بنارس تشریف لائے پہلے ہی قطب بنارس مولانا رضا علی علیہ الرحمہ نےآپ کی آمد کی پیشین گوئی کردی تھی۔ ۲۰؍شوال ۱۳۳۹ھ کومحبوب حقیقی سے جاملے۔ وفات کےبعد غسل دیتے وقت کثیر افراد نے انگلیوں پروظیفہ پڑھتے دیکھا۔ مزار پرُانوار شکر تالاب میں ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی(۲) قدس سرہ نےقطعۂ تاریخ وفات تحریر فرمایا:

لِلہِ لَبی عَبْدُالْـحَمِیْدِ           قَالَ الرِّضَا فِی اِرْخِ السَّعِیْد
عَبْدُالْـحَمِیْدُ عِنْدَالْـحَمِیْد         فِیْ نَھْرِ قُرْبٍ رَاجِی الْمَزِیْد 

 

ترجمہ: عبدالحمید بارگاہ خدا میں پہنچے رضانے اس مرد سعید کی تاریخ میں کہا: حمید کابندہ حمید کے یہاں قرب کےدربار میں مزید کاامیدوار ہواہے۔
تذکرۃ الحمید میں آپ کے حالات درج ہیںآپ کے صاحب زادےمولانا عبدالرشید صاحب اورپوتے مولاناعبدالشہید صاحب ،مولانا عبدالوحید شاہ صاحب کےمزارات بھی اسی جگہ ہیں بلکہ مولانا عبدالوحید شاہ صاحب کی قبر توخاص اسی قبے میں ہے جس میں مولانا کامزار ہے۔
[۱۵]حضرت مولاناشاہ محمدنعمت اللہ قادری علیہ الرحمہ آپ نے مختلف اساتذہ سےدرس نظامیہ کی تکمیل کےبعد دو سال مولانا ہدایت اللہ خاں رام پوری علیہ الرحمہ(متوفی۱۳۲۶ھ) سےدرس حاصل کیا، غوث الوقت چراغ ربانی مولانامحمدکامل نعمانی علیہ الرحمہ(۳) کی روحانی بشارت پران کے خلیفۂ خاص حضرت صوفی محمدجان رحمۃ اللہ علیہ نے ولیدپور درگاہ شریف میں برسر عام دستار خلافت اورتبرکات ولایت سے سرفراز فرمایا،خلق کثیرکواپنے فیوض وبرکات سے مالامال کرکے ۴؍رجب ۱۳۶۱ھ بروز یک شنبہ بوقت اشراق داعیٔ اجل کولبیک کہا محلہ اورنگ آباد میں مزار شریف ہے۔
بنارس کے چند تاریخی مقامات
ڈھائی کنگرہ کی مسجد:
۴۰۵ھ میں تعمیر ہوئی شہر کی بڑی ممتازسنگین عمارت ہے۔ تاریخی نام” مسجددونیم کنگرہ“ ہے کاشی اسٹیشن کےپورب تقریباً ایک فرلانگ پرمحلہ ایشور میں واقع ہے۔ یہ پوری مسجد پتھروں سے بنی ہوئی ہے لہذا بہت عالی شان ہے۔
مسجد گنج شہیداں:
یہ انگریزوں کےدور حکومت میں کاشی اسٹیشن کی تعمیر ہوتے وقت کھنڈرات کی تہ سے برآمد ہوئی ہے اس کی قدامت سے پتا چلتا ہے کہ ہزار سال سے کم کی نہیں ہوگی لیکن ابھی تک اس کاسراغ نہ لگ سکا کہ اتنی عالی شان مسجد کب اورکیسے دفن ہوگئی تھی۔ پوری مسجد صرف پتھروں سے بنی ہے اورچھت نیچی ہے۔
جامع مسجد گیان واپی:
مشہور یہ ہے کہ اورنگ زیب عالم گیرعلیہ الرحمہ (متوفی ۱۰۱۷ھ) نےاس کی تعمیر کرائی اورمسجد میں منبر کےاوپر جوکتبہ سید میراث علی متولی مسجد نے ۱۲۰۷ھ (انگریزی حکومت کےزمانہ میں) نصب کرایا ہے اس میں بھی اسی شہرت کی بنیاد پر عالم گیرعلیہ الرحمہ کی طرف نسبت کردی ہے لیکن تحقیق کے بعد پتا چلتاہے کہ عالم گیر علیہ الرحمہ کے دادا ہمایوں( م ۹۶۳ھ) سے بھی پہلے یہ مسجد سلطان ابراہیم شاہ شرقی (م ۸۴۴ھ) کےزمانہ میں بنی ہے۔ شاہ جہاں (م ۱۰۶۷ھ) نے اس مسجد میں ایک مدرسہ قائم کیاتھا اوراس کاتاریخی نام ”ایوان شریعت“ رکھاتھا یہ نام ایک مثلث پتھر پرکندہ کیا ہوا، اب تک اس مسجد کے دفترانتطامیہ میں موجود ہے۔ حضرت عالم گیر علیہ الرحمہ کوبدنام کرنے کےلیے متعصبین نےاس مسجد کی تعمیر کےسلسلے میں اس قدر غلط پروپیگنڈا کیاکہ لوگ جھوٹ کوسچ سمجھ گئے اور اصل حقیقت پرلوگوں کو شبہہ ہونے لگا ۔ جب اسلام مسلمانوں کوصرف حلال وپاکیزہ کمائی کے پیسے مسجد میں لگانے کی اجازت دیتاہے تواس کی شریعت کاپابند ایک متقی بادشاہ غیروں کی رقم سے بنی ہوئی مندر کے کسی پتھر یاجائداد کوظلماً کسی مسجد کی تعمیر میںکیسے لگاسکتاہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آج کے گئے گزرے زمانے میں بھی اگر کوئی جبراً کسی مندر کویاکسی بھی زمین پر ناجائز قبضہ کرکےمسجد بنائے، توکوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی اس میں نماز پڑھنا پسند نہ کرےگا بلکہ اس کے خلاف ہنگامے ہی ہوں گے۔ تو، کل اگرایسا کسی نے کیاہو تا، توضرور اس کے خلاف ہنگامہ ہوتا، اور اس کاکچھ ذکر تاریخ میں ضرور ملتا۔ لہٰذا محض گمان کوتاریخ کادرجہ نہیں دیاجاسکتا۔
مسجد دھرہرہ:
شہنشاہ عالم گیرعلیہ الرحمہ کےدور حکومت میں اس مسجد کی تعمیر ہوئی اس میں دوبلند مینارے تھے جس پرچڑھ جانے سے پورے بنارس کامنظر دکھائی دیتا تھا، مگرافسوس کہ ایک مینارہ ناگہانی طورپر منہدم ہوگیا اوردوسرا بھی محکمۂ آثار قدیمہ نے ٘مخدوش ہونے کےسبب اتاردیا یہ مسجد دریائےگنگا کےکنارے ہے۔
مسجد عالم گیری:
(فوارہ) ۱۰۷۷ھ شہنشاہ عالم گیرعلیہ الرحمہ کے زمانہ میں اس کی تعمیر ہوئی فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ  محراب پرکندہ ہے، اوراس سے سن تعمیر نکلتا ہے۔ محلہ بشیشور گنج سبزی منڈی کے پچھم واقع ہے، افسوس کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد ہے۔
عیدگاہ لاٹ بھیرو:
یہ جلالی پورہ سے متصل ایک قدیم تاریخی عیدگاہ ہے، اس کے چاروں طرف شہرخموشاں آباد ہے۔عید گاہ کےبیچ میں پتھر کاایک ستون قائم تھا، ہندواسے متبرک سمجھ کرپوجاکرنے لگے وہی ستون لاٹ بھیرو کےنام سے مشہور ہے موجودہ عیدگاہ کی تعمیر ۱۲۵۹ھ میں ہوئی ہے۔ اس کے پچھم متصل ہی ایک بزرگ کامزار ہے جنھیں مخدوم صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔ عیدگاہ کے پورب پتھر کی ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے اوراس کے متصل قطب بنارس مولانا رضا علی صاحب علیہ الرحمہ کامزار ہے اوراس کےدکھن تالاب ہے۔
جلالی پورہ:
وارانسی سیٹی(علوی پورہ) ریلوے اسٹیشن اوربڑی ریلوے لائن کے درمیان آباد ہے۔ شہنشاہ غیاث الدین تغلق(م ۷۲۵ھ) نے اپنے زمانے میں جلال الدین احمد کو بنارس کاحاکم مقرر کیاتھا انھیں کے نام پرمحلہ جلالی پورہ مشہورہے۔
اسی محلہ میں بنارس کاقومی وملی ادارہ، مدرسہ مدینۃ العلوم اپنی شان وشوکت کےساتھ قائم ہے۔
عربی مدارس:
بنارس میں تمام ہی مکاتب فکر کے عربی مدارس بڑی تعداد میں موجود ہیں،خاص اہل سنت وجماعت کے مشہور مدارس کےنام یہ ہیں :
جامعہ حمیدیہ رضویہ ، مدن پورہ، جامعہ فاروقیہ مدن پورہ، جامعہ حمیدیہ رشیدیہ شکرتالاب، جامعہ حنفیہ غوثیہ بجرڈیہہ، دارالعلوم امام احمدرضا لوہتہ، مدرسہ مدینۃ العلوم، جلالی پورہ۔وغیرہ

حواشی:
[(۱) مسجد ڈھائی کنگرہ جس کااصل تاریخی نام ہے مسجد ”دونیم کنگرہ“سے اس کاسال تعمیر ۴۰۵ھ نکلتاہے جس سے پتا چلتاہے کہ مسلمان ۴۰۵ھ سے قبل بنارس میں آچکے تھے۔
(۲)امام احمدرضا بریلوی قدس سرہ نے۱۰؍شوال ۱۲۷۲ھ کوخاک دان گیتی پرقدم رکھا چودہ سال سے کم عمر میں تمام علوم عقلیہ ونقلیہ کے عالم ہوکر مسند افتا پررونق افروز ہوئے۔پوری دنیا میں آپ کادارالافتا منفرد حیثیت کاحامل رہا۔ فی سبیل اللہ پوری عمر فتویٰ نویسی ،تصنیف وتالیف، دین حق کی حمایت اورابطال باطل میں وقف فرمادی بے پناہ عشق رسول کریم علیہ السلام آپ کےدل میں موجزن تھا، جواکثر آپ کی تحریروں اورنعتوں کی شکل میں بطور شاہد ہے۔ تقریباً ہزار تصنیفات امت مرحومہ کو عنایت فرماکر ۲۵؍صفر۱۳۴۰ھ بروز جمعہ اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والتسلیم کی زیارت کے شوق میں فرحاں وخنداں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے جہان فانی سے تشریف لے گئے۔ بریلی شریف میں ہرسال مذکورہ تاریخ میں عرس مبارک منعقد ہوتاہے۔
(۳) حضرت مولانامحمدکامل نعمانی علیہ الرحمہ کی جاےپیدائش ولیدپور(اعظم گڑھ) ہے بچپن ہی میں یتیم ہوگئے مولاناعبدالحلیم فرنگی محلی (م ۱۲۸۵ھ) محشی نورالانوار ومصنف نورالایمان وکتب کثیرہ سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ بہت دنوں تک جج کے عہدہ پر فائز رہے راہ طریقت میں عظیم مجاہدہ کیا۔ قیام جون پور کے زمانے میں شاہی مسجد کی تعمیر کراتے وقت جب ایک مزدور چھت سے گر کر مرگیا توآپ ہی کی دعاسے زندہ ہوا۔ یہ کرامت دیکھ کر بہت سے مسلمان آپ کے دست حق پرست پر تائب ہوگئے اوربہت سےغیر مسلموں نے اسلام قبول کرلیا۔ آخر کار بے شمار خلفا ومریدین کومخلوق کی رہنمائی کےلیے جانشین چھوڑ کر ۷؍جمادی الآخرہ ۱۳۲۲ھ کواس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ولیدپور میں ہرسال عرس ہوتاہے۔ مزید معلومات کے لیے راقم الحروف کی کتاب ”حالات کامل“ کامطالعہ کریں جوابھی حال میں اسلامی اکیڈمی بنارس کےزیراہتمام مکتبہ غوثیہ بجر ڈیہہ سے عمدہ کتابت وطباعت کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔

مآخذ
۱۔مرقع بنارس، چودھری (غلام) نبی احمد سندیلوی، مطبوعہ ۱۹۳۹سلطان برقی پریس نظیرآباد، لکھنو
۲۔ آثاربنارس، مطبوعہ ۱۹۶۸ ، از مفتی عبد السلام نعمانی مجددی
۳۔مشائخ بنارس، از مفتی عبد السلام نعمانی مجددی
۴۔تذکرۃ الحمید (علیہ الرحمہ)
۵۔تاریخ بنارس، حکیم سید مظہر حسن
۶۔ صنم کدۂ بنارس
۷۔ تاریخ فرشتہ، از محمد قاسم فرشتہ (متوفی۱۰۳۳ھ ، ۱۶۲۰)
۸۔ مظاہر الحق عربی، قطب بنارس، مولانا شاہ رضا علی علیہ الرحمہ
۹۔ فیوض الرضا، از قطب بنارس، مولانا شاہ رضا علی علیہ الرحمہ
۱۰۔ مدینۃ العلوم کا ماضی اور حال، مطبوعہ ۱۹۸۶ شعبۂ اشاعت، مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم بنارس
۱۱۔سوانح اعلی حضرت ، مولانا بدرالدین احمد قادری علیہ الرحمہ
۱۲۔حالات کامل، از احمد القادری مصباحی، مطبوعہ مکتبہ غوثیہ بجر ڈیہہ، بنارس
۱۳۔ذاتی مشاہدات
۱۴۔ انفرادی معلومات
۱۵۔ کتبات ، وغیرہ

بقلم احمد القادری مصباحی غفرلہ
(پرنسپل، مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم ، جلالی پورہ ، بنارس)
یکم جمادی الاولی ۱۴۰۶ ھ دوشنبہ
مطابق ۱۳ جنوری ۱۹۸۶

مزید
مینو