بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
از مولانا سیدمحمدفاروق رضوی
استاذ و مفتی- جامعہ حنفیہ غوثیہ ، بجرڈیہہ،بنارس
ناظم اعلی(جنرل سکریٹری) اسلامی اکیڈمی ، بنارس

مختصرحالات بابا قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ

ولادت: ۹۵۶ھ – وفات ۱۰۱۶ھ

حضرت بابا قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ بہت مشہور بزرگ ہیں، بنارس کےمسلمان آپ کے بہت معتقد ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ” حالات بنارس “میں آپ کا ذکر جمیل کردیاجائےتاکہ قارئین کرام کے لیے حصولِ فیض کاذریعہ ہو۔

ولادت:
حضرت شیخ قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت شیخ قدم قندھاری رحمۃ اللہ علیہ پیشاوری کے فرزند ارجمند ہیں ۔ وطن شریف آپ کاپیشاور تھا، آپ کی ولادت باسعادت ۹۵۶ھ موسم بہار میں، نماز اشراق کےوقت ہوئی، پیدائش سے پہلے بہت سے اولیاےکرام ومشائخ زمانہ نے آپ کےپیداہونے کی خبردی اورمبارک بادی سے نوازا، آپ کی پرورش آپ کی والدہ محترمہ بی بی نیک بخت اور دادی شہیدی نےکی اورشیخ محمد کر زئی نے قرآن عظیم اوردیگر مذہبی کتابیں پڑھائیں۔

شرف بیعت اورابتدائی حالات سفر:
آپ کے حالات میں لکھا ہے کہ جس مقام پرآپ قیام فرماتے اس مقام میں ذکرالٰہی کی برکت سے یہ کیفیت رونماہوتی کہ کسی قوم کا کوئی شخص بھی اس مقام سے گزرتا توبے اختیار ہوکر نعرۂ الااللہ کی ضرب لگا تا۔ ۹۸۳ھ میں مقام دوآبہ(اپنی سسرال) سے رخصت ہوکر حضرت نے غیبی الہام کے مطابق ۵؍فقیروںکوہمراہ لے کرپیشاور کاقصد فرمایا، پھر وہاں سے جلال آباد، کابل ، کوہ ہندوکش، خنجان، غورنامی جگہوں سے ہوتے ہوئے مولاعلی کرم اللہ وجہہ کےقبرانور کی زیارت فرماکرشہر بلخ تشریف لے آئے، پھر وہاں سے سرغان اور دوسرے مقامات کی سیاحت کرتے ہوئے بربو میں حضرت خواجہ عبداللہ انصاری کی زیارت فرمائی۔الغرض آپ مختلف مقامات اورشہروں سے گزرتے ہوئے مشہد مقدس پہنچے وہاں سے خراسان، غزنی، نیشاپور، گیلان شریف اورتبریز ہوکرامیدیہ میں تشریف فرماہوئے۔ اس طویل سفر میں آپ کے چاروں درویش رفقا انتقال کرگئے پھر بھی حضرت باباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنامبارک سفر جاری رکھا۔ جنجیرہ اوردوسرے مقامات سے گزرتے ہوئے شہر حلب اوروہاں سے شہر حمہ حضرت شیخ عفیف الدین سید حسین(سجادہ نشین حضرت قطب الکونین غوث الثقلین سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوکرشرف بیعت سے مشرف ہوئے۔

شہنشاہ جہانگیر اور بابا قاسم سلیمانی
اکبر کی وفات کےبعد جب شہنشاہ جہاں گیر تخت نشین ہوئے اورشہزادہ خسرونے لاہور آکر لاہور کو اپنے قبضے میں کرلیا توشہنشاہ جہاں گیر نے حملہ کرکے خسرو کو شکست دے کر قید کردیا ،کچھ لوگوں نے جہاں گیر کوخبر دی کہ بعض درویشوں نےبھی خسروکےلیے فتح وکامرانی کی دعائیں کی تھیں، جن میں نمایاں طورپرحضرت بابا قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کاذکر کیاگیا اوربادشاہ کوبتلایا گیاکہ حضور باباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کےبہت کافی مرید ہیں اورآپ کا سلسلہ ارادت بہت وسیع ہے۔جس سے حکومت کےلیے کبھی بھی خطرہ ہوسکتاہے۔ بادشاہ نے بتاریخ ۲۸؍ربیع الآخر ۱۰۱۵ھ کوباباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کوبلایا اوراس سلسلے میں گفتگوکی، حضرت بابا قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: خلق خدا کی رشدوہدایت کےلیے لوگوں کومرید کرنا کوئی گناہ نہیں، کچھ دیر بعد آپ کورخصت کردیا اورشہزادۂ پرویز کےیہاں قیام کرنے کی گزارش کی۔ ایک روز کاواقعہ ہے کہ بادشاہ نے ایک طشت میں زنجیر اورشمشیر(تلوار) رکھ کر حضرت کی خدمت میں بھیجوایا، آپ نے فرمایا: فقیروں کوشمشیر کی ضرورت نہیں اور زنجیر قبول فرمائی۔ گویایہ اشارہ تھاکہ بادشاہ کی جانب سے کہ آپ قیدہونا قبول کریں یا جنگ کےلیے تیار ہوجائیں۔ حضرت باباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نےیہ پسند نہ فرمایا کہ دو مسلمان آپس میں لڑیں اورمخلوق خدا کا ناحق خون بہے، اسی لیے آپ نے زنجیر پسند فرمائی۔۸؍جمادی الاولیٰ ۱۰۱۵ھ کوبادشاہ نے خلیفہ باقی خاں کوچنار کاگورنر بناکر روانہ کیا اورحضرت کوبھی چنار کے قلعے میں رکھے جانے کا حکم دیا۔ حضرت باباقاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ باقی خاں کے ساتھ چنار کی جانب روانہ ہوئے اور ۲۵؍رجب ۱۰۱۵ھ کوداخل قلعہ ہوکر خان اعظم کے محل میں تشریف فرماہوئے اورنظر بند کردیے گئے۔

کراماتِ حضرت باباقاسم سلیمانی
اللہ تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ بندے جن کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ خداکے ہوجاتے ہیں اورخدا ان کاہوجاتاہے ان کاعالم کچھ اورہوتاہے، یہی وجہ تھی کہ باوجود قیدوبند ہونے اور ہرطرح کی نگرانی کےجب آپ کی مرضی ہوتی محل کے باہر تشریف لاتے، پہاڑوں کی سیر کرتے اورپوری آزادی کےساتھ نمازیں ادافرماتے اورجب چاہتے محل سرا میں پہونچ کراپنی سابقہ حالت میں موجود نظرآتے۔جب محافظین نے آپ کی یہ کھلی ہوئی کرامتیں دیکھیں تودل میں خوف پیدا ہواکہ کہیں آپ باہرتشریف لے گئے اور واپس تشریف نہ لائے توہم سب عتاب کیے جائیں گے، انھوں نے فوراً یہ کیفیت لکھ کربادشاہ کے حضور پیش کی ، جواب آیاکہ:
[۱]میری طرف سے حضرت کو ہرطرح کی آزادی ہے جہاں چاہیں بلا روک ٹوک آجاسکتے ہیں۔
[۲]آپ کی مرضی کےمطابق جہاں آپ چاہیں تاحد نظر زمین معاف ہے۔
[۳] میں عن قریب زیارت سے مشرف ہونے کی تمنا رکھتاہوں ۔
آپ نے جواب میں بادشاہ کوفرمایا:
[۱]مجھے تیری بخشی ہوئی آزادی کی ضرورت نہیں ،حق تعالیٰ عن قریب میرے طائرروح کوقفص عنصری سے آزاد کردےگا۔
[۲] بھلا تیرا یہ مقدور کہاں کہ تومجھے تاحد نظر زمین معافی میں دے، جب کہ میری نگاہیں عرش الٰہی تک پہنچاکرتی ہیں۔
[۳]میں کبھی تیری ملاقات پسند نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ خاندان تیموریہ کےکسی فرد کواب تک درگاہ معلیٰ کی زیارت نصیب نہ ہوسکی۔
اس کے بعد چنار کےقلعے دار باقی خان نے عرض کی حضور کوئی مکان اپنی ابدی آرام گاہ کےلیے تجویز فرمالیں، چناں چہ ایک مرتبہ قلعے کی مغربی سمت تیر وکمان لے کر کھڑے ہوئے،تیر چھوڑا توکچھ دور پہنچ کرگرنے لگا، آپ نےفرمایا: ٹک اور ،یعنی کچھ اور دور پھر وہ تیراپنی جگہ سے اٹھا، آگے بڑھ کر ایک مقام پرگرگیا، آپ نے اسی مقام کواپنی آرام گاہ قرار دی، آپ کے لفظ”ٹک اور“ فرمانے کی وجہ سے اس جگہ کانام محلہ ”ٹکور“ ہواجوآج تک مشہور ہے۔

اولیا راہست قدرت از الٰہ
تیر جستہ باز گردانند زراہ

۱۹؍جمادی الاولیٰ ۱۰۱۶ھ کوآپ نے اس دارفنا سے کوچ فرمایا، نوراللہ مرقدہ(۱)

تاج داری کے لیے ان کی گدائی کیجیے
جھولیاں بھرجائیں توفرماں روائی کیجیے

منقبت سلیمانی

(۵) باباقاسم سلیمانی علیہ الرحمہ کاتذکرہ مرتبہ مولاناذکی اللہ اسدالقادری اورمذکورہ منقبت حضرت مولاناحافظ معین الدین صاحب بنارسی کےذریعے دست یاب ہوئیں، اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیردے۔۱۲ناشر]
سیدمحمدفاروق رضوی
خادم تدریس وافتا- جامعہ حنفیہ بجرڈیہ،بنارس
متولی مدرسہ حسامیہ رضویہ، رسول پور قاضی،کوشامبی (الہ آباد)

مزید
مینو